26 اردیبہشت 1375 ہجری شمسی مطابق 15 مئی 1996 عیسوی کو اپنے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے مغربی ثقافت کا جائزہ لیتے ہوئے معنوی اور روحانی پہلوؤں کو اس ثقافت میں پوری طرح نظر انداز کر دئے جانے کے مہلک اثرات کی نشاندہی کی۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم

خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایک بار پھر توفیق عنایت فرمائي کہ عاشورا اور محرم کے پربرکت ایام ہمارے سامنے ہیں اور ہمیں (ایک بار پھر) یہ موقع ملا کہ جان و دل اور اپنی تمام تر فکری، جسمانی اور روحانی توانائیوں کو نسیم عاشورا سے معطر کرنے اور فیوضات حضرت ابو عبد اللہ الحسین علیہ السلام سے بہرہ مند ہونے کے لئے آمادہ کریں۔ امید ہے کہ پوری قوم، علمائے کرام مبلغیں بالخصوص ہمارے باایمان اور پرجوش نوجوان جو اس راہ کا تجربہ کر رہے ہیں، ان فیوضات سے بہرہ مند ہوں گے اور جن لوگوں نے اس سلسلے میں ذمہ داریاں اپنے سر لی ہیں، وہ اس مہینے کی برکتوں سے زیادہ ںزدیک ہوں گے۔ یہ موقع مجھ حقیر کے لئے بھی غنیمت ہے؛ کیونکہ علمائے کرام، مبلغین، خطبا، واعظین اور وادی تبلیغ میں قدم رکھنے والے نوجوانوں کی، جنہیں ان شاء اللہ عظیم ترین کام کرنے ہیں، زیارت کر رہا ہوں۔ میرے لئے آپ کا یہ اجتماع بہت عزیز اور محترم ہے۔ کیونکہ یہ وہ اجتماع ہے جو کلمہ حسینی کا اعلان اور اس بابرکت راہ کی ان شاء اللہ تعمیر نو کر سکتا ہے۔ البتہ ہمارے ملک میں گزشتہ کئی صدیوں سے راہ امام حسین علیہ السلام کبھی بند نہیں ہوئی۔ اگر چہ مخالفین اور معاندین رہے ہیں لیکن وہ کچھ کر نہیں سکے۔ بہرحال اس راستے کی برکتیں بہت زیادہ ہیں۔ اگر علمائے کرام، مبلغین اور خطبا، اس مہینے کے شایان شان اقدامات انجام دیں، ہم فکری اور علمی اقدامات کے ساتھ مخلصانہ سعی و کوشش کریں اور نئے زاویئے پیش کریں تو اس راستے کی برکتیں کئی گنا بڑھ سکتی ہیں۔ لہذا ہمارا فریضہ ہے کہ اس راہ میں جہاں تک ممکن ہو مشترکہ مساعی سے کام لیں۔ اس سلسلے میں مختصر ہدایات ہیں جو میں عرض کروں گا۔
دین مقدس اسلام بالخصوص شیعہ عقیدتی اور فکری مکتب، جس میں کچھ امتیازات پائے جاتے ہیں، یہ ہے کہ اس میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی ترقی و رشد کے تمام عوامل موجود ہیں۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ ملاحظہ فرمائيں کہ کوئی ثقافت، تمدن، عقیدہ اور مکتب انسان کے سامنے پیش کیا جائے، جس میں بہت اچھے پہلو ہوں، مثال کے طور پر فرض کریں کہ اس مکتب کے تفکرات جو پیش کیا گیا ہے، اس بات کا سبب بنیں کہ انسان کی اندرونی قوتیں متحرک ہو جائيں، استعدادیں نکھر جائيں، کام کرنے لگیں، ایجادات پیش کریں، تعمیر کریں، دولت و ثروت کمائیں اور دنیا کی تعمیر نو کریں۔ ممکن ہے کہ پیش کئے جانے والے مکتب میں یہ خصوصیات بھی ہوں، لیکن اسی مکتب میں کچھ عیب بھی ہو جو اس بات کا باعث ہو کہ جو لوگ اسی مکتب کے باعث اتنے فائدے اٹھا رہے ہیں، اتنے بڑے نقصان بھی اٹھائيں جو ان فائدوں سے زیادہ ہوں۔ مغربی فکر، سرمایہ داری کا کلچر، انفرادی آزادی اور لبرل ازم جو مغرب میں رائج ہے، اس کی واضح ترین مثال ہے۔ آپ جیسے دینی مفکرین اور علمائے کرام کے لئے ضروری ہے کہ ان نکات پر بہت زیادہ توجہ رکھیں۔ ہم جب مغربی ثقافت کی بات کرتے ہیں تو یہ نہیں کہتے کہ اس ثقافت میں شروع سے آخر تک، صرف برائی اور خرابی ہے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ میں مغرب اور مغربی ثقافت کی یلغار کے بارے میں اکثر گفتگو کرتا ہوں۔ میری باتوں کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مغربی ثقافت شروع سے آخر تک بری، غلط اور خراب ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو مغربی ممالک کے لوگ شروع میں ہی اس کو قبول نہ کرتے اور مسترد کر دیتے۔ بنابرین مذکورہ ثقافت میں کچھ مثبت باتیں ہیں اور انہی مثبت باتوں نے لوگوں اور معاشروں کو اپنا گرویدہ بنایا۔
فرض کریں اس ثقافت کے گرویدہ معاشروں کا مظہر امریکا ہے۔ وہاں اس ثقافت کا ایک نام تھا۔ اب پوری طرح یہ ثقافت نظر آتی ہے اور اچھی خصوصیات بھی رکھتی ہے۔ یعنی یہ ثقافت اور کلچر، بقول خود ان کے یہ آئیڈیالوجی، کام اور محنت کی دعوت دیتی ہے، وقت شناسی، حتی لمحوں کی قدر کرنے اور انسانی سرمائے کے ذروں کو بھی اہمیت دینے کی دعوت دیتی ہے۔ ان تمام خصوصیات کے ساتھ اس کلچر کا نتیجہ کیا نکلا ؟ نتیجہ یہ ہے کہ سائںس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت کا مالک دولتمند معاشرہ سامنے آتا ہے۔ انھیں پہلوؤں سے دو تین صدی قبل جب یہ افکار امریکا اور یورپ میں پیش کئے گئے تو مغربی مفکرین کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی۔ سب کو یہ طرز زندگی، یہ مکتب اور یہ کلچر اچھا لگا اور انہوں نے اس کو قبول کر لیا۔
لیکن اس ثقافت میں انسان کے حقیقی رشد و نمو کی حفاظت کے عوامل نہیں تھے۔ انہوں نے غفلت کی اور اس نکتے پر توجہ نہیں دی۔ مثال کے طور پر فرض کیجئے! آپ کسی محلے میں لوگوں کے لئے پینے کا پانی جمع کرنے کا ایک بڑا حوض بناتے ہیں۔ اس کی دیواریں بہت محکم بنائیں، پانی نکلنے کے سارے راستے بند کر دیں، اس حوض میں پانی آنے اور نکلنے کا دریچہ لگائيں اور مطمئن ہو جائیں کہ اس میں پانی محفوظ رہے گا۔ لیکن آپ نے اس بات کی فکر نہیں کی کہ یہ حوض ایسی جگہ ہے جس کی بغل میں ایسا مادہ پایا جاتا ہے جو پانی کو مسموم کر سکتا ہے۔ یقینا پانی بہت صاف ستھرا اور ٹھنڈا ہوگا اور پینے میں بہت لذیذ بھی ہوگا۔ لیکن زہریلے مادے کی بغل میں ہونے کی وجہ سے اس میں زہریلی آلودگی اور جراثیم ہوں گے۔ آپ نے حوض بنایا تو پانی کی سلامتی کے تمام نکات کو نظر میں رکھا لیکن اس بات کو نظر انداز کر دیا۔ ایک پہلو کو دیکھا لیکن دوسرے پہلو کو جو نمایاں نہیں تھا نظرانداز کر دیا۔
مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام سمیت اکثر انسانی مکاتب اسی طرح ہیں۔ ایک پہلو کو دیکھا ہے۔ اس پہلو کو جو انسان کو کام محنت، پیشرفت، مادی ترقی دولت اور علم کی طرف لے جاتا ہے، اس کو دیکھا، یہ صحیح تھا۔ لیکن دوسرے پہلو کو نہیں دیکھا کہ اس معاشرے میں جہاں فلک بوس عمارتیں ہیں، دولت و ثروت اور زرق و برق ہے، بہت سے لوگوں میں غربت اور لاچاری بھی ہے۔ بھوک سے موت بھی ہے۔ ظلم بھی ہے۔ سب سے بڑھ کے ایسی ہمہ گیر بدعنوانی اور بے راہروی ہے جو اس صورتحال سے لذت اٹھانے والے تمام گھروں میں نفوذ کرے گی اور ان کے لئے زندگی کو تلخ بنا دے گی۔ پھر یہ مشکل ان کے گریباں گیر ہوئی اور کام خراب ہو گیا۔
کسی مکتب اور مجموعے کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تمام عوامل موجود ہوں۔ ورنہ اگر مکتب کی صرف عالمگیریت اچھی ہو، فتوحات کر سکے لیکن ان کو باقی نہ رکھ سکے، قدرتی ذخائر کی حفاظت کرے لیکن انسانی ذخائر کی حفاظت سے قاصر ہو، مادی ترقی فراہم کر سکے لیکن معنوی رشد سے قاصر ہو اور لوگوں میں مساوات قائم کر سکے لیکن سرانجام مکتب کمیونزم کا ثانی ہو! کمیونسٹوں نے ہر چیز کو سرکاری تحویل میں لے لیا، ہر چیز کی راشننگ کر دی۔ لوگوں کو برابر کرنے کے لئے ان کے ذاتی سرمائے کو ضبط کر لیا۔ بہت اچھا! جولوگ دولتمند تھے، ان کی دولت ختم ہو گئی اور سب برابر - یعنی تقریبا غریب - ہو گئے! فرض یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر دولتمندوں کو قتل کر دیا تاکہ غریبوں کو فائدہ پہنچے۔ ان کا دعوی یہ تھا کہ معاشرے کے نچلے طبقات میں ہر حال میں مساوات قائم کرنی ہے۔ لیکن اوپر کے طبقات میں طبقاتی اختلاف جو دوسرے ملکوں میں تھا، یہاں کئي گنا بڑھ گیا! ہم نے کمیونسٹ معاشروں کو دیکھا تھا۔ میں نے حکومتی ذمہ داری کے زمانے میں کمیونسٹ ملکوں کے دوروں میں، ان کے غریب اور دولتمند لوگوں کی حالت کو نزدیک سے دیکھا ہے۔ نچلے طبقات میں لوگوں کے پاس کھانے کے لئے روٹی نہیں تھی لیکن حکومتوں میں ایسا جاہ و جلال، فرعونیت اور سلطنت وجود میں لائے تھے جو دنیا کے بڑے سرمایہ داروں سے برابری کرتی تھی۔ خود کو سوشلسٹ کہتےتھے لیکن یہاں سوشلزم کا کوئی نشان نہیں تھا۔
جی ہاں جب کوئی مکتب ناقص ہو تو حالت اس سے بہتر نہیں ہو سکتی۔ ایک طرف ٹھیک کرتے ہیں اور دوسری طرف خراب ہو جاتا ہے۔
اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انسانی ترقی کے تمام عوامل موجود ہیں۔ اس میں مادی ترقی بھی ہے اور معنوی رشد بھی۔ یعنی اسلام میں خلق لکم ما فی الارض جمیعا (1) ہے۔ قل من حرّم زینۃ اللہ الّتی اخرج لعبادہ (2) بھی ہے۔ مادی ذخائر سے استفادہ ہے، کام اور سعی و کوشش ہے۔ مزدور کے ہاتھوں پر رسول اسلام کا بوسہ ہے۔ امیر المومنین کا مزدوری کرنا ہے۔ ان سب میں خاص معانی پوشیدہ ہیں۔ اگر کوئی کام نہ کرے تو اس کی دعا مستجاب نہیں ہوتی، یہ بھی ہے۔
رسول کے زمانے میں کچھ لوگ گھر میں بیٹھ گئے اور کہا خداوند عالم نے وعدہ کیا ہے کہ و من یتوکّل علی اللہ فھو حسبہ (3) خدا پر توکل کے ساتھ گھر میں بیٹھ جاتے ہیں۔ جب پیغمبر کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے ان سے فرمایا: خدا تمھاری کوئی دعا مستجاب نہیں کرے گا۔! یہ کس لئے ہے؟ اس لئے ہے کہ معاشرہ مادی لحاظ سے ترقی کرے، تعمیر ہو، ترقی ہو۔ ابتدائے اسلام کے ماحول سے جس میں اصحاب صفہ تھے، پچاس سال بعد کے ماحول میں فرق یہ تھا کہ اس میں انواع و اقسام کی نعمتیں ہر جگہ موجود تھیں، یہ اسی پہلو کی وجہ سے تھا۔
البتہ اسلام میں مادی ترقی معنوی رشد بھی لاتی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ خدا کے دروازے پر جاو: قل ما یعبؤا بکم لولادعاؤکم (4) ضروری ہے کہ دعا کرو۔ و قال ربکم ادعونی استجب لکم (5) دعا کرو تاکہ خدا سے جواب سنو۔ انسان کی زندگی، خدا سے رابطے کے بغیر بے معنی ہے۔ انسان کی قلبی، روحانی اور معنوی زندگی خدا سے ارتباط کے بغیر کوئی مفہوم نہیں رکھتی۔ جیسے ہی کوئی خدا سے غافل ہوتا ہے اس کے قلب کی زندگی ختم ہو جاتی ہے، روح مر جاتی ہے۔ اگر دوبارہ ذکر خدا اور خدا پر توجہ کرے تو زندگی واپس آ جاتی ہے ورنہ موت ہو جاتی ہے۔ اگر خدا اور معنویت کی طرف دوبارہ واپسی میں تاخیر ہو تو جمود آ جاتا ہے۔ یہ اسلام اور قرآںی آیات کہتی ہیں: أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ‌ اللَّـهِ (6) یا الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (7) یہ اسلام میں ہے؛ یعنی وہی اسلام جو کہتا ہے کہ قدرتی ذخائر کا پتہ لگاؤ، دنیا سنوارو، مادی وسائل حاصل کرو، اپنے اذہان کو علم سے آراستہ کرو، دنیا کو، فطرت کو، مادے کو اور اس کے ذخائر کو پہچانو، اس کا پتہ لگاؤ اور اس کو بڑھاؤ کیونکہ یہ سب تمھارے لئے ہے۔ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ یہ سب خدا کے لئے کرو، یاد خدا میں کرو، یاد خدا کو اپنے دل سے باہر نہ نکالو اور یہ سب کام عبادت کی طرح انجام دو۔ مادی سعی و کوشش اور معنوی سعی و کوشش کا ایک ساتھ ہونا یہی ہے۔ لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں جو لوگ مادی تعمیر و ترقی کا اہتمام کرتے ہیں، اس سے خلق اللہ کو فائدہ بھی پہنچتا ہے۔ امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام اپنے ہاتھوں سے کنواں کھودتے ہیں، زیر زمین نہر بناتے ہیں اور جب پانی اونٹ کی گردن کے برابر بہنے لگا تو کنویں سے باہر آتے ہیں اور اسی مٹی بھرے لباس کے ساتھ کنویں کے کنارے بیٹھ جاتے ہیں اور کاغذ پر لکھتے ہیں کہ یہ پانی میں نے غریبوں کے لئے وقف کر دیا ہے۔ یعنی جب تعمیرو ترقی حاصل ہوتی ہے تو اس کو راہ خدا میں بخش دیتے ہیں۔ راہ خدا میں سب سے زیادہ بخشش کرنے والا، سب سے زیادہ تعمیر کرنے والا، مادی لحاظ سے سب سے زیادہ محنت کرنے والا، معنویت میں بھی سب سے زیادہ اعلی اور برتر ہے۔ یہ اسلام کے مادی اور معنوی رفاہ کے منصوبوں کا نتیجہ اور آئینہ ہے۔
اسلام میں بقا کے عوامل کو دیکھیں! ایک عامل بقا یہی عاشورا ہے۔ ایک عامل بقا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ ظاہر ہے کہ معاشرے میں برائیاں وجود میں آتی ہیں۔ کوئی انسانی معاشرہ ایسا نہیں ہے جس میں برائی وجود میں نہ آئے۔ یہ برائی کیسے دور ہو؟ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ کوئی برائی نظر آئی تو فورا کہتے ہیں حکام کہاں ہیں؟ برائی کو دور کریں! اکثر کوئی برائی دیکھتے ہیں تو چیخ پڑتے ہیں اور حکام کی طرف رخ کرتے ہیں۔ لیکن جو برائی آنکھوں سے نظر آتی ہے وہ ان برائیوں سے بہت چھوٹی ہوتی ہے جنھیں کوچہ و بازار اور سڑکوں پر ان آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ جو لوگ واقف ہیں جانتے ہیں کہ بڑی برائیاں اکثر پنہاں ہوتی ہیں۔ بنابریں معاشرے کی فضا ایسی ہونی چاہئے کہ اگر کوئی برائي پیدا ہو تو اس کے بڑھنے کا امکان نہ رہے اور جلد ہی دور ہو جائے۔ بہتے پانی کی طرح۔
دنیا کے بڑے دریاؤں کو آپ دیکھتے ہیں؟ ان دریاؤں میں جتنی بھی آلودگی اور گندگی ڈالیں، تھوڑا آگے بڑھ کے پانی کا تلاطم، پتھروں پر سر پٹکتی موجیں اور پانی کی روانی اس مضر مادے کو ختم کر دیتی ہے اور اس کے بدلے میں زندگی کا سامان فراہم کرنے والے مادے پیدا کرتی ہے۔ معاشرے کی فضا ایسی ہونی چاہئے۔ اتنی شفاف ہو کہ اس میں اگر کوئی برائی کا قطرہ ٹپکائے بھی تو خود معاشرہ اس کو ختم کر دے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے۔ قرآن فرماتا ہے کہ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ (8) حکمت، حکمت اور حکمت۔ فکر محکم کو حکمت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حکمت جس میں انبیا ممتاز ہیں، خدا کے برگزیدہ اور صالح بندوں کے لئے ہے۔ یہ ایسی محکم فکر ہے جس سے کوئی بھی صاحب عقل انکار نہیں کر سکتا نہ ہی اس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی استدلال اور تجربہ اس کو بے اثر نہیں کر سکتا۔ آپ قرآن کریم کی ان آیات کو دیکھیں جن میں حکمت کا تعین کیا گیا ہے۔ دیکھیں کہ کون سی چیزیں ہیں: ذلک مما اوحی الیک ربک من الحکمۃ (9)۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ بشریت تا ابد کوششوں کے بعد بھی ان کو رد نہیں کر سکتی۔ کوئی بھی منکر، کوئی بھی دشمن اور مخالف اس کو رد کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ حکمت یعنی محکم ترین افکار و نظریات۔ یہ جو حکما حکمت کو صیرورۃ الانسان عالما مضاھیا للعالم الحسّی (10) کہتے ہیں، یہ وہی چیز ہے۔ یعنی ممتاز، محکم اور ناقابل تردید افکار اس طرح خدا کے برگزیدہ اور صالح بندے کی روح میں فروغ پاتے ہیں کہ وہ خود ایک عالم میں تبدیل ہو جاتا ہے اور آپ عالم ہستی، وجود اور پوری گیتی کا اس کی باتوں میں، اس کے اشارات میں اور اس کے اقدام میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
یہ حکمت ہے۔ پھر ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ اس طرح لوگوں کو خدا کی طرف بلائیے۔ والموعظۃ الحسنہ(11)، و جادلھم بالّتی ھی احسن(12)، یہ بھی ہے۔ یعنی یہ عوامل بقا ہیں۔ ان کی وجہ سے اسلامی تفکر آج تک باقی رہ سکا ہے۔
میرے عزیزو!علمائے کرام کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلامی نظام اور معاشرہ، اگر اس طرح تشکیل پائے جس طرح اسلام نے فرمایا ہے تو اس کے اندر عوامل بقا موجود ہوں گے۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کے مقابلے پر قادر نہیں ہوگی؛ نہ مادی قوت، اور نہ ہی فوجی طاقت۔ جو مسلسل دھمکی دیتے ہیں کہ ہوائی جہاز آ رہا ہے، میزائل آ رہا ہے، کیا آ رہا ہے اور کیا آ رہا ہے، وہ کچھ کرسکتے ہیں؟ استکبار اور سامراج کے زرخرید آٹھ سال تک ہمارے ملک کو دھمکیاں دیتے رہے اور اپنی دھمکیوں پر عمل کرتے رہے۔ اس مدت میں وہ ہمارا کیا بگاڑ سکے جو اب بگاڑ لیں گے؟ آج عالمی سامراج نے اسلامی تفکر اور علم و دانش کو متزلزل کرنے کے لئے اپنی سائنسی اور علمی طاقت اور پڑھے لکھے لوگوں کی فوج ہمارے خلاف اکٹھا کی ہے۔ لیکن وہ اس طرح بھی اپنا مقصد پورا نہیں کر سکے گا۔ تاہم سامراج کی ناکامی اور ناتوانی کی شرط یہ ہے کہ یہاں جس طرح اسلام نے کہا ہے اسی طرح عمل ہو۔ یعنی ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ اس صورت میں وہ اپنے برائیاں اور بدعنوانی پھیلانے کے وسائل کے ذریعے بھی کچھ نہیں کر پائے گا۔
استکبار اور سامراج کے عوامل آج بری فلمیں بنا رہے ہیں، برے ویڈیو تیار کرتے ہیں، بری باتیں بناتے ہیں، برے اشعار کہتے ہیں، بری کہانیاں لکھتے ہیں اور ان سب کو ملک کے اندر بچوں اور نوجوانوں کے درمیان، عام لوگوں کے درمیان تقسیم کرتے یا سیٹ لائٹ ٹی وی کے ذریعے ان کو پھیلاتے ہیں۔ یہ آخر الذکر چیز یعنی سیٹیلائٹ ٹی وی واقعی گندگی کی دلدل ہے؛ جہاں سے اقوام اور ملکوں پر زہر آلود تیروں کی بارش ہوتی ہے۔ الحمد للہ گزشتہ سال مجلس شورائے اسلامی نے معاملے کو اچھی طرح سمجھ کے سیٹیلائٹ ٹی وی پر پابندی لگا دی۔ ان تمام چیزوں کے باوجود اگر معاشرے میں اسلام کے احکام اور قرآن کی تعلیمات پر عمل ہو تو ان میں سے برائیوں کے کسی بھی عامل کا معمولی سا بھی اثر نہیں ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مختلف پہلوؤں پر گہری توجہ دشمن کو کامیاب نہیں ہونے دیتی۔ اس لئے اسلامی معاشرہ باقی رہنے والا معاشرہ ہے۔ یہ ہے؛ انّا نحن نزلنا الذکر و انّا لہ لحافظون (13)، یہ ہے؛ و لینصرنّ اللہ من ینصرہ (14)، یہ ہے؛ و الذین جاھدوا فینا لنھدینّھم سبلنا (15)۔ یہ خداوند عالم نے یونہی ہم سے نہیں فرمایا ہے۔ اب دنیا کی طاقتیں، رجز خوانی کریں، اسلامی جمہوریہ پر تہمتیں لکائيں۔ الحمد للہ یہاں بنیاد محکم ہے۔ یہ ایسی محکم بنیاد ہے کہ جو بھی اس سے زور آزمائی کرےگا، وہ اپنے ہی پنجے زخمی کرے گا۔ آج اسلامی نظام میں بقا اور زندگی کے تمام عوامل موجود ہیں۔ کچھ لوگ جو کبھی کبھی دینی کاموں اور اسلامی نعروں پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے بھی حد کر دی ہے! مستقل اسلامی اقدار کی بات کرتے ہیں! یہ نعرہ کیا ہے اور فلاں کام کا کیا مطلب ہے؟ وہ لوگ درحقیقت دشمن کی بات کو دہرا رہے ہیں۔ دشمن یہ نہیں چاہتا ہے کہ اسلام مکمل طور پر نافذ ہو؛ اس لئے کہ اگر اسلام مکمل طور پر نافذ ہو گیا تو اس کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اب اس کو کمزور اور اس قابل بنانے کے لئے کہ اس کو نقصان پہنچایا جا سکے، کیا کریں؟ اس کو ناقص بنا دیں، اس کے ایک حصے پر عمل نہ ہونے دیں۔ مثال کے طور پر قصاص بل اور قانون تعزیرات ہے۔ اس کے خلاف ہنگامہ کریں شور مچائیں!
علمائے کرام، مبلغین اور معمم حضرات کی ذمہ داری یہاں پر واضح ہوتی ہے۔ البتہ ظاہر ہے کہ الحمد للہ آپ حضرات اپنے فرائض اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہم بھی علمائے کرام کو ان کے فریضے کی یاد دہانی نہیں کرانا چاہتے، اس لئے کہ وہ خود واقف ہیں اور جانتے ہیں۔ یہ باتیں جو عرض کر رہا ہوں، میں یہ نوجوانوں اور اس راہ میں پہلی بار قدم رکھنے والوں کے لئے عرض کر رہا ہوں، تاکہ وہ سمجھ لیں کہ یہ بہت مبارک راستہ ہے۔ یہ ناقابل شکست راستہ ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جس میں پروردگار عالم کی حکمت سے بقا کے تمام عوامل موجود ہیں۔ اس راستے میں جہاد بھی ہے، دشمن کو دفع کرنا بھی ہے، ملک کے اندر زندگی کی فضا ہموار کرنے کے لئے،رحماء بینھم بھی ہے۔ دنیا کی اقوام اور ملکوں سے اچھے روابط کے لئے لاینھیکم اللہ عن الذین لو یقاتلوکم بھی ہے، اور ان تبروھم و تقسطوا الیھم(16) بھی ہے، اسرائیل اور امریکا سے مجاہدت کے لئے انّما ینھی کم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین(17) بھی ہے۔ یعنی ہر چیز ہے، دنیا بھی ہے اور آخرت بھی ہے، بہت توجہ کے ساتھ اقدار کی حفاظت بھی ہے، توانا ہاتھوں سے اچھی دنیا وجود میں لانا اور اس کی تعمیر بھی ہے، فطرت کے اندر موجود ذخائر کا انکشاف بھی ہے۔ سب کچھ ہے۔ عوام کے احساسات و جذبات بھی ہیں، نصرت الہی بھی ہے۔ کام بھی ہے اور خدا پر توکل بھی ہے۔ اسی نکتے پر توجہ سے اس آيہ کریمہ کے معنی واضح ہوتے ہیں کہ و من یتّق اللہ یجعل لہ مخرجا۔ و یرزقہ من حیث لا یحتسب (18)، یعنی اگر تقوا ہو، یہ سب چیزیں ایک ساتھ ہوں، تو پھر کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
آج اسلامی انقلاب کی کامیابی کو سترہ سال ہو رہے ہیں۔ اس سترہ سال میں اس انقلاب اور نظام کے خلاف ہمارے دشمنوں نے کیا نہیں کیا ہے؟ ہمارے دشمنوں نے، ان کے لئے جو بھی ممکن تھا کیا۔ اگر بعض کام نہیں کئے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر اس کی توانائی نہیں تھی، یا عالمی ضرورتوں کا تقاضا نہیں تھا، یا رائے عامہ کی مخالفت اور خوف حائل تھا۔ اس کے باوجود اس قوم کے خلاف ان سے جو ہو سکا، کیا۔ آج نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ الحمد للہ ہم تعمیر و ترقی کے میدان میں اور بین الاقوامی سیاست کے میدان میں آگے ہیں۔ ابھی چند روز قبل مشہد-سرخس ریلوے لائن کے افتتاح میں، آپ نے دیکھا کہ سب نے آکے تعریف کی۔ اس طرح کے کام کس نے کئے ہیں اور کون انجام دے رہا ہے؟ دین اور خودمختاری کے بجز کون سے عوامل ان کارناموں پر قادر ہیں؟ ایرانی قوم نے ایسے عالم میں یہ کارنامے انجام دیئے ہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادی اس قوم کے دشمن ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر امریکا کسی ملک سے ناراض ہو تو وہ تعمیر و ترقی کے میدان میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ تو ہم نے جو کارنامے انجام دیئے ہیں وہ کیا ہیں؟! ہم نے ایسے عالم میں یہ کارنامے انجام دیئے ہیں کہ امریکا ہم سے برہم ہے۔ یہ پیشرفت ایسی حالت میں حاصل ہوئی ہے کہ امریکا ہمارے خون کا پیاسا ہے۔ اس طرح کے بہت سے تعمیری کام ایسے عالم میں انجام پائے ہیں کہ امریکی اتحادی، بعض یورپ میں، بعض ایشیا میں اور بعض افریقا میں ہمارے خلاف خنجر تانے ہوئے تھے۔ وہ کبھی سامنے آکے اور کبھی پیچھے سے ہمیں خنجر مار رہے تھے۔ اس کے باوجود ہم نے یہ کام کئے۔ لہذا لوگ جان لیں اور عبرت حاصل کریں، یہ نہ سوچیں کہ اس ملک کی تعمیر اور پیشرفت اس بات پر منحصر ہے کہ ہم امریکا اور دوسرے دشمنان خدا کے دروازے پر جائيں۔ جی نہیں۔ اگر ان کے دروازے پر گئے ہوتے تو اتنی ترقی نہ کرتے۔ جیسا کہ آپ نے شاہ کے زمانے میں دیکھا کہ اس ملک کے پاس جو تھا وہ بھی چلا گیا۔ زراعت تھی وہ بھی ہاتھ سے نکل گئی۔ صنعت نہیں تھی، حاصل نہ ہوئی۔ اس ملک میں صرف کہنے کو ایک اسمبلنگ رائج کی اور اس کو صنعت کا نام دے دیا جو درحقیقت صنعت نہیں تھی۔ انواع و اقسام کی شراب اور انواع و اقسام کی غیر صحتمند تفریحات اور برائیاں ملک میں درآمد کیں۔
ملک و قوم کے دشمنوں سے رابطہ، ان لوگوں سے تعلقات جو ہمارے ملک پر حکومت کرنا چاہتے ہیں، دوستی نہیں چاہتے بلکہ اس مملکت کی دولت و ثروت کو لوٹنا چاہتے ہیں، ایسے لوگوں سے روابط سے نقصان کے علاوہ قوم کو اور کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہم نے امریکا اور اس کے اتحادیوں سے دوری کے عالم میں، الحمد للہ، سترہ سال میں اتنی ترقی کی ہے جو قابل ملاحظہ ہے۔ مختلف شعبوں میں یہ تعمیری کام جو ملک کی ترقی کا باعث ہیں، زیادہ تر مومن افراد کے ذریعے انجام پا رہے ہیں۔ غیر مومن اور بے عقیدہ لوگ جو حزب اللہی نہیں ہیں، باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن ملک کے لئے کوئی خاص کام نہیں کرتے۔ زیادہ تر تعمیری اور موثر کام یہی مومن اور حزب اللہی افراد، انقلاب پر یقین رکھنے والے انجینئر، ملک اور نظام کے ہمدرد حضرات انجام دیتے ہیں۔ کام کرنے والے حضرات، فرزندان انقلاب ہیں۔ دوسروں نے ہماری کوئی مدد نہیں کی ہے۔ یہ فرزندان انقلاب ہیں جو تعمیری کام کر رہے ہیں اور بہت زیادہ محنت کرتے ہیں۔ ملک اس طرح ترقی کر رہا ہے۔
علما ئے کرام اور مبلغین عزیز، اس مہینے میں لوگوں کے لئے ان معاملات کے مختلف پہلو بیان کریں، انہیں سمجھائيں کہ دنیا و آخرت دین کے سائے میں حاصل ہوتی ہے۔ امام حسین علیہ الصلاۃ والسلام سے ارتباط اور جضرت کی شہادت کے معنی و مفہوم کا ادراک، انسان کی مادی اور معنوی دونوں زندگی میں مدد کرتا ہے۔ کوئی قوم اگر شہادت کے معنی و مفہوم کو سمجھ جائے اور جان لے کہ اصولوں کے لئے کس طرح جان فدا کی جا سکتی ہے تو بغیر کسی پریشانی کے آزادی اور خودمختاری کی زندگی گزار سکتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں اس کے لئے موت بے معنی ہو جائے گی۔ لیکن اگر یہ نہ ہو تو دشمن اس کو موت سے ڈرائےگا اور پھر وہی ہوگا جس طرح بعض ممالک، بعض اقوام اور بعض حکومتیں دشمنوں کے مقابلے میں کمزوری ظاہر کرتی ہیں۔
امید ہے کہ خداوند عالم مدد کرے گا اور اپنا فضل و کرم ہمارے شامل حال کرے گا تاکہ اسلام کے گوناگوں پہلوں، عاشورا کے اہم واقعے کے تمام جوانب اور پہلوں، لوگوں پر روشن ہوں اور ایک سرچشمے کی طرح اس سے استفادہ کیا جائے۔ ان شاء اللہ محترم حضرات اور برادران عزیز بالخصوص مومن، مخلص اور پرجوش نوجوان حضرات، اپنے فرائض پر اچھی طرح عمل کر سکیں گے، لوگوں کو عاشورا کے مبارک سرچشمے سے سیراب کر سکیں گے اور حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کا قلب مقدس آپ سب سے راضی ہوگا۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1-بقرہ:29،
2-اعراف:32
3-طلاق: 3
4- فرقان:77
5-مومن: 60،
6-حدید:16،
7-رعد:28،
8-نحل:125
9-بنی اسرائیل:39،
10؛ حکمت کی بنا پر انسان پوری کائنات جیسی وسعت اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے۔
11-نحل:125
12-نحل:125
13-حجر:9
14--حج:40
15-عنکبوت:69
16-ممتحنہ:8
17-ممتحنہ:9
18-طلاق: 2 و 3