16 فروردین 1371 ہجری شمسی مطابق 4 اپریل سنہ 1992 عیسوی کو اپنے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ مادی ترقیات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان منزل کمال پر پہنچ گیا ہے۔ کمال بشر کچھ اور ہے۔ کمال بشر یہ ہے کہ اس کا دل اور فکر پاکیزہ ہو۔ خیر خواہ، صاحب معرفت، خدا شناس اور خداپرست انسان وہ ہے کہ جس کا عمل، جس کے حرکات و سکنات، جس کی گ‍فتار، جس کا کردار، حتی جس کی سوچ اور ذہنی تصورات بھی صرف رضائے خدا کے لئے ہوں۔ اس کے ہاتھ سے کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ دیگر انسانوں پر مہربان رہتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اسلامی نظام کی خوبیوں اور سامراجی طاقتوں کی طرف سے دین اسلام کے خلاف جاری ریشہ دوانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ملک کے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو بہت اہم ہدایات دیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد وعلی آلہ الاطیبین المنتجبین، سیما بقیۃ اللہ فی الارضین قال اللہ الحکیم فی کتابہ یا ایّھا النّبی انّا ارسلناک شاھدا و مبشرا و نذیرا و داعیا الی اللہ باذنہ و سراجا منیرا (1)

خدا کا شکر ہے کہ اس نے اس عید اور عظیم اسلامی جشن کے موقع پر آٹھویں امام حضرت امام رضا علیہ الصلاۃ و السلام کے روضے کے سائے میں آپ عزیز بہنوں اور بھائیوں کے اجتماع میں حاضر ہونے کی توفیق عنایت فرمائی۔
آپ عزیز اور با شرف بہنوں اور بھائیوں پر خدا اپنے الطاف اور رحمتیں نازل فرمائے اور اس عظیم عید کو آپ سب کے لئے مبارک کرے۔
میری نظر میں جو بحث ہے وہ اسلامی تعلیمات اور قرآنی و اسلامی قواعد و ضوابط پر استوار ہے۔ اسلامی تعلیمات کا ایک موضوع جو میں اس وقت اس اجتماع میں بیان کرنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ انسان اس عالم میں منزل کمال تک پہنچنے کے لئے آیا ہے۔ انسان کی خلقت اس لئے ہوئی ہے کہ اس عالم کون و مکاں میں، امتحان کے اس میدان میں، تکامل کی منزلیں طے کرے۔ یہ ہدف صرف انسانوں سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ دیگر مخلوقات بھی اس دنیا میں کمال تک پہنچنے کے لئے آتی ہیں۔ ہر مخلوق کا کمال اس کی فطرت اور ساخت کے مطابق ہوتا ہے۔ ایک پھل دار درخت کا کمال یہ ہے کہ وہ پھل دینے کے مرحلے تک پہنچے۔ پھولوں کے ایک پودے کا نقطہ کمال یہ ہے کہ وہ انسانوں کے استفادے کے لئے خوشبودار پھول دے۔ انسان کا کمال بھی اس کی فطرت اور ذات کے مطابق ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو انسان بھی اس دنیا میں آتا ہے وہ یقینا کمال تک پہنچے گا۔ نہیں، بلکہ بہت سے انسان برسوں اس عالم میں رہتے ہیں لیکن کمال تک نہیں پہنچتے۔ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے آپ بچے کو اسکول میں اس لئے ڈالتے ہیں کہ وہ عالم بنے۔ لیکن اسکول جانے والا ہر بچہ عالم نہیں بنتا۔ بعض افراد کو توفیق ملتی ہے تو وہ علم حاصل کرتے ہیں اور بعض نہیں حاصل کرتے۔ ضروری ہے کہ رکاوٹیں پہچانی جائیں۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کون سی رکاوٹیں ہیں کہ جن کے باعث وہ مخلوق جو کمال تک پہنچنے کے لئے اس عالم خلقت میں لائی گئی ہے، کمال تک نہیں پہنچتی۔
دیگر مخلوقات کے تکامل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو پہچاننا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ لیکن انسان چونکہ پیچیدہ مخلوق ہے اور اس میں گوناگوں پہلو پائے جاتے ہیں اس لئے اس کے تکامل میں حائل رکاوٹوں کو تلاش کرنا بہت دشوار ہے۔ کیونکہ انسان کے تکامل کی رکاوٹیں انواع واقسام کی ہیں۔ انبیائے الہی آئے تاکہ یہ رکاوٹیں دور کریں اور خدا نے تکامل کا جو راستہ معین کیا ہے اس کو کھولیں اور انسانوں کو دکھائیں۔ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے اور اس کے بارے میں بحث بہت طولانی ہے۔ اس اہم جگہ پر اور اس عظیم جلسے میں، میں اس کے مختصر حصے اور کلی بحث پیش کروں گا۔
اجمالی طور پر انسان کے سامنے دو طرح کی رکاوٹیں ہیں۔ ایک وہ رکاوٹیں ہیں جو خود اس کے باطن میں ہیں۔ جو اس کے وجود سے باہر ہیں، اس کی شخصیت اور نفسیات میں نہیں ہیں۔ دونوں قسم کی رکاوٹیں خطرناک اور اس کی پیشرفت میں مانع ہیں۔ انسان کے باطن میں موجود رکاوٹوں میں غلط خلق و خو کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ مثلا انسان کے تکامل میں اس کی خود پسندی ایک رکاوٹ ہے۔ خود پسندی اور خودغرضی کہ انسان صرف اپنی ذات کو اہمیت دے اور دوسروں کو کچھ نہ سمجھے، انسان کے تکامل میں بہت بڑی رکاوٹ ہے، جو اس کے اندر، حسد، لالچ، حرص وطمع اور برادرکشی کی خو پیدا کرتی ہے۔ ان برائیوں میں مبتلا انسان بہت سی جنگیں شروع کر دیتا ہے اور بہت سے مظالم اور ستم انجام دیتا ہے۔ ان سب کی جڑ خود پسندی ہے۔
ایک اور رکاوٹ جو انسان کو راہ کمال پے آگے بڑھنے سے روکتی ہے، کاہلی، سستی، کام سے بے رغبتی اور اہم کاموں کی نسبت بے اعتنائی ہے۔ آپ ماہ رمضان کی پہلی شب کی دعا میں پڑھتے ہیں اللھمّ اجعلنا ممن نوی فعمل ولا تجعلنا ممن شقی فکسل ولا ممن ھو علی غیر عمل یتکل (2)۔ دیکھیں کتنی معنی خیز اور سبق آموز عبارت ہے اس دعا میں۔ دعا کرنے والا اس بات سے کہ کاہل اور بے عمل لوگوں میں ہو، خدا سے پناہ مانگتا ہے۔ ان لوگوں میں نہیں ہونا چاہتا کہ جو چاہتے تو ہیں مگر عمل نہیں کرتے اور توقع رکھتے ہیں کہ بغیر کام کے نتیجہ حاصل کر لیں۔ بوئے بغیر کاٹنا چاہتے ہیں۔ ولاتجعلنا ممن شقی فکسل ولا ممن ھو علی غیر عمل یتکل کہتا ہے میرے خدا ' مجھے ان لوگوں میں قرار نہ دے جو صرف آرزو پر تکیہ کرتے ہیں اور عمل اور کوشش نہیں کرتے۔
آپ دنیا کے پسماندہ معاشروں پر ایک نظر ڈالیں۔ مختلف ملکوں میں ہمارے اسلامی معاشروں کو ہی دیکھ لیں۔ مادی اور معنوی لحاظ سے ان ملکوں کی پسماندگی کا ایک راز، یہ ہے کہ ان کی زندگی میں عمل کا کردار زیادہ نہیں ہے۔ یہ اندرونی مشکلات اور بیماریاں ہیں۔ یہ انسان کی باطنی رکاوٹیں ہیں جنہوں نے اس کو کام سے روک رکھا ہے۔ انہی میں سے ایک نفسانی خواہشات اور شہوت پرستی ہے۔ جو جی چاہے کرے! انجام کی فکر کئے بغیر ہوا و ہوس میں ڈوبا رہے۔ ایک مشہور روایت میں منقول ہے کہ انّ اخوف ما اخاف علیکم اثنان، اتباع الھوی و طول الامل (3) یعنی خوفناک ترین مصیبت جس میں تم مسلمانوں کے مبتلا ہونے کا خوف ہے یہ ہے کہ کہیں اپنے نفس کی پیروی نہ کرنے لگو۔ یعنی خواہشات نفس کو عقل پر غالب کر لینا۔ یہ سب باطنی رکاوٹیں ہیں۔
رکاوٹوں کی ایک قسم وہ ہے جو انسان کے وجود سے باہر ہے۔ مثلا ظالم اور ڈکٹیٹر حکومتیں تاریخ میں ہمیشہ انسانوں کے تکامل میں رکاوٹ بنی ہیں۔ بڑے سرمائے داروں اور زراندوزوں کی پوری کوشش یہ رہی ہے کہ خود کسی مقام تک پہنچ جائیں اور انہوں نے اپنے مقصد کے لئے دوسروں کو استعمال کیا ہے، ان کا استحصال کیا ہے۔ یہ سب کمال بشر میں حائل رکاوٹیں ہیں۔ ان کی برائیاں، ان کے مظالم، ان کی طاقت، ان کا پیسہ، ان کے کوڑے، ان کی شمشیر اور آج ان کے ایٹم بم، بیلسٹک میزائل، ان کی پیچیدہ پالیسیاں، ان کی تشہیراتی سازشیں، ان کی فوجیں، یہ سب اس بات کا موجب بنتی ہیں کہ اربوں انسان راہ کمال سے دور رہ جائیں۔ جن ملکوں میں سلطنتیں ہیں، مستبدین ان پر حکومت کر رہے ہیں، یا حکومت اور زمام امور غیروں اور بیرونی طاقتوں سے وابستہ عناصر کے ہاتھ میں ہے، وہاں انسان راہ کمال طے نہیں کر سکتے۔ جب سماجی نظام صحیح نہ ہو بلکہ غلط اور ظالمانہ ہو اور جب لوگوں کی حکومت صحیح نہ ہو، قانون صحیح نہ ہو اور حکام مومن اور عوام کے ہمدرد نہ ہوں تو ان حالات میں انسان تکامل تک نہیں پہنچ سکتا۔
اگر یہ رکاوٹیں نہ ہوتیں تو آج دنیا کا منظر کچھ اور ہوتا۔ یعنی یہ مظالم، غربت، برائیاں، بد بختی اور کمزور طبقات کے حقوق کی پامالی نہ ہوتی۔ اتنی برادرکشی، محرومیت اور طبقاتی فاصلے نہ ہوتے۔ جتنی مصیبتیں انسانی تاریخ میں رہی ہیں، وہ سب آج بھی جو عظیم سائنسی ترقیات کی صدی ہے، بعینہ موجود ہیں۔ یہ سب اس بات کا باعث ہیں کہ انسان تکامل تک نہ پہنچ سکے۔ اس صورت میں انسان، غیر تربیت یافتہ اور ناقص رہتا ہے اورغیر تربیت یافتہ انسان کی دنیا، برائیوں، مظالم اور مصیبتوں کی دنیا ہے جو ماضی میں بھی رہی ہیں اور آج بھی عالمی سطح پر نظر آ رہی ہیں۔
لیکن اس تکامل کا مطلب کیا ہے جس کی ہم بات کر رہے ہیں؟ انسان کے کامل ہونے کا مطلب کیا ہے؟ اگر انسان نئی ایجادات کر لے اور علم و دانش کے مختلف میدانوں میں ترقی کر لے تو کیا وہ کامل ہو جائے گا؟ جب کسی قوم کی زندگی میں کمپیوٹر، خلائی راکٹ اور مواصلاتی وسائل آ جائیں تو کیا اس کو کامل کہا جا سکتا ہے؟ نہیں، ادیان الہی کی منطق میں اور صاحب عقل انسانوں کی نظر میں یہ کمال نہیں ہے۔ آج ترقی یافتہ ممالک جن وسائل سے آراستہ ہیں اور وہ ان کی طاقت کا ذریعہ ہیں، ضروری نہیں ہے کہ یہ وسائل کاملیت کا باعث بھی ہوں۔ یہ صحیح ہے کہ پیسہ، اسلحہ، ایجادات، سائنس، ٹکنالوجی، اور سائنسی ترقیات قوم کو طاقتور بناتی ہیں لیکن ہر طاقتور کامل نہیں ہوتا۔
آپ ایک عاقل، عالم، متقی و پرہیزگار انسان کو ایک مضبوط عضلات والے لٹیرے اور بدمعاش شخص کے مقابلے پر کھڑا کر دیں۔ متقی اور پرہیزگار دانشور جسمانی لحاظ سے اس کے مقابلے میں کمزور ہے لیکن اس کے حریف کے طاقتور ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کامل بھی ہے۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ ہمیں اس جگہ تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے جہاں مغربی اقوام ہیں تو یہ غلط ہے۔ ان کا علم ہمیں حاصل کرنا چاہئے۔ اگر پیشرفتہ سائنس و ٹکنالوجی اور علم و دانش ایک صحیح اور کامل قوم کے پاس ہو تو خیر و برکت کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ جدید اسلحے اگر ایک عاقل اور کامل قوم کے پاس ہوں تو خطرناک نہیں ہیں۔ ایٹمی توانائی اگر دنیا کے عقل مند اور صحیح انسانوں کے پاس ہو تو انسانوں کی ترقی کا باعث بنے گی۔ لیکن جو قوم کمال کی مالک نہیں ہے، اس کے ہاتھ میں ایٹمی طاقت، انسانی حیات کے لئے خطرہ ہے۔ بین بر اعظمی میزائل، ایٹمی ہتھیار، پیشرفتہ اسلحے کے گودام، حیرت انگیز خلائی اور مواصلاتی ٹکنالوجی، آج مستکبر طاقتوں کے پاس موجود ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اس کا نتیجہ ظلم ہے جو آج امریکا ديگر اقوام کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے اور کل سوویت یونین نے روا رکھا تھا۔ جب اسلحہ، طاقت، پیسہ، سیاست، میڈیا اور تشہیراتی وسائل دنیا کی غیر تربیت یافتہ طاقتوں کے پاس ہوں تو نتیجہ یہی ہوگا کہ امریکا دنیا کے اس کونے سے خیلج فارس میں آتا ہے اور اس کے بیڑے یہاں تعینات ہوتے ہیں تاکہ کسی ملک پر بمباری کرے، کسی ملک کو دھمکی دے، خلیج فارس کا امن و امان ختم کر دے اور علاقے کے لوگوں کی دنیا و آخرت خطرے میں ڈال دے۔ وہ یہ کام کیوں کرتا ہے؟ کیونکہ بقول خود، علاقے میں اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ وہی کام ہے جو ظالم اور ستمگر، کمزوروں کے ساتھ کرتے ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم پر ظلم کرے۔ سامراجی دور میں، کچھ اقوام دنیا کے اس کونے سے، سمندروں کے اس پار سے اس طرف آئیں، ہندوستان، برصغیر ہند، چین جیسے بڑے ملک، ایشیائی ممالک اور خود ہمارے ملک کو روند ڈالیں! انسانوں کو، ان کے آبرو کو، ان کے اعتبار کو، ان کے دین کو اور ان کی ثقافت کو اپنے مفادات کے لئے کچل ڈالا! ان کے پاس علم ہے، طاقت ہے، اسلحہ ہے، لیکن کمال نہیں ہے۔ کمال کی علامت یہ نہیں ہے کہ کوئی انسان دوسرے انسان کو کھا جائے۔ آپ دیکھیں کہ یہ طاقتیں اس پیسے اور اسلحے سے جو ان کے پاس ہے، کمزرور اقوام کو نگلتی جا رہی ہیں۔ ان کے ملکوں کے اندر بھی حالت اس سے بہتر نہیں ہے۔ امریکا کے ترقی یافتہ اور دولتمند معاشرے کے اندر طبقاتی اختلافات بہت زیادہ ہیں۔ وہاں سیاہ فاموں، غریبوں اور مزدوروں پر ظلم ہوتا ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی اور دولت و ثروت کے اس مرکز میں بہت سے انسان راتوں کو آورہ کتوں کے پاس سڑکوں پر سوتے ہیں۔ انسان انسان کو ناحق قتل کر دیتا ہے۔ امریکا میں اس کے باوجود کہ سائنس، ٹکنالوجی، دولت اور مادی ترقیات ہیں لیکن قتل اور جرائم دنیا کے دیگر علاقوں سے زیادہ ہیں۔
بنابریں ہم دیکھتے ہیں کہ مادی ترقیات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان منزل کمال پر پہنچ گیا ہے۔ کمال بشر کچھ اور ہے۔ کمال بشر یہ ہے کہ اس کا دل اور فکر پاکیزہ ہو۔ خیر خواہ، صاحب معرفت، خدا شناس اور خداپرست انسان وہ ہے کہ جس کا عمل، جس کے حرکات و سکنات، جس کی گ‍فتار، جس کا کردار، حتی جس کی سوچ اور ذہنی تصورات بھی صرف رضائے خدا کے لئے ہوں۔ اس کے ہاتھ سے کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ دیگر انسانوں پر مہربان رہتا ہے۔ دوسرے انسانوں کی نسبت اور ان کے حقوق کے سلسلے میں ذمہ داری کا احساس کرتا ہے۔ انبیاء انسانوں کو ایسا بنانا چاہتے تھے۔ خدائی معاشرہ، انسانوں کے دل کو فتح کر لینے والا معاشرہ ہے۔ صحتمند و سالم احساسات و جذبات سے معمور معاشرہ ہے۔ ایسا معاشرہ ہے جس کے اندر نہ تو ایک شخص دوسرے شخص پر اور نہ ہی وہ معاشرہ کسی دوسرے معاشرے پر ظلم نہیں کرتا۔ ایسا معاشرہ ہے جس میں ہر کام اس احساس کے ساتھ انجام دیا جائے کہ خدا دیکھ رہا ہے اور وہ مواخدہ کرے گا۔ ایسا معاشرہ ہے جس کے افراد غفلت میں نہ رہیں۔ مادیات میں نہ ڈوبیں۔ خود بینی اور خود پرستی کا شکار نہ ہوں۔ جس میں ہر کام خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لئے کیا جائے۔ ایسا معاشرہ کامل معاشرہ ہے اور اس میں رہنے والے انسان کمال تک پہنچنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
انبیاء ایسا ہی معاشرہ وجود میں لانے کے لئے آئے تھے۔ جس معاشرے میں لوگ صحیح نہج پر سوچیں اور صحیح عمل کریں۔ صاحب رحم و مروت ہوں۔ خدا کے حضور احساس ذمہ داری رکھتے ہوں۔ دینی سوچ رکھتے ہوں۔ مادیت میں نہ ڈوبے ہوں۔ سب کچھ صرف اپنے لئے نہ چاہتے ہوں۔ اگر اس کو مادی طاقت اور آسائش مل جائے تو وہ پیسہ، طاقت، پیشرفت اور مادی آسائش، دنیا کے تمام انسانوں کے لئے بھلائی کا باعث بنے گی۔ جیسا کہ صدر اسلام میں ہوا۔ اسلام آیا اور اس نے دنیا میں علم و معرفت کے چراغ جلائے۔ اسلام آیا اور صدر اسلام کے فاتح معاشرے میں جتنا دین تھا اتنا ہی عالمی سطح پر سماجی انصاف قائم ہوا۔ انسانوں کی اتنی ہی تربیت ہوئی۔
اب سوال یہ ہے کہ انسانوں کو اس مرحلے تک پہنچانے کے لئے اور رکاوٹیں دور کرنے کے لئے، پیغمبران خدا کے پاس کیا دستورالعمل تھا؟ قرآنی آیات جواب دیتی ہیں۔ جس آیت کی میں نے ابتدائے کلام میں تلاوت کی، وہ اصل ہدف کو بیان کرتی ہے؛ انا ارسلناک شاھدا ومبشّرا و نذیرا و داعیا الی اللہ باذنہ وسراجا منیرا اے پیغمبر ہم نے آپ کو روشن چراغ بنا کے بھیجا ہے تاکہ لوگوں کو خدا کی طرف بلائیں، انہیں جزائے الہی کی بشارت دیں اور عذاب الہی اور ان مصیبتوں سے جو انسان کی تاک میں ہیں، ڈرائیں۔
اس ہدف کی راہ میں ایک اور مرحلہ بھی ہے اور وہ اسلامی نظام اور معاشرے کی تشکیل کا مرحلہ ہے۔ لقد ارسلنا رسلنا بالبیّنات و انزلنا معھم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط(4) یعنی انبیاء عادل معاشرہ قائم کرنے کے لئے آئے تھے۔ عادل معاشرے کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ ایک علامت یہ ہے کہ اس معاشرے کی حکومت غلط، عوام دشمن اور مسلط کردہ نہ ہو۔ پیغمبروں کی حکومت عوامی حکومت تھی۔ لوگوں کی خاطر اور ان کے مفاد کے لئے تھی اور لوگ بھی پیغمبران خدا سے محبت کرتے تھے۔ جب ہمارے پیغمبر نے حکومت تشکیل دی، لوگ ان سے محبت کرتے تھے۔ جب ابوسفیان نے فتح مکہ سے ایک رات قبل، پیغمبر کے چچا عباس کے توسط سے خفیہ طور پر مسلمانوں کے کیمپ میں گھوم کے دیکھا اور صبح کے وقت دیکھا کہ لوگ پیغمبر کے وضو کا پانی لینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا رہے ہیں اور اس پانی کو اپنے چہرے پر مل رہے ہیں تو ابو سفیان نے عباس سے کہا؛ حیرت ہے میں نے قیصر و کسری کو، سلطان روم اور شاہ ایران کو دیکھا ہے، لیکن جو شان تمھارے بھتیجے کی ہے کسی میں نہ دیکھی۔ وہ طاقت کے زور پر لوگوں پر حکومت کرتے تھے، لیکن یہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں، لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور ان پر ایمان رکھتے ہیں۔
ایسی حکومت، ایسی عوامی بنیادوں پر قائم حکومت، اصلاحات انجام دے سکتی ہے۔ جس روش کی بنیاد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکھی تھی اگر بنی امیہ اور بنی عباس کی سلطنت نے اس کو ختم نہ کیا ہوتا تو آج دنیا کا منظر کچھ اور ہوتا۔
یہیں سے اس بحث کو شروع کرتے ہیں جو ہمارا اصل مقصد اور ہدف تھی۔ آپ اہل بینش ہیں، الحمد للہ آج ایرانی قوم کی سیاسی بینش بہت اعلی سطح کی ہے۔ یہ میں صرف آپ کو خوش کرنے کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ عین حقیقت ہے جو بیان کر رہا ہوں۔ آج ہماری خواتین و حضرات حتی دور افتادہ شہروں اور دیہی بستیوں کے لوگ بھی سیاسی باتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ایک وقت وہ تھا جب سیاسی باتیں روشنفکروں سے مخصوص تھیں۔ لیکن آج آپ ہماری قوم کے کسی بھی مرد یا عورت سے مسئلہ فلسطین کے بارے میں سوال کر لیں، دیکھیں کہ وہ مسئلہ فلسطین سے واقف ہے یا نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ فلسطین ایک اسلامی ملک تھا جس پر غاصب صیہونیوں نے بڑی طاقتوں کی مدد سے برسوں سے قبضہ کر رکھا ہے، مسلمان فلسطینی عوام اس جگہ کو واپس لینے کے لئے مجاہدت کر رہے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں کون ہے جو اس قضیے سے ناواقف ہے؟ یہ ہمارے معاشرے کے لوگوں کے لئے عام سی باتیں ہیں جن سے ہر فرد واقف ہے۔ اسلامی انقلاب سے قبل اس مسئلے سے واقفیت رکھنے والے، بہت تھوڑے سے لوگ تھے جو روشنفکر اور کتاب پڑھنے والے خاص افراد ہوتے تھے۔ ہر ایک واقف نہیں تھا۔
آج پوری ایرانی قوم، عورت، مرد، بوڑھے، جوان، ملک کے ہر حصے کا رہنے والا انسان جانتا ہے کہ دنیا میں ایک خودسر طاقت اسلحے، سیاست، زور زبردستی اور تشہیراتی حربوں کے ذریعے، اقوام پر ظلم کر رہی ہے۔ کہیں طاقت کے ذریعے داخل ہوتی ہے، کہیں سیاست کے ذریعے جیسے نیکارا گوا میں، کہیں فوجی بغاوت کروا کر داخل ہوتی ہے، کہیں سربراہان مملکت کے گھروں پر بمباری کرکے، کہیں پروپیگنڈوں کے ذریعے اور کہیں پیسوں کے ذریعے داخل ہوتی ہے۔ اس کو سب جانتے ہیں۔ استکبار کے مسئلے اور اقوام کے مفادات پر ایک سپر طاقت کے تسلط کے مسئلے سے ہمارے ملک میں کون ناواقف ہے؟ سب جانتے ہیں۔ اس کے خلاف نعرے لگاتے ہیں اور اس کی باتیں کرتے ہیں۔ ہمارے دیہی علاقوں کے بسیجی جب محاذ پر جاتے تھے تو وصیت میں اس کو لکھتے تھے۔ یہ ہمارے معاشرے کے لئے 'بیّنات' میں سے ہے۔ آپ کے خیال میں انقلاب سے پہلے کتنے فیصد لوگ استکبار، استحصال اور اقوام کے مفادات پر سپر طاقتوں کے مفادات کے غلبے سے واقف تھے؟ تھوڑے سے روشنفکر حضرات واقف تھے۔ آج یورپ اور خود امریکا میں ان مسائل کو سمجھنے والے ہمارے عوام کی نسبت بہت کم ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ آج دنیا میں کیا ہو رہا ہے، لیکن آپ جانتے ہیں۔ یہ سیاسی بینش اور ترقی ہے۔
ہماری قوم اس ترقی اور سیاسی بینش سے ایک بات اچھی طرح سمجھتی ہے کہ آج عالمی سطح پر دو چیزیں ہیں جن میں ہر ایک دوسرے سے زیادہ پرتشدد، سخت اور وحشیانہ ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا کی طاقتیں خاص طور پر امریکا، دوسرے ملکوں اور اقوام کے ساتھ جو چاہتا ہے کرتا ہے، دنیا کے آزاد سمندری علاقوں کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے، عالمی مسائل کو اپنے اختیار کی چیز سمجھتا ہے، سیارچہ بھیجنے اور ملکوں، شہروں، سڑکوں، حتی لوگوں کے گھروں کی جاسوسی کے لئے کسی سے اجازت نہیں لیتا ہے۔ آج امریکا کے پاس جو وسائل ہیں ان کے ذریعے وہ ہمارے اس مجمعے کی بھی تصویریں اور فلم تیار کر سکتا ہے۔ مثلا کوئی اپنے گھر کے کسی کونے میں بیٹھا چائے پی رہا ہے، وہ اس کو دیکھ سکتے ہیں اور اس کی جاسوسی کر سکتے ہیں۔ انہی وسائل کے ذریعے وہ دفاع مقدس کے آخری برسوں میں ہماری افواج اور جملہ نقل و حرکت کی فلمیں تیار کرکے عراق کو اس کی اطلاع دے دیتے تھے۔ اس کام میں وہ مسلسل مصروف تھے۔ آج بھی پوری دنیا میں، جہاں بھی ان کے مفاد کا تقاضا ہوتا ہے یہ کام کرتے ہیں اور کسی سے اجازت نہیں لیتے۔ کسی کی مذمت کرتے ہیں، کسی کو دہشتگرد کہتے ہیں، کسی کو انسانی حقوق کا مخالف قرار دیتے ہیں، کسی ملک میں الیکشن ہو تو وہاں اپنے افراد بھیجتے ہیں اور مداخلت کرتے ہیں، پروپیگنڈہ کرتے ہیں، سازش کرتے ہیں، بغاوت کرواتے ہیں، جو چاہتے ہیں کرتے ہیں! خود کو دنیا کا مالک سمجھتے ہیں۔ کل تک امریکا اور سوویت یونین تھے آج ان میں سے ایک نہیں ہے تو دوسرے نے اس میدان کو اپنے لئے کھلا پایا ہے اور سرکشی کر رہا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے سب واقف ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں۔
دوسری بات جو اس سے بھی سخت ہے، یہ ہے کہ جہاں بھی اسلام کی کوئی علامت ہے وہاں زیادہ سختی کی جاتی ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا وہ جگہ افریقا ہو یا کوئی آزاد اسلامی ملک ہو، چاہے کسی ملک میں مسلمان اقلیت میں ہی کیوں نہ ہوں، ایشیا ہو، عرب ملک ہو، غیر عرب ملک ہو، وہاں کے لوگ اسلامی سیاسی نظام کی تشکیل کی فکر میں ہوں یا نہ ہوں، جہاں بھی اسلام کی کوئی نشانی ہے، وہاں اس کے خلاف محاذ، صف بندی اور سازش ہے۔ اگر سازش پر عمل کر سکے تو کرتے ہیں اور اگر نہ کر سکے تو گھات میں رہتے ہیں کہ موقع ملتے ہی اس پر عمل کریں۔ اس کو ہماری قوم دیکھ رہی اور سمجھ رہی ہے۔
لیکن وجہ کیا ہے جو اسلام کے مخالف ہیں؟ یہ قضیہ ایک بار اور تاریخ میں رونما ہو چکا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب برطانوی سلطنت ایک صدی قبل یا اس سے کچھ پہلے، خود کو دنیا کی مالک سمجھتی تھی۔ اس وقت انگریزوں نے پوری دنیا میں اپنے ہاتھ پیر پھیلا رکھے تھے۔ جہاں بھی اسلام کی علامت ہوتی تھی اس کی نسبت ان کے تحفظات زیادہ ہوتے تھے۔
میں تیس سال قبل جب بر صغیر ہند کے مسائل کا مطالعہ کر رہا تھا اور لکھ رہا تھا تو متوجہ ہوا کہ انگریزوں کے خلاف، جدوجہد کرنے والے حریت پسندوں میں، مسلمان بھی تھے، ہندو بھی تھے اور سکھ بھی تھے۔ لیکن انگریز مسلمانوں کی نسبت زیادہ سختی برتتے تھے۔ ہندوؤں سے ان کی ہماہنگی بھی ہو جاتی تھی، سکھوں سے مصالحت ہو جاتی تھی، لیکن مسلمان اور انگریز ایک ساتھ نہیں ہو پاتے تھے۔ بنابریں وہ پہلے مرحلے میں مسلمانوں کو کچلتے تھے۔ اسی زمانے میں ایک انگریز لارڈ نے کہا تھا کہ جب ہم اپنے زمانے کے تجربات پر نظر ڈالتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلام کو ہم سے فطری دشمنی ہے۔ انگریز اس زمانے میں اس نتیجے پر پہنچے تھے اور اسی بنیاد پر عمل کرتے تھے۔ افغانستان میں یہی کیا۔ ہندوستان میں یہی کیا۔ ایران میں یہی کیا۔ آج امریکی استکبار اور اس کے ایجنٹ اسی تجربے کو دہرا رہے ہیں۔ ان تمام چیزوں کا محرک یہ ہے کہ اسلام سے، پہلے سے زیادہ ڈرے ہوئے ہیں۔ ان کا زیادہ خوف کب آشکارا ہوا؟ جب ایران میں، تاریخ کی کم نظیر ہستی، معاصر دور کے عظیم رہبر ملت اور قائد انسانیت، حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی قیادت میں اسلامی جمہوری نظام قائم ہوا اور پرچم اسلام اس ملک پر لہرایا اور یہ مقدس حکومت وجود میں آئی۔ جب حکومت قائم ہوئی اور انہوں نے اس کی قوت کو دیکھا، اس کے اثر و رسوخ کو دیکھا، انسانوں کے ان اثرات کو دیکھا، اقوام پر اثرانداز ہونے کی اس کی توانائی دیکھی، خطرات اور دھمکیوں کے مقابلے میں اس کی بے باکی دیکھی اور لالچ دلانے والے اپنے تمام حربوں کو اس کے سامنے بے اثر دیکھا تو سمجھ گئے کہ وہ حکومت جس کے خلاف انہیں مہم چلانی چاہئے یہی ہے۔
شروع میں کہتے تھے؛ ہم بنیاد پرستی کے خلاف ہیں۔ 'بنیاد پرستی' وہ اصطلاح ہے جو وہ قرآن اور اسلام کے تئیں مسلمان اقوام کی ایمانی وابستگی اور عملی پابندی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ جو آپ اسلام اور ‍قرآن سے محبت کرتے ہیں، اس کو وہ بنیاد پرستی کہتے ہیں اور دنیا میں اس کو گالی قرار دیتے ہیں۔ دنیا کے گوشہ و کنار میں بعض بے عقلوں کو بھی یقین آ گیا ہے! چنانچہ جیسے ہی وہ کہتے ہیں؛ تم بنیاد پرست ہو یہ فورا جواب دیتے ہیں؛ ہم بنیاد پرست نہیں ہیں۔ جیسے بنیاد پرستی کوئی بری خصوصیت ہے۔ بنیاد پرستی یعنی صحیح اور یقینی اصولوں کی پابندی۔ یہ بنیاد پرستی ہے۔ بہرحال شروع میں وہ کہتے تھے کہ ہم 'بنیاد پرستی' کے خلاف ہیں۔ بعد میں دیکھا کہ جہاں بھی اسلام ہے وہاں اس پر ایمان بھی ہے، لوگوں کے دل، اسلام کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہی خطرہ موجود ہے۔ لہذا آپ دیکھیں کہ سابق سوویت یونین کی ریاستوں میں امریکی گھبرائے ہوئے پہنچے اور لوگوں کو اسلام اور اسلامی مملکت ایران سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ ممکن ہے کہ ان ریاستوں میں بعض غافل افراد ان سے متاثر ہوئے ہوں، لیکن آذربائیجان، ترکمنستان، ازبکستان، تاجکستان اور اس علاقے کی تمام دیگر بڑی اقوام مسلمان ہیں اور ان کے دلوں میں اسلام کی محبت ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ستر سال پہلے بھی جب کہ اسلام کا نام بھی نہیں تھا، جو کچھ تھا، اسلام کی مخالفت تھی۔ اس کے باوجود بغیر کسی تبلیغی مہم کے، یہاں کے لوگ اسلام کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ یہ اسلام کی تاثیر ہے جو ظاہر ہو رہی ہے۔
امریکی وہاں گئے تاکہ شاید اسلام پسندی کی اس لہر کو روک سکیں۔ اصل مسئلہ اسلام کے خلاف ان کی مہم کا ہے۔ لیکن اس مہم میں ساری توجہ اسلامی جمہوریہ ایران پر ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران کو میدان سے باہر کر دیں تو دیگر مسلم اقوام مایوس ہو جائیں گی۔ وہ مسلم اقوام کو مایوس کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کو کس طرح میدان سے باہر کرنا چاہتے ہیں؟ اس کے لئے ان کے سامنے مختلف راستے ہیں۔ اب جس راستے سے بھی وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ایک راستہ جنگ مسلط کرنے کا تھا۔ جنگ مسلط کرکے دیکھ لیا۔ ایک راستہ اقتصادی محاصرے کا تھا۔ برسوں اس کو بھی آزما لیا۔ آج بھی ایران کی بہت ظریف مگر مضبوط اقتصادی ناکہ بندی ہے۔ ایک راستہ تشہیراتی محاصرہ ہے۔ آپ جو بھی ریڈیو اسٹیشن لگائیں، کوئی بھی صیہونی اور امریکی، سامراجی ریڈیو لگائیں، دیکھیں گے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مہم جاری ہے۔ بعض کھل کے مہم چلا رہے ہیں اور بعض غیر صریحی انداز میں یہ مہم چلا رہے ہیں۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت جب ہمارے ملک میں انتخابات قریب ہیں تو دنیا بھر کے ریڈیو انتخابات کے بارے میں تبصرے نشر کر رہے ہیں، ان کا مقصد کیا ہے؟ جو باتیں کرتے ہیں ان سے ظاہر ہے کہ وہ ہم پر وار لگانا چاہتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ عوام کی وسیع شرکت سے انتخابات اسلامی جمہوری نظام کے استحکام کا با‏عث بنتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ دو سو ستر صالح اور مومن اراکین کے ساتھ ایک طاقتور عوامی پارلیمنٹ، اس نظام کا محکم ستون ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ عوام کے فائدے میں عوامی قوانین، ایسی ہی پارلیمنٹ سے پاس ہوتے ہیں۔ اس لئے اس پارلیمنٹ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اگر امریکا اور سامراج کو معلوم ہو کہ کوئی کام ایسا ہے کہ جس کے ذریعے، پچاس لاکھ ووٹ کم کر سکتے ہیں، تیس لاکھ ووٹ کم کر سکتے ہیں، دس لاکھ ووٹ کم کر سکتے ہیں۔ تو جو کچھ بھی ان کے پاس ہوگا خرچ کرکے وہ یہ کام ضرور کریں گے۔ کیونکہ یہ کام ان کے لئے اہم ہے۔ اگر ملک کے ہر گوشے سے دسیوں لاکھ لوگ پولنگ اسیٹیشنوں پر جائیں اور اپنا حق رائے دہی استعمال کریں اور اپنے اراکین کا انتخاب کریں تو ڈیموکریسی کتنی محکم اور شفاف ہوگی۔ جانتے ہیں کہ اگر یہ ہو گیا تو ان کے پروپیگنڈے بیکار ہو جائیں گے۔
استکبار اپنے پروپیگنڈوں میں شرم و حیا نہیں محسوس کرتا۔ کھلا جھوٹ پوری آواز سے بولتا ہے۔ ایسی حالت میں کہ پورے مشرق وسطی میں، کوئی نظام ایسا نہیں ہے کہ جس میں عوام اور حکام کے درمیان اتنا محکم رابطہ جو ایران میں پایا جاتا ہے، اس سے وہ اچھی طرح واقف ہیں، حضرت امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ کی زندگی میں امام (خمینی) سے عوام کی گہری محبت سے بھی وہ واقف تھے، مگر اس کے باوجود کہتے تھے کہ لوگ اس حکومت کو امام (خمینی) کا نام لیکر کہتے تھے کہ ان کی حکومت کو عوام قبول نہیں کرتے۔ لیکن امام (خمینی) کی رحلت کے بعد آپ کی وہ تشییع جنازہ، وہ گریہ و بکا، وہ ختم نہ ہونے والی عزاداری انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی اور ان کی تمام باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ لیکن پھر بھی کہتے ہیں! وہ دیکھتے ہیں یوم القدس کے مظاہروں میں تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے دسیوں لاکھ لوگ سڑکوں پر آکر استکبار کے خلاف اور اسلامی نظام کے اہداف کے حق میں نعرے لگاتے ہیں، اس کو وہ خود دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں۔ اس کے بعد بھی کہتے ہیں؛ ایران میں عوامی نظام نہیں ہے، ڈیموکریسی نہیں ہے، لوگ اسلامی جمہوریہ سے پلٹ گئے ہیں۔
اگر ان کا بس چلے تو وہ انتخابات کو جو عوامی شراکت کا مظہر ہیں، بے رونق بنا دیں۔ بھیڑ بھاڑ نہ رہے، لوگوں میں جوش وخروش ناپید ہو جائے۔ وہ اس کی خاطر کافی پیسہ خرچ کرنے کے لئے تیار ہیں کہ انتخابات، انتخابات نہ رہیں۔ اس لئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے سارے زرخرید ایجنٹ، خیانتکار منافقین، سارے زرخرید، دشمن کے محاذ میں اسلحہ بکف موجود ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران، ایرانی قوم اور عوام کے سینوں پر تیر چلا رہے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں بم رکھے، جوانوں، بوڑھوں، مزدوروں، کاروباری افراد سب کو نشانہ بنایا۔ عورت، مرد کسی پر رحم نہ کیا۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو امریکا میں بیٹھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو استکباری نظام سے پیسے لیتے ہیں، اخبار نکالتے ہیں اور ریڈیو چلاتے ہیں۔ سب ان انتخابات کو بے اہمیت ظاہر کرنے کی کوشش میں ہیں تاکہ اس کا اعتبار کم کر سکیں۔ کیونکہ اگر انتخابات میں عوام کی شرکت کم ہو تو نظام کی عوامی شبیہ کمزور ہوتی ہے۔ وہ یہی چاہتے ہیں۔ یہ بھی کمزور کرنے کا ایک راستہ ہے۔ کمزور کرنے کے تشہیراتی، سیاسی، اقتصادی اور فوجی راستے۔
ہمارے دشمن اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ اسلام اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد رکھ کے، سپر طاقتوں کی توقع کے برخلاف، یہ عظیم معجزہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اسی اسلام نے اس قوم کو طاقت اور شجاعت دی ہے، اس کو دشمنوں کے مقابلے میں کامیاب کیا ہے۔ یہ دین اسلامی جمہوریہ ایران اور بہادر ایرانی قوم کو شکست نہیں کھانے دے گا۔ اس کو وہ اچھی طرح سمجھ گئے ہیں۔
میں اپنی گفتگو کے آخر میں ایرانی عوام سے سفارش کروں گا کہ اپنے راستے سے رکاوٹیں دور کریں۔ ہمارے لئے راستہ روشن ہے۔ راستے کی رکاوٹیں بھی ملت ایران کو معلوم ہیں۔ ان رکاوٹوں کو ہٹا دیں۔ باطنی رکاوٹوں کو بھی اور بیرونی رکاوٹوں کو بھی۔ باطنی رکاوٹوں کو پروردگار کے حضور دعا و مناجات، خشوع قلب، نفس کی پاکیزگی، اخلاق کی تقویت، عبادت اور توسل کے ذریعے، دور کریں۔ اگر ہمارے دل صحیح نہ ہوں تو ہم اپنی دنیا ٹھیک نہیں کر سکتے۔ اگر ہمارے باطن میں عیب ہو تو معاشرے اور دنیا کے عیوب کو دور نہیں کر سکتے۔ ملت ایران کے کندھوں پر بہت سنگین ذمہ داری ہے جو اسے انجام دینی ہے۔ اس کو ایسی دنیا بنانی ہے جو خود اس کے لئے بھی شیریں ہو اور دوسرے معاشروں کے لئے بھی دل آویز ہو۔ آپ یہ کام کر سکتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے نفس کی پاکیزگی پر توجہ دے۔ نماز حضور قلب کے ساتھ پڑھے، قرآن سے انس پیدا کرے، دعا و مناجات اور توسل کا سہارا لے، خدا کے حضور گریہ و زاری کرے، ماہ رمضان کے روزے، آدھی رات کی عبادت، بالخصوص جوانوں کے لئے، جن پر ان چیزوں کا زیادہ اثر ہو سکتا ہے، یہ چیزیں نفس کو پاکیزہ بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
اس رمضان میں، بالخصوص، شب بیداری کی راتوں میں، شاید ہی کوئی رات ایسی ہو جس میں نوجوانوں کے لئے میں نے دعا نہ کی ہو۔ ہمارے نوجوان آمادہ ہیں اور فیصلہ کن کردار کے مالک ہیں۔ دشمن ملت ایران کے نوجوانوں کو اس سے چھین لینا چاہتا ہے۔ کیسے؟ انہیں برائیوں میں مبتلا کرکے، ان سے احساس ذمہ داری سلب کرکے، ان کا جذبہ ایمانی ختم کرکے، انہیں لہو و لعب اور خواہشات نفس کے جال میں پھنساکے۔ اگر کسی قوم کے نوجوان صحیح اور مومن ہوں تو وہی ہوتا ہے جو آپ نے آٹھ سال تک جنگ کے محاذوں پر دیکھا۔ ہمارے مومن نوجوانوں نے، جذبہ ایمانی سے سرشار نوجوانوں نے، ایسے ایمان اور پاکیزگی کا ثبوت دیا کہ بڑی عمر کے لوگوں میں، اس کی نظیر کم ملتی ہے۔ ان نوجوانوں نے میدان جنگ میں، اسی ایمان کے سہارے، دشمن کے مضبوط مورچوں کو توڑا۔ اس کے پاؤں اکھاڑے اور اس کی جارحیت پر لگام لگائی۔ اگر یہ نوجوان نہ ہوتے، اگر یہ ایمان نہ ہوتا، اگر یہ ولولہ اور جذبہ نہ ہوتا تو جانتے ہیں کہ اس قوم اور اس ملک کے ساتھ کیا ہوتا؟!
لیکن اگر نوجوان صحیح نہ ہوں، خواہشات نفس کے اسیر ہوں، مادیات میں غرق ہوں، لہو و لعب اور اخلاقی برائیوں، جنسی بے راہ روی اور انواع و اقسام کی برائیوں میں پھنسے ہوں تو کیا ہوتا ہے؟ وہی ہوتا ہے جو بہت سے ملکوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ سامراجی طاقتیں ان پر اس طرح مسلط ہیں کہ ان کا سانس لینا دشوار ہے۔ کیوں؟ کیونکہ نوجوانوں کے پاس وقت نہیں ہے۔ وہ لہو و لعب، مے نوشی، شہوت پرستی اور جنسی بے راہ روی میں مشغول ہیں۔ ان کے پاس اس کا وقت کہاں ہے کہ جدوجہد کریں یا سنجیدہ بات کریں؟ ہمارے نوجوانوں کو بھی اسی راستے پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ خود نوجوانوں کو خیال رکھنا چاہئے۔ ہم حکومت، والدین، ثقافت اور اسلامی ہدایت کی وزارت، ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ادارے اور دیگر اداروں سے سفارش کرتے ہیں، لیکن اصل سفارش خود آپ نوجوانوں سے ہے کہ اپنا خیال رکھیں۔ اپنے موچوں کو مضبوط کریں تاکہ دشمن اس میں داخل نہ ہو سکے۔ اس محکم اور قوی جذبہ ایمانی کے ساتھ آپ استعمار کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ اس کے ہاتھ سے اسلحہ چھین سکتے ہیں، تاکہ آپ کی قوم چین کا سانس لے سکے، تاکہ اپنے ملک کی تعمیر کر سکے، تاکہ معیار زندگی بلند کر سکے، استعمار اور تسلط پسندوں کی جانب سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں اور مشکلات کو برطرف کر سکے۔ یہ باطنی رکاوٹیں ہیں۔ عورت مرد، لڑکے لڑکیاں، سب کو چاہئے کہ باطنی رکاوٹوں کو دور کریں۔ ہمیں بھی اسی طرح، سن رسیدہ لوگوں کو بھی یہی کرنا چاہئے، ہم سن رسیدہ لوگوں کا کام زیادہ سخت ہے۔
اب رہیں بیرونی رکاوٹیں۔ آج (ان رکاوٹوں کے مقابلے میں) عالمی سطح پر اسلامی جمہوریہ ایران، اصلی مورچہ ہے۔ اس مورچے کو اسی طرح محکم بنائے رکھیں۔ کن چیزوں سے؟ اتحاد و اتفاق سے۔ عوام کے باہمی اور عوام اور حکام کے درمیان ہمدلی سے۔ عوام اور حکومت کے درمیان، عوام اور پارلیمنٹ کے درمیان، حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان، ملک کے کارکنوں اور عوام کے درمیان اتحاد و یکجہتی سے۔ ملک کی مختلف جماعتیں، مختلف سیاسی پارٹیاں، سب دشمن کے مقابلے میں متحد رہیں۔ ایسا کام نہ کریں کہ دشمن اس سے غلط فائدہ اٹھا سکے۔ سیاسی اختلافات میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نظریاتی اختلاف میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صحیح انداز میں انتخابی رقابت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن ایک دوسرے کو بدنام کرنا، ملک کی شبیہ بگاڑنا، عوام کے اذہان کو شک و تردد میں مبتلا کرنا، ملک کے ہمدرد حکام کی شبیہ بگاڑنا، غلط ہے۔ عوام کے اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کرناغلط ہے۔ اتحاد و یک جہتی کے ساتھ کانّھم بنیان مرصوص (5) دشمن کے مقابلے میں ایک فولادی قلعے کی طرح ڈٹے رہیں۔ جیسے ایک گھر میں کئی بھائی ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ دو بھائیوں میں ایک دوسرے سے شکایت اور کدورت ہو، لیکن اگر کوئی ان کے گھر پر حملہ کرے تو دونوں ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو جاتے ہیں، اسی طرح رہیں۔ قوم کے افراد اس طرح رہیں۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے کہ اس سے اس مورچے کی حفاظت کی جا سکتی ہیں۔ دوسرے سیاسی میدان میں موجودگی ہے۔ یوم القدس پر جلوس بہت اچھے تھے۔ گیارہ فروری (اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی تاریخ) کے جلوس بھی بہت اچھے تھے۔ ہماری قوم اس امتحان میں بہت کامیاب رہی اور اس نے دشمن کو مایوس کر دیا۔
انتخابات بھی در پیش ہیں۔ سب کو اس میں شرکت کرنی چاہئے۔ البتہ تھوڑے سے لوگ جو اسلام سے کدورت رکھتے ہیں، وہ شرکت نہیں کریں گے۔ نہ کریں۔ جنہیں اسلامی حکومت سے کدورت ہے، ان سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ تو کہتے ہیں؛ ہم وہی امریکا پر منحصر حکومت چاہتے ہیں ان کا کوئی حساب نہیں ہے۔ ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ چیختے ہیں کہ انتخابات آزاد نہیں ہیں۔ انتخابات کی آزادی کس چیز میں ہے؟ کیا انتخابات کی آزادی یہ ہے کہ ان لوگوں کو مجلس شورائے اسلامی میں آنے دیا جائے جو مملکت کو دشمن کے حوالے کر دیں؟! یہ آزادی ہے؟ آزاد انتخابات وہ انتخابات ہیں کہ لوگ سکون کے ساتھ ان لوگوں کو جنہیں پہچانتے ہیں، جنہیں جانتے ہیں، جن پر انہیں اعتماد ہے کہ ان کے خدمت گذار ہیں، انہیں پارلیمنٹ میں بھیجیں۔ ملک کے امین ادارے عوام کے ووٹوں کو گنتے ہیں اور اراکین، پارلیمنٹ میں جاتے ہیں۔ ادارے امین ہیں۔ میں نے نماز جمعہ میں بھی کہا ہے اور اس وقت بھی کہتا ہوں کہ میں انتخابات کے ذمہ دار اداروں پر اعتماد کرتا ہوں۔ بعض لوگ بلا وجہ اعتراض نہ کریں۔ شورائے نگہبان (نگراں کونسل) پر ہمیں مکمل اعتماد ہے۔ وزارت داخلہ پر ہمیں مکمل اعتماد ہے۔ سب کوشش اور محنت کر رہے ہیں۔ البتہ یہ نکتہ یہاں عرض کر دوں کہ جن لوگوں کے کاغذات نامزدگی عدم صلاحیت کی بنا پر نامنظور کر دئے گئے ہیں، شورائے نگہبان نے قوانین اور ضوابط کے مطابق یہ فیصلہ کیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سب نااہل اور غلط انسان ہیں۔ نہیں یہ مطلب نہیں ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ جس کے کاغذات نامزدگی نامنظور ہو گئے ہیں اس پر الزام لگائے کہ یقینا تمھارا معاملہ بہت سنگین ہے۔ یقینا تم نے کوئی جرم کیا ہے۔ یقینا تم نے کوئی خلاف ورزی کی ہے۔ یقینا تم نے چوری کی ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ قانون نے کچھ ضوابط معین کئے ہیں اور شورائے نگہبان پوری امانت داری کے ساتھ ان قانونی ضوابط کے مطابق لوگوں کی صلاحیت کی تائید کرتی ہے یا مسترد کرتی ہے۔ جو لوگ مسترد ہو گئے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان ضوابط پر پورے نہیں اترے۔ ممکن ہے کہ وہ نیک اور با صلاحیت افراد ہوں۔ البتہ غلط افراد بھی ان کے درمیان ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ نہیں ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ جس کی بھی صلاحیت مسترد ہو گئی اس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یقینا یہ غلط اور خیانتکار ہیں۔ ہرگز نہیں!
اگر ان مسائل کی پابندی کی تو اسلامی جمہوریہ مستحکم رہے گی اور روح امام (خمینی) شاد ہوگی۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ خداوندعالم نے وعدہ کیا ہے کہ اگر میرے راستے پر چلوگے تو میں تمھاری ہدایت اور نصرت کروں گا۔
پالنے والے! تو شاہد ہے کہ یہ قوم تیری راہ میں آگے بڑھی ہے۔ محمد و آل محمد کا واسطہ، اس کی ہدایت فرما۔
پالنے والے! تو شاہد ہے کہ اس ملک کے حکام نے تیرے لئے سعی و کوشش کی ہے۔ اپنی ہدایت ان کے شامل حال کر اور ان کی ہدایت فرما۔
عید الفطر کے دن غروب کے نزدیک سب سے بہتر یہ ہے کہ چند دعائیں کی جائیں۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کی قسم ہے ہمیں امام زمانہ کے حقیقی منتظرین میں قرار دے۔ امام زمانہ کے مقدس قلب کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔ ہم سے اسلام کے اعلی اہداف کے لئے کام لے۔ ہمیں قرآن کے اعلی اہداف کے راستے پر قرار دے۔
پالنے والے! اسلام اور مسلمین کی طرف حریصانہ نگاہ سے دیکھنے والوں کے مقابلے میں ہماری قوت کو استحکام عطا کر۔
پالنے والے! شیطانوں پر اپنے صالح بندوں کی کامیابی کو نمایاں کر۔
پالنے والے! ہمیں اسلام کی حقیقی امت اور حقیقی پیروان قرآن میں قرار دے۔
پالنے والے! ہمیں اپنی راہ میں زندہ رکھ اور اپنی راہ میں موت دے۔ ہمیں تیری راہ میں جہاد کرتے ہوئے موت آئے۔ ہماری موت کو اپنی راہ میں شہادت قرار دے۔
پالنے والے! ہمارے دلوں کو آلودگیوں سے پاک کر۔
پالنے والے! ہماری روح کو اپنے آپ سے نزدیک کر۔
پالنے والے! ہمارے تاریک دلوں کو اپنی محبت و معرفت کا نور عطا فرما۔
پالنے والے! ہمارے امام (خمینی) کی مقدس روح کو اپنے الطاف اور فیضان کامل سے بہرہ مند فرما۔ انہیں اس ملت کی نیکیوں کی جزا عنایت فرما، ہمیں ان کے حقیقی پیروکاروں میں قرار دے۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کا واسطہ، حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہمیں ان کے انصار میں قرار دے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1- سورہ احزاب آیات 45- 46
2- مفاتیح الجنان؛ دعائے منقول از امام محمد تقی علیہ السلام۔
3- بحارالانوار ؛ جلد 77 صفحہ 419
4- سورہ حدید آیت 25
5- سورہ صف آیت 4