رہبر انقلاب کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم

عظیم دن کی یاد دلانے والے برادران عزیز خوش آمدید! ویسے تو فوج نے مختلف شعبوں میں ہر جگہ قابل فخر کارنامے انجام دیئے ہیں۔ لیکن ہماری تاریخ میں یہ دن فضائیہ کے کارناموں کی یاد کا دن ہے۔ گفتگو کے آغاز میں ہی ایک نتیجہ بیان کر دوں جو ہمیشہ ہمارے کام آئے گا اور اس کے بعد وہ بات بیان کروں گا جو مد نظر ہے۔ وہ نتیجہ جو میں نے اخذ کیا ہے یہ ہے کہ بر وقت بڑے فیصلے بعض اوقات کسی فرد اور قوم کی قسمت بدل دیتے ہیں۔ فیصلہ کن اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جیسا کہ اس دن فضائیہ کے کچھ لوگوں کا دلیرانہ اقدام کا فیصلہ تھا۔ جو فضائیہ کی تاریخ میں درج ہو گیا ہے۔ اس کے اثرات آج تک جاری ہیں اور آئندہ بھی جاری رہیں گے۔
میرے عزیزو! اصل بات یہ ہے کہ اقوام کے دشمن اقوام پر تسلط قائم کرنے، ان کے قدم اکھاڑنے، انھیں شکست دینے اور انھیں نابود کرنے کے لئے گوناگوں تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ انھیں تدابیر میں سے ایک جو آج دنیا میں بہت سی جگہوں پر زیادہ نمایاں ہے، یہ ہے کہ وہ ملکوں کی فوج پر قبضہ کرتے ہیں۔ جب کسی ملک کی فوج غیروں کے قبضے میں چلی جائے تو پھر اس ملک کی سیاست کے میدان سے بھی سلامتی رخصت ہو جاتی ہے۔ بیرونی طاقت جب بھی ضروری سمجھتی ہے اس مسلح بازو سے کام لے کر اس ملک کے حالات کو درہم برہم کر دیتی ہے اور اس کے ذریعے ملک کی باگڈور اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔
اس سے ملکوں میں مسلح افواج کے اہم کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ماضی کی شاہی حکومت کے دور میں ایران کی حالت بھی کم و بیش ایسی ہی تھی۔ وہ حتی یہ سوچنے لگے تھے کہ اگر ملک کا سیاسی نظام جس میں پہلوی خاندان بھی شامل تھا، پسپائي پر مجبور ہو گیا تب بھی ایران کی مسلح افواج میں ان کے کارندے، امریکی مفادات کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ البتہ انہوں نے ایران اور ایرانی قوم، ہمارے گہرے اعتقادات اور ہمارے عوام کی طینت اور ان کی اصالت کو نہیں پہچانا تھا اور غلط اندازہ لگایا تھا۔ میری بحث اس وقت ان کے اندازے کے صحیح یا غلط ہونے سے نہیں ہے؛ میری بحث مختلف ملکوں کی مسلح افواج کے بارے میں ان کے عام اندازے سے ہے۔ آپ ان ملکوں کو دیکھیں جن کے فوجی سربراہ بیرونی طاقتوں کے زرخرید ہیں، دیکھئے کہ وہاں کیسے کام کرتے ہیں اور ممالک کی حالت کیا ہے؟!
اس کے برعکس جہاں فوج اور مسلح فورسز ملک کے بنیادی اصولوں اور اقدار کی پوری طرح پابند ہوں، وہاں وہ خود بخود ان اقدار کی محافظ ہوں گی۔ ہمارے ملک میں ایسا ہی ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران میں فوج اسلامی اور انقلابی اقدار کے دفاع میں ایک فیصلہ کن عنصر ہے۔ مسلح فورسز، فوج، پاسداران انقلاب اور عوامی رضاکار فورس، سب ملک میں یہی حیثیت رکھتے ہیں۔ یعنی خود اسلامی جمہوریہ کے اصول و اقدار کے بنیادی ستون ہیں۔ البتہ یہ صورتحال آسانی سے وجود میں نہیں آئی ہے۔ الحمد للہ آج فوج میں جو ماحول ہے اس کو وجود میں لانے میں فوج کے مومن افراد کا پوری فوج پر بہت بڑا احسان ہے۔ اسلامی جمہوری نظام سے سامراجی قوتوں کی برہمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں 'عسکریت' کے بارے میں اس قدر پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افوج بیکار اور اپنے ملک نیز اس کی انقلابی اور اخلاقی اقدار سے لاتعلق نہیں ہیں۔ بلکہ سختی کے ساتھ ان کی پابندی کرتی ہیں اور ان کے دفاع کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ وہ اس کو دیکھتے ہیں اور یہ بات انہیں پسند نہیں ہے۔ ان کی برہمی ان کے جھوٹے پروپیگنڈوں میں عیاں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران پڑوسی ملکوں کے لئے خطرہ ہے۔ یہ جھوٹ ہے۔ کہتے ہیں کہ ایران علاقے کی سلامتی کا دشمن ہے۔ یہ جھوٹ اور بہتان ہے۔ یہ نہیں ہے کہ ہم اس کو جھوٹ ثابت کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہر عقلمند انسان جو مسائل سے تھوڑی سی بھی واقفیت رکھتا ہے، اچھی طرح جانتا ہے کہ ان کی باتیں لایعنی اور فضولیات ہیں۔ اگر خلیج فارس کے علاقے میں امن ہوگا تو چونکہ خلیج فارس میں سب سے طولانی ساحل ہمارا ہے، اس لئے اس سلامتی سے ہمیں فائدہ ہوگا۔ اگر خلیج فارس میں بیرونی طاقتیں نہ ہوں تو چونکہ اس وسیع و عریض خلیج میں دوسرے ملکوں کے ساتھ ہمارے مشترکہ مفادات بہت زیادہ ہیں، اس لئے ہم اس علاقے میں امن و سلامتی کے لئے دوسروں سے زیادہ محنت کریں گے۔ یہ فطری امر ہے۔ کوئی بھی اپنے گھر کو غیر محفوظ بنانا نہیں چاہتا۔ خلیج فارس میں بد امنی وہ پھیلانا چاہتے ہیں یا کم سے بدامنی کی افواہ پھیلا کے غلط فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اس علاقے میں امن نہیں ہے تاکہ اپنے اسلحے بیچ سکیں، اپنے فوجی اس علاقے میں رکھ سکیں اور خلیج فارس کے ملکوں میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھا سکیں۔ یہ ان کے اہداف ہیں۔ ورنہ جو بھی اس علاقے کے جغرافئے کو دیکھے وہ سمجھ جائے گا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دوسرے ملکوں سے زیادہ اس علاقے کے امن و سلامتی کی فکر میں ہے۔ دشمن کا یہ پروپیگنڈہ جھوٹا ہے۔
لیکن اس پروپیگنڈے کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ بیدار ہیں اور ہماری مسلح افواج آمادہ ہیں۔ اگر ہماری مسلح افواج ایک گوشے میں ہوتیں، ناتواں اور لاتعلق ہوتیں، اپنے وطن، اس کی حیثیت اور اسی طرح اپنے عقائد اور اقدار کے دفاع پر قادر نہ ہوتیں تو دشمن اتنا پیچ وتاب نہ کھاتا۔ دشمن کا یہ ردعمل ہماری اچھی پوزیشن کو ثابت کرتا ہے۔ یہ ایک اصولی اور بنیادی بات ہے۔ آج ہماری مسلح افواج اس مقام پر ہیں۔
البتہ یہاں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کیفیت وجود میں لانے میں مسلح افواج کے بعض شعبے زیادہ موثر واقع ہوئے ہیں۔ انھیں شعبوں میں سے ایک فضائيہ ہے۔ الحمد للہ فضائیہ نے اس دوران بہت کام کئے ہیں۔ بہت زیادہ قربانیاں دیا ہیں۔ اس کے کمانڈر بہت اچھے رہے ہیں۔ اعلی سطح پر اس کی کمان بہت مومن افراد کے ہاتھوں میں رہی ہے جو بہت اچھے، بہت باصلاحیت اور بہت پسندیدہ شخصیت کے مالک رہے ہیں۔ ان میں بعض شہید ہو گئے اور بعض الحمد للہ زندہ ہیں اور بہت اچھی طرح فضائیہ کے امور چلا رہے ہیں۔ ہماری فضائیہ کی صورتحال یہ ہے۔
آج آپ فضائیہ میں ہیں، اپنی قدر و منزلت پر یقین کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی آپ کے سامنے یہ بات دہرائے یا آپ کی غلط تعریف کرے۔ فضائیہ کی سطح پر آپ کے کارناموں میں، قابل فخر کارنامے، پر شکوہ قربانیاں، قابل تعریف پروازیں، بہترین فنی کام، بر وقت دفاع کے اقدامات، بر وقت حملے، نمایاں صلاحیتیں اور بہترین جدیدکاریاں موجود ہیں۔ یہ سب آپ کے کارناموں میں شامل ہے۔ کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ یہ فضائیہ کی بنیاد اور امتیازی شان ہے۔
میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس پر اکتفا نہ کریں۔ مستقبل میں فضائیہ کا کردار اس کے ماضی کے کردار سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ بہت سے مواقع پر فضائیہ کی حیثیت اور کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ملک کی فضاؤں کی پاسداری میں بھی اور دیگر فرائض میں بھی جو اس کو دیئے جا سکتے ہیں، جیسے حملے اور جنگ میں اس کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ دفاع اور حملے دونوں میں فضائيہ کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ بنابریں فضائيہ کی ترقی اور پیشرفت کے لئے، بہت ہی وسیع منصوبہ بندی کریں۔ یہ کبھی نہ کہیں کہ ہم نے یہ کام کئے اور یہ کافی ہیں۔ اسی کو کافی نہ سمجھیں اور اسی پر مطمئن نہ ہو جائيں۔ جی نہیں، اگر ہم اس طرح اگے بڑھتے تو آج ہماری فضائيہ جہاں ہے وہاں تک نہ پہنچتی۔
جنگ میں ہمارے بہت سے ہوائی جہاز ضائع ہو گئے۔ کچھ طیارے ہم نے شامل کئے لیکن جتنے ضائع ہوئے ہیں وہ شاید اہمیت کے لحاظ سے ان سے زیادہ ہوں جن کی جگہ پر یہ طیارے ہم نے شامل کئے ہیں۔ اس کے باوجود ہماری فضائيہ دس سال پہلے کے مقابلے میں، سولہ سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ پیشرفتہ اور بہتر ہے۔ آج آپ کے پاس جو دانش ہے، جن وسائل سے آپ کو واقفیت ہے اور جو آپ کی توانائیاں ہیں وہ دس سال پہلے نہیں تھیں۔ یعنی آپ نے روز بروز پیشرفت کی ہے۔ جبکہ اس پیشرفت کے لئے جتنے طیاروں، نئے جنگی ہوائی جہازوں اور نئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے وہ آپ کے پاس نہیں تھے۔
البتہ ملک اپنے فوجی وسائل کی فراہمی میں بخل نہیں کر رہا ہے۔ جو بھی آپ کو ملا ہے، ملک کو ملا ہے، وہ ملک کے دفاع کے لئے ہے۔ کوئی بخل نہیں کر رہا ہے۔ دشمن بخل کر رہے ہیں۔ بعض امور میں کچھ خاص جہت اختیار کرنے کے تعلق سے عالمی امکانات محدود ہیں۔ دشمن کی ناکہ بندی بعض اوقات وہ چیزیں نہیں فراہم ہونے دیتی جو انسان چاہتا ہے۔ البتہ یہ ناکہ بندی ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں ہے۔ ختم ہونے والی ہے۔ جیسا کہ بہت سے میدانوں میں ہم نے خود یہ ناکہ بندی توڑ دی ہے۔ کسی کے احسان سے نہیں۔ اس سلسلے میں کسی نے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے جو بھی کیا ہے خود کیا ہے۔ اپنی قوت اور طاقت کے سہارے کیا ہے۔ ناکہ بندیوں کو ناکام بنانے میں بھی یہی ہوا ہے۔ اس سلسلے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
تو یہ پیشرفت کہاں سے آئی؟ مومن، مشتاق اور با ہمت عناصر کی کوششوں سے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو جہاں بھی رہیں، اس جگہ کو پائیدار، محکم، ناقابل تسخیر اور ملک کے لئے قابل فخر بنا دیتے ہیں۔ الحمد للہ فضائیہ میں ایسے افراد موجود رہے ہیں۔ اب بھی ہیں۔ کم نہیں ہیں۔ دشمنوں کی سرگرمیوں اور ان کے پروپیگنڈوں کے برعکس روز بروز ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ آج ہمارے مومن، با رغبت اور فعال نوجوانوں کی تعداد اور ہماری روز افزوں پیشرفت، دس پندرہ سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس لئے کہ ان عناصر کی تعداد بڑھی ہے اور وہ زیادہ کارآمد ہوئے ہیں۔ الحمد للہ کوالٹی اور مقدار دونوں لحاظ سے پیشرفت ہوئی ہے۔ بنابریں یہ انسانی عنصر(افرادی قوت) ہے جو ثمر بخش اور کارگر واقع ہوتی ہے۔
اعلی سطح پر الحمد للہ ہائی کمان میں مومن اور ایسے افراد ہیں جو ہمیں پور طرح قبول ہیں اور ان پر ہمیں پورا اطمینان ہے۔ فضائیہ کے کمانڈر سے لیکر مختلف کارکنان اور افسران تک جو جہاں بھی ہے، اپنے کام کے تعلق سے ذمہ داری کا احساس کرے۔ ہر ایک احساس ذمہ داری کے ساتھ کام کرے۔ تمام شعبوں میں، افرادی قوت کی ٹریننگ میں، قوت و طاقت کو بنائے رکھنے میں، پرواز میں، پرواز کے وسائل کی فراہمی میں، ملک کی فضاؤں کی حفاظت و پاسداری میں، جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، دفاع میں، فنی امور میں ، تعمیری کاموں میں، خلاقیت اور ایجادات میں، انتظامی امور میں، علمی تربیت میں، فوجی ڈسپلن میں، ہر چیز میں ذمہ داری کا احساس اور پیشرفت ہونی چاہئے۔
سب کو زیادہ محنت اور کوشش کرنی چاہئے۔ آج تعمیر کا دور ہے۔ تعمیر کے تعلق سے آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ فضائیہ کو سنواریں۔ اس کو تیار کریں۔ اس مبارک سلسلے کو جو فوج، مسلح فورسز اور فضائیہ میں شروع ہوا ہے، بڑھائیں۔ فضائيہ کے سیاسی اور عقیدتی شعبے سے وابستہ ہمارے محترم اور عزیز براداران بھی، دل و ذہن کی ہدایت اور ایمان کی تقویت کے ساتھ ہی یہ احساس پیدا کرنے میں مدد کریں کہ آج ملک کو سبھی مومن، فعال اور باصلاحیت افراد کی ضرورت ہے۔
ہم اپنے ملک کے بہت حساس دور سے گزر رہے ہیں۔ میرے عزیزو! آپ جانتے ہیں کہ ایک قوم کی زندگی میں، بیس سال، تیس سال اور پچاس سال کا عرصہ ایک لمحے کے برابر ہوتا ہے۔ یہ طولانی وقت نہیں ہے۔ جب سے یہ تحریک شروع ہوئی ہے، اس وقت سے آج تک تیس سال سے کچھ اوپر کا عرصہ گزرا ہے۔ اس انقلاب کی کامیابی کے بعد اٹھارہ سال گزرے ہیں۔ یہ تیس سال سے کچھ اوپر کا عرصہ اور یہ اٹھارہ سال اقوام کی زندگی میں ایک گھڑی اور ایک لمحے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن یہ گزرنے والے حساس لمحات فیصلہ کن ہیں۔ جس طرح آپ کی عمر میں بعض ایام، بعض گھڑیاں اور بعض مختصر سال فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جس دور میں آپ تعلیم حاصل کر سکتے تھے، اگر اس میں تعلیم حاصل کر لی تو آپ کی زندگی کچھ اور ہو جاتی اور اگر حاصل نہ کی تو کچھ اور ہوتی ہے۔ جو زمانہ ورزش کرنے کا ہوتا ہے، اس میں اگر ورزش کر لی تو بن جاتے ہیں اور نہ کی تو کچھ اور ہو جاتے ہیں۔ اگر جوانی میں اخلاقی اصولوں کی پابندی اور نفس کی پاکیزگی کا خیال رکھا تو آپ کچھ اور بن جاتے ہیں اور اگر نہ کریں تو کچھ اور ہو جاتے ہیں۔ اقوام کی زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
ان فیصلہ کن لمحات میں، یعنی انقلاب کے بعد سے آج تک اور بعد کے برسوں میں اگر یہ قوم ہمت، جہد مسلسل، ہوشیاری، خلاقیت اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ عمل کرے تو اس کا انجام کچھ اور ہوگا اور اگر خدانخواستہ آج بھی ماضی کی طرح، قاجاری اور پہلوی دور کی طرح جنہوں نے اس ملک کو دسیوں سال تک جمود اور تیرہ بختی کا شکار رکھا، کوتاہی سے کام لیا گیا تو خدا نخواستہ انجام کچھ اور ہوگا۔ یہی وجہ ہے جو میں عرض کرتا ہوں کہ محنت کرنے میں، سعی وکوشش میں، خلاقیت میں، ذمہ داری محسوس کرنے میں، ہر لمحے کی قدر کرنے میں اور آپ کو جو ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کو پوری توانائی سے انجام دینے میں کوتاہی نہ کریں۔ آپ میں سے ہر ایک، جہاں بھی ہے، اوپر سے نیچے تک مختلف شعبوں میں، اپنی جگہ کو خود سے مخصوص ایک فیصلہ کن مورچہ سمجھے کیونکہ حقیقت بھی یہی ہے۔
خداوند عالم سے آپ کے لئے توفیق، ہدایت اور نصرت کی دعا کرتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ کا ہر دن گزرے دنوں سے بہتر ہوگا۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ