1394/06/18 ہجری شمسی مطابق 09-09-2015 کو بدھ کی صبح مختلف عوامی طبقات سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے آئندہ پارلیمانی انتخابات کے بارے میں بعض نکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام کے ہر ووٹ کی طرح انتخابات کا نتیجہ بھی حق الناس ہے اور عوام کے اس حق کا تمام توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دفاع کیا جائے گا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہ ذی القعدہ کے بابرکت ایام اور ان گراں قدر مواقع سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ہجری شمسی کیلنڈر کے چھٹے مہینے شہریور کو بھی بڑے اہم واقعات اور یادوں کا حامل مہینہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے پہلوی حکومت کے دور میں امریکیوں کے مطلق تسلط کی بعض علامتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ طاغوتی حکومت کے تمام کلیدی عہدیداران منجملہ خود شاہ امریکا کے تابع فرمان ہوتے تھے اور امریکی حکام اپنے گماشتہ افراد کی مدد سے ایرانی قوم پر فرعون کی طرح حکومت کرتے تھے، لیکن امام خمینی نے زمانے کے موسی کا کردار ادا کرتے ہوئے قوم کی مدد سے اس قدیمی سرزمین سے اس بساط کو سمیٹ دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں امریکیوں کے ناجائز مفادات کے خاتمے کو اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران سے ان کی دشمنی اور کینہ پروری کی اصلی وجہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله‌ الرّحمن ‌الرّحیم‌
و الحمد للَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الأطیبین الأطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

خوش آمدید کہتا ہوں آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو جو مختلف شہروں سے سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے یہاں تشریف لائے ہیں اور اپنی آمد سے اور اپنے جوش و جذبے سے ہمارے اس حسینیہ کو متبرک کر رہے ہیں۔ خاص طور پر وہ برادران و خواہران گرامی جو دور دراز کے علاقوں سے آئے ہیں۔ دعا کرتا ہوں کہ فضل و رحمت پروردگار آپ تمام برادران و خواہران گرامی کے شامل حال رہے۔
حسن اتفاق ہے کہ ماہ ذی القعدہ کے یہ مبارک ایام اس سال 'ماہ شہریور' (اگست-ستمبر) کے ان ایام کے ساتھ آئے ہیں جن سے بڑی یادیں وابستہ ہیں۔ ماہ ذی القعدہ کی برکتیں بھی بے پناہ ہیں اور 'شہریور مہینے' میں رونما ہونے والے واقعات بھی بڑے بامعنی اور پرمغز ہیں۔ ماہ ذی القعدہ پہلا حرام مہینہ ہے۔ اس مہینے کی گیارہ تاریخ، فرزند رسول، امام ہشتم حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کا یوم ولادت با سعادت ہے۔ اس مہینے کی 23 تاریخ، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خاص زیارت کی تاریخ ہے، اس مہینے کی پچیس تاریخ 'دحو الارض' (یعنی فرش زمین بچھائے جانے) کا دن ہے، نیمہ ماہ ذی القعدہ کی شب بھی سال کی انتہائی بابرکت شبوں میں سے ایک ہے اور اس شب کے بھی خاص اعمال ہیں۔ ماہ ذی القعدہ میں پڑنے والے اتوار کے دن توبہ و استغفار کے ایام ہیں۔ ان ایام کے مخصوص اعمال ہیں۔ گراں قدر عارف مرحوم الحاج میرزا جواد آقای ملکی نے المراقبات میں یہ اعمال نقل کئے ہیں۔ جن کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے خطاب میں فرمایا کہ آپ میں سے کون ہے جو توبہ کرنا چاہتا ہے؟ سب نے جواب دیا کہ ہم توبہ کرنا چاہتے ہیں۔ بظاہر یہ ذیقعدہ کا مہینہ تھا۔ اس روایت کے مطابق سرور کائنات نے فرمایا کہ اس مہینے میں اتوار کے ایام میں یہ نماز پڑھو۔ المراقبات میں اس نماز کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ الغرض یہ کہ ماہ ذی القعدہ کے ایام جو ان تین لگاتار حرام مہینوں میں پہلا مہینہ ہے، بڑے بابرکت ایام اور راتیں ہیں، برکتوں سے معمور ہیں۔ ان سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
شہریور کا مہینہ بھی بڑے یادگار واقعات کا مہینہ ہے۔ 17 شہریور 1357 (ہجری شمسی مطابق 8 ستمبر 1978) کو یعنی انقلاب کی فتح سے چند ماہ قبل، تہران کے اسی شہداء اسکوائر پر طاغوتی حکومت کے اہلکاروں نے نہتے عوام پر گولیوں کی برسات کر دی اور بڑی تعداد میں جو اب تک معلوم نہیں ہو سکی، مگر اتنا طے ہے کہ کثیر تعداد میں لوگ قتل ہو گئے۔ اسی شہریور کے مہینے میں صدر مملکت اور وزیر اعظم شہید رجائی اور شہید باہنر کی ٹارگٹ کلنگ کا بزدلانہ سانحہ ہوا۔ اسی شہریور کے مہینے میں تبریز کے امام جمعہ (1) منافقین (دہشت گرد تنظیم) کے ہاتھوں شہید کر دئے گئے۔ اسی شہریور کے مہینے کے آخری دن وطن عزیز پر صدام کی بعثی حکومت کا حملہ ہوا۔ یہ بڑی عجیب، با معنی اور پرمغز یادیں ہیں۔ ان تمام واقعات میں امریکی حکومت پس پردہ ملوث رہی ہے۔ امریکی کہیں براہ راست مدد کرتے تھے، کہیں اکساتے تھے اور بعض معاملات میں مجرمانہ اقدامات پر چشم پوشی کر لیتے تھے۔
ہمارے نوجوان ان واقعات کو ہرگز فراموش نہ کریں۔ ایک بات جس کی بابت مجھے تشویش ہے، یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل جو بحمد اللہ آگاہ بھی ہے، بابصیرت بھی ہے، جوش و جذبے سے آراستہ ہے، کام کے لئے آمادہ بھی ہے، میدان عمل میں موجود بھی ہے، انقلابی جذبات بھی رکھتی ہے، ان اہم واقعات کو، عصر حاضر کی ان بڑی عبرتوں کو بتدریج فراموش نہ کر دے۔ اس میں ہماری کوتاہی ہے، یہ متعلقہ اداروں کی کوتاہی ہے۔ ان واقعات پر کہنگی کی گرد نہیں جمنی چاہئے۔ قوم کا تاریخی حافظہ کمزور نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ملک میں ہمارے نوجوانوں کو ان واقعات کا علم نہ ہوگا، وہ ان کا تجزیہ نہیں کریں گے، ان کی تہہ میں نہیں جائیں گے تو اپنے وطن عزیز کی شناخت میں اور مستقبل کے تعین میں ان سے غلطیاں ہوں گی۔ نوجوانوں کو ان واقعات کی صحیح شناحت ہونی چاہئے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ کیا ہوا تھا، کیسے ہوا تھا، کون لوگ ملوث تھے، یہ چیزیں نوجوانوں کو معلوم ہونی چاہئے۔
17 شہریور (8 ستمبر) جیسا ہی ایک اور قتل عام اسی انقلاب اسکوائر پر 8 بہمن (28 جنوری) کو ہوا تھا، جس کے بارے میں بہت سے لوگ بے خبر ہیں۔ حکومت کے افراد بے گناہ عوام پر ٹوٹ پڑے تھے۔ امریکی جنرل (2) جو طاغوتی حکومت کی عمر کے آخری ایام میں اسے نجات دلانے کی غرض سے تہران آيا تھا، اس کے حوالے سے نقل کیا گيا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں نے شاہ کے جنرلوں کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ اپنی بندوقوں کی نال سیدھی کیجئے، یعنی شاہ کے مسلح عناصر جو عوام کا سامنا کرنے کے لئے تعینات ہوتے تھے، بعض اوقات ہوائی فائرنگ کرتے تھے، تاکہ لوگ ڈر جائیں۔ یہ جناب، شاہ کے جنرلوں سے کہتے ہیں کہ بندوق کی نلی نیچے لاؤ اور لوگوں پر براہ راست فائرنگ کرو۔ انھوں نے اسی انقلاب اسکوائر پر اس فرمان پر عمل کیا۔ بندوقوں کی نالیں سیدھی کیں اور لوگوں پر حملہ کر دیا۔ بہت سارے افراد شہید ہو گئے۔ مگر یہ ترکیب بھی بے اثر ثابت ہوئی۔ عوام پیچھے نہیں ہٹے، بلکہ تحریک جاری رہی۔ اس کے بعد شاہ کی فوج کا ایک کمانڈر جنرل قرہ باغی جاتا ہے ہائزر کے پاس اور اس سے کہتا ہے کہ تمہارا یہ فرمان بے نتیجہ ثابت ہوا۔ لوگ پیچھے نہیں ہٹے۔ ہائزر اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ یہ لوگ کتنا بچکانہ تجزیہ کرتے ہیں! اس جملے کا کیا مطلب ہے؟ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ قرہ باغی کو یہ امید تھی کہ عوام پر ایک بار گولی چلا دینے سے معاملہ ختم ہو جائے گا۔ ایسا نہیں ہے، یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے تھا۔ جہاں بھی عوام کی بھیڑ نظر آتی ان پر حملہ کر دیا جاتا، ان کا قتل عام کیا جاتا! یہ ہے امریکا۔ پچیس سال تک امریکا نے اس ملک میں بے روک ٹوک فرمانروائی کی ہے۔ شاہی حکومت کے جنرلوں کو براہ راست فرمان جاری کرتا تھا۔ اقتصادی میدان میں، سیاسی میدان میں، سیکورٹی کے شعبے میں، خارجہ سیاست کے میدانوں میں، امریکا کی مرضی چلتی تھی۔ طاغوتی حکومت کے دور میں امریکا کی مطلق فرمانروائی تھی۔ ہمارے ملک پر ایسا نظام حکومت کر رہا تھا کہ جس کے افسران بھی امریکیوں کے تابع فرمان ہوا کرتے تھے۔ جس کا وزیر خزانہ امریکیوں کا مطیع تھا، جس کا وزیر دفاع امریکا کا غلام تھا، جس کا وزیر اعظم امریکا کا فرماں بردار تھا۔ خود شاہ بھی امریکا کا مطلق مطیع فرمان تھا۔ یہ ملک ایک ایسی حکومت کے ہاتھ میں تھا۔
امریکا ہمارے ملک میں فرعونیت کر رہا تھا۔ فرعون کی مانند: یَستَضعِفُ طآئِفَةً مِنهُم یُذَبِّحُ اَبنآءَهُم وَ یَستَحیِ نِسآءَهُم (۳)، ہمارے عوام کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا تھا۔ زمانے کے موسی نے آکر اس فرعون اور اس کے حواریوں کی بساط سمیٹ دی۔ اسے ختم کر دیا۔ یہ ہے انقلاب۔ شہریور مہینے کے اسی سانحے کے چودہ مہینے بعد یعنی نومبر 1979 میں ہمارے عظیم قائد امام خمینی کے پیروکار نوجوانوں نے جاکر امریکا کے جاسوسی کے مرکز کو فتح کر لیا۔ امریکیوں کے ہاتھ باندھ کر، ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں قید کر لیا۔ اس دفعہ موسی نے فرعون کو اس انداز سے دھول چٹائی۔ کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ امریکی ایران سے اتنی دشمنی کیوں رکھتے ہیں؟ وجہ صاف ہے۔ ایران پوری طرح امریکا کی مٹھی میں تھا، امریکا کے ہاتھ میں تھا، ملک کے تمام اہم شعبے امریکیوں کے ارادے کے مطابق کام کرتے تھے۔ امام خمینی تشریف لائے اور انھوں نے عوام کی مدد سے امریکا کو اس ملک سے نکال باہر کیا۔ ظاہر ہے وہ دشمنی تو رکھے گا ہی۔ اسے دشمنی برتنی بھی چاہئے اور وہ دشمنی نکال رہا ہے۔ آج بھی وہ دشمنی نکال رہا ہے۔
امام خمینی نے فرمایا: امریکا شیطان بزرگ ہے (4)، یہ شیطان بزرگ کی اصطلاح بڑی بامعنی ہے۔ دنیا کے تمام شیطانوں کا سردار ابلیس ہے۔ لیکن قرآن کی واضح تشریح کے مطابق ابلیس محض اتنا کر سکتا ہے کہ انسانوں کو ورغلائے، ورغلانے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ انسان کو ورغلاتا ہے، فریب دیتا ہے، وسوسہ پیدا کرتا ہے۔ لیکن امریکا تو ورغلاتا بھی ہے، قتل عام بھی کرتا ہے، اکساتا بھی ہے، فریب بھی دیتا ہے، ریاکاری بھی کرتا ہے، انسانی حقوق کا پرچم بھی اٹھائے نظر آتا ہے، انسانی حقوق کی پاسداری کے دعوے کرتا ہے۔ جبکہ ہر کچھ دن بعد امریکا کے شہروں کی سڑکوں پر کوئی نہ کوئی بے گناہ، نہتا انسان امریکی پولیس کے ہاتھوں خاک و خوں میں غلطاں ہو جاتا ہے۔ دوسرے جرائم اور قبیح افعال کی تو بات ہی چھوڑئے! ایران میں طاغوتی حکومت کے دوران امریکا کا یہ رویہ ہے، اس کے علاوہ ان کی جنگ افروزی، جنگ پسند تنظیموں کی تشکیل، مثال کے طور پر انھیں تنظیموں کو لے لیجئے جو عراق میں، شام میں اور دیگر علاقوں میں تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ یہ سب امریکا کی کرتوتیں ہیں۔ اس کے باوجود کچھ لوگ ان صفات کے حامل اس شیطان بزرگ کو جو ابلیس سے بھی بدتر ہے، رنگ و روغن لگا کر کوئی فرشتہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیوں؟ آپ دین کی بات جانے دیجئے، انقلابی تشخص کی بھی بات جانے دیجئے، ملکی مفادات کے تئیں وفاداری کہاں جائے گی؟ عقل و فہم کا کیا کریں گے؟ کون سی عقل اور کون سا ضمیر اجازت دیتا ہے کہ انسان امریکا جیسی قوت کو اپنے دوست، اپنے معتمد اور فرشتہ نجات کی حیثیت سے منتخب کرے؟ یہ اس طرح کے افراد ہیں۔ امر واقعہ یہی ہے۔ جی ہاں، یہ خود کو سنوارتے ہیں، بڑے صاف ستھرے کپڑے پہن کر، ٹائی لگاکر، پرفیوم سے معطر ہوکر، پرکشش ظاہری وضع قطع میں سادہ لوح افراد کے سامنے خود کو ایک الگ ہی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ یہ ہے امریکی حکومت کا طریقہ۔ یہ ہمارے ملک کے ساتھ ان کا رویہ ہے اور دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی ان کا یہی طرز عمل ہے۔ عظیم الشان ملت ایران نے اس شیطان بزرگ کو ملک سے باہر نکال دیا تو اب اسے دوبارہ لوٹنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ ہم نے دروازے سے نکالا اور وہ کھڑکی سے پھر لوٹ آئے۔ اسے اثر و نفوذ قائم کرنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔ اس کی دشمنی ختم نہیں ہوگی۔
مشترکہ جامع ایکشن پلان اور اس جوہری اتفاق رائے کے بعد جس کے انجام کے بارے میں ابھی کچھ معلوم نہیں ہے، اس وقت بھی امریکی کانگریس میں ایران کے حلاف سازش رچی جا رہی ہے۔ جو خبریں ہمیں مل رہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بھی امریکی کانگریس کے اندر ایک گروہ ایسا مسودہ تیار کر رہا ہے جس کا مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کو پریشان کرنا، اس پر الزام تراشی کرنا اور مشکلات کھڑی کرنا ہے۔ ان کی دشمنی اس طرح کی ہے جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔
یہ دشمنیاں جاری رہیں گی، کب تک جاری رہیں گی؟ اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک آپ قوی نہیں ہو جاتے، جب تک ملت ایران اتنی طاقتور نہیں ہو جاتی کہ دشمن قنوطیت میں مبتلا ہو جائے، جب تک سیاسی، سیکورٹی یا عسکری و اقتصادی حملوں کی جانب سے اور پابندیوں کی طرف سے مایوس نہ ہو جائے۔ ہمیں خود کو طاقتور بنانا ہے، ملک کے اندر ہمیں خود کو مستحکم کرنا ہے۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ یہ قوت جس کی ملک کو شدید ضرورت ہے کیسے حاصل ہوگی۔ اس کا سب سے پہلا راستہ ہے مستحکم و پائیدار معیشت۔ یہی مزاحمتی معیشت جس کی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا جا چکا ہے اور اب عملی سطح پر اور اجرائی طور پر بلا تاخیر پوری طرح اس پر عمل ہونا چاہئے۔ بیشک حکومت سے تعلق رکھنے والے ہمارے احباب بحمد اللہ کچھ اقدامات انجام دے رہے ہیں۔ پہلی چیز یہ ہے کہ ملکی معیشت مستحکم ہو، ملک کے اندر کوئی نوجوان بے روزگار نہ رہے، نوجوانوں کی خلاقانہ صلاحیتوں کو استعمال کیا جائے۔ یہ ایک راستہ ہے۔
ایک اور راستہ علم و دانش کا فروغ ہے۔ علمی کارواں اپنی رفتار کم نہ ہونے دے! علم و سائنس کے میدان میں ہماری پیش قدمی کا عمل جاری رہے! ہر چیز کا انحصار علم پر ہے۔ یہ بھی تقویت کا ایک راستہ ہے۔
اندرونی استحکام کا ایک اور اہم راستہ عوام کے اندر اور خاص طور پر نوجوانوں میں انقلابی جذبات کی پاسداری ہے۔ دشمنوں کی کوشش یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو لاابالی بنا دیں۔ انقلاب کے تعلق سے ان میں سرد مہری کا جذبہ پیدا کر دیں۔ ان کے اندر موجود انقلابی و مجاہدانہ جذبے کو کچل کر ختم کر دیں۔ ان کوششوں کا سد باب کرنا چاہئے۔ نوجوان کو چاہئے کہ اپنے انقلابی جذبے کی حفاظت کرے۔ ملک کے حکام انقلابی نوجوانوں کی قدر کریں۔ مقررین اور اہل قلم حضرات انقلابی اور دیندار نوجوانوں کو انتہا پسند وغیرہ کہہ کر سرزنش کا نشانہ نہ بنائیں۔ انقلابی نوجوان کی عزت کرنا چاہئے۔ اسے انقلابی بنے رہنے کی ترغیب دلانی چاہئے۔ یہی جذبہ ملک کی حفاظت کرے گا، وطن عزیز کا دفاع کرے گا۔ یہی جذبہ خطرات کے وقت ملک کی مدد کے لئے آگے آئے گا۔ قومی اقتدار اعلی کے یہ تین اہم عناصر ہیں؛ مستحکم و مزاحمتی معیشت، پیشرفتہ اور روز افزوں علم و دانش، تمام لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں کے اندر انقلابی جذبے کی حفاظت و تقویت۔ یہ چیزیں ملک کو بچائیں گی اور دشمن کو مایوس کر دیں گی۔
امریکا اپنی دشمنی چھپا بھی نہیں رہا ہے۔ وہ آپس میں کام بانٹ رہے ہیں۔ کچھ عہدیدار تبسم نثار کرتے ہیں، کچھ عہدیدار اسلامی جمہوریہ کے خلاف قرارداد تیار کرتے ہیں اور اسے آگے بڑھانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے ذمہ داریوں کی تقسیم ہے۔ وہ کہنے کو تو ایران سے مذاکرات کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن مذاکرات محض ایک بہانہ ہے۔ مذاکرات اثر و رسوخ قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔ مذاکرات اپنی مرضی مسلط کرنے کا وسیلہ ہے۔ ہم نے خاص وجوہات کی بنا پر جن کا کئی بار ہم ذکر کر چکے ہیں، صرف ایٹمی مسئلے میں مذاکرات کی موافقت کی کہ جائیں مذاکرات کریں۔ مذاکرات انجام بھی پائے۔ بحمد اللہ اس میدان میں ہمارے مذاکرات کاروں نے بھی بڑی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ مگر دوسرے موضوعات کے بارے میں ہم نے مذاکرات کی اجازت نہیں دی ہے اور ہم امریکا سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ ہم ساری دنیا سے مذاکرات کریں گے، لیکن امریکا سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ ہم مذاکرات اور گفتگو کے حامی ہیں، ہم مفاہمت پسند ہیں۔ حکومتوں کی سطح پر مذاکرات، قوموں کی سطح پر مذاکرات اور ادیان کی سطح پر مذاکرات کے ہم طرفدار ہیں۔ ہم اہل گفت و شنید ہیں اور سب سے مذاکرات کرتے ہیں، بس امریکا کو چھوڑ کر۔ البتہ صیہونی حکومت کی بات بالکل الگ ہے کیونکہ صیہونی حکومت کا وجود ہی غیر قانونی ہے اور یہ ایک جعلی حکومت ہے۔
صیہونی حکومت کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا ہے۔ ایٹمی مذاکرات ختم ہو جانے کے بعد، میں نے سنا کہ مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں نے کہا کہ یہ مذاکرات جو ہوئے ان کے نتیجے میں ہم آئندہ پچیس سال کے لئے ایران کی طرف سے آسودہ خاطر ہو گئے۔ پچیس سال گزر جانے کے بعد اب اس بارے میں دوبارہ سوچیں گے۔ میں جواب میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پہلی بات تو یہ کہ آپ کو آئندہ پچیس سال کا زمانہ دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔ ان شاء اللہ پچیس سال بعد توفیق الہی اور فضل خداوندی سے علاقے میں صیہونی حکومت نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس مدت کے دوران بھی اسلامی مجاہدانہ و شجاعانہ جذبات و افکار ایک لمحے کے لئے بھی صیہونیوں کو چین سے نہیں رہنے دیں گے۔ اسے آپ سن لیجئے! قومیں جاگ چکی ہیں۔ انھیں اب معلوم ہے کہ دشمن کون ہے۔ حکومتیں اور تشہیراتی وسائل اور لاؤڈ اسپیکر دوست اور دشمن میں خلط ملط کر دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ لیکن ان کی یہ کوشش لا حاصل رہے گی۔ قومیں، مسلمان قومیں اور خاص طور پر علاقے کی اقوام پوری طرح بیدار ہیں اور جانتی ہیں۔ تو یہ ہے صیہونی حکومت کی حالت اور یہ ہے امریکا کی صورت حال۔
کچھ باتیں انتخابات کے بارے میں بھی عرض کرنی ہیں (5)۔ انتخابات کا مسئلہ ہمارا کرنٹ ایشو ہے۔ البتہ افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگوں نے انتخابات سے ڈیڑھ سال، دو سال پہلے ہی انتخابی مسائل کو اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ ہماری نظر میں یہ مناسب نہیں ہے۔ بے موقع ملک کے اندر انتخابی ماحول نہیں پیدا کرنا چاہئے۔ تقریبا دو سال کا وقت انتخابات کو باقی تھا کہ اسی وقت سے بعض لوگوں نے اخبارات میں اور تقریروں میں انتخابات کے بارے میں باتیں شروع کر دیں، بحث کا آغاز کر دیا۔ جب ملک میں انتخابی ماحول بن جاتا ہے تو معاشرے کے بہت سے بنیادی امور حاشئے پر چلے جاتے ہیں اور فراموش کر دئے جاتے ہیں۔ انتخابات کا ماحول رقابت اور ایک ٹکراؤ کا ماحول ہوتا ہے۔ ہم ایک سال دو سال پہلے ہی کیوں رقابت اور ٹکراؤ کا ماحول پیدا کریں؟ ان بحثوں کو قبل از وقت شروع کرنا ہماری نظر میں ملکی مصلحت میں نہیں ہے۔ ہاں اس وقت ٹھیک ہے۔ اب انتخابات کو تین چار مہینے رہ گئے ہیں تو اس وقت انتخابات کے بارے میں باتیں کی جا سکتی ہیں۔ میں آج کچھ باتیں عرض کروں گا اور آئندہ بھی اگر زندگی رہی تو انتخابات کے تعلق سے کچھ معروضات پیش کروں گا۔
انتخابات کا مسئلہ ملک کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انتخابات عوامی شراکت اور عوامی انتخاب کا مظہر کامل ہیں۔ انتخابات میں، خواہ وہ صدارتی انتخابات ہوں، پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے انتخابات ہوں، ماہرین کی کونسل 'مجلس خبرگان' کے انتخابات ہوں، عوام اپنی شرکت کے ذریعے، اس ملک میں حقیقی جمہوریت کی تصویر کھینچتے ہیں جو بیحد اہم ہے۔ انقلاب کو 36 یا 37 سال کا جو عرصہ گزرا ہے اس کے دوران ہم نے کبھی بھی انتخابات کو نہ رد ہونے دیا اور نہ کبھی ان میں تاخیر ہونے دی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں جب جنگ ہو جاتی ہے یا کوئی بڑا حادثہ پیش آ جاتا ہے تو انتخابات کو ملتوی کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ایران میں انتخابات کو ایک دن کے لئے بھی ٹالا نہیں گیا۔ کبھی بھی کسی بھی موقع پر۔ تہران پر بمباری ہو رہی تھی۔ خوزستان، ایلام، کرمانشاہ اور دیگر علاقوں پر بمباری ہو رہی تھی، لیکن ان حالات میں بھی انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوتے تھے۔ ملک کے دور دراز کے علاقوں میں بھی، دیہی علاقوں میں بھی جہاں آمد و رفت بہت دشوار ہے، ایسا ہی ہوا۔ اس ملک میں انتخابات کبھی کینسل نہیں ہوئے۔ بعض لوگ ایسے بھی تھے جو انتخابات کو کینسل کروانے کی کوشش میں تھے۔ بعض مواقع پر بعض سیاست بازوں نے اس ملک میں انتخابات کو کینسل یا ملتوی کروانے کی کوشش کی، لیکن توفیق خداوندی سے ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا گیا اور انتخابات اپنے مقررہ وقت پر انجام پائے۔ یہ انتخابات کی اہمیت کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں انتخابات بحمد اللہ جمہوریت کا حقیقی مظہر قرار پاتے ہیں۔
اسلامی جمہوری نظام حقیقی معنی میں ایک جمہوری اور عوامی نظام ہے۔ بیشک دشمن تو اپنا تبصرہ کرتا رہتا ہے۔ امریکی اور ان کے ابلاغیاتی عناصر ہمیشہ ہمارے انتخابات کے خلاف الگ الگ انداز میں بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔ طاغوتی حکومت کے دور میں پچیس سال تک امریکی، ایران میں اپنے قدم جمائے ہوئے تھے، مگر اس زمانے کی نمائشی اور مضحکہ خیز پارلیمنٹ پر انھوں نے ایک بار بھی تنقید نہیں کی۔ اگر آپ تاریخ کی ورق گردانی کریں اور محمد رضا کے زمانے میں ہونے والے انتخابات کے واقعات کا مطالعہ کریں، اس سے پہلے رضا شاہ کے زمانے میں تو خیر حالات اور بھی خراب تھے، جب یہاں برطانیہ کا تسلط تھا۔ برطانیہ کے بعد امریکیوں کا غلبہ ہو گیا۔ ایک بار بھی نمائشی انتخابات پر انھوں نے نکتہ چینی نہیں کی۔ آج بھی علاقے میں جو موروثی، ڈکٹیٹر اور مستبد حکومتیں ہیں، ان کے خلاف وہ اعتراض کے طور پر ایک لفظ بھی نہیں کہتے۔ مگر ایران پر جہاں یکے بعد دیگرے تسلسل کے ساتھ انتخابات ہوتے آ رہے ہیں اور رہبر انقلاب، صدر مملکت، ارکان پارلیمنٹ، ماہرین کی کونسل کے ارکان، بلدیاتی کونسلوں کے ارکان سمیت اہم عہدیداران کا انتخاب عوام کے ذریعے ہوتا ہے، وہ ہمیشہ اعتراض کرتے ہیں، ہمیشہ کیڑے نکالتے ہیں، من گڑھت نقائص بیان کرتے ہیں۔
بحمد اللہ اس مدت میں ہمارے یہاں ہونے والے انتخابات شفاف رہے ہیں۔ میں یہ نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہاں جو انتخابات ہوئے وہ ایسے تھے کہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق انھیں بہترین اور صحتمند ترین اور کثیر عوامی شرکت والے انتخابات کا درجہ حاصل ہے۔ ملک کے اندر بعض لوگوں کی بڑی خراب عادت ہے کہ ہمیشہ اور ہر دور کے انتخابات میں داغ لگانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ہی دھاندلی اور بدعنوانی کی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ کہنے لگتے ہیں کہ ایسا ہو جائے گا، ویسا ہو جائے گا! یہ بہت غلط طریقہ ہے۔ 37 سال کی اس مدت میں مختلف ادوار میں اور مختلف حکومتوں کے زمانے میں اسلامی نظام پر اپنے اعتماد کی وجہ سے عوام نے انتخابات میں شرکت کی اور پرجوش انداز میں انتخابات میں حصہ لیا۔ کیوں بعض افراد خود ہی اس اعتماد کو مخدوش بنانے کی کوشش کرتے ہیں؟ عوام کو نظام پر اعتماد ہے۔ جب انتخابات ہوتے ہیں تو عوام میدان میں آتے ہیں، حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں، تو بے بنیاد اور جھوٹی تشویش کا اظہار کرکے کوئی اس عمل پر سوالیہ نشان کیوں لگائے؟! جھوٹی تشویش ظاہر کرتے ہیں کہ کہیں دھاندلی تو نہیں ہو جائے گی! ظاہر ہے، دھاندلی کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔ بڑی شدید نگرانی ہوتی ہے۔ شورائے نگہبان (نگراں کونسل) کے وجود کی ایک اہم برکت یہی ہے کہ وہ نظر رکھتی ہے، نگرانی کرتی ہے کہ کہیں غلطی نہ ہونے پائے۔ اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ دھاندلی ہو۔ دوسرے ادارے بھی اسی طرح عمل کرتے ہیں۔ ان گزشتہ برسوں کے دوران بعض اوقات ہمیں رپورٹ دی گئی کہ انتخابات میں گڑبڑ ہوئی ہے۔ ہم نے تحقیق کا حکم دیا اور تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ ایسا نہیں تھا۔ کبھی ممکن ہے کہ گوشہ و کنار میں کوئی معمولی خلاف ورزی ہوئی ہو لیکن اس کا انتخابات کے نتیجے پر کوئی اثر نہ ہو تو یہ بہت بڑی بات نہیں ہے۔ انتخابات ہمیشہ صحیح اور شفاف ہوئے ہیں۔
عوام کے ووٹ حقیقی معنی میں حق الناس کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب ہمارے کسی ایرانی بھائی یا بہن کی انتخابات میں شرکت ہوتی ہے اور اس کا ووٹ پڑتا ہے تو اس کے اس حق و امانت کی حفاظت واجب شرعی ہے، واجب اسلامی ہے۔ اس امانت میں ہرگز خیانت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ واقعی حق الناس ہے۔ ووٹوں کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو، اس کا احترام کیا جانا چاہئے۔ یہ بھی حق الناس ہے۔ سنہ 2009 میں ہم نے ان افراد کی سختی سے مخالفت کی جو کہہ رہے تھے کہ انتخابات کو رد کر دیا جائے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ ہم حق الناس کا دفاع کرنا چاہتے تھے۔ سنہ 2009 میں چار کروڑ افراد نے، جو انتخابات میں شرکت کی بہت بڑی شرح کی علامت ہے، ووٹنگ کی۔ اس ووٹنگ کا ایک نتیجہ نکلا۔ انتخابات میں خواہ کسی کی بھی فتح ہوئی ہوتی ہم اسی طرح انتخابات کے نتیجے کا دفاع کرتے۔ میں نے حق الناس کا دفاع کیا۔ آئندہ بھی جب عوام ووٹ ڈالیں گے، خواہ وہ کسی کو بھی پسند کریں اور منتخب کریں، میں عوام کے ووٹوں کا دفاع کروں گا۔ عوام کی پشت پناہی کروں گا۔ عوام کے ووٹ حق الناس ہیں۔ اسلامی نظام پر عوام کو جو اعتماد ہے اسے بے بنیاد باتوں کے ذریعے ہمیں مخدوش نہیں کرنا چاہئے۔ کچھ لوگ ہیں جو کبھی وزارت داخلہ پر اعتراض کرتے ہیں، کبھی شورائے نگہبان کی خامیاں گنواتے ہیں۔
شورائے نگہبان انتخابات کے سلسلے میں اسلامی نظام کی 'چشم بینا' کا درجہ رکھتی ہے۔ ساری دنیا میں اس طرح کا ایک ادارہ ہوتا ہے۔ ممکن ہے اور جگہوں پر اس کا نام الگ ہو، یہاں اس کا نام شورائے نگہبان (نگراں کونسل) ہے۔ یہ ادارہ نظر رکھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ جو شخص انتخابی میدان میں قدم رکھنے جا رہا ہے، الیکشن میں کینڈیڈیٹ بن رہا ہے، اس کے اندر اہلیت و لیاقت ہے یا نہیں۔ اس ادارے کا کام ہے کہ اہلیت و لیاقت کا جائزہ لے۔ اگر نگراں کونسل کو یہ نظر آئے کہ جو شخص انتخابات کے میدان میں اترا ہے اس کے اندر لیاقت نہیں ہے تو اسے روکے۔ یہ اس ادارے کا حق ہے، یہ اس کا قانونی حق ہے۔ یہ اس ادارے کا منطقی حق ہے۔ بعض لوگ بلا وجہ اعتراض کرتے ہیں۔ اس ادارے کا کام بھی حق الناس کا جز ہے۔ شورائے نگہبان جو رائے قائم کرتی ہے، نگرانی کا جو موثر کام کرتی ہے وہ بھی حق الناس میں شامل ہے۔ اس کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ اس کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ تو سر درست انتخابات کے تعلق سے یہی ہمارے معروضات ہیں۔
مجھے عوام کی پرجوش اور بھرپور شرکت کا یقین ہے اور میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ شرکت اس ملک کی حفاظت کرتی ہے۔ اگر زندگی رہی تو اس بارے میں مزید کچھ باتیں عرض کروں گا۔
میں آپ برادران و خواہران گرامی کی خدمت میں تاکید کے ساتھ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ یاد رکھئے؛ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے ان عوام کی مدد سے، اپنی اس منطق و روش کی مدد سے اور اپنے موجودہ آئین کی مدد سے تمام دشمنوں پر غالب آئے گا۔ بس اس کی شرط یہ ہے کہ ہم اللہ کی ذات پر توکل کریں، آپس میں اخوت و یگانگت کو مضبوط بنائیں، ملک کے اندر تفرقے کا ماحول پیدا نہ ہونے دیں، ایک دوسرے کو کمزور نہ کریں۔ اگر ہم اس طرح خیال رکھیں گے تو یقینا اللہ تعالی بھی ہمارا خیال رکھے گا۔ جو شخص اسلام کی نصرت کرتا ہے، اللہ اس کی مدد کرے گا۔
پالنے والے! ہمارے عظیم قائد امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی روح مطہر کو اپنے اولیائے کرام کے ساتھ محشور فرما۔ ہمارے شہدا کی ارواح کو بھی اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگار! اس مومن و صالح قوم پر اپنی برکتیں اور اپنے الطاف دائمی طور پر نازل فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) آیت‌ الله شهید سیّد اسد الله مدنی‌
۲) جنرل رابرٹ ہائزر
۳) سوره‌ قصص، آیت نمبر 4 کا ایک حصہ؛ «... ان میں ایک گروہ کو زبوں حالی میں مبتلا رکھتا تھا۔ ان کے لڑکوں کے سر قلم کر دیتا تھا اور ان کی عورتوں کو (استعمال کے لئے) زندہ رکھتا تھا۔...»
۴) منجملہ صحیفه امام، جلد ۱۰، صفحہ ۴۸۹؛ امریکی سازش کے سلسلے میں خطاب بتاریخ ۱۳۵۸/۸/۱۴ ہجری شمسی مطابق 4 نومبر 1979
۵) دسویں پارلیمنٹ کے انتخابات اور ماہرین کی کونسل کے پانچویں دور کے انتخابات اسفند (20 فروری الی 20 مارچ 2016) کے مہینے مین منعقد ہونے والے ہیں۔