خوش آمدید کہتا ہوں آپ برادران و خواہران عزیز کو۔ ماہ شعبان کے ان مبارک ایام کی اور پورے مہینے کی جو ذکر الہی، عبادت اور خضوع و خشوع کا مہینہ ہے، آپ برادران و خواہران گرامی کو مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ مواقع؛ ماہ شعبان کا موقع، ماہ رمضان میں حاصل ہونے والا موقع اور ماہ رجب کا موقع، یہ بہت غنیمت ہیں، خاص طور پر ہم اور آپ جیسے عہدیداروں کے لئے۔ اسلامی معاشرے کا اصلی جوہر اور تشخص ملت کی ہر فرد کا ایمان، عمل صالح اور عبادت ہے۔ جیسا کہ ان آیتوں میں بھی جن کی ہمارے بہت اچھے قاری نے تلاوت کی (2)، آپ نے مشاہدہ کیا۔ یہ بنیادی نکتہ ہے۔ جس چیز کی وجہ سے اللہ کے فرشتے انسانوں سے کہتے ہیں؛ «نَحنُ اَولِیآؤُکم فِی الحَیوةِ الدُّنیا وَ فِی الأخِرَة» (۳) ہم دنیا میں بھی آپ کے ساتھی اور دوست ہیں اور آخرت میں بھی۔ عوام کی ہر فرد کا ایمان، بندگی اور عمل صالح بہت اہم ہے لیکن اس خطاب میں عہدیداران کو خاص طور پر متوجہ کیا گیا ہے۔ جس کے پاس زیادہ بڑی ذمہ داری اور عہدہ ہوگا اس کے تعلق سے یہ خطاب بھی زیادہ سخت اور شدید ہوگا۔ ہمیں اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہوگا۔ یعنی پارلیمنٹ کی رکنیت، حکومت کے اندر کوئی عہدہ، مسلح فورسز میں کوئی عہدہ، عدلیہ میں کوئی عہدہ اگر ہمارے پاس ہے تو اس کی وجہ سے سب سے پہلے جو ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوگی وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی سے اپنا رابطہ محکم کریں، زیادہ بہتر اور پرخلوص عبادت کریں، اس سلسلے میں ہمیں غافل نہیں ہونا چاہئے۔
بیشک جب کوئی عہدہ ہمیں دیا جاتا ہے تو اس عہدے کا دائرہ کار ہمارے فرائض کی ادائیگی کا اصلی میدان ہے اور ہمیں اس پر توجہ دینی ہوتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے اور اس کے دوران اور اس کے اختتام پر جو چیز ہمارے لئے بہت اہم اور حیاتی ہے اور جو ہمیشہ ہمارے مد نظر رہنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم کیا کریں کہ اپنے الوہی فرائض کی ادائیگی میں کامیاب ہوں۔ ہماری بندگی، ہمارا خلوص، ہمارا عمل، ہمارے نیک اعمال سب کی ضمانت مل جائے۔ یہ ایسا فریضہ ہے جس پر حکام کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ جو مہینے ہیں یہ بڑے عظیم مواقع ہیں؛ ماہ شعبان، ماہ رمضان، بڑے عظیم مواقع ہیں۔ ان مہینوں کے سلسلے میں جو دعائیں وارد ہوئی ہیں وہ ہمارے لئے راستے کھولتی ہیں۔ اگر ہم اور آپ چاہتے ہیں کہ اپنے خالق سے ہمکلام ہوں اور اس سے کچھ طلب کریں، اس کی بارگاہ میں کسی چیز کی التجا کریں تو حقیقت یہ ہے کہ اس کا طریقہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ یہ دعائیں انتہائی بلیغ زبان میں ہمیں سکھاتی ہیں کہ اللہ تعالی کی بارگاہ سے ہم کیا طلب کریں اور اللہ تعالی سے کیسے بات کریں؟ یہی مناجات شعبانیہ جو ہے، اس کے شروع سے لیکر آخر تک سارے فقرے دعا سے عبارت ہیں۔ ان میں ہر فقرہ معرفتوں کا سمندر اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ ان فقروں میں خالق یکتا کی بارگاہ میں لب کشائی کا طریقہ ہمیں سکھایا گیا ہے اور دعا مانگنے کا طریقہ بتایا گیا ہے؛ اِلهی هَب لی قَلبًا یدنیهِ مِنک شَوقُهُ وَ لِسانًا یرفَعُ اِلَیک صِدقُهُ وَ نَظَرًا یقَرِّبُهُ مِنک حَقُّه (۴) آپ ذرا غور تو کیجئے! دعا کے اس مختصر سے جملے میں تین کلیدی نکات ہیں؛ مجھے ایسا دل عطا فرما کہ اشتیاق اسے تیرے قریب کر دے۔ یہ اشتیاق دل میں پیدا ہوتا ہے۔ ہماری مادیاتی آلودگیاں، گناہ کی آلودگیاں، گوناگوں حرص و طمع کی آلودگیاں، دل کے اس جذبہ شوق کو مردہ کر دیتی ہیں۔ قرآن سے ہمارا انس، دعاؤں سے ہمارا انس، نوافل سے ہماری رغبت اور فرائض کی درست انجام دہی دل کے اندر اس جذبہ شوق کو برانگیختہ اور شعلہ ور کرتی ہے؛ یدنیهِ مِنک شَوقُه؛ تب یہ شوق ہمارے دل کو اللہ کے قریب لے جاتا ہے۔ وَ لِسانًا یرفَعُ اِلَیک صِدقُه؛ صداقت کی خوگر زبان، صداقت کی بنیاد پر کیا جانے والا کلام اللہ تعالی کی بارگاہ کی جانب پرواز کرتا ہے؛ اِلَیهِ یصعَدُ الکلِمُ الطَّیبُ وَ العَمَلُ الصّلِحُ یرفَعُه؛ (۵) صحیح بات، صادقانہ کلام، پرخلوص کلمات، ایسا کلام جس میں مادیت، خود پسندی، خواہشات کی پیروی جیسی چیزوں کا کوئی شائبہ نہ ہو، اللہ تعالی کی بارگاہ کی سمت پرواز کرتا ہے۔ وَ نَظَرًا یقَرِّبُهُ مِنک حَقُّه؛ حقیقت بیں نظر، مسائل کے بارے میں حقیقت کے محور پر کام کرنے والی نظر، یعنی ایسی نظر نہیں جو جانبدارانہ ہو، جو خواہشات کی تابع ہو، جو مفادات کی متلاشی ہو، ایسی نگاہ جو مسائل کو حق و صداقت کی بنیاد پر دیکھتی ہو، حق کی طرفداری کرتی ہو، راہ حق پر آگے بڑھتی ہو، ہمارے اندر موجود ہو تو دل کو قرب خدا نصیب ہوگا۔ آپ غور کیجئے کہ ہمیں اللہ تعالی سے ہمکلام ہونے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے اور ہمیں یہ سکھایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں کیا طلب کریں۔
ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ اگر ہم اپنے یہ فرائض پورے کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ تعالی کی ذات سے مستحکم رابطے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنا یہ رابطہ محکم کرنا ہوگا۔ اس محکم رابطے کی دائمی طور پر حفاظت کرنی ہوگی۔ دائمی طور پر ذکر میں مصروف رہنے کی تاکید اسی لئے کی گئی ہے۔ یہ جو نماز کو ہر روز بجا لانے کا حکم ہے اور کئی بار ادا کرنے کا حکم ہے، اس لئے ہے کہ ہم پر غفلت طاری نہ ہو۔ اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہمارے اوپر نماز کا واجب قرار دیا جانا ہے۔ اگر نماز ہمارے اوپر واجب نہ کی گئی ہوتی تو ہم غفلت میں ڈوب جاتے۔ صبح سویرے جب آپ نیند سے جاگیں تو اللہ کو یاد کریں، ظہر کے وقت معمولات زندگی اور معیشتی امور میں مصروفیت کے بیچ میں یاد خدا، محنت و مشقت بھرے دن کے اختتام پر رات کے وقت پھر ذکر خدا۔
با یاد رویت جای در بستر گرفتم
با آرزویت سر ز بستر بر گرفتم (6)
ہمارے لئے یہ پروگرام اور لائحہ عمل معین کیا گیا ہے۔ کیا ہم اس پر عمل کرتے ہیں؟ اگر عمل کر رہے ہیں تو پھر ہم اس بابت مطمئن ہو سکتے ہیں کہ «اَخرِجنی مِنَ الدُّنیا سالِما» (۷) ہماری دعاؤں میں آیا ہے کہ ایسی صورت میں ہم مطمئن ہو سکتے ہیں کہ یہاں سے صحیح و سالم باہر نکلیں گے۔ صحیفہ سجادیہ کی دعا میں آیا ہے؛ اللّهمَّ ... اَمِتنا مُهتَدینَ غَیرَ ضالّینَ طائِعینَ غَیرَ مُستَکرِهینَ تائِبینَ غَیرَ عاصینَ وَ لا مُصِرّین (۸) ہمیں ایسے عالم میں موت دے کہ ہم ہدایت کے ساتھ دنیا سے جائیں، ہمیں ایسے عالم میں موت دے کہ ہم اطاعت و رغبت کے ساتھ دار باقی کی طرف رخ کریں۔ کفار کے یہاں یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ فاسق و فاجر افراد کے یہاں یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ ملائکہ ان کے سرہانے پہنچتے ہیں اور سختی سے کہتے ہیں؛ اَخرِجوا اَنفُسَکم (۹) مگر مومنین کا یہ عالم ہے کہ اس دنیا کے سلسلے میں وہ پوری طرح خاطر جمع ہیں اور شوق و رغبت سے کوچ کرتے ہیں۔ زوال پذیر چیزوں پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں مگر جب اپنی آنکھ کھولتے ہیں تو ایسی حیرت انگیز نعمتیں سامنے ہوتی ہیں کہ دنیا کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ جب آپ کسی خوشی کے سفر پر جاتے ہیں تو ممکن ہے کہ گاڑی کی پارکنگ کے قریب مثال کے طور پر آپ کا بیٹا ہے یا بھائی ہے جس سے آپ جدا ہو رہے ہیں۔ اس بات سے آپ کا دل ملول بھی ہے لیکن جب سفر پر آپ روانہ ہو گئے تو پھر وہ پرکشش مناظر، وہ پرلطف لمحات زندگی، وہ تنوع آپ کی تشویش اور غم کو بھلا دیتا ہے۔ جب آپ وہاں رضائے پروردگار اور خوشنودی خداوندی اور جزائے الہی سے بہرہ مند ہوں گے تو؛ نُزُلاً مِن غَفورٍ رَحیم (۱۰) جن آیتوں کی ابھی تلاوت کی گئی ان کے مطابق جب ہم ان تمام نعمتوں کو دیکھتے ہیں تو جو کچھ دنیا میں چھوڑ کر آئے ہیں، جن سے ہماری قلبی وابستگی رہی ہے اور جن کے لئے ہم مرنے مارنے پر اتارو ہو جاتے تھے، انھیں اب فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ یہ ہمارا فریضہ بھی ہے۔ البتہ یہ تاکید سب سے پہلے مرحلے میں خود اس حقیر کے لئے ہے۔ اس حقیر کا بوجھ آپ سے زیادہ وزنی ہے اور میری مشکلات آپ سے زیادہ ہیں۔ لیکن ہم سب کو متوجہ رہنا چاہئے۔ یہ چیز ہمیشہ مد نظر رہنا چاہئے۔
آپ کے پاس یہ جو عہدہ تھا اس کی مدت میں سے تین سال بیت چکے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کے اس مجموعے کی شکل میں آپ سے میری یہ آخری ملاقات ہے۔ یہ چوتھی اور آخری ملاقات ہے۔ یعنی آپ کے پاس اب ایک سال سے زیادہ کا وقت نہیں ہے۔ خدمات کی انجام دہی کے لئے اب اس سے زیادہ موقع آپ کے پاس نہیں ہے۔ تین سال کا وقت گزر چکا ہے۔ اب جوابدہی کا دور شروع ہو گیا ہے۔ جب کوئی کام کسی انسان کو سونپا جاتا ہے اور وہ اسے انجام دیکر کھڑا ہو جاتا ہے تو اب اسے تشریح کرنا ہوتی ہے کہ اس نے کیا کیا؟ سنگین فرائض اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ اب سوال اور باز پرس کا موقع آتا ہے۔ وہ بھی عوام الناس کا سوال نہیں کہ انسان جس طرح چاہے گول مول جواب دے دے۔ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ سوال عالم ملکوت سے کیا جائے گا۔ سوال اس کی جانب سے کیا جائے گا جو «لا یعزُبُ عَنهُ مِثقالُ ذَرَّةٍ فِی السَّموتِ و لا فِی الاَرض» (۱۱) ، سوال وہ ہستی کرے گی جو ہمارے دلوں کا راز جانتی ہے، جو ہمارے قلوب کو اپنے احاطے میں رکھتی ہے اور دل کا حال جانتی ہے تو پھر اعمال کا ذکر ہی کیا۔ یہ حساب شروع ہوگا۔ ہمیں خود کو جواب دینے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔ خود کو اس سوال و جواب کے لئے تیار کرنا چاہئے۔ محنت کرنا چاہئے۔ بیشک خداوند عالم «غَفورٌ رَحیم» (۱۲) لیکن یہ غفران اور یہ رحمت تساہلی، بے اعتنائی اور لا ابالی پن میں مبتلا افراد سے بہت دور ہے۔ یہ اس کے لئے ہے جو صعوبتیں برداشت کرے، محنت کرے۔ بقول شاعر؛
به راه بادیه رفتن به از نشستن باطل
که گر مراد نجویم به قدر وسع بکوشم (13)
اس ایک سال کے موقع کو غنیمت جانئے! اس مہلت کا ابھی ایک سال باقی ہے۔ آپ نہیں جانتے اور ہمیں بھی نہیں معلوم کہ ہمیں اور آپ کو پھر موقع ملے گا یا نہیں۔ یہ ایک سال کا جو موقع ہے، بظاہر یہ مہلت ہمارے پاس ہے ورنہ موت اور زندگی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں اس مہلت کو غنیمت سمجھنا چاہئے، محنت کرنا چاہئے، کام کرنا چاہئے، زحمت اٹھانا چاہئے۔ ہمیں ان معیاروں کے مطابق حقوق اللہ کو ملحوظ رکھنے کے معیار، لسان صادق کے معیار، نگاہ حق بیں کے معیار، جذبہ شوق سے معمور دل کے معیار، انھیں معیاروں کے مطابق ہمیں کام کرنا چاہئے۔
بحمد اللہ تین سال کی اس مدت میں بڑے اچھے کام انجام پائے ہیں۔ پارلیمنٹ کے محترم اسپیکر نے اپنی رپورٹ میں، اپنی آج کی تقریر میں بیان بھی کیا، پہلے بھی میں نے تحریری رپورٹ میں دیکھا، بڑے اچھے کام انجام پائے ہیں۔ خدا کرے کہ یہ سارے کام صادقانہ و صالح نیت کے ساتھ اور قربۃ الی اللہ انجام دئے گئے ہیں۔ یہ اقدامات مقبول بارگاہ خداوندی قرار پائیں۔ دعا کرتا ہوں کہ آپ نے جو کام انجام دیا، جو فیصلے کئے اور عوام کے مفاد میں، ملک کے مفاد میں اور اسلام و مسلمین کے مفاد میں جو قوانین وضع کئے، وہ پائیدار قانون بنیں، ان پر عملدرآمد ہو، معاشرے میں ان کے اثرات و ثمرات نظر آئیں اور عوام الناس آپ کی زحمتوں کے اثرات کو خود محسوس کریں۔ یہ ہماری توقعات ہیں۔ بنیادی طور پر یہی میرے معروضات تھے جو میں نے پیش کر دئے۔ یعنی آپ کو نصیحت کرکے در حقیقت میں نے خود اپنی ذات کو نصیحت کی ہے کہ شاید ہمارے دل پر اس نصیحت کا اثر پڑے اور ہم وہ کام انجام دے سکیں جو ہمیں انجام دینے ہیں۔ کچھ سفارشات ہیں جو آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔
ایک سفارش اس آخری سال کے دوران آپ خواتین و حضرات کے طرز عمل سے متعلق ہے۔ بہت محتاط رہئے کہ سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات کا فیکٹر اس سال کے دوران انجام پانے والے آپ کے اقدامات پر اثر انداز نہ ہو۔ یہ بہت اہم ہے۔ جو کام بھی آپ کر رہے ہیں، جو بیان دے رہے ہیں، کسی چیز کی حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت کر رہے ہیں، جو تقریر کر رہے ہیں وہ سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات کے زیر اثر نہ ہو۔ آپ اس طرح عمل کیجئے کہ گویا انتخابات نہیں ہونے ہیں۔ یعنی اس باقی ماندہ ایک سال کے دوران حق و صداقت کو معیار قرار دیجئے۔ یہ رہی پہلی بات۔
دوسری سفارش چھٹے پروگرام سے متعلق ہے (14)۔ چھٹا پروگرام جس کی کلی پالیسیاں آخری مراحل میں ہیں اور ان شاء اللہ بہت جلد مختلف اداروں کے لئے اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا، اس کا باریکی کے ساتھ جائزہ لیا جانا چاہئے۔ ذمہ داری کا آخری سال عام طور پر بعض اوقات بے رغبتی کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہ صرف آپ کی بات نہیں ہے بلکہ حکومت کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔ آخری وقت قریب آتا ہے تو بے رغبتی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ آفت چھٹے پروگرام کو اپنی لپیٹ میں نہ لینے پائے! چھٹا منصوبہ بہت اہم ہے۔ آپ اس پروگرام کے تحت ملک کے آئندہ پانچ سال کے لئے قانون وضع کریں گے۔ اس وقت ممکن ہے کہ آپ رکن پارلیمنٹ رہیں اور ممکن ہے کہ نہ رہیں۔ مگر آپ کا یہ قانون رہے گا۔ حکومتوں کو اس قانون پر عملدرآمد کرنا ہوگا اور عوام پر اس قانون کا اثر پڑے گا۔ آپ چھٹے پروگرام کے قانون کو اس نقطہ نگاہ کے ساتھ تدوین کیجئے۔ تمام شعبوں میں؛ اقتصادی شعبے میں،؛ ثقافتی شعبے میں، خدمات کے شعبے میں، صحت عامہ اور طبی شعبے میں، دفاعی اور سیکورٹی کے شعبے میں (اس نقطہ نگاہ کے ساتھ قانون وضع کیجئے)۔ چھٹے پروگرام کے قانون کی تدوین میں بے رغبتی کی کیفیت سے دوچار نہ ہوئیے۔ حکومت پر 'میان دار' (ایران میں روایتی کسرت کے اکھاڑے میں بیچ میں کھڑا ہونے والا پہلوان جس کے حرکات و سکنات پر نظر رکھ کر اکھاڑے کے دوسرے پہلوان ورزش کرتے ہیں) کی ذمہ داری ہے۔ جو لوگ روایتی ورزش سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ بخوبی سمجھ رہے ہوں گے کہ ہم کیا عرض کر رہے ہیں۔ ورزش سب کر رہے ہوتے ہیں لیکن سب کی توجہ اکھاڑے کے 'میان دار' پر ہوتی ہے۔ اگر حکومت کی کارکردگی اچھی، کامیاب اور محکم رہی تو دوسرے ادارے بھی لامحالہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ حکومت کی پوزیشن اس طرح کی ہے۔ لہذا حکومت سے تعاون ہماری نظر میں بہت ضروری ہے۔ تمام شعبوں سے تعاون، ملک کے مختلف اداروں سے تعاون، خاص طور پر مجریہ سے تعاون اس چیز کا حقیقی مظہر ہے جس کی ہم نے سال نو کے آغاز کے موقع پر تاکید کی تھی؛ 'ہمدلی اور ہم زبانی'۔ البتہ میں حکومت سے بھی یہی سفارش کرتا ہوں۔ یہ سفارش صرف آپ کے لئے نہیں ہے۔ میں یہی سفارش صدر محترم اور وزرا سے بھی کرتا ہوں۔ اسی طرح آپ بھی لازمی طور پر تعاون کیجئے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ حقیقی معنی میں یہ تعاون انجام پائے تو اس کے سلسلے میں دو تین اہم نکات ہیں جو میں آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ ایک تو یہ ہے کہ اس تعاون کا انحصار حسن ظن پر ہے۔ اگر آپس میں ایک دوسرے کے سلسلے میں بدگمانی ہوگی تو تعاون نہیں ہو پائے گا۔ اگر دو لوگوں میں تعاون ہونا ہے، مگر ان میں ایک شخص پہلے ہی یہ سوچ رکھتا ہو کہ وہ دوسرا شخص اس کی پیٹھ میں خنجر مارے گا، تو یہ تعاون کبھی نہیں ہو پائے گا۔ تعاون بدگمانی کے ماحول میں ممکن نہیں ہے۔ حسن ظن ضروری ہے۔ تعاون حسن ظن سے جڑا ہوتا ہے۔ حسن ظن کے بغیر اور فریق مقابل کے بارے میں اچھی سوچ کے بغیر اس تعاون کا امکان نہیں ہے۔ البتہ حسن ظن کا مطلب جلدی سے ہر بات کا یقین کر لینا نہیں ہے، اس کا مطلب دھوکے کھانا نہیں ہے۔ ہمیں ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے۔ انسان ہر مسئلے میں اور ہر جگہ پر اپنے حواس درست رکھے۔ میں ہرگز یہ سفارش نہیں کروں گا کہ کوئی بھی بہت جلدی سے ہر بات کا یقین کرنے لگے۔ تاہم بدگمانی بھی نہیں ہونی چاہئے۔ اگر ہم فریق مقابل کے بارے میں پہلے ہی یہ رائے قائم کر لیں گے کہ وہ تو خلاف ورزی ضرور کرے گا، وہ سازش کرے گا، خیانت کرے گا، یا ذاتی مفادات کے لئے چیزوں کا غلط استعمال کرے گا، تو اس طرح کام نہیں ہو سکتا۔ اس سوچ کے ساتھ تعاون ممکن نہیں ہے۔ مثبت فکر کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہئے۔ یہ تعاون کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ ہے۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ تعاون بلیک میلنگ کی شکل میں نہیں ہونا چاہئے۔ دیکھئے اس کے درمیان بہت باریک سا خط فاصل ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں پارلیمنٹ میں بھی تھا۔ میں رکن پارلیمنٹ رہ چکا ہوں اور آپ کے تجربات میرے پاس بھی ہیں۔ میں حکومت میں بھی تھا اس لئے یہ تجربہ بھی میرے پاس ہے۔ جب ہم تعاون کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ارکان پارلیمنٹ اور وزیر کے درمیان ایک دوسرے کو بلیک میلنگ کا سلسلہ ہو۔ مثال کے طور پر ایک دوسرے سے کہے کہ تم میری گردن چھوڑو تو میں تمہاری گردن چھوڑوں گا (15)۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ وزیر اور رکن پارلیمنٹ دونوں کی نظر قانونی فرائض پر، ملکی مفادات پر اور اس حقیقت پر مرکوز رہنی چاہئے کہ اللہ تعالی ہم سب کو دیکھ رہا ہے۔ تعاون اس بنیاد پر ہونا چاہئے۔ تو تعاون اور بلیک میلنگ میں خلط ملط نہیں کیا جانا چاہئے۔
اگلا نکتہ تعاون کے سلسلے میں یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اور خاص طور پر کمیشنوں میں وزرا کی توہین نہیں کی جانی چاہئے۔ بعض وزرائے محترم نے مجھ سے شکایت کی کہ ہم پارلیمانی کمیشن میں جاتے ہیں تو توہین آمیز لہجے میں بات کی جاتی ہے۔ میری یہ سوچ ہے کہ سب آپس میں بھائی ہیں۔ یعنی تحکمانہ سوچ نہیں ہونی چاہئے کہ کوئی یہ سوچے کہ ہم تو حکومت کا حصہ ہیں، ہم فلاں عہدے پر فائز ہیں تو سب ہمارے سامنے مودب رہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ البتہ دوسری جانب یہ بھی ہے کہ تحقیر اور توہین نہ کی جائے کہ تمہاری لگام میرے ہاتھ میں ہے اور میں تمہیں اوقات یاد دلا دوں گا۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ سوچ بھی ہرگز درست نہیں ہے۔ احترام کا برتاؤ کیا جانا چاہئے۔ ادب و اخلاق سے پیش آنا چاہئے۔ ادب ہر موقع اور ہر جگہ پر ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ یہ بھی ہماری سفارش ہے۔ یہ تعاون کے سلسلے میں تیسری سفارش ہے۔
چوتھی سفارش مزاحمتی معیشت کے تعلق سے ہے۔ مزاحمتی معیشت کے سلسلے میں خوشی کی بات ہے کہ ملک کے اندر 'ہم زبانی' تو پائی جاتی ہے، لیکن ہماری مشکلات 'ہمدلی' کے مرحلے میں ہیں۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ ہم زبانی تو ہو لیکن ہمدلی نہ ہو۔
ای بسا هندو و ترک همزبان
ای بسا دو ترک چون بیگانگان
پس زبان همدلی خود دیگر است
همدلی از همزبانی بهتر است (16)
یہ ہم زبانی موجود ہے تو اب ہمدلی بھی ہونی چاہئے۔ یعنی تہہ دل سے مزاحمتی معیشت پر یقین کیا جانا چاہئے۔ ہمیں باور کر لینا چاہئے کہ ملکی مشکلات کا حل ملک کے اندر موجود ہے اور اس حل کا ستون داخلی پیداوار ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں پیداواری سرگرمیوں میں رکاوٹ بننے والے قوانین کو ہٹانے کے لئے جو قانون پاس کیا ہے وہ واقعی بہت اچھا قدم ہے۔ میں نے سنا، مجھے جو رپورٹ ملی اس کے مطابق یہ بڑا اچھا اور ماہرانہ مطالعے کے بعد انجام دیا جانے والا کام ہے۔ اس سلسلے کو جاری رکھنا چاہئے۔ سب کو اس پر پورا باور ہو جانا چاہئے۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر ہم ملک کے اندر پیداواری شعبے کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہو گئے، اگر ہم داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں کو حقیقی معنی میں بھرپور طریقے سے استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئے تو بیرونی مسائل کا حل آسان ہو جائے گا۔ ایٹمی مسئلے کا حل آسان ہو جائے گا۔
ایٹمی مسئلہ ایک گرہ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے طریقے موجود ہیں۔ لیکن اس راہ حل کا انحصار داخلی پیداوار کی تقویت پر ہے۔ اگر ملک کے اندر پیداواری شعبے کی تقویت انجام پا گئی تو اس مشکل کا حل آسان ہو جائے گا۔ ایٹمی مسئلے کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہمارے انتظار میں ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ایٹمی مسئلہ حل ہوتے ہی مغرب کے ساتھ، امریکا کے ساتھ، صیہونزم کے ساتھ اور دنیا کے اقتصادی شعبے کے غنڈوں کے ساتھ ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ ہمارا واحد تنازعہ نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی انسانی حقوق وغیرہ جیسے متعدد مسائل کا ایک سلسلہ ہے۔ تو ان تمام مسائل کا حل آسان ہو جائے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب کچھ خود بخود حل ہو جائے گا۔ نہیں، اس کے لئے کوشش کرنی پڑے گی۔ لیکن ان مسائل کا حل آسان ہو جائے گا۔ بشرطیکہ ہم داخلی پیداوار کا مسئلہ حل کر لے جائیں۔ چھٹے پروگرام سے متعلق قانون میں آپ مزاحمتی معیشت کے موضوع کو پوری طرح مد نظر رکھئے، سنہ 1395 (مارچ 2015 سے شروع ہونے والا ہجری شمسی سال) کے بجٹ سے متعلق قانون میں اسے مکمل طور پر مد نظر رکھئے۔
البتہ کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے (18)۔ حکومتی اداروں نے بہت سے کام بھی انجام دئے ہیں۔ بہت سے اقدامات انجام دئے گئے ہیں۔ لیکن آپ جائزہ لیجئے اور دیکھئے کہ اس نقشے میں کس جگہ پر خامی رہ گئی ہے۔ اگر کوئی دوا تجویز کی جاتی ہے جو کسی خاص بیماری کا علاج کرتی ہے اور اس دوا کے مثلا پانچ اجزاء ہیں اور ان پانچ میں سے کوئی ایک جز مفقود ہو تو پھر یہ علاج نہیں ہوگا، حالانکہ دوا کے چار اجزاء موجود ہیں۔ مگر تمام اجزاء کا فراہم ہونا ضروری ہے، تب انسان شفا اور نتیجے کی توقع کر سکتا ہے۔ آپ دیکھئے اور غور کیجئے کہ اس خاکے کا کون سا حصہ یا فرنگیوں کے انداز میں کہا جائے کہ اس پزل کا کون سا خانہ خالی ہے؟ اسے پر کیجئے، اس کی نشاندہی کیجئے۔ چھٹے منصوبے سے متعلق قانون میں اور سنہ 1395 ہجری شمسی کے بجٹ سے متعلق قانون میں اس پر آپ توجہ کیجئے۔
البتہ حقیر کو یہ علم ہے اور حکومت میں ہمارے برادران عزیز بھی بار بار کہتے ہیں کہ آپ بار بار ہدایات دیتے ہیں، مگر ہمیں وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ جی ہاں، یہ حقیر بھی جانتا ہے کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے، وسائل کی کمی پر پابندیوں کا بھی اثر پڑا ہے، اس میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ لیکن جب انسان کے پاس وسائل کم ہوں تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ کیا دونوں ہاتھ سے سر پیٹنا چاہئے؟ نالہ و فریاد کرنا چاہئے؟ نہیں، راہ حل تلاش کیجئے! اس کا حل موجود ہے۔ ایک راہ حل کفایت شعاری ہے۔ کفایت شعاری سے کام کیجئے! داخلی وسائل کی تقسیم اور تخصیص میں ترجیحات کو ملحوظ رکھئے۔ یہ راہ حل ہے۔ ایسی صورت حال نہیں ہے کہ راستے بند ہو گئے ہیں۔ ہمیں وسائل کی کمی کی مشکل بیشک در پیش ہے لیکن کوئی ایسی گرہ نہیں ہے جو کھل نہ سکتی ہو۔ ایک مشکل در پیش ہے، اس کا ازالہ کیا جانا چاہئے۔ اس کا راستہ موجود ہے۔ اس وقت ہم بجٹ ایسی جگہوں پر بھی خرچ کر رہے ہیں جہاں خرچ نہیں ہونا چاہئے۔ بعض اداروں کو ہم جانتے ہیں۔ میں بعض اداروں کو بالکل قریب سے جانتا ہوں، جنہوں نے بجٹ میں ایک روپئے کے بھی اضافے کے بغیر اپنی خدمات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ صحیح انتظامی اقدامات کے ذریعے، صحیح نقطہ نگاہ کی مدد سے، اضافی اخراجات پر روک لگا کر۔ اس چیز میں حکومت بھی، پارلیمنٹ بھی اور مسلح فورسز بھی سب شامل ہیں۔ مسلح فورسز کے علاوہ بھی کچھ ادارے ایسے ہیں۔ مسلح فورسز کے بعض شعبوں میں میں نے دیکھا کہ ان کی توانائیوں اور ان کی کارکردگی میں کئی گنا کا اضافہ ہو گیا ہے جبکہ بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نہج پر کام کیا جا سکتا ہے۔ لہذا وسائل کی کمی کا بہانہ بناکر ہمیں یہ ہرگز نہیں کہنا چاہئے کہ کام ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر مالیاتی نظم و ضبط موجود ہے تو سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ یہ مشکلات دور ہو سکتی ہیں۔ البتہ میں ایک بار پھر کہتا چلوں کی مالیاتی ڈسپلن صرف حکومت سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی یہ ضروری ہے، تمام اداروں کو چاہئے کہ مالیاتی نظم و ضبط سے کام کریں۔
ایک اور بات پارلیمنٹ کے اصولی موقف کے بارے میں عرض کرنی ہے۔ بحمد اللہ پارلیمنٹ کا اصولی موقف بہت اچھا ہے۔ پارلیمنٹ کے محترم اسپیکر نے اشارہ بھی کیا اور حقیقت بھی یہی ہے، میں بھی سنتا ہوں، دیکھتا ہوں، مشاہدہ کرتا ہوں کہ جب اصولی اور اساسی مسائل کی بات ہوتی ہے، جب اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے بنیادی اصولوں میں شمار ہونے والے مسائل کی بات ہوتی ہے تو پارلیمنٹ جو موقف اختیار کرتی ہے وہ اطمینان بخش، مثبت اور بعض اوقات انتہائی اعلی درجے کا ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ ہر پارلیمنٹ میں یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کا ڈھانچہ اصولی موقف کی بلند عمارت کی مانند ہونا چاہئے۔ اس کا معیار امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمودات، آپ کا وصیت نامہ اور بیس سے زائد جلدوں پر مشتمل آپ کے خطبات و بیانات ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے خطبات کے مجموعے میں دیکھے کہ انقلاب کے لئے اور اسلامی جمہوری نظام کے لئے آپ نے کس سمت و جہت کا تعین کیا ہے۔ اس موقف پر ہمیں ثابت قدم رہنا چاہئے۔ پارلیمنٹ کا ڈھانچہ ایسا ہونا چاہئے۔ اگر یہ کام کر لیا گیا تو سامراج کے ہولناک دلدل میں ہم غرق ہونے سے بچے رہیں گے۔ خطرناک موڑ پر ہم گہرائیوں میں گرنے سے بچے رہیں گے۔ اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو خطرات بہت زیادہ ہوں گے۔
آخری بات یہ عرض کر دوں کہ ایٹمی مسائل میں موقف وہی ہے جو ہم نے اعلانیہ طور پر بیان کر دیا ہے، جس کا اعلان کر دیا ہے۔ البتہ بعض باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ انسان جنھیں عمومی طور پر نہیں کہتا بلکہ نجی طور پر گوش گزار کرتا ہے۔ کچھ ایسی بھی باتیں ہیں، ساری باتیں اعلانیہ طور پر بیان نہیں کی جا سکتیں؛۔«لَیسَ کلُّ ما یعلَم یقال» تاہم اعلانیہ طور پر جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ وہی باتیں ہیں جو حکام کے بھی گوش گزار کی گئی ہیں۔ زبانی طور پر بھی کہی گئی ہیں اور تحریری طور پر بھی بتائی گئی ہیں۔ یہ اسلامی نظام کا اصولی موقف ہے۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ ہمارے برادران عزیز مصروف کار ہیں، محنت کر رہے ہیں۔ واقعی عرق ریزی کر رہے ہیں۔ اس میدان میں تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ اللہ پر توکل کرتے ہوئے اور اسی سے آس لگاتے ہوئے انھیں اس موقف پر ثابت قدمی سے کھڑے رہنا چاہئے تاکہ وہ ہدف حاصل ہو جس سے ملک کے مفادات اور اسلامی نظام کے مفادات کی تکمیل ہو۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ اس بہترین موقع کو رضائے پروردگار کے حصول کے لئے استعمال کر سکیں۔
۱) یہ ملاقات نویں پارلیمنٹ کے چار سالہ دور کے چوتھے سال کی شروعات کے موقع پر ہوئی۔ قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل پارلیمنٹ اسپیکر ڈاکٹر علی لاری جانی نے پارلیمٹ کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ پیش کی۔
۲) سورہ فصّلت کی آیات نمبر۳۰ الی ۳۶ کی تلاوت ایران کے معروف قاری قاسم رضیعی نے کی۔
۳) سوره فصّلت، آیت نمبر ۳۱ کا ایک حصہ
۴) مفاتیح الجنان، مناجات شعبانیه کے فقرے
۵) سوره فاطر، آیت نمبر۱۰ کا ایک حصہ
۶) عماد خراسانی
۷) مصباح المتهجّد، جلد ۱، صفحہ ۲۷۰
۸) صحیفه سجّادیه، دعا نمبر ۴۰
۹) سورهی انعام، بخشی از آیهی ۹۳
۱۰) سوره فصّلت، آیه نمبر ۳۲
۱۱) سوره سبأ، آیت نمبر ۳ کا ایک حصہ
۱۲) منجملہ سوره بقره، آیت نمبر ۲۱۸ کا ایک حصہ
۱۳) شیخ سعدی کے اشعار
۱۴) مارچ 2016 الی مارچ 2021 کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کا چھٹا اقتصادی، سماجی و ثقافتی ترقیاتی پروگرام
۱۵) حاضرین کی ہنسی
۱۶) مولانا روم کی مثنوی معنوی کے دفتر اوّل کے اشعار تھوڑے فرق کر ساتھ
۱۷) مقابلہ جاتی پیداواری سرگرمیوں کی رکاوٹ دور کرنے اور ملک کے مالیاتی نظام کو بہتر بنانے کا بل 21 اپریل 2015 کو پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی میں پاس ہوا۔
۱۸) مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن 23 جنوری 2014 کو جاری کیا گیا۔