ہفتہ 18 جون 2016 کی شام ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ یونیورسٹیاں ان اہداف کی بنیاد اور اساس ہیں، آپ نے زور دیکر فرمایا کہ یونیورسٹیوں اور علمی مراکز میں علمی نمو کی رفتار بڑھانا، نوجوانوں میں ایرانی اسلامی تشخص کا احساس بیدار کرنا اور اسے تقویت پہنچانا، یونیورسٹیوں اور طلبہ کا انقلابی ہونا اور نرم جنگ کے افسروں اور کمانڈروں کا حقیقی معنی میں اپنا کردار ادا کرنا اسلامی نظام کو دنیا میں نمایاں علمی طاقت اور اسلام و روحانیت سے آراستہ جمہوریت کے نمونے کے طور پر پیش کرنے کے لازمی تقاضے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے علمی نمو کی رفتار بڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میں نے حال ہی میں نمو کی رفتار کم ہو جانے کی بابت متنبہ کیا تھا اور علمی میدان کی پسماندگی دور کرنے کے لئے ہمارے پاس علمی نمو کی رفتار بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہرین اور صاحبان رائے کے اس تبصرے کا حوالہ دیا کہ مغرب میں علمی نمو کی رفتار کم ہو گئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر مغرب میں رفتار کم ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی توانائی سے زیادہ وسائل کو استعمال کیا ہے جبکہ ہمیں اس ساٹھ یا ستر سالہ علمی پسماندگی کو دور کرنا ہے جو خائن اور غافل حکومتوں کی وجہ سے پیدا ہوئی، تاکہ اس عالمی مقابلے میں ہم خود کو بلند سطح پر پہنچا سکیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں علمی سفارت کاری کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا کہ علمی روابط اور سفارت کاری اہم ہے اور میں اس سے اتفاق رکھتا ہوں لیکن ہوشیار رہنا چاہئے کہ ہم کہیں فریب نہ کھا جائیں اور علمی روابط سیکورٹی دراندازی کا بہانہ نہ بن جائے، اس لئے کہ دشمن علمی روابط سمیت تمام مواقع کو دراندازی کے لئے استعمال کرتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزاحمتی معیشت کو قومی وقار کا راستہ اور موجودہ احتیاجات کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قومی وقار پر مکرر تاکید کرنے کی صورت میں آپ سماج کی موجودہ مشکلات اور ضرورتوں کو کیسے دور کریں پائیں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ واحد راستہ استقامتی معیشت کی پالیسیوں کا صحیح اور حقیقی معنی میں نفاذ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله‌ الرّحمن ‌الرّحیم‌
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ ہم نے بارہا عرض کیا کہ یہ جلسہ ایک علامتی جلسہ ہوتا ہے۔ یہ در حقیقت علم، اساتذہ اور یونیورسٹی کا ہم جو خاص احترام کرتے ہیں یہ اس کی علامت ہے۔ اس حقیر کے لئے بھی یہ بڑا اچھا موقع ہوتا ہے۔ محترم مقررین کے فرمودات کو سن کر ملک کی یونیورسٹیوں کے علمی و فکری ماحول کا ایک اجمالی خاکہ سامنے آ جاتا ہے۔ یعنی عزیز دوستوں نے جو کچھ بیان کیا اس سے مضمون اور مطالب سے آگاہی کے ساتھ ہی، جو واقعی بڑے مفید مطالب تھے اور ان شاء اللہ ہم ان باتوں پر توجہ دیں گے اور انھیں عہدیداران تک پہنچائیں گے، ان تقاریر سے کسی حد تک ملک کی یونیورسٹیوں کے مجموعی ماحول کا بھی اندازہ ہوا جو اس حقیر کے لئے بہت مفید ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ سوال کیا جاتا ہے اور یہ سوال اس حقیر تک بھی پہنچتا ہے کہ میں کن ذرائع سے اطلاعات حاصل کرتا ہوں؟ میں یونیورسٹی کے بارے میں، علم کے بارے میں، معروضی حالات وغیرہ کے بارے میں جو میں کبھی کبھی گفتگو کرتا ہوں تو کن راستوں سے اور کن ذرائع سے مجھے اطلاعات ملتی ہیں؟ اس کے جواب میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ان ذرائع کا بنیادی طور پر تعلق یونیورسٹیوں کے داخلی افراد سے ہے۔ یعنی ہم جو رابطہ قائم کرتے ہیں وہ اساتذہ کے ذریعے، طلبہ کے ذریعے، عہدیداران اور علمی اداروں کے حکام کے ذریعے ہوتا ہے۔ یعنی رابطے کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے جو علم و دانش، دانشوروں اور دانشگاہوں کے حالات کے بارے میں ہمیں اطلاعات فراہم کرتا ہے۔ وزرائے محترم جو رسمی رپورٹیں ہمیں مختلف مواقع پر دیتے ہیں، یا کبھی ہم خود رپورٹ طلب کر لیتے ہیں یا پھر وہ خود ہی مختلف مناسبتوں پر ہمیں اپنی رپورٹ دیتے ہیں۔ اسی طرح اساتذہ کی جانب سے، دانشوروں کی جانب سے، طلبہ کی جانب سے یا یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد کی جانب سے جو عوامی رابطے ہوتے ہیں، ان سے بھی ہمیں اطلاعات مل جاتی ہیں اور ہم یہ اطلاعات استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح جو معتبر ویب سائٹیں ہیں ان سے بھی مطالب حاصل کرکے ان کا ترجمہ ہمیں دیا جاتا ہے۔ یونسکو نے ہمارے بارے میں کیا کہا ہے، آئی ایس آئی نے ہمارے بارے میں کیا کہا ہے، اسکوپس نے ہمارے بارے میں کیا کہا ہے، یہ چیزیں میرے پاس موجود ہیں۔ تو ہماری اطلاعات کے ذرائع اور چینل یہی ہیں۔ اطلاعات کے ان مختلف ذرائع کی وجہ سے انسان یقین حاصل کر لیتا ہے کہ جو معلومات ہمیں ملی ہیں درست ہیں۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی ملک کے دانشوروں، مفکرین اور اہل خرد افراد کا ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ مستقبل پر نظر رکھیں۔ ہم بیس سال بعد کیسا ایران دیکھنا چاہتے ہیں؟ یہ بہت ضروری ہے۔ اگر ہم معیشت کے بارے میں بحث کرتے ہیں، علم و دانش کے بارے میں مباحثہ کرتے ہیں، ٹیکنالوجی کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہیں، اخلاق و معرفت کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو ہدف یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ ہم بیس سال بعد کے دور میں کیسا ایران دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے دس گیارہ سال پہلے بیس سالہ وژن پیش کیا۔ اب الگ الگ جائزے ہیں کہ ہم نے اس دس سالہ مدت میں آیا اتنی پیشرفت حاصل کی ہے جو دس سال میں ہمیں حاصل کرنا تھی یا صرف پانچ سال کی مدت کے برابر ہماری پیشرفت ہے، یا ہم نے دس سال کے بجائے بارہ سال اور پندرہ سال کے برابر اس مدت میں پیشرفت حاصل کی ہے۔ مختلف آراء ہیں۔ ہم بیس سال بعد کیسا ایران دیکھنا چاہتے ہیں؟ بیس سال بعد آج کے طلبہ عہدیداروں کی جگہ لے چکے ہوں گے اور ملک کو چلا رہے ہوں گے۔ آپ اساتذہ اور یونیورسٹیوں کے عہدیداران کے کام کی اہمیت یہیں پر اجاگر ہوتی ہے۔ یعنی جو آج آپ کے طالب علم اور شاگرد ہیں، بیس سال بعد وہی صدر بنیں گے، وزیر بنیں گے، رکن پارلیمنٹ بنیں گے، اداروں کے ڈائریکٹر بنیں گے، یعنی ملک انھیں کے ہاتھ میں ہوگا۔ آپ بیس سال بعد کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟ یہ بہت اہم نکتہ، بہت اہم سوال اور بہت اہم تشویش ہے جس کے سلسلے میں ملک کے مفکرین اور اہل خرد حضرات جن میں آپ سب شامل ہیں بے اعتنائی اور لاتعلقی نہیں برت سکتے۔
اگر ہمارے پاس بیس سال بعد کے دور کے لئے ایک اجمالی خاکہ موجود ہے تو علم و معرفت کے اس نیٹ ورک یعنی تعلیم تربیت کے شعبے سے لیکر یونیورسٹیوں تک قائم اس نیٹ ورک کے دوش پر اس سلسلے میں ذمہ داری ہے۔ یہی نیٹ ورک ہے جو بیس سال بعد امور مملکت کو اپنے ہاتھ میں لینے والے افراد کی آج تربیت کر رہا ہے۔
کیا ہم بیس سال بعد ایسا ایران چاہتے ہیں جس کا میں نے خاکہ پیش کیا؟ ایک مقتدر ایران، ہم بیس سال بعد طاقتور اور مقتدر ایران چاہتے ہیں جو چھوٹے بڑے دشمنوں کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لائے، خوفزدہ نہ ہو، جسے اپنی طاقت پر پورا بھروسہ ہو، ایک طاقتور ایران ہو۔ خود مختار ایران ہو؛ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ملک ہے جو بیرونی دشمنوں سے خائف نہیں ہے، لیکن اس کی یہ کیفیت اس لئے ہے کہ کسی بڑی طاقت کی پشت پناہی اسے حاصل ہے۔ اس بچے کی طرح جو اپنے باپ کے بلبوتے پر خود کو طاقتور اور محفوظ تصور کرتا ہے۔ کیا ہم ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں؟ یا ایسا ملک دیکھنا چاہتے ہیں جس کی طاقت اپنی ہو، جو خود مختار ہو، خود منحصر ہو؟ دیندار ایران، دولت مند ایران، عدل و انصاف سے آراستہ ایران، اقتصادی مساوات، سماجی مساوات، عدالتی انصاف سے آراستہ ایران، عوامی حکومت والا ایران، وہ ایران جس کی حکومت پاکدامن ہو، مجاہد ہو، ہمدرد ہو، پرہیزگار ہو، ہم ایسا ایران دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک آئيڈیل ہوگا۔ یا یہ کہ نہیں، ہماری نظر میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، جو نکات بیان کئے گئے ان کو ہم زیادہ اہمیت نہیں دینا چاہتے، بلکہ ان میں بعض چیزوں سے ہم عدم اتفاق رکھتے ہیں۔ یعنی ہم ایسا ایران چاہتے ہیں جس میں اقتصادی ترقی ہو، اقتصادی آسودگی ہو خواہ یہ ترقی دوسروں پر انحصار کے نتیجے میں حاصل ہو۔ البتہ یہ چیز ممکن بھی نہیں ہے، کیونکہ اس بارے میں اچھی خاصی بحث ہے کہ کوئی ملک جو اقتصادی اعتبار سے دوسروں پر منحصر ہو کیا وہ اقتصادی رفاہ حاصل کر سکتا ہے۔ بے شک ایسے ملک میں کچھ جگہوں پر دولت کے انبار تو نظر آتے ہیں، لیکن ملک میں اقتصادی و فکری آسودگی نہیں آتی۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ آپ فرض کیجئے کہ ہم خود کو دوسروں پر منحصر بنا دیں اور سیاسی اعتبار سے دوسروں پر منحصر رہنے میں ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو، چنانچہ کچھ لوگ آج کل صریحی طور پر اس طرح کی بات کرتے ہیں۔ ایک ایسا ملک بنا لیں جو آجکل کی صورت حال کی طرح صرف ایک پروڈکٹ یعنی تیل پر اور خام تیل کی فروخت پر منحصر ہو، ثقافتی اعتبار سے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہو، ایسا ملک جس میں سماجی فاصلے اور دراڑیں ہوں، قومیتی، مسلکی اور فرقہ وارانہ دراڑیں ہوں، سیاسی خلیج ہو، ایسا ملک جس پر اشرافیہ کلچر سے وابستہ افراد کی حکمرانی ہو، ایسا ملک جہاں امریکا کی طرح ایک جگہ دولت کا ڈھیر لگا ہو، ایرانی وال اسٹریٹ تیار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں اکثریت غربت و محرومی میں مبتلا ہو۔ کیا ہم ان کوائف و اوصاف کا ملک چاہتے ہیں؟ یہ خبریں بالکل سامنے کی ہیں کہ امریکا میں جب گرمی بڑھ جاتی ہے تو کچھ لوگ گرمی سے مر جاتے ہیں۔ گرمی کی شدت سے کوئی اپنے گھر میں تو ہلاک نہیں ہوتا، ان خبروں کا مطلب یہ ہے کہ لوگ بے گھر ہیں۔ اسی طرح جب شدید سردی پڑنے لگتی ہے تو کچھ لوگ ٹھنڈ سے مر جاتے ہیں۔ متعلقہ اعداد و شمار کبھی کبھی ان کے ہاتھ سے پھسل جاتے ہیں اور سامنے آ جاتے ہیں جبکہ عام طور پر انھیں چھپا لیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ بہت سے لوگ بے گھر ہیں۔ اتنی دولت رکھنے والے ملک میں، ظاہر ہے امریکا ایک دولت مند ملک ہے، دولت کے ڈھیر لگے ہیں، انبار موجود ہیں، لیکن دولت کے ان ذخائر کے ساتھ ہی حد درجہ غربت، بدبختی اور محرومیت ہے۔ ہم کیا چاہتے ہیں۔ البتہ ان دونوں صورتوں کے بیچ میں بھی دوسری متعدد صورتیں ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایران بیس سال بعد ویسا ملک بنے جس کی ہم نے تصویر کشی کی، جو روحانی اور مادی دونوں اعتبار سے مالامال ہو، پیشرفتہ ہو، مقتدر ہو، باوقار ہو، داخلی سطح پر نیک اعمالیوں اور مستحسن افعال انجام پائیں، مادی نیک اعمالیاں بھی اور روحانی و معنوی نیک اعمالیاں بھی، ہم نے تدین کی جو بات کی ہے اس میں روحانی نیک اعمال شامل ہیں، اس ہدف کے حصول کے لئے کچھ کاموں کا انجام پانا ضروری ہے اور یہ کام بنیادی طور پر یونیورسٹیوں میں انجام پانے والے ہیں۔ میں یونیورسٹی، اساتذہ اور یونیورسٹیوں کے امور سے وابستہ وزرا پر جو اتنی توجہ دیتا ہوں اور ان کے سلسلے میں اتنی زیادہ تاکید کرتا ہوں، اس کی یہی وجہ ہے۔ ان حضرات میں سے ایک صاحب نے عملی نتائج کی بات کی۔ عملی نتائج کا راستہ ہموار کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ ہم اتنی محنت اسی لئے کر رہے ہیں کہ عملی نتائج حاصل ہوں۔ عملی نتائج کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟ وہ صبر و شکر کے ساتھ زندگی بسر کرنے والا، مجاہد فی سبیل اللہ، اللہ کے لئے کام کرنے والا عالم و دانا انسان، جو اپنے لئے پیسے جوڑنے کی فکر میں نہیں ہے، جو کام انجام دینے کا طریقہ جانتا ہے، جو میدان عمل میں موجود رہتا ہے اور شجاعت کے ساتھ کام کرتا ہے۔ عملی نتائج حاصل کرنا اس کا کام ہے۔ ہماری نظر اسی چیز ہے۔ ایسے عالم و دانا افراد کی تربیت کہاں ہوتی ہے؟ بنیادی طور پر یونیورسٹیوں میں۔ یعنی اس قضیئے کا بھی تعلق یونیورسٹی سے ہے، لہذا ہمیں یونیورسٹیوں کو ان خصوصیات سے آراستہ بنانا ہوگا جن کی ملک کو آج ضرورت ہے اور بیس سال بعد کے ایران کو بھی جس کی شدید احتیاج ہوگی۔ یونیورسٹی کا قضیہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے۔
ہم نے جو باتیں بیان کیں ان کے کچھ لوازمات ہیں۔ میں نے ان لوازمات کا خلاصہ کرکے انھیں چند عناوین میں تقسیم کیا ہے۔ علمی پیشرفت لازمی ہے، اخلاقی نظم و ضبط لازمی ہے، یونیورسٹی کے اندر دینی بردباری لازمی ہے، سیاسی بصیرت لازمی ہے، تشخص کا ادراک اور اپنے تشخص پر افتخار لازمی ہے، ہمارے طلبہ کو اپنی ایرانی و اسلامی ماہیت کا ادراک ہونا چاہئے اور انھیں اس پر نازاں رہنا چاہئے۔ یہ ضروری چیزیں ہیں، انھیں ملحوظ رکھا جانا چاہئے تاکہ ہم اپنے مقاصد پورے کر سکیں۔ ان لوازمات میں سے اگر کوئی ایک بھی مفقود ہو تو نقص باقی رہ جائے گا۔ اگر وقت میں گنجائش رہی تو ان میں سے ہر ایک کے بارے میں چند جملے عرض کروں گا۔
میں جو بار بار لڑکے لڑکیوں کی مخلوط کیمپنگ کے بارے میں مستقل انتباہ دیتا رہتا ہوں تو اسے خشک تقدس پر محمول نہ کیا جائے۔ ان چیزوں سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ ان سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور یونیورسٹی کا ماحول ویسا نہیں رہ جاتا جیسا رہنا چاہئے۔ اگر ہم آج ان چیزوں سے چشم پوشی کرنا شروع کر دیں تو یونیورسٹی سے ہماری جو توقعات ہیں اور یونیورسٹیوں سے ہماری جو ضرورتیں وابستہ ہیں، گویا ہم ان کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
علمی پیشرفت کے بارے میں حضرات نے بڑی اچھی تقریریں کیں۔ بعض خواتین و حضرات نے مختلف حصوں میں جو نکات بیان کئے، وہ بہت اہم تھے۔ اس سے علمی نمو کا پتہ چلتا ہے۔ سنہ دو ہزار کے عشرے کے اوائل سے لیکر اب تک کے اس دور میں جب علمی نمو پر بہت زیادہ بحث ہوئی، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے سب سے پہلے امیر کبیر یونیورسٹی میں اس موضوع کو اٹھایا تھا اور پھر توجہ کے ساتھ اس کی نگرانی کی۔ حقیقی معنی میں ایک علمی مہم کا آغاز ہوا اور چونکہ ملک کے اندر اس کے لئے ضروری استعداد اور صلاحیتیں موجود تھیں لہذا قابل لحاظ علمی نمو دیکھنے میں آیا۔ میں جس بات پر خاص تاکید کرتا ہوں وہ علمی ترقی کی رفتار ہے۔ ایک اور اجلاس میں جس میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور عہدیداران موجود تھے، میں نے علمی نمو کی رفتار کے بارے میں گفتگو کی اور انتباہ بھی دیا کہ نمو کی رفتار کم ہو گئی گئی ہے (5)۔ وزیر محترم نے مجھے ایک مکتوب ارسال کیا کہ 'ایسا نہیں ہے، ہمارا علمی نمو جاری ہے۔' ساتھ ہی انھوں نے اعداد و شمار بھی پیش کئے۔ مجھے معلوم ہے کہ علمی نمو جاری ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہمارا علمی نمو ختم ہو گیا ہے۔ بے شک ہمارے یہاں علمی نمو جاری ہے۔ ہماری بحث تو اس نمو کی رفتار کے بارے میں ہے۔ در اصل ہماری رفتار کم ہو گئی ہے۔ آج ہمیں اس رفتار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر کار ریس میں ساری ہی کاریں 250 یا 300 کی رفتار سے بھاگتی ہیں۔ اگر آپ بالکل آگے ہیں تو اسی 250 یا 300 کی رفتار سے آگے بڑھتے رہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ سب سے پیچھے ہیں، آخری حصے میں ہیں تو اب 250 کی رفتار سے آپ کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ جو سب سے آگے ہے اگر وہ 250 یا 300 کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اور آپ بھی اسی رفتار سے چل رہے ہیں تو ہمیشہ پیچھے رہیں گے۔ آپ کو اپنی رفتار بڑھانی ہوگی تاکہ آپ آگے پہنچ سکیں۔ جب ایک بار آپ آگے پہنچ گئے تو پھر دوسروں کی رفتار سے چلتے رہئے۔ بعض افراد نے ذکر کیا اور معتبر مراکز کی رپورٹوں میں بھی ہے کہ بعض یورپی ملکوں کے علمی نمو کی رفتار کم ہو گئی ہے۔ یہ ہمیں بھی معلوم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر توانائیوں اور وسائل کو استعمال کر چکے ہیں۔ جب ساری توانائیاں بروئے کار آ چکی ہوں اور ان کا نتیجہ مل گيا ہو تو اب مزید پیشرفت کی گنجائش باقی نہیں ہے۔ یہ تو ظاہر سی بات ہے۔ البتہ علم کبھی رکتا نہیں۔ ہماری صورت حال اس سے مختلف ہے۔ ہمیں تو عمدا پسماندگی کا شکار بنایا گيا ہے۔ بدعنوان اور خائن حکومتوں کی وجہ سے یا کم از کم ان کو غافل حکومت کہنا چاہئے، ان کی وجہ سے ہمیں پیچھے رکھا گیا۔ ہم ساٹھ ستر سال پیچھے ہیں۔ اس عالمی مقابلے میں اگر ہم آگے جانا چاہتے ہیں تو اسی رفتار سے چل کر جس سے دوسرے آگے بڑھ رہے ہیں، دوسروں کے برابر نہیں پہنچ سکتے۔ ہمیں اپنے نمو کی رفتار بڑھانا ہوگی۔ میرا مطالبہ یہ ہے۔ ورنہ مجھے بھی معلوم ہے کہ نمو کا سلسلہ جاری ہے۔ پیشرفت کی رفتار بڑھانا ضروری ہے۔ البتہ علمی نمو کے اعتبار سے ہم دنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ یہ رپورٹ وزیر موصوف نے بھی مجھے دی (6)۔ میں نے بھی ایک رپورٹ جو وہ لائے تھے، اور جو ان معتبر مراکز میں سے ایک مرکز کی تیار کردہ تھی، پہلے دیکھی تھی۔ جی ہاں ہم چوتھے نمبر پر ہیں، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں اپنی رفتار بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اپنے تشخص کا ادراک، ہم نے عرض کیا کہ طلبہ کو اپنے تشخص کا ادراک ہونا چاہئے۔ ہمیں ملک کے زمینی حقائق کا علم ہونا چاہئے۔ آج جو چیزیں بیان کی گئیں وہ ملک کے حقائق کے محض ایک حصے کو منعکس کرتی ہیں؛ یہ کہ ہم نے خلائی شعبے میں یہ کام کئے ہیں، نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں یہ پیشرفت حاصل کی ہے، ایٹمی ٹیکنالوجی کے شعبے میں یہ کامیابیاں حاصل کی ہیں، بایو ٹیکنالوجی میں ہم نے اتنا کام کیا ہے، طبی شعبے میں ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں، یہ ساری چیزیں بیان کی جانی چاہئیں۔ تشخص اور اپنی اہمیت کا احساس بیدار کرنے میں اساتذہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس طرح طلبہ کو اپنی موثر حیثیت کا احساس ہوگا، انھیں اپنے قابل فخر تشخص کا احساس ہونا چاہئے۔ اگر استاد کلاس روم میں طلبہ کی حوصلہ شکنی کرے اور بار بار یہی کہتا رہے کہ ' آپ کی کوئی بساط نہیں ہے، آپ بہت حقیر ہیں، بہت پسماندہ ہیں' تو یہ خیانت ہے۔ بلا شبہ یہ خیانت ہے۔ اگر ہمارا استاد ہی غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے طلبہ کو اکسائے اور کہے؛ ' تم یہاں کیوں پڑے ہوئے ہو؟ بیرون ملک جاؤ اور فائدہ اٹھاؤ!' جب ملک کی ان بہترین یونیورسٹیوں نے اتنے وسیع اخراجات کے ساتھ اس طالب علم کو ایک مقام تک پہنچایا ہے، اس کی پرورش کی ہے، اسے آمادہ کیا ہے۔ اب جب اس قیمتی پودے کے پھل دینے کا وقت آیا ہے تو وہ کہیں اور چلا جائے اور اپنے ثمرات وہاں پیش کرے! یہ تو خیانت ہے۔ تشخص کے ادراک کا مطلب یہ ہے کہ طالب علم یہ سمجھے کہ ایرانی ہونا، مسلمان ہونا اور انقلابی ہونا ایک افتخار ہے اور اس پر اسے ناز ہو۔ بیشک ہم پیچھے ہیں، لیکن ہمارے پاس توانائی موجود ہے، محنت کرنے کا موقع ہے، انرجی ہے، نوجوانی ہے، ہم آگے بڑھ رہے ہیں، پیش قدمی کر رہے ہیں، ہم منزل پر پہنچیں گے۔ یہ جو میں نے عرض کیا اور زبان فارسی کی بات کی ہے اور جس کی جانب ہمارے اس پروگرام کے ناظم نے اشارہ بھی کیا، اس سے میری مراد فارسی کی لسانیاتی بحث نہیں ہے، البتہ ‌فارسی بحیثیت ایک زبان کے بہت اہمیت رکھتی ہے اور موقع و محل کے اعتبار سے ہم اس کے بارے میں کافی تاکید بھی کرتے رہے ہیں، تاہم اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ ہم خود کو علمی و سائنسی اعتبار سے اس مقام پر پہنچائیں کہ اگر کوئی اس علم کو اور اس بلند علمی مرتبے کو حاصل کرنا چاہے تو آکر فارسی زبان سیکھے۔ جس طرح آج آپ بعض علوم کے سلسلے میں اگر جدید پیشرفت سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں تو انگریزی یا فرانسیسی زبان سیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔ ہمیں ملک کو اس مقام پر پہنچانا ہے۔ بے شک ہمارے پاس توانائی ہے، صلاحیتیں ہیں، استعداد موجود ہے۔ ہم پیچھے ہیں لیکن خود کو آگے پہنچانے کی توانائی رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہم بہت پیچھے تھے لیکن ہم نے خود کو موجودہ مقام پر پہنچا دیا۔ میر مدعا یہ ہے۔
میں نے کچھ اعداد و شمار پیش کئے لہذا اسے دہرانے کی اب ضرورت نہیں ہے، کچھ اعداد و شمار آپ حضرات نے پیش کئے۔ رینکنگ کرنے والے عالمی ادارے، جن میں سائنس سے مربوط میگزین جیسے سائنس (7) یا نیچر (8) جیسے میگزین شامل ہیں، ایران کے بارے میں جو اعداد و شمار پیش کرتے ہیں وہ حیرت میں ڈال دینے والے ہیں۔ مثال کے طور پر کینیڈا کا ایک ادارہ کہتا ہے کہ ایران کی سائنسی پیشرفت مبہوت کن ہے۔ اس کے بعد اس نے اور بھی دلچسپ بات یہ لکھی کہ 'یہ مغرب کے لئے تشویش کی بات ہے!' سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے اندر انسانیت ہے تو تشویش میں مبتلا ہونے کی کیا وجہ ہے؟ اگر کوئی قوم علمی اعتبار سے ترقی کرتی ہے تو کیا آپ کو اس پر تشویش ہونی چاہئے؟ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کا ایک اور میگزین 'سائنس' لکھتا ہے کہ 'ایران ابھرتی ہوئی علمی طاقت ہے' یہ انھوں نے لکھا اور شائع بھی کیا۔ 'ابھرتی ہوئی علمی طاقت'۔ مجھے جو رپورٹ دی گئی ہے اس کے مطابق یونسکو نے 2015 میں یعنی سال گزشتہ سنہ 2030 تک کا سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے سے متعلق وژن پیش کیا۔ اس رپورٹ میں ادارے نے کہا کہ ایران ذخائر و وسائل پر منحصر اپنی معیشت کو نالج بیسڈ معیشت بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ یہ وہی نکتہ ہے جس پر ہم بار بار تاکید کرتے آ رہے ہیں اور آج یہاں بھی بعض احباب نے اس کا ذکر کیا۔ میں اسی لئے نالج بیسڈ معیشت پر اتنی زیادہ تاکید کرتا ہوں۔ ادارے نے لکھا ہے کہ 'پابندیوں کا اثر ہوا، لیکن ان پابندیوں نے بالواسطہ طور پر ایران میں یہ سوچ پیدا ہونے میں مدد کی کہ معیشت کو نالج بیسڈ بنانا چاہئے۔' یونسکو کی رپورٹ کہتی ہے کہ سائنسی میدان میں ایران کی ترجیحات میں اسٹیم سیلز، ایٹمی، خلائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نیز انرجی کے ذرائع کی تبدیلی ہے۔ وہ ان ساری چیزوں کا بغور جائزہ لے رہے ہیں، مطالعہ کر رہے ہیں۔ جو کام ہم انجام دے رہے ہیں وہ بڑے اہم ہیں۔ ہمارے طالم علم کو اس کی اطلاع ہونی چاہئے۔ جب اسے یہ چیزیں معلوم ہوں گی تو اسے بھی اپنے تشخص کا ادراک ہوگا اور وہ اپنے اوپر، اپنے ایرانی ہونے پر اور انقلاب سے وابستہ ہونے پر فخر کرے گا۔
البتہ تشخص کا یہ احساس صرف علم و دانش کے میدان سے مخصوص نہیں ہے۔ ہم نے نئے نظریات کے میدان میں بھی جیسا کہ جناب عالی نے فرمایا؛ هین سخن تازه بگو (۹) جدت عملی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دین و روحانیت سے وابستہ جمہوریت کا نظریہ بھی آج کی دنیا میں نیا نظریہ ہے۔ یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ روحانیت و دین کی جانب میلان ایک دقیانوسی اور بوسیدہ خیال ہے جسے بعض افراد بوسیدہ نظریہ قرار دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ آج روحانی خلا کی وجہ سے دنیا تلاطم کا شکار ہے اور اسے لوگ تسلیم بھی کرتے ہیں، یہ بات وہ اپنی زبان سے کہہ رہے ہیں، بار بار کہہ رہے ہیں۔ لیکن اب روحانیت لائیں کہاں سے؟ روحانیت کو کسی محلول کی طرح کسی ملت کے پیکر میں انجیکٹ تو کیا نہیں جا سکتا۔ ان کے پاس اس کا فقدان ہے۔ بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور یہ مشکل مزید بڑھتی جائے گی۔ ہم نے دین و روحانیت سے وابستہ جس جمہوریت کی تشکیل کی ہے، یہ حقیقی جمہوریت ہے۔ دوسری جگہوں پر عوامی اقتدار کے بجائے پارٹیوں کا اقتدار ہے۔ مغرب میں پارٹی سے مراد عوام کے درمیان میں پھیلا ہوا نیٹ ورک نہیں ہے۔ نہ تو امریکا میں، نہ برطانیہ میں اور نہ کسی اور جگہ۔ اس نکتے پر آپ توجہ رکھئے۔ مغربی ملکوں میں پارٹی در حقیقت ایک کلب ہے۔ ایک سیاسی کلب کی طرح ہوتی ہے۔ ایک ایسا کلب ہے جہاں کچھ چنندہ لوگ خاص نعروں کے ساتھ، سرمائے اور اسی طرح کی دیگر چیزوں کے ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ وہ پروپیگنڈے کے ذریعے رائے دہندگان کو لبھاتے ہیں۔ اس طرح حقیقی معنی میں عوام کی حکومت نہیں بنتی۔ جبکہ ہمارے ملک میں جمہوریت حقیقی معنی میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حقیقی جمہوریت دین اور اسلام سے متصل ہے۔ یہ چیزیں الگ شناخت پیدا کرتی ہیں۔ اگر اس تشخص کا احساس نوجوان کے اندر بیدار ہو تو وہ اغیار پر فریفتہ نہیں ہوگا۔ بیرون ملک ہمارے کئی ہزار طلبہ ہیں۔ اگر (تشخص پر) افتخار کا یہ جذبہ ہو تو یہ طالب علم وہاں سے ایران واپس آ جائيں گے۔ البتہ یہ طالب علم اپنا درس پورا کریں۔ طلبہ کے ملک سے باہر جانے پر مجھے کسی طرح کی گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ میں نے بارہا کہا بھی ہے کہ وہ جائیں، تعلیم حاصل کریں، سیکھیں اور واپس آکر ملک کو فائدہ پہنچائیں۔ یہ کب ہوگا؟ یہ تب ہوگا جب اسے اپنے ایرانی ہونے پر افتخار ہوگا، انقلابی ہونے پر افتخار ہوگا۔ تشخص کے ادراک و احساس کا یہی مطلب ہے۔
ایک اور مسئلہ یونیورسٹیوں میں سیاست کا ہے۔ میں نے کئی سال پہلے یونیورسٹیوں میں سیاسی سرگرمیوں کے تعلق سے ایک جملہ کہا تھا جس پر اس وقت کے حکومتی عمائدین بہت ناراض ہوئے تھے کہ یہ بات کیوں کہی؟ میں نے کہا تھا کہ اللہ لعنت کرے ان لوگوں پر جنھوں نے یونیورسٹیوں سے سیاسی تفکر، سیاسی عمل اور سیاسی مساعی کی بساط لپیٹ دی (10)۔ سب نے ہم پر اعتراض کیا کہ آپ بچوں کو سیاسی سرگرمیوں کے لئے اکسا رہے ہیں۔ آج وہی لوگ کبھی کبھی ریاکاری کرتے ہوئے یونیورسٹیوں اور طلبہ کے بارے میں کچھ باتیں زبان سے کہتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا نظریہ اب بھی وہی ہے۔ جبکہ میرا خیال یہ ہے؛ یونیورسٹی کا ماحول فطری طور پر افکار و نظریات کے تصادم کی جگہ ہے۔ یہ یونیورسٹی کے مزاج کا حصہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک طرف طالب علم اس فکری پختگی کو نہیں پہنچا ہوتا جو اسے طمانیت و آسودگی عطا کر دے، آپ یہ جانتے ہیں کہ جب انسان فکری پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو اس کے اندر خاص سکون اور ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور وہ آشفتگی اور پرخاش گری کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔ نوجوان کے اندر سکون کی کیفیت نہیں ہوتی۔ ایک طرف تو اس کے اندر انرجی اور بحث و مباحثے کی خوب توانائی بھری ہوتی ہے؛ میں جب اپنی نوجوانی کے ایام کے واقعات کا کبھی مطالعہ کرتا ہوں، پچاس سال ساٹھ سال قبل کے ان یادگار واقعات کی ورق گردانی کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ لوگوں سے سیاسی مسائل کے بارے میں، تحریک کے مسائل کے بارے میں دھواں دھار بحث ہوتی تھی۔ یہ کیفیت نوجوانی کی خاصیت ہوتی ہے۔ خاص طور پر نوجوان اگر طالب علم ہو تو پھر یہ اس کا میدان ہی ہے۔ بنابریں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب اس ماحول اور مزاج کو انقلاب کے خلاف اور اسلامی انقلاب کے اقدار کے خلاف استعمال کیا جانے لگے۔ یہ بری بات ہے۔ یونیورسٹی کے اندر گوناگوں نظریات اور سوچ کا ہونا، مختلف سیاسی رجحانات کا موجود ہونا کوئی بری بات نہیں ہے، آپس میں بحثیں ہوں مقابلہ ہو۔
یونیورسٹی کی انتظامیہ کے عہدیداران کی اس سلسلے میں کیا ذمہ داری ہے؟ کیا ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ انقلاب کے بنیادی اصولوں کی مخالفت کرنے والے فکری رجحان کی حمایت کریں اور اس سے تعاون کریں؟ نہیں، یہ بالکل درست نہیں ہے۔ یہ تو فرض شناسی کے عین خلاف ہے۔ یونیورسٹی کے عہدیداران، اعلی منتظمین سے لیکر وزارت خانے کے عہدیداروں اور کلاسوں میں جانے والے اساتذہ تک جو طلبہ سے روبرو ہوتے ہیں، سب کی ذمہ داری ہے کہ یونیورسٹی کے اس مقابلے کے ماحول میں یہ کوشش کریں کہ یہ ماحول اس سمت میں مڑے جو انقلاب کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگی رکھتی ہے، جو انقلاب کے اعلی اہداف کی سمت ہے۔ یعنی نوجوانوں کو انقلابی بنائیں۔ مختصر یہ کہ یونیورسٹی کو چاہئے کہ انقلابی رہے، طالب علم بھی انقلابی بنے، طالب علم ایک مجاہد فی سبیل اللہ مسلمان بنے۔ اس سمت کی جانب ماحول کو لے جانا چاہئے۔ مجھے بعض اوقات ایسی رپورٹیں ملتی ہیں جن سے اس کے برعکس صورت حال کا عندیہ ملتا ہے۔ یہاں اس وقت اعلی عہدیداران اور ہائیر ایجوکیشن کے ذمہ داران تشریف فرما ہیں، میں ان کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ کے دوش پر بہت بڑی ذمہ داری ہے، آپ بہت خیال رکھئے۔ خیال رکھئے کہ یونیورسٹی انقلاب، انقلابی تعلیمات، انقلابی اقدار، دینداری، انقلاب نوازی، امام خمینی کے نام اور امام خمینی کی محبت سے دوری و بے اعتنائی کا گہوارا نہ بن جائے۔ یہ بہت اہم ضرورتوں میں شامل ہے۔ یونیورسٹی میں ممکن ہے کہ کوئی شخص یا کوئی گروہ ایسا فکری رجحان رکھتا ہو جو ملک کی تقسیم پر منتج ہوتا ہو، ایسا بھی ہے، یہ حقیقت ہے، آپ حضرات یونیورسٹی سے وابستہ ہیں، آپ کو معلوم ہونا چاہئے، آپ یہ سن لیجئے کہ بعض یونیورسٹیوں میں اس طرح کی چیزیں ہیں اور مجھے اس کی اطلاع ہے۔ اس طرح کے فکری رجحانات کی حمایت نہیں کی جا سکتی، اس کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ ایسا فکری رجحان ہے جو ملک کو اغیار پر انحصار کی جانب لے جانا چاہتا ہے۔ ایسے فکری رجحانات کا ساتھ نہیں دینا چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ زد و کوب کرکے اور سیکورٹی فورس کی مدد سے اس کا تدارک کیا جائے۔ نہیں، اس کا مقابلہ اسی خردمندانہ روش کے ذریعے، انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، معالجانہ روش سے ان امور کو حل کرنا چاہئے۔ تو اس طرح انقلاب نوازی اور ڈسپلن کا معاملہ بہت اہم ہے۔
کچھ سفارشات ہیں، مگر وقت میں گنجائش نہیں ہے، لہذا اختصار سے عرض کروں گا۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن سے وابستہ عہدیداران کو چاہئے کہ محقق اور موجد کو ہرگز مایوس نہ ہونے دیں۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ان صاحبان نے آکر یہاں تقریر کی بڑے شوق و رغبت کے ساتھ۔ یہ جوش و جذبہ اور حوصلہ تمام تحقیقاتی مراکز، تمام ریسرچ سینٹرز اور یونیورسٹیوں میں پروان چڑھنا چاہئے۔ سب کے اندر امید و نشاط کا جذبہ ہونا چاہئے۔ انھیں مایوس نہ ہونے دیجئے، ایسا نہ ہو کہ وہ تھکن کا احساس کرنے لگیں۔
ایک اور چیز جس پر میں پہلے بھی توجہ مبذول کراتا رہا ہوں اور آج ماہرین بھی اس کی تائید کر رہے ہیں، وہ بیسک سائنسز کی اہمیت ہے۔ ایک دفعہ میں نے اسی جگہ سائنسدانوں اور محققین کے مجمعے میں (11) ایک مثال دی تھی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ بیسک سائنسز بینک میں رکھے اس احتیاطی سرمائے کی مانند ہیں جو زندگی کا سہارا ہوتا ہے۔ جبکہ applied science) ) یا اطلاقی سائنس اس پیسے کی طرح ہے جسے آپ جیب خرچ کے طور پر اپنے پاس رکھتے ہیں۔ یہ بہت ضروری چیز ہے۔ applied science)) کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اسے اہمیت دینا بہت ضروری ہے، لیکن بنیادی درجہ بیسک سائنسز کو حاصل ہے۔ ماہرین اور سائنسدانوں کا یہ قول نقل کیا گيا ہے اور ہمیں ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے، یعنی اس حقیر کو ان سے یہ چیز سیکھنا چاہئے، کہ اگر بیسک سائنسز نہ ہوں تو applied science)) یا اطلاقی سائنسز کسی بھی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گی۔
میری اگلی سفارش؛ علمی سفارت کاری کا مسئلہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ خود سفارت کاری بہت اہم چیز ہے۔ اقتصادی سفارت کاری بھی اہم ہے، ثقافتی سفارت کاری بھی اہم ہے۔ اسی طرح علمی و سائنسی سفارت کاری بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ مگر آپ یہ توجہ رکھئے کہ علمی و سائنسی سفارت کاری میں، علمی روابط میں جس کی میں خود بھی حمایت کرتا ہوں، ہم فریب میں نہ آئيں۔ آپ دیکھئے کہ کوئی شخص تاجر کے عنوان سے آکر ہمارے کسی ماہر اقتصادیات کے ساتھ بیٹھتا ہے، ہمارے کسی تاجر کے ساتھ کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں بیٹھتا ہے۔ بات شروع ہوتی ہے اور سودے پر تبادلہ خیال کا آغاز ہوتا ہے۔ بعد میں جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو صیہونی حکومت کا سیکورٹی اہلکار ہے جو ایک تاجر کے لباس میں، کہ جس کے خاص مقاصد ہیں، یہاں آیا ہے۔ بعینیہ یہی چیز علمی میدان میں بھی ہو سکتی ہے۔ بے شک آپ غیر ملکی سائنسدانوں کی خدمات لیجئے۔ میں نے بارہا طلبہ کے اجتماعات میں کہا ہے کہ ہمیں دوسروں کی شاگردی کرنے میں کوئی عار نہیں ہے۔ ہم دوسروں کی شاگردی کے لئے آمادہ ہیں، لیکن ہمارے حواس جمع رہنے چاہئے کہ علمی روابط کے دوران، علم اور ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے دوران کہیں سیکورٹی میں دراندازی کے لئے کوئی دریچہ نہ کھل جائے۔ یہ طاقتیں ہر ممکنہ وسیلہ استعمال کرتی ہیں کہ سیکورٹی دراندازی کا موقع مل جائے۔ علم و سائنس کا بھی سہارا لیتی ہیں۔ ایسا ہو چکا ہے، پہلے بھی اس کی مثالیں ہیں اور آج بھی بدقسمتی سے کچھ جگہوں پر یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔
اس کے بعد مسئلہ ہے ریسرچ پیپرز کا۔ ریسرچ پیپرز کے اعداد و شمار پیش کئے گئے، مجھے بھی اطلاعات ہیں۔ کافی تعداد میں ریسرچ پیپرز ضبط تحریر میں آئے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ریسرچ پیپرز کو ملکی ضرورتوں کے تحت تیار کیا جائے۔ آج پیٹرولیم کے شعبے میں ہمیں بڑی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ زرعی میدان میں ریسرچ کی ضرورت ہے۔ گوناگوں صنعتوں کے سلسلے میں ہمیں ریسرچ کی ضرورت ہے۔ روابط کے میدان میں بھی ہمیں تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم کسی اور ملک کے مفادات کے تحت اپنا ریسرچ پیپر تیار کریں۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے کہ ریسرچ پیپرز کو ملکی ضرورتوں کی سمت میں موڑا جائے۔
جامع علمی روڈ میپ کا موضوع ہمارا اگلا موضوع ہے۔ اس روڈ میپ کی تدوین واقعی بہت اہم قدم تھا، لیکن اب تمام یونیورسٹیوں کے سامنے اس کی تشریح کی جانی چاہئے اور اسے باقاعدہ ایک پلان کی شکل دینا چاہئے۔
ایک نکتہ استقامتی معیشت کے بارے میں؛ جناب ڈاکٹر درخشاں صاحب (12) نے واقعی اس بارے میں بڑی اچھی تقریر کی۔ استقامتی معیشت قومی آبرو بھی ہے اور در پیش مشکلات کا حل بھی ہے۔ چونکہ اس بارے میں مجھ سے سوال بھی پوچھا گیا ہے کہ آپ قومی وقار پر جو اتنی تاکید کرتے ہیں اور اپنی تقاریر میں بار بار ملی وقار کی بات کرتے ہیں تو سماج میں آج موجود تنقید کی ضرورتوں کا کیا کریں گے؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ اگر استقامتی معیشت کے منصوبے کو بالکل اسی طرح جس طرح بیان کیا گیا ہے اور جس کا مطالبہ کیا گيا ہے، جامہ عمل پہنایا جائے، اس پر عمل کیا جائے تو قومی وقار بھی ملے گا، ملک کی ضرورتیں بھی پوری ہوں گی، کیونکہ یہ معیشت داخلی توانائیوں پر استوار ہے، ملک کے اندر موجود وسائل پر استوار ہے، قومی پیداوار پر استوار ہے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ یونیورسٹی میں ثقافتی امور کی انجام دہی بنیادی ہدف کا درجہ رکھتی ہے، یہ ذیلی اور فروعی پروگرام نہیں ہے۔ ثقافتی کاموں کو اہمیت دی جانی چاہئے۔ البتہ کلچرل پروگراموں کا مطلب یونیورسٹی میں کنسرٹ لانا نہیں ہے، اس سے مراد رقص نہیں ہے (13)۔ یہ ثقافتی پروگرام نہیں ثقافت مخالف پروگرام ہیں۔ ثقافتی پروگرام کا مطلب ایسے پروگرام ہیں جو ذہنوں کو انقلاب اور اسلام کی ثقافت سے رو شناس کرائیں۔ یہ ہے ثقافتی کام۔ عہدیداران کو چاہئے کہ اقدار کی پابندی کرنے والے اساتذہ اور طلبہ کے لئے میدان ہموار کریں۔ اقدار کی پابندی کرنے والے اساتذہ او طلبہ کو یونیورسٹی کے اندر کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع دیں۔ البتہ انقلابی طلبہ اور اساتذہ کے لئے اس حقیر کی یہ سفارش ہے کہ موثر طریقے سے اپنا کردار ادا کریں۔ ہم نے نوجوانوں سے کہا ہے کہ نرم جنگ کے افسران آپ لوگ ہیں، آپ اساتذہ اس نرم جنگ کے کمانڈر ہیں۔ تو آپ کمانڈر کا رول ادا کیجئے، اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیے۔ نرم جنگ جاری ہے۔ میں نے جس دن سے نرم جنگ کی بحث شروع کی ہے اس دن سے لیکر اس وقت تک دو تین سال کی مدت میں یہ جنگ بہت شدت اختیار کر گئی ہے۔ دشمن ہمارے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ یہ زبان کے جس مسئلے کو محترمہ قہرمانی (14) نے بیان کیا، بہت اہم ہے، اس پر توجہ دی جائے اور اس کا جائزہ لیا جائے تو واقعی یہ بڑا دلچسپ نکتہ ہے۔ ہمارے خلاف ہر طرف سے ثقافتی حملے ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے اور ہم بارہا بیان بھی کر چکے ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں بھی خود کو آمادہ کرنا چاہئے۔
میں نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں ایسے افراد کو جگہ نہ ملے جو غیر قابل اعتماد ہیں۔ غیر قابل اعتماد کون ہے؟ غیر قابل اعتماد وہ شخص ہے جو کسی نہ کسی بہانے سے اسلامی نظام کو چیلنج کرتا رہتا ہے۔ کون سا ملک یہ اجازت دیتا ہے کہ وہاں حکمفرماں نظام کو للکارا جائے؟ امریکا جو آزادی کے اتنے دعوے کرتا ہے، کیا وہ اس کی اجازت دے گا؟ جان اشٹائن بک کو جنھوں نے کئی ناول لکھے ہیں اور بڑی شہرت رکتھے ہیں، سخت دباؤ میں رکھا گیا۔ امریکا میں اگر کوئی شخص ایک لفظ بھی ایسا بول دیتا جس میں سوشیلزم کی صرف جھلک ہو، خود سوشیلزم نہیں سوشیلزم کا ہلکا سا رنگ اس میں ہو تو اسے مختلف طریقوں سے گھیر لیا جاتا تھا، اس کی کردار کشی سے لیکر قتل تک ہر حربہ آزمایا جاتا تھا۔ یہ ایسے لوگ ہیں۔ وہ نظام حکومت کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہم انتخابات کے نام پر، کبھی کسی اور بہانے سے اسلامی نظام کو چیلنج کرنے لگتے ہیں!! تو جو شخص اسلامی نظام کو چیلنج کرے گوناگوں بہانوں کے ذریعے، وہ غیر قابل اعتماد ہے۔
میں نے ہیومن سائنسز یا بشریات کے تعلق سے بھی کچھ چیزیں نوٹ کی تھیں مگر اب وقت ختم ہو چکا ہے۔ بلکہ شاید ہم نے زیادہ وقت لے لیا ہے۔ مغربی بشریات کی انسان شناسی در حقیقت انسان کے بارے میں مغرب کے نظرئے پر استوار ہے۔ یہ خلاصہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں تمام انسانی علوم کی حصولیابیوں کا انکار کرنا ہے، نہیں۔ جو علمی کامیابیاں قابل استفادہ ہیں ان سے استفادہ کرنا چاہئے۔ ہم ان سے استفادہ کریں لیکن بشریات کا پورا ڈھانچہ مغرب سے آیا ہے۔ یہ انسان کے بارے میں مغربی آئيڈیالوجی پر استوار ہے، مغربی آئيڈیالوجی انسان کو جو چیز سمجھتی ہے ہم انسان کو اس سے مختلف مخلوق مانتے ہیں، ہماری فکر انسان کے بارے میں مغربی فکر سے الگ ہے۔ لہذا ہمیں اسلامی ہیومن سائنسز پر توجہ دینا چاہئے۔
پالنے والے! ہم نے جو کچھ کہا، جو مساعی انجام دیں، جو سوچا، جو سنا سب کو اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے۔ اسے قبول فرما۔ ہمارے دلوں کو ماہ رمضان کی پاکیزگی و برکت سے منور فرما۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ، ملک کی، معاشرے کی، یونیورسٹی کی، اساتذہ کی، طلبہ کی اور علم کی روز بروز اعلی اہداف کی جانب رہنمائی فرما۔
و السّلام علیکم و رحمة الله‌

۱) ماہ رمضان میں منعقد ہونے والے اس اجلاس کے آغاز میں گيارہ اساتذہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
۲) سائنسی اطلاعات و معلومات کا ادارہ آئي ایس آئی جو علمی میدان کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتا ہے اور یونیورسٹیوں اور علمی مراکز کے ریسرچ پیپرز اور کتب کے اعداد و شمار اور دیگر خدمات فراہم کرتا ہے۔
۳) اسکوپس (Scopus) دنیا بھر کے پانچ ہزار ناشرین کی کتب کی اطلاعات فراہم کرنے والا اہم عالمی ادارہ ہے۔
۴) وال اسٹریٹ نیویارک میں ایک سڑک ہے جہاں امریکا کے بڑے اقتصادی مراکز واقع ہیں، یہ امریکا میں ایک فیصدی لوگوں کے پاس دولت کے انبار کی نشانی ہے۔
۵) یونیورسٹیوں، تحقیقاتی مراکز اور ٹیکنالوجی پارکوں کے سربراہوں سے رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ 11 نومبر 2015 کا خطاب
۶) وزیر علوم و تحقیقات و ٹیکنالوجی ڈاکٹر محمد فرہادی بھی اجلاس میں موجود تھے۔
۷) ہفتہ وار سائنسی میگزین Science
۸) ہفتہ وار سائنسی میگزین Nature
۹) مولانا روم؛ دیوان شمس غزل نمبر 546؛ «هین سخن تازه بگو تا دو جهان تازه شود/ وارهد از حدّ جهان بی حد و اندازه شود»
۱۰) منجملہ ملک بھر کے طلبہ و طالبات سے رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ 3 نومبر 1993 کا خطاب
11) منجملہ رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ 5 اکتوبر سنہ 2011 کو ملک کی ممتاز علمی شخصیات سے خطاب
12) علامہ طباطبائی یونیورسٹی کے ڈاکٹر مسعود درخشاں
13) رہبر انقلاب اور حاضرین کی ہنسی
14) الزہرا یونیورسٹی کی ڈاکٹر سوسن قہرمانی