18 اسفند 1375 ہجری شمسی مطابق 8 مارچ 1997 کو اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے صوبہ خوزستان کے عوام کی شجاعت و ہمت کی داد دی اور جارح عراقی فوج کے حملوں کے جواب میں اس صوبے کے عوام کے شجاعانہ دفاع کی قدردانی کی۔
رہبر انقلاب اسلامی کا یہ خطاب ملاحظہ فرمائیے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین۔ و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا ونبیّنا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المتنجبین، الھداۃ المھدییّن، سیّما بقیـۃ اللہ فی الارضین۔ قال اللہ الحکیم فی کتابہ الکریم: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یا ایھا الذین آمنوا اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ جائتکم جنود فارسلنا علیھم ریحا و جنودا لم تروھا و کان اللہ بما تعملون بصیرا۔ اذ جاؤوکم من فوقکم و من اسفل منکم و اذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر و تظنون باللہ الظنونا۔ ھنالک ابتلی المؤمنون و زلزلوا زلزالا شدیدا۔

انیس سو اسی میں یہ شہر اور یہ صوبہ ایک عظیم اور خونبار امتحان الہی میں مبتلا ہوا۔ دشمن، سامراجی سازش، سامراجی اور صیہونی اداروں کی منصوبہ بندی سب نے مل کے ایسے حالات فراہم کئے کہ ہمارے وطن کا یہ حصہ سخت ترین اور خونبار امتحان الہی سے دوچار ہو۔ مسلط کردہ جنگ آٹھ سال تک چلی۔ یعنی انیس سو اسی سے اٹھاسی تک یہ جنگ چلی۔ اس دوران اس صوبے کے بہادر اور دلاور عوام اس انتہائی سخت امتحان میں مبتلا رہے۔ البتہ دشمن نے جںگ صرف خوزستان پر مسلط نہیں کی تھی بلکہ ایران پر مسلط کی تھی اور ملک کے دفاع کے لئے پورا ایران اس کے مقابلے پر اٹھ کھڑا ہوا۔ لیکن خوزستان دشمن کے سخت ترین اور شدید ترین حملوں کی زد پر تھا۔ دشمن نے اس صوبے میں سب سے زیادہ المناک حالات پیدا کئے اور اس صوبے کے عوام، خواتین، مرد، حتی سن رسیدہ افراد، نوجوان اور بچے سب سخت ترین امتحان میں مبتلا ہوئے یہاں تک کہ جنگ ختم ہوئی۔ اس خونبار جنگ کی سختیاں سب سے زیادہ سرحدی صوبوں کے عوام نے اور تمام سرحدی صوبوں میں، خوزستان کے عوام نے برداشت کیں۔
توجہ فرمائيں! جنگ ختم ہونے کے بعد آٹھ سال کا عرصہ گزرا ہے۔ اس دوسرے آٹھ سال میں جو تعمیری دور کے آٹھ سال ہیں، ایرانی قوم نے پوری ہم آہنگی کے ساتھ ایک عظیم تحریک کے تحت ملک میں تعمیری سرگرمیاں شروع کیں۔ جںگ سے براہ راست اور بالواسطہ ہونے والی تباہیوں اور اسی طرح اسلامی انقلاب سے پہلے طاغوتی دور میں ہونے والی تمام تباہیوں کو دور کرنے کے لئے تعمیر کی مہم شروع کی۔
آج میں اہواز کے عزیز عوام، اس صوبے کے دیگر شہروں، دیہی بستیوں اور قبائلی علاقوں سے یہاں جمع ہونے والے بھائیوں اور بہنوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی برکت سے ایرانی قوم نے مسلط کردہ خونبار جنگ کے آٹھ سال پوری قوت اور استقامت کے ساتھ گزارے اور ایران، اسلام نیز اسلامی جمہوری نظام کے دشمنوں کو جنھوں نے پوری دنیا کی سامراجی طاقتوں کا متحدہ محاذ تشکیل دے رکھا تھا، اس بات کی اجازت نہیں دی کہ اس عظیم، دلیر اور سرافراز قوم کے مقدس وطن اور سرزمین کے ایک بالشت حصے پر بھی قبضہ کر سکیں اور پھر سختیوں کے آٹھ سال گزرنے کے بعد بہت تیزی اور قابل تعریف مہارت کے ساتھ جنگ سے پیدا ہونے والی تباہیوں اور خرابیوں کو دور کیا اور ملک کی تعمیر بھی کی۔ یہ اسلام کی برکت ہے۔
میں آج آپ عزیزوں، خوزستان، شہر اہواز اور اس صوبے کے دیگر شہروں کے دلیر، مومن اور بااخلاص عوام کے سامنے جو عظیم ایرانی قوم کا ایک حصہ ہیں، یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مسلط کردہ جنگ کے آٹھ سال اور جنگ کے بعد گزرنے والے مزید آٹھ سال میں جو محنت اور کام ہوا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایرانی قوم جس طرح اب تک متحد رہی اگر اسی طرح متحد رہے، اگر ملک کی تعمیر کا تہیہ کر لے جو وہ کر بھی چکی ہے، تو دنیا کی کوئی بھی طاقت پورے عالم کی سامراجی طاقتیں متحد ہوکے بھی اس دلیر، محکم، باایمان، عزم را‎سخ کی مالک اور توانا قوم کو اس ملک اور اس مقدس نظام کو معمولی سی بھی زک نہیں پہنچا سکتیں۔ یہ کھوکھلا نعرہ اور محض الفاظ نہیں ہیں بلکہ عمل سے ثابت ہو چکا ہے اور اس عمل کا میدان خوزستان ہے۔
میں نے ایک دن اس شہر میں دیکھا کہ دشمن جس کے مورچے اہواز کے قریب ہی تھے ایک گھنٹے میں شہر کی سڑکوں پر سیکڑوں گولے برساتا تھا۔ اس زمانے میں صرف بعثی حکومت نہیں تھی جس نے ہم پر حملہ کیا تھا، بلکہ امریکا، دیگر سامراجی قوتوں، علاقے کی رجعت پسند اور استعمار کی پٹھو حکومتوں اور صیہونیوں کے خفیہ اتحادیوں، سب نے اس ملک میں لہرانے والے پر چم اسلام کو سرنگوں اور اسلامی تحریک کو ختم کر دینے کی کوشش کی۔ ان کی پوری کوشش یہ تھی کہ ایرانی قوم کو اسلام سے متمسک نہ رہنے دیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ جانتے تھے کہ اگر کوئی قوم اسلام سے متمسک رہے تو ظاہری اور مادی لحاظ سے وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، اس قوم کو نہ کسی کام پر مجبور کر سکتے ہیں، نہ کسی کام سے روک سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی بات اس پر مسلط کر سکتے ہیں۔ وہ قوم اپنے اعلی اسلامی افکار کے ساتھ، اپنے راستے پر گامزن رہے گی۔ جیسا کہ ایرانی قوم اپنے راستے پر آگے بڑھی ہے اور خوزستان کے عوام نے ایک بار مسلط کردہ جنگ میں اور ایک بار اس سے پہلے دسیوں سال تک جاری رہنے والے امتحان میں اپنی درخشاں کامیابی، تاریخ میں درج کرائي ہے۔
مسلط کردہ جنگ میں، سب جانتے ہیں، کوئی نہیں ہے جو نہ جانتا ہو کہ خرمشہر، آبادان، اہواز، دزفول اور اس صوبے کے دیگر شہروں کے بہادر، غیور اور مومن عوام نے دشمن کے مقابلے میں، جو چاہتا تھا کہ عوام شہروں سے نکل جائیں، کیا ردعمل دکھایا۔ نوجوان، بوڑھے، عورتیں اور مرد سب نے ڈٹ کے مجاہدت اور جنگ کی۔ میں نے سوسنگرد میں ایک مسلمان خاتون کو دیکھا جس کے لئے سوسنگرد کے لوگ کہتے تھے کہ جارح فوجیوں کے اس شہر میں داخلے کے وقت، اس نے اپنی لاٹھی سے کئی فوجیوں کو گراکے ختم کر دیا ہے۔ سخت امتحان اور تجربے سے گزرنے والے اس پورے صوبے میں مردوں، عورتوں، گھرانوں، شہروں اور دیہی بستیوں کے رہنے والوں، عرب، لر، اور بختیاری قبائل اور اس صوبے میں رہنے والے فارس عوام، سب نے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکے متحد ہوکے جارحین کا مقابلہ کیا۔ البتہ پوری ایرانی قوم سرحدی صوبوں کی مدد کے لئے آئی، اس میں شک نہیں ہے اور پوری ایرانی قوم کے لئے یہ ایک بڑا امتحان تھا لیکن کون ہے جو نہ جانتا ہو کہ دشمن کے پہلے حملوں میں سرحدی صوبے کیسی اذیتیں، دشواریاں اور مصیبتیں برداشت کرتے ہیں اور اس صوبے نے آٹھ سال تک یہ مشکلات برداشت کیں اور استقامت و فداکاری کا مظاہرہ کیا۔
اسلامی انقلاب سے پہلے، شاید انقلاب سے ستر اسی سال پہلے خوزستان کے علما اور مومن عوام نے انگریزوں کی جارحیت کے مقابلے میں استقامت دکھائی۔ وہ بھی ایک امتحان تھا۔ اس صوبے کے عوام کی تاریخ میں ایسے کئی عظیم اور پرشکوہ کارنامے موجود ہیں۔ البتہ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں، مسلط کردہ جنگ کے دوران پوری ایرانی قوم نے، سبھی شہروں اور صوبوں کے عوام نے حیرت انگیز کارنامے انجام دیئے۔ پہلے درجے میں خوزستان کے عوام نے دشمن کے سامنے استقامت سے کام لیا۔ مسلط کردہ جنگ کے بعد کے دور میں بھی اس صوبے میں انجام پانے والے تعمیری کام پورے ملک میں مثالی ہیں۔
پوری دنیا، تمام اقوام اور حکومتیں، جو ایران کے حالات پر نظر رکھتی ہیں، جان لیں کہ زندہ قوم نہ اپنے کام میں کبھی بے بس ہوتی ہے، نہ ناکام ہوتی ہے اور نہ ہی دوسروں کے سامنے کبھی جھکتی ہے۔ اس کو کبھی کسی دوسری قوم کی محتاج ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔
ایرانی قوم ایک زندہ قوم ہے اور اپنے امور خود چلا سکتی ہے۔ جو لوگ اپنے افکار و نظریات اور استعماری پالیسیاں اس قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اچھی طرح جان لیں کہ جب تک ایرانی قوم میدان میں موجود ہے، جب تک اسلامی جمہوری نظام کا بلند کردہ یہ پرچم عالمی سطح پر لہراتا رہے گا، جب تک حکام اور عوام کے درمیان یہ محکم رشتہ اور رابطہ موجود ہے، ایران اسلامی اور اس قوم پر وہ اپنی کوئی بات مسلط نہیں کر سکتے۔ ایرانی قوم عزم راسخ والی قوم ہے۔ اپنے ملک اور اس معاشرے کی تعمیر کے راستے پر جو اس کے مد نظر ہے، دوسروں کی پالیسیوں کو خاطر میں لائے بغیر گامزن اور آگے بڑھتی رہے گی اور کسی کو بھی اپنے ملک میں مداخلت کی اجازت نہیں دے گی۔ وہ اس قوم اور حکومت پر کوئی بات مسلط نہیں کر سکتے۔
میرے عزیزو! ہم نے انقلاب کا ایک دور گزار دیا ہے جو بہت سخت اور دشوار تھا۔ آج اسلامی دنیا ایرانی قوم کے انقلاب کے تجربے سے استفادہ کر رہی ہے اور بہت سے معاملات میں اس قوم کے قدموں کے نشان پر آگے بڑھ رہی ہے۔ دنیا میں بہت لوگ ایرانی قوم کی پیروی کر رہے ہیں۔
انقلاب کے بعد ہم نے دشمن کو پسپا کرنے کا مرحلہ گزارا جو انتہائی سخت اور دشوار تھا۔ ہم نے کہا کہ دشمن نے اس نیت کے ساتھ حملہ کیا تھا کہ کسی طرح اس انقلاب کو ناکام بنا دے اور ایرانی قوم کو انقلاب لانے پر پشیمان کر سکے۔ یہ بڑی سادہ لوحی تھی؛ لیکن عام طور پر سامراجی طاقتوں میں ان اقوام کی نسبت جو اٹھ کھڑی ہوتی ہیں، یہی فکر پائی جاتی ہے۔ یہ غلطی وہ تقریبا سبھی کے تعلق سے کرتی ہیں۔ بعض اقوام شکست کھا جاتی ہیں اور بعض قومیں دشمن کی فوجی یلغار کے مقابلے میں جو عام طور پر بین الاقوامی منصوبہ بندی کے ساتھ انجام پاتی ہے، پسپائی اختیار کر لیتی ہیں۔ لیکن ہماری قوم الحمد للہ اس مرحلے میں بھی کامیاب رہی اور دنیا کی تاریخ اور مزاحمت کرنے والی اقوام کی تاریخ میں یادگار اور اہم کارنامے درج کرائے۔ یہ دوسرا مرحلہ تھا۔
تیسرا مرحلہ، جو تباہیاں ہوئی تھیں ان کی جگہ پر تعمیرات اور مادی تعمیر نو کا مرحلہ ہے۔ اس مرحلے کی سرگرمیوں میں جںگ ختم ہونے کے بعد بغیر کسی وقفے کے تیزی آئی ہے۔ البتہ انقلاب کے بعد ہی سے یہ تعمیر نو مختلف شکلوں میں شروع ہو چکی تھی لیکن جنگ اس بات کا موقع نہیں دے رہی تھی کہ اس پر تیزی کے ساتھ عمل ہو۔ جنگ کے دور کے بعد تعمیرات اور تعمیرنو کے کام میں ضروری اور لازمی سرعت آئی۔ آج آپ صوبہ خوزستان میں، سرحدی صوبوں میں، جںگ سے متاثر ہونے والے تمام صوبوں میں اور ملک کے تمام علاقوں میں دیکھیں! ہر طرف کام، محنت، تعمیرات، خلاقیت نظر آئے گی۔ ایرانی قوم کی استعداد اور صلاحیتں ابھر کے سامنے آ رہی ہیں، قومی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے، وہ قیمتی قدرتی ذخائر جو خداوند عالم نے اس قوم کو عطا کئے ہیں، نکالے جا رہے ہیں اور اس قوم کے اختیار میں دیئے جا رہے ہیں۔ یہ بھی ایرانی قوم کا عظیم کارنامہ ہے۔ اقوام خانماں سوز جنگوں کے بعد دس سال ، بیس سال اور تیس سال میں محنت کرکے اپنے ملکوں کی تعمیر کرتی ہیں، لیکن ہم ایرانی قوم پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس نے آٹھ سال میں بڑے اقدامات کئے ہیں۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ تعمیرات اور تعمیر نو کا کام پورا ہو گیا ہے لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ بڑے قدم اٹھائے گئے اور یہ انقلاب میں ایرانی قوم کا تیسرا اہم کارنامہ شمار ہوتا ہے جو بہت اہم ہے۔ ہم ہمیشہ کہتے تھے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد بعض اقوام مختصر مدت میں ہی اٹھ کھڑی ہوئيں اور دوبارہ اپنے لئے خوشیوں اور زیبائیوں سے سرشار زندگی سنوارنے میں کامیاب ہوئیں اور اس سلسلے میں ہم بعض اقوام کا نام لیا کرتے تھے، اس وقت یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس لحاظ سے ایرانی قوم اگر ان سے آگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں ہے۔ یہ تیسرا قدم ہے۔
چوتھا قدم معنوی تعمیر نو؛ یعنی سماجی انصاف کا مکمل نفاذ ہے۔ یہ چوتھا قدم بھی اٹھایا گیا ہے لیکن اس میں روز بروز تیزی اور سرعت لانے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی سماجی نظام میں عدل و انصاف سب سے بالاتر اور سب سے اہم ہوتا ہے۔ انصاف ہی پیغمبران خدا کے اس دنیا میں آنے اور خدائی نظاموں کی تشکیل کا مقصد ہے۔ انصاف پورے ملک میں امتیاز، غربت، جہالت، محرومیت اور بعض لوگوں کے ذہنوں میں گھر کر جانے والی نادانیوں کا خاتمہ ہے۔ یہ کام ہیں جو انجام پانے ہیں۔ اگر ہم تعمیرات میں اور آگے بڑھیں لیکن عدل و انصاف کے نفاذ، امتیاز و تفریق کے خاتمے، حقوق کی برابری اور مسلمان عورتوں اور مردوں کے وقار کے احیا کے لئے کام نہ کریں تو ہم نے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی۔ ہم اس وقت کامیاب ہوں گے جب معاشرے میں معنویت، دین، اخلاق، عدل و انصاف، نیکیاں اور علم و دانش عام کر سکیں اور گوناگوں استعداد اور صلاحیتیں اجاگر کر سکیں۔ البتہ اسلامی جمہوری نظام نے پہلے دن سے ہی یہ سلوگن دیا ہے اور اس راہ پر آگے بڑھا ہے۔ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس مملکت میں وہ نظام ختم ہو گئے جو امتیاز اور ظلم پھیلنے کا باعث تھے۔ بادشاہی، شاہی حکومت، زور زبردستی کی حکمرانی، فرعونی ادارے، اشرافیہ سسٹم اور وہ نظام ختم ہو گئے جو صرف اپنے مفاد کی فکر میں رہتے تھے اور اس کے لئے وہ دوسروں کی دنیا و آخرت بھی برباد کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ آج معیار دین، تقوا اور اخلاق ہے۔ ہمارے نوجوان، خواتین، مرد اور مختلف اقوام سب دین اور معنویت کو اہمیت دیتے ہیں اور خدا کے فضل سے ملک کے حکام عدل و انصاف کے قیام کی فکر میں ہیں۔ یہ وہ چوتھا قدم ہے۔ یہ اصلی اور بنیادی کام ہے تاکہ اسلامی معاشرے کوحقیقی معنی میں عدل و انصاف کا معاشرہ قرار دے سکیں۔ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے عوام انصاف پسند ہیں، امتیاز، ظلم، زور زبردستی اور ان تمام خصوصیات کے مخالف ہیں جو کسی طاغوتی نظام سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کو ان خصوصیات کا مخالف ہونا ہی چاہئے۔
میں آج جب آپ کے اس عظیم اجتماع سے روبرو ہوا تو اہواز اور دوسرے شہروں اور دیہی بستیوں سے یہاں آکے یہ عظیم اجتماع تشکیل دینے والی خواتین و حضرات کے چہروں پر محبت و مہربانی اور خلوص کے جذبات مجھے صاف نظر آئے۔ آپ نے میرے ذہن میں بہت سی یادوں کو زندہ کر دیا۔ یہ وہی سن تیرہ سو اٹھاون ( ہجری شمسی مطابق انیس سو اناسی عیسوی) کا اہواز ہے، اس سال جب میں اس شہر میں آیا تھا تو اس انقلاب کے تئيں اہواز کے عوام میں کمال غیرت اور استقامت کا جذبہ جوش مار رہا تھا اور انقلاب انھیں جان کی طرح عزیز تھا۔ بیرونی طاقتوں کے ورغلائے ہوئے کچھ لوگ، عوام کے اندر قومیت کا تعصب اور اختلاف پیدا کرنے کے لئے اپنے پر فریب نعروں کے ساتھ عوام کے درمیان سرگرم ہو گئے تھے۔ کچھ عرب قومیت کی بات کرتے تھے اور کچھ غیر عرب کے نام پر اختلاف ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ عوام عرب و عجم کے فرق کو نہیں مانتے۔ انقلاب کے دوران، عوام فولاد کی مانند دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ مسلمان ہونا، ایرانی ہونا اور جارحین کے مقابلے میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہوکے استقامت کی داستان رقم کرنا عوام کی خصوصیت ہے۔
خوزستان کے عوام کے دلوں میں محبت اہلبیت علیہم السلام ہمیشہ موجزن رہی ہے۔ میں ایک نکتہ عرض کرتا ہوں۔ ایرانی قوم نے مکتب اہلبیت کو دو جگہ سے حاصل کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری ایرانی قوم اپنی شیعیت کے لئے دو انسانی منابع کی مرہون منت ہے۔ ایک اہواز اور دوسرے جبل عامل۔ ان معدودے چند مراکز میں سے ایک یہی شہر اہواز اور آپ کا خوزستان ہے۔ جو ایک ہزار دو سو سال قـبل مکتب اہلبیت کا مرکز تھا، جس نے ہمیشہ تشیع، دین اور محبت و تعلیمات اہلبیت کو حاصل کیا اور ایران کے دیگر علاقوں کے عوام تک پہنچایا۔ کچھ لوگ چاہتے تھے کہ خوزستان کے عوام کے درمیان اختلاف ڈال دیں جو اپنی انہی تاریخی، عرب، فارس، لر، دزفولی، شوشتری اور دیگر مختلف قومی خصوصیات اور گوناگوں لہجے کے ساتھ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے تھے، لیکن الحمد اللہ ان کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔
آخر میں میں آپ بہنوں اور بھائیوں سے دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں: ایک پہلے درجے کی اہمیت رکھتی ہے اور دوسری بات کی اہمیت اس کے بعد دوسرے درجے کی ہے۔ جو زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پورے ایران اسلامی میں اور اس سرفراز قوم کے درمیان جو چیز ابتدائے انقلاب سے آج تک اس بات کا موجب رہی ہے کہ دشمن اپنے ہدف میں کامیاب نہ ہو سکے، وہ عوام کے درمیان پایا جانے والا اتحاد ہے۔ یعنی سبھی ایرانی اقوام، بھائیوں اور بہنوں، سبھی طبقات، ہر لہجے اور زبان والوں اور سبھی صوبوں کے عوام کے درمیان، حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پیش کردہ اسلام کی انقلابی رہنمائیوں اور افکار پر اتحاد جنہوں نے اس حکومت اور نظام کی بنیادیں تیار کیں اور خدا کے فضل سے پہلے دن سے مجاہد، انقلابی اور عوام دوست علمائے کرام نے اذہان کو ان افکار سے روشناس کرایا۔ یہ پہلی بات اور خوزستان کے عوام سے میری پہلی سفارش ہے کہ الحمد للہ آپ خود اس صوبے سے تعلق رکھتے ہیں، اس صوبے میں انقلابی، نیک نام اور ایسے علما ہیں جو امتحان میں کامیاب رہے ہیں۔ اس اتحاد کی بنیادی شرط اس صوبے میں موجود ہے؛ یعنی پورے صوبے میں مومنین نے اس اتحاد کا تجربہ کیا ہے۔ وحدت کلمہ کی اسی طرح حفاظت کیجئے جس طرح ماضی میں آپ نے اس اتحاد کی حفاظت کی ہے۔ اس صوبے میں زبان، لہجہ، قومیت اور نسل کوئی بھی چیز آپ کی متحدہ صفوں میں معمولی سی بھی دراڑ نہ ڈال سکے۔ یہ اہم ترین اور بنیادی ترین بات ہے۔ میں پوری ایرانی قوم سے بھی یہی سفارش کرتا ہوں۔ الحمد للہ اس قوم نے ہمیشہ اس کا مثبت جواب دیا ہے اور آئندہ بھی اس کا جواب مثبت ہی ہوگا۔
دوسرا نکتہ جو اہمیت کے لحاظ سے پہلے نکتے کے بعد دوسرے ہی نمبر پر ہے اور اس پر آپ کے صوبے اور بعض دیگر صوبوں میں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، یہ ہے کہ مجھے بعض رپورٹوں کے ذریعے اطلاع ملی ہے کہ اب بھی اس صوبے کے گوشہ و کنار میں بعض جگہوں پر مسلم خواتین کے تعلق سے غلط اور جاہلیت کی رسومات پائی جاتی ہیں۔ یہ رسومات عورت کو اس شخصیت، آزادی اور وقار سے محروم کر دیتی ہیں جو اسلام نے اس کے لئے معین کیا ہے۔ اسلامی نظام میں اس طرح کے خرافات اور غلط افکار قابل قبول نہیں ہیں۔ پہلے مرحلے ميں خود خواتین کو چاہئے کہ وہ مطالبہ کریں کہ ان کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق سلوک کیا جائے۔ میں خواتین سے اور اسی طرح مردوں سے چاہے وہ عرب ہوں یا غیر عرب، بختیاری ہوں، لر ہوں یا دوسری قومیتوں سے تعلق رکھتے ہوں، میں ان سے چاہتا ہوں کہ اگر ان کے درمیان عورتوں کے تعلق سے یہ غلط رسومات موجود ہیں تو انہیں ترک کر دیں۔ تاکہ خواتین بھی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔ علم و دانش حاصل کر سکیں۔ خاندان کی تربیت کرکے ان کو ترقی دے سکیں، بچوں کو، عقل، علم و دانش اور کمال و معرفت سے آراستہ کرکے ان کا مستقبل سنوار سکیں اور دیگر سرگرمیوں میں، جس میں چاہیں حصہ لے سکیں۔ یہ وہ چیز ہے جو اسلام چاہتا ہے اور خدا کے فضل سے اسلامی جمہوری نظام میں اس کے امکانات اور سہولتیں فراہم ہونی چاہئے۔

دعا ہے کہ خدا وند عالم آپ سب کو اپنے لطف و کرم کے سائے میں رکھے۔ میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا ہے کہ الطاف الہی آپ کے شامل حال ہوں۔ و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ