رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں ماہ رمضان المبارک کی روحانی فضا سے حتی المقدور استفادہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے اس مہینے کی بعض دعاؤں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ رمضان المبارک کی بعض دعاؤں میں ایسے گناہوں سے نجات کی التجا کی گئی ہے کہ اگر خدانخواستہ ملک کے حکام ان میں مبتلا ہو جائیں تو اس کا نقصان پورے سماج اور ملک کو پہنچے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ دشمن کے منصوبوں کو پہچاننا اور اس کے مقابلے کے لئے دراز مدتی اور حفاظتی منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن کا منصوبہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی توانائیوں کو نابود کر دے اور اگر نابود نہ کر سکے تو توانائیوں کے نمو کو روک دے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ دشمن کی سازش کا مقابلہ کرنے کا واحد طریقہ صلاحیتوں کا صحیح اور مناسب استعمال اور ملک کی تقویت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں مشترکہ جامع ایکشن پلان اور فریق مقابل کی وعدہ خلافیوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے ملک کے اندر مشترکہ جامع ایکشن پلان کے حامیوں اور مخالفین دونوں کے موقف کو مبالغہ آمیز قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مبہم پہلوؤں کا ذکر کیا جن کا فریق مقابل غلط استعمال کر رہا ہے۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ اسلامی جمہوریہ نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ وعدہ ایفا کرنا قرآن کا حکم ہے، لیکن اگر مشترکہ جامع ایکشن پلان کو پھاڑ کر پھینک دینے کی امریکی صدارتی امیدواروں کی دھمکی پر عمل کیا گيا تو اسلامی جہوریہ ایران اس معاہدے کو آگ لگا دے گا اور یہ بھی قرآن کے حکم کی تعمیل ہوگی جو دونوں طرف سے وعدہ توڑے جانے سے متعلق ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

خواہران و برادران گرامی خوش آمدید! جناب صدر محترم کی تقریر کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ تفصیلی اور بہت اچھی باتیں بیان کیں۔ رمضان کی اس ملاقات کی ایک برکت اس مہینے کے روحانی ماحول سے حاصل ہونے والا فیض ہے۔ صحیح ہے کہ یہ ایک استثنائی نشست ہے۔ مختلف عہدیداران، اسلامی نظام کی ممتاز شخصیات، مختلف دھڑوں سے تعلق رکھنے والے، الگ الگ نظریات اور پسند کے حامل حکام و عمائدین یہاں تشریف فرما ہیں۔ گفتگو، مباحثے، ملاقات، اظہار محبت و انسیت کا بڑا اچھا موقع فراہم ہو جاتا ہے۔ یہ اس نشست کی برکتیں ہیں۔ لیکن ان تمام چیزوں سے زیادہ اہم وہ نکتہ ہے جس کا ذکر ہوا؛ یعنی ماہ مبارک کی اس روحانی فضا میں سانس لینا۔ ماہ رمضان کے ایام کے لئے وارد ہونے والی دعاؤں کے یہ فقرے ہم پڑھتے ہیں؛ وَ هذا شَهرُ الصّیام، وَ هذا شَهرُ القیام، وَ هذا شَهرُ الاِنابَة -«وَ اَنیبوا اِلی‌ ربِّکُم»(۲)- و هذا شَهرُ التَّوبَة، وَ هذا شَهرُ المَغفِرَةِ وَ الرَّحمَة.(۳) اس مہینے اور اس فضا کی یہ خصوصیات ہیں۔
ہماری توبہ کس گناہ پر ہے؟ یوں تو اس حقیر جیسے افراد سراپا گناہ ہیں۔ لیکن گناہوں کی دو قسمیں ہیں؛ ایک گناہ وہ ہے جس کا نقصان خود اس انسان تک محدود رہتا ہے۔ لیکن ایک گناہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک انسان سے سرزد ہو تو اس کا نقصان دوسروں تک بھی سرایت کر جاتا ہے۔ انسان کے یہ دانت جس چیز کو کاٹتے اور چباتے ہیں، کبھی وہ کوئی ایسی سخت چیز ہو سکتی ہے جو دانت کو توڑ دے لیکن اس کا ضرر کسی اور عضو کو نہیں پہنچتا۔ لیکن کبھی انسان اس دانت کی مدد سے ایسی غذا کھا لیتا ہے جو انسان کے جگر کو خراب کر دیتی ہے۔ غلطی جگر کی نہیں ہے، غلطی اس دانت کی ہے، غلطی منہ نے کی ہے۔ ہمارے گناہ کبھی اس قسم کے بھی ہوتے ہیں۔ ہم کوئی ایسا فعل انجام دیتے ہیں، کوئی ایسی بات کہتے ہیں، کسی ایسے راستے پر چل پڑتے ہیں کہ اس کا نقصان پورے سماج کو ہوتا ہے، ملک کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس قسم کے گناہ بہت بڑے گناہ ہیں۔ ان کی اہمیت زیادہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے؛ وَ اتَّقوا فِتنَةً لا تُصیبَنَّ الَّذینَ ظَلَموا مِنکُم خآصَّة (4) کبھی کوئی شخص ظلم کرتا ہے اور اللہ اس ظلم پر جو سزا دیتا ہے وہ بہت وسیع ہوتی ہے اور پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ایسے ظلم اور ایسے فتنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ یہ خطاب ہم عہدیداروں سے ہے، عوام الناس سے نہیں ہے۔ ہم عہدیداران ایسے مقام پر ہوتے ہیں کہ ایسے کام بھی کر سکتے ہیں جس کا نقصان پورے معاشرے کو پہنچے اور اس کے بر عکس ایسے عمل بھی انجام دے سکتے ہیں کہ اس کے فوائد سے پورا معاشرہ بہرہ مند ہو۔
علامہ طباطبائی رضوان اللہ تعالی علیہ سورہ نساء کی اس آیہ شریفہ؛ «مآ اَصابَکَ مِن حَسَنَةٍ فَمِنَ اللهِ وَ مآ اَصابَکَ مِن سَیِّئَةٍ فَمِن نَفسِکَ» (5) کی تفسیر میں ایک نکتہ بیان کرتے ہیں کہ انسانی معاشرے، کسی بھی ملک کا معاشرہ خاص جغرافیائی حدود کے اندر کا کوئی بھی معاشرہ ہے، جس کی ایک الگ شناخت ہے۔ اس میں افراد کی الگ الگ شناخت کے علاوہ اس کی ایک اجتماعی شناخت بھی ہوتی ہے۔ یعنی ملک کا پورا معاشرہ ایک زاویہ نظر سے ایک انسان کی مانند ہوتا ہے۔ جس طرح ایک انسان کے سلسلے میں یہ ممکن ہے کہ ایک عضو کوئی ایسا عمل انجام دے جس میں دوسرے اعضا بھی الجھ جائیں، اسی طرح معاشرہ بھی ہوتا ہے، ممکن ہے کہ معاشرے کا کوئی ایک رکن ایسا کام کر دے کہ سارے لوگ اس کی لپیٹ میں آ جائیں۔ معاشرے کو ایسے حادثات و سانحات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جس میں کچھ افراد بالکل بے گناہ ہوتے ہیں، تو پھر ایسے مواقع پر کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ؛ «مآ اَصابَکَ مِن سَیِّئَةٍ فَمِن نَفسِکَ»،وہ فرماتے ہیں کہ؛ نہیں، یہی صحیح ہے۔ اس صورت میں بھی وجہ «فَمِن نَفسِکَ» ہے۔ البتہ نفس ایک بہت وسیع خلقت ہے جس کا نام ہے معاشرہ، اس کے ایک جز نے گسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اب اگر ایسے گناہ سے ہمیں بچنا ہے تو بہت زیادہ احتیاط سے عمل کرنا ہوگا، مراقبے کی ضرورت ہوگی، دقت نظری کی احتیاج ہوگی۔ ماہ رمضان کی اس فضا سے ہمیں یہ سبق ملنا چاہئے، ہمیں اپنے نفس کو اس کی تلقین کرنا چاہئے۔ ہم جہاں بھی ہوں حقیقی معنی میں ہمیں پرہیز سے کام لینا چاہئے۔
ماہ رمضان کے ایام کی اسی دعا میں اللہ تعالی سے بہت سی چیزوں کی التجا کی گئی ہے۔ بڑی اچھی دعا ہے۔ اگر ممکن ہو تو اس دعا کو پڑھئے اور اس پر غور کیجئے۔ بڑی عجیب دعا ہے۔ اس دعا میں امام نے انسان کو ان چیزوں کی التجا کی تعلیم دے دی ہے جو انسان کے تصور سے پرے ہیں۔ اس دعا میں امام نے ہمیں سکھایا ہے۔ لہذا امام علیہ السلام سے منقول اس حدیث میں تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ سے ہمیں کیا مانگنا چاہئے۔ جو چيزیں ہم مانگتے ہیں ان میں ایک ان باتوں سے نجات ہے جو میں عرض کر رہا ہوں؛ جذبات و احساسات کی سردی اور جمود سے نجات، جذبہ عمل کے فقدان سے نجات، آپ دیکھئے کہ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ ہمارا ذہن نہیں سمجھ پاتا کہ یہ بھی بیماریاں ہیں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرنا چاہئے کہ ہمیں ان بیماریوں سے نجات دے اور شفا عطا فرمائے۔ غفلت سے نجات، سنگدلی سے نجات، انسان کا دل سخت ہو جاتا ہے ذکر پروردگار کے سلسلے میں بھی اور کسی شفیق کی نصیحت کی طرف سے بھی۔ جب کوئی انسان کسی کو نصیحت کرتا ہے، اس کی خیرخواہی کی بات کرتا ہے ممکن ہے کہ اس کا دل سخت ہو چکا ہو۔ یہ فقرے ہیں؛ وَ اَذهِب عَنّی فیهِ النُّعاسَ وَ الکَسَلَ وَ السَّأمَةَ (تھکاوٹ کا احساس) وَ الفَترَةَ (جوش و جذبے کا فقدان) وَ القَسوَةَ (سنگدلی) وَ الغَفلَةَ (بے توجہی) وَ الغِرَّةَ ( اپنے بارے میں دھوکے میں رہنا)۔ ہمیں ان چیزوں سے خود کو نجات دینا چاہئے۔ ہم اللہ سے ان چیزوں کی دعا کرتے ہیں۔
یہ بعض گناہ ہیں، ان سے بھی بڑے گناہ موجود ہیں، انسان پر ان گناہوں کا کیا اثر ہوتا ہے؟ ان کا ایک اثر تو یہی ہوتا ہے کہ جب انسان گناہ میں مبتلا ہے تو کوئی حساس موقع آنے پر، لغزش کا مقام آنے پر اس کی قوت ارادی کمزور پڑ جاتی ہے۔ قرآن کی آیت کہتی ہے؛ اِنَّ الَّذینَ تَوَلَّوا مِنکُم یَومَ التَقَی الجَمعانِ اِنَّمَا استَزَلَّهُمُ الشَّیطانُ بِبَعضِ ما کَسَبوا (6) جنگ احد میں وہ لوگ جو تحمل نہیں کر پائے اور مال غنیمت کے لالچ میں ان کے دل اس طرح دھڑکے کہ بھول ہی گئے کہ کیسی حساس ذمہ داری اور کتنا اہم فریضہ انھیں سونپا گیا ہے، نتیجتا جیتی ہوئی جنگ کو انھوں نے شکست میں تبدیل کر دیا۔ اِستَزَلَّهُمُ الشَّیطانُ بِبَعضِ ما کَسَبوا، انھوں نے پہلے غلطیاں کی تھیں اور ان غلطیوں نے یہاں اپنا اثر دکھایا۔ یہ بھی ایک مرحلہ ہے۔ یعنی ہمارے گناہ باعث بنتے ہیں کہ حساس مواقع پر، لغزش والی جگہوں پر ہم تاب نہ لا سکیں اور مزاحمت نہ کر پائیں۔ ہم ملک کے عہدیداران ہیں، اس بندہ حقیر سے لیکر حکومتی عہدیداروں، عدلیہ کے عہدیداروں، مقننہ کے عہدیداروں تک، اسی طرح دیگر عہدیداران کا جو ایک سلسلہ ہے، ہم سب عہدیداران ہیں۔ اگر ہم نے کوئی ایسا کام کیا کہ جس کا نتیجہ ہو؛ «اِنَّمَا استَزَلَّهُمُ الشَّیطان» اور ہمارے پاؤں لڑکھڑا جائیں، ہم استقامت کا مظاہرہ نہ کر پائیں، تو جہاں تحمل اور قوت برداشت کا مظاہرہ کرنا ہے ہم شدید خطرے میں ہوں گے۔ یہ ایک مرحلہ ہے۔
اس سے بھی بڑا اور اس سے زیادہ برا مرحلہ یہ ہے کہ ہم کبھی ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ہم منافقت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، یعنی ہمارے قول و فعل میں تضاد پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ آیہ شریفہ کہتی ہے؛ فَاَعقَبَهُم نِفاقًا فی قُلوبِهِم اِلی‌ یَومِ یَلقَونَه‌ُ بِمآ اَخلَفُوا اللهَ ما وَعَدوه (7) اگر کسی جگہ پر انسان اللہ سے کئے ہوئے عہد کا پابند نہ رہ سکا اور جو وعدہ اس نے اللہ کی بارگاہ میں کیا ہے اسے پورا نہ کر سکا تو اس کا نتیجہ ہے؛ «فَاَعقَبَهُم نِفاقًا فی قُلوبِهِم»، البتہ بالکل یہ منطقی اور فطری عمل کے تحت ہوتا ہے، البتہ اس کی تشریح کا وقت نہیں ہے کہ کیسے ایک گناہ انسان کو منافقت پر مجبور کر دیتا ہے۔
اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ کبھی ہمارے گناہ، ہماری غلطی اور ہماری کجروی کے نتیجے میں، اللہ بچائے، اللہ کی نازل کردہ چیزوں کو ہم جھٹلانے لگتے ہیں؛ ثُمَّ کانَ عاقِبَةَ الَّذینَ اَسآءُوا السّوأَی‌ٰ اَن کَذَّبوا بِآیاتِ الله (8)، اس سے بچنے کا طریقہ ہے مراقبہ، ہمیں محاسبہ نفس کرتے رہنا چاہئے۔ اپنے اعمال کی نگرانی کرتے رہنا چاہئے۔ اپنے ماتحت عملے کی نگرانی کرتے رہنا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ جوش و جذبہ بڑھائیں، محنت اور لگن سے کام کریں، زیادہ کام کریں، لغزش والی جگہوں پر جانے سے بچیں۔ ایک جملے میں یوں کہا جائے کہ تقوا اختیار کریں۔ تقوا جو ماہ رمضان کا فلسفہ اور غرض و غایت قرار دیا گيا ہے، اس کا یہی مطلب ہے۔ تقوی یعنی اپنے اعمال کی نگرانی۔ ہمیں دائمی طور پر اپنے اعمال پر نظر رکھنی چاہئے۔ البتہ یہ نصیحت میں سب سے پہلے اپنے آپ کو کر رہا ہوں۔ ہم سب عہدیداران ہیں، ہمیں ماہ رمضان کی اس اہمیت کو سمجھنا چاہئے۔
عزیز بہنو اور بھائیو! ہمیں اس ماہ رمضان کی جس سے اس وقت ہم گزر رہے ہیں، قدر کرنا چاہئے۔ تاریخ میں ہزارہا ماہ رمضان آئے اور گزر گئے اور ہزاروں ماہ رمضان آئیں گے جن میں ہم اور آپ نہیں ہوں گے۔ تاریخ کے ان اربوں ماہ رمضان میں ہم کتنے مہینوں یا کتنے درجن مہینوں میں موجود ہوں گے۔ ہمیں توفیق ملی ہے کہ سن بلوغ کو پہنچنے سے لیکر عمر کے آخری حصے تک بیس، تیس، پچاس یا ساٹھ رمضان کے مہینوں میں موجود رہیں۔ ہمیں یہ جو ماہ رمضان کے چند مہینے ملے ہیں، ان کی قدر کرنی چاہئے۔ سال گزشتہ اسی ماہ رمضان میں ہمارے دوستوں اور قریبی لوگوں میں سے کچھ افراد موجود تھے جو اس سال نہیں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آئندہ سال ہم میں سے کون رہے گا اور کون نہیں رہے گا۔ لہذا اس ماہ رمضان کی قدر کیجئے۔ یہ استغفار کا مہینہ ہے، توبہ کا مہینہ ہے، بیدار ہونے کا مہینہ ہے، خدائے تعالی کی بارگاہ میں حضور قلب کے ساتھ پیش ہونے کا مہینہ ہے، عبادت کا مہینہ ہے، گریہ کا مہینہ ہے، روحانیت و معنویت سے دل وابستہ کرنے کا مہینہ ہے۔
بسا تیر و دی ‌ماه و اردیبهشت‌ بیاید که ما خاک باشیم و خشت (9)
ملکی مسائل کے بارے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم بہت حساس دور میں ہیں۔ ملک کی موجودہ پوزیشن بہت اہم ہے۔ صدر محترم نے کچھ اقدامات کا ذکر کیا، ان اقدامات کو آگے بڑھانا چاہئے، بعد کے اقدامات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے یہاں تک کہ ان میں جو کمیاں ہیں وہ پوری ہو جائیں۔ یہ سارے اقدامات ضروری ہیں۔ ملک کے دوسرے محکموں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے حصے کے اقدامات انجام دیں۔ ملک کو اس وقت خاص قسم کے حالات در پیش ہیں۔ یہ صرف اس مہینے اور اس سال کی بات نہیں، بلکہ یہ دور اور یہ دورانیہ بہت اہم ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ایک طرف تو ملک کے اندر موجود بے پناہ توانائیاں اور صلاحیتیں نظر میں آئی ہیں۔ اوائل انقلاب کے زمانے میں ہم اپنے ملک کی بہت سی توانائیوں سے لاعلم تھے، ہمیں ان کی خبر نہیں تھی، ان کے بارے میں کوئی تجربہ نہیں تھا۔ مگر آج ہمارے ارکان پارلیمنٹ، وزرا، عہدیداران، ملک کی علمی شخصیات، سیاسی رہنما، ملک کے پاس موجود صلاحیتوں اور توانائیوں کی اس عظیم وادی کے بارے میں بہت کچھ سمجھ چکے ہیں۔ یہ امر واقعہ ہے۔ میں بعض اہل نظر افراد کے مقالے پڑھتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ان حقائق پر بحمد اللہ ان کی توجہ ہے۔ تو ایک طرف یہ توانائیوں اور صلاحیتوں کے بارے میں پیدا ہونے والی آگاہی ہے، یہ ادراک ہے کہ ہمارا ملک بڑا عظیم اور حیرت انگیز ملک ہے۔ میں نے چند سال قبل یہیں پر عرض کیا تھا (10) کہ ہماری آبادی دنیا کی آبادی کا ایک فیصدی حصہ ہے اور ہمارے ملک کا رقبہ بھی دنیا کے رقبے کا سواں حصہ ہے، لیکن اللہ تعالی نے جو وسائل اور امکانات ہمیں دئے ہیں وہ ایک فیصدی سے کافی زیادہ ہیں۔ اس وقت میں نے کہا تھا تین فیصد، چار فیصد لیکن حال ہی میں مجھے رپورٹ ملی ہے کہ تقریبا چھے سات فیصدی وسائل ہیں۔ یعنی دنیا میں پائے جانے والے وسائل کی اوسط شرح سے چھے سات گنا زیادہ وسائل ہمارے پاس ہے۔ یہ تو معاملے کا ایک رخ ہے۔
وسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے دشمن بھی موجود ہیں۔ ہمارا ملک ایسا نہیں ہے جسے کسی دشمنی اور کسی کی جانب سے وار کا اندیشہ نہ ہو۔ ہمارا دشمن موجود ہے۔ البتہ ملکوں کے درمیان، حکومتوں کے درمیان اور طاقتوں کے درمیان دشمنی کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اسلامی جمہوریہ کے معاملے میں اس کا انداز بالکل الگ ہے۔ خاص طرح کی دشمنی ہے۔ کیوں؟ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایسی حقیقت ہے جس کی دنیا میں کوئی اور مثال نہیں ہے۔ اسے دنیا کی بڑی طاقتیں بغور دیکھ رہی ہیں۔ ممکنہ طور پر آپ نے پڑھا یا سنا ہوگا کہ چند سال قبل ہمارے فلاں دشمن ملک میں اسلام اور سیاسی اسلام کے بارے میں اسٹڈی اور ریسرچ کے لئے کوئی انسٹی ٹیوٹ قائم کیا گيا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اس حقیقت کی گہرائی کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ اسلام کی بنیاد پر ایک نظام حکومت تشکیل دیا گیا ہے۔ اسلامی اصولوں پر استوار ہے، ایسے اصولوں پر جو استکبار کی نفی کرتے ہیں، استبداد کی مخالفت کرتے ہیں، ظلم کے خلاف ہیں، تفریق کے حلاف ہیں، سود خوری کے خلاف ہیں، ایسے بہت سے کاموں کی مخالفت کرتے ہیں جو دنیا میں آج پوری طرح رائج ہیں۔ ان فکری و عملی بنیادوں پر استوار ایک نظام تشکیل پا چکا ہے اور روز بروز نمو کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ لاکھ کوششوں کے باوجود دشمن اس کی پیش قدمی کو روک پانے میں ناکام رہے، اس کی جڑیں اور بھی گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ اب تو وہ خود چیخ پکار مچاتے ہیں کہ ایران علاقے میں اکیلا کھلاڑی ہے۔ علاقے میں ایران کے اثر و نفوذ کا موازنہ کسی بھی ملک کے اثر و نفوذ سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات خود امریکی کہتے ہیں۔ یہ میں نہیں کہتا جسے رجزخوانی پر محمول کیا جائے۔ تو یہ ایسا نظام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج عالمی سطح پر ایک نئی طاقت ابھر رہی ہے، منصہ ظہور پر نمودار ہو رہی ہے اور یہ طاقت استکباری طاقتوں کے ظالمانہ مفادات کے لئے چیلنج بن گئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ سے دشمنی کی یہی وجہ ہے۔ یہ دشمنی کسی اور ملک سے نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ دیگر حکومتوں کے درمیان بھی اختلافات ہوتے ہیں، ارضی اور سرحدی اختلافات، اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ آپس میں دشمنیاں بھی ہوتی ہیں۔ لیکن اس انداز کی دشمنی صرف اسلامی جمہوریہ کے ساتھ ہے۔ تو ہم نے ایک طرف ان توانائیوں کا ادراک حاصل کر لیا ہے، ان کا احاطہ کر لیا ہے، پہچان لیا ہے۔ دوسری جانب ہمارے سامنے ایک ضدی دشمن بھی موجود ہے۔
یہ دشمن جو بھی کارروائی کرنے کا منصوبہ بنائے ہمیں اس کی شناخت ہونا چاہئے، تاکہ ہم بھی اپنے بنیادی اور کلی پروگراموں کو سمجھ سکیں۔ حکومتی منصوبے اور اجرائی پالیسیاں سب اسی بنیادی پروگرام کے تحت طے پاتی ہیں اور اسی کے ضمن میں معنی و مفہوم حاصل کرتی ہیں۔ اس پر توجہ دیجئے۔ یہ سب کام انجام دینا چاہئے، لیکن اسے اس کلی نگاہ اور دراز مدتی زاویہ نظر کے تحت رکھنا چاہئے تاکہ اس کا فائدہ مل سکے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ہمارے خلاف اس کا منصوبہ کیا ہے؟ اس شناخت کی بنیاد پر ہمیں تحفظ، سلامتی اور پاسبانی و حفاطت کے لئے اپنے منصوبے تیار کرنا چاہئے۔
میں مختصر طور پر عرض کرنا چاہوں تو یہ کہنا چاہئے کہ دشمن کا منصوبہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی توانائیوں اور صلاحیتوں میں جمود کی کیفیت پیدا کر دے۔ یا انھیں پوری طرح ختم کر دے یا کم از کم ان کے نمو کا راستہ روک دے۔ یہ دشمن کی سازش ہے۔ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہمیں چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے اپنی توانائیاں بڑھائیں۔ میں نے اس اجلاس میں بھی اور دوسرے اجلاسوں میں بھی بارہا عرض کیا ہے کہ ملک کو طاقتور بنانا چاہئے۔ یعنی گوناگوں توانائیوں میں وسعت لانا چاہئے۔ میں اس اجلاس میں بھی اور دوسرے اجلاسوں میں بھی کئی سال سے بار بار کہتا آ رہا ہوں کہ ملک کو طاقتور بنانا ہے۔ یعنی گوناگوں توانائیوں میں وسعت لانا ہے۔ اگر ہم اپنی توانائیوں کو وسعت دینے میں کامیاب ہو گئے تو آسودہ خاطر ہوکر عوام سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ بے فکر ہو جائیے۔ ہم بھی مطمئن ہو جائیں گے۔ اگر ہم نے توانائیاں نہ بڑھائیں تو ہمیشہ اضطراب کی کیفیت رہے گی۔
ہمارے پاس جو توانائیاں ہیں وہ کیا ہیں؟ میں نے ان توانائیوں کو نوٹ کیا ہے جن پر دشمنوں کی یلغار ہے۔
سب سے پہلی توانائی ہے اسلامی عقیدہ و ایمان، ایمان اسلامی۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ تعجب کریں اور کہیں کہ جناب آج کی دنیا آزادی خیال و آزادی فکر و عقیدے کی دنیا ہے! جی نہیں، وہ آج بھی اس حقیقی اسلام کے دشمن ہیں جسے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے خالص اسلام اور اسلامی حکومت و اسلامی جمہوریہ کی بنیاد قرار دیا۔ آپ دیکھئے کہ آج ساری دنیا میں اور خاص طور پر اسلامی جمہوری نظام کے اندر اس ایمان و عقیدے کی طاقت کو زائل کرنے کے لئے سرگرمیاں انجام دی جا رہی ہیں۔ اگر آپ سماجی رابطے کی سائٹیں استعمال کرنے کے عادی ہیں اور سائیبر اسپیس سے رابطہ رکھتے ہیں، تو بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں کیا عرض کر رہا ہوں۔ ہمارے اسلامی ایمان و عقیدے کو متزلزل کرنے کے لئے ہر طریقہ آزمایا جا رہا ہے۔ ہمارے ایمان سے مراد کیا ہے؟ کیا اس سے مراد مجھ ستر اسی سالہ سن رسیدہ شحص کا ایمان و عقیدہ ہے؟ نہیں، انھیں ہماری زیادہ فکر نہیں ہے۔ ہم سے بعد والی نسل کے ایمان و عقیدے کو وہ کمزور کر دینا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ہماری توانائی و قوت کا ایک میدان ہے ہمارا اسلامی ایمان۔ یہ ان کی دشمنی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔
دوسرے علمی طاقت؛ ہمارے سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی، سازشیں رچیں اور ان خباثت آلود حربوں کو بھی، جو ساری دنیا میں ممنوع ہیں، ہماری علمی پیشرفت کو روکنے کے لئے استعمال کیا۔ یہ اسٹاکس نیٹ (11) وائرس جو دو تین سال پہلے اسلامی جمہوریہ کے سائیبر اسپیس نیٹ ورک میں انھوں نے ڈالا، ہمارے پورے ایٹمی سسٹم کو تباہ کر سکتا تھا۔ یہ مجرمانہ اقدام ہے۔ عالمی سطح پر اسے مجرمانہ فعل مانا جاتا ہے اور عالمی عدالتوں میں یہ جرم انجام دینے والوں کا گریبان پکڑا جا سکتا تھا۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم نے ان کا گریبان نہیں پکڑا۔ یہ لوگ اس حد تک آگے بڑھ گئے۔ علمی پیشرفت کی، جو علمی طاقت کا مقدمہ ہے وہ شدت کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں۔ میری نظر میں ایٹمی شعبے پر اتنا زیادہ دباؤ ڈالے جانے کی وجہ یہی تھی۔ وہ جو ایٹم بم کی رٹ لگائے ہوئے تھے، انھیں خود بھی بخوبی علم تھا کہ وہ جھوٹ بھول رہے ہیں۔ میں ایٹمی مسئلے کے بارے میں کچھ باتیں ابھی عرض کروں گا۔
اقتصادی توانائی جس کے بارے میں بعد میں گفتگو ہوگی، دفاعی توانائی، اس کے بھی وہ شدید مخالف ہیں۔ ملک کو وہ ایسا قلعہ بنا دینا چاہتے ہیں جس کی دیواریں گر گئی ہوں، تاکہ وہ جو چاہیں کریں۔ اگر ہمارے اداروں کے پاس دفاعی وسائل ہوں گے، جوابی حملے کی توانائی ہوگی تو اس کی مثال ایسی ہوگی کہ گویا اس قلعے کے گرد ایک حصار بنا دیا گيا ہے۔ وہ اس کے خلاف ہیں۔ یہ جو میزائل وغیرہ کے بارے میں اتنی بحث ہوتی ہے اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ دفاعی توانائی کے مخالف ہیں۔
قومی سیاسی توانائی؛ یعنی قوم کا متحد اور ایک آواز ہونا۔ ہم نے بارہا عرض کیا کہ الگ الگ سیاسی رجحانات ہونا کوئی بری بات نہیں ہے۔ کسی کو کوئی پسند یا ناپسند کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مشکل تب پیدا ہوتی ہے جب عوام کے درمیان اور ملک کے سیاسی ڈھانچے کے اندر اختلاف پیدا ہونے لگے۔ آج بحمد اللہ یہ اتحاد موجود ہے۔ اوائل انقلاب سے ہی یہ اتحاد قائم رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انقلاب یا انقلاب کی سالگرہ کے پروگراموں کے مخالفین نہیں ہیں۔ کیوں نہیں، مخالفین بھی ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر عوام اسلامی انقلاب سے، انقلاب کے مظاہر سے، انقلاب کی نشانیوں اور یادگاروں سے قلبی وابستگی رکھتے ہیں۔ امام خمینی کے نام اور آپ کی یاد سے قلبی لگاؤ رکھتے ہیں۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ یہی ایک قوم کی سیاسی طاقت ہوتی ہے۔
نوجوان آبادی کی وجہ سے حاصل ہونے والی طاقت جسے عام طور پر نظر انداز بھی کر دیا جاتا۔ میں کئی سال سے لگاتار آبادی کا سن بڑھنے کی بابت انتباہات دے رہا ہوں (12)۔ بحمد اللہ کچھ اقدامات انجام دئے گئے ہیں۔ بعض عہدیداران نے اچھے کام انجام دئے ہیں۔ لیکن وہ کام اب تک نہیں ہو سکا ہے جسے مکمل طور پر انجام دینے کی ضرورت ہے۔ آج ہماری آبادی کا جواں سال ہونا ایک نعمت ہے، ایک اہم حقیقت ہے۔ کیونکہ نوجوان تحرک کا سرچشمہ، جوش و جذبے، اختراعات و ایجادات کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اگر بیس سال بعد آج کی جوان آبادی ضعیفی کی جانب بڑھ گئی تو نوجوان تو دیگر ملکوں سے درآمد کئے نہیں جا سکتے۔ نتیجتا ملک کو نقصان پہنچے گا۔ ہمیں ابھی سے چارہ کار تلاش کر لینا چاہئے۔ بعض اوقات سننے میں آتا ہے، البتہ میں نے تحقیق نہیں کی ہے اور درست اطلاعات نہیں ہیں، کہ کچھ لوگ آج بھی ماضی کی اسی غلط روش پر چل رہے ہیں، اسقاط حمل جیسے اقدامات بعض جگہوں پر انجام دئے جا رہے ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو متعلقہ حکومتی عہدیداران جو اس کام پر مامور ہیں، اس مسئلے کی تحقیق کریں۔ آبادی کا جوانسال ہونا بہت بڑی اور اہم توانائی ہے۔
اس طرح واضح ہو گیا کہ دشمن موجود ہے۔ اسی طرح آج یہ توانائیاں بھی موجود ہیں اور ان صلاحیتوں پر دشمن کی یلغار بھی ہے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ وہی ہے جو ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ دشمن کو پہچاننا چاہئے، اس کی روش اور طریقہ کار سے باخبر رہنا چاہئے۔ ان پہلوؤں اور جگہوں پر نظر رکھنا چاہئے جہاں سے دشمن حملہ کر سکتا ہے۔ بالکل عسکری تصادم کی طرح۔ فوجی مقابلہ آرائی میں شناخت و تخمینے کے ماہرین جاتے ہیں اور میدان کا جائزہ لیتے ہیں، دشمن کے عزائم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اندازہ لگاتے ہیں اور بھانپنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دشمن کے کیا ارادے ہیں؟ دشمن جہاں سے حملہ کر سکتا ہے اس جگہ کو دیکھتے ہیں۔ آج سیاسی و اقتصادی میدانوں میں جو جنگ اور ٹکراؤ جاری ہے اس کی اہمیت فوجی لڑائی سے زیادہ ہے اور اس کا دائرہ بھی وسیع تر ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ دشمن کی دراندازی کی جگہوں کو پہچان لیا جائے، یہ سب کی ذمہ داری ہے۔
ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ دشمن کون ہے؟ ہم نے کہا ہے کہ ہمارا دشمن موجود ہے، تو سوال یہ ہے کہ دشمن کون ہے؟ دشمن بالکل کھل کر ہماری نظروں کے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔ دشمن کو تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دشمن استکباری نیٹ ورک اور صیہونی نیٹ ورک ہے۔ یہ ہے دشمن۔ استکباری نیٹ ورک جو ریاستہائے متحدہ امریکا کی سرکردگی میں کام کرتا ہے اور صیہونی نیٹ ورک جس کا مظہر جعلی صیہونی حکومت ہے جو مقبوضہ فلسطین پر حکمرانی کر رہی ہے، یہ ہے دشمن۔ پوشیدہ بھی نہیں ہے۔ امریکا اپنی دشمنی کو چھپانے کی بھی کوشش نہیں کرتا۔ اب یہ ایک الگ بات ہے کہ نوروز کے موقع پر امریکی صدر ممکن ہے 'ہفت سین' دسترخوان بھی لگائیں، لیکن وہ مسافر طیارے کو بھی گرانے سے دریغ نہیں کریں گے۔ امریکی کانگریس میں ہر وہ بل جو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے، منظور کرتے ہیں اور امریکی صدر بھی اس پر فورا دستخط فرما دیتے ہیں اور اس پر عمل بھی شروع کر دیتے ہیں۔ گفتگو، بات چیت، تکلفات اور مسکراہٹوں کے تبادلے کا مقام کچھ اور ہے، عملی اقدامات انجام دینے سے الگ ہٹ کر ایک مقام ہے۔ یہ سیاسی بیانوں سے بھی الگ ایک پلیٹ فارم ہے۔ لہذا آج آپ دیکھ لیجئے کہ ایران کے بارے میں امریکی صدر، وزیر خارجہ، سیکورٹی عہدیداران، وزیر جنگ وغیرہ جو بیان دے رہے ہیں، وہ کسی دوست کا بیان نہیں بلکہ دشمن کی رائے زنی ہوتی ہے، کٹر دشمن کا تبصرہ ہوتا ہے۔ صیہونیوں کا معاملہ تو بالکل سامنے کا ہے۔ یہ ہے دشمن۔ چند روز قبل محترم وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ کے اندر بڑی اچھی بات کہی، البتہ میں نے اخبارات میں پڑھا، آپ نے کہا کہ امریکا کی ذات نہیں بدلی ہے۔ وہ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔ امریکا کی ماہیت وہی ریگن کے زمانے والی ماہیت ہے، وہی ذات ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، دشمن کی ذات اور ماہیت ہے۔ ویسے وہاں بھی پارٹیاں ہیں، ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی، یہ پارٹی دوسری کی جانب دھکا دیتی ہے اور دوسری پارٹی پہلی کی جانب دھکا دے دیتی ہے۔ لیکن امریکا کی ماہیت اور ذات وہی ہے۔ یہ انھوں نے پارلیمنٹ میں بالکل صحیح بات بیان کی ہے۔
یہاں ایک غلط تصور یہ موجود ہے کہ ہم امریکا سے اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں، امریکا سے مفاہمت ہو سکتی ہے اور باہمی مشکلات کا تصفیہ کیا جا سکتا ہے! یہ تصور صحیح نہیں ہے۔ ہم توہمات پر تو اعتماد نہیں کر سکتے، حقائق کو بنیاد بنانا چاہئے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسا کہ ہم نے عرض بھی کیا، منطقی اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ایران جیسا نظام ہرگز امریکی انتظامیہ کی پسندیدگی اور ہمدردی حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں۔ دوسری چیز ہے ان کا رویہ، پچاس سال قبل سے، ساٹھ سال پہلے سے، 19 اگست (کی فوجی بغاوت کے بعد) سے، اس کے بعد طاغوتی دور حکومت کے دوران، اس کے بعد اوائل انقلاب سے اب تک آپ دیکھ لیجئے کہ ہمارے ساتھ امریکا کا برتاؤ کیا رہا ہے۔ طاغوتی (شاہی) حکومت کے دور میں امریکا پہلوی حکومت کو ایک ثروت کے طور پر دیکھتا تھا۔ اس دور میں بھی امریکا کی جانب سے ایران پر جو ضربیں پڑی ہیں، وہ بہت کاری اور گہری ضربیں ہیں۔ جو لوگ تاریخ سے آشنائی رکھتے ہیں، اس زمانے کی زندگی سے باخبر ہیں، وہ اس بات کو بخوبی سمجھیں گے اور اس کی تصدیق کریں گے۔ انقلاب کے بعد تو سب کچھ سامنے ہے۔ پہلے دن سے انھوں نے خباثت اور عناد شروع کر دیا جو آج تک جاری ہے۔ تو یہ کسی غلط فہمی کا معاملہ نہیں ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو حکومتوں کے درمیان غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے تو اسے مذاکرات سے دور کر لیا جاتا ہے۔ کبھی کسی علاقے کے بارے میں، مثال کے طور پر سرحد کے کسی حصے کے بارے میں اختلاف ہوتا ہے کہ اس مقدار میں ہماری ملکیت ہے اور آپ کا حصہ بس اتنا ہے۔ یہ چیزیں مذاکرات سے حل ہو جاتی ہیں۔ 'نصف نصف' کی بنیاد پر اسے حل کر لیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں قضیہ 'نصف نصف' کا نہیں ہے۔ یہاں خود اسلامی جمہوریہ کے وجود کا مسئلہ در پیش ہے جو مذاکرات سے حل نہیں ہو سکتا، رابطہ قائم کر لینے سے حل نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ حل ہو جانے کا تصور صحیح نہیں ہے۔ اسلام سے اور اسلامی اصولوں کی مطابقت کے ساتھ جو توانائی، خود مختاری اور پیشرفت ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر آج سامنے موجود ہے، وہ استکبار کے لئے جس کا مظہر امریکا ہے، ہرگز قابل برداشت نہیں ہے۔ یہ سوچنا غلط ہے کہ ہم امریکیوں کے ساتھ بیٹھ کر آپس میں بات چیت کرکے آشتی کر لیں گے۔ آشتی تب ہوگی جب آپ اپنے اصول اور موقف کو ترک کر دیں۔
دو تین سال قبل، ایٹمی مذاکرات کے شروع کے دور میں (13) میں نے کہا تھا کہ امریکی ابھی سے ہمیں بتا دیں کہ اسلامی جمہوریہ کہاں تک پسپائی اختیار کرے تو وہ دشمنی اور عناد چھوڑ دیں گے، وہ ابھی سے اسے واضح کر دیں۔ اگر ایٹمی مسئلہ حل ہو گیا تو کیا سارا تنازعہ ختم ہو جائے گا؟ آج آپ دیکھئے کہ ایٹمی مسئلہ حل ہو چکا ہے تو کیا جھگڑا ختم ہو گیا؟ اب میزائل کا مسئلہ چھیڑ دیا ہے، کل کو میزائل کا مسئلہ حل کر لیا جاتا ہے تو پھر وہ انسانی حقوق کا مسئلہ چھیڑ دیں گے، انسانی حقوق کا مسئلہ حل ہو جائے تو شورائے نگہبان (نگراں کونسل) کا موضوع زیر بحث آ جائے گا، شورائے نگہبان کا موضوع حل ہو جائے تو خود رہبر انقلاب اور ولایت فقیہ کے موضوع پر بحث کا آغاز ہو جائے گا۔ ولایت فقیہ کا مسئلہ حل ہو تو پھر آئین اور اسلام کی حکمرانی کے بارے میں بات شروع ہو جائے گی۔ یہ ایک سلسلہ ہے۔ اختلاف جزوی باتوں کے بارے میں نہیں ہے۔ بنابریں یہ سوچنا ہی غلط ہے۔
مجھ سے کافی باتیں ہو چکی ہیں۔ دوستوں میں کچھ افراد ایسے تھے جو وابستگی اور ہمدردی کے تحت یہ سوچتے تھے کہ یہ کام ہو سکتا ہے۔ ان برسوں کے دوران ہماری باتیں ہوتی رہیں، لیکن بعد میں انھوں نے خود بھی اعتراف کیا، میرے سامنے نہیں بلکہ میری عدم موجودگی میں، فیصلہ سازی کے سرکاری اجلاسوں میں اعتراف کیا کہ، فلاں (رہبر انقلاب) جو دلائل پیش کرتے ہیں ان کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل ٹھیک ہے۔ اس معاملے میں میرا جو استدلال ہے اس کا کوئی جواب نہیں۔ ہمارے معاملے میں یہ صورت حال ہے تو دوسرے بھی بہت سے ملکوں کے معاملے میں امریکی اپنے اسی ضدی روئے پر قائم ہیں۔ آپ اسے دھیان میں رکھئے اور آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ امریکا کی بنیادی پالیسی دنیا کی قوتوں اور سیاست کو امریکی سیاست کے معدے میں ہضم کر دینا ہے۔ یہ رویہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ ہم سے چونکہ دشمنی ہے اس لئے اس دشمنی کی وجہ سے کچھ اور چیزیں بھی پیدا ہو گئی ہیں، لیکن دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی ان کی یہی پالیسی ہے۔ سیاسی میدان میں یہی صورت ہے، اقتصادی میدان میں بھی یہی صورت حال ہے اور ثقافتی میدان میں بھی یہی حالت ہے۔ اس وقت یورپ کی فلم ساز کمپنیاں ہالی وڈ کے تسلط سے، ثقافتی یلغار سے پریشان ہیں۔ فرانس تو اسلامی جمہوریہ نہیں ہے۔ تو امریکا کی روش ہی یہی ہے۔ یہ بات وہ بارہا کہہ چکے ہیں، ہمیشہ کہتے رہتے ہیں، اس وقت امریکا کے صدارتی امیدواروں ان دو افراد (14) میں یہ ثابت کرنے کی دوڑ شروع ہو گئی ہے کہ امریکا دنیا کا مالک ہے، دنیا کا سردار ہے، سب کچھ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس سے پہلے سینیئر بوش نے جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تھا، اسی غرور میں کہا تھا کہ آج ہم دنیا کی منفرد طاقت بن گئے ہیں۔ ساری دنیا کے ممالک خود کو ہم سے ہم آہنگ کریں۔ ورلڈ آرڈر کا تعین ہم کریں گے۔ آپ غور کیجئے! یہ ہے ان کی سیاست۔ ظاہر ہے یہ دشمن ہے اس سے کیسے مفاہمت کی جا سکتی ہے۔
میں یہ بھی عرض کر دوں کہ بعض لوگ جو یہ سوچتے ہیں کہ ہم سے دشمنی اس لئے برتی جا رہی ہے کہ ہم نے مخاصمانہ رخ اختیار کر رکھا ہے۔ ہم ہمیشہ ان کی آنکھ کا کانٹا بنے رہے ہیں۔ اس لئے وہ ہمارے دشمن بنے ہوئے ہیں، ایسا نہیں ہے، یہ تصور بھی غلط ہے۔ دشمنی کی شروعات ہم نے نہیں کی۔ انقلاب کے آغاز میں جب امریکیوں کو گرفتار کر لیا گيا تھا اور گرفتاری کو کچھ دن گزر گئے تھے تو امام (خمینی) نے فرمایا تھا کہ یہ لوگ پوری نگرانی میں اپنے سفارت خانے بھیج دئے جائیں! سفارت خانے پر قبضہ کر لینے کا واقعہ پیش آنے سے قبل جس کی اپنی الگ وجوہات تھیں، امریکی یہاں امن و چین سے تھے۔ پوری آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کرتے تھے، البتہ وہ شرانگیزی سے باز نہیں آتے تھے۔ تو شروعات ہم نے نہیں کی تھی، شروعات انھوں نے کی۔ بالکل ابتدا سے ہی انھوں نے دشمنی کا آغاز کر دیا۔ اپنی بدکلامی سے، پابندیوں سے، بے جا مطالبات سے، ملت ایران کے دشمن کو پناہ دیکر، شروعات انھوں نے کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ صرف امریکا تو نہیں ہے، دوسرے ممالک بھی تو ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی جمہوریہ نے فرانس سے کون سی دشمنی برتی ہے؟ فرانس میں چونکہ کچھ دن امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) قیام کر چکے تھے، اس لئے انقلابی فورسز کی نظر میں اس کا احترام بھی تھا، مگر آپ دیکھئے کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ آپ نے دیکھا کہ ایٹمی مسئلے میں فرانسیسیوں نے کیسا منفی کردار ادا کیا۔ البتہ یہ پورا ماجرا امریکیوں کے ہاتھ میں تھا، یہ تو شروع ہی سے ظاہر تھا، مگر ایٹمی مسئلے میں سب سے خراب رویہ فرانسیسیوں کا رہا۔ ہم نے فرانس کا کیا بگاڑا ہے؟ ہم نے کوئی دشمنی برتی ہے؟ یا ہالینڈ جیسے چھوٹے سے ملک کی مثال آپ لے لیجئے۔ جتنے بھی معاملات اسلامی جمہوریہ ایران سے مربوط ہیں، آپ کسی کو بھی اٹھا کر دیکھ لیجئے، دشمنوں کی فہرست میں ہالینڈ نظر آئے گا! ہمیں ہالینڈ سے کیا لینا دینا ہے؟ اس سے ہماری کیا دشمنی ہے؟ ایک چھوٹا سا ملک جو یورپ کے ایک گوشے میں واقع ہے۔ تو معاملہ یہ نہیں ہے کہ ہم نے ان سے دشمنی کا برتاؤ کیا ہے۔ آپ اسی طرح کینیڈا کی مثال لے لیجئے! اس نے ہم سے تعلقات منقطع کر لئے۔ ہم نے کینیڈا سے دشمنی کا برتاؤ کیا تھا؟ مخاصمانہ رویہ اپنایا تھا؟ تو اصل ماجرا یہ نہیں کچھ اور ہے۔ ہمیں خود کو فریب میں نہیں رکھنا چاہئے کہ جناب! ہمیں دشمنی بند کر دینی چاہئے تاکہ وہ ہم سے دشمنی کا برتاؤ نہ کریں! نہیں، دوسرے محرکات کافرما ہیں، دوسری وجوہات ہیں جن میں کچھ کی ہم نے تشریح کی۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ ملک کو تحفظ ملنا چاہئے، حکام کو چاہئے کہ ملک کو تحفظ دیں۔ اقتصادی اور دوسرے شعبوں میں حکومت نے جو کچھ بھی کیا ہے یا کرنے والی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کو تحفظ دینے والا ہو۔ ہم کیا کریں کہ ملک کو یہ تحفظ ملے۔ اگر تحفظ ملا ہوا ہے تو اس کو مزید مستحکم کیسے بنایا جائے؟ ہمیں اپنی یہ توانائیاں بڑھانا ہوں گی۔ ان صلاحیتوں میں روز بروز اضافہ کرنا ہوگا۔ یہ وہی چیز ہے جس کا حکم قرآن میں دیا گیا ہے؛ وَ اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَ مِن رِباطِ الخَیل (15)، قوت میں یہ ساری چیزیں شامل ہیں۔ قوت صرف بندوق اور ہتھیار سے نہیں ملتی، قوت میں روحانی و مادی طاقتیں دونوں شامل ہوتی ہیں، اس میں اقتصادی طاقت، عسکری طاقت، علمی و اخلاقی اقدار کی طاقت بھی شامل ہوتی ہے۔ اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّة؛ جتنا ہو سکے اپنی قوت بڑھاؤ۔ ہمیں یہ کام کرنا چاہئے۔ اس کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی دوش پر ہے۔ یعنی یہ کام ہم عہدیداران کو انجام دینا ہے۔ ہمارے پیچھے پیچھے عوام بھی میدان میں آئیں گے اور کام کریں گے۔ تو ہمیں توانائیوں کو بڑھانا ہے۔ اسلامی ایمان و عقیدے کو تقویت پہنچانا ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، دینی درسگاہوں کی ذمہ داری ہے، تشھیراتی اداروں کی ذمہ داری ہے، وزرات ارشاد کی ذمہ داری ہے، ادارہ اسلامی تبلیغات کی ذمہ داری ہے، ان سب کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی ایمان و عقیدے کو تقویت پہنچانا ہے۔ جو ادارے بھی نوجوانوں سے تعلق رکھتے ہیں جیسے یونیورسٹی یا تعلیم و تربیت کا ادارہ ان کی یہ ذمہ داری ہے۔ اسلامی عقیدہ و ایمان کی تقویت بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ان تمام اداروں پر عائد ہوتی ہے، انھیں چاہئے کہ اس پر عمل کریں۔
علمی توانائی بڑھانا وزارت علوم اور مراکز کا فریضہ ہے۔ جن اداروں کے دوش پر علمی توانائی کی تقویت کی ذمہ داری ہے وہ خود کو فروعی مسائل اور حاشئے سے الگ رکھیں۔ بعض نظر آتا ہے کہ یہ ادارے بھی حاشئے کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس وقت ان شعبوں کے عہدیداران یقینا یہاں موجود ہوں گے۔ وہ سب سن لیں! آپ خود کو فروعی مسائل سے الگ رکھئے، اس چیز پر توجہ دیجئے جو اساس اور بنیاد ہے۔ یعنی علم و دانش کو تقویت پہنچانے والے سسٹم پر توجہ مرکوز رکھئے۔
اقتصاد اور معیشت کے بارے میں بھی چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔ وقت گزرتا جا رہا ہے۔ دفاعی میدان کے سلسلے میں جتنے بھی متعلقہ ادارے ہیں، وزارت دفاع، فوج کا ادارہ اور پاسداران انقلاب فورس سب کو چاہئے کہ دفاعی میدان میں محنت سے کام کریں۔ نوجوان نسل کے بارے میں گفتگو ہو چکی، نوجوانوں کی خدمات حاصل کرنا، جوش و جذبے سے بھرے ہوئے نوجوانوں کی تربیت کرنا۔ میں نے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے مزار پر اپنی تقریر میں مومن و انقلابی نوجوانوں کے بارے میں کچھ باتیں بیان کیں (16) تو بیرون ملک ایک ہنگامہ برپا ہو گیا کہ فلاں تو انقلابی نوجوان تیار کر رہے ہیں۔ گویا انھوں نے بہت بڑا راز معلوم کر لیا ہے، یہ انکشاف نہیں ہے۔ یہ کوئی نہیں بات نہیں ہے، میں ہمیشہ سے یہ کام کرتا آیا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کوئی پوشیدہ چیز نہیں ہے، بالکل آشکارا طور پر یہ کام انجام دیا جاتا ہے۔ میں نے بار بار حمایت کی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ مجھے دیندار انقلابی نوجوانوں سے جو ملک بھر میں موجود ہیں، گہرا لگاؤ ہے۔ ہم اس نوجوان کو جس نے اپنی جوانی، اپنی توانائی، اپنی انرجی، اپنے جذبات کو ملک کے اعلی اہداف کے لئے وقف کر دیا ہے اور اس نوجوان کو جو عیش و عشرت اور اشرافیہ کلچر میں پڑا ہوا ہے قدر و قیمت کے اعتبار سے یکساں نہیں مان سکتے۔ بیشک سماجی حقوق کے اعتبار سے وہ یکساں ہیں، لیکن قدر و منزلت کے اعتبار سے ہرگز مساوی نہیں ہیں۔ جو نوجوان کام کرتا ہے، محنت کرتا ہے، اپنا وقت، اپنی توانائی اور بسا اوقات اپنا پیسہ، ایسی مثالیں بھی میرے پیش نظر ہیں، یہ سب کچھ اعلی اہداف پر صرف کرتا ہے، مجاہدت پر صرف کرتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب برابر نہیں ہو سکتے۔ میں نے ان نوجوانوں کی ہمیشہ حمایت کی ہے اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔
اب کچھ انتباہات۔ میں دو موضوعات کے بارے میں انتباہات دینا چاہوں گا۔ ایک اقتصاد و معیشت کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں جناب ڈاکٹر روحانی نے بڑی اچھی گفتگو کی، میں بھی کچھ انتباہات دینا چاہوں گا۔ دوسرے مشترکہ جامع ایکشن پلان کا مسئلہ ہے۔
اقتصادی شعبے میں ہمارے سامنے کچھ مشکلات ہیں۔ ملک کو اقتصادی مسائل میں کچھ بنیادی مشکلات در پیش ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ حکومت اپنے منصوبوں کی مدد سے اور جو اقدامات انجام دئے جانے والے ہیں ان کے نتیجے میں مشکلات کو ان شاء اللہ حل کر لیگی۔ بنیادی مشکل بے روزگاری اور کساد بازاری ہے۔ سب سے اہم یہی مشکلات ہیں۔ ہمیں ان پر توجہ دینا ہے، انھیں حل کرنا ہے۔ مندی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ میں جب جائزہ لیتا ہوں تو سابقہ حکومت کے زمانے میں بھی عرض کر چکا ہوں کہ مشکلات پابندیوں سے بڑھ کر انتظامی اقدامات اور پالیسیوں سے مربوط ہیں۔ اس حکومت میں بھی یہی چیز نظر آتی ہے اور سابقہ حکومت میں بھی اور اس سے قبل کی حکومت میں بھی یہ چیز تھی۔ اگر ہمارے منصوبے درستگی کے ساتھ تیار ہوں تو پابندیوں کا اثر ختم نہیں تو کم از کم بہت محدود ضرور ہو جائے گا۔ منصوبوں کو ٹھیک کرنے، منظم بنانے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایک اور مسئلہ جو واقعی اقتصادی شعبے میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اور کساد بازاری کی مشکل کو بھی کافی حد تک حل کر سکتا ہے اور بے روزگاری کو بھی دور کر سکتا ہے؛ صنعتی میدان میں چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ یہ جو میں نے اخبار میں پڑھا کہ وزیر صنعت نے پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ صنعتی شعبہ المئے کا شکار ہے، مجھے یہ یاد نہیں آ رہا ہے کہ انھوں نے کیا لفظ استعمال کیا لیکن اسی سے ملتا جلتا جملہ کہا تھا، یہ المیہ چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں سے متعلق ہے۔ چھوٹی اور اوسط صنعتوں کو دوبارا کھڑا کرنا حکومت کے بنیادی منصوبوں میں ہونا چاہئے۔ استقامتی معیشت میں یہ بنیادی ستونوں میں شامل ہے۔ یہ جو کارخانے اپنی صلاحیت اور گنجائش سے بہت کم سطح پر پیداواری سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، یہ ان مسائل میں ہے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایک اور مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ جب ہم اقتصادی مسائل کے بارے میں فیصلے کریں تو ترجیحات کو ضرور مد نظر رکھیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کام بہت اہم اور لازمی ہوتا ہے لیکن اسے ترجیح نہیں حاصل ہوتی۔ یعنی اس سے بھی زیادہ اہم اور ضروری کام موجود ہوتا ہے۔ یہ میری نظر میں بہت اہم ہے۔ مجھے حکومت چلانے کا تجربہ ہے، میں خود بھی حکومت میں رہا ہوں اور مختلف حکومتوں کو دیکھ چکا ہوں۔ ہمارے عزیز وزرائے محترم میں ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے؛ کلٌّ یجرّ النّار الی قرصه یعنی روٹی پکانے کے لئے ایک آگ جل رہی ہے۔ ہر کسی کے پاس اپنی روٹی ہے۔ ہر کوئی اس آگ کو اپنی جانب کھینچنا چاہتا ہے کہ اس پر اپنی روٹی سینک سکے۔ البتہ یہ ان کا فریضہ بھی ہے، ان کی ذمہ داری بھی ہے کہ اپنے اپنے شعبے کا دفاع کریں۔ ہم اس کی مذمت نہیں کرتے۔ وزیر زراعت اپنے انداز سے، وزیر صنعت اپنے انداز سے، وزیر ٹرانسپورٹ اپنے طریقے سے، وزیر توانائی اپنے انداز میں، ہر کوئی اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ ملک میں موجود وسائل کو، بجٹ کو اور امکانات کو اپنی جانب کھینچے۔ اس میں جائزہ لینے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ترجیحات کیا ہیں۔ فرض کیجئے کہ غیر ملکی بینکوں میں رکا ہوا ہمارا پیسہ ریلیز ہو جاتا ہے، میں اس کے بارے میں ابھی بات کروں گا، تو ایسی صورت میں اس پیسے کو کہاں خرچ کرنا ہے؟ یہ بہت اہم ہے۔ ترجیحات کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ میں ایک مثال دینا چاہتا ہوں، البتہ یہ مثال میں وزیر محترم کو بھی دے چکا ہوں۔ ہمارے ملک کی ایئر فلیٹ کی جدیدکاری کی ضرورت ہے۔ یہ بہت اہم اور ضروری چیز ہے لیکن کیا واقعی یہ ترجیحات میں ہے؟ یہ ملک کا ترجیحی مسئلہ ہے؟ مثال کے طور پر ہم تین سو طیارے خرید لیتے ہیں تو یہ نہیں معلوم ہے کہ یہ ہمارے ملک کی ترجیحات میں ہوگا۔ اس کا مطالعہ کیا جانا چاہئے۔ میں اس بارے میں ماہرانہ رائے قائم نہیں کرنا چاہتا۔ میں متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس کا ماہرین کی مدد سے جائزہ لیا جائے۔ میرا انتباہ یہ ہے کہ ترجیحات کو مد نظر رکھا جائے۔ یہ بہت ضروری ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ نالج بیسڈ کمپنیوں پر توجہ مرکوز کرنے کا ہے۔ یہ چیز ہمیں آگے لے جائے گی۔ نالج بیسڈ کمپنیاں علم بھی ہیں اور سرمایہ بھی ہیں۔ نالج بیسڈ کمپنیوں پر توجہ بنیادی کاموں میں ہے۔ یہ ترجیحات کا جز ہے، اس پر توجہ دینا چاہئے۔ بعض نالج بیسڈ کمپنیاں ہمارے پاس آتی ہیں، شکایات لیکر آتی ہیں، حکام اس پر توجہ دیں۔
ایک اور اہم کام ہے غیر ضروری معاہدوں کا سد باب۔ مجھے رپورٹ ملی ہے کہ ایٹمی قضیئے کے بعد تقریبا ڈھائی ارب ڈالر کے دستخط شدہ معاہدے ہمارے پاس ہیں۔ مذاکرات اور مفاہمتی نوٹس تو خیر اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن جن معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں ان کے بارے میں مجھے رپورٹ ملی ہے کہ یہ ڈھائی ارب ڈالر کی مالیت کے ہیں۔ میں نے دیکھا، مثال کے طور پر یہ سولر انرجی کے بارے میں ہے، کیا یہ ترجیحات کا جز ہے؟ اگر وسائل دستیاب ہیں، غیر ملکی فائننس ہے تو ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ ترجیحات کیا ہیں تاکہ اس سرمائے کو وہاں صرف کیا جائے۔ اگر کوئی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو ہم اس سے کہہ سکتے ہیں کہ اس شعبے میں ہمیں سرمایہ کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ فریق مقابل جو چاہے ہم وہی کرتے چلے جائیں۔ یہ بھی ایک اہم چیز ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ ہے مضر درآمدات کی روک تھام کا۔ میں نے حالیہ دنوں کئی بار اس بارے میں متنبہ کیا ہے۔ یعنی ایسی چیزوں کی امپورٹ جن کی مشابہ چیزیں ہم ملک کے اندر بنا رہے ہیں اور اگر ملک میں ویسی مصنوعات نہیں بن رہی ہیں تو بھی وہ ملک کی موجودہ ضرورتوں میں شامل نہیں ہے، پہلے درجے کی ضروریات میں شمار نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر گوناگوں قسموں کی گاڑیاں جن کی بہت زیادہ اسپیڈ ہے! اس کی کیا ضرورت ہے؟ کہتے ہیں کہ نجی سیکٹر یہ گاڑیاں لا رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو حکومت کسٹم ڈیوٹی اور دوسرے طریقوں سے جو اس کے اختیار میں ہوتے ہیں ان کا سد باب کر سکتی ہے۔ ملکی وسائل اور جو پیسہ ریلیز ہو رہا ہے وہ رائیگاں نہیں جانا چاہئے۔ جو صنعتیں بند ہو گئی ہیں انھیں دوبارہ شروع کرنا، نالج بیسڈ معیشت، ہماری صنعتوں کی پرانی مشینوں کی جدیدکاری یہ ترجیحات کا جز ہیں۔
زرعی شعبہ بھی جو ہمیں خود کفیل بنا سکتا ہے، بہت اہمیت رکھتا ہے۔ آج جو رپورٹ پیش کی گئی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میدان میں پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ البتہ مجھے اس کی رپورٹ نہیں ملی تھی۔
تیل کا شعبہ؛ تیل کی ثقافت میں زیادہ مقدار میں تیل کی پیدوار، تیل کی فروخت اور تیل کا بازار یہ سب مثبت چیزیں سمجھی جاتی ہیں۔ تیل کی پیدوار کو بڑھائیں، تیل کی برآمدات میں اضافہ کریں، یہ سب اچھی چیز ہے۔ ملک کو اس کی ضرورت ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ لیکن اس سے بہتر یہ ہے کہ تیل کو مختلف مصنوعات میں تبدیل کریں۔ جو تیل ہم کنوؤں سے نکالتے ہیں اور بیرون ملک لے جاکر بیچتے ہیں اور اس کے پیسے لے لیتے ہیں اس پر ہمیں کسی طرح کا ویٹ نہیں ملتا اور روز بروز تیل کی مقدار بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ہم اسی تیل کو یا گیس کو ایسی مصنوعات میں تبدیل کر دیں جس کی ایڈڈ ویلیو ہے تو یہ زیادہ اچھا ہے۔ ہماری پالیسی یہی ہونا چاہئے۔ تیل کی پیداوار بڑھانے، تیل کی فروخت اور تیل کے کنوؤں کو ڈیولپ کرنے کے لئے جو محنت ہم کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہمیں پیٹرولیم مصنوعات تیار کرنے اور پیٹرول اور دیگر پیٹرولیم اشیاء برآمد کرنے پر کام کرنا چاہئے۔ ہم بیرون ملک سے پیٹرول کیوں خریدیں؟ ایک چیز جو بار بار ذہن میں آتی ہے اور شرمندگی کا احساس ہوتا ہے، یہی بیرون ملک سے پیٹرول کی درآمدات ہیں۔ تیل کے اتنے بڑے ذخائر رکھنے والا اسلامی جمہوریہ ایران جسے ہم ہمیشہ اپنے عوام کے سامنے اور دنیا کے سامنے بڑھ چڑھ کر بیان کرتے رہتے ہیں کہ تیل اور گیس کے ذخائر کو اگر بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو ہمارے پاس دنیا کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ یہ حقیقت ہے۔ اس کے باوجود ہم بیرون ملک سے پیٹرول خرید رہے ہیں یا ڈیزل خرید رہے ہیں۔ ہمیں ایسے انتظامات کرنا چاہئے کہ غیر ممالک سے پیٹرول اور ڈیزل خریدنے کی ضرورت نہ رہے۔ ہمیں پیٹرولیم پروڈکٹس تیار کرنا اور اسے برآمد کرنا چاہئے۔ یا گیس کے سیکٹر میں ہم ذیلی پیٹروکیمیکل صنعتوں کو متحرک کر سکتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر تو کافی اچھا کام ہوا ہے تاہم ذیلی صنعتوں کی سطح پر کام کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
اسمگلنگ پر انقلابی اور مجاہدانہ روشوں کی مدد سے روک لگانا۔ اسمگلنگ کا مسئلہ بہت اہم ہے، کند روی سے کام کیا جائے گا تو اس کی روک تھام نہیں ہونے والی ہے۔ اس سلسلے میں مجاہدانہ اور انقلابی انداز میں امتناعی اقدامات کی ضرورت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ استقامتی معشیت کے لئے جس کا آپ بار بار ذکر کرتے ہیں، وسائل کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔ اس حقیر کی رائے یہ ہے کہ استقامتی معیشت کا عمل شروع کرنے کے لئے وسائل مہیا کئے جا سکتے ہیں۔ خوشی کا مقام ہے کہ اب کچھ اچھے اقدامات کا آغاز ہوا ہے۔ بتایا گيا ہے کہ ملک کے بینکوں میں عوام الناس نے ریال اور غیر ملکی زر مبادلہ کی شکل میں جو رقم جمع کر رکھی ہے وہ غیر معمولی رقم ہے۔ میں نے خود وہ رپورٹ نہیں دیکھی ہے بلکہ مجھے اس کے بارے میں بتایا گيا ہے، لہذا میں اعداد و شمار کا ذکر نہیں کروں گا کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے، لیکن بہت بڑی مقدار میں رقم جمع ہے۔ اس رقم کو ہم صحیح سمت میں لے جا سکتے ہیں۔ حکومت کے اقتصادی محکمے جو کام کر سکتے ہیں ان میں ایک ہے وسائل کو اس سمت میں لے جائیں جس سمت میں وہ لے جانا چاہتے ہیں اور جو ملک کے مفاد میں ہے۔ گوناگوں ترغیبی اقدامات اور پروگراموں کے ذریعے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ البتہ اس میں پارلیمنٹ کی جانب سے بھی تعاون ہونا چاہئے۔ تو استقامتی معیشت کے سلسلے میں یہ بنیادی کام ہیں جو انجام دئے جانے چاہئے۔ اس سلسلے میں کچھ ضرورتیں ہیں اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن سے اجتناب کرنا ضروری ہیں تو جو ضروری چیزیں ہیں ان پر توجہ دی جائے اور جن سے اجتناب ضروری ہے ان کو بھی مد نظر رکھا جائے۔ انھیں سارے کاموں کا مجموعہ ہی استقامتی معیشت ہے۔ ان شاء اللہ ہمیں امید ہے کہ یہ کام آگے بڑھے گا۔
خیر اب اس قضیئے سے آگے بڑھتے ہیں کیونکہ غروب کا وقت قریب ہے۔ اب مشترکہ جامع ایکشن پلان کا موضوع۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے کچھ طرفدار ہیں اور کچھ مخالفین ہیں۔ میری نظر میں مخالفین بھی اور موافقین بھی دونوں ہی اپنی رائے پیش کرتے وقت مبالغے سے کام لیتے ہیں۔ مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ طرفدار بھی جو مشترکہ جامع ایکشن پلان کی بڑھ چڑھ کر تعریف کرتے ہیں، مبالغہ آرائی میں پڑ جاتے ہیں اور مخالفین بھی جو تنقید کرتے ہیں وہ بھی مبالغے سے کام لیتے ہیں۔ میری نظر میں یہ دونوں ہی چیزیں درست نہیں ہیں۔
بیشک مشترکہ جامع ایکشن پلان کے کچھ مثبت پہلو ہیں اور کچھ منفی پہلو ہیں۔ کچھ خوبیاں ہیں اور کچھ نقائص ہیں۔ خوبیاں وہی ہیں جن سے ہمیں ان مذاکرات میں شامل ہونے کی ترغیب ملی۔ البتہ آپ جانتے ہیں کہ یہ مذاکرات گيارہویں حکومت تشکیل پانے سے قبل ہی شروع ہو گئے تھے، انھیں ترغیبی پہلوؤں کی وجہ سے۔ یعنی اس میں کچھ خوبیاں دکھائی دیتی ہیں البتہ وہ ساری چیزیں حاصل نہیں ہوئيں۔ یعنی بہت سی چیزیں حاصل نہیں ہو سکیں۔ لیکن بہرحال اس میں کچھ مثبت چیزیں تھیں جنھیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس میں یہ فوائد موجود ہیں۔ مذاکرات شروع ہو گئے۔ اس کے بعد جناب روحانی صاحب کی حکومت میں ظاہر ہے کہ مذاکرات کا دائرہ بڑھا اور سرگرمیاں تیز ہوئیں۔ تو کچھ خوبیاں اور مثبت پہلو ہیں۔
نقائص اور عیوب کیا ہیں؟ نقائص وہی ہیں کہ جن کا ہمیں شروع سے اندیشہ تھا اور ہم بار بار انتباہ دے رہے تھے اور متوجہ کر رہے تھے کہ جناب! یہ عہد شکن افراد ہیں، بد ذات لوگ ہیں، عیاری کرنے والے ہیں، وعدہ خلافی کرتے ہیں، یہ نقائص ہیں۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان میں کچھ ایسے مبہم پہلو ہیں جہاں یہ عیوب نظر آ سکتے ہیں۔ اگر ان مبہم پہلوؤں کا تدارک کر لیا گيا ہوتا تو یہ یا تو ختم ہو جاتے یا کم ہو جاتے۔ میں جو کچھ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں عرض کرتا ہوں وہ ہرگز ان برادران عزیز کے بارے میں نہیں ہے جو مذاکرات میں شریک تھے۔ انھوں نے اپنا کام محنت سے انجام دیا، بڑی لگن سے کام کیا، واقعی جدوجہد کی۔ ہم خود دیکھتے تھے، مشاہدہ کرتے تھے۔ یہ گئے، وہاں رکے رہے، میرے خیال میں گزشتہ سال رمضان کا مہینہ تھا، ماہ رمضان کا کچھ حصہ انھوں نے وہیں گزارا۔ ظاہر ہے سخت کام تھا، واقعی بڑی دشواریاں تھیں، انھوں نے بہت محنت کی۔ ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ ان شاء اللہ خداوند عالم ان کے اس عمل سے رضامند ہوگا۔ ہم نے ان کے لئے دعا کی اور اب بھی دعا کرتے ہیں۔ میں جو باتیں کہتا ہوں وہ فریق مقابل کو مد نظر رکھ کر کہتا ہوں۔ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہوتی ہیں جو مذاکرات میں ہمارے فریق مقابل تھے۔
جہاں تک خود مشترکہ جامع ایکشن پلان اور اس دستاویز کا سوال ہے، جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس میں کچھ مبہم نکات ہیں، کچھ زاوئے ایسے ہیں جن میں ابہام ہے اور دشمن اسی کا غلط فائدہ اٹھا رہا ہے، فریق مقابل کو یہ موقع مل گیا ہے کہ اس کا غلط استعمال کرے۔ بیشک ہم مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی کی شروعات نہیں کریں گے، یہ سب جان لیں! ہم مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ لیکن اگر فریق مقابل نے خلاف ورزی کی، جیسا کہ آج کل امریکا کے جو صدارتی امیدوار ہیں، وہ مسلسل دھکیاں دے رہے ہیں کہ ہم اقتدار میں آئیں گے تو اسے پھاڑ کر پھینک دیں گے، اس کی خلاف ورزی کریں گے۔ اگر انھوں نے پھاڑا تو ہم آگ لگا دیں گے۔ ہم جو خلاف ورزی نہیں کر رہے ہیں، اس کی وجہ قرآن کا حکم ہے؛ اَوفوا بِالعَهد (17)، ظاہر ہے کہ ایک معاہدہ ہم نے کیا ہے، ہم اس معاہدے کو توڑنا نہیں چاہتے۔ لیکن اگر انھوں نے خلاف ورزی کی تو ہم بھی خلاف ورزی کریں گے۔ اس طرز عمل کی بنیاد بھی قرآن کی یہ آیہ کریمہ ہے؛ وَ اِمّا تَخافَنَّ مِن قَومٍ خِیانَةً فَانبِذ اِلَیهِم عَلی‌ سَوآء (18) اگر فریق مقابل نے خلاف ورزی کی تو تم بھی خلاف ورزی کرو۔ تو ہم قرآنی اصولوں کے پابند ہیں۔ قضیئے کے اس پہلے رخ کے بارے میں بھی اور معاملے کے دوسرے رخ کے بارے میں بھی۔
فریق مقابل کی ذمہ داری یہ تھی کہ پابندیوں کو ہٹائے۔ اس نے پابندیاں نہیں ہٹائیں۔ پابندیاں ختم نہیں ہوئیں۔ کچھ پابندیاں انھوں نے ایک طرح سے ہٹائی تو ہیں لیکن عملی طور پر وہ ختم نہیں ہوئی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ جن پابندیوں کے بارے میں بحث ہو رہی تھی وہ دوسرے مرحلے کی پابندیاں تھیں۔ پہلے مرحلے کی پابندیوں کو انھوں نے جوں کا توں پوری شدت کے ساتھ باقی رکھا ہے اور اس کا اثر دوسرے مرحلے کی پابندیوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ جو متعلقہ افراد ہیں توجہ دیں، غور کریں، بار بار یہ نہ کہیں کہ پابندیاں اٹھا لی گئیں۔ جی نہیں، بینکوں کے لین دین کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ بڑے بینک ٹرانزیکشن نہیں کر رہے ہیں۔ امریکی کہتے ہیں؛ صاحب ہم سے کیا مطلب! ظاہر ہے یہ خباثت آلود بات ہے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم سے کیا مطلب؟! یہ انھیں کا کیا دھرا ہے۔ جناب ڈاکٹر ظریف صاحب، پتہ نہیں اس جلسے میں تشریف رکھتے ہیں یا نہیں، امریکی وزیر خارجہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ بینکوں کا مسئلہ، بڑے بینکوں کا مسئلہ اور اس جیسے دوسرے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ صحیح ہے لیکن اس کا ہم سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ یہ فورا کہتے ہیں کہ کیوں نہیں، اگر آپ چاہیں تو حل کر سکتے ہیں۔ یعنی آپ خود رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، یعنی امریکی وزارت خزانہ سد راہ بنی ہوئی ہے۔ ہاں بینکوں کی میٹنگ میں ان کا عہدیدار شرکت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایران سے ٹرانزیکشن میں کوئی حرج نہیں ہے، ہماری جانب سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن عمل میں اور دوسرے بیانوں میں وہ کسی اور لہجے میں بات کرتے ہیں تاکہ وہ بینک جرئت نہ کر سکے۔ بینک کے لئے تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ ایران جیسے آٹھ کروڑ کی آبادی والے بازار میں قدم رکھے! بینک کو اس سے کوئی دریغ نہیں ہے، لیکن اس کے سامنے رکاوٹ ہے، رکاوٹ امریکا کی دھمکیاں ہیں۔ امریکا کے اس حکومتی عہدیدار نے دو تین دن قبل کہا کہ ہم ایران کو چین سے نہیں رہنے دیں گے۔ ہم ایران کو چین کا سانس نہیں لینے دیں گے۔ جب وہ اس طرح کے بیان دیں گے۔ امریکی حکومت کا ایک بڑا عہدیدار جب اس لہجے میں بیان دے گا تو کوئی بینک کیسے ہمت کرے گا کہ یہاں آئے اور لین دین شروع کرے؟ ہاں کچھ چھوٹے بینک آئے ہیں، لیکن معاہدوں کے لئے، حقیقی لین دین اور سرمایہ کاری کے لئے بڑے بینکوں کے میدان میں آنے کی ضرورت ہے اور وہ اب تک آگے نہیں آئے ہیں اور کچھ معلوم نہیں کہ وہ کب آئیں گے۔ یہ بڑی خامی ہے۔ امریکی فریق نے یہ بڑا گناہ کیا ہے، یہ بڑی خلاف ورزی انجام دی ہے۔ ہمیں امریکیوں کی اس حرکت کی توجیہ نہیں پیش کرنا چاہئے۔ بیشک وہ سرکولر جاری کر دیتے ہیں، لیکن سرکولر اور زمینی حقیقت میں فرق ہے۔
تیل ٹینکروں کے بیمے کا قضیہ بھی ایسا ہی ہے۔ تیل کے سودوں میں تیل ٹینکروں کے بیمے کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ ایک محدود سطح تک بیمے کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن بڑی سطح کے بیمے کے لئے، تیل کی اس بڑی مقدار کے لئے جس کا بیمہ بعض اوقات اربوں کا ہوتا ہے، وہ تیار نہیں ہوتے، اس کے انشورنس کے لئے، اس کا بیمہ کرنے کے لئے وہ تیار نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان متعلقہ اداروں اور سسٹموں میں امریکیوں کی رکنیت ہے، امریکی موجود ہیں، وہ سد راہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح سے امریکیوں نے اپنے وعدے کے ایک بڑے حصے پر عمل نہیں کیا ہے۔
ہم نے اپنے پیشگی اقدامات پورے کر لئے۔ ہم نے بیس فیصدی کی سطح کی یورینیم افزودگی روک دی۔ فوردو کو تقریبا بند کر دیا۔ اراک (کے بھاری پانی کے ایٹمی ری ایکٹر) کو بند کر دیا۔ یہ ہمارے پیشگی اقدامات ہیں۔ مگر اب بھی ان کے مطالبات جاری ہیں۔ میں یہیں پر عرض کر دینا چاہتا ہوں؛ اگر جناب ڈاکٹر صالحی (19) صاحب تشریف رکھتے ہیں ( تو سن لیں)، یہ توقعات جو انھوں نے سنٹری فیوج مشینوں میں استعمال ہونے والے کاربن فائبر کے بارے میں وابستہ کر رکھی ہیں، یا ان کا جو تقاضا اس تین سو کلو کے تخمینے کے بارے میں ہے، اسے ہرگز قبول نہ کیجئے، ہرگز نہ مانئے۔ وہ مسلسل مطالبات بڑھاتے جا رہے ہیں۔ ہم نے اتنے سارے پیشگی اقدامات انجام دے دئے، لیکن ہمارے فریق مقابل نے عمل نہیں کیا ہے۔
آج اگر ہم اپنے تیل کی رقم حاصل کرنا چاہیں تو یہ بڑا دشوار کام ہے۔ دشوار بھی ہے اور خرچیلا بھی ہے۔ دوسرے ملکوں میں ہمارے جو پیسے ہیں وہ ہمیں نہیں ملتے۔ اب تک نہیں ملے۔ البتہ کچھ نے وعدہ کیا ہے۔ جیسا کہ جناب صدر محترم نے مجھے بتایا؛ ان ملکوں میں سے ایک نے وعدہ کیا ہے۔ لیکن صرف ایک ملک کی بات نہیں ہے، کئی ملکوں میں پیسے ہیں۔ وہاں کے بینکوں میں ہمارے پیسے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ رقم ڈالر میں ہے اور ڈالر کا ربط امریکا سے ہے، لہذا وہ نہیں دے سکتے، معاملہ الجھ گیا ہے۔ یہ امریکا کی دشمنی ہے۔ دشمنی اور کیا ہوتی ہے؟ انھوں نے اپنے وعدے پر عمل نہیں کیا۔
تو میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایٹمی صنعت ہمارے ملک کے لئے اسٹریٹیجک صنعت ہے۔ یہ صنعت اسی طرح باقی رہنی چاہئے، اس کی توسیع کی جانی چاہئے، اسے نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ اس صنعت کا وجود ملکی تحفظ اور ملکی سلامتی میں بھی موثر ہے۔ ایٹمی صنعت اور ایٹمی ادارے کی آپریشنل صلاحیتیں اور توانائیاں قائم رہنی چاہئے۔ اس کی افرادی قوت محفوظ رہنا چاہئے۔ سابقہ پوزیشن میں لوٹنے کی استعداد باقی رہنی چاہئے۔ اس وقت یہ توانائی محفوظ ہے۔ میں آپ کو بتا دوں کہ چھے مہینے سے بھی کم مدت میں اسی آئی آر 1 یعنی انھیں قدیمی (سنٹری فیوج) مشینوں کی مدد سے ملک کو اٹھارہ ہزار سو ((swo کی پوزیشن تک پہنچا دیں گے۔ آج بھی چھے مہینے کے اندر یہ کام انجام دینے کی توانائی موجود ہے۔ یعنی فریق مقابل اس خیال میں نہ رہے کہ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ہم آئی آر 4 (سنٹری فیوج مشینوں) کی مدد سے جو دوسری اور تیسری نسل کی مشینوں سے زیادہ پیشرفتہ ہیں، اسی طرح جو دیگر ساز و سامان ہے اس کی مدد سے ڈیڑھ سال سے کم مدت میں ایک لاکھ ((swo تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ وہ توانائياں ہیں جو اس وقت ایٹمی انرجی کے ادارے کے پاس موجود ہیں۔ ان توانائیوں کو بروئے کار لائیں، فریق مقابل کو روکیں۔ کوئی عجلت پسندانہ اقدام نہ کیا جائے۔ امریکا کی وعدہ خلافیوں کے جواب میں جو اقدام ممکن ہے انجام دیں۔ خوشی کی بات ہے کہ وزیر خارجہ نے بھی اور صدر محترم نے بھی کہا، یہاں بھی کہا اور پارلیمنٹ کے اندر اور دوسرے مقامات پر بھی کہا کہ ان مسائل کی پیروی کر رہے ہیں۔ پوری سنجیدگی سے پیروی کی جانی چاہئے۔ معروف ضرب المثل ہے کہ 'حق چھین کر لینا پڑتا ہے' وہ بھی جب امریکا جیسے بھیڑئے کا معاملہ ہو تو اپنا حق اس کی حلق سے نکالنا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ طبق میں سجا کر دے دیگا۔ جب تک انھوں نے پوری طرح خلاف ورزی نہیں کی ہے ہم بھی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ لیکن ان کی وعدہ خلافیوں اور غلط اقدامات کے جواب میں ہمیں اپنی توانائیوں کو محفوظ رکھنا چاہئے۔
یہ بھی عرض کر دوں کہ اپنی علمی قوت اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہم امریکیوں سے کچھ حاصل کر سکے ہیں۔ یعنی اگر بیس فیصدی تک افزودگی کی توانائی نہ ہوتی، اگر پیشرفتہ سنٹری فیوج مشینیں بنانے کی توانائی نہ ہوتی تو ہم ہرگز انھیں تیار نہ کر پاتے کہ ہمارے ملک کے اندر یہ چند ہزار سنٹری فیوج مشینیں کام کرتی رہیں۔ انھوں نے اگر قبول کیا، تسلیم کیا اور رکاوٹ نہیں ڈالی تو اس کی وجہ ہماری یہ توانائی تھی۔ اگر یہ توانائی ختم ہو گئی، تو فریق مقابل کا دباؤ بڑھ جائے گا اور یہ توانائی جتنی بڑھتی جائے گی، فریق مقابل پر دباؤ ڈالنے کی ہماری طاقت زیادہ ہوتی جائے گی۔ لہذا اسے محفوظ رکھنا چاہئے۔
اس قضیئے میں ہم نے جو نگراں کمیٹی معین کی ہے، اس سے مجھے توقع یہ ہے کہ مزید باریک بینی سے کام کرے اور زیادہ توجہ دے، جیسے ہی اسے محسوس ہو کہ فریق مقابل اسی مسئلے میں خیانت کا ارتکاب کر رہا ہے، غلط انداز سے کام کر رہا ہے فورا ایسا جوابی اقدام کرے جو قومی مفادات کے دفاع کا تقاضا ہے۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ ہم نے جو کچھ کہا، جو کچھ مانگا، جو نیت کی، جس کا ارادہ کیا، وہ سب اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے۔ اپنی نظر کرم سے اسے قبول فرما۔ ملک کے خدمت گزاروں کو اپنے لطف و کرم کے سائے میں رکھ۔ ہمارے عظیم امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کو، ہمارے عظیم شہدا اور مجاہدین کو اپنے لطف و کرم کے سائے میں قرار دے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله‌

۱) اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے تقریر کی۔
۲) سوره‌ زمر، آیت نمبر ۵۴ کا ایک حصہ؛ «اور اس سے قبل کہ عذاب تم تک آن پہنچے،»
۳) اقبال ‌الاعمال، جلد ۱، صفحہ ۹۰ (ماہ رمضان کے دنوں کی دعا)
4) سوره‌ انفال، آیت نمبر ۲۵ کا ایک حصہ؛ «اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر ان لوگوں تک محدود نہیں رہے گی جنھوں نے گناہ کیا ہے۔»
5) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۷۹ کا ایک حصہ؛ «اے انسان تجھے جو بھلائی بھی ملتی ہے وہ اللہ کی عنایت سے حاصل ہوتی ہے اور جو مصیبت آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب عمل کی بدولت ہے۔ »
6) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۵۵ کا ایک حصہ؛ «تم میں سے جو لوگ مقابلے کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے، ان کی اس لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے ان کے قدم ڈگمگا دئے تھے»
7) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۷۷ کا ایک حصہ؛ « نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انھوں نے اللہ سے کی، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا جو اس کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔»
8) سوره‌ روم، آیت نمبر ۱۰ کا ایک حصہ «تب ان لوگوں کا انجام جنھوں نے قبیح فعل انجام دئے بہت برا تھا، کیونکہ انھوں نے اللہ کی نشانیوں کو جھٹلایا۔»
9) بوستان سعدی، باب نہم (معمولی سے فرق کے ساتھ)
10) منجملہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ سے مورخہ 5 اکتوبر 2006 کا رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب
11) اسٹاکس نیٹ ایک کمپیوٹر وائرس ہے جسے اسلامی جمہوریہ ایران کی ایٹمی تنصیبات میں تخریبی کارروائی انجام دینے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔
12) منجملہ اسلامی نظام کے اعلی حکام سے رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ 24 جولائی 2012 کا خطاب
13) استکبار کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے طلبہ کے اجتماع سے رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ 3 نومبر 2013 کا خطاب
14) ڈونالڈ ٹرمپ اور ہلیری کلنٹن
15) سوره‌ انفال، آیت نمبر ۶۰ کا ایک حصہ؛ اور جہاں تک تمہارا بس چلے تم لوگ زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے کھڑے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لئے مہیا کرو۔
16) 3 جون 2016
17) سوره‌ اسراء، آیت نمبر ۳۴ کا ایک حصہ؛ «اور اپنے عہد کی پابندی کرو۔»
18) سوره‌ انفال، آیت نمبر ۵۸ کا ایک حصہ «اور اگر کسی گروہ سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو اعلانیہ اس کے سامنے پھینک دو۔»
19) ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر علی اکبر صالحی