آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 7 ستمبر سنہ 2016 کو اپنے اسے خطاب میں دینی مسائل کی تشریح و تبلیغ میں فرض شناسی اور موقع شناسی کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر فریضے کا بخوبی ادراک نہ ہو تو علم و تقوی یہاں تک کہ شجاعت سے بھی مطلوبہ نتیجہ نہیں ملتا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بصیرت کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ بصیرت کا مطلب سماج کی ضرورتوں اور حقیقتوں کا ادراک ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بصیرت کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یہ علم ہو کہ آج کے نوجوان کی کیا ضرورتیں ہیں اور اس کے مشتاق و مستعد دل پر کیا نقوش ہیں اور کیا نقوش ہونے چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عام لوگوں کے دین و عقیدے کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر کی جا رہی منصوبہ بندی اور اخراجات کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ دشمن شبہے اور ابہامات پیدا کرکے، اسی طرح پاکیزگی و عفت کے منافی پروگرام تیار کرکے مومن و صالح نوجوانوں کو حقیقی دین سے منحرف کر دینے اور حیا و عفت کا پردہ چاک کر دینے کے در پے ہے اور آج یہ کام سائیبر اسپیس کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ علما کی صنف کی اولیں ذمہ داری اس سازش کا مقابلہ کرنا ہے، آپ نے فرمایا کہ دینی درسگاہوں اور مذہبی دانشوروں کو چاہئے کہ اپنے اندر دشمن کے عظیم لشکر کے مقابلے کی توانائی پیدا کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌

تین مہینے اور چند روز کے فاصلے کے بعد جس کے دوران دینی درسگاہوں میں تعطیلات رہیں، اب ایک بار پھر آپ حضرات کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا ہے۔ فقہی بحث و مباحثے کا پھر آغاز ہونا ہے۔ اس دوران ماہ رمضان گزرا، یہ شدید گرمی کا موسم تھا، بعض نے واقعی ماہ رمضان سے خوب کسب فیض کیا۔ ماہ رمضان کے مخصوص اعمال و عبادات کے ذریعے بھی اور اسی طرح اس دوران انجام دی جانے والی (دینی و تبلیغی) سرگرمیوں کے ذریعے بھی؛ انھوں نے تبلیغی کام انجام دیا، احکام دین بیان کئے، بعض سفر پر گئے، بعض یہیں تہران میں مصروف خدمت رہے۔ آپ میں سے بعض افراد اور اسی طرح دیگر افراد نے جو تہران میں تھے، واقعی خوب فیض حاصل کیا، جبکہ ہم جیسے کچھ لوگ پیچھے رہ گئے۔ اس طرح فیضیاب نہیں ہو سکے جس طرح ہونا چاہئے تھا تو ہمیں اس کا ملال ہونا چاہئے اور اس کی تلافی اور بھرپائی کا طریقہ سوچنا چاہئے۔
یہ بہت اہم ہے کہ دینی طالب علم، عالم دین اور مولوی ہر موقع و محل کے اعتبار سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کر لے۔ اگر اپنا فریضہ نہیں پہچان سکے تو پھر علم و تقوی وغیرہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یعنی ان چیزوں کا وہ استعمال نہیں ہوگا جو ان کا اصلی ہدف ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کسی انسان کے پاس پیسے تو خوب ہیں، مگر اسے اپنے بیٹے کی بیماری کا علم نہیں ہے۔ اگر اسے علم ہوتا کہ بچہ بیمار ہے اور علاج کی ضرورت ہے، آپریشن کروانا لازمی ہے تو ظاہر ہے اس کی جیب میں پیسے بھی ہیں، فورا جاکر علاج کروائے گا۔ لیکن جب اسے اس بیماری کی خبر ہی نہیں ہے، اطلاع ہی نہیں ہے تو اپنے اس بچے سے ہاتھ دھو بیٹھے گا یا بیماری بڑھ جائے گی، جبکہ اس کے پاس علاج کی استطاعت تھی، پیسہ موجود تھا۔ اگر ہمارے پاس علم بھی ہے، تقوی بھی ہے اور شجاعت بھی ہے لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارا فریضہ کیا ہے، یہ معلوم نہ ہو کہ ہم کس پوزیشن میں ہیں، یہ احساس نہ ہو کہ آج اللہ تعالی کا ہمارے لئے کیا حکم ہے، دین آج ہم سے سماجی میدان میں کیا چاہتا ہے تو پھر یہ علم، یہ تقوی اور یہ شجاعت اسی طرح دیگر مثبت خصوصیات فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی اور اس کا لازمی ثمرہ اور نتیجہ ہم حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہ لفظ 'بصیرت' جس پر ہم ہمیشہ تاکید کرتے ہیں اور بعض لوگوں کو یہ بہت برا بھی لگتا ہے کہ فلاں صاحب ہمیشہ بصیرت بصیرت کی رٹ کیوں لگائے رہتے ہیں، تو بار بار تاکید کی وجہ یہی ہے۔ بصیرت کے اہم مصادیق میں سے ایک یہی ہے کہ انسان کو معلوم ہو کہ آج معاشرے کی ضرورتیں کیا ہیں؟ ہمارے پاس دسیوں لاکھ نوجوان ہیں۔ نوجوان سیکھنے کے مرحلے میں ہوتا ہے، اسے جس طرح چاہے تعلیم دی جا سکتی ہے۔
من که لوح ساده ‌ام هر نقش را آماده ‌ام.(۱)
اس کے صفحہ دل پر کوئی بھی مرقع بنایا جا سکتا ہے۔ اس کی شروعات کون کرے، کون آگے بڑھے، کون پیش پیش رہے، کس کو توجہ دینا ہے کہ اس سادہ صفحہ دل پر کیا غلط نقش و نگار ابھارے گئے ہیں؟ تاکہ ان کی اصلاح کرے۔ ان تمام چیزوں کے لئے بصیرت ضروری ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آج معاشرے کی ضرورت کیا ہے؟ آج ہمارے دشمن بہت بڑے پیمانے پر پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ یہ میرا اندازہ اور تجزیہ نہیں ہے، میں یہ بات پختہ اطلاعات کی بنیاد پر عرض کر رہا ہوں۔ ان میں سے بہت سی چیزوں کی مکمل اطلاعات ہیں۔ مومن ایرانی نوجوان کے ذہن کو گمراہ کرنے کے لئے، منحرف کرنے کے لئے پیسے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ کس چیز سے منحرف کرنے کے لئے؟ خود دین سے منحرف کرنے کے لئے، صرف اسلامی جمہوری نظام سے یا ولایت فقیہ جیسے نظریات سے منحرف کرنے تک بات ختم نہیں ہو جاتی۔ خود دین سے دور کرنا چاہتے ہیں، دینداری سے دور کرنا چاہتے ہیں، تشیع سے برگشتہ کر دینا چاہتے ہیں تاکہ بعد میں اسلامی جمہوری نظام کی باری آئے اور بقیہ چیزیں بھی اسی لپیٹ میں آئیں۔ مستقل طور پر شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ ملک کے اندر کچھ لوگ موجود ہیں جو ان کا حربہ بن جاتے ہیں، جبکہ بعض افراد ایسے ہیں جو خود ملک کے اندر نہیں ہیں، ملک سے باہر ہیں، وہیں سے اشارے دیتے رہتے ہیں، شگوفے چھوڑتے رہتے ہیں، راستہ دکھاتے رہتے ہیں، اپنی باتیں پھیلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی باتیں دہرائی جائیں، ان کا پرچار کیا جائے۔ آج سائیبر اسپیس ایک لا متناہی دنیا ہے جہاں ہر سمت سرگرمیاں انجام دینے کی گنجائش ہے۔ اب پہلے جیسا ماحول نہیں رہا کہ آپ کو اگر کوئی بات بیان کرنا ہے تو پہلے اسے کاغذ پر لکھئے، پھر اس کی فوٹو کاپی کروائیے، دس پندرہ، سو دو سو نسخے تیار کروائیے۔ اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک اکیلا انسان بھی جو کمپیوٹر استعمال کر سکتا ہے اپنے آپ میں ایک ابلاغیاتی ادارہ ہے۔ بیٹھ کے شبہات پھیلا سکتا ہے، اپنی باتوں سے صحیح و سالم فکر و ذہن کے مالک نوجوانوں کو گمراہ کر سکتا ہے۔ ان چیزوں کی شناخت ہونا چاہئے۔ اس کے لئے کسے میدان میں اترنا اور سینہ سپر ہونا ہے، گمراہ کن حملوں کو ناکام بنانا ہے؟ نوجوانوں کے اذہان کو ورغلانے کی دشمنوں کی کوششوں کو نقش بر آب کرنے کی ذمہ داری کس کے دوش پر ہے؟ اس کام کی ذمہ داری کس پر ہے؟ علمی و دینی کمیونٹی اور علما کی صنف کی اولیں ذمہ داری یہی ہے، سب سے اہم فریضہ یہی ہے۔
دینی درسگاہوں کو چاہئے کہ اپنے اندر یہ قابلیت او صلاحیت پیدا کریں؛ مقابلہ آرائی کی صلاحیت، دشمن کی اس لا تعداد فوج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا چاہئے۔ اس دشمن کا جواب دینے کی صلاحیت جو عوام کے ایمان پر، عوام کے عقیدے پر، عوام کی صحیح و سالم شخصیت پر، ملک کے نوجوانوں کی پاکدامنی پر حملے کر رہا ہے۔ کثیر تعداد میں ویب سائٹیں ایسی ہیں جن کا مقصد ہے نوجوانوں کی عفت و پاکدامنی کو، مسلم نوجوانوں کی شرم و حیا کو ختم کرنا۔ اس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں نشانے پر ہیں۔ حیا کے پردے کو چاک کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کا اصلی ہدف ہی یہ ہے اور وہ اس کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ بعض سرگرمیاں تو مجرمانہ ہیں، متعلقہ حکومتی اداروں کو چاہئے ان کے خلاف کارروائی کریں اور وہ کر بھی رہے ہیں۔ لیکن جن چیزوں کا تعلق ذہن و دماغ سے ہے، فکر و دل سے ہے اسے عسکری، اقدامات، سیکورٹی تدابیر اور انٹیلیجنس کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے وہی موزوں طریقے اپنانے ہوں گے جو اس میدان میں کارگر ہیں۔ اس بیماری کا علاج وہی ہے جو علمائے کرام کے پاس ہے، اہل دین کے پاس ہے، مذہب کے دانا افراد کے پاس ہے۔ ہمیں خود کو لیس کرنا چاہئے۔ ہم میں بہت سے افراد لیس نہیں ہیں۔ ہم سے بہتوں کو معلوم نہیں ہے، اس کو علمی پہلوؤں کا بھی علم نہیں ہے اور ضروری عملی تدابیر کی بھی خبر نہیں ہے۔ بعض تو اس جدید روش سے بالکل آگاہی نہیں رکھتے۔ کمپیوٹر وغیرہ سے بالکل بیگانے ہیں۔ اس کا مطلب ہی نہیں جانتے، اس کی اہمیت سے ہی واقف نہیں ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عہدیداران کے اندر بھی ایسے افراد موجود ہیں جو اس عظیم کام کی اہمیت کا اس طرح اندازہ اور ادراک نہیں رکھتے جس طرح ہونا چاہئے، یہی وجہ ہے کہ وہ ضروری اقدامات بھی انجام نہیں دیتے۔ ہم نے سائیبر اسپیس سپریم کونسل تشکیل دی اسی کام کے لئے (2)، تاکہ عہدیداران آئیں ایک ساتھ بیٹھیں، غور کریں، ارادوں، فیصلوں اور اقدامات کو مرکوز اور منظم کریں اور اس اہم تبدیلی سے روبرو ہوں۔ یہ ایک ایسا میدان ہے جس کے بے شمار فوائد اور اتنے ہی نقصانات ہیں۔ سائیبر اسپیس اس طرح کی چیز ہے۔ اس سے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں جو آج دشمن کر رہا ہے، آپ اس سے برعکس اہداف کے لئے استفادہ کر سکتے ہیں۔ یعنی آپ اسلامی تعلیمات و معارف کو بے روک ٹوک نشر کیجئے۔ ہمارے بعض مومن افراد، با ایمان نوجوان جن میں صاحب عمامہ اور غیر معمم افراد، مولوی و غیر مولوی سب شامل ہیں، بعض افراد جو علما کی صنف سے نہیں ہیں بہت زیادہ سرگرم عمل ہیں۔ بڑا اچھا کام کر رہے ہیں۔ یکبارگی دنیا کی سطح پر کوئی نکتہ، کوئی بات اور کوئی نیا مفہوم پیش کر دیتے ہیں اور فریق مقابل ششدر رہ جاتا ہے۔ تاہم کچھ لوگوں کے یہاں یہ نقص ہے کہ اس فن سے آشنا نہیں ہیں۔ بعض افراد کے یہاں یہ مشکل ہے کہ وہ شبہات کا جواب نہیں جانتے۔ یہی نہیں خود ان شبہات کو بھی سمجھ نہیں پاتے جو آج در پیش ہیں۔ کوئی شبہ سو سال پہلے، پانچ سو سال پہلے تھا جو ممکن ہے کہ آج سرے سے موضوع بحث ہی نہ ہو۔ اب ہم جائیں کتابیں چھانیں، وہ شبہات تلاش کریں اور ان کے جواب تیار کریں، یہ بہتر ہے یا یہ زیادہ مناسب ہے کہ آج کیا شبہات در پیش ہیں ان کا جواب دیں؟! البتہ اس وقت بعض معروضی شبہات ایسے ہیں جو وہی قدیمی شبہات ہیں لیکن نئے پیرائے اور نئی شکل میں اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایسے شبہات بھی ہیں، لیکن بہت سے شبہات ایسے ہیں جو نئے ہیں۔ ہمیں ان کی شناخت ہونی چاہئے۔ ہمیں ان کا علم ہونا چاہئے۔ یہ دینی درسگاہوں کی ذمہ داری ہے۔ دینی درسگاہوں کو چاہئے کہ ان امور پر توجہ دیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم فقہی بحثوں کو درکنار کر دیں۔ نہیں، یہی تو عین فقہ ہے۔ فقہ صرف احکام عملی و شرعی کا نام نہیں ہے۔ «فقه الله الاکبر» تو اسلامی تعلیمات و اسلامی علوم کا احاطہ کرتی ہے۔ آپ فرض کیجئے کہ نماز مسافر کے باب میں درجنوں ذیلی نکات اور صورتیں سامنے آتی ہیں۔ ہمارے فقہا نے اس باریک بینی سے بحث کی ہے۔ درجنوں صورتیں نکالی ہیں۔ یا اشتراط اباحه و حلّیّت سفر براى صلات قصر.(۴) یہ ایک اہم فقہی مسئلہ ہے لیکن اس کے ذیلی پہلو اور ضمنی صورتیں بہت ہیں۔ مثال کے طور پر سید نے عروہ میں دس بارہ یا اس سے بھی زیادہ فروعات کا ذکر کیا ہے۔ دوسرے فقہا نے دیگر کتب میں اس سے بھی زیادہ فروعات نکالی ہیں۔ عقائد کے باب میں بھی یہی صورت حال ہے۔ عقائد کے بارے میں بھی یہی نکتہ سنجی اور باریکی بینی پر مبنی بحثیں ہیں۔ فریق مقابل کسی چھوٹے سے نکتے کو لے لیتا ہے، اسی کو بنیاد بنا کر اذہان کو گمراہ کرتا ہے۔ بنابریں یہ ہماری ایک بنیادی ذمہ داری ہے۔ دینی درسگاہوں کو چاہئے کہ اس پر توجہ دیں۔ خوشی کا مقام ہے کہ تہران کے دینی مدارس اس وقت قدرے منظم ہو گئے ہیں اور کچھ کام بھی انجام پایا ہے۔ میں نے سنا ہے، آج تہران کے دینی مدارس کھل رہے ہیں، وہ اس میدان میں بہت سے کام انجام دے سکتے ہیں۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ آپ سب کو کامیاب فرمائے۔

۱) دیوان حاج میرزا حبیب؛ 'من که لوح ساده‌ام هر نقش را آماده‌ام / دست نقّاشان قدرت تا چه تصویرم کنند'
۲) رہبر انقلاب اسلامی نے مورخہ 10 مارچ 2012 کو سائیبر اسپیس سپریم کونسل کی تشکیل اور ارکان کی تقرری کا حکم جاری کیا۔
3) مسافر کی نماز، قصر ہونے کے لئے سفر کے جائز اور مباح ہونے کی شرط