آپ نے اپنے خطاب میں عالمی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اہم ہدایات دیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آپ دیکھیں کہ بین الاقوامی روابط اور دنیا پر مسلط استکباری سیاست پر حکمفرما یہ کیسا ظالمانہ نظام ہے۔ علاج کیا ہے؟ وہی کام جو آج انجام دیا جا رہا ہے، اقوام انجام دے رہی ہیں، یقینا موثر ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ اجتماعات اور تہران، اصفہان، مشہد، شیراز، تبریز اور دیگر شہروں میں سڑکوں پر لگائے جانے والے یہ نعرے معمولی اثر کے حامل ہیں۔ نہیں، ان میں سے ہر ایک غاصب صیہونی حکومت کے پیکر پر پڑنے والے ایک زوردار مکے کا کام کرتا ہے۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس عظیم قوم کا جو اتنی موقع شناس ہے اور بروقت اقدام کرتی ہے، شکریہ ادا کروں۔
اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی اس عظیم اور بے مثال عید کی پوری امت اسلامیہ، اسلام کے طرفداروں اور تمام مسلمانوں، بالخصوص مومن، عظیم اور سربلند ایرانی قوم اور آپ حاضرین کرام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ عید الفطر اور عیدالاضحی میں جو نکتہ پوشیدہ ہے، یہ ہے کہ یہ دو دن ذہنوں میں اسلامی اصولوں کی تجدید کا موقع ہیں۔ نماز عید کی شکل میں بھی اور نماز کے خطبوں اور ان اجتماعات کی شکل میں بھی جن میں اسلام کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔ اسی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ آج کی نماز کے قنوت کی دعا میں مومنین پروردگار سے عرض کرتے ہیں کہ الذی جعلتہ للمسلمین عیدا و لمحمد ذخرا و شرفا و کرامتا و مزیدا (1) آج کا دن حضرت پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے شرف، سربلندی اور لوگوں کے اذہان میں آپ کی رسالت کے معنی و مفاہیم کے بڑھنے کا دن ہے۔
ایک موضوع جس پر آج کے دن توجہ ہونی چاہئے، امت اسلامیہ کے قالب و پیکر میں منعکس ہونے والی عظمت اسلام ہے۔ اسلامی حکومتوں سے ہماری درخواست یہ ہے کہ اس مسئلے پر خاص توجہ دیں۔ الحمد للہ اقوام نے حالیہ برسوں میں اسلام اور امت اسلامیہ کی اجتماعیت پر توجہ دی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تمام اقوام، متحد ہو گئی ہیں مگر مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یک جہتی کو محسوس کیا جا رہا ہے اور اس کے نغمے سنے جا رہے ہیں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے دلوں میں یہ امید پیدا ہو گئی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں بھی اس پر توجہ دیں۔ یہ وہ مسئلہ ہے کہ جس سے ہر اسلامی حکومت یعنی ہر اس سرزمین کی حکومت کو فائدہ پہنچے گا، جہاں مسلمان آباد ہیں۔ ایک بار مسلم اقوام میں قومی، لسانی اور نسلی فرق کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ، امت اسلامیہ کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کی علامت ہے۔ ہم نے دیکھا کہ گذشتہ حکومت کے دور میں، انتہا پسندانہ فارسیت، ایرانیت، نسل و نسب سے متعلق غلط افسانوی تصورات کو کس طرح فروغ دیا گیا۔ کس لئے؟ ایرانی قوم کا اس میں کیا فائدہ تھا؟ نقصان کے علاوہ اس کا کوئی اور نتیجہ نہیں تھا۔ سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ ایرانی قوم میں دیگر اسلامی اقوام سے الگ رہنے کی روش وجود میں آئی اور دیگر اقوام اور اس قوم میں لڑائی اور اختلاف کی صورت پیدا ہو گئی۔ یہی کام عرب اقوام کے ساتھ بھی کیا۔ یہی کام اس علاقے کی بعض دیگر اقوام کے ساتھ کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ میں اس کا مخالف نہیں ہوں کہ ہر قوم، اپنی قومیت کے تحت، اپنے مخصوص اوصاف کی حفاظت کرے لیکن صرف اسی حد تک کہ امت اسلامیہ کی یک جہتی کو نقصان نہ پہنچے۔ یہ سب پر مقدم ہے۔ یہ اہم ہے۔ اس کا عالمی سطح پر اثر ہے۔ افسوس کہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف کاروائیاں ہو رہی ہیں اور عالمی اداروں میں ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ جیسے گزشتہ دنوں مقبوضہ فلسطین میں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے روضے میں جو واقعہ رونما ہوا ہے، یا بوسنیا ہرزے گووینا میں جو ہو رہا ہے، یا کشمیر کے واقعات یا دنیا کے دیگر علاقوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے۔ اگر امت اسلامیہ میں کسی حد تک اتحاد ہوتا اور وہ ان معاملات پر موقف اختیار کرتی تو یقینا یہ واقعات رونما نہ ہوتے۔ آپ دیکھیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے روضے میں کتنا بڑا واقعہ رونما ہوا۔ اگر یہی واقعہ دنیا کے کسی ایسے علاقے میں رونما ہوتا جہاں سپر طاقتوں کا تھوڑا سا مفاد ہوتا تو اس پر کیا ردعمل ہوتا؟ اگر کسی اور حکومت میں عوام کے ساتھ حتی ان لوگوں کے ساتھ جو اس ملک میں غیر شمار ہوتے ہیں، ایسا واقعہ پیش آ جاتا تو کیا ممکن تھا کہ حکومت کو قصوروار نہ ٹھہرایا جاتا اور اس کی سرزنش نہ کی جاتی؟ اس سے قطع نظر کہ فلسطینی وہاں کے اصلی مالک ہیں، ایسے مالک ہیں جو اقلیت شمار ہوتے ہیں، اگر وہ مالک نہ ہوتے تب بھی اس واقعے پر بین الاقوامی اداروں کو اور ہر اس شخص کو جو دنیا میں اور عالمی مسائل میں با اثر ہے، صیہونی حکومت کا مواخذہ کرنا چاہئے تھا اور اس کو سزا دینا چاہئے تھا لیکن کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ مقالے لکھتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، حتی کچھ افراد مذمت کر رہے ہیں، لیکن حکومتیں اس واقعے کی زبانی مذمت کے لئے بھی تیار نہ ہوئیں۔
آپ دیکھیں کہ بین الاقوامی روابط اور دنیا پر مسلط استکباری سیاست پر حکمفرما یہ کیسا ظالمانہ نظام ہے۔ علاج کیا ہے؟ وہی کام جو آج انجام دیا جا رہا ہے، اقوام انجام دے رہی ہیں، یقینا موثر ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ اجتماعات اور تہران، اصفہان، مشہد، شیراز، تبریز اور دیگر شہروں میں سڑکوں پر لگائے جانے والے یہ نعرے معمولی اثر کے حامل ہیں۔ نہیں، ان میں سے ہر ایک غاصب صیہونی حکومت کے پیکر پر پڑنے والے ایک زوردار مکے کا کام کرتا ہے۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس عظیم قوم کا جو اتنی موقع شناس ہے اور بروقت اقدام کرتی ہے، شکریہ ادا کروں۔
ہمارے عوام نے گیارہ فروری کو یوم آزادی کے جلو‎سوں میں بھی اور جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس کے مظاہروں میں بھی عدیم المثال شراکت کا ثبوت دیا ہے۔ لیکن ہم بعض دیگر مسلم اقوام کو ملامت نہیں کر سکتے۔ فرق ہے، اس قوم میں جس کی حکومت اور ملک کے حکام عالمی یوم القدس کے جلوسوں میں شرکت کے لئے حوصلہ افزائی کریں اور اس قوم کے افراد سڑکوں پر آکر امریکا اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگائیں اور اس قوم میں جس کے افراد اسی قانونی اقدام کی پاداش میں ڈنڈے کھائیں۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس ملک کی مسلمان قوم ایرانی قوم کی طرح حرکت میں کیوں نہیں آتی۔ وہاں بھی اگر حکومتیں عوام کے ساتھ تعاون کرتیں، ان کی حوصلہ افزائی کرتیں، انہیں سڑکوں پر لاتیں یا کم سے کم رکاوٹ نہ ڈالتیں، تو لوگ اسی طرح سڑکوں پر آتے۔ اس قضئے میں لوگوں کے جذبات اور اس قضئے کے بارے میں ان کا ادراک بہت اعلی سطح پر ہے۔ لیکن یہ فرائض جو اقوام انجام دیتی ہیں، یہ کام اس وقت غاصب حکومت کے لئے، مہلک ثابت ہوں گے جب امت اسلامیہ متحد ہوکر اقدام کرے، متحد ہوکر اس کی مذمت کرے، متحد ہوکر اس کا مواخذہ کرے، متحد ہوکر فلسطین کے مسئلے میں پیروی کرے، متحد ہوکر فلسطین کے اصلی مالکین کو امن و سلامتی فراہم کرنے کے لئے اقدام کرے۔ اگر دنیا کے مسلمانوں نے یہ کام نہ کیا تو خود مظلوم فلسطینی عوام انجام دیں گے۔ اگر مسلم حکومتیں مظلوم فلسطینی قوم کا جو اپنے ہی وطن میں غریب الوطن ہے، دفاع نہ کر سکیں کہ وہ اپنے گھر میں محفوظ رہ سکے، تو خود فلسطینی اپنے وطن میں اپنے لئے امن و سلامتی فراہم کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کریں گے۔ وہ یہ کام کریں گے اور اسلام کی برکت سے یہ کام ہو سکتا ہے۔ دعا ہے کہ خداوند عالم تمام اقوام کو بیدار کرے۔ تمام حکومتوں کو ان کے فرائض سے روشناس کرائے اور اس راہ میں ہماری عزیز قوم کو توفیق اور نصرت عطا کرے۔ میں یہاں آپ تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں آپ نے زحمت کی، تشریف لائے اور غیرملکی مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خدا آپ پر لطف و کرم فرمائے۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1) مفاتیح الجنان ؛ نماز عید الفطر دعائے قنوت