قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی تحریک میں اہل قم کی گراں قدر اور فیصلہ کن شراکت کا جائزہ لیا۔ آپ نے اپنے اس خطاب میں یورپی اور امریکی سامراج کی پالیسیوں پر ناقدانہ نظر ڈالی۔
خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم‏ الله‏ الرّحمن‏ الرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين. والصّلاة والسّلام علي سيّدنا و نبيّنا و حبيب قلوبنا ابي‏القاسم المصطفي محمّد و علي آله الأطيبين الأطهرين المنتجبين. الهداة المهديّين المعصومين. سيّما بقيّة الله في الأرضين.

خداوند متعال کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایک بار پھرمجھے یہ توفیق بخشی کہ شہر علم و جہاد، شہر قم کے پرجوش، مومن، انقلابی اور ذی شعور عوام کے درمیان حاضر ہو سکوں۔ قم، ایک پیارا شہر، تحریک اور انقلاب کا شہر، علم و اجتہاد کا شہر، ولایت و امامت کا شہر، حوزہ علمیہ کا شہر، عظیم علماء کا شہر، امام بزرگوار حضرت آیت اللہ العظمی خمینی کی تاریخی اور ناقابل فراموش یادوں کا شہر، عظیم الشان مراجع تقلید کا شہر، اسلام کے عظیم محدثین، فقہاء، علماء، مفسرین اور مصنفین کا شہر ہے۔ بے مثال اور قابل فخر شہر ہے اور یہ شہر علم و انقلاب اور جہاد کے میدان بھی ناقابل فراموش ماضی کا حامل ہے۔
اس شہر کی اتنی ساری خصوصیات کے درمیان تین باتیں ایسی ہیں جو سب کی نگاہیں اپنی طرف مبذول کر لیتی ہیں: سب سے پہلے، حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا پاک اور نورانی حرم ہے؛ یہ وہ عظیم ہستی ہیں جن کے روضے سے پہلی بار (انقلاب اسلامی کا) پر جوش چشمہ پھوٹا اور پھر اس کی برکات پوری دنیا اور خاص طور سے عالم اسلام میں پھیل گئیں۔ دوسرے؛ علم، اجتہاد اور حدیث ہے، جس کا یہ شہر علمبردار ہے؛ یہاں کا حوزہ علمیہ (دینی علوم کا مرکز) تو ایک ہزار دو سو سال سے قائم و دائم ہے۔ اس نے جید علماء، عظیم مجتہدین، زبردست فلاسفہ، عالی مقام محدثین، عظیم المرتبہ مصنفین کو پروان چڑھایا ہے یا اپنے دامن میں پناہ دی ہے اور انہوں نے امامت و ولایت کی پارہ جگر یعنی حضرت معصومہ علیہا السلام کے زیر سایہ سکونت اختیار کی ہے۔ تیسری بات: اس شہر کے آپ جیسے مومن، بہادر، سمجھدار اور وقت شناس لوگوں کی موجودگی ہے۔ شروع شروع میں جب اس تحریک (انقلاب اسلامی) نے جنم لیا تو اس شہر کے عوام ہی تو تھے جنہوں نے سب سے پہلے لبیک کہا اور امام (خمینی) کی مدد کے لے اپنے ہاتھ بلند کیے۔ میں کبھی نہیں بھول سکتا، جب علماء کی عظیم تحریک اور جدوجہد کو شروع ہوئے چند ہفتے بھی نہیں گزرے ہوں گے، قم کے عوام کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ اسی مسجد اعظم میں امام بزرگوار(امام خمینی) کے درس میں آئے تھے اور بلند آواز کے ساتھ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے آپ کی حمایت کی ہے اور آئندہ بھی کریں گے، یہ تحریک آگے کیوں نہیں بڑھ رہی ہے؟ اس وقت ریاستی اور صوبائی کونسلوں کی بات چل رہی تھی۔ یعنی پہلے ہی قدم سے قم کے عوام نے امام (خمینی) اور اس تحریک کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ اس وقت بھی جب بکے ہوئے اور غدار لکھنے والوں نے امام خمینی کی توہین کی تھی تو یہی شہر تھا ، اسی شہر کے لوگ تھے، اسی شہر کے جوان تھے ؛ اسی شہر کی مائیں اور بہنیں ہی تو تھیں جنہوں نے صدائے احتجاج بلند کی، اسی شہر کے جوان ہی تو تھے جو سڑکوں پر نکلے، شہید ہوئے، مار کھائی، سختیاں برداشت کیں؛ لیکن پھر بھی ڈٹے رہے۔
قم کے لوگوں کی تحریک ایرانی قوم کی تحریک کا مقدمہ بنی۔ اپنے شہر کی سڑکوں پر آپ لوگوں کا نکل آنا دوسرے شہروں کے لوگوں کے لیے ایک مثال بن گیا اس نے راستہ دکھا دیا، لوگ سجھ گئے کہ انہیں میدان میں کودنا ہی پڑے گا، لاتعلقی کو چھوڑنا ہوگا اور انہوں نے چھوڑ دیا اور پھر اس عظیم طوفان نے چلنا اور اس کوہ آتشفشاں نے ابلنا شروع کیا تو پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا اور ملت ایران کو آزادی دلا دی۔ اس کے بعد نو تشکیل شدہ اسلامی نظام کے دفاع کی بات آئی تو ایک بار پھر اسی شہر قم کے لوگ جنگ کے اگلے مورچوں پر نظر آئے۔ آپ کا لشکر، آپ کے جوان، آپ کے رضاکار، آپ کے گھر والے، آپ کے ماں باپ ہی تو تھے جنہوں نے انتہائی جانفشانی اور ایثار کا مظاہرہ کیا اور اس میدان میں بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کیا۔ مجھے آپ کے درمیان آکر انتہائی خوشی محسوس ہو رہی ہے اور انقلاب کے لاتعداد اور اہم مسائل میں سے ایک اہم مسلئے کو آپ کے سامنے بیان کرکے میں اطمینان کا احساس کر رہا ہوں۔
آج جو بات میں آپ ایسے محترم لوگوں کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے انقلاب کے تین اصلی نعرے تھے: خود مختاری، آزادی اور اسلامی جمہوریہ۔ اسلامی جمہوریہ سے مراد تو یہی نظام ہے جو لایا گیا اور تمام تر مشکلات و مسائل کے باوجود آگے بڑھ ریا۔ آزادی کا نعرہ انتہائی جاذب نعروں میں سے ایک ہے۔ اس کی صدائے بازگشت بار بار سنائی دیتی ہے اور اس کے بارے میں بہت کچھ کہا اور سنا جاتا ہے؛ مقالے لکھے جاتے، کتابیں بھی لکھی گئی ہیں اور اشعار بھی پڑھے جاتے ہیں۔ آزادی کے بارے میں جو باتیں کہی جاتی ہیں ان میں سے بعض میں اعتدال ہے اور بعض میں مبالغہ آرائی ہوتی ہے۔ بہرحال آزادی کا نعرہ باقی ہے لیکن گزشتہ دو نعروں کے بر خلاف خود مختاری کا نعرہ بھلا دیا گیا ہے۔
مختاری کا نعرہ اہم ترین نعرہ ہے۔ اگر مختاری نہ ہو تو پھر کوئی بھی قوم اپنی آزادی اور یا آزادی کے نعرے کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں رہے۔ بعض لوگ جان بوجھ کر ، بعض غلط فہمی کی بنیاد پر، بعض غفلت کی وجہ سے اور بعض اپنی خباثت کی بنا پر مختاری کی بات کو بھلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں آج آپ محترم بھائیوں اور بہنوں کے سامنے مختاری کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا البتہ دامن وقت نے مجھے جتنی اجازت دی اس کے مطابق۔
مختاری کے معنی کیا ہیں؟ کسی بھی قوم کے لیے مختاری کا مفہوم کیا ہے اور اس کی کنتی اہمیت ہے؟ مختاری سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی قوم اپنے مستقبل کی خود مالک ہو؛ غیروں کو مداخلت کا موقع نہ ملے اور وہ اس کے مستقبل کا فیصلہ اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق نہ کرنے پائیں۔ یہ ہیں مختاری کے معنی۔ اب اگر کسی قوم سے مختاری چھین لی جائے، یعنی غیر جو یقینا اس کے ہمدرد نہیں ہو سکتے وہ اس قوم کے مستقبل کے مالک بن بیٹھیں تو وہ قوم دو چیزوں سے محروم ہو جائیگی۔ سب سے پہلے اپنی عزت نفس، غیرت اور تشخص سے محروم ہو جائیگی اور اس کے بعد اپنے مفادات سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ جب کوئی دشمن کسی قوم کے سیاہ و سفید کا مالک بن جائے تو وہ اس قوم کا ہمدرد تو ہے نہیں اور اس قوم کے مفادات بھی اسکے لیے کوئی اہیمت نہیں رکھتے۔ جو بھی کسی قوم کو اپنی طاقت کے جال میں پھنساتا ہے تو اسے سب سے زیادہ یا صرف اور صرف اپنے مفادات کی فکر ہوتی ہے اور جو چیز اسکے لیے ذرّہ برابر بھی اہمیت نہیں رکھتی وہ خودمختاری سے محروم قوم کے مفادات ہیں۔ ہمارے سامنے انیسویں صدی اور اس کے بعد بیسویں صدی میں بھی اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
یورپی سامراجیوں نے جب ایشیا، افریقہ اور لاتینی امریکا کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کیا تو انہوں نے ان علاقوں کی قوموں کو ذلیل و رسو کر ڈالا، ان کی ثقافت، ان کے تشخص، ان کی دولت سب کچھ برباد کرکے رکھ دیا۔ یہاں تک کہ انکی زبان کو ، انکے رسم الخط کو ، انکے ماضی اور روایات کو بھی روند ڈالا۔ قوموں کو رسوا کیا، انہیں نچوڑ لیا، ان کا سرمایہ لوٹ کر لے گئے، انکی ثقافت کو برباد کر دیا؛ جب تک ممکن رہا مسلط رہے اور اسکے بعد چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نے ایسی بہت سی مثالیں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، بعض کے بارے میں سنا ہے اور بعض کے بارے میں پڑھا ہے۔
ایک مثال وسیع و عریض ملک، ہندوستان کی ہے۔ سات سمندر پار سے آنے والے انگریزوں نے پہلے جھوٹ اور فریب کے سہارے اور پھر اسلحے اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر سرزمین ہندوستان پر قبضہ کیا۔ برسوں تک اس سرزمین پر مسلط رہے؛ لوگوں کو ذلیل کرتے رہے، عظیم ہستیوں کو ختم کر دیا، ہندوستان کی دولت کو برباد کر دیا۔ برطانیہ نے اپنے خزانے کو اپنے سرمایہ داروں کی جیبوں کو ہندوستان کی دولت اور قدرتی ذخائر سے بھر لیا، لیکن ہندوستان کو غربت اور بدحالی میں چھوڑ دیا۔ صرف مادی دولت ہی نہیں بلکہ انکے معنوی سرمائے کو بھی لوٹ لیا اور ان پر اپنی زبان مسلط کر دی۔ آج برطانوی سامراج کے زیر تسلط رہنے والے برصغیر ہند کے ملکوں، ہندوستان، پاکستان، اور بنگلا دیش کی رسمی زبان انگریزی ہے! اس خطے میں درجنوں علاقائی زبانیں تھیں؛ جہاں تک ممکن تھا ان زبانوں کو ختم کر دیا اور نابود کر گئے۔ کسی قوم کے اپنی زبان سے محروم ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ قوم اپنے ماضی سے، اپنی تاریخ سے، اپنے رسم ورواج سے اور اپنی قیمتی میراث سے دور، علیحدہ اور بے خبر ہو جاتی ہے۔
ایک اور مثال عرض کرتا ہوں۔ جب میں صدر تھا تو اس وقت لاتینی امریکا کے ملک پیرو کے صدر نے مجھے بتایا کہ ہم نے اپنے ملک میں کھدائی کے دوران ایک عظیم تہذیب کے آثار دریافت کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک پر برسوں تک سامراجی مسلط رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی ہمارے عوام ، روشن خیالوں اور مفکرین کو یہ سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ ہم کس تہذیب کے مالک رہے ہیں! یہاں تک کہ ہمیں اپنی تاریخ کو سمجھنے اور اپنے ماضی کی روایات پر فخر کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے!
ایک اور مثال الجزائر کی ہے۔ یہ ایک عرب اور مسلمان ملک ہے۔ فرانسیسی آکر صدیوں تک اس ملک پر مسلط رہے؛ اسلحے کے زور پر قبضہ جمایا؛ حکومت بنائی؛ اپنے حکام اور افسران کو لاکر بٹھا دیا۔ سب سے پہلے جو کام انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ اسلامی ورثے کو تباہ کیا اور حتی کہ عربی زبان کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ جس وقت میں صدر تھا ان دنوں الجزائر کے اعلی سطحی عہدیدار تہران آئے تھے اور مجھ سے ملاقات کی تھی۔ گفتگو کے دوران کوئی بات کرنا چاہتے تھے لیکن اسکی عربی عبارت انکے ذہن میں نہیں آرہی تھی! ایک عرب زبان، مجھ تک اپنی بات منتقل کرنا چاہتا تھا مگر اسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ عربی میں اس بات کو کس طرح کہے! اپنے وزیر خارجہ کی طرف مڑ کر اس سے فرانسیسی زبان میں پوچھنے لگے کہ یہ بات عربی میں کس طرح کہیں گے؟ وزیر خارجہ نے بتایا کہ عربی میں اسے یوں کہیں گے؛ پھر کہیں جاکے انہوں نے عربی میں اپنی بات بیان کی! مطلب یہ ہے کہ کسی قوم کے اسکالرز اور دانشور بھی سامراجی اثرات کی وجہ سے اپنی زبان تک بھول جاتے ہیں۔ بعد میں کچھ الجزائری ہمدردوں نے مجھ سے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سامراج کے اثرات کے خاتمے کے بعد عربی زبان کو دوبارہ رائج کیا جائے۔
عزیزان من! میری بہنو اور بھائیو! خودمختاری کے فقدان کا کسی بھی ملک پر یہ اثر پڑتا ہے۔ سامراج اس ملک کے لوگوں کا قومی تشخص چھین لیتا ہے، ملی غیرت ختم کر دیتا ہے، ان کے تاریخی ورثے کو چھین لیتا ہے، ان کے مادی وسائل کو لوٹ لے جاتا ہے؛ ثقافتی اور لسانی تشخص ختم کر دیتا ہے۔ یہ کسی بھی ملک پر کسی اور طاقت کے تسلط کا شاخسانہ ہے۔ استعماری دور میں ایسا ہوتا ہے۔ استعمار کے بعد استثمار اور استحصال کا دور آتا ہے جو اور طرح کا ہوتا ہے۔ البتہ ہمارے ملک میں استثمار کی نوبت نہیں آئی؛ یعنی بیرونی طاقتیں ہمارے ملک میں غیر ایرانی حکومت قائم نہیں کر سکیں، مثلا برطانیہ والے یہاں مسلط تھے لیکن وہ اس ملک میں برطانوی حکومت تشکیل نہیں دے سکے، ملت ایران نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن جس قدر ممکن ہوا انہوں نے ایران میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا نے کی کوشش کی۔
میں گزشتہ سو سال کی تاریخ سے چار نمونے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ یہ چاروں نمونے ہمیں یہ دکھاتے ہیں کہ جب کوئی بیرونی طاقت کسی ملک کے سیاسی و ثقافتی محکموں پر قابض ہو جاتی ہے تو اس ملک اور اس قوم کی کیا درگت ہوتی ہے۔
ایک مثال آئینی انقلاب کی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ قاجاریہ دور میں حکومتی استبداد سے عوام بے حال تھے۔ لوگوں نے قیام کیا، معاشرے کے دردمند افراد نے بغاوت کا پرچم بلند کیا، علمائے دین ان میں پیش پیش تھے۔ نجف میں آيت اللہ آخوند خراسانی مرحوم جیسے مرجع تقلید، تہران میں تین بزرگ علمائے کرام شیخ فضل اللہ نوری مرحوم، سید عبد اللہ بہبہانی مرحوم اور سید محمد طباطبائی مرحوم آئینی انقلاب کے اہم قائدین تھے۔ ان کی پشت پناہی کے لئے نجف کی دینی درسگاہ تھی۔ یہ لوگ کیا چاہتے تھے؟ ان کا مطالبہ تھا کہ ایران میں انصاف اور مساوات قائم ہو، یعنی استبداد کا خاتمہ ہو۔ جب عوام کا جوش و خروش نظر آیا تو اس وقت ایران پر گہرا تسلط رکھنے والی برطانوی حکومت نے مفکرین اور دانشوروں کے درمیان موجود اپنے آلہ کاروں کو اشارے دے دئے۔ البتہ قوم کا درد رکھنے والوں میں کچھ دانشور حضرات بھی شامل تھے۔ ان کی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ مگر دانشور طبقے میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو بکے ہوئے تھے اور برطانیہ کے آلہ کار سمجھے جاتے تھے۔ جی ہاں، آئینی انقلاب کا ڈھانچہ اور اس کا پیکر برطانیہ کے حکومتی ڈھانچے سے مماثلت رکھتا تھا۔ ان دانشوروں نے کوئی منصفانہ نظام تشکیل دینے کی کوشش کے بجائے، ایرانی حکومتی نظام اور ایرانی فارمولے کے تحت سسٹم تشکیل دینے کے بجائے جس سے ملک میں انصاف اور مساوات قائم ہو، ایک الگ نظام تشکیل دیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ اتنی عظیم عوامی تحریک جو علماء کی قیادت میں، دین کے نام پر اور دینی نظام کے مطالبے کے ساتھ وجود میں آئی، کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد اس انجام کو پہنچی کہ شیخ فضل اللہ نوری کو تہران میں پھانسی دے دی گئی۔ یہ عظیم المرتبت شہید یہیں مدفون ہیں۔ کچھ اور وقت گزرا تو سید عبد اللہ بہبہانی کو ان کے گھر میں قتل کر دیا گيا۔ اس کے بعد سید محمد طباطبائی بالکل الگ تھلگ کر دئے گئے اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔ پھر آئينی انقلاب کو اسی رنگ میں ڈھال لیا گيا جو انہیں پسند تھا۔ آئینی انقلاب رضاخان کی حکومت پر منتج ہوا۔
دوسری مثال خود رضاخان کی حکومت کی ہے۔ انگریزوں نے قاجاریہ حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کی بنیاد پر ایران کے تمام مالیاتی امور اور تمام دفاعی معاملات انگریزوں کو ہاتھ میں چلے جانے والے تھے۔ سید حسن مدرس مرحوم نے، اس عظیم المرتبت عالم دین نے، اس معاہدے کی مخالفت کر دی اور متعلقہ بل کو اس وقت کی پارلیمنٹ 'مجلس شورائے ملی' میں پاس نہیں ہونے دیا۔ جب برطانیہ کے یہ منصوبے فیل ہو گئے اور اس نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیں بنے گا تو انگریزوں نے نیا طریقہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کے ایران میں ایک ڈکٹیٹر کو اقتدار میں لانا چاہئے جو مدرس جیسے افراد کا قلع قمع کر دے، عوام کو سختی کے ساتھ کچلے اور برطانیہ کے اشاروں پر عمل کرے۔ اسی مقصد کے تحت رضاخان کو اقتدار میں لایا گيا۔ ایران میں رضاخان کے اقتدار میں پہنچے کا پورا ماجرا ہماری تاریخ کا بڑا عبرتناک باب ہے۔ یہ ایسا قضیہ ہے جس سے آج ہمارے تمام نوجوانوں کو واقف ہونا چاہئے۔ رضاخان سے پہلے کی نراجیت، رضاخان کے مستبدانہ حملوں اور برطانیہ کی مدد سے معدوم ہو گئی اور ملک میں ایک مسلط کردہ استبدادی نظام قائم ہو گیا جو پچپن سال تک چلتا رہا۔ ہمارے ثقافتی اور سیاسی محکموں میں برطانیہ کے گہرے اثر و نفوذ کی وجہ سے عوام پر شدید دباؤ تھا۔
اس کی تیسری مثال 1941 عیسوی میں رضاخان کا انہیں لوگوں کے ہاتھوں معزول کر دیا جانا ہے جو کل تک اس کے حمایتی تھے، رضاخان کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ انگریزوں نے محمد رضا کو زمام مملکت سونپی، اس معاہدے کی بنیاد پر کہ وہ برطانیہ کے سامنے سراپا تسلیم رہے گا۔ انگریز جو کہتے تھے وہ کرتا تھا۔ اب سامراجی اقدامات کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ جب ایک خائن ایرانی اغیار کی مدد کے بدلے ایران میں ان کی مرضی کے کام کرنے پر تیار ہے اور عوام پر حکومت کا خواہاں ہے تو اب اس کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی کہ سامراج کو خود کوئی زحمت کرنی پڑے! انہوں نے یہ انتظام کیا تھا۔
اس کے بعد چوتھا نمونہ سامنے آیا۔ یہ 1953 کا زمانہ تھا۔ جب مصدق کی حکومت کو سرنگوں کر دیا گیا، البتہ اس سے پہلے آیت اللہ کاشانی مرحوم کو اپنی خاص چالوں کے ذریعے گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گيا تھا۔ اس کے بعد وہ ایک بار پھر ایران میں گھس آئے اور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے اور اپنے آلہ کاروں کی مدد سے 19 اگست کی بغاوت کروائی اور محمد رضا کو جو ایران سے فرار ہو چکا تھا دوبارہ ایران واپس لائے۔ اس کے بعد پچیس سال تک پہلوی آمریت کا سیاہ دور جاری رہا۔ یہ چار ادوار ہیں اور یہ سب بڑے عبرت انگیز ہیں۔
جب کوئی قوم بیرونی طاقتوں کو اپنے سیاسی شعبے میں اور ثقافتی محکموں میں دخل اندازی کرنے اور اثر و نفوذ بڑھانے کا موقع دے دیتی ہے تو ایسی قوم کا یہی انجام ہوتا ہے۔ اگر اسلامی انقلاب نہ آیا ہوتا، اگر قوم امام خمینی کی قیادت میں یہ عظیم تاریخی کارنامہ انجام نہ دیتی، تو آپ جانتے ہیں کہ آج ملت ایران کی کیا حالت ہوتی؟ اس قوم نے مغرب کی کوئی بھی سائنسی ترقی نہیں حاصل کی تھی۔ نہ کہیں کوئی ایجادات و اختراعات، نہ کہیں کوئی تعمیراتی پیشرفت۔ اپنے ذخائر گنوا چکی تھی، اپنا تیل، دریا کے پانی سے بھی سستے داموں بیچ رہی تھی، انہیں دے رہی تھی۔ تیل پر قبضہ انہیں کا تھا، ریفائنریاں انہیں کی تھیں، ان چیزوں کے لئے طولانی مدت معاہدے کر چکی تھی! دشمنوں نے اس قوم کے دیگر ذخائر و معدنیات کے لئے بھی منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ وہ ملک کے بہترین دماغوں کو اپنے ساتھ لے جانا اور ملک کو علمی و سائنسی اعتبار سے بالکل دیوالیہ بنائے رکھنا چاہتے تھے۔
ایران میں امریکا اور برطانیہ کے اثر و رسوخ کے زمانے میں، عوام بڑے سخت دور سے گزر رہے تھے۔ سو سال تک پہلے برطانیہ نے اور پھر امریکا نے اپنے اثر و نفوذ سے اس ملک کو تنزلی کا شکار بنائے رکھا۔ آج ہم جس شعبے میں بھی قدم رکھتے ہیں، ان کی خیانتوں اور منفی اقدامات کا واضح طور پر مشاہدہ کرتے ہیں۔
اسلامی انقلاب نے سب سے بڑا کام یہ کیا کہ امریکا کی ریشہ دوانیوں پر روک لگائی۔ اسلامی انقلاب کا یہ طرہ امتیاز تھا کہ اس نے اس ملک میں امریکا کے اثر و نفوذ، امریکا کی جڑوں اور انتظامات کو بالکل ختم کر دیا۔ البتہ اوائل میں بعض افراد جو اس ملک کی مسند اقتدار پر بیٹھے اور امریکا اور امریکیوں سے قلبی لگاؤ رکھتے تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ عمل انجام دیا جائے۔ میں نے سنہ 1979 میں دفاعی امور کی سپریم کونسل میں نزدیک سے دیکھا ہے۔ ایک بل پاس کیا جا رہا تھا، جس کی بنیاد پر امریکا کے فوجی مشیروں کو یعنی انہیں عناصر کو جنہوں نے بے شمار جرائم انجام دئے اور خیانتوں کا ارتکاب کیا تھا، اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج میں کسی اور نام سے باقی رہنے کا موقع مل جائے! میں نے مخالفت کی۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ یہ کیا کر رہے ہیں؟! تھوڑی بحث ہوئی اور اس کے بعد اس معاملے کو ملتوی کر دیا گيا۔ پھر اللہ تعالی نے انہیں یہ موقع ہی نہیں دیا کہ اس کام کو آگے بڑھاتے، وہ خود چلے گئے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کو ابھی ایک سال کا عرصہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک بار پھر انہیں افراد نے الجزائر میں امریکیوں سے، اس قوم کے خوں آشام دشمنوں سے مذاکرات کا منصوبہ بنایا، لیکن امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے مخالفت کر دی اور یہ نہیں ہونے دیا۔
انسان جب ایسے افراد کے منہ سے اصلاح اور آزادی کی بات سنتا ہے تو اسے بد گمانی میں مبتلا ہونے کا حق ہے۔ اتنے عظیم الشان انقلاب کے بعد اس انقلاب کے بعد جس نے امریکی تسلط پر وار کیا، کچھ افراد مختلف حیلوں اور بہانوں سے امریکیوں کو جنہیں دروازے سے نکالا گیا تھا، عقبی کھڑکی سے دوبارہ اندر لانے کی کوشش کر رہے تھے اور آج وہی افراد آزادی اور اصلاح کا نعرہ لگائیں اور گزشتہ حکومت کے کچھ مہرے اور آلہ کار ان کی مدد کریں! ایسے میں ہر ذی فہم انسان کو تشویش میں مبتلا ہونے اور معاملے کو شک آمیز نگاہ سے دیکھنے کا حق ہے۔ خود مختاری اسلامی انقلاب کا مضبوط قلعہ ہے، اس قلعے میں اغیار کی دراندازی ممنوع ہے۔ یعنی امریکا، برطانیہ اور دوسروں کو حق حاصل نہیں ہے کہ ملک کے سیاسی و ثقافتی مسائل میں کسی طرح کی بھی کوئی مداخلت کریں۔
میرے عزیز بھائیو اور بہنو! میں نے خود مختاری کا موضوع اٹھایا ہے، اس لئے کہ ہمارے آئین نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ نہ تو خود مختاری، آزادی کا راستہ روک سکتی ہے اور نہ آزادی، خود مختاری کے سد راہ ہو سکتی ہے۔ یہ بہت محکم اور مضبوط بنیاد ہے۔ اب اگر کچھ لوگ آزادی کے نام پر اور آزادی کا نعرہ بلند کرکے دشمن کو راستہ دینے اور اس کے اثر و نفوذ کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ آزادی ہرگز نہیں ہے۔ یہ تو وہی چیز ہے جو ہمارے دشمن کی خواہش ہے۔ یہ وہی جال ہے جسے ہمارے دشمن نے بچھایا ہے۔ یہ دن بڑے حساس دن ہیں، یہ دور بڑا حساس دور ہے۔
ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ملک کے حکام، ملک کے اعلی رتبہ عہدیداران، عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کے حکام اور سربراہان، پوری قوت اور توانائی کے ساتھ دشمنوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ملک کی خود مختاری کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں اور قوم بھی پوری طرح بیدار ہے۔ لیکن اسی بیچ میں کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو خود کو اس بات پر تیار نہیں کر پا رہے ہیں کہ اس خود مختاری کو جسے اس قوم نے اتنے شہیدوں کا خون دیکر، اتنے انسانوں کی جانفشانی کے نتیجے میں حاصل کیا ہے، اس قوم کے دشمن کے ہاتھوں فروخت نہ کریں!
جب انسان یہ دیکھتا ہے کہ دشمن کے تشہیراتی ادارے، امریکا اور سی آئی اے کے تشہیراتی مہرے، برطانوی حکومت کے تشہیراتی آلہ کار، غاصب صیہونی حکومت کا تشہیراتی ادارہ، پارلیمنٹ میں کسی بل کے لئے جان لگائے ہوئے ہے، نفسیاتی جنگ میں مصروف ہے، کسی قیدی کے لئے، کسی عہدیدار کی حمایت میں دیگ سے زیادہ چمچہ گرم کی عملی تصویر بنا ہوا ہے، تو شک پیدا ہونا فطری ہے، بہت سے دعوؤں کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہونا فطری ہے۔ دشمن کو آج یہ امید ہو گئی ہے کہ خامیوں اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو سکتا ہے، سادہ لوحی کا فائدہ اٹھنے میں کامیاب ہو سکتا ہے، ملک کے سیاسی شعبے میں اور ثقافتی شعبے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ مگر میں عرض کئے دیتا ہوں کہ یہ قوم بیدار ہے، حکام بیدار ہیں اور دشمن کی توسیع پسندانہ کارروائیوں کا پوری طاقت سے جواب دیا جائےگا۔
ہمارا آئین بڑا پیشرفتہ ہے اور اسے بڑے مستحکم اور دانشمندانہ انداز میں تیار کیا گیا ہے۔ اس آئین کے مطابق ہر چیز کے لئے مناسب جگہ ہے اور وہ اسی مناسب جگہ پر موجود ہے۔ تمام عہدیداران، تمام قانون ساز مراکز، تمام قانونی اداروں اور عوام الناس کے لئے میری سفارش یہ ہے کہ قانون کی پاسداری کی جائے۔ قانون نے دشمن کی دراندازی کا راستہ مسدود کر دیا ہے۔ اگر یہ دیکھنے میں آئے کہ کچھ آشوب پسند عناصر کی دشمنوں کی تشہیراتی اداروں کی طرف سے حمایت ہو رہی ہے تو ایسے موقع پر دشمن کو بہترین جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ قانون پر عمل کیا جائے۔ اگر خرم آباد جیسے بعض واقعات میں ملوث آشوب پسند افراد کو ہمت اور قطعیت کے ساتھ متعلقہ قانونی اداروں کے ذریعے قرار واقعی سزا دے دی جائے، خواہ وہ کوئی بھی ہو، تو پھر دشمن کی ہمت نہیں پڑے گی۔ اگر قانون کو مد نظر رکھا جائے، اگر انصاف کے مطابق عمل کیا جائے، جزوی سیاسی اختلافات سے متاثر نہ ہوا جائے جنہیں شور شرابا کرکے بہت بڑا ظاہر کی جاتا ہے، تو دشمن اپنی یہ حریصانہ کارروائیاں جاری نہیں رکھ پائے گا۔
میرے عزیزو! یہ سیاسی اور جماعتی اختلافات جو بعض اوقات بڑی مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں، اتنے بڑے نہیں ہیں، ان کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ عوام اپنے راستے پر رواں دواں ہیں۔ عوام کا راستہ اسلام کا راستہ ہے، انقلاب کا راستہ ہے، اللہ کا بتایا ہوا راستہ ہے، ہمارے عظیم قائد کا راستہ ہے۔ ان مصنوعی اور فرضی راستوں سے عوام کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ دشمن تو یہی چاہتا ہے کہ مختلف جماعتوں اور دھڑوں کو آپس میں دست و گریباں کر دے۔ میں نے صرف اور صرف ہمدردی کے تحت، کئی بار نماز جمعہ میں جو انتہائی مقدس پلیٹ فارم ہے، اسی طرح دوسرے مواقع پر، سیاسی دھڑوں اور حلقوں کو دعوت دی، میں نے کہا کہ آئیے بیٹھئے آپس میں بات کیجئے، مذاکرات کیجئے۔ آئيے اور جن امور پر آپس میں اتفاق رائے ہے ان کو بنیاد بنائیے اور اختلافات کو اسی بنیاد کی مدد سے حل کیجئے۔ اگر اصولوں پر ثابت قدم رہئے تو جزوی اور فروعی اختلافات کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ کچھ افراد نے اسے قبول بھی کیا، مگر کچھ افراد اپنی ضد پر اڑ گئے اور اب بھی اڑے ہوئے ہیں۔ ضد پر اڑے رہنے کا کیا مطلب ہے؟ آخر کچھ افراد قومی اتحاد کو، عوام کی یکجہتی کو، قومی سلامتی کو، قومی مفادات اور ملکی مفادات کو جماعتی اور گروہی اہداف و مفادات پر قربان کر دینے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ اگر اس ضد میں دشمن کا کوئی عمل دخل نہیں ہے تب بھی یہ بہت بری بات ہے اور اگر کہیں اس میں دشمن کا عمل دخل ہے تو پھر یہ کئی گںا بدتر ہے۔
میں ایک بار پھر سب کو دعوت دیتا ہوں کہ اسلامی نظام کے اصولوں کی بنیاد پر، آئين کے مسلمہ اور واضح قوانین کی بنیاد پر، اسلام کی بنیاد پر، عظیم الشان امام خمینی کے راستے کی بنیاد پر، عوامی مفادات کی بنیاد پر، قوم سے دشمنی برتنے والی ہر طاقت کے خلاف جہاد کی بنیاد پر اتحاد قائم کریں۔ یہ بڑا واضح راستہ ہے اس پر تمام خیر خواہ، دردمند اور صداقت پسند افراد یکجا جمع ہو سکتے ہیں۔
آج ملک کے اعلی حکام بحمد اللہ اسی کی دعوت دے رہے ہیں۔ صدر مملکت بھی یہی کہہ رہے ہیں، عدلیہ کے سربراہ کا بھی یہی موقف ہے، پارلیمنٹ کے اسپیکر کا بھی یہی کہنا ہے، اسلامی نظام کے تمام اعلی حکام یہی کہہ رہے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ زیور ایمان سے آراستہ اس بڑی آبادی والے بڑے ملک کو چلانا کتنا بڑا افتخار ہے جو اللہ نے انہیں عطا کیا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر وہ ان عظیم صلاحیتوں کی، اس شجاع قوم کی، اس وفادار ملت کی، ان عوام کی جو گزشتہ بیس سال میں جب بھی ضرورت پڑی پوری توانائی اور قدرت کے ساتھ وارد میدان عمل ہوئے، مدد کریں، ان کی مشکلات کو دور کر دیں، ان کے مفادات کی حفاظت کریں، ان کے اعلی مقاصد و اہداف یعنی قرآن و اسلام کی حکمرانی کا دفاع کریں، تو یہ ان کے لئے بڑے فخر کی بات ہوگی، بارگاہ خداوندی میں بھی، ملائکہ پروردگار کی نگاہ میں بھی، تاریخ کے گزشتہ ادوار کے لوگوں کی نگاہ میں بھی اور آج کی دنیا کی نظر میں بھی۔
آج دنیا میں اسلامی جمہوریہ باوقار ہے۔ عوام سے گہرے رابطے کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ کے حکام ہر دلعزیز ہیں۔ یہ حقیقت ملک کے اعلی حکام جانتے ہیں اور فضل پروردگار سے اس کے تئیں خود کو پابند بھی سمجھتے ہیں، تاہم کچھ افراد ہیں جو اپنی کم ظرفی کی وجہ سے، اپنی فرومايگی کی وجہ سے، گوناگوں مادی چاہتوں کی وجہ سے اور بسا اوقات کج فہمی کی وجہ سے کسی اور راستے پر چل رہے ہیں۔ کج فہمی ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ حسن ظن کا ایک راستہ باقی رہے۔
آج اس قوم کے لئے جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ ملک کے حکام اپنی پوری قوت و توانائی کے ساتھ، ملک کے امور کی اصلاح کے لئے اصلی اور حقیقی معیاروں کو مد نظر قرار دیں، انہیں تین باتوں کو جن کا ذکر کیا گیا؛ غربت سے مقابلہ، کرپشن سے مقابلہ اور تفریق سے مقابلہ۔ یہی معاملے کی بنیاد ہے۔ اگر ملک کے حکام غربت، بدعنوانی اور تفریق کو برداشت نہ کریں تو رضائے پروردگار، توفیق الہی اور ہدایت خداوندی ان کے شامل حال ہوگی اور گرہیں کھل جائیں گی۔ عوام میدان عمل میں موجود ہیں، یہ قوم وفادار قوم ہے، یہ قرآن سے قلبی رشتہ رکھنے والی قوم ہے۔ اگر ہم یہ سارے کام انجام دینا چاہتے ہیں تو صحیح راستہ یہ ہے کہ دشمن کے اثر و نفوذ کا پوری قوت کے ساتھ سد باب کیا جائے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا ایک دائمی اصول تھا جس کا بارہا آپ نے ذکر بھی کیا۔ آپ فرماتے تھے کہ جب بھی آپ دیکھیں کہ اس قوم اور اس ملک کو دیرینہ دشمن کسی چیز کے بارے میں دلچسپی دکھا رہے ہیں، کسی چیز کا دفاع کر رہے ہیں تو فورا ان کے اس عمل کو شک کی نگاہ سے پرکھئے۔ کبھی وہ کسی شخصیت کی کردار کشی کے لئے اس کی حمایت شروع کر دیتے ہیں، کبھی اپنے کسی مہرے کو بہت اہم ظاہر کرنے کے لئے اس کی حمایت کرتے ہیں اور نفسیاتی حربے آزماتے ہیں۔ بحمد اللہ ہمارے عوام میں سیاسی شعور ہے، ہماری قوم بیدار اور ہوشیار ہے لہذا ان چیزوں کے فریب میں نہیں آتی۔
میری آخری سفارش یہ ہے کہ قانونی مراکز کو معتمد علیہ ہونا چاہئے۔ عدلیہ پر اعتماد ہونا چاہئے، حکومت پر اعتماد ہونا چاہئے، نگراں کونسل پر اعتماد ہونا چاہئے، پارلیمنٹ پر اعتماد ہونا چاہئے، تشخیص مصلحت نظام کونسل پر اعتماد ہونا چاہئے، یہ قانونی مراکز ہیں۔ دشمن کے پروپیگنڈے میں ہمیشہ کچھ مخاطب افراد کو مد نظر رکھ کر ان میں سے کسی ایک مرکز کو حملے کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تاکہ ان اداروں سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے۔ یہ تمام ادارے عوام کی نظر میں قابل اعتماد ہونے چاہئے۔ عوام کو چاہئے کہ ان پر بھروسہ رکھیں، یہ عوام کے 'امین' ادارے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوتی، ممکن ہے کبھی غلطی بھی ہو لیکن ہر غلطی کے ازالے کا راستہ ہوتا ہے۔ اگر عوام اور قانونی اداروں کے درمیان رابطہ ٹوٹ گیا تو پھر اس کی تلافی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ دشمن یہی چاہتا ہے۔
البتہ ذمہ دار ادارے یعنی پارلیمنٹ بھی، نگراں کونسل بھی، عدلیہ بھی، حکومت بھی، تشخیص مصلحت نظام کونسل بھی اور دوسرے ادارے بھی، بہت محتاط رہیں، محنت سے کام کریں اور اسلام و آئین نے، شریعت اور قانون نے ان کے لئے جو راستہ معین کیا ہے، کسی بھی رو رعایت کے بغیر، غیر ضروری باتوں اور پہلوؤں کا کوئی خیال کئے بغیر، اس راستے پر گامزن رہیں۔ اللہ کی رضا کو مد نظر رکھیں، عوام کا خیال رکھیں، قومی مفادات کا خیال رکھیں، اللہ ان کے کاموں میں برکت عطا کرے گا۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ، اس قوم پر اپنی برکتیں نازل فرما۔ پالنے والے! اس قوم کو اس کے دشمنوں پر فتحیاب فرما، پروردگارا! اس قوم کی خود مختاری کے حفاظتی حصار کو جس کا اس قوم نے بڑی شجاعت کے ساتھ دفاع کیا ہے، مستحکم بنائے رکھ۔ پالنے والے! اس ملک کے حکام کی حفاظت فرما اور انہیں توفیق عطا کر کہ عوام کی خدمت کریں۔ پالنے والے! ہمارے عزیز شہدا کو ان کے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا! ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کو ان کے اجداد طاہرین کے ساتھ محشور فرما۔ پالنے والے! ہم سب کو اللہ کے راستے پر، ائمہ ہدی کے راستے پر، ہمارے عظیم الشان امام کے راستے پر رواں دواں رکھ اور اسی راستے پر چلتے ہوئے ہمیں موت آے۔

و السّلام علیکم و رحمة اللَّه و برکاته‌