قائد انقلاب اسلامی نے نشریاتی ادارے کے پروگراموں کی تعریف کی اور ساتھ ہی کچھ پروگراموں کے عیوب کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں دور کئے جانے کی سفارش بھی کی۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں اپنے عزیز بھائیوں کو خوش آمدید کہوں گا۔ دعا ہے کہ خداوند عالم آپ کی مدد کرے- اس راستے پر جو اسی کی مرضی کے مطابق ہے، گامزن رہنے کے لئے رہنمائی اور مدد کرے- کیونکہ آپ کا کام بہت اہم ہے۔ اللہ مدد کرے عمل کرنے میں بھی، تاکہ جو آپ سمجھتے ہیں، دیکھتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں، اس پر صحیح طور پر عمل کر سکیں۔ بعض اوقات انسان کسی مسئلے کو بخوبی سمجھتا ہے اور صحیح فیصلہ کرتا ہے لیکن عمل میں ان مشکلات اور رکاوٹوں کی وجہ سے جو راستے میں درپیش ہوتی ہیں، اس کو جامہ عمل پہنانے کی توانائی اپنے اندر نہیں پاتا ہے۔ آج جو اہم بات آپ حضرات سے عرض کرنی ہے، یہ ہے کہ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ واقعی یہ بنیادی چیز ہے۔ کیونکہ ہم نے دیکھا کہ ریڈیو اور ٹیلیویژن میں کام کرنے والے بہت سے برداران نے گزشتہ سال کے آخر میں، مختلف امور میں، خاص طور پر عشرہ فجر ( انقلاب کی سالگرہ کی دس روزہ تقریبات) کے دوران، یوم القدس کے موقع پر، رمضان المبارک میں اور انتخابات کے دوران بڑی زحمتیں اٹھائیں۔ واقعی ریڈیو نے بھی اور ٹی وی نے بھی، مختلف ٹی وی چینلوں نے، بہت زحمتیں اٹھائیں۔
البتہ ریڈیو اور ٹیلیویژن میں اس کے علاوہ بھی کچھ بہت اچھے کام بھی انجام پا رہے ہیں، ان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ اصولی طور پر جناب آقائے لاریجانی (قومی نشریاتی ادارے کے سربراہ) کی رپورٹ-جو انہوں نے لکھی ہے اور جو کچھ بیان ہے- ان مسائل کے مثبت نکات پر مشتمل ہے جو ہمارے ذہن میں ہیں اور حق و انصاف یہ ہے کہ، مجموعی طور پر، ( یہ زحمتیں) دو بدو ملاقات میں، شکریئے اور تحسین کی مستحق ہیں۔ الحمد للہ یہ موقع نصیب ہوا کہ میں آپ حضرات کے روبرو بیٹھ کر شکریہ ادا کروں اور مزید توفیقات کی آرزو کروں۔ ریڈیو اور ٹیلیویژن کے بعض پروگرام واقعی بہت دلچسپ، بہت اچھے اور بے توجہی سے پاک ہیں۔ بعض اوقات ممکن ہے کہ ہمارے پروگرام بہت اچھے ہوں، لیکن اس میں عدم ہوشیاری اور عدم توجہ کا کوئی پہلو نظر آئے، تو افسوس ہوتا ہے کہ اتنی محنت اور اتنی زحمتوں سے کوئی فلم اور سیرئل بنایا جائے، اور اس میں عدم توجہ کا کوئی منفی پہلو نظر آئے۔ واقعی اس کو صرف ہوشیاری کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے نقائص سے بچنے کے لئے بہت زیادہ ہوشیاری کی ضرورت تھی لیکن توجہ نہیں دی گئی۔
ریڈیو اور ٹیلیویژن کے بعض پروگرام مکمل طور پر متین اور مستحکم ہیں، بہت ہی اعلی معیار کے ہیں اور بے توجہی سے پاک ہیں۔ بعض پروگرام جو ہم دیکھتے ہیں یا سنتے ہیں تو دفتر کے لوگوں سے کہتے ہیں کہ ریڈیو ٹیلیویژن سے رابطہ کریں اور کہیں کہ پروگرام بہت اچھے تھے ہمیں واقعی فائدہ پہنچا۔ بہرحال، ہم خود خطابت کے میدان کے آدمی ہیں۔ جس زمانے میں ہم خطابت کرتے تھے تو تقریر کے بعد منبر سے اترنے کے بعد ہمیں برا نہیں لگتا تھا کہ کوئی (ہماری تعریف کرے) اور کہے طیب اللہ انفساکم! بعض اوقات ایک خطیب ایک گھنٹے تک منبر سے تقریر کرتا ہے لیکن کوئی نہیں ہوتا جو اس کی، زبانی ہی صحیح، تحسین اور تعریف کرے۔ چونکہ مجھے معلوم ہے کہ ایک سبحان اللہ کہنا کتنا موثر ہے، لہذا میں نے چاہا کہ آپ حضرات کو سبحان اللہ کہوں۔
بہرحال جس نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں وہ، ریڈیو اور ٹیلیویژن کے بہت اچھے، بعض اچھے اور بعض بہت اچھے پروگرام ہیں۔ میں حتی الامکان اس طرح کے پروگراموں کو دیکھتا بھی ہوں اور سنتا بھی ہوں۔ البتہ یہ پروگرام ان دو تین عظیم کارناموں سے الگ ہیں جو آپ حضرات نے انتخابات اور جلوسوں کے سلسلے میں انجام دیئے ہیں۔ وہ بالکل الگ اور ممتاز کام تھے۔ ریڈیو اور ٹیلیویژن کے معمول کے اور مستقل کاموں کے سلسلے میں، اس وقت اچھے کاموں کی تحسین اور شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
میں دو باتیں نہیں کہنا چاہتا: ایک یہ کہ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ادارے میں کوئی نقص اور عیب نہیں ہے۔ کیوں؛ صحیح بات یہ ہے کہ عیب دار پروگرام بھی بہت ہیں۔ اس گفتگو سے پہلے ان میں سے بعض کا میں نے جناب آقائے لاریجانی سے ذکر کیا ہے۔ ریڈیو ٹیلیویژن میں واقعی عیب دار پروگرام ہیں جن کی اصلاح ہونی چاہئے؛ مجھے خوشی ہے کہ عیب دار پروگراموں کی تعداد روز بروز کم ہو رہی ہے۔ الحمد للہ پروگراموں میں اصلاح کی روش کا احساس ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود بعض عیوب اپنی جگہ برقرار ہیں۔
دوسری بات جو نہیں کہنا چاہتا ہوں، پروگراموں کا بہترین ہونا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو اچھے پروگرام ہیں انہیں اس سے بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ انسان ایسی مخلوق ہے جس کی کوئی آخری حد نہیں ہے۔ آپ چاہے جتنی اعلی فکر تک پہنچیں، بحیثیت انسان کے آپ کی خلق کی ہوئی پیشرفت بلندی کی آخری حد پر نہیں ہوگی؛ یعنی کوئی بلندی ایسی نہیں ہے جس سے بلند تر کا وجود نہ ہو۔ اس سے بھی اعلی تر ہے جس کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسی طرح انسان بیکراں راستے پر آگے بڑھتا جاتا ہے۔ واقعی اللہ کی یہ مخلوق عجیب ہے۔ جس چیز کے لئے بھی آج یہ فرض کیا جائے کہ اس سے بہتر کا وجود نہیں ہے، اس سے اعلی تر اور بہتر یقینا موجود ہے لہذا اس کی جستجو کرنی چاہئے۔ اس راستے میں کسی بھی کام میں اور پیشرفت میں رکنا نہیں چاہئے۔
فنی مسائل کے تعلق سے اس وقت جس بات کی میں سفارش کرنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں یہ کام کریں کہ ریڈیو کی آواز ملک میں ہرجگہ آسانی سے پہنچ جائے۔ فی الحال اس کا امکان نہیں ہے، آپ کو اس کا انتظام کرنا ہے تاکہ بعد میں بہتر اور وسیع تر امکانات تک دسترسی حاصل ہو۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے فی الحال 'پنیر روٹی' کا انتظام ہو جائے بعد میں اچھے اور مقوی کھانے تمام تر لوازمات کے ساتھ مہیا ہوں۔ ریڈیو کی آواز کے سلسلے میں پہلے مرحلے میں یہی ہے۔ البتہ ماضی میں ریڈیو کی آواز کی رسائی اس سے بھی کمتر تھی۔ شاید اس وقت جو کیفیت ہے اس کا دسواں حصہ بھی نہیں تھا۔ لیکن اب جب کہ اتنی وسعت آ گئی ہے اور اتنے زیادہ فنی امور انجام دیئے گئے ہیں- جیسا کہ آپ نے کہا ہے اور رپورٹ دی ہے، اور یقینا ایسا ہی ہے - لیکن اب بھی آپ کی آواز ملک میں ہر جگہ نہیں پہنچ رہی ہے، حتی بعض ایسی جگہوں تک بھی نہیں پہنچ رہی ہے جو پہاڑوں کے بہت پیچھے اور بہت دور نہیں ہیں۔ یہ جو عرض کر رہا ہوں، یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ ہمارے ملک میں کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں آپ کی آواز بڑی دقت سے ملتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں انقلاب مخالف ریڈیو بہت آسانی سے مل جاتا ہے جبکہ ان علاقوں سے اس ریڈیو کا فاصلہ آپ کی بنسبت کافی زیادہ ہے۔ ہم آج بھی تہران سے باہر نکلتے ہیں تو پہاڑوں کے پیچ و خم میں آپ کی آواز نہیں ملتی ہے۔ اس ریڈیو سے جو ہماری دسترس میں ہے، آپ کی آواز نہیں مل سکتی۔ شاید اچھے قسم کے ریڈیو ہوں تو ان کے ذریعے آپ کی آواز مل سکے۔ لیکن بہرحال یہ مشکل ہے جو آپ کو حل کرنا ہے۔ اس کو ٹھیک کریں۔
ٹی وی کی اکسٹرنل سروس بھی اہم پروگراموں میں سے ہے۔ البتہ یہاں ہمیں آپ کے ریڈیو کی آواز تک دسترسی میں مشکل کا سامنا ہے، لیکن یورپ اور افریقا میں لوگ اکسٹرنل سروس کی ریڈیو نشریات کے ذریعے، ہماری آواز، نماز جمعہ کی آواز سنتے ہیں۔ یہ بھی ہے۔ لیکن میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایران کے اندر کے معاملے کو ترجیح حاصل ہے۔ ایسا انتظام کریں کہ جو بھی جہاں بھی چاہے، آپ کی آواز سن سکے۔ مجبور نہ ہو کہ آپ کی آواز نہ سن سکے تو دوسرے ریڈیو کو سنے اور یہ کہے کہ ہم اپنا ریڈیو سننا چاہتے ہیں تو آواز ایسی ہے۔ کم سے کم اس کو انتخاب کا اختیار ہونا چاہئے۔ یہ فنی مسائل سے متعلق ہے۔
البتہ ریڈیو اورٹیلیویژن کے اراکین سے مجھے کچھ زیادہ باتیں کرنی ہیں؛ یعنی کچھ بنیادی ترین اور اساسی ترین باتیں جن کا بیان آپ کے اجتماع میں زیادہ مناسب ہے۔ ان شاء اللہ بہت جلد ریڈیو اور ٹیلیویژن میں کام کرنے والے بھائیوں اور بہنوں کے اجتماع میں، اگر خدا نے توفیق دی تو کچھ باتیں کریں گے۔ اس وقت ان باتوں کو نہیں چھیڑیں گے۔ صرف ایک بات جو اگر چہ پہلے بھی کہی جا چکی ہے، مگر پھر عرض کروں گا اور پھر اپنی گفتگو ختم کر دوں گا۔ وہ بات یہ ہے کہ ایرانی فلموں اور فارسی ڈراموں میں جو ریڈیو سے نشر ہوتے ہیں، ایک نکتے پر ضرور توجہ دیں؛ چاہے اس میں تین سال لگ جائیں، اس کا تجربہ کریں۔ وہ نکتہ جس پر اب تک کسی نے بھی توجہ نہیں دی ہے، یہ ہے کہ ایرانی فلموں اور ڈراموں کو ذہنوں میں آشفتگی اور ہیجان پیدا کرنے والے اور سوہان روح بننے والے حوادث سے پاک کریں۔ افسوس کہ یہ کام نہیں کیا جا رہا ہے، اس کے باوجود کہ بارہا ریڈیو اور ٹیلیویژن کے افراد کے اجتماع میں بھی اور فلمسازی کے میدان میں سرگرم براداران سے بھی یہ بات کہہ چکا ہوں، لیکن پتہ نہیں کیوں، اس پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور اس بات کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ اس میں کوئی عیب کوئی مشکل ہو جس کی بناء پر یہ کام نہیں ہو رہا ہے؟ آپ کوئی ایرانی فلم دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے غصے اور ناراضگی کے اظہار اور گریہ دکھانے کے لئے مبالغہ اور اعصاب شکن لڑائی ضروری ہے۔ گویا ان عناصر کے بغیر ایرانی فلم اور ڈرامہ پورا ہی نہیں ہو سکتا ہے! میں نے یہاں ایک بار، ایک ایسے ہی اجتماع میں، ایک مثال دی۔ میں نے کہا کہ فرض کریں کہ ہمارے ٹیلیویژن پر کوئی ایسا پروگرام تیار کیا گیا ہو جس میں ایک بچے کو بالوں میں برش کرنا سکھایا گیا ہو۔ ہم معمول کے مطابق بچوں کا پروگرام دیکھتے تھے۔ البتہ کارٹون کی شکل میں، بچوں کے لئے اس طرح کی فلمیں بنانا، ان کی حوصلہ افزائی کے لئے، بہت اچھا ہے اور بالوں کی نگہداشت کے تعلق سے اچھا اشتہار ہے۔ واقعہ اس طرح تھا کہ گڑیئے کی شکل کا ایک برش رو رہا تھا، دوسرا برش اس سے پوچھتا ہے کہ کیوں رو رہے ہو؟ وہ جواب میں کہتا ہے میرا مالک اپنے بالوں میں برش نہیں کرتا! اس واقعے کے لئے اتنے گرئے کی تو ضرورت نہیں تھی؛ کہ دیکھنے والے کا دل خون ہو جائے۔ برش کے رونے کی جو آواز کسی بچے یا بچی کی ریکارڈ کی تھی، اس کو ایک لمحے کے لئے رکھیں نہ کہ ایک منٹ اور ڈیڑھ منٹ! وہ بس روتا رہے۔ گریہ، گریہ، گریہ،! اس سے سننے والے کے اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہماری فلموں، کارٹونوں اور ڈراموں میں یہ حالت پائی جاتی ہے۔
ایک اور موضوع جو ہماری فلموں میں دکھایا جاتا ہے، طلاق کا مسئلہ ہے؛ اس سلسلے میں بھی گریہ اور رونا تکلیف دہ حد تک ہوتا ہے۔ انسان باہر کی فلمیں دیکھتا ہے، جیسے خاندانی موضوع پر جاپان کی فلمیں ہیں- اچھی جاپانی فلمیں ہیں- دیکھتا ہے کہ وہاں بھی خاندانی مسائل میں یہ باتیں ہیں، لیکن فلموں میں تکلیف دہ حد تک گریہ وزاری کا رواج نہیں ہے۔ پتہ نہیں ہماری فلمیں ایسی کیوں ہوتی ہیں! یقینا ہمارے کام میں کہیں تو نقص ضرور ہے۔
البتہ بعض معاملات میں بعض افراد کے بارے میں مجھے کچھ بدگمانیاں ہیں، جو جلدی نہیں ختم ہوتیں، میں کہتا ہوں کہ یقینا یہ کام دانستہ طور پر کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ عمدا یہ کام کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے ذہن اور اعصاب کو خراب کریں۔ آپ اپنے گھر میں بیٹھے ہیں۔ اگر پڑوسی کا بچہ رونا شروع کر دے تو آپ کے اعصاب خراب ہو جاتے ہیں۔ یہ فطری بات ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ وہ حقیقتا بچہ ہی رو رہا ہو، ٹیلیویژن پر بھی اگر بچہ رو رہا ہے تو وہ بھی ایسا ہی ہے جیسے پڑوسی کا بچہ روئے۔ لوگوں کے اعصاب کو بلا وجہ کی لڑائي اور گریہ و زاری کے ذریعے خراب کرتے ہیں۔ آئيے واقعی منصوبہ بندی کریں۔ ریڈیو کے کام میں بھی، رات میں نشر ہونے والی داستانوں میں بھی اور دوسرے پروگراموں میں بھی اور اسی طرح ٹیلیویژن کے کام میں، اس پر توجہ دیں، یہ بہت بنیادی کام ہے۔ یہ لوگوں کے اعصاب کی صحت کا مسئلہ ہے۔ اگر اعصاب خراب ہوں تو دفتر میں، کاروبار میں، سڑک پر، ٹریفک میں، ہر جگہ اس کا اثر پڑے گا۔ یہ بات جو میں بھی عرض کر چکا ہوں اور جناب آقائے لاریجانی نے بھی اس کا اعادہ کیا ہے، لوگوں کے ذہنی سکون کے مسئلے کے ایک حصے کا تعلق ریڈیو اور ٹیلیویژن سے، ان فلموں اور ڈراموں سے ہے جو ابھی تیار نہیں ہوئے ہیں۔ البتہ اب کسی حد تک طنزیہ اور مزاحیہ فلمیں رائج ہو گئی ہیں، اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ بہت اچھا ہے، یہ کام ہونا چاہئے۔
امید ہے کہ خداوند عالم آپ کی مدد کرے گا اور آپ اس بہت عظیم کام کو بہترین شکل میں انجام دیں گے۔ البتہ بہترین سے مراد ممکن حد تک بہترین ہے ورنہ بہترین شکل تو بہت اعلی ہے۔ ان شاء اللہ آپ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کامیاب رہیں گے؛ اور یہ ذمہ داری ایک قومی ذمہ داری ہے، ایک ثقافتی ذمہ داری ہے۔ آپ حقیقت یہ ہے کہ منفرد ہیں (یعنی ممتاز ہیں)۔ اس وقت جرائد، ریڈیو اور ٹیلیویژن سے پیچھے ہیں۔ ہمارے ملک میں اخبارات وجرائد، جنہیں ریڈیو اور ٹیلیویژن کے برابر ہونا چاہئے، افسوس کا مقام ہے کہ پیچھے رہ گئے ہیں۔ ریڈیو اور ٹیلیویژن میں جو پیشرفت اور ترقی آئی ہے، افسوس کہ اپنے اخبارات وجرائد میں ہمیں نظر نہیں آتی۔ ان کی کمی کو بھی بہت حدتک آپ کو پورا کرنا ہے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو توفیق عنایت فرمائے۔

و السلام علیکم ورحمت اللہ