قاریان قرآن کی تلاوت کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے خطاب کیا اور تلاوت و قرائت سے متعلق اہم ہدایات دیں۔ 28 خرداد 1394 ہجری شمسی مطابق 18 جون 2015 کے اپنے اس خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیا کہ قاریان قرآن جن آیات کی تلاوت کر رہے ہیں، ان کے معنی و مفہوم پر پہلے سے غور و تدبر کر لیں تاکہ سامعین پر اس کا گہرا اثر ہو۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ قاری جن آیتوں کی تلاوت کر رہا ہے ان کے مفاہیم پر اس کا مکمل ایقان ہونا چاہئے ورنہ دوسری صورت میں سامعین پر اس کا کم اثر پڑے گا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله‌ الرّحمن ‌الرّحیم ‌(۱)

برادران عزیز کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ واقعی اس محفل سے میں بہت محظوظ ہوا۔ الحمد للہ نشست واقعی بہت اچھی، مختلف انداز کی، بڑی شائستہ، پرکشش اور پرمغز تھی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر سال ما شاء اللہ تلاوت قرآن میں پیشرفت کے آثار نظر آتے ہیں، ہمارے نوجوانوں میں اور ہمارے عوام میں یہ اثرات واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں، ان سے مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں۔ آج بھی بحمد اللہ جو بہترین تلاوت ہوئی اس کی وجہ سے نشست پرمغز، بامعنی اور ملکوتی نشست ہو گئی۔ خاص طور پر ہمارے ناظم جلسہ خوش الحان قاری نے جو رہنمائی فرمائی کہ اس تلاوت کا ثواب اور آج کی اس محفل کا ثواب ان شہیدوں کی ارواح کو ایصال کیا جائے جن کی تہران میں تشییع جنازہ ہوئی ہے۔ اچھی آواز، اچھے انداز اور تلاوت کے اصول و ضوابط کے ساتھ قرآن پڑھنا، دلوں میں قرآنی مفاہیم کو اتارنے کا مقدمہ ہے۔ اگر ہم اس پہلو کو ہٹا دیں اور تلاوت کلام پاک کو اچھی آواز اور خوش الحانی تک محدود سمجھ لیں تو یقینی طور پر اس کا وہ مرتبہ باقی نہیں رہے گا۔ یہ جو بڑی تاکید ہے کہ قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ، آداب و ضوابط کے ساتھ اور شائستہ انداز میں پڑھا جائے، تو اس کا مقصد یہ ہے کہ قرآنی مفاہیم دلوں پر اپنے اثرات مرتب کریں، دلوں میں قرآن سے انس پیدا ہو اور ہم قرآن کی رنگت میں، قرآنی شکل و شمائل اور قرآنی اخلاق و کردار میں نظر آنے لگیں۔ اگر مقصود یہ ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی کچھ شرطیں ہوںگی اور اس کے کچھ خاص آداب ہوں گے۔ آداب میں ایک تو یہی ہے کہ قرآن پڑھنے والا، قرآن کی تلاوت کرنے والا قرآن پر پورے یقین کے ساتھ، قرآنی مفاہیم پر مکمل عقیدے کے ساتھ اور اور جن مفاہیم کی تلاوت کر رہا ہے ان پر عقیدہ رکھتے ہوئے، تلاوت کرے۔ اگر ہمیں یہ نہیں معلوم ہے کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں، اگر ہم مفہوم کو سمجھ نہیں رہے ہیں، اگر ہمارے دل و جان کی گہرائی میں اس کے اثرات اتر نہیں رہے ہیں تو پھر ہماری اس تلاوت کا دوسروں پر اور دوسروں کے دلوں پر اثر بہت کم ہوگا۔ یہ پہلی شرط ہے۔
قاریان محترم سے، اساتذہ کرام سے اور قرآن کی تلاوت کرنے والوں سے میری گزارش یہ ہے کہ اس نکتے پر توجہ دیں؛ جن آیتوں کی تلاوت کرنا چاہتے ہیں انھیں اپنے ذہن میں دہرائیں، ان کے بارے میں غور کریں، ان آیتوں کے مفاہیم کو اپنے ذہن و عقیدے میں پوری طرح اتاریں اور پھر اس جذبے، اس تیاری اور اس تمہید کے ساتھ تلاوت کریں تو یہ تلاوت سامعین کے دلوں کی گہرائی میں اترے گی۔ البتہ اب تک کی آپ کی پیشرفت بہت اچھی رہی ہے۔ میں برسوں سے ملک میں قرآن کے تعلق سے انجام پانے والے ارتقائی عمل کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ آج ہمارے نوجوانوں کے یہاں خاصی پیشرفت نظر آتی ہے۔ ہمارے قاری، ہمارے اساتذہ واقعی آج بہت اچھے ہیں، لیکن زیادہ تاثیر پیدا کرنے کی ابھی گنجائش باقی ہے۔
میں دو تین باتیں نوٹ کرکے لایا ہیں۔ ایک تو یہی ہے کہ آپ اپنی تلاوت کے ذریعے قرآنی مفاہیم سامعین کے دل و دماغ میں ڈال دینا چاہتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ آپ کے سامعین کی اکثریت ایسی ہے جو عربی زیان سے، قرآن کی زبان سے آشنا نہیں ہے، مگر قرآن کا معجزہ یہ ہے کہ اگر آپ ان حالات میں بھی کہ جب آپ کے سامعین اس زبان سے ناواقف ہیں، آیات قرآنی کو دل و جان کی گہرائی سے اور جملہ شرائط و آداب کے ساتھ پڑھیں تو اجمالی طور پر ہی سہی آیات کا مفہوم ذہنوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لئے کچھ شرطوں کی پابندی ضروری ہے۔ میں 'تلاوت ریڈیو' سے نشر ہونے والی تلاوت سنتا ہوں۔ یہ بڑا اچھا ذریعہ ہے تلاوت سننے کا۔ میں ملک کے قاریوں اور اچھے اساتذہ کی تلاوت سنتا ہوں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ خوش الحانی کے اعتبار سے ہمارے قاری بہت اچھے ہیں، بہت نمایاں مقام کے حامل ہیں۔ اس کی تصدیق و تائید غیر ملکی اساتذہ بھی کرتے ہیں۔ ہم نے سنا ہے کہ وہ ایرانیوں کی آواز کی تعریف کرتے ہیں۔ آپ میں سے بعض کی آواز واقعی ماہیت کے اعتبار سے اور جوہر کے اعتبار سے بہت اچھی آواز ہے، اس میں خوش الحانی کے تمام اوصاف موجود ہیں، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو تلاوت کے تمام آداب و شرایط سے آراستہ کر دیا جائے۔
تلاوت کی شرایط میں ایک یہ ہے کہ جب آپ قرآن کی کسی آیت کی تلاوت کر رہے ہیں تو ان باتوں اور نکات پر تاکید رکھئے جن پر آپ قرآن کی اس آیت کے بارے میں اپنی گفتگو کے دوران عام طور پر تاکید کرتے ہیں۔ اگر ہم اس کی مثال دینا چاہیں تو فارسی زبان کے 'مداح حضرات' (مذہبی پروگراموں میں مرثئے اور قصیدے کے اشعار پڑھنے پڑھنے والے خوش الحان افراد) کی مثال دے سکتے ہیں۔ وہ اپنے جملے، یا فقرے کے اس لفظ کو جو ان کا مقصود ہوتا ہے، اس انداز سے ادا کرتے ہیں کہ وہ سامعین کے ذہن میں بیٹھ جاتا ہے۔ معمول کی گفتگو میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جب آپ عام گفتگو بھی کرتے ہیں تو ان کلمات کو جن کا مفہوم آپ کی نگاہ میں خاص اہمیت کا حامل ہے، خاص تاکید کے ساتھ آپ ادا کرتے ہیں۔ قرآت کی تلاوت بھی اسی انداز سے ہونی چاہئے؛ ان خاص کلمات پر زور دیجئے، ان خاص جملوں اور فقروں کو اس طرح ادا کیجئے کہ ان کا مفہوم و مضمون مخاطب افراد کے ذہن میں اتر جائے۔ اچھے انداز میں اور مناسب آہنگ کے ساتھ۔ کبھی کبھی بات سامعین کے ذہن میں اتارنے کے لئے جملے کو دہرانے کی ضرورت ہوتی ہے، آپ بھی ان آیتوں کو مکرر پڑھئے۔ میں نے چند سال قبل اسی نشست میں تلاوت کے دوران آیتوں کو بہت زیادہ دہرانے والوں پر تنقید کی تھی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کبھی کبھی دہرانا ضروری ہوتا ہے۔ ایک دفعہ پڑھ دینے سے مفہوم منتقل نہیں ہوتا بلکہ اس کو مکرر پڑھنا ہوتا ہے، دو بار، تین بار اسے پڑھنے اور دہرانے کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے میں اس آیت کو دو بار اور تین بار دہرانا چاہئے۔ مگر اس میں زیادہ روی نہیں کی جانی چاہئے۔ میں نے بعض مصری قاریوں کو دیکھا ہے کہ اس سلسلے میں زیادہ روی کرتے ہیں جس کا منفی اثر ہوتا ہے۔ تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں زیادہ روی کی جائے، میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو آٹھ دس بار دہرایا جائے۔ ممکن ہے کہ عربی زبان میں اشعار وغیرہ پیش کرنے کے سلسلے میں یہ روش رائج ہو لیکن قرآن خوانی کی جہاں تک بات ہے تو اس میں یہ روش پسندیدہ نہیں ہے۔ اس حد تک دہرانا ضروری ہے کہ مفہوم سامع کے ذہن میں بیٹھ جائے۔ بعض اوقات انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ قاری نے گویا ایک کتاب اٹھا لی ہے اور بس یونہی پڑھے چلا جا رہا ہے، عبارت کو بس زبان سے ادا کرتا جا رہا ہے۔ یہ مناسب اور پسندیدہ روش نہیں ہے۔ آپ کو چاہئے کہ مفہوم منتقل کریں اور مخاطب افراد کے ذہن میں بٹھائیں۔ یہ مقصود کبھی آیت کو بار بار دہرانے سے حاصل ہوتا ہے، کبھی کچھ کلمات پر زیادہ زور دیکر حاصل ہوتا ہے تو اسی نہج پر تلاوت کرنی چاہئے۔
ایک نکتہ اور بھی ہے جس پر توجہ دی جانی چاہئے۔ لحن کے جو اوزان ہیں ان کو ملحوظ رکھا جائے۔ البتہ عربی لحن کے اوزان اور قرآنی لحن کے اوزان ہمارے عوام کے لئے اور ہمارے قاریوں کے لئے نا آشنا ہیں، یہ جانے پہچانے اوزان نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ جب وہ فارسی اشعار پڑھتے ہیں تو مناسب آہنگ میں ادا کرتے ہیں، لیکن جب وہی شخص عربی جملہ یا عربی زبان کا شعر پڑھتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ آہنگ اور انداز پیدا نہ کر پائے کیونکہ اس کا آہنگ اور وزن ہمارے لئے ناشناختہ ہے۔ فارسی لحن اور آہنگ جیسا نہیں ہے۔ البتہ قرآنی لحن چونکہ اہل قرآن کے درمیان اور تلاوت سے دلچسپی رکھنے والوں کے درمیان بار بار دہرائے جانے کی وجہ سے بتدریج مانوس ہو گیا ہے اور عوام الناس اس سے آشنا ہیں تو ضروری ہے کہ اس لحن اور وزن کے مطابق تلاوت کی جائے۔ میں بعض اوقات سنتا ہوں کہ کوئی قاری بڑی اچھی آواز میں، بڑی پرکشش آواز میں، ایسی آواز میں جو پرکشش بھی ہے اور محکم بھی ہے، کسی آیت کی تلاوت کرتا ہے لیکن اتار چڑھاؤ کا خیال نہیں کرتا، کلام کے مزاج کا خیال نہیں کرتا، یعنی وہ آہنگ نہیں ہوتا جو ہونا چاہئے اور جس میں آپ تلاوت کرتے ہیں۔ آپ قرآن کو ایک خاص لحن میں پڑھتے ہیں۔ میں نے 'توحیدی ادیان میں جہاں تک دیکھا ہے بلکہ غیر توحیدی ادیان میں بھی مقدس متون کو خاص آہنگ کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ ہم نے قریب سے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ تو تلاوت کلام پاک بھی ایک خاص آہنگ میں ہونی چاہئے۔ اس لحن اور آہنگ کو صحیح طریقے سے ادا کیا جانا چاہئے۔ لحن اپنے خاص اوزان کے مطابق ادا کیا جانا چاہئے۔ ورنہ اگر اس کا خیال نہ رکھا گیا تو اس سے وہ اثر نہیں ہوگا جو مطلوب ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو الٹا اثر ہونے لگتا ہے۔
ایک بات میں اور عرض کرتا چلوں۔ یہاں تشریف فرما تقریبا سبھی لوگ قاری ہیں۔ ایک چیز جو عرب قاریوں میں، مصری اور دیگر ملکوں کے قاریوں میں رائج ہو گئی اور ان سے ہمارے ملک میں بھی آ گئي ہے لمبی سانس پر خاص توجہ دینا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی کیا وجہ ہے۔ کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم قرآن کے کلمات کو اور بسا اوقات آیات کو ایک دوسرے سے ملاکر پڑھیں صرف اس لئے کہ ہم لمبی سانس میں ان آیتوں کو پڑھنا چاہتے ہیں۔ میری نظر میں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر اس کی ضرورت ہوتی ہے اور آیت کا مفہوم بخوبی ادا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے ایک ہی سانس میں پڑھا جائے، ایسی جگہ پر تو ٹھیک ہے۔ ورنہ میری نظر میں لمبی سانس سے قرآن کی تلاوت کی کشش اور تاثیر میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ بعض مصری قاریوں کا یہ فن ہے کہ لمبی سانس میں تلاوت کرتے ہیں اور سامعین بھی عامیانہ انداز میں لمبی سانس کی زیادہ تعریف کرتے ہیں، زیادہ داد دیتے ہیں۔ میری نظر میں قاری کا یہ عمل بھی غلط ہے اور سامعین کا رد عمل بھی غلط ہے۔ مصر کے بڑے قاریوں میں ایسے قاری بھی موجود ہیں جن کی سانس چھوٹی ہے۔ مگر ان کی تلاوت بہت اچھی ہے اور اس کا اثر بھی زیادہ ہے۔ منجملہ عبد الفتاح شعشاعی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ان کی سانس چھوٹی ہے لیکن اس کے باوجود بہترین اور بہت موثر انداز میں تلاوت کرتے ہیں۔ اللہ ان کو اور دیگر قاریان قرآن کو اپنی رحمت و مغفرت کے سائے میں رکھے۔ میں حضرات سے یہ گزارش کروں گا کہ سانس کے مسئلے میں خود کو پریشان نہ کریں۔ بہت زیادہ کھینچنا اور آیتوں اور ان کے کلمات کو یوں ہی بار بار دہرانا بھی ضروری نہیں ہے۔ اب وقت نہیں رہا، غالبا اذان ہونے ہی والی ہے۔ بس یہ عرض کر دوں کہ جب داد دیتے ہیں اور عربوں کی تقلید میں 'اللہ اللہ' کہتے ہیں تو اس میں بھی خیال رکھئے کہ حد سے زیادہ نہ ہو۔ بعض لوگ ہیں جو قرائت شروع ہوتے ہی ترنم میں اللہ اللہ پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ گویا قاری کا اس طرح جواب دینا لازمی ہو! اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کبھی ایسا ہو کہ آپ بہت متاثر ہو گئے، قاری نے انتہائی جاذب تلاوت کر دی اور آپ بے اختیار اس کی تعریف کرنے لگیں تو ظاہر ہے عربوں میں یہ معمول ہے کہ تلاوت کلام پاک پر جب داد دیتے ہیں تو 'اللہ اللہ' کہتے ہیں۔ البتہ یہ صرف قرآن سے مختص نہیں ہے۔ کوئی ترانہ وغیرہ پڑھا جاتا ہے تو اس پر بھی 'اللہ اللہ' کہتے ہیں۔ اس میں کوئی مضا‏ئقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ کہ جیسے ہی قاری نے تلاوت شروع کی، ہم فورا 'اللہ اللہ' کہنا شروع کر دیں! اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میری گزارش ہے کہ خود آپ حضرات بھی اور جن نشستوں میں آپ استاد کی حیثیت سے شرکت کر رہے ہیں وہاں موجود افراد بھی 'اللہ اللہ' کہنے میں زیادہ روی نہ ہونے دیں۔ جب کبھی قاری نے واقعی بہت اچھی تلاوت کر دی، بڑے پرکشش انداز میں تلاوت کر دی تو وہاں داد دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے کہ قاری نے «اعوذ بالله من الشّیطان الرّجیم» کہا نہیں کہ سامعین نے 'اللہ اکبر' کہنا شروع کر دیا۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ آپ سب کو قرآن کے ساتھ محشور فرمائے اور قرآن کی برکت سے آپ کی دنیا و آخرت کو آباد کرے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) یہ محفل پہلی رمضان المبارک کو منعقد ہوئی۔ محفل سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل قاریوں نے تلاوت کلام پاک کی اور منقبت بھی پیش کی گئی۔