آپ نے اپنے خطاب میں عید غدیر کے واقعے کے سلسلے میں فرمایا کہ یہ صرف شیعہ فرقے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اہل سنت سے بھی ہے اور اہل سنت علمائے کرام اور محدثین نے بھی اس واقعے کو نقل کیا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس سالانہ خطاب میں سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں استقامت سے کام لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے حکام، اسلام کے نام پر، اسلام کی خاطر، اسلام کے پیغام کے ساتھ، پوری شجاعت و قوت کے ساتھ اور کسی کی پروا کیے بغیر موقف اپنائیں، بات بھی کریں اور عمل بھی کرکے دکھائیں۔ ہماری قوم کو اور خاص طور سے نوجوان نسل کو غدیر کی برکت سے اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اسلام، قران اور غدیر نے جو راستہ معین کیا ہے، وہ ایک سنہرا راستہ ہے، ایسا راستہ ہے جو مضبوط دلیلوں اور خاص فلسفے کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا ہے اور اس پر عالی مقام اور عظیم المرتبت ہستیاں چلتی چلی آ رہی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم ‌اللَّه ‌الرّحمن ‌الرّحيم

میں اس عید سعید کی تمام محترم حاضرین کو، ملت عزیز ایران کو، ساری دنیا کے مومنین، اور تمام غازیوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، آپ تمام بہنوں اور بھائیوں، خاص طور سے شہدا کے محترم اہل خانہ اور ان تمام دوستوں کوخوش آمدید کہتا ہوں جو دور دراز کے علاقوں سے تشریف لائے ہیں۔
اس سال میں یہ دوسری عید غدیر ہے۔ پہلی عید غدیر سال 79 (ہجری شمسی مطابق21 مارچ 2000 الی 21 مارچ 2001عیسوی) کے آغاز میں آئي تھی دوسری، سال کے آخری دنوں میں آئی ہے۔ البتہ عید غدیر ایک عظیم عید اور ایک عظیم تاریخی واقعہ کی یادگار ہے؛ لیکن عید غدیر اپنے دامن میں ایسے سبق لیۓ ہوئے ہے کہ جب بھی امت مسلمہ ان اسباق کو دہرائے گی حقیقی معنی میں اس دن سے فائدہ اٹھا ئے گی۔
واقعہ غدیر میں عظیم درس ہیں۔ پہلا درس یہ ہے کہ یہ واقعہ تاریخ کا مسلمہ واقعہ ہے، ایسا نہیں ہے کہ صرف شیعہ حضرات نے حدیث غدیر کو لکھا ہو۔ بہت سے اہل سنت علماء اور محدثین نے بھی حدیث غدیر کو نقل کیا ہے، جس طرح شیعہ حضرات نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے ویسا ہی انہوں نے بھی لکھا ہے۔ پیغمبر کے اس عمل سے کہ؛ علی کا ہاتھ بلند کیا اور فرمایا من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ، (1) علماء اور دانشور حضرات بھی وہی سمجھے ہیں، جو اس واقعہ میں موجود لوگ بسمجھ رہے تھے کہ پیغمبر نے امیر المومنین کو اپنا جانشین بنایا تھا۔ میں شیعہ و سنی اختلافات اور عقیدے کے جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ عالم اسلام نے شیعہ و سنی اختلافات سے جو کچھ نقصان اٹھایا ہے وہی بہت ہے! لیکن پیغمبر کے اس کلام میں جو معرفت ہے اسے سمجھا جانا چاہیے: پیغمبر نے امیر المومنین کو منصوب کیا ہے۔
پیغمبر اس لیے مبعوث کیۓ گئے تھے کہ لوگوں کو تعلیم دیں اور پاکیزہ بنائیں «يعلّمهم الكتاب و الحكمة و يزكّيهم»؛(2) یا ایک اور جگہ پر ہے؛ « يزكّيهم و يعلّمهم الكتاب و الحكمة»(3) انسانوں کو تعلیم بھی دی جانی چاہئے اور ان کا تزکیہ بھی ہونا چاہئے تاکہ یہ ارض خاکی اور یہ عظیم انسانی معاشرہ ایک صحت مند خاندان کی مانند کمال کی منزلیں طے کرے اور اس دنیا کی برکتوں سے فائدہ اٹھائے۔ یہی تمام انبیا کی نبوت اور بعثت کا مقصد ہے۔ جس نبی کو بھی مبعوث کیا گیا اس نے تعلیم وتربیت کے اس عظیم مقصد کو اپنے زمانے کے وسائل و امکانات کے مطابق اسے آگے برھایا۔ لیکن دین خاتم اور نبی خاتم نے اس عظیم الہی تحریک کو ابدی بنا دیا۔ کیونکہ کوئی اور پیغمبر نہیں آئے گا جو انسان کو اس دنیا میں حتمی منزل، یعنی امن و آشتی اور انصاف کے سائے میں برکتوں سے بہرہ مند اس کرہ ارضی کی زندگی اور انسانی معاشرے کی تشکیل، کے قریب پہنچ جائے اور بالآخر اس منزل کو پا لے۔ انسانیت کو اس کی منزل مقصود تک کس طرح لے جایا جا سکتا ہے؟ اسی وقت جب تربیت کا عمل مسلسل جاری رہے۔ ایک حکومت اور سیاسی طاقت کی جانب سے تعلیم و تربیت کا عمل مسلسل انجام دیا جائے اور وہ بھی پیغمبر جیسی کوئی سیاسی طاقت، یعنی معصوم اس انسانی معاشرے کو بتدریج آگے لیکر جائے، تربیت کرے اور لوگوں کی برائیوں کو کم کرے تاکہ انسانیت اس مقام تک پہنچ جائے جو پوری انسانیت کے لیے کامیاب زندگی کا نقطہ آغاز ہے اور ہم اس دور کو حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کا دور سمجھتے ہیں۔ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کا دور انسانی زندگی کا آغاز ہے؛ انسانی زندگی کا اختتام نہیں ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے انسان کی حیات حقیقی اور اس عظیم انسانی کنبے کی خوشحالی کا حقیقی دور شروع ہوگا اور انسان کے لیے اس کرہ ارضی کی برکات اور اس فضاء میں پوشیدہ صلاحیتوں اور توانائیوں کے بے ضرر، بغیر نقصان، تباہی و بربادی کے بغیر استعمال کا امکان میسر ہوگا۔ یہ بات سہی ہے کہ آج انسان ایک چیز استعمال کرتا ہے تو دوسری چیز کو نقصان پہنچتا ہے۔ آج اگر اس نے ایٹم کی طاقت کو دریافت کر لیا ہے تو اسی ایٹمی طاقت کو انسانوں کی نابودی کے لیے کام میں لاتا ہے۔ زمین کی گہرائیوں سے تیل نکالتا ہے اور اسے انسانی زندگی کے ماحول کی تباہی و بربادی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حالیہ سو برسوں کے دوران تو ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ انسان نے انر‌‌ژی کی قوت اور پوشیدہ توانائیوں نیز بھاپ کی قوت سمیت توانائی کی دیگر تمام اقسام کو دریافت کر لیا ہے لیکن اسکے نتیجے میں انسان کی مادی زندگی کو جو سہولتیں فراہم ہوئیں ان کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لئے طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیاں بھی پیدا ہو گئیں۔ انسان کو سرعت اور سہولت تو فراہم کی ہے لیکن بہت سی چیزیں اس سے چھین لی ہیں۔ دوسری جانب اخلاقی قدروں کی پامالی ہے جس میں آج کا انسان پھنسا ہوا ہے۔ لیکن حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کے دور میں ایسا نہیں ہوگا۔ انسان برکات دنیا سے، فطرت کے دامن میں پوشیدہ توانائیوں اور چھپی ہوئی طاقتوں سے، جو انسان کی ترقی و پیشرفت کا سرمایہ ہیں، بے ضرر اور کسی نقصان کے بغیر فائدہ اٹھا سکے گا۔ سارے انبیاء اسی لیے آئے تھے کہ ہمیں اس مقام پر لے حائیں جہاں انسانی زندگی از سرنو شروع ہوتی ہے۔ پیغمبر خاتم اگر انسانوں کو آخری دین کے تقاضوں کے مطابق اس منزل پر لے جانا چاہتے ہیں تو انہیں کیا کرنا ہوگا؟ کہ انہوں نے جس طرح سے انسانوں کی تربیت کی ہے، تربیت کا یہ سلسلہ دائمی اور طولانی ہو اور کئی نسلوں تک چلتا رہے۔ کیونکہ خود پیغمبر اکرم کو تو اس دنیا سے چلے جانا ہے اس لئے کہ 'انّک میّت و انّھم میّتون' (4) لہذا کسی ایسے کو مقرر کرنے کی ضرورت ہے جو آپکے بعد بالکل آپ ہی کی طرح، اسی سمت میں اور اسی روش کے مطابق کام کرے۔ اور وہ علی ابن ابی طالب ہیں۔ اعلان غدیر کے معنی ہی یہ ہیں۔
اگر اس دن یہ امت مسلمہ، پیغمبر کے اعلان کو صحیح طور سے، اس کے حقیقی معنی و مفہوم کے ساتھ سمجھ لیتی اور اس کا خیر مقدم کرکے علی ابن ابی طالب کے پیچھے چل پڑتی اور تربیت نبوی کا سلسلہ قائم رہ جاتا اور امیرالمومنین کے بعد بھی معصوم اور خطا‎ؤں سے پاک انسان پیغمبر کی مانند نسل انسانی کو تربیت الہی کے مرحلے سے گزارتے رہتے تو پھر انسانیت بہت پہلے ہی اس مقام پر پہنچ چکی ہوتی جہاں وہ ہنوز نہیں پہنچ سکی ہے۔ انسانی علم اور فکر ترقی کرتی ؛ انسان کے روحانی درجات میں اضافہ ہوتا، انسانوں کے درمیان امن و آشتی قائم ہوتی اور ظلم و ستم، بدامنی، امتیازی سلوک اور ناانصافی کی بساط لپیٹ دی گئی ہوتی۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے، جو اس دور میں ہر انسان سے زیادہ پیغمبر اور امیر المومنین کے مقام و منزلت کو پہچانتی تھیں، فرمایا ہے کہ اگر تم علی کی پیروی کرتے تو وہ ایسی منزل کی رہنمائی کرتے اور ایسے راستے سے تمہیں لے جاتے، یہ اسی وجہ سے فرمایا ہے۔ لیکن انسان بڑا خطا کار ہے۔
تاریخ گواہ ہے، بڑی بڑی غلطیوں نے انسانوں کے مسقبل کو بڑی مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ نبىّ خاتم صلّى ‌اللَّه ‌عليه ‌و آله ‌و سلّم کے دور نبوت میں انسان کی ترقی کا قصہ نشیب و فراز سے پر، انتہائی اہم داستانوں کا حامل اور اپنے دامن میں بہت گہرا فلسفہ لئے ہوئے ہے۔ امیرالمومنین کے نام سے موسوم اس سال میں، اگرچہ یہ سال اور بعد کے سال بھی سب کے سب آپ ہی کے سال ہیں، بہرحال بہتر ہوگا کہ اس ادق فلسفہ پر بحث کی جائے۔ آج بھی انسان کو اسی کوشش اور تحرک کی ضرورت ہے۔ انسانی معاشرے، جس حد تک انصاف و معنویت کے ساتھ ساتھ چلیں اور انسان اخلاقی گراوٹوں، خودغرضی، کج فکری، بد دلی، شہوت پرستی اور خود پسندی سے جتنا دور ہوتا جائے گا اسی قدر اس مستقبل سے قریب ہوتا جائے گا (جہاں وہ فطرت کی تمام پنہاں برکتوں سے ان کے تمام تخریبی پہلوؤں سے بچتے ہوئے بہرہ مند ہو سکےگا)۔
تاریخ کے دوران انسان غلط راستوں پر چلتا رہا ہے اور ایسے راستوں پر جہاں سے وہ اپنی منزل مقصود سے بہت دور ہو گیا ہے۔ آج اسلامی انقلاب نے انسانیت کو پھر موقع فراہم کیا ہے۔ یہ اسلامی بیداری ایک اور موقع ہے۔ ایسے موقعے تاریخ میں اور بھی آتے رہے ہیں لیکن بہت ہی کم۔ تاریخ اسلام میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی کم ہوا ہے۔ مادیّت کے ٹھاٹے مارتے سمندر میں غرق ہوتی اخلاقی و معنوی اقدار کو بچانے کیلۓ، اچانک یہ لائف بوٹ، اسلام کی کشتی، اسلام کی قیادت میں اور قرآن کی رہنمائی میں سامنے آ گئی اور انسانوں کو اپنی جانب بلانے لگی۔ یہ کسی معمولی واقعے کی بات نہیں ہے۔ ایک قوم اس کشتی نجات سے چمٹی ہوئی ہے اور دیگر قوموں نے بھی دیکھ لیا کہ کوئی قوم، اسلام کے سفینہ نجات پر سوار ہوکر، بدعنوان، استبدادی اور پٹھو حکومت کے پنجے اور عالمی استکبار و سامراج کی غلامی سے کس طرح نجات پاتی ہے۔
ہم سب کو سمجھنا چاہئے اور خاص طور سے نوجوان اس جانب توجہ کریں؛ آج دنیا میں انقلاب کی موثر آواز، اس کی نشانیاں اور اس کا انعکاس اور بھی زیارہ گہرا ہو گیا ہے۔ البتہ اسلام کی آواز سے وحشت زدہ ہونے والے مخالفین کی پروپیگنڈہ مشینری سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ عالمی اثرات کو بیان کرے۔ وہ تو اس کا الٹا ہی رخ پیش کر رہی ہے، لیکن حقیقت وہی ہے جو میں عرض کر رہا ہوں۔ صرف عالم اسلام ہی میں نہیں، اس دنیا کے ہر گوشے میں، انسانوں کی روح کی گہرائیوں میں ملت ایران کی تحریک اثر کر گئی ہے۔ اکثر ممالک میں اور زیادہ تر اسلامی ملکوں میں نوجوانوں نے اسلام سے لو لگا لی ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے کا دور ہو یا ہمارے ہاں اسلامی حکومت کے قیام سے پہلے کی بات، ایسی قلبی وابستگی کہیں نہیں تھی۔ یہ راستہ، غدیر کا تسلسل ہے۔ یہ انسانیت کے لئے روشن راستے کا پرچم ہے تاکہ اس سنہرے پرچم کے سائے تلے، جلد سے جلد اس منزل تک پہنچا جا سکے جس کی تمام انتیاء نے بشارت دی ہے، سارے نبیوں اور پوری دنیا کے مصلحوں نے انسانوں کو اس کی خوشخبری سنائی ہے کہ یوم نجات آکر رہے گا۔
آج ہم پر، ہمارے تمام عہدیداروں اور عوام پر بھی غدیر کے حوالے سے ذمہ داریاں ہیں۔ ملک کے حکام کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ اپنے اعمال و کردار، حرکات و سکنات اور منصوبہ بندیوں کو اسلامی اہداف کے مطابق بنائیں جو غدیر کا بھی مقصد ہے۔ ساری دنیا، خاص طور سے صہیونی کمپنیاں، عالمی طاقتیں اور سرمایہ دارانہ نظام کتنا ہی برا منائے، تشہیراتی مہم چلائے، کوئی پروا نہیں۔ آج اسلامی انقلاب کی بنیادیں مستحکم ہیں اور کوئی بھی طوفان اس عظیم عمارت کو نہیں ہلا سکتا۔ کس چیز کا ڈر ہے؟ کس بات کا اندیشہ ہے؟ بعض افراد اپنے پروگراموں، احکامات، فیصلوں، بات چیت اور موقف کے اظہار میں، ہمیشہ اس بات سے پریشان رہتے ہیں کہ کہیں دنیا کے کسی کونے کا کوئي ریڈیو اسٹیشن، جو کسی جاسوسی ادارے سے وابستہ ہے، اس بات کے خلاف یا خود اس ک خلاف کوئی بات نہ کرے! کرتا ہے توکرے۔
آج اسلام کا پیغام ایک پرکشش پیغام ہے۔ ہمارا پیغام، انصاف کا پیغام ہے، انسانوں کی نجات اور نوجوانوں کی نجات کا پیغام ہے۔ جب ہم نوجوانوں کی بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے صرف اپنے معاشرے کے ہی نوجوان نہیں ہوتے۔ آج دنیا بھر کے نوجوان بدبختی اور بے سروسامانی کا شکار ہیں۔ معنویت سے دوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے رنج والم اور روحانی و نفسیاتی دباؤ نے آج ساری دنیا کی نوجوان نسلوں کو جکڑ رکھا ہے۔
ہمارے حکام، اسلام کے نام پر، اسلام کی خاطر، اسلام کے پیغام کے ساتھ، پوری شجاعت و قوت کے ساتھ اور کسی کی پروا کیے بغیر موقف اپنائیں، بات بھی کریں اور عمل بھی کرکے دکھائیں۔ ہماری قوم کو اور خاص طور سے نوجوان نسل کو غدیر کی برکت سے اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اسلام، قران اور غدیر نے جو راستہ معین کیا ہے، وہ ایک سنہرا راستہ ہے، ایسا راستہ ہے جو مضبوط دلیلوں اور خاص فلسفے کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا ہے اور اس پر عالی مقام اور عظیم المرتبت ہستیاں چلتی چلی آ رہی ہیں۔ آج بھی خوش قسمتی سے یہ راستہ دنیا کے سامنے ہے اور اب ہم تنہا اور کمزور بھی نہیں ہیں۔ آج ہم پوری دنیا، خاص طور سے اسلامی ملکوں کے عوام کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ہمارا راستہ خوشبختی کا اور روشن راستہ ہے؛ حکام کی کوششوں اور عوام کے مختلف طبقات کی حمایت سے ہو قدم بہ قدم اس راستے پر آگے بڑھتے رہیں گے، اگر چہ یہ ایک طویل راستہ ہے ۔ لیکن یہ وہی راستہ ہے جو بالآخر انسانیت کی نجات پر منتج ہوگا۔ وہی راستہ ہے جو ان شاء اللہ مہدی موعود صلوات اللہ علیہ و عجّل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کا راستہ ہموار کرےگا۔
میں دعا گو ہوں کہ خداوند متعال اس عید سعید کو آپ عزیزوں کے لئے جو اس محفل میں تشریف لائے ہیں، ایران کی عظیم الشان قوم اور پوری دنیا کے مومنین کے لئے مبارک قرار دے اور آپ سب کو اپنی برکتوں اور حضرت بقیۃ اللہ کی پاکیزہ دعاؤں میں شامل کرے اور ان شاء اللہ آپ کو اس عظیم ہستی کے حقیقی منتظروں اور ان کی زیارت کرنے والوں میں قرار دے۔

و السّلام عليكم و رحمة اللَّه و بركاته

(1) امالى طوسى صفحہ 247
(2) سورہ بقره آیت 129
(3) سورہ جمعه آیت 2
(4) سورہ زمر آیت 30