1395/02/29 ہجری شمسی مطابق 18-05-2016 کو اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ آج علما، مفکرین اور دانشوروں کی سب سے اہم ذمہ داری طاغوتی طاقتوں کے گمراہ کن مشن کے سد باب کے لئے حقائق کو بیان کرنا اور تشریح و توضیح کا جہاد انجام دینا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ امت مسلمہ بڑی طاقتوں کے وعدوں کے جھانسے میں آئے نہ ان کی دھمکیوں سے ہراساں ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلام اور مسلم امہ پر وار کرنے کی طاغوتی طاقتوں کی وسیع کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انھیں معلوم ہے کہ اگر مسلمان طاقتور ہو گئے اور ان کی آواز کا حجم بڑھ گیا تو پھر یہ طاقتیں قوموں پر مظالم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکیں گی اور مسئلہ فلسطین یعنی ایک اسلامی سرزمین کو غصب کر لئے جانے کا قضیہ ہرگز فراموش نہیں کیا جائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اللہ کی بارگاہ سے متمسک ہونے کے بجائے طاغوت کا دامن تھامنے کی بعض اسلامی ملکوں کی پالیسی پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ علاقے میں جو ممالک امریکی پالیسیوں کے نفاذ میں مصروف ہیں، در حقیقت مسلم امہ سے خیانت اور امریکی غلبے کا راستہ فراہم کر رہے ہیں۔
بسم‌ الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی‌ محمّد و علی آله الطّیبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

آج کا یہ جلسہ بڑا شیریں اور دل آویز تھا۔ اپنے عزیز نوجوانوں کے قرآنی ہنر اور تلاوت سے ہم محظوظ ہوئے۔ ہم دیگر ملکوں سے تشریف لانے والے اپنے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، اساتذہ قرآن کو بھی اور مقابلے میں شرکت کے لئے آنے والے افراد کو بھی۔
قرآنی مقابلوں کے جلسوں کا ایک بڑا حسن ان میں شرکت کے لئے مختلف ملکوں سے آئے مسلم بھائیوں میں باہمی انس پیدا ہونا ہے۔ گوناگوں استکباری پالیسیوں میں بڑی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا جائے، مسلم اقوام کو ایک دوسرے سے بیگانہ کر دیا جائے، یہی نہیں انھیں ایک دوسرے کے مقابلے پر لا کھڑا کیا جائے۔ لہذا مسلم اقوام کو چاہئے کہ اس سازش کے بالکل برخلاف عمل کریں۔ جہاں تک ہو سکے، جس طرح بھی ممکن ہو، آپسی انس و محبت کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ اس کا ایک طریقہ تو انھیں نشستوں کو اہتمام ہے۔ قرآن محور ہے، قرآن وجہ اشتراک ہے، تمام مسلمانوں کے لئے عظیم نعمت خداوندی ہے۔ اللہ کی عطا کردہ اس روحانی غذا کے دسترخوان سے سب کو بہرہ مند ہونا چاہئے۔ یہ قرآنی نشستیں، یہ قرآنی مقابلے، سب کو اس کا اعزاز اور موقع فراہم کرتی ہیں۔
ان نشستوں کی ایک اور برکت یہ ہے کہ ان سے ہمارے نوجوانوں میں، عوام الناس میں، گوناگوں صنفوں اور طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے اندر قرآن سے انسیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ ہم قرآن سے دور ہیں، امت مسلمہ قرآن سے دور ہے، ہماری زندگی، ہماری زندگی کے حقائق، قرآنی حقائق سے کافی فاصلہ رکھتے ہیں! ہمیں خود کو نزدیک کرنا چاہئے۔ امت اسلامیہ کی سعادت و کامرانی کا انحصار بھی اسی پر ہے کہ وہ خود کو قرآن سے، قرآنی مفاہیم سے، قرآنی معارف اور قرآنی تعلیمات سے قریب کرے۔ اس کی ایک صورت یہی ہے کہ نوجوانوں، عام انسانوں، عورتوں اور مردوں کی باہمی قربت اور انس کی بنیاد قرآن ہو۔ یہ بھی ان مقابلوں کی ایک اور برکت ہے۔ ان مقابلوں کا اہتمام کرنے والے منتظمین کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں، جو زحمتیں اٹھاتے ہیں اور ان مقابلوں کا بندوبست کرتے ہیں۔
آپ توجہ رکھئے! آج دنیا میں اسلام اور مسلمانوں پر وار کرنے کے لئے بہت بڑی مقدار میں سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے، بہت بڑے اقدامات انجام دئے جا رہے ہیں۔ دنیا کی طاغوتی طاقتیں اسلام سے ہراساں ہیں، ڈیڑھ ارب کی آبادی والے مسلم سماج سے خائف ہیں، اسی لئے گوناگوں طریقوں سے اسی کوشش میں رہتی ہیں کہ مسلم سماج کی طاقت کو سلب کر لیں۔ انھیں معلوم ہے کہ اسلام ان کے مقاصد کے خلاف ہے۔ اگر اسلام کا پیغام عام ہو گیا تو پھر قوموں پر وہ اس طرح ظلم جاری نہیں رکھ پائيں گی۔ وہ اسلام کی آواز کو کچل دینا چاہتی ہیں تا کہ مستضعفین عالم کے مسائل کو لوگوں کے ذہنوں سے محو کر دیں، مسئلہ فلسطین کو فراموش کروا دیں، ایک اسلامی مملکت پر غاصبانہ قبضے کی بات کو لوگوں کے ذہنوں سے نکال دیں، یہ ہے ان کا مقصد۔ اگر ہم قرآن اور اس کی ہدایات سے متمسک ہو جائيں تو ان سازشوں پر غلبہ پا لیں گے۔ اگر ہم اپنی جد و جہد کو جاری رکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہماری فتح یقینی ہے۔ قرآن سے تمسک اختیار کرنا چاہئے، عالم اسلام کو حبل اللہ سے متمسک ہو جانے کی ضرورت ہے، اسے چاہئے کہ خود کو محکم بنائے، اپنی استقامت کو یقینی بنائے۔ یہ آج عالم اسلام کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
ہمیں کمزور نہیں رہنا چاہئے۔ ہمیں طاقتور بننے کی ضرورت ہے۔ طاقت صرف اسلحے سے پیدا نہیں ہوتی، طاقت صرف پیسے سے نہیں ملتی، قوت کا اصلی سرچشمہ تو اللہ پر ایمان اور جذبہ پائيداری ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ: فَمَن یَکفُر بِالطّاغوتِ وَ یُؤمِن بِاللهِ فَقَدِ استَمسَکَ بِالعُروَةِ الوُثقی‌ لَا انفِصامَ لَها؛(۲) اگر اللہ پر ایمان ہو اور اگر طاغوت کی نفی کی جائے تو یہی 'عروۃ الوثقی' سے متمسک ہو جانا ہے۔ یہ باعث قوت اور باعث استحکام ہے۔ دنیائے اسلام میں ہمیں اس کی ترویج کرنا چاہئے، ہمیں اس کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ افسوس کا مقام ہے کہ عالم اسلام میں ایسے افراد بھی ہیں جو قرآن سے متمسک ہونے کے بجائے، طاغوت سے تمسک کو ترجیح دیتے ہیں، جو لوگ اس علاقے میں امریکی پالیسیوں کے نفاذ کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور امریکا کی پالیسیوں، اس کی مرضی اور میلان کے مطابق جو طاغوت اعظیم اور شیطان اکبر ہے، عمل کرتے ہیں، وہ در حقیقت طاغوت سے متمسک ہو گئے ہیں، وہ طاغوت کی نفی نہیں کر رہے ہیں۔ جبکہ پہلی شرط ہے؛ فَمَن یَکفُر بِالطّاغوتِ وَ یُؤمِن بِاللهِ؛ طاغوت کی نفی کی جائے۔
یہ جو ملت ایران امریکا کی توسیع پسندی اور بے جا مطالبات کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوئی ہے، یہی ملت ایران کی قوت و توانائی کا راز ہے۔ آج ہماری قوم ایک مقتدر قوم ہے۔ ایران میں اسلام کا معاملہ کسی خاص دینی شخصیت یا سیاسی شخصیت کا معاملہ نہیں ہے، اس کی حیثیت الگ ہے۔ ہماری ایک حکومت ہے، ایسی حکومت جس کے پاس وسائل ہیں، آٹھ کروڑ افراد پر مبنی قوم ہے، اسلحہ ہے، معیشت ہے، سیاست ہے، علم ہے، آج یہ ہے اسلامی جمہوریہ کی حقیقت۔ دشمن مقتدر اسلام سے ہی ڈرتا ہے۔ دشمن شجاع اسلام سے ہراساں رہتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ سے وہ اسی لئے خائف ہے اور اسی وجہ سے اس پر حملے کرتا رہتا ہے۔ ہمارے اوپر ان کے حملے اس خوف کی وجہ سے ہیں جو ان پر طاری ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ دنیا میں اسلامی جمہوریہ کے موقف کا خاص اثر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم دنیا کی مسلمان اقوام سے پوری صداقت کے ساتھ ہمکلام ہوتے ہیں۔ ہم جو کہتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں، اس کے مطابق اقدام کرتے ہیں۔ طاغوتی طاقتوں کے پرکشش وعدے اسلامی جمہوریہ کو اور ملت ایران کو فریب نہیں دے سکے۔ نہ تو ان کے وعدوں سے ہم نے فریب کھایا اور نہ ان کی دھمکیوں سے ہراساں ہوئے۔ ہمیں ان کی دھمکیوں کا بھی کوئی ڈر نہیں ہے اور نہ ان کے وعدوں کا کوئی لالچ۔ یہ ضروری بھی ہے۔ اسی راستے پر چلنا چاہئے۔ امت اسلامیہ کو اس کی بہت ضرورت ہے۔ طاغوت کی نفی اور اللہ پر ایمان، اگر یہ ہدف پورا ہو جائے تو نتیجہ ہوگا؛ فَقَدِ استَمسَکَ بِالعُروَةِ الوُثقی.(۳)
افسوس کا مقام ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں اپنے عوام سے خیانت کر رہی ہیں۔ بعض مسلم حکومتیں امت اسلامیہ کے حق میں خیانت کا ارتکاب کر رہی ہیں۔ امریکا کے غلبے کا راستہ ہموار کر رہی ہیں۔ طاغوت اعظم یعنی ریاستھائے متحدہ امریکا کی حکومت کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ اس کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنا رہی ہیں۔ یہ مسلمانوں کی آج بہت بڑی بدنصیبی اور ہمارے علاقے کا بہت بڑا المیہ ہے۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے جس کا ارتکاب یہ حکومتیں کر رہی ہیں۔
ملت اسلامیہ اور مسلم امہ کا فرض یہ ہے کہ حقائق پر روشنی ڈالنے کے لئے جدوجہد کرے۔ یہ سب سے پہلی چیز ہے۔ علما کی بھی ذمہ داری ہے، دانشوروں کا بھی فریضہ ہے، تعلیم یافتہ طبقے کے دوش پر بھی یہ ذمہ داری ہے، مقرر حضرات بھی ذمہ دار ہیں، جس کے پاس بھی کوئی پلیٹ فارم ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ وضاحت کرے، عالم اسلام کے حقائق کو ان لوگوں کے سامنے جو نہیں جانتے بیان کرے۔ یہ بیان حقائق بھی ایک جہاد ہے۔ جہاد صرف ہاتھ میں تلوار لیکر میدان میں قتال کرنا نہیں ہے۔ جہاد کے دائرے میں فکری جہاد بھی آتا ہے، علمی جہاد بھی آتا ہے، تبلیغی جہاد بھی آتا ہے، تشریحی جہاد بھی آتا ہے اور مالیاتی جہاد بھی شامل ہے۔ چونکہ ہم نے یہ جہاد یعنی حقائق کی تشریح کو صحیح طریقے سے انجام نہیں دیا ہے اس لئے کچھ لوگ گمراہی میں مبتلا ہو گئے ہیں اور نتیجتا اس خیال میں رہتے ہوئے کہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں، اسلام پر حملہ آور ہیں۔ ہمارے علاقے میں یہ دہشت گرد تنظیمیں جنھوں نے مسلم اقوام کا سکون و چین سلب کر لیا ہے، مسلم عوام کی آسائش چھین لی ہے، دشمن کے بجائے خود مسلمانوں سے بر سر پیکار ہیں۔ یہ تکفیری گروہ، وہابیوں سے قربت رکھنے والے گروہ دشمن کے کام خود انجام دے رہے ہیں۔ جو کام دشمن کرنا چاہتا ہے وہ یہی گروہ انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کے درمیان نفاق پیدا کر دیا ہے۔ جب مسلمان آپس میں دست و گریباں ہو گئے تو پھر مسئلہ فلسطین کو کون یاد رکھے گا۔ چنانچہ وہ مسئلہ فلسطین کو پوری طرح فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ حقائق بیان کئے جائیں، حالات پر روشنی ڈالی جائے، کام کیا جائے۔ ان قرآنی محفلوں کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ ان قرآنی اجتماعات سے استفادہ کیا جائے۔ آپ جو مختلف ملکوں سے یہاں تشریف لائے ہیں، اپنی اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کیجئے، ان کی رہنمائی کیجئے، قرآنی تعلیمات کی جانب، قرآنی جہاد کی جانب، اس تشریح و بیان کی جانب جس کا مطالبہ قرآن نے کیا ہے لوگوں کی ہدایت کیجئے۔ لَتُبَیِّنُنَّه‌ لِلنّاسِ وَ لا تَکتُمونَه؛ (۴) یہ چیزیں ان کے سامنے بیان کیجئے، انھیں آگاہ کیجئے۔
ان شاء اللہ پروردگار عالم امت اسلامیہ کی پیش قدمی کے لئے حالات کو سازگار بنائے گا۔ اگر ہم جہاد کریں، اگر ہم اقدام کریں، اگر ہم اپنی نیتیوں کو خالص بنائیں، تو یقینا اللہ تعالی ہماری مدد کرے گا۔ اگر ہم نے تساہلی برتی، اگر ہم نے وہ کام انجام نہ دیا جس کی ذمہ داری ہمارے دوش پر ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ ہمیں نصرت خداوندی کی توقع بھی نہیں رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالی ان کی مدد کرتا ہے جو محنت کرتے ہیں، جو سعی و کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ان قوموں کی مدد کرتا ہے جو پیش قدمی کرتی ہیں، ان انسانوں کی مدد کرتا ہے جو آگے بڑھتے ہیں۔ ہمیں محنت کرنا چاہئے، آگے بڑھنا چاہئے تبھی اللہ تعالی ہماری مدد کرے گا۔
ہمیں ذرہ برابر شک نہیں ہے کہ فتح اسلام کی ہونی ہے۔ اپنی تمام تر وسعتوں، زرق و برق اور تمام حربوں کے باوجود یہ محاذ کفر آخرکار امت اسلامیہ کے مقابلے میں، مجاہد اسلامی محاذ کے مقابلے میں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ وَ لَو قاتَلَکُمُ الَّذینَ کَفَروا لَوَلَّوُا الاَدبارَ ثُمَّ لا یَجِدونَ وَلِیًّا وَ لا نَصیرًا؛(۵) یہ سنت الہیہ ہے۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم محنت کریں، آگے بڑھیں، گامزن ہو جائیں اور کام کریں۔ اگر ہم نے کام کیا تو یہ سنت الہیہ ہے کہ دشمن پسپا ہوگا۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہم کو اور آپ کو قرآن کے سائے میں زندہ رکھے، قرآن کی معیت میں اس دنیا سے اٹھائے اور قیامت میں قرآن کے ساتھ ہی محشور فرمائے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) یہ ملاقات قرآن کریم کے 33 ویں بین الاقوامی مقابلوں کے انعقاد کے بعد ہوئی۔ ملاقات کے آغاز میں ادارہ اوقاف و فلاحی امور کے سربراہ حجت الاسلام علی محمدی نے ایک رپورٹ پیش کی اور مقابلوں میں ممتاز قرار پانے والے بعض قاریوں اور اساتذہ نے تلاوت کلام پاک کی۔
۲) سوره بقره، آیت نمبر ۲۵۶ کا ایک حصہ « تو جس نے بھی طاغوت کی نفی کی اور اللہ پر ایمان لایا یقینا وہ محکم رسی سے جو کھلنے والی نہیں ہے، متمسک ہو گیا ہے۔»
۳) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲۵۶ کا ایک حصہ « یقینا وہ محکم رسی سے جو کھلنے والی نہیں ہے، متمسک ہو گیا ہے۔»
۴) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۸۷ کا ایک حصہ «یہ عہد لیا کہ یقینا اسے لوگوں کے لئے (وضاحت کے ساتھ) بیان کریں اور اسے چھپائیں نہیں۔»
۵) سوره‌ فتح، آیه‌ نمبر ۲۲ کا ایک حصہ « جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے اگر وہ تم سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں تو یقینا وہ پیٹھ دکھا کر بھاگیں گے اور پھر ان کا کوئی یاور و مددگار نہ ہوگا۔»