18 اردیبہشت 1375 مطابق 7 مئی 1996 کو اپنے اس خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے میں اسلامی حکومت اور دین کے کردار کی کلیدی اور تقدیر ساز حیثیت کا ذکر کیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ کچھ حکمراں اپنی ظالمانہ حکومت جاری رکھنے کے لئے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ دین کو سیاست سے الگ رکھا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی اس مبارک عید کی آپ حاضرین کرام ، ملک کے زحمت کش اور خدمت گزار حکام، ایران کی عظیم اور سرافراز قوم، مسلمین عالم اور دنیا کی تمام مستضعف اقوام کو عید غدیر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
در حقیقت یہ بہت بڑا دن اور بڑی عظیم اور اہم عید ہے۔ یہ دن اپنے عظیم واقعے اور اعلان منصب کے لحاظ سے بھی قابل غور ہے اور امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کی شخصیت کے لحاظ سے بھی بہت اہم اور قابل توجہ ہے۔ اس عظیم ملکوتی ہستی میں جو ذاتی فضیلتیں اور سیاسی و سماجی خصوصیات پائی جاتی تھیں، وہ نہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں اور نہ ہی حضور کے بعد، امیر المومنین کے علاوہ کسی اور میں نہیں ملتیں۔
جو لوگ تاریخی دستاویزات کے ذریعے امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے حالات سے واقف ہیں انہیں اعتراف کرنا چاہئے کہ آپ غدیر کے واقعے کی وجہ سے اعلی مرتبے پر نہیں پہنچے ہیں۔ غدیر ایسی چیز نہیں تھی جو امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام جیسے گوہر نایاب کی مکمل آئینہ داری کرتی۔ غدیر آپ کے فضائل اور کمالات کا نتیجہ تھا۔ البتہ فرمان الہی سے پیغمبر کے ذریعے آپ کے منصب کا اعلان اور اصحاب کرام کی جانب سے آپ کی بیعت بڑے افتخار کی بات ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ عظمت ان خصوصیات کی ہے جو اس اعلی اور بے نظیر انسان کے اندر بدرجہ اتم موجود تھیں جو اس واقعے اور خداوند عالم کی جانب سے اس منصب کے لئے آپ کے انتخاب پر منتج ہوئيں۔ خود غدیر کے واقعے میں بھی کئی پہلو پائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمین عالم اسی واقعے سے پورے عالم اسلام کی مکمل ہدایت اور رشد و ترقی کا وسیلہ حاصل کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی نہ اس واقعے سے انکار کر سکتا ہے اور نہ ہی اس بات سے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کے بارے میں یہ باتیں بیان فرمائي ہیں۔
اس دن، اس اہم اور حساس موقع پر جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی حیات طیبہ کے آخری مہینے گزار رہے ہیں، آپ نے امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السّلام کو ولایت یعنی مسلمانوں کی سرپرستی، حکومت اور اسلامی معاشرے کی سربراہی کے لئے منصوب فرمایا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امیر المومنین کی جس ولایت کا اعلان کیا ہے وہ صرف معنوی ولایت الہی نہیں ہے جو دیگر عناصر پر مبنی ہوتی ہے۔ بلکہ یہ آسمانی اور ملکوتی فرمان اور حکم الہی ہے جس کا سرچشمہ پیغمبر کے اسی بیان؛ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ (1) تک محدود نہیں ہے (بلکہ اللہ تعالی نے پہلے ہی یہ عہدہ آپ کے لئے مقرر فرما دیا تھا۔) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ بیان جس میں آپ نے ولایت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے سپرد کی ہے، شرعی طور پر خداوند عالم کی جانب سے کی گئی تقرری کو بیان کرتا ہے اور حکومت، اسلامی معاشرے کی مدیریت سربراہی اور مسلمانوں کے امور کی ولایت کے معنی میں ہے۔ یہ ولایت، اس مطلق ولایت الہی کے ہمراہ ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہ اطہار کے وجود مقدس میں موجود تھی۔ وہ ولایت، اس معنی میں ان آئمہ اطہار میں بھی موجود تھی جو ظاہری ولایت (حکومت) حاصل نہ کر سکے۔ وہ ولایت جو امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کو ملی اور جس کا اعلان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، وہ ولایت سیاسی تھی۔ یہ وہی مطلب اور مفہوم ہے جس کو پروردگار کی ذات اقدس نے اپنے پیغمبر کے ذریعے اسلام میں وجود بخشا اور خلق فرمایا ہے اور اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے احکام اور اصولوں میں، حکومت، ولایت اور امت کی سرپرستی کا مسئلہ سب سے اوپر ہے۔ اگر کوئی اس پہلو سے غدیر کو دیکھے تو وہ شبہات جو صدیوں سے اذہان میں موجود ہیں، زائل ہو جائيں گے۔
جو لوگ دین کی طرفداری کی آڑ میں یہ کہتے ہیں کہ دین کو سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ نہیں جانتے کہ یہ اسلام کی حکمرانی اور اسلام کے احیا کے خلاف استکبار اور استعمار کی نئی تشہیراتی روش ہے۔ البتہ سیاست سے دین کی علیحدگی کی بات صدیوں سے کہی جا رہی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ مستبد حکام یعنی وہ حکمراں جنہوں نے معاشرے کے امور کو زبردستی اور استبدادی طریقے سے اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا اور چاہتے تھے کہ ملک و قوم کے ساتھ جو چاہیں آزادی کے ساتھ کریں، انہوں نے یہ بات کہی۔ ظاہر ہے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلامی احکام اور منادیان احکام اسلامی ان کی حکومت میں مداخلت کریں، لہذا سب سے پہلے مستبد حکام اور سلاطین نے سیاست سے دین کی علیحدگی کی انحرافی فکر پیش کی۔ استعمار، بیرونی دشمنوں اور صیہونزم کی سیاسی منصوبہ بندی کرنے والوں سے پہلے سیاست سے دین کی علیحدگی کی فکر ان لوگوں نے پیش کی جو اس ملک پر اور دوسرے اسلامی ملکوں پر حکمرانی کر رہے تھے۔ ناصرالدین شاہ کے دور میں جب ایک عالم دین نے (2) ایک سیاسی معاملے میں مداخلت کی اور کمپنیوں نیز ایران کے شاہی دربار کے مفاد میں استعمار کی مکاری اور تدابیر کو ناکام بنا دیا تو اس وقت کیا ناصرالدین شاہ کے درباری اور حوالی موالی اس فکر میں نہیں پڑے کہ دین سیاست میں مداخلت کیوں کر رہا ہے؟ چنانچہ ناصرالدین شاہ کے دور میں، قاجاریہ دور کے اواسط اور اواخر میں یہ بات کہی جاتی تھی کہ علمائے کرام اور جو لوگ دینی امور میں مشغول ہیں، وہ حکومت کے امور میں مداخت کیوں کرتے ہیں؟ ناصری دور کی تحریروں میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے۔
بنابریں سب سے پہلے اس مسئلے کا تعلق ہمارے ملک اور دیگر ملکوں کے مستبد حکام اور حکومت کے خودسر افراد سے ہے جو سیاست میں دین، اہل دین، علما اور منادیان دین کی مداخلت سے خوفزدہ تھے اور اس کی مخالفت کرتے تھے۔ استعماری طاقتوں نے بھی اس بات کو اپنی پالیسیوں اور خواہشوں کے مطابق پایا تو اس کو اپنا لیا اور سیاست سے دین کی علیحدگی کا نظریہ پیش کیا۔ اس کے بعد یہ نظریہ متدین افراد حتی بہت سے علمائے کرام پر مسلط کر دیا گیا اور اس کو اصول قرار دے دیا گیا۔ یعنی اس کے لئے استدلال تیار کر لیا اور اس کو ایک فکر میں تبدیل کر دیا۔
یہ ماضی سے متعلق ہے۔ ایرانی قوم کی عظیم دینی تحریک کی ایک اہم ترین خدمت یہ ہے کہ سیاست سے دین کی علیحدگی کے افسانے کو ختم کر دیا ۔ عوام دینی جذبے کے ساتھ میدان میں آئے، آزادی کا پرچم بلند کیا اور دین کے حکم پر بڑے علمائے کرام اور منادیان احکام دین نے اس کارواں کی قیادت شروع ہوئی اور یہ تحریک اس ملک میں دین خدا کی حکمرانی پر منتج ہوئی اور پھر دنیا والوں پر واضح ہو گیا کہ تمام سیاسی امور میں سرفہرست حکومت اور ولایت ہے جو دین سے جڑی ہوئی ہے اور دین سے الگ نہیں ہو سکتی۔
جب دینی متون اور احکام کے معنی آشکارا ہوئے تو سب کی سمجھ میں آیا کہ برسوں اتنے واضح امر پر انھوں نے توجہ نہیں دی ۔ ظاہر ہے کہ جب قوم کی خوشبختی کے دشمن کسی انحراف کی حمایت کریں تو وہ آسانی سے ختم نہیں ہوتا۔ بنابریں، سیاست سے دین کی علیحدگی کے نئے استدلال تیار کئے گئے۔ یہ استدلال پیش کیا کہ اگر سیاست میں دین کو داخل کریں اور کسی ملک کی سیاست کا سرچشمہ دین ہو تو چونکہ سیاست اور حکومت کے امور میں مشکلات پیش آتی ہیں، اس کے نتیجے میں ناراضگی، ناامیدی اور ناکامی وجود میں آتی ہے لہذا یہ بات لوگوں کے دین سے بیزار ہونے کا باعث بنے گی۔ لہذا دین کو سیاست سے بالکل الگ رہنا چاہئے، اس میں تقدس ہونا چاہئے، نورانیت ہونی چاہئے، ایک گوشے میں بیٹھے اور لوگوں کے معنوی، فکری اور روحانی امور کو دیکھے۔ آج استکبار اور سامراج کے ایجنٹ دنیا میں خاص طور پر اسلامی دنیا میں مختلف طریقوں سے اس استدلال کی ترویج کر رہے ہیں۔
عید غدیر اس غلط استدلال کو باطل کر دیتی ہے۔ غدیر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدا کے حکم اور قرآن کریم کی صریحی آیات پر عمل کرتے ہوئے، اعلی ترین واجب کو انجام دیا ہے۔ و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ(3) امیر المومنین کی ولایت و خلافت کا اعلان اتنا اہم ہے کہ اگر اس کو انجام نہ دیا تو اپنی رسالت انجام نہیں دی! یا اس سے یہ مراد ہے کہ اس معاملے میں اپنی ذمہ داری انجام نہیں دی؛ اس لئے کہ خداوند عالم نے حکم دیا ہے کہ یہ کام کرو۔ یا اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ کام نہ کیا جائے تو اس سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت پر سوالیہ نشان لگ جائے گا اور اس کی بنیادیں کمزور ہو جائيں گی۔ یہ بھی مراد ہو سکتا ہے۔ گویا خود رسالت کی تبلیغ نہیں ہوئی! ممکن ہے کہ اس کے معنی یہ ہوں۔ اس صورت میں معاملہ بہت اہم ہو جاتا ہے۔ یعنی حکومت کی تشکیل، ولایت اور ملک کے امور کا چلانا دین کے بنیادی امور میں شامل ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اتنی عظمت کے ساتھ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے، یہ ذمہ داری اس طرح انجام دیتے ہیں کہ شاید کسی بھی واجب کو اس طرح لوگوں تک نہ پہنچایا ہو۔ نہ نماز، نہ زکات، نہ روزہ، نہ جہاد۔ مختلف قبائل اور مختلف علاقوں کے لوگوں کو مکے اور مدینے کے درمیان ایک چوراہے پر ایک اہم امر کی انجام دہی کی غرض سے جمع کرتے ہیں اور اس طرح اس کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں کہ پوری اسلامی دنیا میں یہ بات پہنچ جائے کہ پیغمبر نے نئے پیغام کی تبلیغ کی ہے۔
امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کی ذات گرامی اور آپ کے منصب ولایت پر منصوب ہونے سے قطع نظر، کہ شیعہ اسی معنی سے متمسک اور اس کے پابند ہیں، دوسروں نے قضیے کے اس پہلو اور امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے ولایت پر منصوب ہونے پر توجہ نہیں دی۔ اس واقعے میں بنیادی مسئلہ حاکم کا منصوب ہونا ہے اور یہی اہم مسئلہ غدیر کا پیغام ہے۔ دین اسلام کے بانی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واضح پیغام کو جو آپ نے تمام مسلمانوں کو دیا ہے، نعوذ باللہ نظرانداز کیوں کیا گیا؟ جب آپ نے فرمایا کہ؛ مسلمانو! دین کو زندگی کی بنیاد اور امر حکومت سے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اساس ہے، الگ نہ کرو۔ دین کو گھروں کے خلوت خانوں اور روحانی اور فکری مسائل تک محدود نہ کرو۔ دین کو گوشہ نشین نہ کرو۔ انسانی زندگی کہ جس کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے، ایک دینی امر ہے۔ یہ دین کی ذمہ داری ہے اور دین کو یہ کام کرنا ہے۔ اس دن کسی کے ذہن میں یہ بات کیوں نہیں آئي کہ کیا لوگ بچے ہیں جو انہیں ولی کی ضرورت ہو؟! کچھ لوگ علمی ظواہر سے عامیانہ اور غلط استدلال پیش کرتے ہیں۔ سرپرستی ہر جگہ معذورانسان کی سرپرستی کے معنی میں نہیں ہے۔ معلم اور ٹیچر ہر جگہ پرائمری اسکول کے ٹیچر کے معنی میں نہیں ہے کہ اگر ہم یونیورسٹی کے کسی پروفیسر کو ٹیچر کہہ دیں تو کہیں کہ توہین ہو گئی؛ اس لئے کہ ٹیچر پہلی کلاس کے معلم کو کہتے ہیں۔ ٹیچر اور معلم کے ہر جگہ کے تقاضوں کے لحاظ سے معنی و مفہوم ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی کے معلم اور ٹیچر کے اپنے معنی ہیں۔ پہلی کلاس کے ٹیچر کے اپنے معنی ہیں۔ کسی معذور انسان یا بچے کی سرپرستی کے اپنے معنی ہیں اور امت اسلامیہ کی سرپرستی، جنگ کی سرپرستی، صلح کی سرپرستی، سیاست کی سرپرستی، ان سب کے اپنے معنی ہیں۔ ان کو ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پیغام غدیر ہے۔
ہمارے مرحوم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا امت اسلامیہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ آپ نے لوگوں کو امر حکومت میں دخیل ہونے کے فریضے سے واقف اور اس کی بابت متنبہ کیا۔ اسی بناء پر اسلامی نظام میں جو فرد بھی متدین اور شریعت اسلامی کا پابند ہے، امور حکومت کے تعلق سے اس کی اہم ذمہ داری ہے۔ کوئی بھی خود کو امور حکومت سے الگ نہیں کر سکتا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کام ہو رہا ہے، ہم سے کیا مطلب؟ اسلامی نظام میں معاشرے کے عمومی مسائل، سیاسی امور اور حکومت کے مسئلے میں، ہم سے کیا مطلب کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لوگ الگ نہیں ہیں۔ حکومت میں لوگوں کے دخیل ہونے کا سب سے بڑا مظہر واقعہ غدیر ہے۔ خود غدیر نے ہم کو یہ سبق دیا ہے۔ عید غدیر عید ولایت، عید سیاست، امور حکومت میں عوام کے دخیل ہونے کی عید، امت اسلامیہ اور امت کے ہر فرد کی عید ہے۔ یہ عید صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔ مناسب اور حق یہ ہے کہ پوری امت اسلامیہ، سبھی اس دن کو اپنے لئے عید سمجھیں۔ غدیر عید امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام بھی ہے اور آپ کے شیعہ اس عید سے خاص طور پر استفادہ کرتے ہیں ۔
امید ہے کہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ، پوری امت اسلامیہ بالخصوص ہماری عظیم قوم اور شیعیان عالم کو اس دن مناسب عیدی عنایت فرمائيں گے۔ آپ ہم سے راضی ہوں گے، آپ کا قلب مقدس ہم پر مہربان ہوگا اور ہم آپ کی پاکیزہ دعاؤں میں شامل ہوں گے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1-بحارالانوار؛ جلد 2، صفحہ 306
2-مراد میرزا شیرازی ہیں جنہوں نے انگلش کمپنی اور حکومت کے درمیان تمباکو کے لائسنس کے بارے میں ٹالبوٹ معاہدے کی مخالفت کی اور تمباکو کے حرام ہونے کا تاریخ ساز فتوی صادر کیا۔
3-سورہ مائدہ، آیت 67