13 تیر 1394 ہجری شمسی مطابق 4 جولائی 2015 برابر 17 رمضان المبارک 1436 ہجری قمری کو ہفتے کی شام ہونے والی اس ملاقات میں جو دو گھنٹے تک چلی، قائد انقلاب اسلامی نے اساتذہ کے نظریات اور تجاویز سننے کے بعد طلب علم کے قلب و روح پر استاد کے گہرے فطری اثر کو انفرادی موقع سے تعبیر کیا۔ آپ نے فرمایا: اس عظیم امکان کو دیندار، غیرت قومی سے آراستہ، جوش و خروش رکھنے والے، انقلابی، سخت کوش، با اخلاق، شجاع، جذبہ خود اعتمادی سے سرشار اور مستقبل کے تئیں امید و نشاط رکھنے والے نوجوانوں کی تربیت کے لئے استعمال کیجئے اور وطن عزیز کی پیشرفت کے لئے قوی و توانا بازو تیار کیجئے اور ان کی تربیت کے فرائض انجام دیجئے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اساتذہ اور اور علمی انتظامی اداروں کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے فرمایا: پابندیاں عائد کرنے کے پیچھے دشمن کا اصلی ہدف ایٹمی مسئلہ، دہشت گردی اور انسانی حقوق جیسے مسائل نہیں ہیں، کیونکہ مغربی ممالک خود دہشت گردی اور انسانی حقوق کی مخالفت کے اصلی مراکز ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل یونیورسٹیوں کے ساتھ اساتذہ نے الگ الگ موضوعات پر اپنی رائے رکھی اور تجاویز پیش کیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله‌ الرّحمن‌ الرّحیم ‌(۱)

برادران و خواہران گرامی! آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ میں نے پہلے بھی (2) کہا کہ محترم و معزز اساتذہ کے ساتھ ملاقات کی یہ نشست پہلے نمبر پر اساتذہ کے بلند مقام و مرتبے پر تاکید کی غرض سے ہوتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں یہ ماحول رائج ہو جائے اور اساتذہ کا خاص احترام کیا جائے۔ یہ اسلامی تربیت کے میدان میں بہت اہم درس ہے۔ اس موضوع پر ہمارے علماء نے کتابیں لکھی ہیں، احادیث نقل کی ہیں، قرآن کی آیہ کریمہ سے حوالے پیش کئے ہیں۔ تو پہلا مقصد یہی ہے۔ یہ ایک علامتی عمل ہے اور اس سے استاد کو خاص انداز سے عزت دینا مقصود ہے۔ دوسرا اور تیسرا ہدف جو اپنی جگہ پر کافی اہم ہے، یہ ہے کہ میں تدریس کے پیشے سے وابستہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کی باتیں بالمشافہہ سنوں اور اگر میری نظر میں کوئی نکتہ ہو تو وہ بیان کروں۔
آج کا یہ جلسہ بہت اچھا رہا۔ افسوس کہ وقت کم پڑ گیا اور ہم بقیہ اساتذہ کے بیان سے جو تقریر کرنے والے تھے محروم رہ گئے، مگر دوستوں نے جو باتیں بیان کیں بہت اچھی تھیں، ان میں بعض کے سلسلے میں میری طرف سے تاکید اور گزارش کئے جانے کی ضرورت ہے جو میں ضرور کروں گا۔
دو تین نکات ہیں جو میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ استاد کا مطلب صرف مدرس نہیں بلکہ تربیت کرنے والا بھی ہے۔ یہ چیز بالکل فطری اور واضح ہے کہ ہم جس سے کچھ سیکھ رہے ہیں اور جو ہمارے لئے دانش کا کوئی باب وا کر رہا ہے، فطری طور پر ہمارے دل و جان میں اس کے لئے ایک جگہ بن جاتی ہے۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم کی برکت سے متعلم کے اندر اثر قبول کرنے کی ایک کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ لہذا یہ ایک منفرد قسم کی بڑی اہم خصوصیت ہے۔ ایسے نوجوانوں کی تعداد جو اپنے والد، دادا، والدہ اور خاندان کی نصیحت سننے اور اسے دل میں جگہ دینے کو تیار نہیں ہیں، انھیں پر استاد کے ایک لفظ اور ایک اشارے کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے، کم نہیں ہے۔ یہ ہے استاد کی منزل۔ فطری طور پر تعلیم کے ساتھ تربیت کے امکانات فراہم رہتے ہیں۔ ان امکانات کا بھرپور طریقے سے استعمال کیا جانا چاہئے۔ اگر ہمارا استاد دیندار انسان ہے، قومی حمیت رکھتا ہے، انقلابی جذبات کا مالک ہے، سخت کوشی کا عادی ہے تو فطری طور پر یہ خصوصیات متعلم کے اندر بھی منتقل ضرور ہوں گی۔ اگر اس کے برعکس ہو تو اثر بھی برعکس ہوگا۔ اگر استاد منصف مزاج اور بااخلاق انسان ہے تو منصف مزاج اور بااخلاق طالب علم کی تربیت کے امکانات بڑھ جائيں گے، اسی طرح بر عکس بھی ہوتا ہے۔
آج ملک کو ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو وطن عزیز کی ترقی کے لئے طاقتور بازوؤں کا کام کریں، جو جذبہ ایمانی سے آراستہ ہوں، جو دینی بصیرت، بلند ہمت، جرئت عمل، جذبہ خود اعتمادی، اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ، مستقبل کے تعلق سے امید و نشاط سے سرشار، مستقبل کے افق کو روشن و تابناک محسوس کرنے والے اور بے نیازی کا جذبہ رکھنے والے ہوں۔ البتہ بے نیازی سے مراد یہ نہیں ہے کہ غیروں سے کچھ بھی سیکھنے سے گریزاں ہوں، ہم یہ مشورہ ہرگز نہیں دیں گے اور نہ کبھی دیا ہے۔ ہم زیادہ علم رکھنے والے بیگانوں کی شاگردی قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔ بے نیازی سے مراد یہ ہے کہ غیروں کی جانب سے مسلط کئے جانے والے عادات و اطوار سے بے نیاز ہوں اور علم کی منتقلی کے عمل کا غلط فائدہ اٹھانے کا موقع نہ دیں۔ آج کل سائنس کی دنیا میں جو استکبار کی قوت و طاقت کی دنیا ہے، یہ چیز بہت رائج ہو گئی ہے۔ ہمارے نوجوان میں یہ جذبہ بے نیازی ضروری ہے۔ ملک کی پوزیشن کا اسے صحیح ادراک ہونا چاہئے کہ ہم کہاں ہیں، ہماری منزل کیا ہے اور اس منزل تک ہم کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ آج اساتذہ کی جو تقریریں ہوئیں ان میں ان پہلوؤں سے متعلق نمایاں نکات موجود تھے۔ قومی خود مختاری کو مخدوش بنانے کی کوششوں اور دست درازی کے سامنے ڈٹ جانے کا جذبہ ہم اپنے نوجوانوں کے اندر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک کے زیر تعلیم نوجوانوں کے اندر اساتذہ اس جذبے کا القاء کر سکتے ہیں، یہ جذبہ بیدار اور متحرک کر سکتے ہیں، البتہ اپنے کردار اور اپنی منش کے ذریعے، زبانی درس اخلاق کے ذریعے نہیں۔ میں یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ اساتذہ، طلبا کے لئے اخلاق کی کلاسیں منعقد کریں۔ یہ ایک الگ ہی کام ہے۔ ہمارے اساتذہ اپنے برتاؤ سے، اپنے طرز عمل سے، اپنی گفتگو سے، اپنی منش سے، مختلف میدانوں کے بارے میں اپنے اظہار خیال سے، طالب علم کے اندر، آج کے نوجوان کے دل میں یہ اثرات مرتب کر سکتے ہیں، پیدا کر سکتے ہیں۔ ہم جو یہ کہتے ہیں کہ اساتذہ نرم جنگ کے میدان کے سپہ سالار ہیں تو اس سے مراد یہی چیز ہے۔ اگر نوجوان، نرم جنگ کے میدان کا افسر ہے تو استاد اس کا کمانڈر ہے اور اس انداز سے کمانڈر کے فرائض انجام دے سکتا ہے۔
فوجی جنگوں میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جب کمانڈر بیچ میدان میں موجود ہوتا ہے، حساس مقامات پر خود حاضر ہوتا ہے اور خود جنگ کر رہا ہوتا ہے تو فوجیوں پر اس کا غیر معمولی اثر ہوتا ہے۔ یہ صرف ہماری بات نہیں ہے۔ دوسرے لوگ بھی اسے مانتے ہیں۔ نپولین اپنے سپاہیوں کے ساتھ خود انھیں کی وردی پہن کر ان کے ساتھ زمین پر سوتا تھا۔ اپنے زمانے میں نپولین کی فوجی پیش قدمی جو بڑی حیرت انگیز تھی، اس کا راز یہی تھا۔ فوجیوں کو وہ صرف زبانی ہدایات اور احکامات جاری نہیں کرتا تھا، بلکہ اپنے عمل کے ذریعے احکامات جاری کرتا تھا۔ ہمارے نوجوانوں نے بھی آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران اسی انداز سے عمل کیا۔ ہمارے جنرل بسا اوقات محاذ جنگ پر دوسرے سپاہیوں سے آگے لڑتے دکھائی دیتے تھے۔ اگلی صفوں میں نظر آتے تھے۔ کبھی کبھی انٹیلیجنس معلومات جمع کرنے کی مہم پر بھی جاتے تھے۔ خود بٹالئن کا کمانڈر جاتا تھا انٹیلیجنس معلومات جمع کرنے! یہ طریقہ دنیا کی افواج میں بالکل ناقابل عمل ہے، مگر ہمارے یہاں یہی ہوا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ مقدس دفاع کے زمانے میں حیرت انگیز پیش قدمی اور کامیابیاں دیکھنے کو ملیں۔ نرم جنگ کے میدان میں بھی یہی صورت حال ہے۔ اس عمیق، حیاتی اور مقدس پیکار یعنی اسی جنگ کے میدان میں جسے ہم سافٹ وار کہتے ہیں استاد کو چاہئے کہ خود موجود رہے، یہ بھی ایک مقدس دفاع ہے۔
آج ہمارے ملک میں یونیورسٹیوں کے اکیڈمک بورڈز کے ارکان کی تعداد تقریبا ستر ہزار ہے جو مایہ افتخار ہے۔ مجھے یاد ہے؛ انقلاب کی کامیابی کے بعد کے ابتدائی برسوں میں 1980 کے عشرے کے شروعاتی پانچ سال کے دوران بلکہ آخر کے پانچ برسوں میں بھی اکیڈمک بورڈز کے ارکان کی تعداد تقریبا پانچ یا چھے ہزار بتائی جاتی تھی۔ یہ تعداد آج تقریبا ستر ہزار ہو گئی ہے۔ یہ ملک کے لئے فخر کی بات ہے۔ یہ ہمارے انقلاب کا اہم افتخار ہے، یہ ہماری یونیورسٹیوں کا اہم افتخار ہے۔
خوش قسمتی سے اس عظیم اور وسیع افرادی قوت کا بڑا حصہ مومن، متدین، مذہبی، انقلابی اور دین و انقلاب کے بنیادی اصولوں پر ایمان و ایقان رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ یہ بھی بہت اہم بات ہے۔ یہ بھی بڑی اہم حقیقت ہے۔ اکیڈمک بورڈز میں انقلابی اور مومن افراد کی قدر کی جانی چاہئے! میں اپنے عزیز حکام سے، وزارت تعلیم کے عہدیداران سے اور وزارت صحت کے حکام سے سفارش کروں گا کہ آپ قدر کیجئے! وزرائے محترم اور وزارت خانوں کے انتظامی محکمے ان مومن اساتذہ، دینی اقدار کے پابند، حرف حق پر ثابت قدم رہنے والے اور ڈھکے چھپے اور موذیانہ انداز میں ہونے والے تشہیراتی حملوں سے ہرگز ہراساں نہ ہونے والے اساتذہ کی قدر کیجئے۔ حکام کو چاہئے کہ یونیورسٹیوں میں مومن افراد اور مومن اساتذہ کی قدر کریں!
یہ رہی پہلی بات استاد کی اہمیت کے تعلق سے۔ اگر میرے امکان میں ہوتا کہ ملک کے ان تمام ستر ہزار اساتذہ سے ملاقات کروں تو ضرور یہ کام کرتا۔ اگر ان میں فردا فردا ہر ایک کی بات سننا مقدور ہوتا تو میں یقینا سنتا، لیکن ظاہر ہے یہ ہمارے بس میں نہیں ہے، یہ شیریں اور قیمتی پھل بڑے اونچے درخت پر ہے(3)۔
دوسرا نکتہ علم و دانش کے تعلق سے ہے۔ خوش قسمتی سے آج ملک کے اندر علمی تحریک ایک دھارے اور تیز بہاؤ کی شکل اختیار کر گئی ہے، ایک نمایاں لہر بن چکی ہے اور اس میں اب کوئی شک و شبہ نہیں رہ گیا ہے۔ ان گزشتہ دس پندرہ برسوں میں ہمارے اساتذہ نے، ہمارے سائنسدانوں اور دانشوروں نے اور ہمارے نوجوانوں نے اس میدان میں بڑا کام کیا ہے اور علم و سائنس کی رینکنگ میں ملک کی بہتر ہوتی پوزیشن کی شکل میں ہمیں اس کے اثرات و ثمرات نظر آ رہے ہیں۔ ہم دنیا میں علمی و سائنسی اعتبار سے سولہویں مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ ہماری پوزیشن اس سے بہت نیچے تھی۔ ملک کو سولہویں مقام پر پہنچا دینا بہت بڑی بات ہے۔
یہاں چند نکات ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ بلند علمی پوزیشن تک ہماری رسائی غیر معمولی رفتار سے علمی کاموں کی انجام دہی کا نتیجہ ہے۔ عالمی سطح کے اعداد و شمار کے مطابق علمی پیشرفت کی ہماری رفتار دنیا کی اوسط رفتار سے تیرہ گنا زیادہ رہی۔ اس حقیقت کا اعلان دنیا کے شماریاتی اداروں نے کیا ہے جس کا ہم پہلے بھی کئی بار ذکر کر چکے ہیں۔ آج یہ تیز رفتاری کم ہو گئی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ علمی پیشرفت کے اعتبار سے ہم پچھڑتے جا رہے ہیں مگر بعض دیگر کہتے ہیں کہ نہیں ہم پچھڑے نہیں ہیں۔ دونوں ہی افراد دلیل میں اعداد و شمار پیش کرتے ہیں، نکتے کی بات یہ ہے کہ ظاہری طور پر تو ہم سولہویں اور پندرہویں مقام سے نیچے نہیں آئے ہیں، یہ بات صحیح ہے لیکن ہمارے لئے ضروری تھا کہ ہم اور بھی بلندی پر پہنچتے۔ یعنی وہی تیز رفتاری قائم رہنی چاہئے تھی۔ آج یہ رفتار کم ہو گئی ہے۔ یہ رفتار اسی طرح قائم رہنی چاہئے تھی۔ وزارتوں کے عہدیداران اس نکتے پر توجہ دیں۔ آج وہ رفتار نہیں ہے۔ کچھ ایسا کیجئے کہ علمی نمو کی رفتار میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔ البتہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم جیسے جیسے آگے بڑھیں گے فطری طور پر یہ رفتار کم ہوگی۔ یعنی جب ہم بہت پیچھے ہوں تو بہت سی صلاحیتیں اور توانائیاں ایسی ہوتی ہیں جو ہنوز بروئے کار نہیں لائي گئی ہیں، مگر جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے ہیں اس طرح کی توانائياں فطری طور پر کم ہوتی جاتی ہیں۔ کیونکہ ہم انھیں مسلسل استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کا علم ہے، لیکن علمی پیشرفت کے عمل کی اس رفتار میں کوئی کمی نہیں آنا چاہئے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ملک کے علمی ماحول کو حاشیہ پردازیوں سے دور رکھئے۔ کوئی غلط نتیجہ اخذ نہ کرے! میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ یونیورسٹیوں میں سیاست کا کوئی گزر نہ ہو۔ شاید بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا کہ ماہ رمضان کے اسی جلسے میں اساتذہ کے سامنے میں نے بڑے سخت الفاظ میں بات کی تھی ان لوگوں کے بارے میں جو یونیورسٹیوں اور طلبا کے درمیان سے سیاست کی بساط کو پوری طرح لپیٹ دینا چاہتے تھے، اس پر کچھ لوگوں نے شکوا بھی کیا تھا۔ تو میں یہ نظریہ رکھتا ہوں کہ یونیورسٹیوں کا ماحول سیاسی فہم و شعور، سیاسی تجزئے و تبصرے، سیاسی دانش اور سیاسی آگاہی کا ماحول ہونا چاہئے۔ میں سیاست سے منع نہیں کرتا۔ میرا کہنا یہ ہے کہ سیاست بازی نہیں ہونی چاہئے۔ سیاسی چالوں سے اجتناب کیا جانا چاہئے، سیاسی حاشیہ پردازی نہیں ہونی چاہئے۔ اس حاشیہ پردازی سے اصلی مہم یعنی علمی سرگرمیوں اور علم و دانش کی پیشرفت کے عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔
حالیہ ایک دو سال کے اندر انتہائی غلط اقدامات میں سے ایک یہی اسکالرشپ کا معاملہ رہا ہے۔ اگر یہ قضیہ صحیح بھی ہوتا تب بھی باتیں جس انداز سے اخبارات میں آئیں وہ بالکل مناسب نہیں تھیں۔ جبکہ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ قضیئے کی وہ شکل نہیں تھی۔ تحقیقات کے بعد ہمیں بالکل صحیح رپورٹ سونپی گئی۔ بہرحال اس کا طریقہ یہ نہیں تھا کہ اسے میڈیا میں اچھالا جائے۔ کچھ لوگوں نے غیر قانونی طریقے سے کچھ مراعات حاصل کر لی تھیں۔ تو اس کے تدارک کا قانونی طریقہ یہ تھا کہ ان مراعات کو ختم کر دیا جاتا۔ اس میں اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت تھی؟ ہنگامہ آرائی در حقیقت حاشیہ پردازی ہے اور یہ علمی ماحول کے لئے زہر ہے، جہاں پرسکون اور انداز میں پوری طمانیت کے ساتھ کام انجام دئے جاتے ہیں۔ سیاست بازی پر مبنی فکر کی بنیاد پر کچھ لوگوں نے بد قسمتی سے یہ زہر ملک کی یونیورسٹیوں کے اندر پھیلا دیا، کیوں؟ اس طرح زیادتی بھی ہوئی، بہت سے افراد کے ساتھ زیادتی ہوئی، یہ اقدام خلاف قانون بھی تھا اور خلاف تدبیر و خلاف اخلاق بھی تھا۔ حالانکہ وہ اخلاقیات کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔ توبہ کی نصیحت کرنے والے کیوں خود توبہ سے گریزاں رہتے ہیں؟ یہ اخلاقی عمل تھا؟ نئی نئی حاشیہ پردازی نہیں ہونی چاہئے۔ اعلی تعلیم کی یہ فضا حاشیہ پردازی کی نذر نہیں ہونی چاہئے۔
ایک اور مسئلہ ہیومن سائنسز یا بشریات کا ہے۔ ہیومن سائنسز میں ہم پیچھے ہیں۔ ہمارے جن دوستوں نے بشریات کے بارے میں گفتگو کی انھوں نے بالکل بجا طور پر بشریات کی اہمیت حتی صنعتی میدانوں میں بھی اس کے افادی پہلوؤں کی نشاندہی کی۔ یہ بالکل صحیح ہے۔ ہمارے برادر عزیز نے جو اعداد و شمار پیش کئے وہ میرے لئے دلچسپ تھے، جس میں انھوں نے بتایا کہ صنعتی پیشرفت کا عمل تقریبا چالیس فیصدی یا پچاس فیصدی انجینیئرنگ کے امور اور فنی امور سے متعلق ہوتا ہے، جبکہ پچاس سے ساٹھ فیصدی تک اس کا تعلق بشریات جیسے مینیجمنٹ اور سخت کوشی وغیرہ سے ہوتا ہے۔ بالکل صحیح کہا۔ یہ بہت اہم ہے۔ بشریات اور ہیومن سائنسز کے بارے میں آج ہمارے برادران عزیز میں سے کئی نے بڑے اچھے نکات بیان کئے۔ یہ ہمارے بھی دل کی باتیں ہیں اور ہم ان میں بعض مسائل کو متعدد مواقع پر بیان بھی کر چکے ہیں۔ ہیومن سائنسز کی بڑی اہمیت ہے۔ بشریات میں بنیادی اصلاحات اور تبدیلی جو گوناگوں وجوہات کی بنا پر ایک لازمی امر بن چکی ہے، اندرونی تحرک اور بیرونی حمایت کی متقاضی ہے۔ خوش قسمتی سے آج اندرونی تحرک موجود ہے۔ میں انجام پانے والے کاموں کی رپورٹیں دیکھ رہا ہوں۔ سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب میں بھی جو افراد مصروف عمل ہیں اور یونیورسٹیوں میں بھی جیسا کہ آج آپ نے تقریروں میں سنا، بعض افراد نے بشریات کے بارے میں جو گفتگو کی اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آج یونیورسٹیوں میں وہ بھی اعلی علمی شخصیات اور دانشوروں کی سطح پر اندرونی تحرک موجود ہے۔ اب باہر سے حمایت و پشت پناہی بھی ہونی چاہئے۔ مختلف اقسام کی حمایت ضروری ہے۔ حمایت کا ایک مصداق اصلاحاتی کونسل کے منظور کردہ منصوبوں پر یونیورسٹیوں اور وزارت کی سطح پر عملدرآمد ہے۔ کچھ چیزیں منظور ہو چکی ہیں۔ ہمارے ایک بھائی نے بیان فرمایا کہ جو چیزیں منظور کی جا چکی ہیں ان پر عملدرآمد ہو جانا چاہئے۔ جس مقدار میں بحث ہوئی اور امور منظوری کے مراحل سے گزر چکے ہیں اتنا عملدرآمد ہو جانا چاہئے۔ منظور ہو چکے امور دفاتر میں، فائلوں میں، جناب عالی کے بقول وزارت یا سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب کے گلیاروں کے پیچ و خم میں الجھ کر نہ رہ جائیں، یہ بالکل صحیح ہے۔ وزارت تعلیم کو چاہئے کہ اس نکتے پر توجہ دے۔ جناب ڈاکٹر فرہادی صاحب (4) بھی یہاں تشریف فرما ہیں۔ ان چیزوں کی طرف میں خاص طور پر ان کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا، یہ کام بہت اہم ہے۔ آج ملک کے اندر علم و دانش کے امور اور یونیورسٹیوں کے امور ہمارے انھیں برادران عزیز کے ہاتھوں میں ہیں۔ انھیں چاہئے کہ ان امور پر واقعی پوری ہمدردی کے ساتھ کام کریں۔ ایک اور نکتہ ریسرچ کے بجٹ کا بھی ہے۔ البتہ جن مسائل کی میں بات کر رہا ہوں ان کے سلسلے میں کچھ تفصیلات بیان کرنا بھی ضروری ہے، لیکن وقت کی کمی کے باعث گفتگو کو زیادہ طول نہیں دے سکتا۔ ریسرچ بجٹ بہت اہم ہے۔ میں کئی سال سے اس اجلاس میں، اسی طرح دوسرے اجلاسوں میں اور ملک کے اجرائی عہدیداروں سے ملاقاتوں میں اس مسئلے پر زور دے رہا ہوں، مگر افسوس کی بات ہے کہ مجھے جو اطلاعات مل رہی ہیں اور جو رپورٹیں پیش کی جاتی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری یہ باتیں وعظ و نصیحت جیسی ہیں، ایسی نصیحت جو کوئی شخص منبر پر بیٹھ کر چند جملوں میں بیان کر دیتا ہے۔ اسے اس نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اس پر کام ہونا چاہئے۔ جو وژن دستاویز تیار کیا گیا ہے اس میں ریسرچ کے لئے قومی بجٹ کا چار فیصدی حصہ مد نظر رکھا گیا ہے، اس کم وقت میں ہم اس سطح تک نہیں پہنچ سکتے، لیکن یہی ڈیڑھ فیصدی اور دو فیصدی بجٹ جو ہمارے امکان میں ہے اور جس کی بات کی جاتی ہے، وہ تو فراہم کیا جانا چاہئے۔ اس وقت ریسرچ کے لئے جو بجٹ ہے وہ اعشاریہ کچھ فیصدی ہے۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے اور دوسرا مسئلہ بجٹ کے استعمال کا اور ریسرچ کے مالی ذرائع کو منصوبہ بند طریقے سے خرچ کرنے کا ہے۔ اس کا بالکل صحیح استعمال کیا جانا چاہئے اور بالکل صحیح جگہ پر یہ بجٹ لگنا چاہئے۔
ایک اور اہم نکتہ جامع علمی روڈ میپ کا ہے۔ جامع علمی روڈ میپ دوستوں کی محنت و مشقت کے نتیجے میں پایہ تکمیل کو پہنچا اور ایک اچھی اور کامل دستاویز تیار ہو گئی جو ملک کے لئے بڑی اہم چیز ہے۔ جو صاحب نظر ہیں ملک کا جامع علمی روڈ میپ تیار ہو جانے کے بعد، جیسا کہ مجھے رپورٹ ملی ہے اور بتایا گیا ہے، اس کی تعریف کر رہے ہیں۔ یعنی سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب میں یہ جو دستاویز تیار ہوئی اس کے سلسلے میں کوئی بنیادی اشکال اور اعتراض نہیں ہے۔ یعنی اس کی حمایت کی گئی ہے۔ البتہ اب اس جامع علمی روڈ میپ کو علمی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں سب سے پہلا کام ماحول سازی کا ہے۔ میں سنتا ہوں کہ ہمارے کچھ احباب مختلف صوبوں کے دورے کرتے ہیں، یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ طلباء اور مینیجمنٹ کے افراد تو بہت دور کی بات ہے، اساتذہ میں بھی بہتوں کو ملک کے جامع علمی روڈ میپ کی صحیح اطلاعات نہیں ہیں۔ یہاں بھی ہمارے ایک دوست نے کہا کہ آپ مزاحمتی معیشت کی بات کرتے ہیں، بہت سے افراد کو اس کی اطلاع ہی نہیں ہے۔ بالکل، یہ ہمارے یہاں ایک کمی اور نقص ہے۔ ہم اگر چاہتے ہیں کہ کوئی مطالبہ پورا ہو تو ضروری ہے کہ پہلے اس کے لئے ذہن سازی کریں۔ علم و دانش کا مسئلہ بھی اسی طرح پہلے عمومی بحث میں تبدیل ہوا اور پھر فطری طور پر عملی دھارے سے جڑ گیا۔ اسے عملی جامہ پہنایا گيا اور یہ ایک موج کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ ملک کے جامع علمی روڈ میپ کا مسئلہ ایک عمومی اور ہمہ گیر موضوع میں تبدیل ہو جانا چاہئے۔ اس کے بعد پوری سنجیدگی سے اس پر عمل کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک ذیلی نکتہ اعلی تعلیم کے تجزئے اور جائزے کا ہے۔ ایک صاحب نے کہا کہ اگر ہم اپنے پیش نظر تمام چیزوں کو اپنی ترجیحات میں رکھنا چاہیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سرے سے ہماری کوئی ترجیح ہی نہیں ہے۔ یہ بات صحیح ہے اور اس میں وزن ہے۔ یہ کہا کہ ہم کچھ معین صنعتی میدانوں کے بارے میں طے کریں کہ ہمیں ان میدانوں میں ترقی کرنی ہے اور انھیں پر سرمایہ کاری کرنی ہے، افرادی قوت صرف کرنی ہے اور گوناگوں توانائیوں اور صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ میں نے ایک دفعہ اسپورٹس کے بارے میں یہی بات کہی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ ہم دو تین کھیلوں میں عالمی سطح پر پہلا یا دوسرا مقام حاصل کر سکتے ہیں، تو آپ اسی میدان میں محنت کیجئے۔ کچھ کھیل ایسے ہیں جن میں ہم پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کرنے کی امید نہیں رکھتے، میری مراد عالمی سطح کے مقابلوں اور چیمپیئن شپ کے میچوں سے ہے۔ اسی نہج پر کام کیا گيا۔ یعنی ان میدانوں میں کچھ اہم قدم اٹھائے گئے، جو مفید اور موثر ثابت ہوئے۔ اس شعبے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کون سا علمی میدان کس یونیورسٹی میں اور ملک کے کس خطے میں ترجیح رکھتا ہے۔ ملکی سرزمین کے علمی جائزے کا یہی مطلب ہے۔ ہمیں کن یونیورسٹیوں میں کون سے سبجیکٹ پر کام کرنا چاہئے، سرمایہ کاری کرنا چاہئے، کس چیز کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ یہ بھی اہم مسئلہ ہے اور متعلقہ دستاویز کو مکمل کرکے اسے عملی جامہ پہنایا جانا بھی ضروری ہے۔
آخر میں میں یہ عرض کروں گا کہ برادران عزیز، خواہران گرامی! آپ جس پیشے سے وابستہ ہیں اس کی قدر و منزلت کو سمجھئے۔ ہمارے ہاتھ میں جو پیشے اور کام ہیں ان میں آج اس سے زیادہ محترم اور باعزت کوئی پیشہ نہیں تلاش کیا جا سکتا۔ آپ نے بہت بڑے کام کی ذمہ داری اپنے دوش پر لی ہے اور اسے انجام دے رہے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام انجام پائیں تو وزارت علوم میں روز بروز زیادہ بلند ہمتی اور عزم راسخ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
میں نے جو چیزیں نوٹ کی ہیں ان میں ایک پوسٹ گریجوئیٹ ایجوکیشن کا مسئلہ ہے۔ خوش قسمتی سے گزشتہ چند سال کے عرصے میں اس میدان میں خاصی پیشرفت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ جو انتہائی اہم چیز ہے۔ البتہ اس عمل کو زیادہ نتیجہ خیز بنانے کے لئے صحیح منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے اس مرحلے میں طلبا اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی چیز کے بارے میں تحقیق کریں، کچھ لکھیں، کوئی تصنیف تیار کریں۔ اس کے لئے ایک نظام کی ضرورت ہے، وسیع البنیاد طرز فکر کی ضرورت ہے، ملکی سطح کی رہنمائی کی ضرورت ہے کہ کس سمت میں کام کرنے کی ضرورت ہے؟ تاکہ اس سے ملک کو فائدہ ملے۔ اگر یہ کام انجام نہ دیا گیا تو گویا ہم نے وسائل کو ضائع کیا ہے، ہم نے استاد کی صلاحیتوں کو بھی ضائع کیا اور طالب علم کی توانائی کو بھی ضائع کیا ہے، پیسہ بھی برباد کیا ہے اور گوناگوں امکانات کو بھی عبث استعمال کیا ہے۔ جب وسیع البنیاد نقطہ نگاہ ہوگا، جب دراز مدتی اور وسیع منصوبہ بندی ہوگی، جب وزارت علوم سے وابستہ امور کو منظم کیا جائے گا تو وہ اساسی اور کلیدی کام قرار پائے گا اور اس سے ملک کی گرہیں کھلیں گی۔
آپ اساتذہ جو خدمت انجام دے رہے ہیں وہ بہت اہم ہے۔ ملک کے تعلیمی انتظامی محکمے جو فرائض انجام دے رہے ہیں، وہ بہت اہم ہیں، یہ فرائض بنیادی طور پر وزارتیں اور نائب صدر کی طرف سے انجام دئے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس عمل کو پرکھنا چاہئے تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ کتنا اہم کام انجام دیا جا رہا ہے۔
جیسا کہ بعض احباب نے اپنی تقاریر میں اشارہ بھی کیا؛ ملت ایران کے دشمنوں کا ہدف یہ ہے کہ اس ملک اور اس قوم کو اس کے شایان شان مقام تک پہنچنے سے روکیں۔ کیونکہ انھیں محسوس ہونے لگا ہے کہ ملک کے اندر یہ مہم شروع ہو گئی ہے۔ پابندیاں اسی لئے عائد کی گئی تھیں۔ جی ہاں، میرا بھی یہی خیال ہے کہ پابندیاں صرف ایٹمی مسئلے کی وجہ سے نہیں لگی ہیں، اس کی وجہ انسانی حقوق کا مسئلہ بھی نہیں ہے اور نہ ہی دہشت گردی کا مسئلہ ان پابندیوں کا سبب ہے۔ ضرب المثل ہے کہ ذاکر نے حضرت علی اصغر کے مصائب پڑھے تو فلاں شخص نے گریہ کیوں نہیں کیا؟ جواب ملا کہ وہ تو ایسا شخص ہے جس نے خود سو علی اصغر شہید کئے ہیں تو حضرت علی اصغر کے مصائب پر گریہ کیا کرے گا؟ یہ ممالک ایسے ہیں جو خود دہشت گردوں کی پرورش کر رہے ہیں۔ یہ خود انسانی حقوق کے دشمن ہیں۔ یہ بس اس فکر میں رہتے ہیں کہ انسانی حقوق کے بہانے کسی ملک پر دباؤ ڈالیں! تو مسئلہ یہ نہیں ہے۔ اصل ماجرا اس سے کہیں بالاتر اور وسیع تر ہے۔ یعنی ایک قوم، ایک تحریک، ایک تشخص وجود میں آ چکا ہے جو سامراجی نظام اور ظلم کرنے اور ظلم سہنے کے قدیمی سسٹم کے مد مقابل اصولوں اور وسائل پر استوار ہے۔ دنیا کی طاقتیں ہرگز نہیں چاہتیں کہ یہ نئی تحریک کسی مقام تک پہنچے۔ ہماری پوزیشن اس طرح کی ہے۔ ہم ایسے مقام پر کھڑے ہیں۔ ہمیں آگے بڑھنا چاہئے۔ ہمیں محنت کرنا چاہئے۔ پابندیوں کی وجہ سے یقینا مشکلات پیدا ہوتی ہیں لیکن یہ ممکن ہے کہ ان پابندیوں کو ملکی ترقی کے سد راہ نہ بننے دیا جائے۔ ہمیں اس کے لئے اپنی توانائیوں کو بروئے کار لانا ہوگا اور اس سلسلے میں آپ اساتذہ کا رول بہت اہم ہے۔ وزارت علوم اور علم و تعلیم سے مربوط دیگر وزارتوں کا اس میں بنیادی اور اساسی کردار ہے۔ اس کردار کی قدر و قیمت کو سمجھئے اور محنت کیجئے۔ اللہ تعالی سے مدد طلب کیجئے۔ جس آيت کی تلاوت ہمارے دوستوں نے کی؛ اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم (5) یہ اللہ کا ایسا وعدہ ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
پالنے والے! ان دنوں اور ان راتوں کی برکت سے، امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے پاکیزہ خون کی برکت سے، ان برسوں کے دوران راہ حق میں بہنے والے پاکیزہ خون کی برکت سے، ہمارے ملک میں جو شہدا نمودار ہوئے ان کے خون کی برکت سے، اس جہاد کی برکت سے، ان پاکیزگیوں کی برکت سے، ہماری قوم کو روز بروز زیادہ سے زیادہ سربلند فرما! اسے حقیقی سعادت و کامرانی کے قریب کر! اس راستے کے مجاہدین کو، اس راستے میں خدمات انجام دینے والوں کو، منجملہ محترم اساتذہ، طلبہ اور ان افراد کو جو راہ علم میں کوشاں ہیں، ان سب کو اپنی توفیقات سے بہرہ مند فرما۔ ہمارے عظیم قائد امام خمینی کی روح طاہرہ کو اور ہمارے شہدا کی ارواح طیبہ کو صدر اسلام کے شہیدوں کے ساتھ محشور فرما۔

و السّلام‌ علیکم‌ و رحمة الله‌ و برکاته‌

۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل اساتذہ میں سے سات افراد نے اپنے نظریات اور تجاویز پیش کیں۔
۲) منجملہ مورخہ 6 اگست 2013 کو ملک کے اساتذہ سے کیا جانے والا خطاب
3) حافظ کے اس مصرعے کی جانب اشارہ ہے؛ «دست ما کوتاه و خرما بر نخیل»
4) وزیر علوم و تحقیاقت و ٹیکنالوجی ڈاکٹر محمد فرہادی جو جلسے میں موجود تھے۔
5) سوره‌ محمّد، آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ جس میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے؛ «... اگر تم اللہ کی نصرت کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عطا کرے گا۔»