1393/11/06 ہجری شمسی مطابق 26 جنوری 2015 کو ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں اسلامی نظام کی تشکیل کے بعد مذکورہ اسلامی تعلیمات پر عمل آوری کی کوششوں کا حوالہ دیا اور ساتھ ہی وطن عزیز کے لئے غیر مسلم ایرانی شہریوں کی قربانیوں کو سراہا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مغربی ملکوں میں جو انسانی حقوق کی پاسداری کے بڑے دعوے کرتے ہیں، مسلم اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم پر تنقید کی۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله‌ الرّحمن ‌الرّحیم‌

ہمیں اسلام سے یہ درس ملا ہے کہ دیگر ادیان کے پیرکاروں کے ساتھ انصاف اور مساوات کا برتاؤ کیا جانا چاہئے۔ ہمیں اسلام سے یہ حکم ملا ہے۔ آج دنیا میں جو چیز نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ عدل و انصاف کے بلند بانگ دعوے کرنے والی طاقتیں اور حکومتیں تنگ نظری اور کوتاہ فکری پر استوار اپنی ظالمانہ پالیسیوں کے دائرے سے باہر عدل و انصاف کے کسی بھی تقاضے کو پورا نہیں کرتیں۔ آپ آج یورپ میں اور امریکا میں دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف کیسا زہریلا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ان ملکوں میں مسلمانوں کو ضروری آزادی کیوں حاصل نہیں ہے، بحث یہ ہے کہ ان کی زند‏گیاں کیوں محفوظ نہیں ہیں۔ واقعی آج یہی صورت حال ہے۔ یہی فلم 'اسنائپر' (1) کہ جس کا اس وقت بڑا ہنگامہ ہے، جسے ہالی وڈ نے بنایا ہے، عیسائی یا غیر مسلم نوجوان کو اس بات کے لئے اکساتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہے مسلمانوں کو پریشان کرے۔ یہ فلم باقاعدہ اس کی ترغیب دلاتی ہے، جیسا کہ اس کے بارے میں بتایا گیا ہے، میں نے خود یہ فلم نہیں دیکھی ہے۔ یہ روش اسلام کو پسند نہیں ہے۔ اسلام انصاف کی بات کرتا ہے۔ امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام شہر انبار (2) پر حملے کے معاملے میں فرماتے ہیں: بَلَغَنی اَنَّ الرَّجُلَ مِنهُم لَیدخُلُ المَرأَةَ المُسلِمَةَ وَ الاُخرَی المُعاهدَة؛ میں نے سنا ہے کہ جن لوگوں نے اس شہر پر حملہ کیا، وہ مسلمان خاتون اور غیر مسلم خاتون کے گھر میں درانہ گھس گئے 'المُعاهدَة' یعنی یہودی اور نصارا جن سے معاہدہ کیا جا چکا ہے اور جو اسلامی حکومت کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ لوگ «یأخُذُ حِجلَها» ان خواتین کو پریشان کر رہے تھے، ان پر ظلم کر رہے تھے۔ اس کے بعد مولا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان یہ سن کر شدت غم سے ہلاک ہو جائے تو لائق سرزنش نہیں ہے۔ آپ ملاحظہ فرمائیے یہ ہیں حضرت امیر المومنین۔ اگر مسلمان اس ملال میں ہلاک ہو جائے کہ دشمن سپاہی اور لٹیرے غیر مسلم خاتون کے گھر میں داخل ہو گئے اور اسے ایذائیں دیں اس کا حِجـِل(۳) 'کنگن' چھین لیا، تو اس کی سرزنش نہیں کی جانی چاہئے، اسے ملامت نہیں کی جا سکتی۔ یہ ہے اسلام کی فکر اور سوچ۔ ہماری دعا ہے کہ ان شاء اللہ ہم اسی راستے پر گامزن رہیں اور آگے بڑھیں۔
میری بڑی اچھی یادیں ہیں، میں ارمنی اور آشوری (عیسائی) شہداء کے گھروں میں جاتا رہا ہوں، اس سال بھی خوش قسمتی سے کچھ ارمنی (عیسائی) شہدا کے گھروں میں جانے کا موقع ملا۔ میں دیکھتا ہوں کہ وطن عزیز کے سلسلے میں ان کے اندر خاص قلبی وابستگی اور فرض شناسی کا جذبہ ہے۔ انہوں نے واقعی بڑی ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ (آٹھ سالہ) جنگ کے زمانے میں انہی ارمنی عیسائیوں کا ایک گروہ اہواز آیا، میں نے دیکھا کہ ایئرپورٹ پر ایک گروپ بیٹھا ہوا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جواب ملا کہ یہ ارمنی حضرات ہیں، محاذ جنگ پر آ رہے ہیں، فنی اور صنعتی کام انجام دینے کے لئے۔ ارمنی حضرات فنی و صنعتی کاموں میں بڑی مہارت رکھتے ہیں، یہ لوگ مدد اور خدمت کے لئے پہنچے ہیں۔ شہید چمران نے ان کو مختلف کام سونپے تھے۔ ان لوگوں نے کام کیا، زحمت کی اور ان میں بعض شہید بھی ہو گئے۔
ایک ارمنی خاندان کے ایک شخص نے جن کے گھر میں ابھی پچھلے ہفتے گیا تھا، اپنے بیٹے کے بارے میں بتایا کہ اس کی 'سربازی' (لازمی ملٹری سروس) کا دورہ پورا ہو چکا تھا تو اسے اس بات کی تکلیف تھی کہ 'سربازی کا دورہ' مکمل ہو گیا مگر جنگ ابھی بھی جاری ہے، اب کیا کروں۔ دریں اثنا اعلان کیا گيا کہ جن لوگوں کا 'سربازی کا دورہ' مکمل ہو چکا ہے وہ کچھ مہینوں کے لئے تین مہینے یا اسی طرح کی کسی مدت کے لئے دوبارہ محاذ جنگ پر آئيں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ نوجوان بہت خوش ہوا کہ دوبارہ بلایا گيا ہے، وہ فورا محاذ جنگ پر روانہ ہو گیا اور وہیں شہید ہو گیا، اس کا جنازہ لایا گيا۔ یعنی غیر مسلم ہم وطنوں کے اندر بھی یہ جذبہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ واقعی انہوں نے خدمت کی ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اسلامی نظام ان پہلوؤں سے بھی اپنی ذمہ داریوں پر کامیابی کے ساتھ عمل کر سکے۔ وہ لوگ بھی وطن عزیز کے سلسلے میں واقعی پوری وابستگی اور وفاداری کے ساتھ کام کریں۔
یہ چیز بیرون ملک بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی روش کا تعارف کراتی ہے۔ یعنی واقعی انہیں پتہ چلنا چاہئے، دنیا کے لوگوں کو، دنیائے عیسائیت کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کے ساتھ کتنی رواداری برتی جاتی ہے، جو ان کے ملکوں میں نہیں ہے۔ آپ نے بارہا سنا ہوگا کہ جرمنی میں مثال کے طور پر نیو نازی نوجوان جو آج نازی ہونے پر فخر بھی کرتے ہیں اور خود کو نیو نازی کہتے ہیں، مٹھی بھر مسلمان جو وہاں آباد ہیں، ان پر حملے کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی مسجدوں میں گھس جاتے ہیں، مار پیٹ کرتے ہیں، قتل تک کر دیتے ہیں اور کوئی خاص قانونی کارروائی بھی نہیں ہوتی۔ یا وہ نوجوان عرب خاتون جس نے اسکارف پہن رکھا تھا، اسے صرف باحجاب رہنے کی وجہ سے حملے کا نشانہ بناتے ہیں، قتل کر ڈالتے ہیں اور کوئی کچھ کرتا بھی نہیں۔ اب کہہ رہے ہیں کہ کچھ سزا دی گئی ہے۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ واقعی سنجیدگی سے کوئی قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ دوسرے ملکوں میں بھی یہی حال ہے۔ امریکا میں، دوسری جگہوں پر، دوسرے ممالک میں بھی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہی صورت حال ہے۔ یہ لوگ انسانی حقوق کے دعویدار بھی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ ایران کے اندر جو صورت حال ہے اس سے اپنے ملکوں کی صورت حال کا موازنہ کریں۔ ایران میں ایسا کوئی واقعہ کبھی ہوا ہی نہیں۔ یعنی اسلامی جمہوریہ کے دور میں غیر مسلم کے خلاف مسلمانوں کی جارحیت کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ حزب اللہی کہے جانے والے نوجوان (جو دینی امور کی پابندی اور قانون کی پاسداری پر زور دیتے ہیں) بھی کبھی کسی غیر مسلم سے تعرض نہیں کرتے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو اور ہمیں اپنے اپنے فرائض پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔
***
۱) فلم 'امیرکن اسنائپر' جنوری 2015 میں ریلیز ہوئی ہے۔ یہ فلم کرس کائل کی کتاب امیرکن اسنائپر پر بنائی گئی ہے۔ یہ کتاب در حقیقت خود مصنف کی سرگزشت ہے جو امریکی میرین تھا اور رفتہ رفتہ امریکی فوج کا سفاک سپاہی بن گيا اور جنگ میں سب سے زیادہ انسانوں کو قتل کرنے والا فوجی قرار پایا۔ اس فلم کو کئی آسکر ایوارڈ ملے ہیں۔
۲) نهج ‌البلاغه، خطبه‌ نمبر ۲۷ (تھوڑے سے فرق کے ساتھ)
۳) کنگن