قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں واقعہ غدیر کا جائزہ لیتے ہوئے حضرت امیر المومنین کو امام منصوب کئے جانے اور سیاست و حکومت پر اسلام کی خاص توجہ کو اس واقعے کے دو اساسی ترین پہلوؤں سے تعبیر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے عید غدیر کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے غدیر خم کے انتہائی اہم اور پرمغز واقعے کو تاریخ اسلام کے مسلمہ حقائق کا جز قرار دیا اور فرمایا: کسی بھی اسلامی فرقے کے ماننے والوں نے واقعہ غدیر کے رونما ہونے اور پیغمبر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس جملے من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ کے بارے میں کسی طرح کا شک و شبہ ظاہر نہیں کیا ہے۔ اور اس تاریخ ساز جملے کے بارے میں فکر و نظر کے میدان کے نو واردوں کے ذہن میں جو سوالات پیدا ہو رہے ہیں، وہ وہی ہزار سال پرانی باتیں ہیں جن کے جواب بزرگ علمائے کرام کی جانب سے دئے جا چکے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے عراق، شام اور بعض ديگر ملکوں ميں تکفيري تحريک کے آغاز کو مسلمانوں کے درميان اختلاف پيدا کرنے کي سامراجي طاقتوں کي سازشوں کا نتيجہ قرار ديا اور فرمايا کہ انہوں نے القاعدہ اور داعش کو مسلمانوں کے درميان تفرقہ ڈالنے اور اسلامي جمہوريہ ايران کا مقابلہ کرنے کے لئے تشکيل ديا ليکن اب يہ دہشت گرد خود انہيں کے گلے پڑ گئے ہيں-
آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے علاقے کے حالات کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ علاقے ميں رونما ہونے والے واقعات پر توجہ دي جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امريکا اور اس کے اتحادي اپني ان کوششوں ميں، جس کو انہوں نے غلط طور پر داعش کے مقابلے کا نام ديا ہے، اس فتنے کو ختم کرنے کے بجائے مسلمانوں کے درميان اختلاف و نفاق پيدا کرنے کے در پے ہيں-
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

عید غدیر کی مبارک باد پیش کرتا ہوں تمام حاضرین محترم کی خدمت میں، جملہ خواہران و برادران گرامی، باعظمت ملت ایران، دنیا بھر کے اہل تشیع بلکہ ان تمام افراد کو جو اسلام کے معرفت افزا حقائق اور اس باشرف دین کے معارف سے آشنائی پاکر محظوظ ہوتے ہیں اور لذت محسوس کرتے ہیں۔ تمام حاضرین محترم کو خوش آمدید کہتا ہوں، خاص طور پر ان بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں جو دور دراز کے علاقوں سے تشریف لائے ہیں اور اپنی آمد سے اس حسینیہ کی رونق بڑھائی ہے۔ غدیر کے تعلق سے چند باتیں عرض کروں گا اور کچھ نکات ان فرائض کے سلسلے میں بیان کروں گا جو غدیر کے موضوع، غدیر کے اس مسئلے اور غدیر سے وابستہ معارف کے علم کی بنیاد پر ہمارے اوپر عائد ہوتے ہیں اور جن پر توجہ دینا ہمارے لئے لازمی ہے۔
تاریخ اسلام میں غدیر کا مسئلہ حد درجہ اہمیت کا حامل مسئلہ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس فیصلہ کن اور حیرت انگیز واقعے کے رونما ہونے اور اس ارشاد نبوی کو: «مَن کُنتُ مَولاه فَهذا عَلىٌّ مَولاه»، (۱) صرف شیعہ راویوں نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اس کا شمار مسلمہ حقائق میں ہے۔ جن لوگوں نے بھی کوئي اشکال پیش کیا ہے، کوئی اختلاف رائے ظاہر کیا ہے، انہوں نے اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ظاہر کیا کہ یہ جملہ پیغمبر نے ارشاد فرمایا تھا یا نہیں، بلکہ ان لوگوں نے اس جملے کی تاویل کرنے اور اس کی الگ توجیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ خود اس واقعے کا رونما ہونا ایک مسلمہ تاریخی اور اسلامی حقیقت ہے۔ فکر و معرفت کے میدان کے نوواردوں کے اذہان میں اس جملے کے معنی کے تعلق سے جو سوالات اور اشکالات ہیں، وہ سب وہی باتیں ہیں جو ایک ہزار سال قبل کہی گئیں اور بزرگ علمائے کرام نے ان کے جوابات بھی دے دئے اور خود اس واقعے کے رونما ہونے کے بارے میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس جملے کے معنی کے بارے میں شک و تردد کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ رسول اکرم نے لوگوں سے سوال کیا کہ: «اَلَستُ اَولى‌ بِکُم مِن اَنفُسِکُم» (۲)، یہ در حقیقت قرآن کی اس آیہ کریمہ کی جانب اشارہ ہے جس میں ارشاد رب العزت ہے: «اَلنَّبِىُّ اَولى‌ بِالمُؤمِنینَ مِن اَنفُسِهِم» (۳)، اس کے بعد یہ جملہ ارشاد فرمایا: «مَن کُنتُ مَولاه فَهذا علىٌّ مَولاه»۔ تو اس واقعے کے سلسلے میں کسی بھی شک و تردید کی گنجائش نہیں ہے۔ اس پرمغز، تاریخ ساز اور انتہائي باعظمت جملے کے معنی و مفہوم کے بارے میں یہ بیان کیا جانا چاہئے کہ امیر المومنین علیہ السلام کو خلافت و امامت کے عہدے پر منصوب کئے جانے اور وصی پیغمبر مقرر کئے جانے کے علاوہ کہ جو اس جملے کا مشہور اور رائج مفہوم ہے، ایک اور مفہوم بھی اس جملے میں مضمر ہے، جس کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہئے، وہ ہے امت کے حکومتی امور اور سیاسی مسائل پر اسلام کی توجہ اور اسلام کے نقطہ نگاہ سے اس مسئلے کی اہمیت و کلیدی حیثیت۔ جن لوگوں نے یہ کوشش کی کہ اسلام کو سماجی مسائل سے اور سیاسی امور سے لا تعلق بناکر رکھیں اور اسے شخصی مسائل اور لوگوں کی نجی زندگی کے امور تک محدود کر دیں، یعنی اسلام کے سلسلے میں سیکولر نظریہ اپنائیں جس کا پروپیگنڈا دشمنوں نے کیا اور دشمنوں کے آلہ کاروں نے برسوں مسلمانوں کے درمیان جس سوچ کو عام کرنے کی کوشش کی، غدیر کا یہ واقعہ ایسے لوگوں کا جواب ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حساس موقعے پر، اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں، اللہ تعالی کے حکم سے ایک اساسی اور فیصلہ کن مسئلے کو اٹھایا۔ یہ مسئلہ تھا پیغمبر اکرم کا زمانہ گزر جانے کے بعد والے دور کے لئے حاکم اور امیر المومنین کا تعین۔ یہ تعین صرف روحانی و معنوی پہلوؤں تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ روحانی و معنوی پہلوؤں کے لئے کسی تقرری اور امام منصوب کئے جانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ منصوب یا معزول کرنے کا تصور حکومت، ملک کا نظم و نسق چلانے، سیاست، اسلامی معاشرے کے انتظامی امور سنبھالنے جیسے میدانوں میں ہی قابل تصور ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عوام الناس کو اس کی سفارش کی۔ غدیر کے واقعے کا یہ انتہائي اہم پہلو اور ایسے تمام لوگوں کا دنداں شکن جواب ہے جو یہ گمان کرتے ہیں اور اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ اسلام کو سیاسی امور سے، حکومتی مسائل سے اور اس جیسے دیگر معاملات سے الگ رکھنا چاہئے۔ مختصر یہ کہ یہ دو حقیقتیں، یعنی امیر المومنین علیہ السلام کو پیغمبر کے بعد کے دور کے لئے امام منصوب کیا جانا اور حکومت، سیاست، قیادت اور پیغمبر کے بعد امت کی رہنمائی اور انتظامی امور پر توجہ، واقعہ غدیر کی انتہائی اہم اور حساس حقیقتیں ہیں، یہ ان اہم معارف کا جز ہیں جو واقعہ غدیر میں مضمر ہیں، یہ تمام مسلمانوں کے لئے اور مسلمانوں کے زمانہ حال و مستقبل کے لئے بڑا عظیم سبق بھی ہے۔
آج ہمیں جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ غدیر کا مسئلہ عقیدے اور دینی نظرئے سے وابستہ مسئلہ ہے۔ مکتب اہل بیت اطہار اور مکتب امامت کے پیروکار اور شیعہ غدیر کے مسئلے سے گہرائی کے ساتھ وابستہ ہیں، یہ واقعہ شیعہ نظرئے اور مکتب فکر کی بنیاد و اساس ہے۔ اس میں کسی کو کوئی کلام نہیں ہے۔ جن کو کوئی شبہ ہے یا کوئی بحث کرنی ہے وہ علمی حلقوں میں، ماہرین کی نشستوں میں، بیٹھ کر اس بارے میں بحث و مباحثہ کر سکتے ہیں، شیعہ موقف بہت مستحکم، شیعوں کے دلائل پختہ دلائل اور شک و تردد سے بالاتر ہیں لیکن اس کا اثر مسلمانوں کی عمومی زندگی پر، مسلمانوں کے ہم قدم ہوکر ایک ساتھ آگے بڑھنے کے عمل پر، ان کے درمیان باہمی اخوت کے جذبے پر نہیں پڑنا چاہئے۔ شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان اختلافات یا اسلام کے ان دونوں بنیادی اور اساسی فرقوں کے اندر پیدا ہونے والے گوناگوں مسلکوں کے درمیان اختلاف کا مسئلہ اسلام دشمنوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے، صرف شیعوں کے دشمنوں کی دلچسپی کی بات نہیں ہے۔ برسہا برس سے یہ کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کے بیج بوئے جائیں، کیونکہ مسلمانوں کے بیچ اختلافات بھڑکیں تو اس سے مسلمانوں کی ہمت و شجاعت، مسلمانوں کی توانائی و طاقت اور مسلمانوں کے احساسات و جذبات انہیں اندرونی اور داخلی تنازعات کی نذر ہو جائيں گے، بیرونی مسائل پر اور بڑے دشمنوں پر توجہ دینے کا انہیں موقع ہی نہیں ملے گا۔ برسوں سے اور اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے بعد کے دور میں استعمار کی یہ اہم اسٹریٹیجی رہی ہے۔ کیونکہ سامراجی طاقتوں نے عالم اسلام میں اسلامی جمہوریہ کی فکر و نظر کے بڑھتے ہوئے دائرے کو دیکھا تو تفرقہ انگیزی پر اور زیادہ توجہ دی، زیادہ لگن کے ساتھ یہ کام کیا، سرمایہ کاری کی، تاکہ عالم اسلام اسلامی جمہوریہ سے خود کو دور کر لے۔
اسلامی جمہوری نظام، ہمارا عظیم انقلاب، ہمارے باعظمت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ)، عالم اسلام کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرانے میں کامیاب ہوئے، دلوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوئے، ان جذبات و اقدامات کو صحیح رخ اور سمت میں موڑنے میں کامیاب ہوئے۔ اس چیز نے دشمن کو ہرا‎ساں کر دیا، استکبار کو، صیہونزم کو بلکہ واضح الفاظ میں یوں کہا جائے کہ امریکی سیاست کے عمائدین کو خوفزدہ کر دیا۔ چنانچہ انہوں نے تفرقہ انگیزی کے اسی پرانے حربے کا پھر سہارا لیا۔ اس سے پہلے بھی اور آج بھی وہ شیعہ سنی اختلافات کی آگ زیادہ سے زیادہ بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ دونوں فرقوں کی توجہ اصلی دشمن کی طرف سے جو صرف شیعوں کا دشمن نہیں یا صرف اہل تسنن کا دشمن نہیں بلکہ اسلام کا دشمن ہے، ہٹ جائے۔ یہ دونوں فرقے آپس ہی میں الجھ جائیں۔ یہ استعمار کی سیاست ہے اور اس سیاست کی سب سے زیادہ مہارت خبیث برطانوی حکومت کے سیاسی اور سیکورٹی اداروں کو حاصل ہے، جو طویل عرصے سے اس میدان میں کام کرتے رہے ہیں۔ انہیں خوب پتہ ہے کہ کیسے مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور نفاق کا بیج بویا جاتا ہے، انہوں نے اس کے طریقوں کو بارہا آزمایا ہے، انہیں علم ہے اور بڑی تندہی سے اس کے لئے وہ کام کر رہے ہیں۔
تکفیر کی یہ تحریک، یہ جو آج عراق میں، شام میں اور علاقے کے بعض دیگر ملکوں میں نمودار ہوئی ہے اور جو حقیقت میں تمام مسلمانوں سے بر سر پیکار ہے یعنی صرف شیعوں سے نہیں۔ یہ خود استعماری طاقتوں کے ہاتھوں پروان چڑھی ہے۔ انہوں نے القاعدہ کے نام سے اور داعش کے نام سے ایک چیز تیار کر لی ہے، اسلامی جمہوریہ کا مقابلہ کرنے کے لئے، اسلامی بیداری کی تحریک کا سد باب کرنے کے لئے، لیکن اب یہی آگ ان کے دامن تک جا پہنچی ہے، آج خود ان کا دامن بھی ان شعلوں کی زد پر ہے۔ البتہ آج بھی اگر گہری تجزیاتی نظر سے جائزہ لیا جائے تو انسان یہی محسوس کرے گا کہ امریکا اور اس کے اتحادی جو اقدامات انجام دے رہے ہیں اور جنہیں انہوں نے داعش سے مقابلے کی کارروائی کا نام دے رکھا ہے اور جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، وہ اس خبیثانہ تحریک کو جڑ سے ختم کرنے کی کارروائی کے بجائے مسلمانوں کی آپسی دشمنی کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیں۔ اس مقصد کے برآری کے لئے انہوں نے ذریعہ اس جاہل، متعصب اور بڑی طاقتوں کے آلہ کار گروہ کو بنایا ہے۔ ورنہ ان کا ہدف وہی پرانا ہدف ہے۔ ان کی کوشش یہی ہے کہ دشمنوں کی توجہ ان کے اصلی اور حقیقی دشمن کی جانب سے کسی اور طرف موڑ دیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ شیعہ ہو یا سنی، جو بھی اسلام سے وابستہ ہے، جو بھی قرآن کی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے اسے سمجھ لینا چاہئے کہ امریکا، امریکی سیاست، استکباری سیاست اور صیہونی سیاست، اسلام کے اصلی دشمن ہیں، یہ اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، یہ اسلام کی حاکمیت اور بالادستی کے دشمن ہیں، آج وہ جو بھی کوششیں کر رہے ہیں، پینتیس سال سے جاری ان کی مہم کا حصہ ہیں۔ پینتیس سال سے وہ مختلف انداز سے کوششیں کر رہے ہیں۔ مگر یہ نصرت خداوندی اور لطف پروردگار رہا کہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف انہوں نے جو سازش بھی رچی، اس میں ناکامی ہی کا منہ دیکھنا پڑا، اس دفعہ بھی ان شاء اللہ انہیں شکست کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔
شیعہ ہوں یا سنی تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے جذبات کو برانگیختہ کرکے، دشمن کے مددگار نہ بنیں۔ شیعوں کو چاہئے کہ ذہن نشین کر لیں کہ اگر شیعہ سنی اختلافات اور تنازعات کو بھڑکایا گيا تو دونوں فرقوں کے مشترکہ دشمن اور اصلی دشمن کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔ دشمن کو یہ موقع ہرگز نہ دیں۔ اہل تسنن بھی اسی طرح ہوشیار رہیں۔ دونوں فریق بہت محتاط رہیں، ایک دوسرے کے جذبات کو مشتعل نہ کریں، ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین نہ کریں، مسلم مسلکوں کے درمیان، مسلم فرقوں کے درمیان اور خاص طور پر شیعہ سنی فرقوں کے درمیان تنازعہ جو دشمنان اسلام کے لئے خاص دلچسپی اور کشش رکھتا ہے، اشتعال انگیزی کا باعث نہ بننے پائے۔ اس نکتے پر سب توجہ دیں۔ اگر کوئی شخص اس طرح کا کوئی کام کرتا ہے جس سے دوسرے فریق کے احساسات مجروح ہوتے ہیں اور عناد و کینہ پیدا ہوتا ہے، تو اسے یقین رکھنا چاہئے کہ وہ امریکا کی مدد کر رہا ہے، خبیث برطانیہ کی مدد کر رہا ہے، صیہونزم کا مددگار بن گیا ہے۔ ایسے لوگوں کی مدد کر رہا ہے جنہوں نے داعش، القاعدہ اور ان جیسے دیگر گروہوں کو وجود بخشا ہے، جنہوں نے تکفیر کی تحریک کو جنم دیا ہے تاکہ شیعہ سنی اختلافات میں نئی شدت پیدا ہو جائے۔ آج اسلامی وحدت و اتحاد، اسلامی اخوت و بھائی چارہ، اسلامی یگانگت و یکجہتی، تمام اسلامی معاشروں کا انتہائی اہم اور لازمی فریضہ ہے، اس فریضے کے تئیں سب کو پابند رہنا چاہئے۔ البتہ اسلامی جمہوری نظام کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے والے مومن، بابصیرت اور آگاہ مسلمان، اپنے فریضے سے بخوبی آشنا ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہاں بھی اور دیگر جگہوں پر بھی وہ اپنے ان فرائض پر عمل کریں۔ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب کرے، آپ سب کو اور عالم اسلام کو عید غدیر کی برکتوں سے بہرہ مند کرے۔

و السلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) الاحتجاج، جلد‌۲، صفحہ‌۴۵۰؛ خطبہ غدیر
۲) جامع الاحادیث شیعه، جلد‌۲۳، صفحہ‌۷۴۲
۳) سوره‌ى احزاب، آیه‌ ۶ کا ایک حصہ۔