2 خرداد 1394 ہجری شمسی مطابق 23 مئی 2015 کو اپنے اس خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا : دنیائے اسلام کی موجودہ مشکلات کے علاج کا نسخہ قرآنی احکامات کے سامنے سر جھکانا، ماڈرن جاہلیت کی جانب سے مسلط کی جانے والی باتوں کو تسلیم نہ کرنا اور اس جاہلیت کی منہ زوری کا مقابلہ کرنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دنیائے اسلام کی موجودہ مشکلات کے علاج کا نسخہ یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے ملت ایران کے تجربے سے استفادہ کیا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: امت اسلامیہ کے اندر تفرقہ ڈالنا اور اسے تقسیم کرنا دشمنوں کا اصلی منصوبہ ہے، بنابریں سب کے لئے ضروری ہے کہ ہوشیار رہیں کہ کہیں اختلاف پیدا کرنے والی آواز نہ بلند کریں اور اسلام و قرآن کے دشمنوں کے ترجمان نہ بن جائیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ جو آواز بھی اختلاف پیدا کرنے کا کام کرے وہ در حقیقت دشمن کا لاؤڈ اسپیکر ہے۔ آپ نے فرمایا: شیعہ و سنی، عرب و عجم، قومیت، شہریت اور قوم پرستی کے نام پر اختلافات کی آگ بھڑکانا، امت اسلامیہ کے بدخواہوں کا ایجنڈا ہے جس کا بصیرت و عزم کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے۔
بسم‌ الله‌ الرّحمن‌ الرّحیم‌ (1)
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و ءاله الطّاهرین

تمام برادران و خواہران گرامی کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ جب قاریان کرام، حافظ، اہل قرآن اور قرآن سے مانوس افراد قرآن کی الگ الگ آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں تو واقعی زندگی کی فضا قرآن کی خوشبو سے معمور ہو جاتی ہے۔ اس بہترین پروگرام کے تمام مہتمم حضرات کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ قاریان محترم کا بھی شکر گزار ہوں، آج جن افراد نے پروگرام پیش کیا ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اہل قرآن میں قرار دے۔ اہل قرآن بن جانا چاہئے۔ تلاوت قرآن مقدمہ ہے، نصب العین نہیں۔ نصب العین تو قرآنی اخلاقیات سے خود کو مزین کرنا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج گرامی سے منقول ہے کہ وہ اخلاق پیغمبر کے بارے میں کہتی ہیں؛ کانَ خُلقُهُ القُرآن (۲). اخلاق پیغمبر قرآن تھا۔ یعنی پیغمبر سراپا قرآن تھے۔ ہمارا عمل، ہمارا اخلاق اور ہمارے عادات و اطوار قرآن کے مطابق ہوں، یہ ضروری ہے۔ تلاوت اسی کی تمہید ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں ہے، بلکہ ہماری ذاتی شخصیت کی قرآن کے مطابق تعمیر کے ساتھ ہی ہمیں اپنے معاشرے اور اپنے ماحول کو بھی قرآنی بنانے کی ضرورت ہے۔
ہمیں چاہئے کہ اپنے معاشروں اور اپنی زندگی پر جاہلیت کو سایہ فگن نہ ہونے دیں، جو سایہ فگن ہو چکی ہے۔ آج اسلامی دنیا دور جاہلیت والے نظاموں کے چنگل میں جکڑی ہوئی کراہ رہی ہے۔ آج عالم اسلام پر کمزوری طاری ہے، وہ غربت کا شکار ہے، اختلافات میں الجھی ہوئی ہے، خانہ جنگی میں مبتلا ہے، اپنی عظیم توانائیاں اور صلاحیتیں اپنے ہی خلاف استعمال کر رہی ہے۔ اس صورت حال کو دنیائے اسلام پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ قرآن ہمیں مسلط کر دی جانے والی انھیں مشکلات سے نجات دلانا چاہتا ہے۔ ہمیں اس منزل پر پہنچنا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ قرآن کو سمجھیں، قرآن سے خود کو مانوس بنائیں، قرآن کے سامنے سر تسلیم خم کریں، قرآنی اہداف کے حصول کے لئے عزم و ارادے کا مظاہرہ کریں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو یقینا کامیاب ہوں گے۔ اگر ہم ایک قدم آگے جائيں گے تو اللہ تعالی ہمیں دگنی قوت عطا فرمائے گا۔ آج مسلم اقوام کو یہ حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے، اس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ آئيے ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں اور اس کا تجربہ کرتے ہیں۔
ہم نے اس کا تجربہ کیا ہے۔ ملت ایران کی سطح پر ہم نے یہ تجربہ کیا ہے۔ ہم دشمنان اسلام کے سامنے اور دشمنان قرآن کے سامنے نہیں جھکے بلکہ مزاحمت کی۔ اللہ تعالی نے ہمیں طاقت عطا فرمائی۔ ہماری مزاحمت و استقامت جتنی بڑھتی گئي اللہ تعالی ہماری توانائیوں میں اتنا ہی اضافہ کرتا گیا اور مستقبل کے تعلق سے ہماری امیدوں میں اضافہ ہوا۔ یہی دنیائے اسلام کی مشکلات کا علاج ہے۔ دشمنوں نے امت اسلامیہ کے اندر جس چیز کو ہمیشہ استعمال کرنے کی کوشش کی اور آج بھی بڑی محنت اور شدت سے جسے استعمال کر رہے ہیں وہ اختلافات ہیں۔ اس کا سد باب کیا جانا چاہئے۔ جس گلے سے بھی اختلاف کی آواز بلند ہو وہ دشمن کا لاؤڈ اسپیکر ہے۔ خواہ خود اس کو معلوم ہو یا نہ ہو۔ ہمیں بہت محتاط رہنا چاہئے کہ کہیں ہماری آواز بھی اسلام اور قرآن کے دشمنوں کا لاؤڈ اسپیکر نہ بن جائے، ہمارے گلے سے اختلاف کی آواز نہ بلند ہونے لگے۔ مسلکی اختلافات، شیعہ و سنی تنازعہ، عرب و عجم کا اختلاف، گوناگوں ملکوں کے اختلافات، قومیتوں اور ملتوں کا اختلاف، قوم پرستانہ اختلافات، یہ ایسی آگ ہے جسے مسلم معاشروں کے اندر شعلہ ور کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
البتہ ان باتوں کا بیان کر دینا تو آسان ہے لیکن ان پر عمل بہت دشوار ہے، مگر عمل کرنے کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں بنیادی فیکٹر ہے ہمارا عزم و ارادہ۔ ہمیں چاہئے کہ فیصلہ کریں۔ بصیرت اور عزم دو اہم عناصر ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں بصیرت کی ضرورت ہے کہ ہم دشمن کو پہچان سکیں، دوست کی شناخت حاصل کر سکیں۔ مسلم ممالک کے اندر آج کچھ ایسے ملک بھی ہیں جہاں کے حکام بے بصیرتی کا شکار ہیں۔ دوست اور دشمن کے فرق کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ دشمن کو دوست سمجھ بیٹھے ہیں اور دوست کو دشمن خیال کر رہے ہیں۔ ایسے میں انسان نقصان اٹھاتا ہے۔ ایسا ملک، اس طرح کی سوچ اور طرز فکر رکھنے والا ملک چوٹ کھاتا ہے، لہذا بصیرت ضروری ہے؛ قُل هذِه‌ سَبیلی اَدعوا اِلَی اللهِ عَلی‌ بَصیرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنی (۳) اگر بصیرت ہو تو انسان صحیح راستے کی شناخت کر سکتا ہے، عزم و ارادے کا بھی مظاہرہ کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں راستہ آسانی سے طے ہوگا۔ اسی کو نصرت خداوندی کہتے ہیں؛ اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم، اس سے زیادہ اور صریحی جملہ کیا ہو سکتا ہے؟ اِن تَنصُروا اللهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم؛(۴) نصرت خدا کا یہی مفہوم ہے۔ راہ خدا کو سمجھنا اور تلاش کرنا، دشمن کی سازشوں کے سامنے، بے وقوف بنانے کی کوششوں کے سامنے اور اس کی منمانی کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنا۔ قرآن نے ہمارے لئے یہ راستہ تعمیر کر دیا ہے۔
ہمارا یہ سالانہ قرآنی اجتماع بحمد اللہ بہت کامیاب اجتماع ہے۔ بتدریج ہمارے معاشرے میں قرآن کو حیات نو ملی ہے۔ قرآن سے دلچسپی رکھنے والے، قرآن سے وابستہ رہنے والے، قرآن سے خود کو مانوس بنانے والے افراد کی تعداد ہمارے معاشرے میں روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہم قرآن حفظ کرنے اور قرآن کی تلاوت پر جو اتنی تاکید کرتے ہیں تو کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ یہ اصلی ہدف تو نہیں ہے! ہمیں بھی معلوم ہے کہ یہ اصلی ہدف نہیں، مگر وسیلہ اور ذریعہ یہی ہے۔ ان وسائل کے بغیر قرآن کے قریب نہیں ہوا جا سکتا۔ جو شخص قرآنی تعلیمات سے آشنا نہیں ہے، جو قرآنی آیات میں تدبر نہیں کرتا، جو قرآن سے مانوس نہیں ہے وہ کیونکر اس معاشرے کی رہنمائی کر سکتا ہے جو قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتا ہے؟ ہمارے دانشوروں اور مفکرین کو قرآن سے آشنا ہونا چاہئے۔ ہمارے نوجوانوں کو قرآن سے آشنا ہونا چاہئے۔ قرآن سے اپنی انسیت بڑھانی چاہئے۔ جب ہمارا دل و دماغ قرآنی تعلیمات کا آشیانہ بن جائے گا تب؛
«از کوزه، برون همان تراود که در اوست» (کوزے سے وہی چھلکتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے۔)
جب ذہن معارف قرآنی سے معمور ہو جائے گا تو اس کا اثر زبان میں، عمل میں، فیصلوں میں، بڑے منصوبوں میں صاف نظر آئے گا۔ ہمیں اس ہدف کی جانب بڑھنا ہے۔ ملکی حکام کو چاہئے کہ قرآن کے موضوع پر پوری توجہ سے کام کریں۔ اسے معمولی نہ سمجھئے۔ آپ نوجوان جو قرآن کی تعلیم، قرآن کی تلاوت اور قرآن سے انس کے راستے پر گامزن ہیں، پوری توجہ سے اس سفر کو جاری رکھئے اور آگے بڑھتے رہئے۔ قرآن ہمارے مستقبل کو واضح اور روشن کر دے گا، قرآن ہمیں صراط مستقیم سے روشناس کرائے گا۔ قرآن ہماری خوش بختی کی ضمانت بن جائے گا۔
ہم نے کہا کہ آج عالم اسلام گوناگوں کمزوریوں کا شکار ہے۔ لیکن خوش قسمتی سے اسلامی معاشروں میں اسلام کی جانب اور قرآن کی جانب رجحان کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ علاقے کے ملکوں میں جس اسلامی بیداری کی جھلک نظر آئی، وہ ختم ہونے والی نہیں ہے۔ یہ بیداری اپنا وجود قائم رکھے گی، باقی رہے گی اور ان شاء اللہ اس کے اثرات بھی نظر آئیں گے۔ اسلامی بیداری ایک حقیقت ہے۔ یہ حقیقت ان شاء اللہ روز افزوں طریقے سے ہمارے سامنے ظاہر ہوگی۔ البتہ اس سلسلے میں علماء کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں، روشن فکر طبقے کے فرائض زیادہ ہیں، مصنفین، طلبہ، محققین خود آپ قاریان محترم کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ کیونکہ آپ کے اوپر عوام کی توجہ رہتی ہے۔ ہمیں عوام کے اندر اس راستے کے تعلق سے امید و نشاط کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے جس کی بشارت آپ کو قرآن دیتا ہے۔
خداوند عالم آپ سب کو کامیاب فرمائے۔ تائیدات الہیہ آپ کے شامل حامل رہیں۔ خداوند عالم مسلم ممالک کو اور مسلم اقوام کو قرآن سے بہرہ مند فرمائے۔ خداوند عالم مسلم حکومتوں اور مسلم حکام کو عملی سطح پر قرآن سے تھوڑا قریب کرے اور قرآن کے سائے میں عالم اسلامی اپنی سعادت و کامرانی کی لذت حاصل کرے۔

والسّلام علیکم‌ و رحمة الله‌ و برکاته‌

۱) اس دفعہ قرآن کے مقابلوں کا انعقاد 15 سے 23 مئی 2015 کے بیچ تہران میں ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل ایران کے ادارہ اوقاف و فلاحی امور حجت الاسلام علی محمدی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ قرآن کے مقابلوں کا انعقاد اسی ادارے کی نگرانی میں ہوا۔
۲) شرح نهج‌ البلاغه، جلد ۶، صفحہ ۳۴۰
۳) سورۂ یوسف، آیت نمبر ۱۰۸ کا ایک حصہ؛ « کہہ دیجئے! یہ ہے میرا راستہ، میں اور وہ جو میری پیروی کرتا ہے بصیرت کے ساتھ اللہ کی جانب بلاتے ہیں۔)
۴) سورۂ محمّد، آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ؛ « اگر تم اللہ کی نصرت کروگے تو اللہ تمہاری نصرت کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عطا کرے گا۔»