18 ستمبر 1996 کو اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے ملکی حالات کا جائزہ لیا اور اہم چیلنجز کی نشاندہی کی۔ خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین ۔

خداوند عالم کا شکر گزار ہوں کہ جس طرح مسلط کردہ جنگ کے بعد موقع ملتے ہی میں اس 'شہید پرور' صوبے میں آیا اور مجھے آپ عزیزوں سے ملاقات کی توفیق حاصل ہوئی، اسی طرح ایک بار پھر اس تاریخی اور سربلند صوبے کے فداکار لوگوں سے ملاقات نصیب ہوئی۔
سب سے پہلے میں شہر ارومیہ کے عوام اور ان لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو دوسرے شہروں، دور و نزدیک سے زحمتیں اٹھاکے یہاں آئے اور اس محبت آمیز استقبالیہ تقریب میں شریک ہوئے۔ میں نے شہر کی سڑکوں پر لوگوں کا جو ہجوم دیکھا ہے، اگر اس کی وجہ سے بعض براداران و خواہران گرامی کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہو تو میں اس کے لئے معذرت چاہتا ہوں۔ خداوند عالم آپ سبھی مومن، مخلص اور فداکار لوگوں پر اپنی رحمتیں اور لطف و کرم نازل فرمائے۔
یہاں، اس صوبے کے ماضی، حال اور مستقبل کا ایک مختصر جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ صوبہ مغربی آذربائیجان، یعنی ملک کے اس حصے کے عوام کے بارے میں، جو آج مغربی آذربائیجان کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں، یعنی ہمارے دور سے متصل ماضی میں، آئینی انقلاب کی تحریک کے دور سے آج تک مختلف واقعات میں یہاں کے عوام امتحانات میں کامیاب رہے ہیں۔ آخری امتحان، مسلط کردہ جنگ کا میدان تھا۔ اس صوبے کے عوام اپنے عظیم شہیدوں کے ساتھ، شہید باکری جیسے جنگ کے قابل فخر سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ یہاں کے دلیر عوام، خواتین اور مرد، سبھی سربلند اور کامیاب رہے ہیں۔ مسلط کردہ جنگ سے پہلے بھی جب اکثر صوبوں میں جنگ اور لڑائی کی کوئی خبر نہیں تھی، یہاں کے عوام امتحان میں کامیاب رہے ہیں۔ یہاں کی ترک اور کرد دونوں اقوام نے انقلاب کے مخالفین اور فتنہ پرور عناصر کے مقابلے میں بہترین موقف اختیار کیا۔ اگر کوئی اس دور سے پہلے کی تاریخ، یعنی ہمارے زمانے سے متصل دور کی تاریخ پڑھے اور اس کا مطالعہ کرے تو دیکھے گا کہ اس ملک پر بیرونی طاقتوں کی یلغار کے دور میں، یعنی پہلی عالمی جنگ کے دوران بھی یہاں کے لوگوں نے بہت بڑا امتحان دیا ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے اواسط میں اس صوبے نے جن حالات کا سامنا کیا ہے، جو واقعات یہاں رونما ہوئے ہیں، ان کی ایران کے دوسرے علاقوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
آپ نوجوان حضرات اس نکتے پر توجہ فرمائيں، مورخین اور ایران کے مسائل کی رپورٹ تیار کرنے والوں کی تحریروں میں یہ نکتہ تلاش کریں۔ افسوس کہ اس کو یا تو ان کی تحریروں میں جگہ نہیں دی گئی یا زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ پہلی عالمی جنگ میں عیسائي دنیا کے دو تین ملکوں کے نمائندے ، بہت ہی کمزور پوزیشن میں ان اطراف میں مو جود تھے۔ روس، برطانیہ اور امریکا کے نمائندے اس صوبے میں موجود تھے۔ کس شکل میں؟ معلم اور ڈاکٹر وغیرہ کی شکل میں۔ توجہ فرمائيں! اس کے باوجود کہ یہ ممالک مختلف معاملات میں ایک دوسرے کے مخالف اور دشمن تھے لیکن انھوں نے دنیا کے اس خطے میں، ایک دوسرے کی مدد سے، اسی ارومیہ، خوی اور ماکو میں ایک استعماری مرکز قائم کیا۔ یہ وہی کام تھا جو بعد میں مقبوضہ فلسطین میں کیا گیا۔ البتہ وہاں یہ کام یہودیت کے نام پر کیا گیا اور یہاں عیسائیت کے نام پر۔
اس صوبے کے عوام برسوں سے اپنے عیسائی ہموطنوں کے ساتھ زندگی گزارتے رہے ہیں اور آج بھی ایک ساتھ ہیں اور آئندہ بھی اسی طرح رہیں گے۔ بھائیوں اور رشتے داروں کی طرح ۔ نہ اس دور میں ان کے درمیان کوئی مسئلہ تھا، نہ آج ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔ اس صوبے میں ہمارے آشوری، ارمنی، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائی ہموطن رہتے ہیں، اس دور میں بھی تھے۔ ان کے ساتھ مسلمانوں کے روابط دوستانہ رہے ہیں، مسلمانوں نے ہمیشہ ان کے ساتھ بردارانہ اور دوستانہ سلوک کیا ہے۔ ان کے درمیان کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ لیکن عبرت کا مقام یہ ہے کہ بیرونی اور سامراجی ملکوں کے نمائندوں نے دیکھا کہ اس صوبے میں کچھ عیسائی ہیں تو اس فکر میں پڑ گئے کہ مذہبی اور فرقہ وارانہ جذبات بھڑکا کے یہاں عیسائیت کا ایک مرکز قائم کریں اور اس حصے کو ایران سے الگ کر دیں۔
اس صوبے یعنی ارومیہ، سلماس، خوی، ماکو اور دوسرے شہروں کو سخت امتحان کا سامنا ہوا۔ تاریخ کے اس دور میں امریکا، روس اور برطانیہ کی حکومتوں کے نمائندوں نے یہاں ایک مشترکہ سازش تیار کی اور عجیب فتنہ برپا کیا۔ اس فتنے میں اسی ارومیہ، سلماس اور دوسرے علاقوں میں ہزاروں عیسائی اور مسلمان مارے گئے۔ اس صوبے میں اور ان شہروں میں اس وقت جو کچھ ہوا، جب وہ یاد آتا ہے دل متلاطم ہو جاتا ہے۔ انھوں نے ایسا کام کیا کہ مورخ لکھتا ہے کہ سلماس کے اطراف میں کوئی آبادی باقی نہیں بچی تھی۔ ارومیہ میں ہزاروں افراد قتل کر دیئے گئے۔ اس علاقے کے عوام کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ جب حملہ آور عثمانی، ایران کی سرحدوں میں، ارومیہ اور خوی میں داخل ہوئے تو لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ البتہ انھوں نے بھی یہاں آکے بعد میں ظلم و جور ہی کیا، یہاں تک کہ نکالے گئے۔ لیکن آپ دیکھیں کہ امریکیوں اور یورپ والوں نے جو قابل توجیہ عنوان سے عوام کی مدد کے نام پر، ڈاکٹروں کی شکل میں، اسپتال اور اسکول کھولنے کے نام پر یہاں آئے تھے، یہاں کے عوام کو ایسی مصیبتوں میں مبتلا کیا کہ عوام حملہ آور عثمانیوں کا استقبال کرتے ہیں۔
اس علاقے کے عوام نے بڑی سختیاں برداشت کیں اور دشمنوں نے ان کو ورغلایا، لیکن پہلی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شجاعت، استقامت اور پائیداری سے دشمنوں کو نکال باہر کیا اور دوسری بات جو اس سے بھی بڑی ہے یہ ہے کہ وہی ماضی کی اخوت دوبارہ اپنے درمیان قائم کی۔ مسلمان فرقے باہم متحد ہوئے، دشمنوں کے ورغلانے میں نہیں آئے، شیعہ سنی، ترک و کرد اور عیسائیوں اور مسلمانوں میں جنگ نہیں ہونے دی۔ یہ اس صوبے کے عوام کے فکری بلوغ کو ظاہر کرتا ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنے دل میں یہاں کے عوام کی اس بالغ نظری کی تحسین کی ہے۔ یہ اس صوبے کے عوام کا ماضی ہے۔
انقلاب کے بعد بھی، خود آپ نے بھی دیکھا اور دوسروں نے بھی مشاہدہ کیا کہ دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں یہاں کے عوام نے کس طرح استقامت اور پائیداری سے کام لیا۔ عوامی لام بندی اور مومن نوجوانوں نے بیرونی طاقتوں کی سازشوں، خباثتوں، تفرقہ انگیزی اور علیحدگی پسندی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس سے یہاں کے عوام کی عظمت اور ان کے شعور کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ بہت اہم اور قابل قدر چیز ہے۔ قدرتی لحاظ سے بھی یہ صوبہ ملک کے وسیع اور بابرکت صوبوں میں سے ہے۔
خداوند عالم نے اس صوبے میں عوام کے استعمال کے لئے اور ان کی خلاقیت کے احیا کے لئے بہت زیادہ نعمتیں اور وسائل مہیا کئے ہیں۔ یہاں کی زمین زرخیز ہے۔ پانی کافی ہے، بارش مناسب حد میں ہوتی ہے، جنگل ہیں، یہ بابرکت اور اہم جھیل ہے، تانبے، سونے اور دیگر معدنی ذخائر کی کانیں ہیں۔ عوام میں رشد اور ثقافت ہے۔ حالات سازگار ہیں۔ اس صوبے میں غربت اور بے روزگاری نہیں ہونی چاہئے۔ بے روزگاری کیوں ہے؟ اس لئے ہے کہ ماضی میں، انقلاب سے پہلے، اس صوبے کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ میں نے اعداد و شمار پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ اس صوبے میں یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل حضرات اور گریجویشن کی سطح کے طلبا کی تعداد انقلاب سے پہلے بہت کم تھی، لیکن آج پروردگار کے فضل و کرم سے دس گنا اور پندرہ گنا زیادہ ہے۔ اس دور میں یہاں کے عوام کے ساتھ ایک بڑا ظلم یہ ہوتا تھا کہ یہاں کے نوجوانوں کے لئے تعلیم کے وسائل اور سہولتیں نہیں تھیں۔ صنعت کاروں اور استعداد رکھنے والے ماہرین کے لئے صنعتی میدان میں کچھ کرنے کے امکانات نہیں تھے۔ کسان غلہ اور میوہ جات کی کاشت کرتا تھا لیکن اپنی پیداوار سے استفادہ نہیں کرپاتا تھا۔
انقلاب کے بعد اس صوبے میں کافی کام ہوا ہے۔ میں نے اعداد و شمار دیکھے تو خدا کا شکر ادا کیا کہ انقلاب کے بعد کے برسوں میں عوام کی خدمتگزار حکومت نے مختلف شعبوں میں کافی کام کئے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ہے وہ اس سے کم ہے جو اس کے بعد انجام دیا جائے گا۔
ہمارا ملک ایسا ملک ہے جس میں کام کے مواقع زیادہ ہیں۔ تمام صوبوں کو جب دیکھتے ہیں تو ان کی خصوصیات میں کچھ ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو کہیں اور نہیں پائی جاتیں۔ آپ کے صوبے میں بھی یہ خصوصیات ہیں۔ نوجوانوں کی کافی تعداد اس صوبے کا مضبوط پہلو ہے۔ یہ نوجوان ث‍قافتی، اقتصادی، تعمیری، معنوی اور مادی شعبوں میں اس صوبے میں بھی اور ملک کی سطح پر بھی، مستقبل میں افرادی قوت کی کمی پوری کر سکتے ہیں۔ نوجوان افرادی قوت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ خدمتگزار حکومت اور حکام تعمیری میدان میں بہت سنجیدگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ آج آپ ملک میں جہاں بھی دیکھیں تعمیری کام کے آثار نظر آئيں گے۔ جنگ سے ہونے والی تباہیوں کو بھی دور کیا جا رہا ہے اور اس سے بڑھ کر انقلابی تحریک کے دوران، یعنی شاہی حکومت کے دور میں ملک کا جو ڈھانچہ تباہ ہو گیا تھا، اس کو بھی از سرنو تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس صوبے میں بھی تعمیر کا کام شروع ہو گیا ہے اور کافی کام ہو چکا ہے۔ لیکن عوام آگے آئیں، حکام کی مدد کریں، تاکہ یہ صوبہ ترقی کرے۔ اس صوبے کے عوام کام کے ماہر اور باصلاحیت ہیں۔ یہ صوبہ ایک مثالی صوبہ بن سکتا ہے۔ مجھے جو رپورٹیں دی گئی ہیں میں نے انھیں دیکھا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس صوبے میں بے روزگاری ایک مسئلہ بن چکی ہے۔ کالا بازاری بھی ایک مسئلہ بن چکی ہے۔ کچھ لوگوں نے اسمگلنگ کا راستہ اختیار کیا ہے جو بہت غلط ہے۔ وہ اپنے اوپر بھی ظلم کر رہے ہیں اور اپنے صوبے پر بھی ظلم کر رہے ہیں۔ داخلی پیداوار کو ناکام بنا رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ پیداوار کا رخ کرتے، اپنے ملک، شہر اور صوبے کی ترقی کا باعث بنتے، غلط اور غیر قانونی کام کر رہے ہیں جس کا نتیجہ عوام کے لئے برائی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اگرچہ ان کے لئے کافی پیسے لا رہا ہے! یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس صوبے میں ثقافتی مسئلہ بھی کم و بیش پایا جاتا ہے۔
میرے عزیزو! ہمارے دشمن، ہمارے نوجوانوں کی، جنھوں نے انقلاب کے بعد سترہ سال میں معجزاتی کارنامے انجام دیئے ہیں، فکر، ذہن اور نفسیات کو ریڈیو اور ٹیلیویژن کی خطرناک اور مسموم لہروں کے ذریعے تسخیر کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے نوجوان ہوشیار رہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ سرحدوں کے اس پار سے کچھ لوگوں کے ذریعے جنھیں اس قوم کے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، جو چیزیں یہاں لائي جا رہی ہیں، ان کے تعلق سے احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ جو چیزیں بھی سرحدوں کے اس پار سے آ رہی ہیں، چاہے وہ اشیاء ہوں یا تشہیراتی اور ثقافتی لہریں، انہیں بغیر سوچے سمجھے قبول نہیں کرنا چاہئے۔ دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے؛ خاص طور پر اس نے ہمارے نوجوانوں کے لئے گھات لگا رکھی ہے۔ آپ اس کے پروپیگنڈوں کو دیکھیں، اس میں عوام کی فکری رشد و ترقی کے لئے ایک لفظ بھی نہیں ملے گا۔ دشمن کا پروپیگنڈہ برائیاں پھیلانے اور تباہ کرنے کے لئے ہے۔ نوجوانوں کے جسم و روح، قوت فکر اور کام کی صلاحیتوں کو معطل کرنے کے لئے ہے۔ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
ہم دشمنوں کی بھیجی ہوئی مسموم لہروں کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اپنے عوام کی بری عادتوں کی بات بھی کرنی چاہئے۔
میں اپنے لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں بھی احساس کروں کہ خواتین کے ساتھ بے اعتنائی یا ظلم ہو رہا ہے، متنبہ کروں۔ یہ ان نکات میں سے ہے جن پر اسلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ اس صوبے کے بعض حصوں میں، خاص طور پر کرد علاقوں میں، عورتوں کے ساتھ ، شوہر کے گھر میں توہین اور بے احترامی ہوتی ہے۔ حتی بعض اوقات انھیں میراث بھی نہیں دی جاتی جو ان کا حق ہے۔ یعنی خواتین کے قریبی رشتے دار بھی ان پر ظلم کرتے ہیں اور ان کا حق انہیں نہیں دیتے۔ شادی کرنے میں خواتین کی مرضی کو اہمیت نہیں دیتے۔ یہ سب اسلام کے خلاف ہے۔ اسلام میں گھر کے اندر بھی، کام کی جگہوں پر بھی، زندگی کے ماحول اور معاشرے میں بھی، ملک کے اندر بھی اور عالمی سطح پر بھی، ہر جگہ عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔
کچھ باتیں اس صوبے میں مختلف اقوام کے لوگ جس طرح ایک ساتھ رہتے ہیں، اس کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں۔ یہ میرے لئے بہت حیرت انگیز اور قابل تعریف ہے۔ اس صوبے میں ترک، کرد، شیعہ اور سنی، ایک ساتھ محبت و مہربانی کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے دور میں، جس چیز نے بیرونی دشمنوں میں، انقلاب کے ناکام رہنے کی امید پیدا کر رکھی تھی، وہ ہمارے وسیع ملک میں، بہت سی اقوام کا وجود ہے۔ ترک، عرب، فارس، کرد، لر، بلوچ اور ترکمن؛ مختلف اقوام پائی جاتی ہیں۔ دشمن کو امید تھی کہ وہ اس قومی تنوع سے فائدہ اٹھاکے ، اقوام کو ایک دوسرے سے لڑانے میں کامیاب رہے گا۔ آپ جہاں بھی دیکھیں، قوم پرستی کا پروپیيگنڈہ نظر آئے گا۔ قوم پرستی کے بیان میں مبالغہ نظر آئے گا۔ تحقیق کریں تو اس کے پیچھے دشمن کا ہاتھ ملے گا۔ دشمن یہ چاہتا تھا۔ لیکن وہ اس بات سے غافل تھا کہ ایرانی قوم ہر چیز سے پہلے ایرانی ہے۔ ترک، فارس، کرد، عرب اور دیگر اقوام، اپنے ایرانی ہونے اور اس بات پر فخر کرتی ہیں کہ ان کے ملک ایران نے آج دنیا میں پرچم اسلام بلند کیا ہے۔
دشمن اس صوبے میں آئے، کچھ عرصے تک اپنے فتنہ پرور کارندوں کے ذریعے ہمارے کرد عوام کو، جو ہمارے ہموطن ہیں، دوسرے ہموطنوں کی طرح ہیں، انھیں متاثر کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن اس صوبے کے عوام نے انھیں ٹھکرا دیا۔ خود کردوں نے فتنہ انگیزی کرنے والوں کو منھ توڑ جواب دیا۔
خدا کے فضل سے اس صوبے میں دشمن کا حیلہ کامیاب نہ ہوا۔ کرد عوام کو اپنے نعروں سے جمع نہ کر سکے۔ البتہ فریب خوردہ لوگ ہیں، کچھ خیانتکار بھی ہیں جو ورغلانے کا کام کرتے ہیں۔ آج وہ خیانتکار اور فریب خوردہ افراد، سرحدوں کے اس پار دشمنوں کی دی ہوئی روٹیوں پر پل رہے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ آج عراقی کردستان میں کیا ہو رہا ہے۔ کرد عوام، امریکا کی ہری جھنڈی پر صدام اور عراقی حکومت کے ورغلانے کے نتیجے میں ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے ہیں اور ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ جو لوگ عوام کو ایک دوسرے سے الگ کرنا چاہتے تھے، کرد، ترک اور دیگر اقوام کے نام الگ الگ لے رہے تھے، اس صوبے اور اس علاقے کے دیگر صوبوں میں بھی وہی صورتحال پیدا کرنا چاہتے تھے، جو آج عراقی کردستان میں ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ یہاں بھی برادرکشی کی جںگ شروع ہو، لوگوں کا خون بہے اور عوام برباد و تباہ حال ہو جائیں۔
آج پروردگار کے فضل سے اسلامی نظام کے سائے میں اور اس پرچـم کے نیچے، تمام ایرانی اقوام اور فرقے، متحد ہوکے زندگی گزار رہے ہیں اور اس حکومت اور اس نظام کو قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آج اسلامی نظام دنیا کا کامیاب اور سرافراز ترین نظام ہے اور اس پرچم کو تمام حکومتیں اور اقوام عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب دنیا کے لوگ خیانتکار شاہی حکومت کی بدعنوانیوں اور فضول خرچیوں کی افسانوی داستانوں کی وجہ سے ایران کا نام سنتے تھے! دنیا کے معروف قمار خانوں اور کاسینو میں شاہی خاندان کے افراد کی فضول خرچیوں اور قماربازیوں کی وجہ سے ایران کا نام سنتے تھے۔ اس وجہ سے ایران کا نام سنتے تھے کہ اس ملک کا بادشاہ اور حکمراں اس مظلوم قوم اور ملک کی دولت لے جاکے جوے خانوں میں ہار کے آتے تھے۔
آج وہ شجاعت، انصاف پسندی اور ظلم کی مخالفت کے عنوان سے ایران کو پہچانتے ہیں۔ آج الحمد للہ ایرانی قوم کی حالت شجاعت، استقامت و پائیداری، عزت و شرف کی وجہ سے ایسی ہو گئی ہے کہ اگر کوئی دنیا میں، سامراج کے تسط کی مخالفت کرنا چاہتا ہے تو آپ کو دیکھتا ہے۔ آپ سے سیکھتا ہے اور آپ کی پیروی کرتا ہے۔ آج ایران کا نام، عالمی سامراج کی تسلط پسندی کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت کے مرکز کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔ ایرانی قوم ایسی قوم ہے جو حکومت کو اپنی حکومت سمجھتی ہے۔ خود حکومت کو اقتدار میں لائی ہے اور اپنی حکومت اور حکام کی حمایت کرتی ہے۔ یہاں حکومت اور عوام، حکام اور عوام میں بہت مضبوط رشتہ پایا جاتا ہے۔ یہ اس ملک اور اس قوم کی خصوصیت ہے۔ اسی لئے میں اس بات کا اعادہ کرتا رہتا ہوں کہ امریکا کی سامراجی طاقت اور اس کے ایجنٹ اور زرخرید، اپنے پروپیگنڈوں، سیاسی کوششوں اور اقتصادی و ثقافتی سرگرمیوں میں اس قوم کو اس کے اصولوں اور اقدار سے دور کر دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس قوم نے اسلام سے تمسک حاصل کر لیا ہے، اپنے دشمن کے مقابلے میں استقامت و پائیدار کی بدولت سربلندی اور عزت کا احساس کر چکی ہے اور آزادی و خودمختاری کا مزہ چکھ چکی ہے۔ امریکا اور اس کے زرخریدوں کی سازشوں اور دھمکیوں نیز بعض عالمی اداروں کی خلاف ورزیوں کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے اور سرانجام میدان سے ایرانی قوم نہیں بلکہ اس کے دشمن باہر ہوں گے۔
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور اس کے سامنے جبین سپاس سجدے میں رکھتا ہوں، اس لئے کہ اگر آج ایران کی قوم اور حکومت مضبوط، سربلند اور پر امید ہے تو یہ خدا کے لطف و کرم اور اس کی نصرت کی وجہ سے ہے۔
پالنے والے شاہد رہنا! کہ ہم ان بے پناہ نعمتوں کو تیری عطا سمجھتے ہیں۔ ہم خود پر مغرور نہیں ہیں۔ ہم تجھ پر توکل کرتے ہیں؛ تجھ سے مدد چاہتے ہیں اور تجھی سے امید رکھتے ہیں۔ تیرے سامنے سرتعظیم جھکاتے ہیں اور جانتے ہیں کہ تو ہماری مدد کرےگا۔ یہ قوم رحمت و نصرت الہی کی مستحق ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس کے مرد اور خواتین سبھی صدق دل کے ساتھ راہ خدا میں کوششیں کرتے ہیں۔
آج ایرانی قوم ایران کے ہر گوشے میں، اس عظیم ملک میں ہر جگہ اس بات پر فخر کرتی ہے کہ اسلام اور عزت اسلام کے سائے میں زندگی گزار رہی ہے۔ حتی وہ لوگ بھی جو دین اسلام کے پیرو نہیں ہیں، دینی اقلیتیں، عیسائی، یہودی، پارسی اور دیگر ادیان الہی کے پیرو، سبھی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ پوری ایرانی قوم اس خدائی اور اسلامی نظام میں زندگی گزار رہی ہے۔ سبھی برادرانہ انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مہربانی سے رہتے ہیں۔ 'رحماء بینھم' (آپس میں مہربان ہیں) سب جارح، بدخواہ اور تسلط پسند دشمن کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں، 'اشدّاء علی الکفار' (کفار کے مقابلے میں ‎سخت ہیں) یہ ہے اشدّاء علی الکفا ر (1) کا مطلب۔ جارح اور حملہ آور کو امان نہیں دیتے لیکن آپس میں برادرانہ سلوک کرتے ہیں۔
دنیا میں کہاں آپ کو یہ چیز نظر آئے گی؟ یہی یورپ جو آزادی اور انسانی حقوق کا دم بھرتا ہے، یہی امریکا جو خود کو مختلف اقوام کے ایک ساتھ زندگی گزارنے کا مرکز کہتا ہے، وہاں اب بھی نسلی اختلافات عروج پر ہیں۔ یورپی ملکوں میں انتہا پسند قوم پرستی کے پیرو نوجوان سڑکوں اور گلیوں میں دوسروں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، دن کی روشنی میں انھیں زدوکوب کرتے ہیں حتی مار ڈالتے ہیں۔ امریکا میں کالے، گورے، مختلف ادیان کے ماننے والے، منجملہ مسلمان، اس کے باوجود کہ ان کی تعداد زیادہ ہے، اس ملک میں ایران میں دینی اقلیتوں کو جو سلامتی اور سکون حاصل ہے ، وہ امریکا میں اس سے بہرہ مند نہیں ہیں۔ جہاں کوئی بات ہوئی، اخبارات و جرائد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بولنا شروع کر دیتے ہیں۔
مسلمان جہاں بھی ہیں بیچارے کانپتے رہتے ہیں۔ آپ کو دنیا میں کہاں نظر آتا ہے کہ یہاں کی طرح سب برادرانہ محبت و مہربانی کے ساتھ رہتے ہوں؟!
میرے عزیزو! اس ماحول کی حفاظت کیجئے۔ دشمن کی طرف سے ہوشیار رہئے۔ دشمن کوشش کرتا ہے کہ ایران میں جو ملی یک جہتی اور اتحاد پایا جاتا ہے اس کو مختلف طریقوں سے ختم کر دے۔ دشمن کی طرف سے ہوشیار رہئے۔ دشمن فتنہ پرور ہے۔ ایرانی قوم پوری ہوشیاری کے ساتھ اپنے حکام کی پشت پناہی اور مدد کر رہی ہے۔ اس ملک اور قوم کا مستقبل تابناک ہے۔ خدا کے فضل سے مستقبل کا ایران ایسا ہوگا جس میں استعدادیں اور صلاحیتیں اجاگر ہو چکی ہوں گی اور ان شاء اللہ ایران ایسا ترقی یافتہ ملک بن جائےگا کہ اقوام عالم کی آنکھیں خیرہ ہو جائيں گی۔
امید ہے کہ آپ کا صوبہ اور اس صوبے کے تمام شہر، تعمیری کاموں کے اس مقابلے میں جو ملک میں شروع ہو چکا ہے، دوسروں سے آگے ہوں گے۔ کافی کام کرنے ہیں۔ آج الحمد للہ خدمتگزار حکومت تعمیری سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس سفر میں جو حضرات ہمارے ساتھ ہیں، وزرا اور انقلابی اداروں کے ذمہ دار عہدیداران، اس صوبے کے گوشہ و کنار میں ہونے والے کاموں کا معائنہ کریں گے۔ ان شاء اللہ سبھی شہروں میں ٹیمیں جائيں گی اور عوام سے ملیں گی۔ امید ہے کہ ہمارے ساتھ جو حضرات ہیں، وہ مشکلات کا پوری دقت نظری سے جائزہ لیں گے تا کہ ان شاء اللہ ان مشکلات کو اپنے وقت کے اندر، آپ کی مدد سے، الحمد للہ آپ کے اندر صلاحتیں پائی جاتی ہیں، ان صلاحیتوں کی مدد سے اور آپ کے کارآمد اور توانا ہاتھوں سے مناسب طریقے سے برطرف کیا جائے گا۔
خداوند عالم اپنا لطف وکرم آپ کے شامل حال کرے۔ حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی پاکیزہ دعائیں آپ کے شامل حال رہیں، اس صوبے کے علمائے کرام کو ان کے فرائض اور کاموں میں کامیابی ملے۔ سبھی اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں سے ہر ایک کو کامیابی عطا ہو تاکہ ان شاء اللہ سبھی ایک دوسرے سے متحد ہوکے وہ اہم امور انجام دے سکیں جو ان کے ذمے ہیں ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1- سورہ الفتح آیت نمبر 29