رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

دل تو یہ چاہتا تھا کہ آپ تمام شعرا سے جو یہاں تشریف فرما ہیں، اشعار سنوں، مدح سرائی کرنے والے آپ تمام حضرات کی منقبتیں سنوں، مگر افسوس کی بات ہے کہ حسب معمول آج بھی وہ سب کچھ نہیں ہو سکتا جو دل چاہتا ہے، تاہم یہی جو چند اشعار سننے کو ملے، واقعی بڑے اچھے اشعار تھے، بڑے مفید اور مسرت بخش اشعار تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ شہر مشہد میں ماضی کی ہی طرح بلکہ اس سے بھی بہتر شعری ذوق موجود ہے، اشعار میں پرکشش ادبی باریکیاں دیکھنے کو ملیں۔ مشہد میں بحمد اللہ شیریں سخن اور سماعت نواز ترنم والے شعرا بھی کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔ مشہد کی ان خصوصیات پر مجھے بڑی خوشی ہے۔ ماضی میں بھی کم و بیش یہی صورت حال تھی۔ البتہ فن شعر کے اعتبار سے مشہد ہمیشہ دیگر جگہوں سے جن کے بارے میں ہم واقفیت رکھتے ہیں، آگے رہا۔ جہاں تک ہم نے مشاہدہ کیا اپنے نوجوانی کے ایام میں تو مشہد، شعری فن و ذوق کے اعتبار سے اس وقت بھی دوسری بہت سی جگہوں سے بہتر تھا، لیکن خوش الحانی، اچھی آواز، نعت اور قصیدہ خوانی کے اعتبار سے مشہد اس مقام پر نہیں تھا جہاں آج ہے۔ ہمارے زمانے میں ایسا نہیں تھا۔ معدودے چند افراد ہی تھے جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ بہترین انداز اور بہترین ترنم کے ساتھ مدح سرائی کرتے تھے۔ بنابریں اس پر شکر ادا کرنا چاہئے اور ہم اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
میں جس بات پر خاص تاکید کرنا چاہتا ہوں، جیسا کہ شعرا کے اشعار میں اور مترنم مدح سرائی کرنے والے افراد کے اشعار میں بھی یہ چیز نظر آئی، وہ یہ ہے کہ آج عالم اسلام کی کچھ اہم احتیاجات ہیں۔ عالم اسلام اس وقت بڑے حساس اور تاریخی دور سے گزر رہا ہے۔ یہ جو آپ حالات دیکھ رہے ہیں، آل سعود کا طریقہ کار، یمن کے حالات، عراق کے مسائل، شام کا بحران، امریکا سے متعلق مسائل، صیہونی حکومت سے متعلق قضیئے، ہمارے علاقے میں وہ جو سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، جو فیصلے کر رہے ہیں، اسلامی جمہوریہ پر جو دباؤ ڈالتے ہیں تو یہ سارے اقدامات ایک خاص ہدف اور غرض و غایت کے تحت انجام دئے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں جب دنیائے اسلام ایک تاریخی موڑ سے گزر رہی ہے، ہمارے دوش پر کچھ ذمہ داریاں ہیں، کچھ فرائض ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص پر ایک الگ انداز کی ذمہ داری ہے۔ ہم دنیائے اسلام کی موجودہ احتیاجات سے چشم پوشی نہیں کر سکتے۔ ان ضرورتوں میں سر فہرست اسلامی جمہوریہ کی ضرورتیں ہیں۔ اس لئے کہ اسلامی جمہوریہ ان تغیرات کی علمبردار ہے۔ کھلاڑی تو بہت سے ہیں، عالم اسلام میں سرگرمیاں انجام دینے والے حلقے متعدد ہیں لیکن ان کے درمیان محوری پوزیشن اسلامی جمہوریہ کی ہے۔ یہ طے ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ نہ ہوتی، اگر امام خمینی نہ ہوتے، اگر اس ملک میں سنت الہیہ پر استوار وہ ملکوتی آواز بلند نہ ہوئی ہوتی تو عالم اسلام میں یہ تغیرات پیدا نہ ہو پاتے اور استکبار بے فکری کے ساتھ اپنا کام کرتا رہتا اور اسے کسی چیلنج کا سامنا نہ کرنا پڑتا، استکبار کے سامنے اتنی مشکلات نہ کھڑی ہوتیں۔ بنابریں آج اسلامی جمہوریہ کی کچھ ضروریات ہیں اور ہمیں ان ضروریات کی تکمیل کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ میری نظر میں سب سے اہم ضرورت بصیرت افزائی اور انقلاب و اسلام کی تعلیمات و معارف کی ترویج و اور انھیں تقویت پہنچانے کی ہے۔ یہ ان ضرورتوں میں سر فہرست ہے۔ ہمارے پاس بحمد اللہ اس کے وسائل بھی موجود ہیں۔ منفرد ذریعہ جو ہمارے پاس ہے اور دنیا میں دوسروں کے پاس نہیں ہے، یہ ہے کہ ایک شخص کو دعوت دی جائے اور وہ آکر منبر پر بیٹھے اور عوام کی مجلس و محفل کا سلسلہ رہے ، پھر ایک ہزار، دو ہزار یا پانچ ہزار لوگ خود بخود سامع کے طور پر اس پروگرام میں شرکت کریں، یہ چیزیں دنیا میں عام طور پر رائج نہیں ہیں۔ عموما یہ ہوتا ہے کہ بڑی محنت سے، بڑا پروپیگنڈا کرکے، جنسیاتی کشش کے وسائل فراہم کرکے، اسی طرح دوسری گوناگوں جاذب نظر چیزوں کا بندوبست کرکے لوگوں کو پروگرام میں شرکت کے لئے مائل کیا جاتا ہے۔ یہ تو بس ہمارے یہاں ہے کہ کسی شاعر یا مترنم مدح خواں کے بارے میں معلوم ہوتے ہی کہ فلاں جگہ پر اس کا پروگرام ہونے والا ہے، لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے، سب جمع ہو جاتے ہیں، سنتے ہیں۔ یہ چیز بس ہمارے یہاں ہے۔ دوسروں کے پاس یہ نعمت نہیں ہے۔ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنا چاہئے۔ اس موقع کو بہترین انداز میں استعمال کرنا چاہئے۔ اشعار میں بھی یہی خصوصیت پائی جاتی ہے۔ الحمد للہ آج کا پروگرام بڑا اچھا رہا۔ جو اشعار پیش کئے گئے اچھے تھے اور بعض نے تو بے حد معیاری اشعار پیش کئے، ضرورتوں کے عین مطابق، ان معیاروں کے مطابق جن کی آج سماج کو ضرورت ہے اور جن سے آج سماج کا واقف ہونا ضروری ہے۔ بصیرت افزائی کا ہدف پورا کرنے والے اشعار تھے۔ خوش الحانی کے ساتھ جو اشعار پیش کئے گئے وہ بھی بحمد اللہ اہداف کی تکمیل کرنے والے تھے۔
تاہم میں یہ دائمی سفارش کرنا چاہتا ہوں، یعنی واقعی آپ فکر میں رہئے۔ جب آپ اشعار پڑھتے ہیں یا ترنم کے ساتھ کلام پیش کرتے وقت کسی مصرعے کو کھینچتے ہیں تو ایسے اشعار پیش کیجئے جس سے سننے والوں کی بصیرت بڑھے، معرفت میں اضافہ ہو، اسے کوئی نئی چیز معلوم ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بصیرت و معرفت میں اضافے سے چشم پوشی کرتے ہوئے کچھ مصائب بیان کر دئے جائیں اور سننے والے تمام لوگ گریہ کریں۔ یہ بھی ایک روش ہے، اس کی بھی اپنی الگ فضیلت ہے، لیکن اس سے زیادہ فضیلت اس اعلی ہدف کے حصول میں ہے، اس نصب العین میں ہے جس کے حصول کے لئے یہ مقدمات فراہم کئے جاتے ہیں۔ نصب العین یہ ہے کہ ہم اپنی بصیرتوں میں اضافہ کریں۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں ہماری بصیرت بڑھے، اسلام کے بارے میں ہماری معرفت میں اضافہ ہو، عالمی برادری کے مستقبل کے بارے میں ہماری معلومات بڑھیں۔ یہ بنیادی اہداف ہیں۔ ہمارے اشعار میں ان اہداف پر نظر مرکوز کی جانی چاہئے۔ اسی طرح اشعار ترنم سے پیش کرتے وقت بھی یہ اہداف مد نظر رہنا چاہئے۔
میں آپ سب کا شکر گزار ہوں کہ آپ تشریف لائے۔ برادران عزیز کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس نشست کا اہتمام کیا۔ الحاج آقا اکبر زادہ (2) نے کئی سال سے شاید دو یا تین دفعہ مجھ سے یہ نشست منعقد کرنے کی بات کر رہے تھے۔ میرا ارادہ تو تھا لیکن اس کا بند و بست نہیں ہو پایا۔ مشہد کے جو میرے سفر ہوئے ان میں بھی نہیں ہو سکا۔ میں عام طور پر بہت مصروف رہتا ہوں۔ مشہد کا سفر میرے لئے فرصت کے لمحات فراہم کرنے والا سفر نہیں ہوتا۔ اسی لئے اب تک نہیں ہو سکا تھا۔ الحمد للہ اس سال اور آج کے دن کامیابی ملی۔ مزید شعرا کے اشعار میں نہیں سن سکا، اس پر ان سے معذرت خواہی کرتا ہوں، البتہ اگر یہ معذرت خواہی میرے ذمے ہے، ورنہ اگر معذرت خواہی جناب واعظی (3) کو کرنی ہے تو کوئی بات نہیں (4)۔
بہرحال ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ سب کو توفیقات عطا فرمائے، کامیاب کرے، اللہ تعالی مزید زندگی اور یہ موقع عنایت فرمائے کہ آپ سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔

والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) اس ملاقات کے آغاز میں بعض شعرا نے اشعار پیش کئے۔
2) جناب محمود اکبرزاده‌
3) پروگرام کے ناظم جناب احمد واعظی‌
4) رہبر انقلاب اسلامی نے یہ بات مزاحیہ طور پر کہی