قائد انقلاب اسلامی نے تاریخی واقعات کی روشنی میں ثابت کیا کہ خواص اگر مناسب فیصلہ اور عمل کرتے ہیں تو حالات و منظر نامہ کچھ اور ہوتا ہے اور اگر اس طبقے سے غلطی ہوتی ہے تو معاشرہ سخت ترین مشکلات اور دیر پا مضر اثرات سے دوچار ہو جاتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے شہر کوفہ میں حضرت مسلم ابن عقیل کے قیام کا مدلل انداز میں جائزہ لیتے ہوئے اس وقت کے خواص کی غلطیوں کی نشاندہی کی اور اس طرح کی غلطیوں سے اجتناب کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس بصیرت افروز خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللھم سدّد السنتنا بالصواب و الحکمۃ

اسلامی ثقافت کا ایک نمایاں پہلو، جس کے مصداق صدر اسلام ( اسلام کے ابتدائی دور) میں زیادہ نظر آتے ہیں جبکہ دیگر ادوار میں اس کی مثالیں بہت کم دیکھی گئی ہیں، جہاد اور مجاہدت کی ثقافت ہے۔ جہاد کا مطلب صرف میدان جنگ میں موجودگی ہی نہیں ہے، کیونکہ دشمن کے مقابلے میں ہر قسم کی جدوجہد اور کوشش جہاد ہو سکتی ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ بعض لوگ کوئی کام کریں، زحمت کریں اور اس کو جہاد سے تعبیر کریں۔ یہ تعبیر صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ جہاد کی ایک شرط یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں ہو۔ یہ مقابلہ کبھی مسلحانہ جنگ کے میدان میں ہوتا ہے، اس کا نام رزمیہ جہاد ہے، کبھی سیاست کے میدان میں ہوتا ہے، اس کو سیاسی جہاد کہتے ہیں، کبھی ثقافتی مسائل کے میدان میں ہوتا ہے اس کو ثقافتی جہاد سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کبھی تعمیرات کے میدان میں ہوتا ہے، اس پر تعمیری جہاد کا اطلاق ہوتا ہے۔ جہاد دوسرے میدانوں میں دوسرے ناموں سے بھی ہوتا ہے۔ بنابریں، جہاد کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس میں سعی و کوشش ہو اور دوسری شرط یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں ہو۔
ثقافت میں یہ نکتہ بہت ممتاز ہے۔ میں نے کہا کہ اس کے نمونے مختلف میدانوں میں موجود ہیں۔ ہمارے زمانے میں بھی جب 1341 ( ہجری شمسی مطابق مارچ انیس سو باسٹھ الی مارچ انیس سو ترسٹھ) میں حضرت امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور آپ کے ساتھیوں نے منحوس پہلوی حکومت کے مقابلے میں جد وجہد کی آواز بلند کی تو جہاد شروع ہو گیا۔ البتہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے پہلے بھی محدود پیمانے پر اور منتشر حالت میں جہاد تھا لیکن اس کی اتنی اہمیت نہیں تھی۔ جب امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی جدوجہد شروع ہوئی تو جہاد کو خاص اہمیت حاصل ہو گئی یہاں تک کہ یہ جہاد اپنی کامیابی، یعنی اسلامی انقلاب کی فتحیابی کے مرحلے میں پہنچ گیا۔ اس کے بعد آج تک اس ملک میں جہاد جاری رہا ہے۔ اس لئے کہ ہمارے سامنے دشمن ہے۔ اس لئے کہ ہمارے دشمن مادی لحاظ سے طاقتور ہیں۔ اس لئے کہ ہمارے چاروں طرف دشمن موجود ہیں۔ وہ ایران اسلامی سے دشمنی میں سنجیدہ ہیں، مذاق نہیں ہے، اس لئے کہ ہر ممکن طریقے سے ہم پر وار کرنا چاہتے ہیں۔ بنابریں ایران اسلامی میں ہر شخص، ایک طرح سے ایسے دشمنوں کے مقابلے پر ہے جنہوں نے ہر طرف سے اسلامی انقلاب اور اسلامی ملک کے پیکر کو زہر آلود تیروں کے نشانے پر لے رکھا ہے۔ ان حالات میں جو بھی سعی و کوشش کرتا ہے، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہا ہے۔ الحمد للہ جہاد کے شعلے تھے، ہیں اور رہیں گے۔
جہاد کی ایک قسم، فکری جہاد ہے۔ چونکہ دشمن ہم کو غفلت میں مبتلا کر سکتا ہے، ہماری فکر کو منحرف کر سکتا ہے اور ہمیں خطاؤں اور غلطیوں سے دوچار کر سکتا ہے، اس لئے جو بھی عوام کی فکر کو روشن بنانے اور فکری انحراف اور غلط سوچ سے بچانے کی کوشش کرے، تو چونکہ دشمن کے مقابلے پر ہے، اس لئے اس کو بھی جہاد کہا جاتا ہے۔ یہ ایسا جہاد ہے جو آج بہت اہم ہے۔ بنابریں ہمارا ملک آج، جہاد کا مرکز ہے اور اس پہلو سے ہمیں کوئی تشویش بھی نہیں ہے۔ الحمد للہ ملک کے حکام اچھے ہیں۔ آج ملک میں مومن، مجاہد، باخبر اور مخلص افراد اقتدار میں ہیں۔ آج ہمارے ملک کے صدر جناب ہاشمی رفسنجانی، مجاہد ہستی ہیں اور ان کی عمر جہاد میں گزری ہے۔ شب وروز جہاد میں مصروف ہیں۔ اسی طرح مختلف شعبوں میں دیگر حکام ہیں۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، مسلح افواج، عوام، سبھی جہاد میں مصروف ہیں اور ملک، جہاد فی سبیل اللہ کا ملک ہے۔ اس درمیان میری ذمہ داری یہ ہے کہ دیکھوں کہ کہاں جہاد کے شعلے خاموش ہو رہے ہیں اور پرودگار کی نصرت سے انہیں خاموش نہ ہونے دوں، دیکھوں کہ کہاں غلطی ہو رہی ہے اور اس کی روک تھام کروں۔ اس حقیر کی اصل ذمہ داری یہی ہے۔ ملک کی موجودہ حالت میں جہاد کی بابت مجھے کوئی تشویش نہیں ہے۔ اس کو آپ جان لیں! لیکن قرآن میں ایک بلیغ نکتہ ہے جو ہمیں سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن ہم سے کہتا ہے کہ دیکھو اور ماضی کی تاریخ سے سبق حاصل کرو۔ اب ممکن ہے کہ کچھ لوگ بیٹھیں اور فلسفہ بگھاریں کہ ماضی حال کے لئے نمونہ عمل نہیں بن سکتا۔ میں نے سنا ہے کہ اس قسم کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن وہ برف جمع کر رہے ہیں۔ (یعنی جس طرح برف بہہ جاتی ہے اور اس کو جمع کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، ان کی باتیں بھی لاحاصل ہیں۔) اپنے خیال خام میں وہ فلسفیانہ طریقے سے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان کے کام سے کوئی کام نہیں ہے۔ قرآن جو صادق مصدق ہے، ہمیں تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کا مطلب وہی تشویش ہے جو میں نے عرض کی۔ اس لئے کہ تاریخ میں جو ہے اگر ہم اس سے عبرت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں فکر ہونی چاہئے۔ مستقبل کی فکر کرنی چاہئے۔ کیوں اور کس لئے فکر ہونی چاہئے؟ کیا ہوا ہے؟
جو ہوا ہے وہ صدر اسلام میں ہوا ہے۔ میں نے ایک بار عرض کیا کہ مسلمان قوم کو سوچنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا کہ رحلت رسول کے پچاس سال بعد، اسلامی مملکت کی حالت یہ ہو گئی کہ مسلمان، ان کے وزیر، سردار، علما، قاضی، قاریان قرآن غںڈے بدمعاش اور اوباش سب کوفے اور کربلا میں جمع ہوئے اور جگر گوشہ رسول کو اتنے المناک انداز میں خاک و خون میں غلطاں کیا؟ سوچنا اور غور کرنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس بحث کو میں نے دو تین سال قبل ایک تقریر میں، عاشورا کی عبرتیں کے عنوان سے پیش کیا تھا۔ عاشورا کے سبق اور درس، شجاعت وغیرہ کے درس سے الگ ہیں۔ عاشوار کے درس اور سبق سے زیادہ اہم عاشورا کی عبرتیں ہیں۔ یہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ حالت یہ ہو گئی کہ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے رسول کے اہل حرم کوچہ و بازار میں لائے گئے اور ان پر 'خارجی' ہونے کی تہمت لگائی گئی۔
خارجی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ بیرون ملک سے آئے ہیں۔ اس زمانے میں خارجی کی اصطلاح آج کے معنی میں نہیں تھی۔ ( آج کی فارسی میں خارج غیرملکی کو کہتے ہیں۔) خارجی یعنی جو خوارج میں شامل ہو۔ یعنی خروج کرنے والا۔ اسلام میں ثقافت یہ ہے کہ جو بھی امام عادل کے مقابلے پر خروج اور قیام کرے وہ خدا، رسول اور مومنین کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے۔ بنابریں خارجی یعنی امام عادل کے مقابلے پر خروج کرنے والا، اس لئے اس زمانے میں، مسلمان عوام، خروج کرنے والے کو برا سمجھتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ من خرج علی امام عادل فدمہ ھدرجو اسلام میں امام عادل کے مقابلے پرخروج کرے اس کا خون مباح ہے۔ جو اسلام لوگوں کے خون کو اتنی اہمیت دیتا ہے، وہی اس منزل میں اس طرح عمل کرتا ہے۔ امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام کے قیام کے وقت کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور فاطمہ زہرا اور امیر المومنین حضرت علی علیہما السلام کے بیٹے کے قیام کو امام عادل کے خلاف خروج کا نام دیا! امام عادل کون ہے؟ یزید ابن معاویہ!
وہ لوگ امام حسین علیہ السلام کو خروج کرنے والا قرار دینے میں کامیاب رہے۔ ظالم حکومت جو چاہے کہے۔ لوگ کیوں یقین کر لیتے ہیں؟ لوگ کیوں خاموش رہتے ہیں؟ مجھے جو چیز فکر میں مبتلا کرتی ہے، یہی مسئلہ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ کیا ہوا کہ یہ نوبت آ گئی؟ کیا ہوا کہ امت اسلامیہ، جو اسلامی احکام کی جزئیات پر، قرآن کی آیات پر اتنی توجہ دیتی تھی، اتنے واضح مسئلے میں، اس طرح غفلت کا شکار ہو گئی کہ اتنا بڑا المیہ رونما ہو گیا؟ اس طرح کے واقعات فکر میں مبتلا کرتے ہیں۔ کیا ہم پیغمبر اور امیر المومنین علیہما السلام کے دور سے زیادہ محکم اور قوی ہیں؟ ہم کیا کریں کہ ایسا نہ ہو؟ جو سوال میں نے کیا کہ کیا ہوا کہ یہ ہو گیا؟ کسی نے جامع جواب نہیں دیا۔ کچھ مسائل بیان کئے گئے لیکن وہ کافی نہیں ہیں۔ اسی بنا پر میں آج چاہتا ہوں کہ اصل قضیے کے بارے میں مختصر گفتگو کروں اور پھر اس کا سرچشمہ، آپ کے ذہنوں کے حوالے کروں کہ آپ اس پر غور و فکر کریں۔ جو لوگ اہل مطالعہ اور مفکر ہیں، اس پر تحقیق کریں اور جو لوگ اہل عمل ہیں، وہ یہ سوچیں کہ کیا اقدامات کئے جائیں کہ اس طرح کے واقعات کے اعادے کو روکا جا سکے؟
اگر آج ہم نے اور آپ نے اس کا تدارک نہ کیا تو ممکن ہے کہ آئندہ پچاس سال، دس سال یا پانچ سال میں، ہمارا اسلامی معاشرہ بھی اسی جگہ پہنچ جائے جہاں امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں پہنچ گیا تھا۔ الا یہ کہ تیز بیں نگاہیں گہرائی تک دیکھیں؛ امین نگہبان راستہ دکھائے، صاحبان فکر امور کی ہدایت کی ذمہ داری پوری کریں اور محکم ارادے اس تحریک کی پشت پر ہوں۔ یہ کام کر لیا گیا تو یقینا ایک اتنا محکم مورچہ اور قلعہ تیار ہوگا جس میں کوئی بھی دراندازی نہیں کر سکے گا۔ ورنہ اگر ہم نے چھوڑ دیا تو پھر وہی صورتحال پیدا ہوگی اور پھر یہ خون جو بہا ہے وہ ضائع ہو جائے گا۔
اس دور میں نوبت یہ آ گئی کہ جنگ بدر کے مقتولین، جنہیں امیر المومنین اور حضرت حمزہ نے واصل جہنم کیا تھا، ان کی اولاد پیغمبر کی جگہ بیٹھ گئی، جگر گوشہ پیغمبر کا سر مبارک اپنے سامنے رکھا اورلکڑی سے آپ کے لب و دندان کے ساتھ بے ادبی کرکے کہتا ہے:۔
لیت اشیاخی ببدر شھدوا جزع الخزرج من وقع الاسل
جنگ بدر کے ہمارے مقتولین اٹھیں اور دیکھیں کہ ان کے قاتلوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا ہے؟! قضیہ یہ ہے۔ اس منزل پرقرآن کہتا ہے کہ عبرت حاصل کرو! اس منزل پر قرآن کہتا ہے کہ قل سیروا فی الارض۔ سرزمین تاریخ میں سیر کرو اور دیکھو کہ کیا ہوا ہے اور پھر خود کو متنبہ کرو۔
ہماری ثقافت میں یہ بات رائج ہونی چاہئے کہ ان شاء اللہ صاحبان فکر و نظر، اس پر تحقیق کریں اور لوگوں کے سامنے اس کو بیان کریں۔ اس سلسلے میں میں چند نکات بیان کروں گا۔
عزیزان گرامی! آپ انسانی معاشرے کو دیکھیں! ہر معاشرہ، شہر اور ملک ایک نقطہ نگاہ سے دو اقسام پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنی سمجھ، علم اور فیصلے کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ راستے کو پہچانتے ہیں، میری بحث یہ نہیں ہے کہ وہ راستہ اچھا ہے یا برا، اس کی شناخت حاصل کرتے ہیں اور پھر اس پر چلتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کو خواص کہا جاتا ہے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو یہ نہیں جاننا چاہتے کہ کون سا راستہ ٹھیک ہے اور کون سا اقدام صحیح ہے؟ درحقیقت یہ لوگ سمجھنا، پرکھنا، تحلیل و تجزیہ کرنا اور ادراک حاصل کرنا نہیں چاہتے۔ دوسرے الفاظ میں وہ ماحول کے تابع ہیں۔ بس وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ماحول کیسا ہے اور اس کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کو عوام کہا جاتا ہے۔ بنابریں معاشرے کو عوام اور خواص پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ توجہ فرمائیں! میں عوام اور خواص کے بارے میں ایک ایسا نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ عوام کو خواص اور خواص کو عوام نہ سمجھ لیا جائے۔
خواص کون ہیں؟ کیا یہ خاص طبقہ ہے؟ جواب منفی ہے۔ کیونکہ خواص میں، پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان جاہل افراد بھی موجود ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص جاہل ہوتا ہے لیکن خواص میں شامل ہوتا ہے۔ یعنی وہ بخوبی سمجھتا ہے کہ کیا کر رہا ہے۔ شناخت کے ساتھ اور فیصلہ کرکے عمل کرتا ہے؛ اگرچہ تعلیم نہیں حاصل کی ہے، اسکول نہیں گیا ہے، اس کے پاس کوئی ڈگری نہیں ہے، علما کے لباس میں نہیں ہے۔ لیکن معاملات کو سمجھتا ہے۔
انقلاب سے قبل مجھے جلا وطن کرکے ایرانشھر بھیج دیا گیا تھا۔ پاس کے شہروں میں کچھ لوگوں سے جان پہچان تھی۔ ان میں سے ایک ڈرائیور تھا اور ایک شخص تھا جو اپنا کاروبار کرتا تھا۔ یہ دونوں اہل علم وادب نہیں تھے۔ بظاہر ان پر عوام کا اطلاق ہوتا تھا۔ لیکن خواص میں شامل تھے۔ یہ دونوں مجھ سے ملنے کے لئے ایرانشہر آیا کرتے تھے اور شہر کے عالم سے اپنی گفتگو کی تفصیلات بیان کیا کرتے تھے۔ ان کے شہر کے عالم دین بہت اچھے آدمی تھے لیکن عوام میں شامل تھا۔ ملاحظہ فرمائيں! ڈرائیور خواص میں تھا لیکن عالم دین اور پیش نماز، عوام میں تھے! مثال کے طور پر وہ عالم دین کہتے تھے کہ جب پیغمبر کا نام آتا ہے تو ایک صلوات بھیجتے ہو اور جب 'آقا' (امام خمینی) کا نام آتا ہے تو تین صلوات کیوں بھیجتے ہو؟ ڈرائیور جواب دیتا تھا کہ جس دن جدوجہد ختم ہو جائے گی، اسلام ہر جگہ غالب آ جائے گا، انقلاب کامیاب ہو جائے گا تو تین نہیں ایک بھی صلوات نہیں بھیجیں گے! آج یہ تین صلوات جدوجہد ہے! ڈرائیور سمجھتا تھا عالم دین نہیں سمجھتے تھے! یہ مثال اس لئے دی ہے کہ یہ ظاہر ہو جائے کہ جب ہم خواص کہتے ہیں تو اس کا مطلب، عالم دین نہیں۔ خواص میں مرد بھی ہو سکتے ہیں اور عورتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ تعلیم یافتہ افراد بھی ہو سکتے ہیں اورغیر تعلیم یافتہ بھی ہو سکتے ہیں۔ دولتمند بھی ہو سکتے ہیں اور غریب بھی ہو سکتے ہیں۔ طاغوتی حکومت کے سرکاری اداروں میں کام کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں اور طاغوتی حکومت کے مخالفین بھی ہو سکتے ہیں۔ جب ہم خواص کہتے ہیں، تو اچھے اور برے نہیں (دونوں طرح کے لوگ ہو سکتے ہیں، ہم خواص کو بھی تقسیم کریں گے۔) بلکہ مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اقدام، موقف اور راستے کا سوچ سمجھ کر اور غور و فکر کے ساتھ انتخاب کرتے ہیں۔ سمجھتے ہیں، فیصلہ کرتے ہیں اور پھر عمل کرتے ہیں۔ یہ خواص ہیں۔ ان کے مقابلے میں عوام ہیں۔ عوام یعنی وہ لوگ جو ماحول سے متاثر ہوتے ہیں، جو کام سب کرتے ہیں وہی وہ بھی کرتے ہیں، تحلیل و تجزیہ نہیں کرتے۔ جب لوگ کہتے ہیں زندہ باد تو یہ بھی کہتے ہیں زندہ باد اور جب لوگ کہتے ہیں مردہ باد تو یہ بھی مردہ باد کہتے ہیں۔ جیسا ماحول ہو ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔ یہاں آنے کا ماحول ہوتا ہے تو یہاں آتے ہیں اور وہاں جانے کا ماحول ہو تو وہاں چلے جاتے ہیں۔
حضرت مسلم کوفے میں آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے چچا زاد بھائی آئے ہیں۔ خاندان بنی ہاشم کے نمائندے آئے ہیں۔ چلیں! یہ قیام کرنا چاہتے ہیں، تحریک شروع کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ جوش میں آتے ہیں، حضرت مسلم کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ اٹھارہ ہزار لوگ حضرت مسلم کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ پانچ چھے گھنٹے بعد، کوفہ کے سرداران قبائل آتے ہیں۔ لوگوں سے کہتے ہیں: کیا کر رہے ہو؟ کس سے جنگ کر رہے ہو؟ کس کا دفاع کر رہے ہو؟ تمھاری مٹی پلید کر دیں گے۔ پھر یہ لوگ مسلم کو چھوڑ کے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ بعد میں جب ابن زیاد کے فوجی مسلم کو گرفتار کرنے کے لئے طوعہ کے گھر کو گھیر لیتے ہیں، تو یہی لوگ اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور مسلم کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔ جو بھی کرتے ہیں، صحیح شناخت اور غوروفکر کے ساتھ نہیں کرتے۔ جیسا ماحول ہو اسی کے مطابق چلتے ہیں۔ یہ عوام ہیں۔ ہر معاشرے میں عوام بھی ہوتے ہیں اور خواص بھی ہوتے ہیں۔ فی الحال عوام کو چھوڑ کے خواص کو دیکھتے ہیں۔
خواص کے فطری طور پر دو محاذ ہیں۔ ایک حق کا محاذ اور دوسرا باطل کا محاذ۔ کچھ صاحبان علم و دانش اور مفکر حضرات حق کے محاذ کے لئے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ حق کس محاذ کے ساتھ ہے۔ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے اور اپنی شناخت کی بنیاد پر اس کے لئے کام کرتے ہیں۔ یہ ایک دستہ ہے اور ایک دستہ حق کا مخالف ہے۔ اگر پھر صدر اسلام (اسلام کے ابتدائی دور) کی طرف واپس چلیں تو یہ کہا جائے گا کہ کچھ لوگ امیر المومنین اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ ہیں اور بنی ہاشم کے طرفدار ہیں اور کچھ لوگ معاویہ کے ساتھی ہیں اور بنی امیہ کے طرفدار ہیں۔ بنی امیہ کے طرفداروں میں بھی صاحبان فکر، عقلمند اور چالاک لوگ تھے۔ وہ بھی خواص تھے۔
بنابریں خواص بھی دو اقسام؛ حق کے طرفدار خواص اور باطل کے طرفدار خواص، پر تقسیم ہوتے ہیں۔ آپ کو باطل کے طرفدار خواص سے کیا توقع ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ توقع ہے کہ وہ حق کے خلاف اور آپ کے خلاف منصوبہ بندی کریں گے۔ لہذا ان سے جنگ کرنا چاہئے۔ باطل کے طرفدار خواص سے جنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے۔
جس طرح میں آپ سے گفتگو کر رہا ہوں، آپ خود اپنا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ کہاں ہیں؟ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ زمام امور ذہن کے سپرد کریں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کو قصہ کہانی نہ سمجھیں۔ تاریخ یعنی ایک دوسرے منظر میں ہماری شرح حال:
خوشتر آن باشد کہ وصف دلبران گفتہ آید در حدیث دیگران
تاریخ یعنی ہم اور آپ، یعنی یہی اجتماع جو آج یہاں ہے۔ بنابریں جب ہم تاریخ کی تشریح کریں تو ہم میں سے ہر ایک دیکھے کہ ہم خود اس داستان میں کہاں ہیں۔ اس کے بعد دیکھیں کہ اس حصے میں جو فرد ہماری جگہ تھا، اس دن اس نے کیا کیا تھا کہ اس پر ضرب لگی؟ پھر محتاط ہو جائيں کہ اس شخص کی طرح عمل نہ کریں۔
فرض کریں آپ اس کلاس میں جاتے ہیں جہاں جنگ کا طریقہ سکھایا جاتا ہے۔ وہاں ایک فرضی دشمن کے مورچے کا تعین کرتے ہیں۔ اپنے محاذ کا بھی تعین کرتے ہیں۔ پھر آپ اپنے محاذ کی صف آرائی کی خامیوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اپنی صف آرائی کا ڈیزائن تیار کرنے والے سے کہاں کیا غلطی ہوئی ہے۔ یا مثال کے طور پر صف آرائی صحیح تھی لیکن اپنے محاذ کے کمانڈر یا وائرلیس مین یا توپ چلانے والے نے یا کسی فوجی نے کوئی غلطی کی ہے۔ تو آپ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ غلطی آپ کو نہیں کرنی چاہئے۔ تاریخ اس طرح ہے۔
صدر اسلام (اسلام کے ابتدائی دور) کا بیان ہو تو دیکھیں کہ آپ کی جگہ کہاں ہے۔ کچھ لوگ عوام میں ہیں، وہ خود سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ عوام اپنی قسمت کی خوبی سے، اگر اتفاق سے ایسے زمانے میں ہوئے کہ انہیں امیر المومنین علیہ السلام اور ہمارے مرحوم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) جیسا پیشوا مل گیا تو بہشت میں چلے جائيں گے۔ لیکن اگر قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہ ایسے دور میں ہوئے کہ و جعلناھم آئمۃ یدعون الی النا اور یا الم تر الی الذین بدّلوا نعمۃ اللہ کفرا و احلوا قومھم دار البوار۔ جھنّم یصلونھا و بئس القرار تو دوزخ کی طرف جائيں گے۔ تو خیال رکھیں کہ عوام میں قرار نہ دیئے جائيں۔
عوام میں قرار دیئے جانے سے بچنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لازمی طور پر اعلی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ نہیں! میں نے کہا کہ عوام کا مطلب یہ نہیں ہے۔ جانے کتنے اعلی تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو عوام میں ہیں۔ جانے کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے دینی تعلیم حاصل کی ہے لیکن عوام میں ہیں۔ جانے کتنے غریب یا پیسے والے ہیں، لیکن عوام میں ہیں۔ عوام میں ہونا (یا نہ ہونا) ہمارے اور آپ کے اختیار میں ہے۔ ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ اس گروہ میں شامل نہ ہوں۔ یعنی جو کام بھی کریں، بصیرت کے ساتھ کریں۔ جو بھی بصیرت کے ساتھ کام نہیں کرتا وہ عوام میں ہے۔ لہذا آپ دیکھیں کہ قرآن پیغمبر کے بارے میں کہتا ہے؛ ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا و من اتبعنی یعنی میں اور میری پیروی کرنے والے، بصیرت کے ساتھ عمل کرتے ہیں، دعوت دیتے اور آگے بڑھتے ہیں۔ بنابریں پہلے یہ دیکھیں کہ آپ عوام کے گروہ میں ہیں یا نہیں۔ اگر عوام کے گروہ میں ہیں تو بہت تیزی کے ساتھ خود کو اس گروہ سے باہر نکالیں۔ اپنے اندر تحلیل و تجزیہ کرنے کی قوت پیدا کریں؛ خود تشخیص دیں اور معرفت حاصل کریں۔
اگر خواص میں ہوں تو دیکھیں کہ خواص کے کس گروہ میں ہیں، حق کے طرفدار خواص میں ہیں یا باطل کے طرفدار خواص میں؟ اس منزل میں مسئلہ میرے لئے بالکل واضح ہے۔ ہمارے معاشرے کے خواص حق کے طرفدار خواص ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس لئے کہ قرآن، سنت، عترت، راہ خدا اور اسلامی اقدار کی دعوت دیتے ہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ کے خواص، حق کے طرفدار خواص ہیں۔ لہذا باطل کے طرفدار خواص کا معاملہ الگ ہے، فی الحال میں ان کے بارے میں بات نہیں کروں گا۔ حق کے طرفدار خواص کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
مسئلہ یہاں سے دشوار ہوتا ہے۔ میرے عزیزو! حق کے طرفدار خواص کی بھی دو اقسام ہیں۔ ایک قسم کے حق کے طرفدار خواص وہ ہیں جو دنیا، زندگی، شہوت، پیسے، لذت، آرام و آسائش، نام و نمود اور سبھی اچھی چیزوں کے مقابلے پر آتے ہیں۔ یہ جن چیزوں کا ہم نے ذکر کیا، یہ سب اچھی چیزیں ہیں۔ یہ سبھی زندگی کی اچھی پونجی ہے۔ متاع الحیاۃ الدنیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بری پونجی ہے۔ نہیں متاع ہے اور خدا نے آپ کے لئے خلق کی ہے۔ لیکن اگر ان پونجیوں اور زندگی سے استفادے میں اس قدر محو ہو گئے کہ جب سخت فیصلہ کرنے کا وقت آیا تو ان سے دستبردار نہ ہو سکے، تو پھر غضب ہے! اگر متاع دنیا سے استفادہ کرنے کے ساتھ ہی سخت امتحان کا وقت آ جائے تو اگر اس کو آسانی سے چھوڑ سکیں تو یہ اہم ہے۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ حق کے طرفدار خواص بھی دو اقسام میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ان مسائل کے لئے، مطالعے اور غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اتفاق کی بنیاد پر معاشرے، نظام اور انقلاب کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے لئے مطالعے اور گہری فکر کی ضرورت ہے۔ اگر کسی معاشرے میں اس قسم کے حق کے طرفدار خواص یعنی ایسے لوگ جو ضرورت پڑنے پر متاع دنیا سے دستبردار ہو جائیں، اکثریت میں ہوں، تو ایسا اسلامی معاشرہ کبھی بھی امام حسین علیہ السلام کے دور کے معاشرے کے انجام سے دوچار نہیں ہوگا۔ یقینا ایسا معاشرہ ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ لیکن اگر معاملہ اس کا الٹا ہو اور دوسری قسم کے طرفدار خواص، جو متاع دنیا کے شیدائی ہیں، وہ جو حق کو پہچانتے ہیں لیکن متاع دنیا سامنے ہو تو ان کے پیروں میں لغزش آ جاتی ہو، اکثریت میں ہوں تو مصیبت ہے۔
دنیا یعنی کیا؟ یعنی پیسہ، یعنی گھر، یعنی شہوت، یعنی عہدہ، یعنی نام اور شہرت، یعنی مرتبہ یعنی جان۔ جو لوگ اپنی جان بچانے کے لئے، راہ خدا چھوڑ دیتے ہیں اور جہاں حق کہنا چاہئے نہیں کہتے، اس لئے کہ اس صورت میں ان کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے، یا اپنا مرتبہ بچانے کے لئے، یا پیسے کے لئے، یا اولاد کی محبت میں، گھر والوں، قرابت داروں اور دوستوں کی محبت میں راہ خدا کو چھوڑ دیتے ہیں، اگر ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہو تو مصیبت ہے۔ اس صورت میں حسین ابن علی جیسی ہستیاں بھی، قتل گاہ میں اور مقتل میں لے جائي جائيں گی۔ اس صورت میں یزید جیسے افراد بر سر اقتدار آ جاتے ہیں اور جس ملک کی تشکیل پیغمبر اسلام نے کی تھی اس پر ایک ہزار مہینے تک بنیہ امیہ کی حکومت قائم رہتی ہے، امامت سلطنت میں تبدیل ہو جاتی ہے، سلطنت میں بدل جاتی ہے!
اسلامی معاشرہ، امامت کا معاشرہ ہے۔ یعنی معاشرے کا سربراہ امام ہوتا ہے۔ وہ انسان جس کے پاس طاقت ہوتی ہے لیکن لوگ ایمان اور دل سے اس کی پیروی کرتے ہیں اور وہ ان کا پیشوا ہوتا ہے۔ جبکہ سلطان اور بادشاہ وہ ہوتا ہےجو زور زبرستی اور قہر و غلبے کے ذریعے لوگوں پر اپنی حکومت مسلط کرتا ہے۔ لوگ اس کو دوست نہیں رکھتے۔ لوگ اس کو قبول نہیں کرتے۔ لوگ اس پر اعتقاد نہیں رکھتے۔ ( البتہ وہ لوگ جن کی کوئی حیثیت ہوتی ہے) اس کے باوجود وہ قہر وغلبے کے ذریعے لوگوں پر حکومت کرتا ہے۔ بنی امیہ نے اسلام میں امامت کو سلطنت اور بادشاہت میں تبدیل کر دیا اور ایک ہزار مہینے یعنی نوے سال تک، عظیم اسلامی مملکت پر انہوں نے حکومت کی۔ بنی امیہ نے جو کج دیوار کھڑی کی وہ ایسی تھی کہ ان کی حکومت کا تختہ پلٹنے اور ان کے سقوط کے بعد، اسی غلط ڈھانچے کے ساتھ بنی عباس کے پاس حکومت آئي۔ بنی عباس نے چھے سو سال تک پیغمبر کے جانشین اور خلیفہ کے عنوان سے اسلامی دنیا پر حکومت کی۔ اس خاندان کے خلفا، یا بہتر الفاظ میں یوں کہا جائے کہ اس خاندان کے بادشاہ، شراب پیتے تھے، بدعنوان تھے اور عیاشی، خباثتوں، زراندوزی اور دوسرے بادشاہوں کی طرح ہزاروں قسم کے فسق و فجور اور برائیوں میں غرق تھے۔ اسی کے ساتھ وہ مسجد میں بھی جاتے تھے، نماز بھی پڑھاتے تھے اور لوگ ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے تھے۔ ان کی پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ تھوڑے سے لوگ تو مجبوری میں لیکن زیادہ تر لوگ غلط عقیدے کی وجہ سے ان کی اقتدا کرتے تھے؛ اس لئے کہ لوگوں کا عقیدہ منحرف کر دیا گیا تھا۔
جی ہاں! جب کسی معاشرے میں، حق کے طرفدار خواص، یا ان کی بڑی اکثریت، اس طرح اپنی ماہیت بدل دے کہ ان کے نزدیک صرف ان کی دنیا کی ہی اہمیت باقی رہ جائے؛ جب جان کے خوف سے، دولت کے ختم یا کم ہو جانے کے ڈر سے، عہدہ چلے جانے کے خوف سے، منفور ہو جانے اور اکیلے رہ جانے کے ڈر سے، باطل کی حکومت کو قبول کر لے، باطل کے مقابلے پر نہ کھڑی ہو، حق کا ساتھ نہ دے اور اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالے تو اس وقت اسلامی دنیا میں حسین ابن علی علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کا المیہ رونما ہوتا ہے اور پھر سلسلہ شروع ہوتا ہے بنی امیہ کی حکومت کا، مروان کی نسل کی حکمرانی کا، اس کے بعد بنی عباس کی حکومت اور آخر میں اسلامی دنیا کے سلاطین کا سلسلہ چلتا ہے اور آج کے دور تک پہنچتا ہے۔
آج اسلامی دنیا اور مختلف اسلامی ملکوں اور اس سرزمین کو دیکھیں جہاں خانہ خدا ہے، مسجد النبی ہے، دیکھیں وہاں کیسے کیسے فاسق و فاجر اقتدار میں ہیں اور حکومت کر رہے ہیں! بقیہ ملکوں کا اندازہ اسی سرزمین سے لگائیں۔ آپ زیارت عاشورہ میں کہتے ہیں کہ اللھم العن اوّل ظالم ظلم حق محمد و آل محمد پہلے درجے میں (اس کج دیوار کی) پہلی ٹیڑھی اینٹ رکھنے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں اور حق و انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے۔
اب جبکہ عاشورا کے عبرتناک واقعے کی تحلیل و تجزیہ سے نزدیک ہو چکے ہیں تو تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔
حق کے طرفدار خواص کی لغزش کا دور رحلت پیغمبر کے تقریبا سات آٹھ سال کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مسئلہ خلافت کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ مسئلہ خلافت اس انتہائي خطرناک سلسلے سے الگ ہے جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ قضیہ رحلت پیغمبر سے ایک عشرے سے کم کے عرصے ميں شروع ہوتا ہے۔ پہلے سابقین اسلام، اصحاب و انصار اور ان تمام لوگوں کو جنہوں نے زمانہ پیغمبر کی جںگوں میں شرکت کی تھی، خاص امتیازات حاصل ہوئے جن میں سے ایک یہ تھا کہ بیت المال سے انہیں زیادہ پیسے ملنے لگے۔ یہ کہا گیا کہ انہیں دوسروں کے برابر کرنا صحیح نہیں ہے اور دوسروں کو اور ان کو یکساں نہیں سمجھا جا سکتا! یہ پہلی اینٹ تھی۔ انحراف پر منتج ہونے والے اقدامات، اس طرح ایک چھوٹے سے نقطے سے شروع ہوئے اور پھر ہر قدم نے بعد والے قدم کو تیز تر کر دیا۔ انحرافات یہیں سے شروع ہوئے، اورعثمان کے دور کے اواسط تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ تیسرے خلیفہ کے دور میں، حالت یہ ہو گئی کہ پیغمبر کے ممتاز اصحاب، اپنے وقت کے بڑے سرمایہ داروں میں شمار ہونے لگے! توجہ فرمائيں! یعنی وہی عالی مرتبت صحابہ جن کے نام مشہور ہیں؛ طلحہ، زبیر، سعد ابن ابی وقاص وغیرہ، جن میں سے ہر ایک نے بدر، احد اور حنین میں بے شمار قابل ذکر کارنامے انجام دیئے تھے، اسلامی دنیا کے صف اول کے سرمایہ دار بن گئے۔ ان میں سے ایک کے مرنے کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے سونے کو ورثا میں تقسیم کرنے کے لئے، پہلے اس کو سونے کی بڑی اینٹ میں تبدیل کیا گیا اور پھر تبر سے اس کو ٹوڑ کے ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا۔ جیسے لکڑی تبر سے کاٹتے ہیں، اس طرح! سونے کو عام طور پر مثقال سے حساب کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ کتنا سونا تھا کہ اس کو تبر سے توڑتے ہیں۔ یہ حقیقت تاریخ میں محفوظ ہے۔ ایسی باتیں نہیں ہیں جن کے لئے کہیں کہ شیعہ کتب میں لکھا ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں ہر ایک نے لکھا اور درج کیا ہے۔ ان کے چھوڑے ہوئے درہم و دینار کی مقدار حیرت انگیز حد تک زیادہ ہے۔
اس صورتحال نے امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے دور میں مسائل کھڑے کر دیئے۔ یعنی چونکہ کچھ لوگوں کے لئے مقام و مرتبہ اہمیت حاصل کر چکا تھا، اس لئے وہ آپ کے مقابلے پر آ گئے۔ رحلت پیغمبر کو پچیس سال ہو رہے تھے اور بہت سی خطائیں اور غلطیاں شروع ہو چکی تھیں۔ نفس امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام نفس پیغمبر تھا۔ اگر پچیس سال کا فاصلہ نہ آیا ہوتا تو، معاشرے کی تعمیر امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے لئے مشکل نہیں تھی۔ لیکن اب آپ کے سامنے ایسا معاشرہ ہے کہ یاخذون مال اللہ دولا و عباد اللہ خولا و دین اللہ دخلا بینھم یہ ایسا معاشرہ ہے کہ جس میں دنیا داری قدروں پر غالب ہے۔ یہ ایسا معاشرہ ہے کہ امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام جب لوگوں کو جہاد کے لئے لے جانا چاہتے ہیں تو کتنی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے! حق کے طرفدار خواص یعنی وہ لوگ جو حق کو پہچانتے تھے، ان میں اکثر دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے تھے! نتیجہ یہ ہوا کہ امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کو مجبورا تین جنگیں لڑنی پڑیں؛ آپ نے اپنی حکومت کے چار سال اور نو مہینے جنگوں میں گزارے اور سرانجام ایک خبیث فرد کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔
امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کا خون بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا خون امام حسین علیہ السلام اہم ہے۔ آپ زیارت وارثہ میں پڑھتے ہیں کہ السلام علیک یا ثار اللہ و ابن ثارہ یعنی خون امام حسین علیہ السلام اور آپ کے والد بزرگوار امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے خون کا مالک خدا ہے۔ یہ بات کسی کے لئے بھی نہیں کہی گئی ہے۔ جو خون بھی زمین پر گرایا جائے، اس کا کوئی مالک اور وارث ہوتا ہے۔ جس کا قتل کیا جائے، اس کا باپ اس کے خون کا مالک و وارث ہوتا ہے؛ بیٹا اپنے باپ کے خون کا مالک و وارث ہوتا ہے: بھائي اپنے بھائي کے خون کا مالک و وارث ہوتا ہے۔ عرب خون کے بدلے اور خون کے حق کی ملکیت کو 'ثار' کہتے ہیں۔ امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام ثار اللہ ہیں، یعنی آپ کے خون کا مالک و وارث اور بدلہ لینے والا، خدا ہے۔ یعنی امام حسین علیہ السلام اور آپ کے والد کے خون کا بدلہ لینے کا حق خدا کا ہے۔ ان دونوں ہستیوں کے خون کا مالک و وارث خود ذات مقدس پروردگار ہے۔
امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام اس دور کے اسلامی معاشرے کی حالت کی وجہ سے شہید کئے گئے۔ اس کے بعد امام حسن علیہ السلام کی امامت کا زمانہ آیا۔ ان حالات میں آپ چھے مہینے سے زیادہ نہ رہ سکے۔ آپ کو بالکل اکیلا چھوڑ دیا۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام جانتے تھے کہ اگر اپنے تھوڑے سے اصحاب و انصار کے ساتھ معاویہ سے جنگ کریں اور شہید ہو جائيں تو اسلامی معاشرے کے خواص میں اتنی اخلاقی پستی آ چکی ہے کہ کوئی آپ کے خون کو اہمیت نہیں دے گا! معاویہ کا پروپیگنڈہ، پیسہ اور چالاکیاں سب کو اپنے قابو میں کر لیں گی اور ایک دو سال گزرنے کے بعد لوگ کہیں گے کہ امام حسن علیہ السلام نے بلاوجہ معاویہ سے مقابلہ کیا۔ لہذا آپ نے تمام سختیاں برداشت کیں اور خود کو میدان شہادت میں نہیں لائے؛ اس لئے کہ جانتے تھے کہ آپ کا خون رائگاں چلا جائے گا۔
بعض اوقات شہید ہونا زندہ رہنے سے آسان ہوتا ہے! حق یہ ہے کہ ایسا ہی ہے۔! اس نکتے کو اہل حکمت و معنی اور صاحبان فکر اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات کسی ماحول اور فضا میں زندہ رہنا اور سعی و کوشش کرنا مر جانے، شہید ہو جانے اور خدا کے پاس چلے جانے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ امام حسن علیہ السلام نے اس مشکل راستے کا انتخاب کیا۔
اس زمانے کے حالات ایسے تھے۔ خواص جھک چکے تھے اور کچھ کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ یزید حکومت میں آیا تو اس سے جنگ کرنا ممکن ہو گیا۔ دوسرے الفاظ میں یزید کی حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ اس سے جنگ میں قتل ہو جانے والے کا خون رائگاں نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا۔ یزید کے دور میں حالت یہ ہو چکی تھی کہ قیام کے علاوہ اور کوئي راستہ ہی نہیں بچا تھا۔ یہ صورتحال امام حسن علیہ السلام کے دور سے مختلف تھی جب شہید ہو جانے اور زندہ رہنے میں انتخاب کا امکان موجود تھا اور زندہ رہنے کی سختی، اثر اور ثواب قتل ہو جانے سے زیادہ تھا۔ لہذا امام حسن علیہ السلام نے اس کا انتخاب کیا جو زیادہ سخت تھا۔ لیکن امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں حالت یہ نہیں تھی۔ آپ کے زمانے میں صرف ایک انتخاب رہ گیا تھا، زندہ رہنا عبث ہو چکا تھا قیام نہ کرنا بے معنی ہو چکا تھا اور قیام کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ اب اگر اس قیام کے نتیجے میں حکومت تک پہنچ گئے تو پہنچ گئے۔ قتل ہو گئے تو ہو جائیں، راستہ دکھانا اور راستے میں پرچم نصب کرنا ضروری تھا تاکہ معلوم ہو جائے کہ حالت یہ ہوگئی ہے۔ اقدام ایسا ہونا چاہئے۔
جب امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا، تو اس عظمت کے باوجود جو آپ کو اسلامی معاشرے میں حاصل تھی، بہت سے خواص آپ کے پاس نہیں آئے اور انہوں نے آپ کی مدد نہیں کی۔ دیکھیں کہ کسی معاشرے کی حالت ان خواص کے ذریعے کتنی خراب ہو جاتی ہے، جو اسلام کی آئندہ صدیوں کی قسمت اور تقدیر پر بہت آسانی کے ساتھ اپنی دنیا کو ترجیح دینے پر تیار ہو جاتے ہیں!
میں قیام امام حسین علیہ السلام کے واقعات اور مدینے سے آپ کی روانگی کا مطالعہ کر رہا تھا تو یہ نکتہ میرے سامنے آیا کہ جس رات آپ مدینے سے نکلے اس سے ایک رات قبل، عبداللہ ابن زبیر مدینے سے نکلے تھے۔ دونوں درحقیقت ایک ہی صورتحال سے دوچار تھے۔ لیکن امام علیہ السلام کہاں اور عبداللہ ابن زبیر کہاں! امام حسین علیہ السلام کا بات کرنا، آپ کا مقابلہ اور آپ کا خطبہ اتنا پر ہیبت تھا کہ حاکم وقت کو مدینہ میں آپ سے سختی سے بات کرنے کی جرائت نہیں ہوئی! مروان ایک لفظ آپ پر اعتراض کے لئے زبان پر لایا۔ چونکہ اس کا اعتراض بیجا تھا، امام علیہ السلام نے ایسا ڈانٹا کہ خاموش ہوکے اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ لیکن اسی مروان جیسوں نے عبد اللہ ابن زبیر کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ عبداللہ ابن زبیر نے اپنے بھائی کے ذریعیے پیغام بھجوایا کہ اگر اجازت دیجئے تو فی الحال دارالخلافہ نہ آؤں۔ ان سے توہین آمیز انداز میں کہا کہ تمھارا خانہ خراب کر دیں گے! اگر گھر سے نہ نکلے تو قتل کر دیں گے اور پتہ نہیں کیا کیا کر دیں گے! ایسی دھمکی دی کہ عبد اللہ ابن زبیر نے التماس کرنا شروع کردیا اور کہا کہ تو اجازت دیجئے فی الحال اپنے بھائی کو بھیج دوں؛ خود کل دارالخلافہ آؤں گا۔ اتنا التماس کیا کہ کسی نے سفارش کی کہ آج رات کی ان کو مہلت دے دی جائے۔
عبد اللہ ابن زبیر اگرچہ معروف اور با اثر تھے لیکن ان کی پوزیشن میں اور امام حسین علیہ السلام کی پوزیشن میں بہت فرق تھا۔ کسی میں امام علیہ السلام سے سختی سے بات کرنے کی جرائت نہیں تھی۔ آپ مدینے سے نکلے تو راستے میں اور مکے میں جو بھی ملا اس نے آپ سے جعلت فداک ( میں آپ پر قربان ہو جاؤں)، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو جائيں اوروعمی و خالی فداک ( میرے چچا اور ماموں آپ پر فدا ہو جائيں) جیسے جملوں کے ساتھ ہی خطاب کیا۔ امام حسین علیہ السلام سے عام طور پر لوگوں کا سلوک یہ تھا۔ آپ کی شخصیت اسلامی معاشرے میں اتنی نمایاں اور ممتاز تھی۔ مکے میں عبد اللہ ابن مطیع امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور عرض کیا یا بن رسول اللہ! ان قتلت لنسترقّن بعدک۔ اگر آپ نے قیام کیا اور قتل کر دیئے گئے تو آپ کے بعد جو لوگ حکومت میں ہوں گے وہ مجھے غلام بنا لیں گے۔ آج آپ کے احترام میں، آپ کے خوف سے اور آپ کی ہیبت سے اپنے معمول کے راستے پر ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کا مرتبہ خواص کے درمیان ایسا ہے کہ حتی ابن عباس آپ سے احترام سے ملتے تھے، عبد اللہ ابن جعفر آپ کا احترام کرتے تھے، عبداللہ ابن زبیر کو اگرچہ امام علیہ السلام پسند نہیں کرتے تھے، لیکن وہ بھی آپ کا احترام کرتے تھے۔ بزرگان قوم اور خواص اہل حق سب آپ کے مرتبے کی عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کئے نظر آتے ہیں۔ آپ کا احترام کرنے والے، محاذ حق کے خواص ہیں؛ حکومت کے طرفدار نہیں ہیں؛ بنی امیہ کے طرفدار نہیں ہیں، باطل کے طرفدار نہیں ہیں۔ ان کے درمیان حتی بڑی تعداد میں شیعہ ہیں جو امیر المومنین علیہ السلام کو مانتے ہیں اور انہیں خلیفہ اول سمجھتے ہیں۔ لیکن ان سب کو جب حکومت کی سختی کا سامنا ہوتا ہے اور دیکھتے ہیں کہ معاملہ جان کا ہے، ان کی سلامتی ان کی آسائش، ان کا مقام و مرتبہ اور ان کی دولت خطرے میں پڑ سکتی ہے تو پیچھے ہٹ جتے ہیں۔ یہ پیچھے ہٹ گئے تو عام لوگوں نے ادھر کا رخ کر لیا۔
جن لوگوں نے کوفے سے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا اور آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی، ان کے ناموں کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سب طبقہ خواص سے تھے، معاشرے کی ممتاز ہستیاں اور نمایاں لوگ تھے۔ خطوط کی تعداد زیادہ ہے۔ کئ سو صفحات، کئ بڑے بستے اور تھیلے خطوط کے کوفے سے امام حسین علیہ السلام کے لئے بھیجے گئے۔ یہ سبھی خطوط بڑے لوگوں نے، بزرگان قوم نے، معروف اور ممتاز شخصیات نے جو وہی خواص تھے، لکھے تھے۔ لیکن ان خطوط کے مضمون اور انداز کو دیکھیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ حق کے طرفدار ان خواص میں سے کون لوگ اس دستے میں ہیں جو اپنے دین کو دنیا پر قربان کرنے کے لئے تیار رہتا ہے اور کون لوگ اس دستے میں ہیں جو اپنی دنیا کو دین پر قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ خطوط کو الگ کریں تو سمجھا جا سکتا ہے کہ جو لوگ دین کو دنیا پر قربان کرنے کے لئے تیار ہیں ان کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلم ابن عقیل کوفے میں شہید کر دیئے جاتے ہیں اور اسی کوفے سے جہاں اٹھارہ ہزار لوگوں نے مسلم کی بیعت کی تھی، بیس تیس ہزار یا اس سے زیادہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے جنگ کے لئے کربلا جاتے ہیں! یعنی خواص جدھر جاتے ہیں عوام بھی ادھر ہی جاتے ہیں۔
پتہ نہیں اس حقیقت کی عظمت جو ہمیشہ ذہین لوگوں کے دامن گیر ہوتی ہے، ہمارے لئے واضح اور روشن ہے یا نہیں؟ کوفے کا ماجرا، یقینا آپ نے سنا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا، امام علیہ السلام نے پہلے مرحلے میں مسلم ابن عقیل کو کوفے بھیجا۔ سوچا کہ مسلم کو بھیجتا ہوں، اگر انہوں نے اطلاع دی کہ حالات سازگار ہیں تو خود بھی کوفے جاؤں گا۔ مسلم ابن عقیل کوفے پہنچتے ہی، بزرگان شیعہ کے گھر گئے اور امام علیہ السلام کا خط پڑھ کے سنایا۔ لوگ جوق در جوق آئے اور آپ سے محبت وعقیدت کا اظہار کیا۔ کوفے کا گورنر نعمان ابن بشیر کمزور اور نرم مزاج انسان تھا۔ اس نے کہا کہ جب تک کوئی مجھ سے جنگ نہ کرنا چاہے، میں اس سے جنگ نہیں کروں گا۔ اس نے مسلم سے جنگ نہیں کی۔ لوگوں نے دیکھا کہ حالات پرسکون ہیں اور فضا آزاد ہے تو پہلے سے زیادہ مسلم ابن عقیل کی بیعت کرنے لگے۔ محاذ باطل کے خواص اور بنی امیہ کے طرفداروں میں سے دو تین لوگوں نے یزید کو خط لکھا کہ اگر کوفے کو اپنے پاس باقی رکھنا چاہتے ہو تو کسی مناسب فرد کو یہاں کی حکومت کے لئے بھیجو۔ اس لئے کہ نعمان ابن بشیر مسلم ابن عقیل کے مقابلے میں نہیں ٹک سکتے۔ یزید نے بصرے کے گورنر عبید اللہ ابن زیاد کو حکم دیا کہ بصرے کے ساتھ ہی، آج کی زبان میں موجودہ عہدے کو باقی رکھتے ہوئے، کوفے کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لو۔ عبید اللہ ابن زیاد بغیر توقف کے بصرے سے کوفے پہنچا۔ اس کے کوفے میں آنے کا انداز بھی، خواص کے منصوبے کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ اگر وقت ہوا تو اس سلسلے میں کچھ باتیں آپ کے لئے نقل کروں گا۔ وہ کوفے کے دروازے پر پہنچا تو رات ہو چکی تھی۔ کوفے کے عام لوگوں نے، وہی طبقہ عوام جس میں تحلیل و تجزیئے کی قوت نہیں ہوتی، جیسے ہی دیکھا کہ گھوڑے پر سوار، سازوسامان کے ساتھ، چہرے پر نقاب لگائے ہوئے، کوئی شخص شہر میں داخل ہوا ہے، سوچا کہ امام حسین علیہ السلام ہیں۔ اس کے آگے آگے دوڑنے لگے اور السلام علیک یابن رسول اللہ کے نعرے فضا میں گونج اٹھے!
عام لوگوں کی خصوصیت یہی ہے۔ جو سوچنے سمجھنے اور تحلیل و تجزیئے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، وہ تحقیق کا انتظار نہیں کرتا۔ دیکھا کہ کوئی شخص گھوڑے اور سازوسامان کے ساتھ آیا، تو اس سے کوئی بات بھی نہیں کی اور غلط نتیجہ اخذ کر لیا۔ جیسے ہی کسی نے کہا کہ وہ امام حسین علیہ السلام ہیں، سب نے امام حسین امام حسین کی آواز لگانا شروع کر دیا! تھوڑا رک کے، حقیقت سامنے آنے کا انتظار کئے بغیر اس کو سلام کیا، اس کا استقبال کیا۔ عبید اللہ ابن زیاد نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی اور دارالامارہ میں داخل ہوا اور مسلم ابن عقیل سے جںگ کے منصوبے پر عمل شروع کر دیا۔ اس نے مسلم ابن عقیل کے طرفداروں کو سخت ترین دھمکیاں، دباؤ اور ایذائيں دینا شروع کر دیا۔ ہانی ابن عروہ کو دھوکے سے دالامارہ لایا اور زد و کوب کیا۔ جب لوگوں کی ایک جماعت نے اعتراض کیا اور دارالامارہ کو محاصرے میں لے لیا تو جھوٹ اور نیرنگ کے ذریعے انہیں منتشر کیا۔
اس منزل میں بھی حق کے نام نہاد طرفدار خواص کا کردار آشکارا ہے، جنہوں نے حق کو پہچانا اور تشخیص دیا، لیکن دنیا کو ترجیح دی۔ دوسری طرف حضرت مسلم بہت سے لوگوں کے ساتھ روانہ ہوتے ہیں۔ تاریخ ابن اثیر میں ہے کہ تیس ہزار لوگ مسلم کے اطراف میں جمع ہو گئے تھے۔ ان میں سے چار ہزار لوگ مسلم ابن عقیل کی اقامتگاہ کے چاروں طرف کھڑے، ہاتھوں میں تلوار لئے، مسلم ابن عقیل کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے۔
یہ نو ذی الحجہ کے واقعات ہیں۔ ابن زیاد نے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ کچھ خواص کو لوگوں کو ڈرانے کے لئے ان کے درمیان بھیج دیا۔ خواص کے طبقے سے تعلق رکھنے والے یہ افراد لوگوں کے درمیان گھومتے تھے اور کہتے تھے: کس سے جنگ کرنے آئے ہو؟ کیوں جنگ کر رہے ہو؟ امان چاہتے ہو تو اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ۔ ان کے پاس پیسہ، تازیانہ اور شمشیر تھی، انہوں نے لوگوں کو ایسا ڈرایا اور مسلم سے دور کیا کہ عشا کی نماز کے وقت مسلم کے ساتھ کوئی نہ تھا۔ کوئی نہیں!
پھر ابن زیاد مسجد کوفہ میں گیا اور اس نے اعلان کیا کہ سب مسجد میں جمع ہوں اور عشا کی نماز میری امامت میں پڑھیں!
تاریخ لکھتی ہے کہ مسجد کوفہ ان لوگوں سے بھر گئی جو ابن زیاد کے پیچھے عشا کی نماز پڑھنے کے لئے کھڑے تھے۔ ایسا کیوں ہوا؟ میں دیکھتا ہوں تو مجھے حق کے طرفدار خواص قصوروار نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بعض نے بہت غلط انداز سے عمل کیا۔ جیسے کون؟ جیسے قاضی شریح۔ قاضی شریح بنی امیہ میں سے نہیں تھا! وہ سمجھتا تھا کہ حق کس کے ساتھ ہے، وہ سمجھتا تھا کہ حالات کیا ہیں؟ جب ہانی ابن عروہ کو زخمی حالت میں زندان میں ڈالا تو ان کے سپاہیوں اور قبیلے کے افراد نے عبید اللہ ابن زیاد کے قصر پر قبضہ کر لیا۔
ابن زیاد ڈر گیا۔ وہ کہتے تھے کہ تم نے ہانی کو قتل کر دیا ہے۔ ابن زیاد نے قاضی شریح سے کہا کہ جاؤ دیکھو اگر ہانی زندہ ہیں تو لوگوں کو بتاؤ۔ شریح نے دیکھا کہ ہانی زندہ ہیں لیکن زخمی ہیں۔ جیسے ہی ہانی کی نظر شریح پر پڑی انہوں نے فریاد بلند کی : اے مسلمانو! یہ کیا حالت ہے؟ میری قوم والے کیا ہوئے؟ میری مدد کے لئے کیوں نہیں آئے؟ مجھے بچانے کے لئے کیوں نہیں آتے؟ کیا سب مر گئے ہیں؟ شریح نے کہا: میں چاہتا تھا کہ ہانی کی باتیں ان لوگوں تک پہنچا دوں جنہوں نے دارالامارہ کو اپنے محاصرے میں لے رکھا تھا۔ لیکن افسوس کہ عبید اللہ ابن زیاد کے جاسوس وہاں موجود تھے اور میری ہمت نہ پڑی! میری ہمت نہ پڑی کا کیا مطلب ہے؟ یعنی وہی جو میں کہتا ہوں کہ دنیا کو دین پر ترجیح دی! کاش شریح نے اگر یہی ایک کام کیا ہوتا تو تاریخ بدل جاتی۔ اگر شریح نے لوگوں کو بتا دیا ہوتا کہ ہانی زندہ ہیں لیکن زندان میں ہیں، زخمی ہیں اور عبید اللہ ابن زیاد انہیں قتل کرنا چاہتا ہے تو چونکہ ابھی کوفے میں عبید اللہ ابن زیادہ طاقتور نہیں ہوا تھا، وہ حملہ کرتے اور ہانی کو نجات دلا دیتے۔ ہانی بچا لئے جاتے تو ان میں طاقت آ جاتی، ان کا حوصلہ بڑھ جاتا، دار الامارہ کو گھیر لیتے، عبید اللہ کو گرفتار کر لیتے، یا قتل کر دیتے یا اس کو واپس بھیج دیتے۔ پھر کوفہ امام حسین علیہ السلام کا ہو جاتا اور پھر واقعہ کربلا رونما نہ ہوتا۔ یعنی امام حسین علیہ السلام کو حکومت مل جاتی۔ امام حسین کی حکومت اگر چھے مہینے بھی باقی رہتی تو تاریخ کے لئے بڑی برکتوں کا باعث ہوتی، البتہ طولانی عرصے تک بھی بافی رہ سکتی تھی۔
بعض اوقات ایک صحیح اقدام تاریخ کو نجات دلا دیتا ہے اور بعض اوقات ڈر، کمزوری، یا دنیا پرستی یا حرص و ہوس کی وجہ سے ایک غلط اقدام تاریخ کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے۔ اے قاضی شریح! جب تم نے دیکھا کہ ہانی اس حال میں ہیں تو حق کی گواہی کیوں نہیں دی؟ خواص کی جانب سے دین پر دنیا کو ترجیح دینے کا عیب اور برائی یہی ہے۔
شہر کوفہ میں واپس چلتے ہیں: جب عبید اللہ ابن زیاد نے سرداران قبائل سے کہا کہ جاؤ لوگوں کو مسلم سے دور کرو ورنہ تمھارا انجام برا ہوگا تو انہوں نے اس کے حکم پر عمل کیوں کیا؟ سبھی سرداران قبائل اموی تو نہیں تھے اور شام سے نہیں آئے تھے! ان میں سے بعض امام حسین کو خط لکھنے والوں میں شامل تھے۔ ان میں سے ایک شبث ابن ربعی تھا جس نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا تھا اور کوفہ آنے کی دعوت دی تھی۔ جب عبید اللہ ابن زیاد نے کہا کہ جاؤ لوگوں کو مسلم سے دور کرو تو اس نے بھی کوفے والوں میں جاکے انہیں ڈرایا، دھمکایا اور انھیں لالچ دلائی!
یہ کام کیوں کیا؟ اگر شبث ابن ربعی جیسے افراد، اس حساس لمحے میں، ابن زیاد سے ڈرنے کے بجائے، خدا سے ڈرتے تو تاریخ بدل جاتی۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ عام لوگ منتشر ہو گئے؛ مسلم کے اطراف میں جو مومن خواص تھے، انہوں نے ہاتھ کیوں کھینچ لیا؟ ان میں سے بعض افراد بہت اچھے اور محترم تھے جن میں سے کچھ لوگ بعد میں کربلا میں شہید ہوئے؛ لیکن یہاں ان سے غلطی ہوئی۔
جو لوگ کربلا میں شہید ہوئے انہوں نے اپنی غلطی کا کفارہ ادا کر دیا۔ ان کے بارے میں میں کچھ نہیں کہنا ہے، ان کا نام بھی نہیں لیں گے۔ لیکن خواص میں ایسے بھی تھے جو کربلا نہیں گئے۔ نہیں جا سکے، توفیق نہیں ملی اور بعد میں مجبور ہوکے توابین میں شامل ہوئے۔ فائدہ کیا ہوا؟ جب امام حسین علیہ السلام قتل کر دیئے گئے، جب فرزند رسول چلے گئے، جب المیہ رونما ہو گیا، جب تاریخ نے پستی کا رخ اختیار کر لیا، تو اب کیا فائدہ؟ آپ دیکھیں کہ تاریخ میں توابین کی تعداد شہدائے کربلا سے کئی گنا زیادہ ہے۔ شہدائے کربلا بھی سب ایک ہی دن میں شہید ہوئے اور توابین بھی سب ایک ہی دن میں قتل ہوئے۔ لیکن تاریخ میں توابین کا اثر شہدائے کربلا کے اثر کا ہزارواں حصہ بھی نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ وقت پر نہیں آئے۔ کام وقت پر انجام نہیں دیا۔ دیر سے تشخیص دی اور دیر میں فیصلہ کیا۔
مسلم ابن عقیل کو یہ جانتے ہوئے کہ امام کے نمائندے ہیں، اکیلا کیوں چھوڑا؟! انہوں نے مسلم کے ہاتھوں پر بیعت بھی کی تھی، ان کوتسلیم بھی کرتے تھے۔ عوام کی بات نہیں کر رہا ہوں، خواص کی بات کر رہا ہوں۔ عصر کے وقت اور رات میں مسلم کو اس طرح اکیلا کیوں چھوڑا کہ انہیں طوعہ کے گھر میں پناہ لینی پڑی؟ اگر وہ مسلم کو اکیلا نہ چھوڑتے اور کچھ لوگ مثلا سو لوگ، مسلم کے ساتھ ہوتے، ان میں سے کسی کے گھر کو کمانڈ کا مرکز بنایا جاتا، کھڑے ہو جاتے اور دفاع کرتے تو اس تنہائی میں بھی وہ مسلم کو گرفتار کرنا چاہتے تو گھنٹوں لگ جاتے۔ ابن زیاد کے سپاہیوں نے کئ بار حملہ کیا؛ مسلم نے اکیلے سب کو پسپا کیا۔ اگر سو لوگ ان کے ساتھ ہوتے تو وہ انہیں گرفتار کر سکتے تھے؟ لوگ ان کے پاس آ جاتے۔ بنابریں اس مرحلے میں خواص نے کوتاہی کی کہ مسلم کو اکیلا چھوڑ دیا۔
دیکھئے جدھر سے بھی چلیں، خواص تک پہنچیں گے۔ صحیح وقت پر خواص کا فیصلہ، صحیح وقت پر خواص کی تشخیص، ضرورت پڑنے پر دنیا سے خواص کا دستبردار ہو جانا، ضرورت پڑنے پر خواص کی جانب س خدا کے لئے اقدام، یہ وہ چیزیں ہیں جو تاریخ اور اقدار کو بچاتی ہیں اور ان کی حفاظت کرتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر صحیح وقت پر ضروری اقدام کرنا چاہئے۔ اگر تامل کیا اور وقت نکل گیا تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہے۔
الجزائر میں اس ملک کا اسلامی محاذ انتخابات میں کامیاب ہوا، لیکن امریکا اور دوسروں کی مداخلت سے فوجی حکومت بر سراقتدار آ گئی۔ جس دن الجزائر میں فوجی حکومت قائم ہوئی وہ اتنی طاقتور نہیں تھی۔ اگر اس دن- میں نے ان کے لئے پیغام بھی بھیجا تھا- ابتدائی لمحات میں اسلامی محاذ کے لیڈران لوگوں کو سڑکوں پر لائے ہوتے، تو فوجی حکومت کچھ نہیں کر سکتی تھی، ختم ہو جاتی اور نتیجے میں آج الجزائر میں اسلامی حکومت ہوتی۔ لیکن انہوں نے اقدام نہیں کیا۔ انہیں وقت پر فیصلہ کرنا چاہئے تھا لیکن انھوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا۔ کچھ لوگ ڈر گئے، کچھ لوگوں نے کمزوری دکھائي، کچھ نے گڑبڑ پھیلائی اور کچھ صدارت کے لئے ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے۔
اٹھارہ بہمن تیرہ سو ستاون (مطابق سات فروری انیس سو اناسی) کو تہران میں کرفیو کا اعلان کیا گیا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے لوگوں سے کہا کہ سڑکوں پر آ جائیں۔ اگر اس دن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا تو آج اس مملکت میں محمد رضا شاہ کی حکومت ہوتی۔ یعنی کرفیو لگ جاتا، لوگ گھروں میں رہ جاتے، پہلے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور رفاہ کالج میں قیام پذیر تمام افراد کا اور اس کے بعد سبھی علاقوں میں لوگوں کا قتل عام کرکے انہیں ختم کر دیتے۔ پانچ لاکھ لوگوں کا تہران میں قتل عام کرتے اور مسئلہ ختم ہو جاتا۔ جس طرح کہ انڈونیشیا میں دس لاکھ لوگوں کو قتل کیا اور ختم ہو گیا، وہ حضرت آج بھی برسراقتدار ہیں اور بہت ہی باعزت اور محترم ہیں! کچھ بھی نہیں ہوا! لیکن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے ضرورت کے مطابق بر وقت فیصلہ کیا۔ خواص جو تشخیص دیں اگر اس پر وقت ضائع کئے بغیر بر وقت عمل کریں تو تاریخ کو نجات مل جاتی ہے اور پھر حسین ابن علی جیسی ہستیاں کسی کربلا میں قتل نہیں ہوتیں۔ خواص نے غلط سمجھا، دیر میں سمجھا، سمجھا لیکن اختلافات میں پڑ گئے، تو تاریخ میں کربلا جیسے واقعات بار بار دہرائے جاتے رہیں گے۔
افغانیوں کو دیکھیں! قیادت میں ٹھیک ٹھاک لوگ تھے، لیکن معاشرے کے خواص منتشر تھے، انہوں نے جواب نہیں دیا۔ ایک نے کہا آج مجھے کام ہے۔ دوسرے نے کہا کہ جنگ ختم ہو گئی اب ہمیں چھوڑ دو، ہمیں اپنا کام کرنے دو، کاروبار کرنے دو۔ کئی سال ہمیں بلاوجہ جمع کر رکھا ہے، ہم محاذوں پر گھومے، اس محاذ سے اس محاذ پر گئے۔ کبھی مغرب میں، کبھی جنوب میں، کبھی شمال میں۔ بہت ہو گیا! اگر اس طرح عمل کیا تو پھر تاریخ میں کربلاؤں کے وقوع پذیر ہونے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
خدا نے وعدہ کیا ہے کہ جو اس کی نصرت کرے، وہ بھی اس کی نصرت کرےگا۔ چلا جانا اور واپس ہو جانا نہیں ہے۔ اگر کسی نے خدا کے لئے محنت کی قدم آگے بڑھایا تو اس کو کامیابی ملے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک ایک فرد کو کامیابی دیتے ہیں! جب سب مل کے اجتماعی طور پر آگے بڑھیں، تو شہادت ہے، سختیاں ہیں، مصیبتیں ہیں لیکن کامیابی بھی ہے :ولینصرنّ اللہ من ینصرہ خداوند عالم یہ نہیں کہتا کہ کسی کی ناک سے خون بھی نہ نکلے اور نصرت کریں گے؛ نہیں!فیقتلون و یقتلون قتل کرتے اور قتل ہوتے ہیں؛ لیکن کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ یہ سنت الہی ہے۔ جب ہم اپنا خون بہنے سے ڈر گئے؛ اپنی عزت و آبرو اور دولت کے چلے جانے سے ڈر گئے؛ گھر والوں کے خیال سے ڈر گئے؛ دوستوں کے خیال سے ڈر گئے؛عیش وعشرت اور آرام و آسائش کے ختم ہو جانے سے ڈر گئے، کاروبار اور اپنی پوزیشن بچانے کے خیال سے، قدم آگے بڑھانے سے گریز کیا، زمین اور جائداد بڑھانے کے خیال سے اقدام کرنے سے گریز کیا، تو ظاہر ہے کہ راستے میں اگر دس امام حسین ہوں تو سب کے سب شہید ہو جائيں گے۔ چلے جائيں گے۔ جس طرح امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام شہید ہو گئے اور جس طرح امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے۔
‎خواص! خواص! طبقہ خواص! عزیزان گرامی! غور کیجئے کہ آپ کس دستے میں ہیں؟ اگر خواص میں ہیں، یقینا ہیں، تو پھر خیال رکھیں۔ مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے۔ میں نے اس کے بارے میں اختصار کے ساتھ سب کا خلاصہ بیان کیا۔ اس سلسلے میں دو حصے میں کام ہونا چاہئے۔ ایک تاریخ کا شعبہ ہے۔ اگر وقت ہوتا تو میں خود یہ کام کرتا۔ افسوس کہ میرے پاس ان کاموں کا وقت نہیں ہے۔ بہرحال اس میں دلچسپی رکھنے والے ماہر حضرات جستجو کریں اور اس کے نمونے تاریخ میں بہت ہیں، تلاش کریں کہ کہاں کہاں خواص کو عمل کرنا چاہئے تھا اور نہیں کیا؟ ان خواص کا نام کیا ہے؟ کون لوگ ہیں؟ اگر موقع ہوتا اور میں خود اور آپ بھی تھک نہ گئے ہوتے، تو ممکن تھا کہ انہیں موضوعات پر اور اشخاص کے بارے میں ایک گھنٹہ آپ سے گفتگو کرتا؛ اس لئے کہ میرے ذہن میں ہے۔
ایک اور شعبہ جس پر کام ہونا چاہئے، وہ ہر زمانے کے حالات سے ان واقعات کو مطابقت دینا ہے۔ صرف ہمارے زمانے کے واقعات سے ہی نہیں بلکہ ہر زمانے کے واقعات سے مطابقت دینا ضروری ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ ہر دور میں طبقہ خواص کو کس طرح عمل کرنا چاہئے کہ ان کا فریضہ پورا ہو۔ یہ جو میں نے کہا کہ دنیا کے اسیر نہ ہوں، یہ ایک لفظ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس طرح اسیر دنیا نہ ہوں؟ اس کی مثالیں اور مصادیق کیا ہیں؟
میرے عزیزو! خدا کی راہ میں چلنے میں ہمیشہ مخالفین کا سامنا ہوتا ہے۔ انھیں خواص میں سے اگر کوئی اچھا کام کرنا چاہے، ایسا کام کرنا چاہے جو اس کو کرنا چاہئے، ممکن ہے کہ خواص ہی کے چار لوگ مل جائيں اور کہیں کیا تمھیں کوئی اور کام نہیں ہے؟ پاگل ہو گئے ہو؟ کیا تمھارے بیوی بچے نہیں ہیں؟ یہ کام کیوں کر رہے ہو؟ چنانچہ انقلابی تحریک کے زمانے میں بھی کہتے تھے۔
لیکن اس ایک فرد کو استقامت سے کام لینا چاہئے۔ خواص کی مجاہدت کے لئے جو باتیں ضروری ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کی باتوں اور ملامتوں کے مقابلے میں استقامت سے کام لے۔ خطا وار کہیں، برا کہیں، تہمت لگائيں، کوئی بات نہیں۔
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ انتخابات بہت اچھی طرح منعقد ہوئے۔ لوگوں نے شرکت کی اور الحمد للہ اچھے اراکین پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ حکومت، وزارت داخلہ، صدر مملکت، نگراں کونسل، سب نے الحمد اللہ دلجمعی سے اپنا کام کیا اور انتخابات بہت اچھی طرح منعقد ہوئے۔ اب ملک کے گوشہ وکنار میں، تہران میں یا کسی اور شہر میں، چار 'بسیجیوں' (رضاکار) نے دو باتیں کہی ہیں تو شور مچا رہے ہیں کہ جناب سپاہ پاسداران انتخابات میں مداخلت کر رہی ہے! جناب یہ ہو گیا! یہ کیا بات ہے؟ کہاں؟ کب؟
جی ہاں! یہ بات ہے! جیسے ہی کوئی اقدام کرنا چاہیں، کوئی کام کرنا چاہیں، دشمن سامنے موجود ہوتا ہے۔ طرح طرح کے دشمن ہیں۔ بعض دوست ہیں، دشمن نہیں ہیں، اپنے ہی محاذ سے ہیں، لیکن نہیں سمجھتے، تشخیص نہیں دے پاتے۔ اس لئے سوال کرتے ہیں۔ البتہ جیسا کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا ہے، سپاہ پاسداران، فوج اور مسلح افواج سیاست میں مداخلت نہ کریں۔ لیکن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا مطلب یہ نہیں تھا کہ عوامی رضا کار فورس 'بسیج' جیسا عظیم لشکر، انتخابات جیسے عظیم مسئلے میں کوئي مناسب اقدام اور کام نہ کرے۔ مسائل کو خلط ملط کیوں کرتے ہیں؟ سپاہ پاسداران انقلاب کے افراد کو بھی بقیہ لوگوں کی طرح ہر معاملے میں خردمندی سے کام لینا چاہئے۔ البتہ سیاست میں قدم نہ رکھنے کا مسئلہ اسی معنی میں جس میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا ہے، اپنی جگہ قائم ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ پالیسی بدل گئی ہے۔ یعنی امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے زمانے میں فرمایا تھا کہ سیاست میں مداخلت نہ کریں، اب ہم کہتے ہیں کہ مداخلت کریں! نہیں وہی بات ہے جو امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمائی ہے۔ لیکن اس کا مصداق یہ نہیں ہے۔ مثال یہ نہیں ہے۔ اصولوں پر یقین رکھنے والے لوگ، مومن نوجوان، ملک کے بہترین نوجوان، انتخابات کے قضیئے میں آگے بڑھیں، کام کریں، پولنگ اسٹیشنوں پر آئيں، خیال رکھیں، نگرانی کریں اور دوسروں کو غلطی نہ کرنے دیں۔ یہ خلاف ورزی نہیں ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو کام بھی آپ کریں، یا خواص جس شعبے میں بھی کوئی کام کريں- البتہ حالیہ اقدام، ان عظیم اور بڑے کاموں کے مقابلے میں جو آئندہ ممکن ہے کہ انجام پائیں، بہت معمولی ہے- کچھ لوگ کہیں گے کیوں؟ اور اس پر اعتراض کریں گے۔ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آج ہمارا ملک مجاہدت فی سبیل اللہ کا ملک ہے، جہاد کا ملک ہے، ایثار کا ملک ہے، اقدار کا ملک ہے۔ ملک کے حکام، بزرگان مملکت، علمائے کرام، خطبا و مبلغین، حتی یونیورسٹیوں کا بڑا حصہ اور دوسری جگہیں، سب اسلام، انقلاب اور اقدار کی راہ میں کام کر رہے ہیں۔ مسلح افوج بھی ظاہر ہے کہ اقدار کی مظہر ہیں۔ سپاہ پاسداران اپنے تابناک ماضی اور اپنے دستوں کے ساتھ ظاہر ہے کہ انھوں نے کتنی زحمت کی ہے اور کتنے اہم کارنامے انجام دیئے ہیں! انھیں اسی طرح آگے بھی اپنی قدروں پر عمل درآمد جاری رکھنا چاہئے۔
جو کچھ میں نے عرض کیا، وہ اجمال ہے اس کا جو مجھے محرم کی مناسبت سے عرض کرنا تھا۔ لیکن جو کچھ میں نے عرض کیا وہ بہت مختصر تھا۔ اگرچہ وقت تھوڑا زیادہ ہو گیا۔ مجھ سے مسلسل کہتے ہیں کہ اپنی تقریریں مختصر کریں تاکہ تھکن نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ میں بھی مصلحت یہی سمجھتا ہوں کہ مجھے زیادہ تھکن نہ ہو تاکہ بعد میں دوسرے کام بھی کر سکوں۔ لیکن جب انسان آپ جیسے لوگوں کے درمیان ہوتا ہے تو زبان کھل جاتی ہے اور تھکن کا احساس نہیں ہوتا۔
خداوند عالم آپ سب کو توفیق عطا فرمائے۔ خداوند عالم روح امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو انبیاء و اولیا کے ساتھ محشور فرمائے۔ خداوند عالم اس روشن راہ کو جو اس نے ایرانی قوم کے لئے کھولی ہے، اپنی توفیق سے ہمیشہ کے لئے اس قوم کی راہ قرار دے۔ خداوند عالم ہمیں انقلاب، اسلام اور اسلامی اقدار کی خدمت میں زںدہ رکھے اور اسی راہ میں موت دے۔
میرے پروردگار! جن لوگوں نے اس راہ میں زحمتیں اٹھائی ہیں، ایک مدت تک دشمن کی قید میں رہنے کے بعد آزاد ہوئے، یا ابھی آزاد نہیں ہوئے ہیں، یا لاپتہ ہیں اور کسی کو ان کا پتہ نہیں ہے؛ ان سب کے اجر کو اپنے لوح اعلی میں درج کرے۔ ان کے خاندان والوں کو اجر دے، صبر عنایت فرمائے، لاپتہ افراد (کو جلد از جلد ان کے گھر والوں سے ملا) اور جنگی قیدیوں کو جلد از جلد رہائی دلا۔ امور مسلمین کی اصلاح فرما۔ مسلمانوں کی حاجتوں کو پورا کر۔ اسلامی ملکوں کو اغیار اور امریکا کے چنگل سے رہائی دلا۔ اسلامی ملکوں کے سربراہان کو خواب غفلت سے بیدار کر اور شہوتوں کی دلدل سے باہر نکال۔
پالنے والے! تجھے واسطہ ہے محمد و آل محمد کا، امریکا اور سامراج کے دوسرے سرغنوں اور ان کے زرخریدوں کو اس طرح مقہور اور مغلوب فرما جو تیرے شایان شان ہے۔ ان کے مقہور اور مغلوب ہونے کی لذت سے ایرانی قوم کو بھی بہرہ مند فرما۔ جس طرح سوویت یونین کو ختم کیا سامراج کے بقیہ مراکز کو بھی ختم کر دے۔
پالنے والے! جن لوگوں نے اس راہ میں زندگی گزاری ہے اور اسی راہ میں تجھ سے جا ملے، انہیں اپنی رحمتیں اور برکتیں عطا فرما۔ جو کام اور سعی و کوشش ہو رہی ہے، اس کو اپنے لطف و کرم سے قبول فرما۔

و السلام علیکم و ر حمۃ اللہ و برکاتہ