رہبر انقلاب اسلامی نے مختلف مسائل کے بارے میں غور و خوض، مطلوبہ مسائل پر ارتکاز، موقف اور مطالبات کا اعلان اور عمومی مانگوں کو صحیح شکل دینا ماہرین اسمبلی کے امکانات میں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ہدف پورا ہونے کی صورت میں مختلف محکمے اور عہدیداران خود بخود مطالبات کی تکمیل کے لئے قدم بڑھائیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ ماہرین اسمبلی کی روش اور مقاصد وہی ہونے چاہئے جو انقلاب کی روش اور مقاصد ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اسلام کی حکمرانی، آزادی، خود مختاری، سماجی مساوات، رفاہ عامہ، غربت و جہالت کی بیخ کنی، مغرب میں جاری اخلاقی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی بدعنوانیوں کے تباہ کن سیلاب کے مقابلے میں مزاحمت اور استکباری محاذ کی توسیع پسندی کے مقابلے میں استقامت ملت ایران کے اسلامی انقلاب کے اہم ترین مقاصد ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے مقتدر ہونے کی صورت میں دشمن سے بھی مطالبات منوا لینے کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے عزیز دوست کہتے ہیں کہ ہم نے ایٹمی مذاکرات میں اپنے مطالبات منوائے اور فریق مقابلنے ایران کی ایٹمی صنعت کو باقاعدہ تسلیم کیا، یہ چیز ایران کی قوت عملی طور پر ظاہر ہو جانے یعنی یورینیم کو بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ کرنے کی توانائی حاصل ہو جانے کے بعد ملی، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ افزودگی کے عمل میں بیس فیصدی کے گریڈ تک رسائی سب سے دشوار مرحلہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے ماہرین اسمبلی کے سربراہ آیت اللہ جنتی نے نئی اسمبلی کے کام کے آغاز کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے دئے گئے پیغام کی قدردانی کی اور بتایا کہ اسمبلی کا ماحول بڑا پرسکون اور نظم و ضبط سے آراستہ ہے۔ انھوں نے ماہرین اسمبلی کی اہم پوزیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رائے عامہ کے نزدیک اس اسمبلی کا خاص احترام ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

اپنے پورے وجود سے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں ملک میں وسیع عوامی پذیرائی کے ساتھ انجام پانے والے انتخابات کے لئے (2)، جس کے نتیجے میں بحمد اللہ یہ محترم اور باوقار اسمبلی تشکیل پائی۔ تمام برادران گرامی، محترم حضرات، علما و فضلائے کرام کو خوش آمدید کہتا ہوں، خاص طور پر ان افراد کو جو نئے ہیں اور پہلی دفعہ اس اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ بحمد اللہ ان کے درمیان جوش و جذبے سے بھرے ہوئے نوجوان مجتہدین کی اچھی تعداد موجود ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اپنے فرائض کو انجام دے سکیں۔
اس اسمبلی کے رحلت فرما چکے ارکان کو یاد کرنا چاہوں گا۔ کچھ عزیز اور بزرگ افراد برسوں اس اسمبلی کا حصہ رہے، انھوں نے بڑی خدمات انجام دیں، بڑا کام کیا۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان میں سے حال ہی میں رحلت فرمانے والے طبسی مرحوم تھے۔ اللہ تعالی اس خدمت گزار اور محنتی انسان کو اس دشوار اور پرخطر دور میں ان کی زحمات کا اجر عطا فرمائے۔
ماہ شعبان میں اس جلسے کے انعقاد کو جو عظیم عیدوں کا مہینہ، گریہ و زاری اور استغفار کا مہینہ ہے، ہم فال نیک سمجھتے ہیں۔ بڑا اہم مہینہ تھا جو اب ختم ہونے کو ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں اس مہینے کی برکتوں سے محروم نہ رکھا ہو جس میں؛ «اَلَّذی کانَ رَسولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ یَدأَبُ فی صیامِهِ وَ قیامِهِ فی لَیالیهِ وَ اَیّامِه» (3)۔
میں نے آپ کی خدمت میں عرض کرنے کے لئے تین نکات معین کئے ہیں۔ ایک نکتہ اس اسمبلی کی ماہیت سے متعلق ہے۔ ایک نکتہ اسمبلی کے طریقہ کار اور فرائض سے متعلق ہیں۔ یعنی اس اسمبلی کا رخ اور طریقہ کار کیا ہونا چاہئے۔ ایک نکتہ اگر وقت رہا، بات بہت طولانی نہ ہوئی تو آخر میں عرض کروں گا، وہ عمومی فرائض سے متعلق ہے جو موجودہ دور میں سب کے دوش پر منجملہ ہمارے اور آپ کے، اسی طرح اس اسمبلی کے دوش پر عائد ہوتے ہیں۔
اس اسمبلی کی ماہیت کے بارے میں جب میں سوچتا ہوں تو یہ پاتا ہوں کہ یہ ایک الہی عطیہ تھا جو اللہ تعالی نے اسلامی جمہوری نظام کو عطا فرمایا۔ ماہرین اسمبلی اللہ کی طرف سے ایک عطیہ ہے، بڑی عظیم شئے ہے۔ حالانکہ یہ اسمبلی ایک خاص ہدف کے لئے ہے جس کا ذکر آئین میں موجود ہے، لیکن اس ہدف سے قطع نظر بھی یہ اسمبلی بہت عظیم چیز ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ ملک بھر کے علمی اور دینی ماہرین، صاحبان نظر اور علما کی اسمبلی ہے جو سال میں دو دفعہ اور اگر ضرورت پڑے تو اس سے زیادہ دفعہ ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں اور تبادلہ خیالات، فکر و تدبر اور ہم آہنگی قائم کرنے کا بڑا باعظمت پلیٹ فارم تیار کر لیتے ہیں۔
ہم کبھی نہیں بھولیں گے، 1962، 1963 میں اسلامی انقلاب کی تحریک کے ابتدائی دور میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ تقاضا کرتے تھے، پیغام بھیجتے تھے مختلف چھوٹے شہروں اور قصبہ جات کے علما کو کہ آپ تھوڑے تھوڑے وقفے سے ایک ساتھ جمع ہوئیے۔ خواہ ساتھ میں ایک چائے پی کر اٹھ جانا ہو، پھر بھی آپ جمع ہوئیے، ایک دوسرے سے ملئے، چاہے کسی اہم مسئلے پر کوئی بحث بھی نہ کرنا ہو۔ یعنی ملک کے علما اور دینی و علمی امور کے ماہرین کا ایک جگہ جمع ہونا اپنے آپ میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ آج آپ دیکھئے کہ دنیا میں مختلف بہانوں سے وہ افراد جن کے اندر کچھ اشتراکات ہیں، مختلف عناوین سے ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ کبھی یونین کے نام پر، کبھی انجمن کے نام پر، کبھی سینڈیکیٹ کے نام پر۔ یہ یونینیں بہت سے بڑے کام انجام دینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ کبھی کبھی تو وہ ایسے کام بھی کرتی ہیں جن کا ان کے پیشے سے تعلق بھی نہیں ہوتا۔ آپ سنتے ہیں کہ اقتصاد دانوں کی یونین نے یا بین الاقوامی قانون دانوں کی یونین نے، فنکاروں کی یونین نے ملک یا دنیا کی سطح کے کسی اہم سیاسی مسئلے کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا ہے۔ یعنی یونینیں تشکیل دی جاتی ہیں اس لئے کہ جو لوگ یکسانیت و اشتراک رکھنے والے ہیں، خواہ وہ کسی بھی طرح سے ہو، حالانکہ ان کی پسند اور آواز الگ الگ ہے، مگر وہ ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ بذات خود یہ اجتماع بھی بڑا عظیم موقع فراہم کرتا ہے بڑے کام انجام دینے کا۔ اس ملک کی پیش قدمی میں اور بسا اوقات تو بین الاقوامی سطح کے فیصلوں میں اس کا اثر ہوتا ہے۔ یہ چیز دنیا میں رائج ہے۔
ہمارے پاس یہ اسمبلی ہے۔ اللہ نے اس ملک کو یہ عطیہ دیا ہے۔ محترم و معتبر علمائے دین جن پر قوم نے اعتماد کیا ہے، ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ اس طرح بڑی عظیم ظرفیت وجود میں آتی ہے اور اس طرح بڑے کاموں کی انجام دہی کے امکانات فراہم ہوتے ہیں۔ یہ تو مناسب نہیں ہے کہ سب انتظار میں بیٹھے رہیں اور جب اس فریضے کا وقت آئے جس کا ذکر آئین میں موجود ہے تب اپنا کام شروع کریں۔ یہ افراد دوسرے بھی بہت سے کام انجام دے سکتے ہیں۔
ان یونینوں اور تنظیموں کے پاس جن کا ذکر میں نے کیا کوئی عوامی پشت پناہی نہیں ہوتی۔ وہ تو ماہرین اقتصادیات یا قانون دانوں کی انجمن یا یونین ہے۔ خود ان کے میدان سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ ممکن ہے کہ انھیں جانتے ہوں، مانتے ہوں، لیکن معاشروں کے اندر ان کے پاس عوامی پشت پناہی نہیں ہوتی۔ جبکہ اس اسمبلی کی صورت حال مختلف ہے۔ اس اسمبلی میں جو افراد ہیں انھیں عوامی حمایت حاصل ہے۔ بعض کو تو بہت وسیع عوامی حمایت حاصل ہے۔ صوبے، شہر یا دینی درسگاہ کے نمایاں عالم دین ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ وہ گوناگوں مسائل کے بارے میں بحث کر سکتے ہیں۔ ملک کے مسائل میں کسی بھی اہم مسئلے پر توجہ مرکوز کرکے اس کے بارے میں کام کر سکتے ہیں۔
یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اجرائی امور تو ہمارے ہاتھ میں ہیں نہیں۔ بیشک اجرا کی ذمہ داری اس اسمبلی کی نہیں ہے، حکومتی عہدیداران کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن آپ کے ہاتھ میں ایک چیز ہے جو اجرائی امور سے بالاتر ہے اور وہ ہے رائے عامہ۔ آپ یا تو امام جمعہ ہیں، یا ولی امر مسلمین کے نمائندے ہیں یا دینی درسگاہ کے معلم ہیں یا کوئی معروف اور مقبول عالم دین ہیں۔ آپ رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ جب رائے عامہ بن جاتی ہے، جب کسی مسئلے کے بارے میں معاشرے کی سطح پر ایک ذہنیت وجود میں آ جاتی ہے تو قانون ساز، اجرائی عہدیداران اور دیگر متعلقہ افراد خود بخود اس کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں، یہ ایک فطری شئے ہے۔ بنابریں یہ اسمبلی میری نظر میں اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ ہمیں اس پر توجہ دینا چاہئے۔
اس طرح ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اپنے اس عظیم تشخص کے مد نظر یہ اسمبلی انقلاب کے اہداف کی تکمیل کے سلسلے میں بڑے کام انجام دے سکتی ہے۔ میں نے چند سال قبل، شاید اس سے ایک یا دو دورے قبل کی اسمبلی سے اسی نشست میں کہا تھا (4) کہ آپ گوناگوں مسائل کے بارے میں قرارداد پاس کر سکتے ہیں۔ کسی بھی خاص موضوع کو زیر بحث لائیے اور کہئے کہ اسمبلی کا منشا یہ ہے۔ ماہرین اسمبلی کے ارکان عوام کے ذریعے منتخب نمائندے بھی ہیں اور خود بھی وہ کوئی معمولی افراد نہیں ہیں۔ ان کا عوام سے رابطہ ہے، عوام نے ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے، وہ خود مہارت رکھتے ہیں، صاحب نظر ہیں، مسائل کی تشخیص کر سکتے ہیں۔ کسی مسئلے میں اگر اپنی تشخیص کی بنیاد پر انھوں نے کوئی نتیجہ اخذ کیا ہے تو وہ اسی کے مطابق کوئی مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔ رہبر انقلاب سے، حکومت سے، مقننہ سے یا عدلیہ سے اسی طرح دیگر اداروں سے کسی بھی چیز کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ تو یہ اس اسمبلی کی ماہیت سے متعلق کچھ باتیں تھیں۔ میری نظر میں ماہیت کا معاملہ بہت اہم ہے۔ اس اسمبلی کی اہمیت ہر ایک کو سمجھنا چاہئے، آپ بھی اس کی قدر کیجئے، ہمیں بھی اس کی قدر کرنا چاہئے، دیگر عہدیداران کو بھی اس کی قدر و منزلت سمجھنا چاہئے۔ یہ اسمبلی بہت بڑے اثرات و ثمرات کا سرچشمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
دوسرا نکتہ اس اسمبلی کے رخ اور طریقہ کار کے بارے میں ہے۔ اس حقیر کی رائے میں تو اس اسمبلی کا راستہ اور اس کے اہداف وہی انقلاب کے اہداف اور انقلاب کا راستہ ہے۔ یعنی اس اسمبلی کو انقلاب کی راہ میں اور انقلابی اہداف کی راہ پر چلنا چاہئے۔
انقلاب کے اہداف کیا ہیں؟ سب سے پہلا ہدف ہے اسلام کی حکمرانی۔ انقلاب آیا ہی اس لئے کہ اسلام کی حکمرانی قائم ہو۔ اسلام کو حاکمیت ملے اپنے اس خاص معنی و مفہوم میں۔ انقلاب کے اہداف سے مراد ہے؛ دین خدا کی حکمرانی، آزادی، سماجی انصاف، رفاہ عامہ، غربت و جہالت کی بیخ کنی، مغرب سے ساری دنیا میں پھیلتے جا رہے تباہ کن اخلاقی انحطاط کے سیلاب کی روک تھام، آج آپ اس سیلاب کے اثرات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بعض ملکوں میں ہم جنس بازی کو قانونی درجہ دے دیا گیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ اسے قانونی درجہ دے دیا گيا ہے بلکہ اگر کسی کو اس پر اعتراض ہو تو اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ اس سے بڑی اخلاقی بے راہروی اور کیا ہو سکتی ہے؟ کچھ لوگ ماضی میں یہ سوچتے تھے کہ مغرب میں عورت اور مرد کے اختلاط کی پوری آزادی ہے، آپس میں رابطے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے تو نفسانی ہوسناکی بہت کم ہو جائے گی۔ جہاں ان چیزوں پر روک ٹوک ہے وہاں ؛ الاِنسانُ حَریصٌ عَلی ما مُنِع! (انسان منع کی جانے والی چیزوں کا زیادہ خواہشمند ہوتا ہے۔) مگر اب حقیقت سامنے آ گئی کہ ایسا نہیں ہے۔ جہاں جنسی روابط کی آزادی ہے، کسی طرح کی کوئی روک ٹوک نہیں ہے، وہاں شہوانی ہوس روز بروز بڑھتی جاتی ہے، اس میں تشدد اور جارحیت کا پہلو بڑھتا جاتا ہے اور وہ زیادہ جارحانہ انداز میں ابھرتی ہے۔ یہ موجودہ حدود تک بھی محدود نہیں رہے گی۔ مستقبل میں محرموں کی شادی کی بحث بھی شروع ہو سکتی ہے۔ یہ بحث اور بھی حساس مراحل تک پہنچے گی۔ یعنی اخلاقی بدعنوانی کا یہ سلسلہ اس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ تو یہ اخلاقی مسائل سے متعلق کچھ باتیں تھیں۔
اسی طرح اقتصادی مسائل بھی ہیں۔ منی لانڈرنگ کا مسئلہ ہے۔ منی لانڈرنگ کا ذکر ہوتا ہے اور اسے جرم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن دنیا کی بڑی کمپنیاں پیسے کا یہی کھیل کھیلتی ہیں اور ثروت کا انبار لگاتی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں طبقاتی فاصلہ بڑھنا فطری ہے، تفریق و امتیاز میں شدت پیدا ہونا فطری ہے۔ یہ بنیادوں کو ہلا دینے والا سیلاب ہے، اس کی زد پر تمام ممالک اور تمام معاشرے ہیں۔ انقلاب کے اہداف میں سے ایک ہدف اس بنیاد شکن سیلاب کو روکنا بھی ہے۔
استکبار کے مقابلے میں مزاحمت انقلاب کے اہداف میں شامل ہے۔ توسیع پسندی استکبار کی سرشت میں شامل ہے، وہ ہمیشہ تسلط قائم کرنے کی فکر میں رہتا ہے، اپنے تسلط کا دائرہ بڑھانے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ اگر کوئی قوم اور کوئی نظام مزاحمت نہ کرے تو استکبار کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ یہ مزاحمت انقلاب کے اہداف میں شامل ہے۔ اس اسمبلی کا راستہ وہی ہے جو انقلاب کے اہداف پورے کرے۔ یہ دشوار کام ہے، یہ بہت سخت کاموں میں سے ایک ہے۔ ظاہر ہے جس چیز کے لئے رقابت ہے، مقابلہ آرائی ہے اس کا حصول دشوار ہوتا ہے، تاہم اس کی نگہداشت اور حفاظت حصول سے بھی زیادہ سخت ہوتی ہے۔ آپ کسی گراں قیمت ہیرے کی مثال لے لیجئے جس کے خواہش مند افراد کی تعداد زیادہ ہو۔ آپ اس مقابلے میں شامل ہوتے ہیں اور بڑی مشکل سے وہ ہیرا حاصل کر لیتے ہیں۔ اب اس کی حفاظت کرنا اس کے حصول سے زیادہ دشوار کام ہوگا۔ وجہ بالکل ظاہر ہے۔ جب آپ مقابلے کے میدان میں اترتے ہیں تو اقدامی اور جارحانہ جذبہ متحرک ہوتا ہے، پورے جوش و خروش کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں، آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا ہدف کیا ہے۔ آپ ایک واضح اور طے شدہ ہدف کی جانب آگے بڑھتے ہیں۔ مگر جب آپ اسے حاصل کر لیتے ہیں تو اس کے بعد اب فریق مقابل جو اسے آپ سے چھین لینے کی کوشش میں ہے، جارحانہ جذبے کے ساتھ آگے آتا ہے۔ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں اترتا ہے، آپ کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کس سمت سے حملہ کرے گا۔ تاہم اس کی منصوبہ بندی جاری ہے اور آپ پر حملے کے منصوبے تیار کرنے میں وہ مصروف ہے۔ انقلاب لانا بہت دشوار کام تھا، یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کے لئے جدت عملی کی ضرورت تھی، سخت کوشی کی ضرورت تھی، خون جگر پینا پڑا، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس قوم کو اور اس فعال اور مجاہد معاشرے کو اپنے نعروں سے، اپنے جوش و جذبے سے، اپنے تقوے سے، اپنے ایمان سے اور اپنی اس صداقت سے جس کا آپ نے مظاہرہ کیا، عوام کو متحرک کر دیا اور یہ دشوار کام انجام پا گیا۔ اس انقلاب نے نظام حکومت تشکیل دیا، کامیاب ہوا، فتحیاب ہوا۔ لیکن اب اس انقلاب کی حفاظت اور نگہداشت کا مرحلہ ہے جو زیادہ مشکل کام ہے۔ دشمن، یعنی وہ طاقتیں جن سے انقلاب لانے کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے، وہ چین سے بیٹھنے والی نہیں ہیں، وہ اب بھی باز نہیں آئی ہیں۔ وہ اس کوشش میں لگی ہیں کہ اس انقلاب کو آپ سے ہائی جیک کر لیں۔ آپ نے دیکھا کہ ان چند برسوں کے دوران بعض ممالک میں عوام نے بہت بڑے پیمانے پر انقلاب برپا کیا، لیکن دشمنوں نے آکر ان انقلابات کو اغوا کر لیا اور انقلاب لانے والی قوموں کو بدبختی میں دھکیل دیا۔
بے شک اسلام ظلم و استکبار کا قلع قمع کر دینے والا دین ہے؛ لِیُظهِرَهُ عَلَی الدّینِ کُلِّه (۵) یقینا اسلام کفر کو، دشمن محاذ کو شکست دینے کی توانائی رکھتا ہے۔ لیکن کون سا اسلام یہ کام انجام دینے پر قادر ہے۔ وہی اسلام کفر و ظلم و استکبار کا قلع قمع کر سکتا ہے، اس پر بندش لگا سکتا ہے، یا اس کی پیش قدمی اور جارحیت کو روک سکتا ہے جس کے پاس حکومت ہو، جس کے پاس نظام ہو، جس کے پاس عسکری طاقت ہو، جس کے پاس میڈیا ہو، جس کے پاس سیاست ہو۔ جس کے پاس معیشت ہو، لا محدود وسائل ہوں۔ جو اسلام نظام سازی اور حکومت سازی میں کامیاب ہو جائے وہ مزاحمت کر سکتا ہے۔ ورنہ کوئی ایک شخص خواہ وہ کتنا ہی عظیم انسان کیوں نہ ہو یا اسلامی تحریکیں جو آج دنیا میں ہیں، اگر حکومت سازی کی سمت میں کوئی پیش قدمی نہ کریں تو ان سے استکبار کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کیونکہ وہ کچھ بھی کر پانے پر قادر نہیں ہیں۔ وہ ظلم و کفر و استکبار کا قلع قمع نہیں کر سکتیں۔۔ آپ نے وہ اسلام حاصل کیا ہے جو مزاحمت پر، محاذ کفر کے سامنے سینہ سپر ہو جانے پر قادر ہے۔ آپ نے یہ اسلام حاصل کیا ہے اور بڑی زحمتیں اور صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد آپ کو یہ اسلام حاصل ہوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کی حفاظت کیسے کریں گے؟ دشمن کے مقابلے میں اس کی حفاظت ضروری ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیجئے تب بھی اسی طرح باقی رہے گی۔ دشمن اس پر حملہ کر دیں گے۔
دشمن کئی طرح کے حملے کرتا ہے؛ ایک تو فوجی ساز و سامان سے کیا جانے والا حملہ ہے۔ دشمن اس کا تجربہ کر چکا ہے اور ہزیمت بھی اٹھا چکا ہے۔ ہمارے خلاف جو آٹھ سالہ جنگ مسلط کی گئی، وہ اس کی مثال ہے۔ یہ بین الاقوامی جنگ تھی۔ کسی نے صدام کو کیمیائی ہتھیار دئے، کسی نے مگ طیارے دئے، کسی نے میراج طیارے دئے، کسی نے اینٹی ایئرکرافٹ سسٹم دیا، کسی نے جنگ کی اسٹریٹیجی دی، دوسروں نے اسے جنگ کا نقشہ اور بنکر تعمیر کرنے کی ٹیکنالوجی تک دی۔ سب نے اس کی مدد کی کہ وہ یہ جنگ جیت جائے لیکن وہ جیت نہ پایا۔
مسلحانہ حملے کی ایک مثال آٹھ سالہ جنگ ہے، دوسرا نمونہ قومیتی شورشیں ہیں جو ملک کے سبھی سرحدی علاقوں میں انھوں نے شروع کروا دی تھیں۔ آپ کو یاد ہے کہ ہر جگہ جنگ شروع کروا دی گئی تھی، شورش ہونے لگی تھی۔ مگر دشمن پھر بھی اپنا مقصد پورا نہیں کر سکا۔ دہشت گرد تنظیموں کی انھوں نے تشکیل کی یا پہلے سے موجود دہشت گردوں کو متحرک کیا۔ امریکا نے تیل کی جیٹی پر حملہ کیا، امریکا نے مسافر طیارہ گرایا، ان سے جو بھی ہو سکتا تھا انھوں نے کیا۔ یہ فوجی جنگیں ہیں۔ ان تمام جنگوں میں انھیں شکست ہوئی۔ ملت ایران کے سامنے، عظیم الشان قائد امام خمینی کے سامنے انھیں شکست ہوئی اور ان پر مزید ہیبت طاری ہو گئی۔ امام خمینی نے اپنی اس خاص طاقت کے ذریعے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کی تھی اور آپ کے اندر ایک ہیبت قرار دی تھی، آپ کے تقوے کی وجہ سے، توکل کی وجہ سے، اس خاص بصیرت کی وجہ سے اور نصب العین کے لئے آپ کے اندر موجود ارتکاز و یکسوئی کے نتیجے میں خاص ہیبت آپ کے وجود میں نظر آتی تھی۔ اس سے دوسروں پر خوف طاری ہو جاتا تھا۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ سے دشمن واقعی مرعوب رہتے تھے؛ کَاَنَّهُم حُمُرٌ مُستَنفِرَةٌ * فَرَّت مِن قَسوَرَةٍ (۶)، شیر کی غراہٹ کی مانند جس سے جانور خائف رہتے ہیں، امام خمینی کی آواز انھیں خوفزدہ کئے رہتی تھی۔ تو اس مرحلے میں بھی انھیں شکست ہوئی۔
اس کے بعد کا مرحلہ نرم جنگ کا مرحلہ ہے۔ نرم جنگ کے حملے کی ایک قسم تو یہی چیزیں ہیں جو آپ نے دیکھیں؛ اقتصادی پابندیاں، گمراہ کن تشہیراتی مہم وغیرہ۔ یہ سارے کام دشمن نے روز اول سے ہی شروع کر دئے تھے اور انھیں جاری رکھا گیا۔ بخیال خویش انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف مفلوج کن اور کمر شکن پابندیاں لگائیں۔ اس کا بھی اثر نہیں ہوا، یہ بھی کامیاب نہیں ہو پائیں۔ وہ پابندیوں کے ذریعے اور اقتصادی ناکہ بندی کے ذریعے اسلامی جمہوریہ کو مفلوج کر دینا چاہتے تھے۔ مگر اسلامی جمہوریہ مفلوج نہیں ہوئی۔ انھیں پابندیوں کے عالم میں اس نے بہت بڑے کارنامے انجام دئے۔ میں نے ایک رپورٹ میں صیہونی حکومت کے ایک جنرل کا ایک بیان پڑھا، اس وقت یہ بیان غیر ملکی میگزینوں میں شائع ہوا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ میں ایران کا دشمن ہوں، میں ایران کو پسند نہیں کرتا، مگر اس کی تعریف کرتا ہوں۔ ایران نے پابندیوں کے ایام میں بھی فلاں میزائل کا تجربہ کیا ہے، اس وقت اس میزائل کا تجربہ کیا گیا تھا اور انھوں نے سیٹیلائٹ وغیرہ سے اس تجربے کو دیکھا تھا، اس کے بارے میں واقفیت حاصل کی تھی۔ میں اس کی تعریف کرتا ہوں۔ پابندیوں کے ایام میں، پابندیوں کی حالت میں، دوسروں سے کوئی بھی مدد لئے بغیر، بلکہ شدید اقتصادی دباؤ کے باوجود یہ کام انجام پا گیا۔ نرم جنگ کے تحت ایک اور اقدام انھوں نے یہ کیا کہ بعض ملکوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سپورٹ کو نشانہ بنایا، دیگر ملکوں میں اسلامی جمہوریہ کی اسٹریٹیجک گہرائی سمجھی جانے والی چیزوں کو نابود کر دیا۔ بالکل ختم کر دیا یا پھر ایک حد تک نقصان پہنچا دیا۔ مگر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ یہ ساری چیزیں بھی اثرانداز نہ ہو سکیں۔ اس طرح نرم جنگ میں بھی انھیں شکست ہوئی۔
تیسرے مرحلے میں جو چیز انجام دی جا رہی ہے اور یہ آج کی بات نہیں ہے، بلکہ کئی سال سے یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور روز بروز اس میں وسعت آتی جا رہی ہے، وہ جدید قسم کی نرم جنگ ہے۔ یہ بہت زیادہ خطرناک بھی ہے۔ میں اس کے بارے میں مختلف عہدیداروں اور حلقوں کو بار بار خبردار کرتا رہتا ہوں۔ یہ فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کے اداروں میں دراندازی کی کوشش ہے۔ یہ عوام الناس کے خیالات و نظریات تبدیل کر دینے کی غرض سے کی جانے والی دراندازی ہے۔ اس کا مقصد اندازوں اور تخمیوں کو تبدیل کر دینا ہے۔ ہم عہدیداران اپنے کاموں کے سلسلے میں کجھ اندازے اور تخمینے رکھتے ہیں۔ انھیں اندازوں اور تخمینوں کی بنیاد پر ہم کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔ اب اگر وہ ہمارے اندازے اور تخمینے بدلنے میں کامیاب ہو گئے تو ہمارا موقف بھی بدل جائے گا۔ دشمنوں کا ایک بنیادی کام یہی ہے؛ عہدیداروں کے اندازوں کو تبدیل کرنا، عوام کے خیالات کو بدلنا، فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کے اداروں اور ٹیموں میں تبدیلیاں لانا۔ یہ وہ خطرناک چیز ہے جس میں انقلاب کی بنیادوں اور اصولوں پر حملہ بھی مضمر ہے۔ حفاظتی اور دفاعی اصولوں پر حملہ اس میں شامل ہے۔ پاسداران انقلاب فورس پر حملہ کرتے ہیں، تشہیراتی حملے کرتے ہیں، شورائے نگہبان (نگراں کونسل) پر، مومن و دیندار نوجوانوں پر حملے کرتے ہیں۔ آج بیرونی نشریات، ٹی وی چینلوں اور پروپیگنڈوں میں یہ باتیں بھری پڑی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم آپ حضرات کتنا دیکھتے ہیں اور کہاں تک آپ کی دسترسی ہے۔ خاص طور پر اب جو مواصلاتی ذرائع وجود میں آ گئے ہیں۔ یہ سب مسلسل کام کر رہے ہیں اور اپنے مخاطب افراد کے اندر یہی سوچ ڈال دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ انقلابی علمائے کرام پر حملے کرتے ہیں۔ انقلابی علما کو سرکاری مولوی وغیرہ جیسے القاب کے ذریعے نشانہ بناتے ہیں۔ کردار کشی کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اس نرم جنگ میں اصلی مقصد یہ ہے کہ اسلامی ںظام کی قوت و طاقت کے عناصر کو پوری طرح ختم کرکے اسے کھوکھلا کر دیا جائے۔ جب یہ نظام کمزور ہو جائے گا، اس کی قوت و توانائی کے عناصر زائل ہو جائیں گے، جب اس کے پاس طاقت نہیں بچے گی، تو پھر اسے ختم کرنا اور کسی بھی سمت میں گھسیٹ لینا آسان ہو جائے گا۔ ان سپر طاقتوں کے لئے پھر یہ کوئی مشکل کام نہیں رہ جائے گا۔ وہ چاہتی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنی پیروی کرنے پر آمادہ کر لیں۔
یہاں پر اسی جہاد کبیر کا موقع ہے جس کے بارے میں چند روز قبل میں نے گفتگو کی (7)، فَلا تُطِعِ الکٰفِرینَ وَ جٰهِدهُم بِه‌ جِهادًا کَبیرًا؛(۸) تفاسیر کہتی ہیں کہ لفظ 'بہ' میں جو واحد غائب کی ضمیر ہے وہ قرآن کی جانب پلٹتی ہے۔ حالانکہ عبارت میں قرآن کا لفظ نہیں آیا ہے کہ ضمیر اس کی جانب پلٹے۔ مگر مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں یہی کہا ہے اور علامہ طباطبائی کے تبصرے سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ 'بہ' میں واحد غائب کی ضمیر قرآن کی جانب پلٹتی ہے۔ میں نے بھی اس تقریر میں یہی بات کہی لیکن بعد میں میں نے سوچا کہ یہاں ایک اور بالکل واضح مرجع موجود ہے؛ «فَلا تُطِعِ الکٰفِرینَ وَ جٰهِدهُم بِه‌» سے مراد ہے عدم الاطاعۃ عدم الاطاعۃ یعنی وہ مصدر جس سے وہ فعل نکلا ہے اور جو اسی فعل میں مستتر ہے۔؛ فَلا تُطِعِ الکٰفِرینَ وَ جٰهِدهُم بِه‌، یعنی اسی عدم اطاعت اور نافرمانی کے ذریعے ان سے جہاد کرو۔ یعنی یہ نافرمانی اور عدم اطاعت بھی جہاد کبیر ہے۔ یہ مفہوم ذہن سے زیادہ قریب ہے۔ میں نے تحقیق نہیں کی کہ مفسرین میں کسی نے یہ مفہوم اخذ کیا ہے یا نہیں۔ لیکن بہرحال یہ ایک اہم احتمال ضرور ہے۔ جہاد کبیر کا یہ مطلب ہے۔ عدم اتباع کے لئے جہاد۔ دشمن کی پیروی نہ کرنے کے لئے جہاد۔ اس اسمبلی کی روش یہی ہے، اس کا راستہ انقلابی راستہ ہے، اس کی روش انقلابی روش ہے۔ انقلاب کے راستے پر چلنا، اسلام کو استحکام پہنچانا اور دین خود کو محکم بنانا۔
اگر ہم حکم خداوندی اور دین الہی کو قائم نہیں کرنا چاہتے تو پھر اس منصب پر کیوں بیٹھے ہیں؟ میں اس عہدے پر کیوں رہوں؟ پھر تو جو لوگ پہلے ان عہدوں پر تھے وہی اور ان کے جیسے دیگر افراد آئیں اور ملک کا نظم و نسق چلائیں۔ ہم اس لئے آئے ہیں کہ دین خدا کی بنیادوں کو محکم بنائیں، دین خدا کی حکمرانی کو عملی جامہ پہنائیں۔ ہمارا ہدف یہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اس راستے میں کوئی قتل ہوتا ہے تو وہ شہید راہ خدا قرار پاتا ہے۔ اسی مقصد کے تحت ہمارے عوام نے اپنے نونہالوں کو اس سخاوت مندی کے ساتھ قربان کر دیا اور آج بھی اپنے نوجوانوں کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ ورنہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اقتصادی رونق اور ترقی کا کام تو دوسرے بہت سے افراد بھی انجام دے سکتے ہیں، میں عالم دین ہوکر یہ کام کیوں کروں؟ میں بھی درس اور علمی بحث میں جاکر مصروف ہو جاؤں۔ دوسرے افراد یہ کام انجام دے سکتے ہیں، دنیا میں اسی طرح کے افراد یہ کام انجام دے رہے ہیں۔ اگر دین خدا کی بحث، دین خدا کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کا مسئلہ نہ ہو، اگر دین خدا کی حکمرانی کی بات نہ تو ان عہدوں پر میرے اور آپ کے ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ تو ہدف یہ ہے؛ اسلام کی بنیادوں کو مستحکم کرنا۔
اسی طرح جدت عملی اور اختراعی کوششوں کا مسئلہ ہے۔ میں جدت عملی پر زور دیتا رہتا ہوں لیکن یہ جدت عملی نظم و ضبط کے ساتھ ہونی چاہئے۔ جدت عملی ماہر اور تعلیم یافتہ افراد انجام دیں، بے علم یا کم علم افرد نہیں۔ دینی امور میں جدت عملی۔ دین میں توسیع کی صلاحیت ہے۔ چونکہ دین تمام ادوار اور گوناگوں حالات کے لئے بھیجا گیا ہے۔ بنابریں دین خدا استنباط اور اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والے افراد کے ذریعے کچھ مسائل میں وسعت پا سکتا ہے۔ چنانچہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے نمونے ہمارے سامنے پیش کر دئے۔ کچھ چیزوں پر عمل ہوا اور بعض چیزیں آپ کے زمانے میں کم از کم بیان کی حد تک پیش کر دی گئیں۔
دشمن جو زخم لگاتا ہے اس کا مداوا کرنا بھی ایک اہم کام ہے۔ دشمن پیکر انقلاب پر وار کرتا رہتا ہے۔ ہمیں ان زخموں پر مرہم لگانے کا کام کرنا چاہئے۔ ایک مسئلہ مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلاف کا ہے، شیعہ سنی اختلاف کا مسئلہ ہے، حلقوں کے درمیان اختلاف کا مسئلہ ہے، معاشرے کو دو مصنوعی محاذوں میں تقسیم کرنے کا مسئلہ ہے۔ یہ زخم ہیں جو دشمن لگا رہا ہے۔ ان زخموں کا مندمل ہونا ضروری ہے۔
بہرحال جس چیز پر میں خاص تاکید کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تبدیلی اور پیشرفت کے اصول کو ہمیشہ نظروں کے سامنے رکھا جانا چاہئے۔ جمود کی کیفیت میں مبتلا رہنا مناسب نہیں ہے۔ ہمیں ہمیشہ آگے بڑھنا چاہئے، پیشرفت کرنا چاہئے۔ تاہم ہماری پیشرفت انقلاب کے اہداف اور دین کے اہداف کی سمت میں ہونا چاہئے۔ یہ چند نکات ہم نے اس واقعی قابل احترام اسمبلی کے طریقہ اور روش کے بارے میں عرض کئے۔
اب جہاں تک عمومی فرائض کا سوال ہے تو اسے بھی میں اختصار کے ساتھ بیان کرنا چاہوں گا تاکہ گفتگو زیادہ طولانی نہ ہو۔ ایک جملے میں ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ ملک کو مقتدر بنانا، وطن عزیز کو طاقتور بنانا ہمارا فریضہ ہے۔ انقلاب کی بقا کا راستہ، انقلاب کی پیشرفت کا راستہ، انقلاب کے اہداف کی تکمیل کا راستہ یہ ہے کہ ہم ملک کو طاقتور بنائیں۔ اگر ہم یہ فریضہ انجام دینے پر قادر ہوئے، یعنی حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ، مسلح فورسز، انقلابی ادارے اور یہ اسمبلی اس میدان میں کچھ کرنے اور مدد بہم پہنچانے میں کامیاب ہوئی تو ہمیں اطمینان ہو جائے گا کہ ہم حقیقت میں انقلاب کی حفاظت کر رہے ہیں۔ اگر کوئی ملک طاقتور اور مقتدر بن گيا تو استکبار کو بھی امتیاز اور مراعات دینے پر مجبور کر لے جائے گا۔ اگر ملک کمزور رہے گا تو استکبار تو بڑی بات ہے، سپر پاور کی بات چھوڑئے کمزور، نااہل اور حقیر حکومتیں بھی دھونس جمائیں گی۔ اگر ہم کمزور ہو گئے تو یہ صورت حال ہوگی، اگر ہمارے پاس طاقت رہی تو ایسا نہیں ہوگا۔
طاقت بھی الگ الگ سطح کی ہوتی ہے۔ انسان قوت و توانائی کی ہر سطح پر کچھ سرگرمیاں انجام دینے پر قادر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایٹمی مذاکرات کے معاملے میں، البتہ میں اس وقت اس بحث کو نہیں چھیڑنا چاہتا، ہمارے عزیز دوستوں کا کہنا ہے کہ ہم نے امتیازات حاصل کئے۔ وہی دشمن جو کسی صورت سے تیار نہیں ہو رہے تھے کہ ہمارے پاس ایٹمی صنعت ہو، اب انھوں نے معاہدے پر دستخط کئے کہ ہم ایٹمی صنعت رکھ سکتے ہیں۔ یہ کامیابی کیسے حاصل ہوئی؟ یہ تب حاصل ہوئی جب ہم نے اس میدان میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر دیا اور ہم نے وہ کام کر دکھایا جس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ یعنی بیس فیصدی کے گریڈ کی یورینیم افزودگی۔ وہ بھی جانتے ہیں اور اس ٹیکنالوجی کے ماہرین کو بھی بخوبی معلوم ہے کہ 99 فیصدی کے گریڈ تک یورینیم افزودہ کرنے کے اس پورے عمل میں سب سے دشوار مرحلہ 20 فیصدی کے گریڈ تک یورینیم کی افزودگی ہے۔ اگر کوئی ملک 20 فیصدی کے گریڈ تک یورینیم افزودہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر 90 فیصدی اور 99 فیصدی کے گریڈ تک یورینیم کی افزودگی آسان ہو جاتی ہے۔ اسے سب جانتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ نے یہ راستہ طے کر لیا۔ یعنی 20 فیصدی کے گریڈ تک یورینیم افزودہ کر لیا۔ پہلی نسل کی 19 ہزار سنٹری فیوج مشینیں بنا لیں اور پہلی نسل کی تقریبا 10 ہزار سنٹری فیوج مشینیں کام بھی کرنے لگیں۔ دوسری، تیسری اور چوتھی نسل کی سنٹری فیوج مشینیں بنا لیں۔ اراک کا وہ ہیوی واٹر ری ایکٹر بنا لیا۔ ہیوی واٹر پیدا کرنے والا کارخانہ بنا لیا۔ آج یہی ہیوی واٹر وہ ہم سے خرید رہے ہیں۔ جب ہم نے یہ سارے کام انجام دینے میں کامیابی حاصل کر لی تب دشمن اس بات پر رضامند ہوا کہ ہمارے پاس کمترین سطح کی ایٹمی صنعت موجود رہے۔ اگر ہم نے یہ کامیابی حاصل نہ کی ہوتی تو وہ ہرگز اس پر تیار نہ ہوتے۔ مجھے یاد ہے اور احباب کو بھی یقینا یاد ہوگا کہ دس بارہ سال پہلے جب ایٹمی مذاکرات ہو رہے تھے تو ہماری بحث اس موضوع پر تھی کہ ہمیں پانچ سنٹری فیوج مشینیں چلانے کی اجازت دے دی جائے۔ وہ کہتے تھے کہ نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ پہلے ہم نے بیس سنٹری فیوج مشینوں کا مطالبہ کیا تو انھوں نے کہہ دیا کہ نہیں یہ ممکن نہیں ہے۔ ہم نے اپنا مطالبہ کم کرکے کہا کہ پانچ سنٹری فیوج مشینیں، انھوں نے کہا کہ نہیں یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ ہم نے کہا کہ صرف ایک سنٹری فیوج مشین، انھوں نے پھر بھی کہا کہ نہیں ہو سکتا۔ جب ہمارے پاس توانائی نہ ہو، طاقت نہ ہو تو دشمن اس طرح سے پیش آتا ہے۔ لیکن جب آپ دشمن کی مخاصمتوں کے باوجود 19 ہزار سنٹری فیوج مشینیں تیار کر لیتے ہیں۔ دوسری، تیسری اور چوتھی نسل کی سنٹری فیوج مشینیں بنا لیتے ہیں، اسی طرح دوسرے گوناگوں ذیلی کام بھی انجام دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تب دشمن ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ طاقت و اقتدار کا نتیجہ ہے۔ اگر طاقت ہو تو انسان استکباری طاقتوں سے بھی مراعات حاصل کر لیتا ہے۔ یہ مراعات امریکیوں نے ہمیں نہیں دی بلکہ ہم نے اپنی طاقت سے انھیں حاصل کیا ہے، کسی نے خود بخود ہمیں امتیاز نہیں دیا ہے۔
تمام شعبوں میں یہی صورت حال ہے۔ اقتصادی شعبے میں بھی ایسا ہی ہے۔ استقامتی معیشت جس پر میں بار بار تاکید کرتا ہوں اور بحمد اللہ عہدیداران نے آپریشنل کمانڈ تشکیل دے دی ہے، بہت سے کام انجام دئے جا رہے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس کے نتائج زمینی سطح پر نظر آئیں گے، یہ شعبہ بھی ایسا ہی ہے۔ اگر ہم معاشی میدان میں مستحکم اور طاقتور بن گئے تو پابندیاں بے معنی ہوکر رہ جائیں گی، بائیکاٹ کا کوئی مفہوم ہی نہیں رہ جائے گا۔ اگر ہم نے داخلی سطح پر اپنی معیشت کو مستحکم بنا لیا تو وہ بیرونی طاقتیں خود ہم سے اقتصادی تعلقات بڑھانے کی کوششیں شروع کر دیں گی۔ پابندی لگانا تو خیر بہت دور کی بات ہوگی۔ بلکہ اگر ہم نے ان پر پابندی لگا دی تو وہ آکر ہم سے گزارش کریں گی کہ پابندی نہ لگائيے۔ یہ بالکل فطری چیز ہے۔ سیاسی میدان بھی ایسا ہی ہے، گوناگوں میدانوں میں یہی صورت حال ہے۔
اقتدار اور قوت کے عناصر پر پارلیمنٹ بھی اور مجریہ بھی ہمیشہ توجہ رکھیں! ماہرین اسمبلی اس کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ آپ اس حقیر سے بھی مطالبہ کر سکتے ہیں، ہمارے عزیز ڈاکٹر روحانی سے بھی آپ مطالبہ کر سکتے ہیں، پارلیمنٹ کے ارکان سے بھی آپ مطالبہ کر سکتے ہیں، عدلیہ کے سامنے اپنے مطالبات رکھ سکتے ہیں۔ یہ ادارہ اور یہ اسمبلی جس کے بارے میں میں نے عرض کیا کہ ایک الہی عطیہ ہے، یہ کام انجام دے سکتی ہے۔ آپ کسی خاص موضوع کو زیر غور لاکر اس کے بارے میں اپنا مطالبہ پیش کر سکتے ہیں، رائے عامہ کو ہموار کر سکتے ہیں، یہ واقعی بہت اچھی چیز ہوگی۔
میں جسارت کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ ان اداروں میں انقلابی ہونے کا معیار، میری نظر میں، تقوا ہے، شجاعت ہے، بصیرت ہے، صراحت ہے، «لَومَةَ لآئِم»(9) دوسروں کی سرزنش سے نہ گھبرانا ہے۔ یہ انقلابی ہونے کے معیار ہیں۔ اگر ہمارے پاس تقوا ہو، شجاعت ہو اور ضروری صراحت ہو، البتہ ان جگہوں پر جہاں صراحت ضروری ہے، جہاں کنائے میں گفتگو کی ضرورت ہے اگر وہاں صراحت سے کام لیا جائے تو اس سے نقصان ہوگا۔ اگر ہم ان معیارات پر پورے اترے تو سمجھئے کہ ہم انقلابی ہیں۔ دشمن کی صحیح شناخت ہونا چاہئے۔ دشمن ایک مکمل محاذ ہے، کوئی شخص نہیں ہے، کوئی ایک حکومت نہیں ہے، ایک محاذ ہے۔ اس محاذ کو بخوبی پہچاننا چاہئے اور یہ غور کرنا چاہئے کہ کون ہے جو اس محاذ سے وابستہ ہے۔ یہ محاذ کس طرف سے اقدام کر رہا ہے اور ہمیں غلط فہمی میں مبتلا کرنے کے لئے کیا داؤ چل رہا ہے۔ دشمن محاذ کی شناخت ہونا چاہئے، اس کی معاندانہ روشوں کا ہمیں علم ہونا چاہئے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کس طرح دشمنی نکالتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دشمن سامنے آتا ہے، کوئی کام بھی شروع کر دیتا ہے خباثت آمیز ہدف کے ساتھ، جبکہ ہم یہ نہیں سمجھ پاتے کہ اس کا اصلی ہدف کیا ہے۔ ظاہری طور پر ہمیں اس کا کام اچھا نظر آتا ہے، قابل تعریف معلوم پڑتا ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ وہ اپنا خاص ہدف پورا کرنے کی کوشش میں ہے۔ ہمارے ملک میں اس کی مثالیں نظر آ چکی ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ دشمن نے کوئی کام شروع کیا کسی خاص ہدف کے تحت۔ ہم نے ظاہری طور پر جائزہ لیا تو ہمیں تعجب بھی ہوا کہ واہ کتنا اچھا کام ہے! اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر ہمارے پاس بصیرت ہو اور ہم دشمن کے اہداف کو بخوبی سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو ہرگز دھوکے میں نہیں آئیں گے۔
دشمن کے سامنے کبھی ذہنی اور نفسیاتی طور پر ہمیں اپنے اندر کمزوری نہیں پیدا ہونے دینا چاہئے۔ یہ بھی بہت اہم چیز ہے۔ نفسیاتی ضعف بہت نقصان دہ ہے۔ جو ذہنی طور پر شکست قبول کر لیتا ہے وہ میدان میں یقینی طور پر ہارتا ہے۔ انسان کی پہلی شکست یہی ہے کہ وہ خود کو ہارا ہوا سمجھنے لگے۔ اسے یہ محسوس ہونے لگے کہ اب کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ باور کر لے کہ فریق مقابل بہت طاقتور ہے، اسے یہ یقین ہو جائے کہ اس کے بس میں اب کچھ نہیں ہے۔ یہ نفسیاتی شکست ہے۔ اگر یہ شکست ہو گئی تو پھر میدان کارزار میں شکست یقینی ہے۔ یہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے، ہمیں اس کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔
اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی اور ہمارے شہدا پر۔ محمد و آل محمد پر صلوات بھیجئے!

 
۱) اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل ماہرین اسمبلی کے سربراہ آیت اللہ احمد جنتی نے کچھ نکات بیان کئے۔
۲) ماہرین اسمبلی کے پانچویں دور کے انتخابات جو مورخہ 26 فروری 2016 کو منعقد ہوئے۔
۳) مصباح المتهجد، جلد ۲، صفحہ ۸۲۹
۴) ماہرین اسمبلی کے ارکان سے مورخہ 17 مارچ 2005 کا خطاب
۵) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۳۳ کا ایک حصہ؛ «...تاکہ اسے ہر دین پر غلبہ عطا کرے۔»
۶) سوره‌ مدّثّر، آیات ۴۹ اور ۵۰؛ «گویا یہ جنگلی گدھے ہیں جو شیر سے ڈر کر بھاگ پڑھے ہیں۔ »
۷) امام حسین علیہ السلام کیڈٹ یونیورسٹی کی تقریب سے مورخہ 23 مئی 2016 کا خطاب
۸) سوره‌ فرقان، آیت نمبر ۵۲ کا ایک حصہ؛ «تو کفار کی اطاعت نہ کرو، قرآن سے الہام لیتے ہوئے ان سے جہاد کبیر انجام دو.»
9) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۵۴ کا ایک حصہ؛ «... کسی بھی ملامت کرنے والے کی سرزنش ...