قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے سولہ اپریل انیس سو ترانوے کو عالم اسلام اور مسلک تشیع کی مایہ ناز شخصیت، جلیل القدر عالم دین شیخ مفید علیہ الرحمۃ کے نام سے منعقدہ عالمی کانفرنس کے نام اپنے تفصیلی پیغام میں اس عظیم الشان شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور مذہب تشیع کے لئے ان کی حیاتی کوششوں و علمی کاوشوں کی جانب اشارہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مذہب تشیع کی اس عظیم شخصیت کے ایسے کارناموں کی نشاندہی فرمائی جو عام طور پر لوگوں کی نظروں میں نہیں ہیں: تفصیلی پیغام ملاحظہ فرمائیے:
16-4-1993
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین وافضل صلواتہ و ازکی تحیاتہ علی سیدنا النبی الاعظم محمد المصطفی وآلہ الغر المیامین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین روحی لہ الفداء

آج سے ہزار سال قبل بغداد کے حوادث سے بھرے ایک دن، بغداد کا میدان اشنان، لوگوں کے لئے تنگ پڑ گیا جو ایک غم انگیز واقعے کی وجہ سے وہاں جمع ہوئے تھے۔ اس پر ہزاروں آنکھوں نے گریہ کیا جس کی موت ایک عظیم سانحہ تھی۔ اس برگزیدہ انسان کی میت پر دسیوں ہزار لوگوں نے نماز پڑھی جس نے پچاس سال تک عالم اسلام کو اپنے علم و معرفت کی روشنی سے منور کیا اور دریائے دجلہ کے کنارے علم و معرفت کا ایک دریا جاری کر دیا تھا۔ عباسیوں کے دارالحکومت کے تلخ و خونیں حوادث کی آندھیاں اور بد خواہی و تعصب کے طوفان، اس چراغ علم وعمل کو خاموش نہ کرسکے جو اہلبیت علیہم السلام کے معارف اور علم قرآن کے شجرہ طیبہ سے متصل تھا اور جس نے مصباح خرد انسانی سے نور حاصل کیا تھا۔ کج فہمی و کج فکری کے خس و خاشاک، اس بحر خروشاں کو روکنے میں ناکام رہے کہ جس نے فقہ، کلام، معقولات اور علم حدیث کو زرخیز زمین تک پہنچا دیا تھا۔
جب شیخ مفید علیہ الرحمہ کی تشییع جنازہ میں دسیوں ہزار لوگوں نے شرکت کی اور سید علی مرتضی نے آپ کی نماز پڑھائی تو کینے سے پر اور حکمت و فراست سے عاری دلوں نے سمجھا کہ اس عظیم ہستی کا کام ختم ہوگیا اور انہوں نے آ پ کی رحلت کا جشن منایا۔
مگر ہر دانشمند کی آنکھ اور قلب اچھی طرح سمجھ سکتا تھا کہ فرزانوں کے اس قافلہ سالار کی موت، اس کے کاموں کا خاتمہ نہیں ہوسکتی اور اس کے پچاس سالہ فیضان نے فکر بشر میں علم و دانش، اخلاق و ثقافت اور حکمت کا ایک چشمہ جاری کر دیا ہے اور ارادہ الہی اور روایت تاریخ نے اس کو جاودانی اور نسلوں، ادوار اور صدیوں کو عبورکرکے، رشد انسانی کے دریائے بیکراں سے متصل ہونے تک اس کی بقا کو یقینی بنا دیا ہے۔
اس دن شیخ مفید کا نحیف و لاغر جسم بغداد کے درب الریاح میں آپ کے گھر میں سونپا گیا تاکہ ایک دن اسے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے روضہ اقدس میں منتقل کیا جائے اور رحمت الہی کے اس دارالسلام میں آپ کی آخری آرامگاہ ہو مگر آپ کی عظیم شخصیت جو چھپائی جاسکتی تھی نہ فراموش کی جا سکتی تھی، ہمیشہ زمانے کی آنکھوں میں باقی رہی، کبھی فراموش نہ ہوئی اور فقہ، کلام اور مذہب اہلیبت علیہم السلام کی نشر و اشاعت میں بنیادی کردار ادا کرتی رہی۔
آج اس دن کے ایک ہزار سال بعد آپ نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کی ہزار سالہ یاد منانے کے لئے بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کرکے اس عظیم سانحے کی یاد تازہ کرنے اور اس کوہ علم وتقوا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ دس صدیاں گذرجانے، علم و تمدن کی پیشرفت کی دس صدیاں گزرنے کے باوجود، نگاہوں میں جس کی عظمت و بلندی میں کوئی کمی نہیں آئی ۔
آج کی علمی نسل، شیخ مفید علیہ الرحمہ کی یاد منا کر اور آپ کی تصنیفات کی اشاعت کرکے در حقیقت، اس ہستی کے تئیں فریضہ سپاس پر عمل کر رہی ہے کہ جو خود اور اس کے افکار فقہ و کلام اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کو غنی اور مالامال کرنے میں بنیادی کردار کی مالک رہی اور ان ہزار برسوں میں انہیں شیعہ فقہ و کلام کی فلک بوس عمارت کا سنگ بنیاد تسلیم کیا گیا ہے، آپ تمام علمی کاموں کا سرچشمہ رہے ہیں ۔
زندہ علمی اور کلامی افکار و نظریات کے میدان میں، شیخ مفید علیہ الرحمہ کی موجودگی، ان کی کتابوں کی اشاعت اور ان کے افکار کے ذکر تک محدود نہیں ہے۔ اگر چہ کتابوں کی اشاعت اور ان کے افکار کی ترویج، ان کے بعد آنے والے فقہا و متکلمین پر ان کے احسان کے سپاس کا مقتضا ہے، مگر ان کی اصل موجودگی فقہ و کلام میں اس روش اور سبک کا دوام ہے جس کے بانی وہ خود ہیں ۔
اس عظیم ہستی کی قدردانی اور سپاس کی غرض سے اس کی ہزار سالہ یاد منانے کی یہ کانفرنس، سب سے پہلے تو، موجودہ اور آئندہ نسلوں کو اس عظیم ہستی سے زیادہ آشنا کرے گی اور اس کی اہمیت سے واقفیت کے ساتھ اس کی تصنیفات سے بہرہ مند ہونے کے لئے زمین ہموار کرے گی اور دوسرے فقہ و معقولات کی تاریخ کے محققین کو یہ موقع فراہم کرے گی کہ ان علوم کے رشد و تکامل کے مراحل، ان کی تشکیل اور بالندگی کی کیفیت اور تاریخ کے اس حساس دور میں ان کے عناصر تشکیل کی معلومات حاصل کریں۔ اس نکتے کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے کہ جب چوتھی اور پانچویں صدی ہجری پر علمی ادبی اور ثقافتی ترقی اور رشد کے دور کی حیثیت سے توجہ دیں اور تحقیق کریں۔
تیسرے مسلمان اور ہر فرقے اور مذہب کے محققین اور عام مسلم مفکرین کے لئے شیعہ مذہب کے بنیادی اور کلامی معارف سے وسیع واقفیت کے مواقع فراہم کرے گی۔ اس نکتے کی اہمیت اس وقت زیادہ آشکارا ہوتی ہے کہ جب اس بات پر توجہ دیں کہ آج دشمن کے زرخرید، زہر آلود، کینہ پرور اور نفرت انگیز قلم شیعہ اعتقادات کے بارے میں جو آج بڑے اسلامی مذاہب میں سے ہے اور مسلمین کی بیداری کا علمبردارہے، کتنی جھوٹی اور افترا آمیز باتیں لکھ رہے ہیں اور پھیلانے کی کوشش ہیں جو پوری تاریخ میں جو کچھ انجام پایا ہے (6) اس سے قابل موازنہ نہیں ہے۔
افسوس کہ اس گمراہ کن تحریک میں سیاسی اور استعماری محرکات آج ہر زمانے سے زیادہ آشکارا ہیں۔ حتی اس زمانے سے بھی زیادہ کہ جب بنی امیہ اور بنی عباس شیعہ مذہب کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلانے کو پیروان اہلبیت علیہم السلام کے خلاف ہمہ گیر مہم کا جز اور ان کی سرکوبی کے لئے ضروری سمجھتے تھے۔ اس نظر سے شیعہ عقائد ومعارف کی ہر تحقیق مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔ کیونکہ دشمنان اسلام نے تفرقہ ڈالنے کے لئے، ہمیشہ ان کے فقہی اور اعتقادی معارف کو ایک دوسرے کے لئے برا ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس وقت ان تمام فضلائے کرام کہ جنہوں نے اس عظیم کانفرنس کا اہتمام کیا ہے اور ان تمام دانشوروں اور صاحب الرائے حضرات کے شکریئے کے ساتھ کہ جو اس کانفرنس میں اپنی شرکت سے اس کی علمی حیثیت بڑھنے کے اسباب فراہم کریں گے، میری کوشش یہ ہے کہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کی علمی شخصیت کے بارے میں ایک اہم نکتہ پیش کرکے اس عظیم اجتماعی کارنامے میں خود کو شریک کروں اور صدیوں اور ادوار پر محیط اس عظیم نورانی ہستی کو متعارف کرانے کے کام میں شرکت کروں۔ یہ نکتہ، فقہ اور کلام کے میدان میں، تشیع کے علمی تفکر کے رشد میں شیخ مفید کے مقام و مرتبے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے اس کام میں، خود آپ کے مکتوب آثار، علمی نظریات اور اقوال نیز ان شخصیات کے اقوال سے کہ جنہوں نے آپ کے بارے میں کہا ہے اور ان کے شاگردوں اور مترجمین کے کارناموں سے حاصلہ شواہد پر اتکا کیا ہے ۔
مختصر الفاظ میں یہ نکتہ یہ ہے کہ؛ شیخ مفید سلسلہ علمائے امامیہ میں، صرف ایک معروف اور ممتاز فقیہ اور متکلم ہی نہیں ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر وہ اس ترقی پذیر علمی تحریک کے بانی ہیں جو فقہ و کلام کے شعبوں میں آج تک شیعہ مذہب کے تعلیمی مراکز میں جاری ہے اور تاریخی، جغرافیائی اور مکتبی تاثیرات کے برطرف نہ ہونے کے ساتھ ہی اس کی اصل خصوصیات اور بنیادی خطوط اسی طرح باقی ہیں۔
اس نکتے کے بیان اور اثبات کی اہمیت اس وقت ظاہر ہوتی ہے کہ جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس علمی تحریک میں شیخ مفید کی زندگی سے متصل دور سے آپ کی رحلت سے تقریبا نصف صدی بعد تک ایسا تغیر اور تیز رفتار رشد و تکامل آیا ہے کہ اس کے سامنے، شیخ مفید علیہ الرحمہ کے بانی ہونے کے کردار کو نظرانداز کر دیا گیا۔
اس نکتے میں بنیادی تاکید اس بات پر ہے کہ شیخ مفید کے شاگرد رشید یعنی سید مرتضی علم الہدی ( متوفی 436ہ) اور اس سلسلے کی ممتاز ہستی شیخ الطائفہ محمد بن الحسن الطوسی (متوفی 460ہ) کی تمام نمایاں علمی کاوشیں درحقیقت اسی تحریک کا دوام ہیں، جس کا سرچشمہ اور بانی محمد بن محمد بن النعمان المفید تھے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لئے ضروری ہے:
1- مکتب اہلبیت علیہم السلام کے علیحدہ تشخص کے استحکام
2-فقہ شیعہ کے صحیح علمی قالب اور شکل کی بنیاد رکھنے اور
3- فقہ وکلام میں معقولات ومنقولات کوجمع کرنے میں منطقی سبک کی تخلیق میں
شیخ مفید کے بنیادی اور موثر کردار کو بیان کیا جائے۔
گذشتہ دس صدیوں کے دوران شیعہ متکلمین اور فقہا نے جو بلند عمارت تعمیر کی ہے اور اپنے علمی آثار سے جو بے نظیر خزانہ جمع کیا ہے، وہ سب اسی علمی قاعدے پر استوار ہے جو شیخ مفید نے علمی جہاد کی ان تین جہات پر قائم کیا ہے۔
ان تینوں جہات کی تشریح سے پہلے یہ کہنا مناسب ہے کہ شیخ مفید اور ان کے زمانے میں بغداد کے شیعہ تعلیمی مراکز میں سے ہر ایک ایسا مرکز شمار ہوتے ہیں کہ اس زمانے تک شیعہ تاریخ میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
اس تاریخ سے پہلے، بےشک شیعہ تعلیمی مراکز، شام کے علاقوں سے لیکر ماوراءالنہر تک ہرجگہ پھیلے ہوئے تھے۔ قم کا تعلیمی مرکز جو حدیث کا بڑا مرکز اور دوسری تیسری ہجری کے کوفہ کے تعلیمی مرکز کا جانشین تھا اور ری کا تعلیمی مرکز کہ شیخ کلینی، ابن قبہ اور یہاں سے اٹھنے والی دیگر علمی شخصیات معروف ہیں، شیعہ علمی مراکز کا صرف ایک حصہ تھے۔ مشرق میں ماوراءالنہر کا تعلیمی مرکز تھا کہ جس سے نکلنے والی دو شخصیات، عیاشی سمرقندی اور ابوعمرو کشی معروف ہیں اور مغرب میں حلب کا علمی مرکز تھا کہ جہاں کے حسن بن احمد السبیعی الحلبی اور علی بن خالد الحلبی، شیخ مفید سے وابستہ پائے کے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ بنابریں قرائن تائید کرتے ہیں کہ شیعہ علوم و معارف کے اہم مراکز رہے ہوں گے۔ مشائخ کشی کی فہرست پر ایک نگاہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خراسان اور ماوراء النہر کے علاقے میں بنیادی شیعہ علمی مراکز سے دوری کے باوجود کتنی قابل توجہ تعداد میں علماء و محدثین تیار ہوئے ہیں اور اس خیال کی تقویت ہوتی ہے کہ ان علاقوں میں اس قسم کی شخصیات تیار کرنے کی سرگرمیاں ، ایک شیعہ علمی مرکز سے زیادہ وسیع رہی ہیں۔ کم سے کم دس مشائخ سمرقند یا کش (سمرقند کے نزدیک واقع شہر) سے منسوب ہیں اور تقریبا اتنی ہی تعداد بخارا، بلخ، ہرات، سرخش، نیشابور، بیہق، فاریاب اور اس خطے کے بعض دیگر شہروں سے منسوب ہے ۔ (7)
خراسان اور ماوراءالنہر کے شہروں سے منسوب اتنے ناموں کا مشاہدہ کہ بظاہر سب یا تقریبا سبھی شیعہ تھے، اس بات کے پیش نظر کہ معمول کے خلاف ہے کہ کوئی قم، کوفے یا بغداد سے ان تمام خراسانی اور ترکستانی مشائخ کے پاس آیا ہو، اس گمان کی تقویت کرتا ہے کہ عیاشی کا گھر جونجاشی کے کہنے کے مطابق کانت مرتعا للشیعہ اھل العلم (8) یا وکانت دارہ کالمسجد بین ناسخ او مقابل او قاری او معلق مملوئہ من الناس (9) بغداد میں نہیں بلکہ سمرقند میں رہا ہوگا۔ اس صورت میں یہ بات بذات خود اس شہر میں شیعہ علمی مرکز اور علوم و معارف اہلبیت کی ترویج کی غمازی کرتی ہے ۔
شام اور حلب کے علاقوں میں شیعوں کی کثرت اور حمدانیوں کی حکومت کے پیش نظر، جو خود شیعہ اور شیعی رسومات وآداب کے پابند تھے، بیشک قابل توجہ شیعہ علمی مراکز رہے ہوں گے۔ اگرچہ عراق سے ان کی نزدیکی اور بغداد میں اور اس کے بعد شیخ طوسی کے زمانے میں نجف میں اس دیار کے فقہا اور محدثین کی موجودگی کے پیش نظر انہیں بڑے علمی مراکز میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔
شیخ مفید کے زمانے پر جاکر ختم ہونے والے دور میں شیعہ علمی مراکز کی یہ اجمالی صورتحال ہے۔ بغداد کا علمی مرکز بھی اسی دور میں قائم اور علوم و معارف اسلامی کے تبادلے میں سرگرم ہوا۔ لیکن شیخ مفید کے سامنے آنے اور ان کی علمی شہرت کے پھیلنے کے بعد بغداد جو سیاسی اور جغرافیائی لحاظ سے اسلامی قلمرو کا مرکز تھا، شیعہ علوم و معارف کے اہم ترین مرکز میں تبدیل ہوگیا اور شیعہ دینی و فکری مسائل کے حل کا مرکز ہی نہیں بلکہ طالبان علم کا کعبہ آرزو بن گیا ۔
اگرچہ شیخ مفید کے شاگردوں کی جن کی تعداد فطری طور پر بہت رہی ہوگی، کوئی جامع فہرست نہیں ہے اور ان لوگوں کی تعداد جن کا نام کتابوں اور تراجم میں ان کے شاگردوں کے عنوان سے لیا گیا ہے، اس سے بہت کم ہے کہ جس تعداد میں شیخ مفید جیسی ہستی نے جو تقریبا نصف صدی تک شیعہ علمی مرکز کے سربراہ رہے ہیں، علماء تیار کئے ہوں گے، لیکن شیخ طوسی جیسی نابغہ اور دانشمند ہستی کا طوس سے بغداد جانا اور اپنی جائے پیدائش کے نزدیک کے علاقوں یعنی خراسان اور ماوراءالنہر کے علمی مراکز کی طرف مائل نہ ہونا، قم اور ری میں نہ رکنا اور مذکورہ علمی مراکز کی شخصیات کا ایک طویل عرصے تک معروف نہ ہونا، یہ سب اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ بغداد کا علمی مرکز شیخ مفید کی شہرت کے سبب اس مقام تک پہنچ گیا تھا کہ ہمیں یاد نہیں ہے کہ کوئی علمی مرکز اس سے پہلے اس مقام تک پہنچا ہو۔ اس علمی مرکز نے شیعہ علمی مراکز میں رائج تمام علوم کو جمع کرکے، دنیا کے دیگر علمی مراکز کی رونق ختم کردی اور نجف اشرف کے مبارک حوزہ علمیہ کے ( 448یا 449 میں ) وجود میں آنے تک ، شیعہ علمی مراکز کا درۃ التاج شمار ہوتاتھا۔
بیشک اس علمی مرکز کے عروج اور درخشندگی کا محور شیخ مفید علیہ الرحمہ تھے۔ انہوں نے اپنی غیر معمولی ذہانت و استعداد، انتھک محنت، بغداد کی اسلامی دنیا کے سیاسی و جغرافیائی مرکز کی حیثیت اور مختلف مذاہب کی علمی شخصیات کی آمد و رفت سے فائدہ اٹھاکر اس علمی مرکز میں بے نظیر جامعیت پیدا کردی تھی اور پھر اپنے زمانے میں بغداد کے شیعہ علمی مرکز کو ممتاز بنانے والے عنصر، کشش محور اور قطب کی حیثیت اختیار کرلی۔ شیخ مفید کے علمی آثار پر ایک نظر ڈالنے اور دیگر قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے تک ممتاز شیعہ علمی شخصیات کی جو خصوصیات مشہور تھیں وہ سب شیخ مفید میں حیرت انگیز طور پر یکجا مجتمع ہوگئی تھیں۔ فقہ میں ان کے اندر قدیمین، ابن بابویہ اور جعفر بن قولویہ کی صلاحیت، کلام میں ہبن ابن قبہ اور بنی نوبخت کی استعداد، علم رجال میں کشی اور برقی کا علم ، حدیث میں شیخ صدوق، صفار اور کلینی کی مہارت کے ساتھ ہی فکری مجادلے اور بحث و مباحثے کی بے نظیر لیاقت اور بہت سی دیگر نمایاں خصوصیات جمع تھیں۔ ان میں سے ہر ایک یقینا راہ علوم اہلبیت کی مشعل ہے لیکن شیخ مفید کی ذات میں ان سب کی صفات و استعداد مجمتمع تھیں ۔ یہ وہ چیز ہے جو ان سے پہلے کسی بھی شیعہ علمی ہستی میں نہیں ملتی ۔ ان کے یکتا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ ابن ندیم ( م380) کے مطابق وہ چوالیس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ( 13) فقہ کلام اور حدیث میں سب سے ممتاز شیعہ شخصیت بن چکے تھے اور ذہبی، جس نے تاریخ اسلام میں انصاف سے دور اور کینہ آلود لہجے میں ان کے بارے میں لکھا ہے، اس کے باوجود، ان کے بارے میں ابن ابی طے سے نقل کرتا ہے کہ وہ تمام علوم میں یکتا تھے۔ اصول، فقہ، علم رجال، قرآن و تفسیر، نحو، نظم، ان تمام علوم میں وہ سب سے برتر تھے اور ہر عقیدے کے پیرو سے مناظرہ کرتے تھے۔(14)
جی ہاں مفید وہ ہستی ہے کہ جس میں اسلاف کے تمام علوم اپنے تکامل کے ساتھ مجتمع ہوگئے تھے۔ اس جامع اور ہمہ گیر شخصیت کی برکت سے اس شیعہ علمی مرکز کا قیام عمل میں آیا جو ان کے بعد صدیوں باقی رہا۔ جہاں فقہ، کلام، اصول، ادب، حدیث اور علم رجال ایک ساتھ اور ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے علوم کی حیثیت سے پڑھائے جاتے تھے اور ان پر تحقیق ہوتی تھی۔ یہی علمی مرکز ہے کہ جس نے منتہائے عروج میں سید مرتضی اور اوج کمال میں شیخ الطائفہ محمد بن الحسن الطوسی جیسی ہستیاں دیں۔
کم سے کم شہید اول کے دور تک، یعنی اس زمانے تک کہ جب علمی مراکز کو فقہ اور ان علوم سے مخصوص کرنے کا رجحان غالب ہوا ہے جو فقہ کے مقدمات میں شمار ہوتے ہیں، یہی انداز تمام یا اکثر علمی مراکز اور یہاں سے نکلنے والوں میں نظرآتا ہے اور یہ اسی تحریک کا تسلسل ہے کہ جس نے چار سو تیرہ تک شیخ مفید کی شخصیت اور ان کے قائم کردہ بغداد کے علمی مرکز سے سرچشمہ حاصل کیا ہے۔
بنابریں اگر یہ کہا جائے تو تعجب کا مقام نہیں ہے کہ اس یکتا و ممتاز ہستی نے ان تین محوروں کا راستہ کھولا ہے جن کے عناوین ترتیب سے بیان کئے جا رہے ہیں۔
اب مناسب ہوگا کہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کی علمی شخصیت کے ان تینوں پہلوؤں کا جائزہ لیں ۔
مکتب اہلبیت ( علیہم السلام ) کے علیحدہ تشخص کا استحکام
غیبت کے آغاز بالخصوص غیبت صغرا کے چوہتر سالہ دور کے خاتمے اور امام غائب (ارواحنا فداہ ) سے شیعوں کے رابطے کے مکمل منقطع ہونے کے بعد مکتب اہلبیت کو ایک خطرہ یہ لاحق تھا کہ اس مکتب سے منسوب لوگوں کی عمدی یا غیر عمدی غلطی اور انحراف، اس میں سے کچھ چیزیں کم کردے یا بڑھا دے یا مکتب کی اصولی حدود کم اہمیت ہوجائیں، انحرافی جہتیں اس میں شامل ہوجائیں اور اعتقادی مسالک اور جعلی مذاہب کی انحرافی باتیں اس کے حقائق کے ساتھ مخلوط جائيں۔ امام علیہ السلام کی غیبت شروع ہونے سے پہلے جب ایسی کوئی بات آتی یا اس کا خطرہ پیش کیا جاتا تو خود امام کی ذات گرامی وہ قابل اعتماد محور و مرکز تھی کہ ہر بات آپ کی ذات گرامی کے ذریعے پرکھ لی جاتی تھی اور اس کے بارے میں فیصلہ کر لیا جاتا تھا۔ بنابریں جب تک امام لوگوں کے درمیان تھے غلطی زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتی تھی اور یہ معصوم پیشوا اہم مواقع پر اہم خطاؤں کو بیان فرما دیا کرتا تھا۔ شیعوں کو اطمینان تھا کہ اگر مسلک کی بنیادی جہت میں کہیں سے انحراف آیا تو حجت آشکارا ہوگی اور جو حقیقت جاننا چاہتا ہے جان ہی لے گا۔ آئمہ علیہم السلام کی زندگی کی تاریخ میں ایسے لوگوں کے نام ملتے ہیں کہ جن پر، بدعت شروع کرنے، یا غلط راستے کی بنا رکھنے اور باطل عقیدے کی ترویج کی وجہ سے آئمہ علیہم السلام نے صراحت کے ساتھ اعتراض کیا ہے اور انہیں مسترد کیا ہے۔ جیسے محمد بن مفلاص المعروف بہ ابی خطاب یا ابن ابی العزافر معروف بہ شلمغانی ( یہ واقعہ غیبت صغری کے دور میں رونما ہوا) اور ان کے جیسے بہت سے لوگ ہیں۔ حتی ایسے واقعات کا ذکر بھی ملتا ہے کہ سچے اور مخلص اصحاب کے دو گروہوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں، اگر ان میں سے کوئی گروہ، کسی فرد یا گروہ کو کسی عقیدے کی وجہ سے بلا وجہ مسترد اور لعن طعن کرتا تھا تو امام علیہ السلام مطعون فرد یا گروہ کا دفاع کرتے تھے اور اس کی تعریف کرتے تھے اور اس طرح صحیح عقیدے کی تائید فرمایا کرتے تھے یا اس انحراف کو جس کا گمان کرتے تھے مسترد فرماتے تھے۔ جیسے جب قمیین نے یونس بن عبدالرحمن کو مسترد کیا تو امام علیہ السلام نے ان کی تائید فرمائی اور ان کے لئے رحمت اللہ کان عبدا صالحا ۔۔۔ یا ان یونس اول من یجیب علیا اذا دعا ( رجال کشی ، شرح حال یونس بن عبدالرحمن ، سے رجو ع کریں) اور جب طالبان علوم اہلبیت نے خاندان بنی فضال سے رجوع کیا تو امام علیہ السلام نے یہ عبارت خذوا ما رووا و ذروا ما دروا صادر کرکے، شیعوں میں ان کے انحرافی (فطحی ) عقیدے کے نفوذ کی روک تھام کی۔ اصحاب سے آئمہ کے روابط کی تاریخ میں اس طرح کے واقعات بہت ہیں ۔
بنابریں امام علیہ السلام اپنے ظہور کے زمانے میں ہمیشہ بیدار اور ہوشیار نگہبان ہیں اور اس مکتب کی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری بذات خود سنبھالتے ہیں۔
مگر غیبت کے دور میں بالخصوص غیبت کبری کے زمانے میں صورتحال بالکل مختلف ہے ۔اس دور میں روز افزوں ضروریات ہیں جنہیں اب امام علیہ السلام کے ذریعے نہیں بلکہ علمائے دین کے ذریعے پوراہونا ہے اور دوسری طرف علمائے دین کے درمیان فطری اختلاف کے سبب جن کو دور کرنے کا کوئی واضح اور ٹھوس محور بھی نہیں ہے، اصول و فروع دین میں مختلف افکار و نظریات اور مختلف نتائج کے حصول کے لئے راستہ کھلا ہوا ہے اور پیش کئے جانے والے گوناگوں نظریات میں فطری طور پر انحرافی مکاتب اور غیر امامی شیعی مذاہب ( زیدی ، اسماعیلی، فطحی ۔۔۔) کی کچھ باتیں مکتب اہلبیت (علیہم السلام) میں داخل ہو جاتی ہیں جو اس کے خالص اور یقینی ہونے کے لئے خطرہ ہیں حتی ممکن ہے کہ طویل عرصے میں مکتب کی جہت بالکل تبدیل کر دیں۔
اس منزل میں، اس زمانے میں رہبران امت کا اہم ترین فریضہ سامنے آتا ہے۔ وہ فریضہ کی جس کی صحیح انجام دہی مذہب کی حفاظت اور فیصلہ کن جہاد کے مترادف ہے اور وہ فریضہ یہ ہے کہ ایک فکری اور عملی نظام کی مانند تشیع کی سرحدوں کا تعین کیا جائے اور آئمہ علیہم السلام کے کلام سے استفادہ کرکے، اس کے لئے، عقیدتی اور عملی لحاظ سے حدبندی کی جائے۔ اس طرح مذہب اہلبیت علیہم السلام کا الگ تشخص معین ہوگا اور پیروان مکتب اہلبیت علیہم السلام اس کو سمجھ کے اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ یہ کام شیعہ علماء و مفکرین کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ فقہ و اصول میں، اصولی انحراف یعنی مبانی مذہب کے دائرے سے نکل جانے کو مکتب کے اندر کے داخلی اختلافات سے الگ کر سکیں۔
بیشک یہ کام شیخ مفید سے پہلے تک انجام نہیں پایا تھا۔ فقہ ابن جنید میں قیاسی رجحانات اور خاندان نوبخت کے کلام میں معتزلی رجحانات کا وجود، اس دعوے کی بہترین دلیل ہے۔ اصول اور فروع دین میں مکتب تشیع کی حدبندی نہ ہونے کے نتائج کے یہ صرف دو نمونے ہیں۔ فقہ میں استنباط کے اصولی و عقلی مبانی اور اصل پر فرع کی تفریع سے جو آئمہ علیہم السلام کی مسلمہ تعلیمات میں سے ہے، استفادہ نہ کرنا، یا دوسری طرف وادی قیاس میں لڑکھڑا جانا، مکتب سے انحراف کی دو جہتیں اور اس کی سرحدوں کا تعین اور واضح حد بندی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ کلام میں، مذہب کی حدود کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے آنے والے انحراف کا مظہر کلام تشیع کا کلام معتزلی سے خلط ملط ہو جانا ہے۔ آخر الذکر مسئلے ( کلام ) میں مذہب کی حد بندی نہ ہونے کے نتائج زیادہ نقصاندہ رہے ہیں ۔ان میں سے مندرجہ ذیل پر توجہ دی جائے ۔
معروف اور بڑے متکلمین جیسے خاندان نوبخت علم کلام کے بہت سے مسائل میں، معتزلی رجحانات میں گرفتار ہوگئے اور معتزلہ کی طرح کلامی مباحث میں حد سے زیادہ عقل پر انحصار کیا۔
بڑی شیعہ شخصیات کے معتزلی ہونے کا دعوا کیا گیا اور معتزلی مصنفین نے انہیں اپنے میں شمار کیا۔ اس طرح کے افراد کا ایک نمونہ، معروف شیعہ متکلم اور دانشور حسن بن موسی النوبختی ہیں۔ ان کا معاصر اور بھانجا، ابوسہیل اسماعیل بن علی النوبختی نوبختیوں کی ممتاز شخصیت ہے ۔(15)
یہ سمجھا گیا کہ تشیع اور معتزلی افکار ایک شخص میں جمع ہوسکتے ہیں۔ بڑی اور معروف ہستیوں کو شیعہ اور معتزلی دونوں سمجھا گیا۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے خود بھی اس دعوے کو قبول کیا، اس کا اعادہ کیا اور اس پر یقین کیا ہے۔ اس کی ایک مثال صاح بن عباد ہیں جو ایک قطعہ میں کہتے ہیں کہ
لو شق قلبی لیری وسطہ سطران قد خطا بلاکاتب
العدل والتوحید فی جانب وحب اہل بیت فی جانب (16)
یا؛ فقلت : انی شیعی ومعتزلی ۔۔۔
اور یہ ایسے عالم میں ہے کہ شیعوں کا اہلبیت علیہم السلام کی امامت کا مخصوص عقیدہ ، ایسا ہے جس کو کوئی معتزلی قبول نہیں کرتا اورم عتزلیوں کا اصول المنزلۃ بین المنزلتین کا عقیدہ شیعہ مسلمات کے منافی اور اس سے متصادم ہے۔
بعض شیعہ علماء نے معتزلیوں کے اصول خمسہ میں سے ایک کو قبول کیا ہے بغیر اس کے کہ وہ خود کو یا دوسرے انہیں معتزلی سمجھیں۔ مثلا نجاشی محمد بن بشر الحمدونی کے بارے میں لکھتاہے؛ وہ خوش عقیدہ تھے اور وعید کے قائل تھے (381)
مجموعی طور پر شیعہ کلام کو معتزلہ سے ماخوذ سمجھا گیا اور خاص طور پر دو اصولوں توحید اور عدل کو اس دعوے کے ساتھ کہ معتزلی مکتب سے تشیع میں آئے ہیں، اس دعوے کی دلیل قرار دیا گياہے۔ ملل و نحل لکھنے والوں، قدما ء سے لیکر متاخرین کے دورتک کے غیر شیعہ متکلمین اور ان لوگوں کی تحریروں میں جنہوں نے معلومات جمع کرنے میں غیر شیعہ کتابوں پر انحصار کیا ہے، جیسے مستشرقین، بارہا اور بارہا اس بات کی تکرار کی گئی ہے۔ حتی خود شیخ مفید کے زمانے میں اہل صاغان حنفی معتزلی فقیہ و متکلم نے، جس کو شیخ مفید نے المسائل ساقانیہ میں شیخ گمراہ کے نام سے یاد کیا ہے، خود شیخ مفید کے بارے میں یہ غلط گمان کیا اور ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے بغداد کے ایک شیخ نے، جس نے اپنی باتیں معتزلہ سے لی ہیں، ایسا اور ایسا کہا ہے۔ (المسائل ساقانیہ ص 41) البتہ شیعہ مصنفین اور محققین ان کو چھوڑ کر کہ جنہوں نے مستشرقین کی طرح غیر شیعی ماخذوں یا خود مستشرقین سے استفادہ کیا ہے، اس غلطی سے محفوظ رہے ہیں اور یہ شیخ مفید اور اس عظیم کارنامے کی برکات میں سے ہے جو انہوں نے انجام دیا ہے ۔ (17)
جو کچھ کہا گیا اس کے پیش نظر اس کام کی اہمیت زیادہ آشکارا ہو جاتی ہے جو شیخ مفید نے مکتب اہلبیت کی حد بندی کے عنوان سے انجام دیا ہے۔ اس عظیم دانشور نے وقت کے تقاضے کا احساس اور اپنی علمی صلاحیت پر بھروسہ کرتے ہوئے، اس دشوارگزار میدان میں قدم رکھا اور انتہائی اہم، حساس اور بے نظیر کام کا آغاز کیا اورانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اعتراف کیا جائے کہ اس عظیم کام میں کامیاب رہے ہیں۔ دعوا یہ نہیں ہے کہ شیخ مفید کے اس کام کے بعد کوئی تشیع کے مفاہیم کو سمجھنے میں جہالت و گمراہی کا شکار نہیں ہوا یا نہیں ہوسکتا تھا بلکہ دعوا یہ ہے کہ ان لوگوں کے لئے اس مکتب کو سمجھنا اور اس کی حدود کو پہچاننا ممکن ہوگیا جو یہ چاہتے ہوں اور فقہ وکلام میں مکتب اہلبیت، کسی دوسری شاخ سے مشتبہ ہوئے بغیر، اپنی مخصوص علامات و خصوصیات کے ساتھ، ہمیشہ محققین کی فہم و شناخت کے سامنے موجود ہے۔
مفید نے اس ہدف کے لئے جو علمی کام کئے ہیں ان میں سے ہر ایک الگ سے تحقیق کا متقاضی ہے۔ میں دومیدانوں، فقہ و کلام میں، ان کے کاموں کی فہرست پر اکتفا کروں گا۔
فقہ میں انہوں نے کتاب مقنعہ لکھی جس میں پوری فقہ موجود ہے اور اس میں انہوں نے فقہی استنباط کا درمیانی راستہ اور صراط مستقیم طے کیا جو ادلہ لفظیہ اور قواعد اصولیہ سے استفادے اور قیاس استحسان اور دیگر غیر معتبر ادلہ سے اجتناب پر مبنی ہے۔ (اس بارے میں بعد کی بحث میں کچھ باتیں کہوں گا)
اس کے علاوہ کتاب التذکرہ باصول الفقہ لکھی اور اس میں، کتاب کے وجود اور اس کی تحریروں کی بنیاد پر کہا جاسکتاہے کہ پہلی بار فقہی استنباط کے قواعد جمع کئے اور ان کی اساس پر فتوا دیا۔ (اس کتاب کے بارے میں بھی بعد کی بحث میں گفتگو ہوگی) اور ان سب سے بڑھ کر کتاب الاعلام تحریر کی اور اس میں وہ باتیں جمع کیں جن کے بارے میں شیعہ فقہا کا فتوا متفق علیہ ہے اور اہلسنت فقہا کے درمیان عدم فتوا متفق علیہ ہے۔ یعنی کسی بھی اہلسنت فقیہ نے اس کا فتوا نہیں دیا ہے۔ اس کتاب کے ابواب فقہ میں سے کچھ میں نقل اجماع کے بارے میں بحث و تحقیق کی گئی ہے۔ فقہ امامیہ اور فقہ حنفی کے درمیان حدود کے تعین کے لئے کتاب المسائل الساقانیہ بھی بہت اہم کتاب ہے جو چند شیعہ فقہی مسائل پر ایک حنفی فقیہ کے اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی ہے۔
اس درمیان شیخ مفید کا ایک کارنامہ کتاب النقض علی ابن الجنید ہے جس کا عنوان مکتب اہلبیت (علیہم السلام) کی فقہی حدود اور سرحدوں کی مستحکم نگہبانی کی عکاسی کرتا ہے۔ البتہ اس کتاب کے مضامین کے بارے میں کوئی فیصلہ، کتاب کے دسترس میں نہ ہونے کے باعث ممکن نہیں ہے۔ مگر مفید کے کام کی روش، مذہبی بحث میں ان کے قوی دلائل ، دینی منابع کے بارے میں ان کی وسیع معلومات، عقلی استدلال کے مقدمات ترتیب دینے میں ان کا فکری استحکام اور ابن جنید کے قیاسی رجحان کے مقابل ان کا ٹھوس موقف، جس کا نمونہ المسائل الساقانیہ میں دیکھا جاسکتا ہے، (18) ان سب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مذکورہ کتاب عالمانہ اور قانع کنندہ مضامین پر مشتمل ہوگی اور بیشک شیخ مفید کے بعد شیعہ فقہا میں اس رجحان کے جاری نہ رہنے میں بہت مفید اور موثر واقع ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں یعنی مکتب اہل تشیع کے علیحدہ تشخص کے استحکام میں شیخ مفید کا سب سے اہم اور وسیع تر کام، علم کلام کے میدان میں انجام پایا ہے۔ اس میدان میں شیخ مفید نے شیعہ عقائد اور دیگر کلامی شاخوں کے درمیان سرحد کے تعین میں پوری دقت نظر سے کام لیا ہے اور دیگر اسلامی یا شیعہ فرقوں کے اعتقادی عناصر کے عقائد امامیہ کی حدود میں داخل ہونے اور غلط افکار کو جن سے شیعہ مبرا ہیں ، مکتب تشیع سے منسوب کئے جانے کی روک تھام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی بناء پر ہے کہ اگر چہ وہ دیگر مذاہب سے بحث میں، اپنے دور کے تمام مکاتب فکر کو بحث کی دعوت دیتے ہیں اور اشعری، معتزلی، مرجئی، خارجی، مشبہ، اہل حدیث، غالی، ناصبی اور اسلام سے منسوب دیگر چھوٹے بڑے فرقوں سے بحث کرتے نظر آتے ہیں مگر اس درمیان معتزلہ اور اس کے معروف فرقوں سے ان کا فکری تصادم زیادہ نظر آتا ہے اور متعدد چھوٹے بڑے رسائل اور کتابوں میں، مختلف مباحث میں معتزلہ کے نظریات پر زیادہ تنیقید کرتے ہیں اور انہیں مسترد کرتے ہیں۔ اس کا راز یہ ہے کہ مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان چونکہ معتزلہ کے بعض اصول شیعہ مکتب کے اصولوں سے مشابہ ہیں، اس لئے یہ شبہہ پیدا کیا گیا کہ ان کا مکتب بہت سے شیعہ عقائد کی بنیاد اور سرچشمہ ہے یا حتی اس سے بڑھ کر یہ دعوا کیا گیا کہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ اعتزال ہی تشیع ہے اور اس سے یہ غلط گمان پیدا ہو گیا کہ شیعہ کلام، معتزلی کلام سے ماخوذ ہے یا شیعی کلام کے اصول، وہی معتزلی کلام کے اصول ہیں اور جیسا کہ اس سے پہلے کہا گیا اس غلط فہمی کے کچھ نتائج بھی بر آمد ہوئے ہیں۔
شیخ مفید کی کتابوں میں معتزلہ کے عقائد کا بیان مکتب تشیع کی نگہبانی اور اس مکتب کے کلامی نظام کی اصالت اور استقلال کے اثبات کا ثبوت ہے۔
اس بارے میں شیخ کی اہم ترین کتاب اوایل المقالات فی المذاہب والمختارات
ہے جو معتزلہ اور شیعہ مذہب کے فرق کو بیان کرنے کے لئے لکھی گئی ہے۔ خود انہوں نے کتاب کے مقدمے میں جو لکھا ہے اس کے مطابق حتی متفقہ اصولی مسائل میں بھی ان دونوں فرقوں کے درمیان اختلاف جیسے عدل کے مسئلے میں دونوں کے اختلاف پر توجہ دی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔(19)
اس مختصر مقدمے میں شیخ مفید کی عبارت سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ اس کتاب کی تالیف سے شیخ مفید کا مقصد، ان لوگوں کے لئے ایک قابل اطمینان ع‍قیدتی مرجع اور اصول فراہم کرنا ہے جو اس مکتب کے فکری مبانی پر تفصیلی ایمان رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کتاب میں حتی ان شیعہ دانشوروں کے عقائد پر بھی تنقید کرتے ہیں جنہوں نے معتزلہ کے بعض نظریات اخذ کرکے کلام تشیع کو خالص نہیں رہنے دیا تھا اور اس بارے میں نوبخت کے نام کا ذکر کرکے ان پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ وہی مکتب تشیع کے فکری نظام کی نگہبانی اور دفاع ہے جس کا پرچم پہلی بار، جیسا کہ تفصیل سے ہمیں معلوم ہے، شیخ مفید نے اٹھایا ہے ۔
البتہ تشیع اور معتزلہ کے درمیان عقیدتی سرحدوں کا تعین، کتاب اوایل المقالات تک محدود نہیں ہے اور شیخ نے اپنی دوسری کتابوں میں بھی، گوناگوں بیانات کے ذریعے اور کبھی طرز بیان کا انتخاب کرکے بہت خوبصورت اور موثر انداز میں یہ مہم انجام دی ہے۔ مگر اوایل میں یہ خصوصیت مکمل اور ہمہ گیر انداز میں نظر آتی ہے۔ اس کتاب میں وہ جگہیں بھی آتی ہیں جہاں معتزلہ اور اہل تشیع کے درمیان اشتراک عقیدہ پایاجاتا ہے۔ وہ ان جگہوں پر انداز بیان ایسا اختیار کرتے ہیں کہ اس عقیدے میں مکتب اہلبیت کا موقف آشکارا ہو جاتا ہے اور معتزلہ کی پیروی کا گمان ختم ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر رویت خدا کی نفی کے سلسلے میں کہتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ ان آنکھوں سے خدائے سبحان کو دیکھنا ممکن نہیں ہے اور اس بات کی عقل گواہی دیتی ہے، قرآن اس پر گویا ہے اور روایات ائمہ اس بارے میں متواتر ہیں اور جمہور اہل امامت اور ان کے متکلمین اس پر متفق ہیں الا ایک کے جو اس مسئلے میں سیدھے راستے سے ہٹ گیا ہے، کیونکہ تاویل روایات میں وہ شبہے میں گرفتار ہوگیا ہے اور معتزلہ سبھی اس مسئلے میں اہل امامت سے متفق ہیں اور مرجئیہ اور بہت سے خوارج اور زیدیہ اور اہل حدیث کے بہت سے گروہ بھی ( ص 162اوایل المقالات)
اس مسئلے میں اس کے علاوہ کہ عقلی دلیل بھی اس پر دلالت کرتی ہے ، شیعہ اپنے معتبر ادلہ یعنی کتاب اور سنت متواترہ پر انحصار کرتے ہیں۔ بنابریں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ اس بات کو معتزلہ یا کسی دوسرے سے اخذ کریں، بلکہ یہ معتزلہ ہیں جنہوں نے اس مسئلے میں اہل امامت سے اتفاق کیا ہے۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ اس مسئلے میں معتزلہ نے شیعہ مکتب سے قرض لیا ہے۔
اس کے بعد چیزوں کے وجود میں آنے سے پہلے ان کے بارے میں علم خدائے تعالی کے بارے میں اس طرح کہتے ہیں میں کہتا ہوں کہ خدائے تعالی ہر اس چیز کا جو وجود پاتی ہے، اس کے وجود پانے سے پہلے عالم ہے اور کوئی واقعہ نہیں ہے الا یہ کہ اس کے وقوع سے پہلے اس کا عالم ہے اور کوئی معلوم یا وہ چیز جو معلوم ہوسکتی ہے، نہیں ہے الا یہ کہ وہ اس کی حقیقت کا عالم ہے اور اس سبحانہ تعالی سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پنہاں نہیں ہے اور اس بات پر عقلی دلائل، کتاب مسطور اور آل رسول کی روایات متواتر دلالت کرتی ہیں اور یہ تمام امامیہ مکتب کا مذہب ہے اور جو معتزلہ نے ہشام بن الحکم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس کے خلاف کہا ہے۔ ہمیں اس کی خبر نہیں ہے اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ نقل ان پر ان کی جانب سے تہمت ہے اور ان لوگوں کی غلطی ہے جنہوں نے اس نقل میں ان کی تقلید کی ہے اور اس کو شیعوں سے منسوب کیا ہے ۔۔۔ اور اس عقیدے میں توحید سے منسوب سبھی ہمارے ساتھ ہیں الا مجیرہ کے جہم بن صفوان اور معتزلہ کے ہشام بن عمرو الفوطی کے ( ص 60-61) یہاں بھی انداز گفتگو اور حدیث متواتر، قران اور عقل سے استناد اس طرح ہے کہ منشاء استناد میں تشیع کی ممتاز حیثیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ اگرچہ معتزلہ نے بھی دوسرے فرقوں کی طرح اس کو قبول کیا ہے۔
بعض مسائل میں، شیعہ اور معتزلہ، کسی معروف مسئلے کے ایک حصے میں ایک دوسرے کے موافق ہیں۔ مفید ان مسائل میں معتزلہ یا دوسرے فرقوں سے شیعوں کے فرق کا نقطہ بیان کرتے ہیں تاکہ عنوان مسئلہ میں اتفاق اس کے جوانب میں اشتباہ کا موجب نہ ہو۔ مثلا شیعہ اور معتزلہ دونوں لطف اور اصلح کے قائل ہیں مگر مفید لطف کے بیان میں اس لئے کہ مسئلے کو سمجھنے میں غلطی نہ ہو اور شیعہ اس مسئلے میں معتزلہ کے اشتباہ میں گرفتار نہ ہوں، اصلح کے بیان کے فورا بعد کہتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ وہ لطف جس کو اصحاب لطف لازم شمار کرتے تھے، صرف خدا کے جود و کرم کے سبب لازم ہے نہ اس طرح جو انہوں ( معتزلہ اور دوسروں) نے سمجھا ہے کہ عدل اس لطف کو ( خدا پر ) واجب کرتا ہے کہ اگر نہ کرے تو ظلم کرے گا (ص65)
حتی بعض مسائل میں جن میں کچھ شیعہ متکلمین معتزلہ سے متفق ہوگئے ہیں، اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ان کا نام لے کر یا اشارتا ذکر کریں تاکہ ان کم لوگوں کا نظریہ شیعہ عقیدہ اور مکتب اہل تشیع میں نہ شمار کیا جائے۔
مثال کے طور پر، عصمت کے مسئلے میں، امامیہ نقطہ نگاہ سے، گناہان صغیرہ حتی سہو و نسیان سے بھی آئمہ علیہم السلام کی عصمت کے بیان کے بعد کہتے ہیں تمام امامیہ کا مذہب یہ ہے الا اس کے جوان کے جو سیدھے راستے سے ہٹ گیا ہے اور اپنے عقیدے کے لئے بعض روایات کے ظواہر سے تمسک کیا ہے جن کا باطن اور تاویل اس کی فاسد رائے کے برعکس ہے اور معتزلہ سب، اس مسئلے میں مخالف ہیں اور آئمہ کے لئے، گناہان کبیرہ حتی ارتداد کو بھی ممکن شمار کرتے ہیں۔ (ص 74) گویا شیخ مفید کا اشارہ شیخ صدوق رحمت اللہ علیہ کی جانب ہے ۔
ان مثالوں میں اور پوری کتاب اوایل المقالات میں شیخ مفید کا نمایاں کردار مکتب کی حدود معین کرنے والے اور ہوشیار اور غفلت سے دور نگہبان کا ہے جس کی پوری کوشش یہ ہے کہ شیعہ مکتب کی کلامی اور اعتقادی حدود اس طرح معین کریں کہ کسی بھی دوسرے فرقے اور مذہب سے قابل اشتباہ نہ رہے۔ یہی ہدف دوسری کتابوں میں بھی مد نظر رہا ہے۔ اگرچہ تقریبا مختلف روشوں کے ساتھ مثلا الحکایات میں جس کا بڑا حصہ مختلف کلامی عناوین کے تحت معتزلہ کے عقائد کے رد پر مشتمل ہے، ایک باب التہام التشبیہ ہے کہ جس میں حکایات کے راوی گویا سید مرتضی ہیں ، کہتے ہیں؛ معتزلہ نے ہمارے اسلاف پر تشبیہ کا الزام لگایا ہے اور امامیہ کے بعض اہل حدیث نے ان کی اس بات کو قبول کرلیا ہے اور دعوا کیا ہے کہ ہم نے نفی تشبیہ کا عقیدہ معتزلہ سے لیا ہے اور پھر شیخ مفید سے درخواست کرتے ہیں کہ ایسی حدیث بیان کریں جو اس تہمت کو باطل کر دے۔
شیخ مفید جواب میں اس الزام کی جڑ اور تاریخچہ بیان کرنے کے بعد تشبیہ کی رد میں اہلبیت علیہم السلام سے منقول بے شمار روایات تحریر کرتے ہیں اور حضرت ابی عبداللہ ( علیہ السلام ) کی ایک حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں یہ ابی عبداللہ (علیہ السلام ) کا کلام ہے، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم نے اسے معتزلہ سے لیا ہو؟ صرف ایک بات رہ جاتی ہے کہ اس بات کا کہنے والا دینداری میں ضعیف ہو۔ ( الحکایات ص 81-79)
یہ جو شیخ مفید اتنی شدت کے ساتھ ، تشبیہ ، جبر اور رویت کے عقائد شیعہ سے ہونے کے الزام کی نفی کرتے ہیں، خود شیخ کی جانب سے مکتب اہلبیت علیہم السلام کے علیحدہ تشخص کے استحکام اور اس کی نگہبانی کا ایک اور مصداق ہے، جو ہماری موجودہ بحث کا عنوان ہے۔
جو کچھ شیخ مفید نے کتاب اوایل المقالات اور دیگر کلامی کتب جیسے تصحیح الاعتقاد والفصول المختارہ وغیرہ میں، اہل تشیع کے عقائد بیان کئے ہیں اور ان عقائد اور دیگر کلامی فرقوں بالخصوص معتزلہ کے عقائد کے درمیان فرق کو واضخ کرنے کے لئے جو باتیں بیان کی ہیں، اس پر توجہ کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی کوشش یہ تھی کہ تشیع کے لئے، ایک شفاف فکری نظام پیش کریں کہ جس کی حدود واضح اور معین ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ اس فکری نظام کا نقطہ امتیاز مسئلہ امامت ہے۔ اس معنی میں کہ کوئی دوسرا فرقہ اس میں شیعوں کا شریک نہیں ہے اور کسی شخص یا جماعت کو شیعہ مذہب سے منسوب کرنے کی بنیاد اس مسئلے پر اعتقاد ہے۔ یہ صحیح ہے کہ شیعہ اپنے بہت سے دیگر اعتقادات میں بھی، عنوان مسئلہ جیسے توحید، عدل اور صفات وغیرہ میں دوسرے فرقوں سے شباہت کے باوجود روح، معنی، بعض فروع اور جزیئات میں کافی اختلافات رکھتے ہیں مگر مسئلہ امامت میں، شیعہ اور دیگر اسلامی فرقوں میں فرق زیادہ آشکارا اور نمایاں ہے۔ لہذا شیخ مفید نے اس کے ساتھ ہی کہ اپنی مفصل کتابوں جیسے اوایل المقالات وغیرہ میں مسئلہ امامت کو افتتاح کلام میں رکھا ہے، امامت کے موضوع پر مختلف ناموں سے متعدد مختصر اور ضخیم رسائل بھی تحریر کئے ہیں۔
یہاں اس نکتے کا ذکر مناسب ہے کہ شیخ مفید کے فکری نظام میں مسئلہ امامت کے نمایاں نقطہ ہونے کا مطلب وہ نہیں ہے جو ایک مستشرق نے سمجھا ہے اور امامت کو اس نے شیخ مفید کے نظام فکری کے محور کے عنوان سے متعارف کرایا ہے۔ شیعہ فکری نظام اور شیخ مفید نیز اس فرقے کے دیگر متکلمین کا محور صانع اور توحید باری تعالی کا مسئلہ ہے۔ اہم مسائل جیسے صفات حق تعالی، معنی اور حضرت حق (عز اسمہ ) کی ذات سے اس کی نسبت، مسئلہ نبوت اور اس کی شاخیں، مسئلہ عدل اور مسئلہ امامت اور فرائض اور قیامت وغیرہ سے مربوط مسائل، سب کے سب اسی مسئلے سے نکلے ہیں اور اسی پر مبنی ہیں۔ افسوس کہ مستشرقین اور جو لوگ اسلامی مفاہیم کا لازمی احاطہ نہیں رکھتے، شیخ مفید جیسی عظیم ہستیوں کی مراد کو سمجھنے میں اس قسم کی غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور ضروری ہے کہ اس قسم کے جلسوں اور مباحث میں ان کی کج فہمیوں کی اصلاح ہو اور حقائق روشن کئے جائیں۔ ایک مغربی محقق جس نے شیخ مفید کے بارے میں کچھ باتیں لکھی ہیں، کبھی لکھتا ہے کہ ان کا کوئی الگ فکری نظام نہیں تھا اور کبھی لکھتا ہے کہ ان کا ایک فکری نظام تھا جو امامت پر استوار تھا۔ جیسا کہ کہا گیا، یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ شیخ مفید کا فکری نظام ان کے متعدد رسائل اور کتابوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس کا محور مسئلہ معرفت کے بعد جو اعتقادی مسائل کا فطری مقدمہ ہے، ذات و صفات باری تعالی کا مسئلہ ہے۔ تمام بنیادی مسائل حسب مراتب اسی سے نکلے ہیں۔ مسئلہ امامت جیسا کہ کہا گیا، اس مکتب کو دوسرے مکاتب فکر سے الگ اور ممتاز کرنے والا نقطہ ہے اور ایسا عقیدہ ہے جس سے اہل تشیع پہچانے جاتے ہیں۔ شاید اس مسئلے کا معتزلہ کے المنزلۃ بین المنزلتین سے قیاس کیا جا سکے جو مکتب معتزلہ کے اصول خمسہ میں پہلا، اہم ترین یا بنیادی ترین مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ توحید و عدل ہے۔ لیکن مسئلہ المنزلۃ بین المنزلتین معتزلہ کا خاص عقیدہ اس کی نمایاں علامت اور اس کے وجود میں آنے کا سرچشمہ ہے۔ کوئی معتزلی ایسا نہیں ہے کہ یہ نام اس پر صادق آئے اور وہ اس کا معتقد نہ ہو۔ شیعہ فکری نظام میں یہ خصوصیت امامت (کے عقیدے) سے تعلق رکھتی ہے ۔
جو کچھ کہا گیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ شیعہ کی نابغہ ہستی، شیخ مفید پہلی شیخصیت ہیں کہ جنہوں نے فقہ اور کلام میں مکتب تشیع کی حد بندی کی اور مرتب کیا۔ علم کلام میں، ایک منظم اور تمام شیعی عقائد پر محیط فکری نظام پیش کیا اور دیگر اسلامی فرقوں، مذاہب اور غیر امامی مکاتب سے اس کے مشتبہ کی روک تھام کی ہے اور علم فقہ میں تعلیمات اہلبیت ( علیہم السلام ) سے ماخوذ اصولوں پر مبنی روش استنباط کے ذریعے فقہ کا پورا دورہ تیار کیا اور غیر معتبر روشوں جیسے قیاس، ناقص اور ابتدائی (روشوں) جیسے اہل حدیث کی روش کا راستہ بند کردیا اور یہ ان تین پہلوؤں میں سے پہلا ہے کہ، مکتب اہلبیت (علیہم السلام ) کی ترقی پذیر علمی تحریک کے بانی کی حیثیت سے شیخ مفید کی شخصیت جن پر استوار ہے ۔
2- شیعہ فقہ کے صحیح علمی قالب کی بنیاد؛

شیعہ مکتب فکر میں کتاب وسنت کے منابع سے حکم شریعت کے استنباط کے معنی میں فقاہت کی تاریخ اور ماضی بہت طولانی ہے۔ ابان بن تغلب سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا یہ کلام اجلس فی مسجد المدینۃ و افت الناس ۔۔۔(20) اور عبد الاعلی کو آپ کی یہ تعلیم کہ یعرف ھذا و اشباھہ من کتاب اللہ عز و جل قال اللہ تعالی ما جعل علیکم فی الدین من حرج ۔۔۔ ( 21) اور اسی قسم کے دیگر بیانات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اصحاب آئمہ ( علیہم السلام) قدیم الایام سے قرآن اور سنت پیغمبر (صل اللہ علیہ والہ وسلم) اور آنحضرت کے اقوال سے استنباط کے مرحلے پر فائز تھے اور فقہ، معرفت احکام کے معنی میں آئمہ علیہم السلام کے شیعوں کے دائرے میں، صرف آئمہ علیہم السلام کی تقلید اور آپ کے اقوال پر عمل کرنے تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ اس میں زیادہ جزئیات اور استدلال کے پیچیدہ تر ہونے پر محیط وسعت آ چکی تھی۔ اس کے باجود فقہائے اصحاب آئمہ ( علیہم السلام ) فقاہت اور فتوے کے سلسلے میں جو کچھ انجام دیتے تھے، اس میں اور اس دور کی فقاہت میں جس کو شیعہ فقہ کی پیشرفت کا دور سمجھا جاتا ہے، یعنی فروع کو اصول کی طرف پلٹانا، کتاب وسنت اور حکم عقلی سے ہزاروں پیچیدہ اور مشکل احکام اور سیکڑوں کلی قاعدوں کا استنباط اور بے شمار فروع کا استخراج کہ جس کے ذریعے غیبت امام معصوم میں مکلفین کے تمام سوالوں کا شریعت سے جواب دیا جاسکے، تمام امور میں حلال و حرام خدا کو تمام جزئیات کے ساتھ بیان کیا جاسکے، فاصلہ بہت گہرا تھا اور اس فاصلے کو تدریجی طورپر فقاہت کی پیشرفت سے پر ہونا تھا۔
بیشک شیخ مفید سے پہلے کے فقہا نے اس راہ میں اہم قدم اٹھائے ہیں مگر شیخ کبیر، اپنی نابغہ فکری قوت سے اس میدان میں بھی ایک پر تغیر تاریخ کا سرآغاز اور روزبروز وسیع تر اور عمیق تر ہونے والی پربار تحریک کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔گویا کئی صدیوں تک منابع فقہ یعنی معصومین سے صادر ہونے والے کلمات کی جمع آوری اور متون و ظواہر روایات کی اساس پر فتاوی صادر کئے جانے کے بعد تاریخ فقہ کے ایک دور میں ضروری تھا کہ اس قیمتی سرمائے اور ذخیرے کو علمی فکر کے قالب میں ڈھالا جائے اور استنباط کی فنی روش ایجاد کی جائے ۔
شیخ مفید سے پہلے شیعہ فقہ میں دو مختلف گروہ تھے ۔ ایک گروہ کی نمائندگی علی بن بابویہ ( 329) کرتے ہیں اور شاید اس کو گروہ قمیین کا نام دیا جاسکتا ہے اور گمان غالب یہ ہے کہ فقہ میں شیخ مفید کے استاد یعنی جعفر بن قولویہ (متوفی 368) کا تعلق اسی گروہ سے ہے۔ اس گروہ میں فقاہت کا مطلب متون روایات کے مطابق فتوا دینا ہے۔ چنانچہ اس گروہ کی فقہی کتب میں ہر فتوا اپنے مضمون میں کسی روایت کی حکایت کرتا ہے بنابریں اگر صاحب فتوا ضروری اعتماد اور امانتداری کا مالک ہو تو وہ فتوا حدیث کی جگہ لے سکتا ہے۔اسی بناء پر شہید (علیہ الرحمہ ) ایک ذکر میں فرماتے ہیں کہ : قد کان الاصحاب یتمسکون بما یجدون فی شرائع الشیخ ابی الحسن بن بابویہ رحمت اللہ عند اعواز النصوص الحسن ظنھم بہ و ان فتواہ کروایتہ (22)
ظاہر ہے کہ اس کیفیت کے ساتھ فقاہت ابتدائی اور فنی و پیچیدہ اسلوب سے عاری ہے اور اس گروہ کی فقہی کتب میں جن فروعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ منصوص، محدود اور بہت کم ہیں اور یہ وہی چيز ہے جس کی وجہ سے مخالفین شیعوں کو فروعات کے کم ہونے کا طعنہ دیتے تھے اور شیخ طوسی رحمت اللہ علیہ نے بعد میں اس طعنے کو دور کرنے کے لئے کتاب المبسوط تالیف فرمائی۔
دوسرا گروہ اس کے بالکل برعکس تھا جو استدلال اور ظن غالب پر بھروسہ کرتا تھا اور یہ سبک سنی فقہ سے ماخوذ تھا اس گروہ کی دو معروف ہستیاں، حسن ابن ابی عقیل العمانی ( متوفی ؟ ) اور ابن جنید الاسکافی ( متوفی احتمالا381) ہیں۔ اگرچہ اس گروہ اور حتی ان دونوں معروف فقیہوں کے بارے میں کافی اطلاعات نہیں ہیں جن سے پتہ چلے کہ استنباط میں اس گروہ کے فقہا کی بنیاد اور نظریہ کیا تھا لیکن شیخ مفید اور دوسروں نے ابن جنید کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس سے مسلمہ نظر آتا ہے کہ وہ قیاس اور رائے کی طرف رجحاں رکھتے تھے اور شیعوں کے معروف اور مقبول طریقے سے دور تھے لیکن عمانی اگرچہ اس رجحان سے منسوب نہیں کئے گئے ہیں بلکہ نجاشی کے کہنے کے مطابق جو کہتے ہیں وسمعت شیخنا ابا عبداللہ یکثر الثناء علی ھذا الرجل رحمت اللہ (23) اور جو انہوں نے اور شیخ نے، دو فہرست میں ان کی کتاب کے بارے میں کہا ہے (24) اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ فقیہ مستقیم اور شاید اس طریقے سے نزدیک تھے جو شیخ مفید نے اختیار کیا ہے ، اس پر چلے ہیں ، اس پر تالیف و تحقیق انجام دی ہے اور اس پر اپنے شاگردوں کی تربیت کی ہے ۔لیکن اس کے باوجود چونکہ ان کی آراء نادر اور متروک شمار ہوتی ہیں اور شاید اسی وجہ سے علامہ اور محقق (رحمت اللہ ) کے بعد کے ادوار کے لئے ان کی کتاب سے اس کے نام کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہا ہے اس لئے گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے بعد کے لئے فقہی تحریک کے اسلاف میں نہیں ہوسکتے اور ان کی فقاہت میں نقص تھا۔ البتہ شک نہیں کرنا چاہئے کہ وہ عالم اقدم تھے جن کے بارے میں بحرالعلوم نے کہا ہے کہ ھواول من ھذب الفقہ واستعمل النظر و فتق البحث عن الاصول والفروع فی ابتداء الغیبت الکبری ( فتاوی العلمین ص 13) اور فقاہت کے صحیح قاعدے اور بنیاد تک شیخ مفید کی دسترسی میں، جس میں پہلا قدم خود ان کے بارے میں شمار کیا جانا چاہئے، موثر رہے ہیں اور ان کے لئے مقدمہ شمار کئے گئے ہیں ۔
جیسا کہ ملاحظہ کیا جا رہا ہے، فقاہت کی دونوں روشیں ایک لحاظ سے ناقص ہیں۔ پہلی روش میں فتوا وہی متن روایت ہے تفریع اور فرع کو اصل پر پلٹائے بغیر اور بحث ومباحثے، تحلیل، استخراج اور اجتہاد کی، اس کے اصطلاحی معنی میں، فقاہت میں کوئی مداخلت اور تاثیر نہیں ہے۔ دوسری روش میں اگرچہ استدلال اور رائے ہے مگر گویا وہ نہیں ہے جو مکتب اہلبیت ( علیہم السلام ) کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہئے۔ یہ روش قیاس کے ساتھ ہے یا ایسے طریقے پر ہے کہ نادر آراء پر منتج ہوتی ہے جو شیعہ مدرسہ فقاہت میں قابل دوام نہیں ہے ۔
شیخ مفید کی فقہ ان دونوں نقائص سے پاک اور دونوں خوبیوں کی حامل ہے؛ امامیہ کے نزدیک معتبر روشوں پر استوار بھی ہے اور اس میں اصطلاحی اجتہاد سے استفادہ بھی ہے اور استدلال و استنباط نظری کی مداخلت بھی ہے۔ بنابریں شیخ وہ ہستی ہیں کہ جس نے شیعوں کے نزدیک معتبر اور مقبول علمی قالب تیار کیا، ماثور ( معصومین سے منقول ) مضامین اور اصول متلقات میں علمی نظم پیدا کیا اور اس کو شیعہ فقاہت کے مرکز میں باقی رکھا۔ یہ وہی چیز ہے کہ ان کے بعد صدیوں تک اور آج تک ، اصولی فقاہت میں جاری ہے اور اس کو رشد و ترقی کی اس منزل تک پہنچایا ہے جہاں آج وہ ہے۔
شیخ مفید کے فقہی کارنامے کی اہمیت سے اجمالی واقفیت کے لئے، اس سلسلے میں انکی تین تصنیفات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
الف ؛ کتاب مقنعہ
ب ؛ شیخ مفید کے مختصر فقہی رسائل
ج ؛ کتاب التذکرہ باصول الفقہ

الف ؛ کتاب مقنعہ ؛
مقنعہ فقہ کا ایک مکمل دورہ ہے۔اس سے پہلے اس خصوصیت کی حامل فقہ کی کوئی کتاب نہیں تھی۔ مقنع شیخ صدوق قطع نظر اس کے کہ علی بن بابویہ کی کتاب کی طرح متون روایات ہے، جامعیت مباحث فقہی کے لحاظ سے بھی، مقنعہ کے پائے کی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کے مباحث زیادہ مختصر اور زیادہ کوتاہ ہیں۔ مفید نے اس کتاب میں اگرچہ اپنے فتووں کے استدلال کا ذکر نہیں کیا ہے جس کی بناء پر ان فتووں کے استدلال کی کیفیت کو سمجھنا آسان نہیں ہے لیکن اطمینان بحش قرینے کی اساس پر کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں ان کے فتوے ، متین فقہی استدلال پر استوار ہیں اور اگرچہ یہ استدلال مکتوب نہیں ہیں کہ آئندہ والے اس سے استفادہ کریں، لیکن اس طرح ہیں کہ ان سے متصل فقہا اور تلامذہ انہیں اپنے کام کے لئے سرمشق قرار دیں اور ان میں اضافہ کریں۔ وہ قرینہ اطمینان بخش شیخ طوسی کی کتاب تہذیب ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، تہذیب شرح مقنعہ اور اس کے فقہی استدلال کے بیان کی کتاب ہے۔ شیخ طوسی ( علیہ الرحمہ) اس کتاب کے مقدمے میں، اس کتاب کو لکھنے کے محرک کے بیان اور اس ذکر کے بعد کہ اسی صدیق سے کہ جس سے انہوں نے تالیف کتاب طلب کی ہے ، وہ بھی چاہا ہے کہ جس مقصود کو پورا کرنے کے لئے شیخ نے ، مفید کی مقنعہ کی جو کافی و شافی اور فضول نیز فالتو باتوں سے پاک ہے، شرح کی ہے، استدلال میں اپنی روش بیان کرتے ہیں جو اختصار کے ساتھ اس طرح ہے ؛ ہر مسئلے میں استدلال، ظاہر یا صریح قران سے یا اس کے مختلف مفہومی دلائل ( جیسے ؛ مفہوم موافقہ ، مفہوم مخالفہ اور دلالت التزامی وغیرہ ) ، اور سنت قطعیہ سے، خبر متواتر یا قرینے کے ہمراہ خبر کے معنی میں، استدلال، اجماع مسلمین یا اجماع امامیہ، اس کے بعد ہر مسئلے میں مشہور احادیث کا ذکر اور پھر دلیل معارض پیش کرنا، ( اگر ہو) دو دلیلوں کے درمیان جمع دلالی اور اگر جمع دلالی ممکن نہ ہو تو سند کی کمزوری یا اس کے مضمون سے اصحاب کے اجتناب کی وجہ سے دلیل مقابل کو رد کر دینا اور جہاں دونوں دلیلیں سند وغیرہ ( جیسے جہت صدور یا اعراض مشہور وغیرہ ) کے لحاظ سے برابر ہوں اور کسی کو کسی پر ترجیح حاصل نہ ہو تو اس روایت کو ترجیح دینا جو شریعت سے استخراج ہونے والے ،اصول و قواعد کلیہ کے موافق ہو، اور اس دلیل کو ترک کرنا جو اصول و قاعدہ کے خلاف ہو اور مسئلے میں کوئی حدیث نہ ہونے کی صورت میں ، مقتضائے اصل پر عمل اور ہمیشہ ترجیح سندی پر جمع دلالی کو ترجیح دینا ، اور جمع دلالی کو شاہد جمع کے مطابق منصوص انجام دینا اور حتی المقدور اس سے انحراف نہ کرنا۔
یہ کتاب مقنعہ کو استدلالی کرنے کی وہ روش ہے کہ جس کا شیخ طوسی ، کتاب تہذیب کے شروع میں ذکر کرتے ہیں۔ اہل فن اچھی طرح جانتے ہیں کہ استدلال کی یہ جامع روش ، فقاہت شیعہ کے تمام ادوار میں جاری رہی ہے اور آج بھی موجود ہے اور فقہی استدلال کا کلی قالب شیخ طوسی کے بعد تمام ادوار میں اور آج تک یہی رہا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا شیخ مفید جو خود کتاب مقنعہ کے مصنف ہیں، اس جامع روش استدلال سے جو فقیہ کو اس کتاب کے تمام فتووں تک پہنچا سکتی ہے، غافل تھے اور بغیر واقفیت کے اس روش استدلال سے ان فتووں تک پہنچے ہیں؟ دوسرے الفاظ میں کیا شیخ طوسی ( رحمت اللہ علیہ ) اس طرز استدلال کے موجد ہیں؟ یا انہوں نے اسے اپنے استاد شیخ مفید سے سیکھا ہے؟ موضوع کے جوانب پر توجہ سے اس سوال کا جواب حاصل ہو جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ شیخ طوسی نے کتاب تہذیب کی تالیف شیخ مفید کی حیات میں یعنی 413 سے پہلے شروع کردی تھی اور یہ مقدمہ اسی وقت لکھا تھا۔ شیخ طوسی 408 میں عراق پہنچتے ہیں جب وہ تیئس سال کے نوجوان تھے۔ انہوں نے شیخ مفید کی خدمت میں اعلا علمی مدارج طے کرنے اور تحقیق کا آغاز کیا اور 413 تک پانچ سال اس عظیم نابغہ ہستی سے استفادہ کیا - بقیہ علمی استفادہ شیخ طوسی نے تیئس سال تک سید مرتضی سے کیا ہے ۔
اس طرح شک باقی نہیں رہتا ہے کہ شیخ طوسی نے وہ اسلوب استدلال فقہی شیخ مفید کے حضور اور خود ان سے سیکھا ہے اور چونکہ اپنے استاد کی روش استدلال سے واقف تھے، لہذا ان کی کتاب کو خود ان کے اصولوں کے مطابق مستدل کرنے میں کامیاب رہے ۔
اس خیال کو اس وقت زیادہ تقویت اور استحکام ملتا ہے جب کتاب اصول میں جس کے بارے میں ہم بعد میں گفتگو کریں گے ، شیخ مفید کے مبانی اصول پر توجہ دی جائے۔ اس کتاب کے مطالعے اور کتاب اور سنت متواتر و محفوف بہ قرینہ یا مرسل مشہور اور عمل اصحاب پر شیخ مفید کے تکیہ کرنے کے مشاہدے اور اصول میں ان کے دیگر نطریات سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ شیخ طوسی نے کتاب تہذیب میں جو اسلوب استدلالی بیان کیا ہے وہ وہی ہے جس کے ان کے استاد معتقد تھے اور اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اپنے شاگردوں کو سکھاتے رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کتاب مقنعہ اگرچہ استدلال کے ساتھ نہیں ہے، مگر جو کچھ کہا گیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ مفید اسی طرز استدلال سے جو ان کے ایک ہزار سال بعد بھی شیعہ فقہی مراکز میں رائج ہے، اس کتاب میں مذکور فتووں تک پہنچے ہیں۔
یہ طرز استدلال وہی جامع اور کامل اسلوب ہے کہ جو ان سے پہلے فقہ شیعہ کے دونوں گروہوں ، یعنی گروہ ابن بابویہ اور گروہ قدیمین میں سے کسی میں بھی رائج نہیں تھا اور شیخ مفید اس کے موجد و بانی ہیں ۔
ب فقہی رسائل
یہ رسائل مختصر ہونے کے باوجود شیخ کی فقہی دانش کی گہرائیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔اگرچہ ان میں بعض جیسے رسالہ المسح علی الرجیلین اور ذبائح اھل الکتاب بحث و مباحثے کے استدلال اور شبہ عقلی پر مشتمل ہے، مگر بعض دیگر واقعی متین، مستحکم اور منظم فقہی اسلوب پر محیط ہیں۔ مثلا رسالہ المہر یا جوابات اھل موصل فی الرویۃ و العدد یا المسائل الساقانیہ ۔ رسالہ رویت و عدد میں جو ماہ رمضان کے تیس روزہ ہونے پر مبنی شیخ صدوق (رحمت اللہ علیہ) اور بعض دیگر قدیم فقہا سے منسوب قول کے رد میں ہے، شیخ مفید نے آیات سے استظہار، الفاظ سے استفادہ، مسلمہ فقہی احکام کے استشہاد، ان روایات کے فقہ الحدیث میں بحث جن سے مخالف نے استدلال کیا ہے، سند میں بحث، احوال رجال کا ذکر اور احادیث سے استنباط کے فہم میں بہت سے نکات جمع کئے ہیں اور ہر ایک سے بہترین اور محکم ترین انداز میں استفادہ کیا ہے۔اس رسالہ میں ان کے قابل توجہ کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ ایک جگہ اس حدیث کے ذکر کے بعد جس سے مخالف نے استدلال کیا ہے، اس کی سند کو کمزور ثابت کرتے ہیں، اس کے بیان کو بھی متین استدلال کے ذریعے ، غیر معقول، امام کے حکمت آمیز بیان سے عاری اور اس کے جعل کا نتیجہ بتاتے ہیں جو عام اور جاہل شخص ہے اور قرائن سے اس کے ارسال سند کا احتمال بھی پیش کرتے ہیں اور یہ آخری نکتہ حدیث میں ان کے تبحر اور مہارت کی نشاندہی کرتا ہے ( مذکورہ رسالہ کے صفحہ تئیس اور اس کے بعد کے صفحات پر حضرت ابی عبد اللہ علیہ السلام سے یعقوب بن شعث کی روایت سے متعلق فصل سے رجوع ہو)
رسالہ المسائل الساقانیہ جس میں آپ دس فقہی مسائل میں، ساغان کے حنفی فقیہ کے اعتراضات کا جواب دیتے ہیں، شیخ عالی مقام کے تبحر اور قوت استدلال کا ایک اور ثبوت ہے۔ یہ رسالہ اگرچہ کلامی ماہیت یعنی غیر شیعہ مخالف سے بحث و مباحثے اور اس کی جانب سے بدعت کے الزام کے رد اور جواب میں خود اس سے اور اس کے امام سے بدعت منسوب کرنے سے تعلق رکھتاہے، لیکن چونکہ پیش کردہ مسائل عموما فقہی ہیں اس لئے ہر صاحب نظر ناظر ان کی قوت استدلال اور ان کے علمی مقام اور مجتہدانہ فقاہت سے اچھی طرح آگاہ ہو جاتا ہے۔
یہ رسالہ اور رسالہ العدد و الرویہ شیخ مفید کی علمی تخلیقی صلاحیت اور اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ ان کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں میں علمی فقاہت کے جو اسلوب نظر آتے ہیں، ان سب کا سرچشمہ وہ اسلوب ہے کہ جس کے بانی اور موجد شیخ مفید شمار ہوتے ہیں۔

ج کتاب التذکرہ باصول الفقہ
یہ شیعہ علمی تحریک کے بانی کی حیثیت سے شیخ مفید کی شخصیت کا تیسرا پہلو ہے۔
یہاں بھی شیخ عالی مقام نے معتزلہ اور ان کی پیروی کرنے والے شیعوں جیسے نوبخت کے عقل پر مطلق انحصار کرنے اور شیخ صدوق کے حدیث پر انحصار کرنے کے درمیان نئی راہ کھولی۔
معتزلہ، اعتزال کے رواج کے زمانے میں یعنی عباسی خلافت کے پہلے دور کے اواخر میں (جو تیسری صدی ہجری کے اواسط پر ختم ہوتا ہے) بیرونی فلسفیانہ افکار (یونانی ، پہلوی اور ہندوستانی وغیرہ) کی عالم اسلام میں آمد اور ان کی کتابوں کے تراجم سے بہت متاثر تھے اور اس زمانے میں اس بیرونی تحریک کو بھی اور معتزلہ کے رجحان کو خلفاء بالخصوص مامون کی پشت پناہی حاصل تھی۔ عقل پر انحصار کی اس انتہا پسندی کے ردعمل میں، اہلسنت اور شیعہ محدثین جیسے شیخ صدوق رحمت اللہ علیہ کے درمیان اہل حدیث کی تحریک شروع ہوئی جو چاہتے تھے کہ اعتقادی اور کلامی معارف کو حدیث سے ہی سمجھیں۔
شیخ مفید کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ثابت کر دیا کہ عقل اکیلے، علم کلام کے تمام مباحث کو سمجھنے سے قاصر ہے مثلا صفات باری جیسے، ارادے، سمع اور بصر وغیرہ کو۔ عقل، وحی کی مدد سے وادی معرفت میں قدم رکھ سکتی ہے اور اکیلے اس وادی میں جو حضرت حق (جل وعلا ) سے مربوط ہے، داخل ہونا، کوہ ضلالت پر قدم رکھنا ہے اور یہ در حقیقت اس روایت کا مفہوم ہے جو انسان کو خدائے متعال کے بارے میں گفتگو کرنے سے منع کرتی ہے۔ بنابریں شیخ مفید کا کام، عقل کو اس کے قلمرو سے جہاں روایت و وحی کارگر نہیں ہے، یعنی اثبات صانع اور وجود باری یا توحید یا نبوت عامہ پر استدلال کی وادی سے محروم کرنا نہیں بلکہ عقل کو ان حدود میں محدود کرنا ہے جو خدائے عقل نے اس کے لئے معین کی ہیں تاکہ گمراہی میں نہ پڑے۔
ایک جگہ اوائل المقالات کی عبارت اس طرح ہے ان استحقاق سبحانہ بھذہ الصفات(اعنی کونہ تعالی سمیعا بصیرا و رائیا و مدرکا) کلھا من جہت السمع دون القیاس و دلائل العقول (31) اور دوسری جگہ اس طرح ہے ان کلام اللہ تعالی محدث وبذلک جائت الاثار عن آل محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ ) ( 32) اور ایک دوسری جگہ اس طرح ہے ان اللہ تعالی مرید من جھت السمع والاتباع والتسلیم علی حسب ما جاء فی القران ولا اوجب ذلک من جھت العقول (33) اور ایک دوسری جگہ مجموعی طور پر اس طرح ہے اتفقت الامامیہ علی ان العقل یحتاج فی علمہ و نتائجہ الی السمع وانہ غیر منفک عن سمع ینبہ العاقل علی کیفیۃ الاستدلال۔۔۔واجتمعت المعتزلہ ۔۔۔ علی خلاف ذلک و زعموا ان العقول تعمل بمجردھا عن السمع والتوقیف ۔۔۔ (34)
مفید کے کلام میں اس طرح کی وضاحتیں بہت ہیں۔ اس کے باوجود روایت کی سندیت کو وہاں قبول کرتے ہیں جہاں برہان عقلی اس کے امتناع پر قائم نہ ہو۔ بنابریں آئمہ ( علیہم السلام ) سے ظہور معجزات کے بارے میں، ان پر سماعی دلیل کے ذکر سے پہلے کہتے ہیں کہ فانہ من الممکن الذی لیس بواجب عقلا ولا ممتنع قیاسا (35) دوسری جگہوں پر بھی اس طرح کی باتوں کا ذکر کیا ہے۔ (36) لیکن تصحیح اعتقادات الامامیہ میں جو اعتقادات شیخ صدوق پر تعلیقات ہیں، مخالف قران حدیث کے رد کا حکم صادر کرنے کے بعد دوسری جگہوں سے زیادہ صراحت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ و کذلک ان وجدنا حدیثا یخالف احکام العقول اطرحناہ، لقضیت العقل بفسادہ (37) اس بیان میں حدیث مخالف حکم عقل کو رد کرنے کے ساتھ ہی، اس کی بنیاد اور اساس بھی حکم عقل کو قرار دیتے ہیں اور اس طرح استدلال عقلی کی حجیت پر تاکید مکرر کرتے ہیں ۔
شیخ مفید کے مکتب میں عقلی استدلال پر اس حد تک اعتماد ہے کہ الالم للمصلحۃ دون العوض کی بحث میں، اپنا منفرد نظریہ بیان کرنے کے بعد جس میں عدلیہ اور مرجئہ میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہے، کم نظیر خود اعتمادی کے ساتھ کہتے ہیں وقد جمعت فیہ بین اصول یختص بی جمعھا دون من وافقنی فی العدل والا رجاء بما کشف لی فی النظر عن صحتہ ولم یوحشنی من خالف فیہ ، اذ بالحجت لی اتم و آنس ولا وحشت من حق والحمد للہ (38) اس بات کے پیش نظر کہ بحث الم اور لطف کی بحثوں میں عموما سمعی ادلہ پر نہیں بلکہ عقلی ادلہ سے استناد کیا ہے ، بنابریں مذکورہ عبارت میں حجت سے مراد وہی استدلال عقلی ہے ۔
شیخ مفید کے مکتب کلامی میں، عنصر سمع کا وارد ہونا اس بات کا موجب ہوا کہ بیانات آئمہ ( علیہم السلام ) کی مدد سے بہت سے دشوار مباحث جن میں حق تک پہنچنا، طولانی راستہ طے کرنے کا متقاضی ہے، شیخ کے کلامی مجموعے میں آ‎سانی کے ساتھ ، جگہ پاجائیں اور شیخ مفید کے بعد شیعہ کلام کو راستے سے منحرف ہونے اور فکری اضطراب سے محفوظ رکھیں ۔
مثال کے طور پر اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ صفات باری کے مسئلے میں، معتزلہ نے کلمات واصل بن عطاء میں نفی صفات اور صفات کے نیابت ذات کی نفی کے نظریئے سے اس معنی میں کہ صفات باری زائد بر ذات نہیں ہیں اور صفات حق تعالی، وجود میں اس کی عین ذات ہیں، توحید تک پہنچنے میں لمبا راستہ طے کیا ہے، درآنحالیکہ کلمات مفید میں یہ مسئلہ سمع یعنی نہج البلاغہ اور آئمہ (علیہم السلام) کی روایات سے ماخوذ ہے۔ حتی ان روایات سے یہ استفادہ بھی ہوتا ہے کہ یہ مباحث آئمہ ( علیہم السلام) کے زمانے میں شیعوں کے درمیان موجود تھے اور ان میں علم اہلبیت کے منبع لایزال سے استفادہ کیا جاتا تھا۔( کافی ج1، ص 107، باب صفات الذات اور توحید صدوق کی مختلف فصول اور نہج البلاغہ سے رجوع کریں )
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ النکت فی مقدمات الاصول جیسے مختصر رسالوں میں حتی صفات باری کے باب میں بھی کہ اوائل المقالات میں سمعی استدلال کو جس کا واحد مرجع بتاتے تھے ، سمعی استدلال کے ساتھ ہی عقلی استدلال کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ مثالا اس عبارت میں:
فان قال ؛ ما الدلیل علی انہ قادر؟ فقل : تعلق الافعال بہ مع تعذرھا فی البدائۃ علی العاجز۔۔ اور پھر ما الذی یدل علی انہ عالم ؟ فقل ؛ مافی افعالہ من الاتقان والتظافر علی الاتساق ، وتعذر ما کان بھذہ الصفہ فی البدائہ علی الجاھل اور اسی طرح سمیع بصیر حکیم و ھکذ ( النکت فی مقدمات الاصول ص 33-34)
اس کو اوائل المقالات میں بیان کئے گئے مبنا سے عدول نہیں کہا جاسکتا۔ پہلے کہا گیا ہے کہ امکان قوی ہے کہ وہ مختصر رسالے جو شیخ مفید نے سوال و جواب کی شکل میں تحریر کئے ہیں، کلامی بحث کے نئے شاگردوں یا دور دراز کے ان شیعوں کے لئے لکھے گئے ہوں گے ، جن کی پہنچ شیخ مفید تک نہیں تھی اور شیخ نے ان رسالوں میں عقلی بحث کے اسلوب کا انتخاب کیا ہے جو ہر مخاطب کے لئے زیادہ قابل استفادہ ہوسکتا ہے۔
اس طرح واضخ ہوتا ہے کہ جمع بین حجت عقلی اور دلیل نقلی، کلام مفید کے اسلوب میں، ان کی ایجاد اور نمایاں کارناموں میں سے ہے۔
مجھے امید ہے کہ اس علمی اجتماع میں ان ابواب اور شیخ مفید کی علمی زندگی کے دیگر درخشاں پہلووں پر توجہ دی جائے گی۔
اس مقالے کے اختتام پر مناسب ہے کہ اس بات کی یاددہانی کرا دی جائے کہ اس عالی مقام نابغہ نےاس طولانی علمی جہاد ، علم فقہ کی عالیشان عمارت کی بنیاد رکھنے اور کلام میں درمیان کا راستہ کھولنے کا کارنامہ ، دشوار سماجی حالات میں انجام دیا ہے۔ اگرچہ بغداد میں آل بویہ کی حکومت نے آزاد علمی بحث کے لئے مناسب ماحول فراہم کیا تھا ، مگر حنبلی فقہا کے تعصب آمیز طرزعمل اور شیخ مفید اور تمام شیعوں پر عباسی حکومت کے دباؤ کا مسئلہ ہر گز حل نہ کرسکی۔ بغداد کے علاقے کرخ کے شیعوں کی مظلومیت اور انہیں اور ان کے عظیم پیشوا کو جو اذیتیں دی جاتی تھیں، وہ ایسے حقائق ہیں کہ تاریخ صراحت کے ساتھ اس کی گواہی دیتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شیخ مفید کی تین بار کی جلاوطنی کے علاوہ جو تاریخ میں درج ہے ، 405 سے 407 تک تقریبا دوسال انہیں ایسی پریشانیوں اور اذیتوں میں مبتلا رکھا گیا کہ جن کی نوعیت صحیح طور پر معلوم نہیں ہے۔ یہ خیال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ 406 میں شیخ مفید کے شاگرد رشید سید رضی کہ جنہیں شیخ بہت چاہتے تھے، کتابوں میں ان کی وفات کے تذکرے میں، تشیع وغیرہ کی تفصیلات موجود ہیں مگر شیخ مفید کا کوئی ذکر نہیں ہے جبکہ اصولا ان کا ذکر بار بار ہونا چاہئے تھا۔ دوسرا قرینہ جو ذہن میں یہ خیال پیدا کرتا ہے ، یہ ہے کہ ، ہر سال رمضان کے آس پاس، شیخ کے گھر میں یا درب الریاح میں ان کی مسجد میں کئی جلسوں میں امالی شیخ مفید کا دورہ ہوتا تھا اور یہ سلسلہ 404 سے 411 تک جاری رہا ، مگر 405 اور 406 میں یہ دورہ انجام نہیں پایا۔ مجموعہ امالی شیخ مفید میں ان دو برسوں سے متعلق کسی جلسے کا ذکر نہیں ہے۔
ایک اور قرینہ یہ ہے کہ 406 کے محرم کے قضیے میں، جب شیعوں کے خلاف بڑا فتنہ برپا ہوا اور اس میں ان پر بارہا ڈھائی جانے والی مصیبتیں دوبارہ ڈھائی گئیں تو حکومت بغداد نے مذاکرات کے لئے، شیعہ فرقے کے نمائندے اور قائد کی حیثیت سے سید مرتضی کا انتخاب کیا شیخ مفید کا نہیں۔ جبکہ اس زمانے میں اور اس سے برسوں پہلے سے شیعوں کے غیرمتنازع اور مطلق قائد، شیخ مفید تھے اور سید مرتضی ان کے شاگرد، مرید، مخلص اور تابع سمجھے جاتے تھے۔
یہ قرائن ذہن میں یہ خیال پیدا کرتے ہیں کہ ان دو برسوں کے دوران وہ کسی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا رہے ہوں گے، جس کی بناء پر بغداد میں نہ رہے ہوں گے۔ اس بارے میں تحقیق ہونی چاہئے مگر جو چیز مسلم ہے وہ یہ ہے کہ عراق اور بغداد میں آل بویہ کی حکومت کے ایک سو تیرہ برسوں کا بڑا حصہ ، بغداد میں شیعوں اور ان کے رہنماؤں کی زندگی کی سختیوں، دشواریوں، اذیتوں، قتل عام اور مظلومیت سے پر رہا ہے ۔(39) اور ان سخت مشکلات میں شیخ مفید نے عراق بلکہ پوری دنیا کے شیعوں کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالی اور شیعہ معارف کے میدان میں اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ۔
اس مقالے کا اختتامی نکتہ اس ثقافتی اجتماع میں شریک علماء اور دانشوروں سے میری یہ تاکیدی سفارش ہے کہ پوری کوشش کریں کہ یہ علمی اجتماع، اسلامی مذاہب کے درمیان علمی اتحاد اور فکری قربت کا وسیلہ بنے۔ اپنے زمانے میں مذہبی مخالفت سے نمٹنے میں شیخ مفید کا طرز عمل یقینا ان تلخ حوادث اور مصائب کا نتیجہ تھا جن سے اس دور کے مظلوم شیعہ دوچار تھے اور اندھے تعصب کی آگ ان کا باعث تھی۔ وہ طرز عمل، آج اسلامی فرقوں کے ایک دوسرے کے ساتھ، حتی کلامی میدانوں میں، روش اور طرز عمل کے لئے نمونہ نہیں بن سکتا۔ آج تمام اسلامی فرقوں کو تاریخ کے ان دردناک مناظر کے مشاہدے سے، مصالحت اور مہربانی کا درس حاصل کرنا چاہئے اور ایسے زمانے میں کہ جب اصول اسلام ، جن کے احیاء کے لئے ہر مذہب میں شیخ مفید جیسی شخصیتوں نے اتنی مصیبتیں برداشت کی ہیں، عالمی دشمنوں کی جانب سے خطرات سے دوچارہیں، تمام فرقوں اور ان کے مفکرین کی وحدت، قربت اور تعاون کے بارے میں سوچیں۔ یہ ہمارے انقلاب اور ہمارے امام (قدس اللہ نفسہ الزکیہ ) کی ہمیشہ باقی رہنے والی ہدایت ہے۔
ایک بار پھر خدائے متعال سے آپ کے لئے توفیق اور کانفرنس کے شایان شان اور باقی رہنے والے نتائج کے لئے دعاگو ہوں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
علی الحسینی الخامنہ ای
فروردین 1372 مطابق شوال 1413

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6- ماضی میں اس سلسلے میں ایسی متعصبانہ اور جاہلانہ کوششیں کی گئی ہیں جو ایک شیعہ محقق کے لئے دہشتناک اور حیرت انگیز ہیں۔ مثال کے طور پر اس بات پر توجہ دیں کہ شیخ صدوق نے خدا شناسی کے مسائل میں پانچ سو تراسی احادیث اور سڑسٹھ ابواب پر مشتمل کتاب توحید لکھی۔ انہوں نے خود اس کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے کہ مخالفین، شیعوں پر جبر و تشبیہ کے عقیدے کا الزام لگاتے تھے جبکہ دو اصول امربین الامرین اور نہ تشبیہ اور نہ تعطیل شیعہ اعتقاد کے معروف ترین مبانی میں رہے ہیں۔ کتاب ملل و نحل میں شہرستانی نے جو نسبتیں دی ہیں اور ان سے پہلے اور ان کے بعد کے بہت سے لکھنے والے اور ان کی تحریریں، پیروان مکتب اہلبیت (علیہم السلام) کی نسبت ان ظالمانہ کوششوں کے نمونے ہیں اور ہمارے زمانے کے غیر ذمہ دار مصنفین نے جنہوں نے شیعوں کے بارے میں اپنی تحریروں کے لئے خود کو جواب دہ نہیں سمجھا ہے اور اس بات کو اہمیت نہیں دی ہے کہ ارباب اقتدار کو خوش کرنے اور تھوڑے سے ڈالر حاصل کرنے کے لئے، حقیقت کو پامال اور حجاب تقوا چاک کرنے کی کیا قیمت دینی پڑسکتی ہے، بہت زیادہ بے لگام ہوکر لکھا ہے کہ ایک نسل پہلے کا شیعہ مخالف مصری مصنف، یعنی احمد امین، جو ہرزہ سرائی اور دروغ بیانی میں کسی حد کا قائل نہیں تھا، دوسرے اور تیسرے درجے پر چلا گیا ہے۔ اس بات کی یاد دہانی بے جا نہیں ہے کہ ان کتابوں اور تحریروں سے کوئی گلہ یا شکوہ نہیں ہے جو کسی مذہب کے اثبات یا کسی مذہب کے رد میں ایمانداری و صداقت کے ساتھ لکھی گئ ہیں بلکہ مسلمانوں کے رشد افکار اور حسن انتخاب کے لئے ایسی کتابوں کا وجود ضروری ہے۔ یہاں گفتگو جعل و فریب، گندگی پھیلانے اور جھوٹی نسبت دینے کے بارے میں ہے۔
7- جبریل بن احمد الفاریابی (فاریاب بلخ اور مروالرود کے درمیان واقع ایک شہر ہے) وہ شیخ طوسی کے کہنے کے مطابق کش کے رہنے والے تھے۔ ابراہیم بن نصر الکشی (کش سمرقند کا ایک قریہ ہے) خلف بن حماد الکشی، خلف بن محمد الملقب بہ امان الکشی، عثمان بن حامدالکشی، محمد بن الحسن الکشی، محمد بن سعد بن مزید الکشی، ابراہیم بن علی الکوفی السمرقندی (دو نسبتوں کی ترتیب سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ شیخ کوفی مہاجرت کرکے سمرقند آئے ہوں گے) ابراہیم الوراق السمرقندی، آدم بن محمد القلانسی البلخی، احمد بن علی بن کلثوم السرخسی، احمد بن یعقوب البیہقی، علی بن محمد بن قتیبہ النیشابوری ، محمد بن ابی عوف البخاری، محمد بن الحسین الھروی، محمد بن رشید الھروی ، نصر بن الصباح البلخی و۔۔۔۔
8- عبارت نجاشی در شرح حال شیخ کشی ص 372
9- عبارت نجاشی در شرح حال عیاشی ص 351
10-اس کا دوسرا موید یہ ہے کہ پہلی بار 356 میں علی بن محمد القزوینی عیاشی کی کتابیں بغداد لائے تھے۔( نجاشی ص 267 سے رجوع کیا جائے )
11-مولوی مثنوی میں ایک شاعر کی داستان نقل کرتے ہیں کہ عاشور کے دن حلب میں تھا ، اس نے دیکھا کہ شہر سیاہ پوش ہے اور بازار تعطیل ہیں ، اس نے سوچا کہ کوئی امیر یا شاہزادہ مرگیا ہے ۔ جب شہر کے لوگوں سے سوال کیا تو انہوں نے اس سے کہا، لگتا ہے تم یہاں اجنبی ہو۔۔۔
12- اطراف و اکناف بلاد اسلامی سے آنے والے سوالوں کے جواب میں لکھے گئے شیخ مفید کے رسالوں اور ان سوالوں کے تنوع اور وسعت پر توجہ دی جائے ۔۔ ۔ جن میں سے بعض ایسے ہیں کہ شیخ مفید کا جواب نہ صرف سوال کرنے والے کی فکری مشکل کو حل کرتا ہے بلکہ ایک فکری و کلامی حریف سے مقابلے کا ہدف بھی پورا کرتا ہے۔گویا وہ بغداد میں اپنے مکتب کی حرمت کے دفاع کے ساتھ ہی خطرناک دشمنوں کی یلغار کے مقابلے میں مومنین کی پشت پناہی کا بیڑا بھی اٹھاتے ہیں۔ المسائل الساقانیہ کو دیکھیں جس کا سخت اور مستحکم حملے کا لہجہ، خراسان کے مستضعف شیعوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے جن کی فکری حدود پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس سے خیال پیدا ہوتا ہے کہ ان قیل فقل کے طرز پر لکھے گئے رسالے، جیسے النکت فی مقدمات الاصول، اور النکت الاعتقادیۃ، عام طور پر ان لوگوں کے لئے لکھے گئے تھے جو دور تھے اور ان کے سامنے مستقل طور پر مخصوص قسم کے مذہبی سوالات پیش کئے جاتے تھے جن کے محکم کلامی جواب کے لئے انہیں دستورالعمل کی ضرورت تھی ۔۔۔۔
13- کیونکہ ان کی وفات کے سال، شیخ مفید جو 336 میں پیدا ہوئے تھے، چوالیس سال کے تھے اور ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے اپنی فہرست میں مفید کا شرح حال کتنے سال پہلے لکھا ہے ۔
14 - ذہبی کےکلام کا یہ حصہ، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، کا ایک حصہ ہے، جو ابھی شائع نہیں ہوئی ہے اور جو نقل کیا گیا ہے وہ گویا کہ اس نسخے سے لیا گیا ہے جو چھپنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
14- تاریخ علوم اسلامی مجلال ھمایی ص 51و
16- الکنی والالقاب ج 2 ص 404
17- تعجب ہے کہ حتی ہمارے زمانے میں بھی ایک مستشرق نے مفید کے کلامی افکار کے بارے میں ایک تحریر میں انہیں بغداد کے معتزلہ مکتب کا پیرو بتایا ہے۔
18- مفید نے المسائل الصاقانیہ میں ابن جنید پر سخت اعتراض کیا ہے، ان کی باتوں کو ہذیان سے تعبیر کیا ہے اور ان کے نظریات کو غیر سدید کہا ہے۔ (المسائل الصاقانیہ ص 62 کو دیکھا جائے )
19- و فصل ما بین العدلیۃ من الشیعۃ من ذھب الی العدل فی المعتزلۃ والفرق ما بینھم من بعد وما بین الامامیۃ فیما اتفقوا علیہ من خلافھم فیہ من الاصول ( اوائل المقالات ص 40)
20- رجال نجاشی ص 10
21-وسائل ج 1 ص 327
22- فتاوی العلمین ص 5
23- رجال نجاشی ص 48
24 - نجاشی کی عبارت اس طرح ہے ؛ کتاب مشھور فی الطائفہ وقیل؛ ما ورد الحاج من خراسان الا طلب و اشتری منہ نسخ ( ص 48) اور فہرست میں شیخ کی عبارت اس طرح ہے : لہ کتب اخر منھا کتاب التمسک ۔۔۔ فی الفقہ، کبیر حسن ( ص 368 فہرست اور تھوڑے سے فرق کے ساتھ، ص96 )
25- عدہ ص 5
26- عدہ سے منقول عبارت کو دیکھیں ۔۔۔فی المختصر الذی فی اصول الفقہ ۔۔۔
27- ولیس یصح فی النظر دعوی العموم بذکر الفعل و انما یصح ذلک فی لکلام المبنی والصور منہ المخصوصۃ، فمن تعلق بعموم الفعل فقد خالف العقول التذکرہ ۔۔۔ ص38
28- اذا ورد لفظ الامر معاقبا لذکر الحظر افاد الاباحہ دون الایجاب ( ص 30)
29- والاستثناء اذا اع‍قب جملا فھو راجع الی جمیعہا ، الا۔۔ ( ص 41)
30- عدہ ص 8
31- اوائل المقالات ص 59
32- اوائل المقالات ص57
33- اوائل المقالات ص 58
34- اوائل المقالات ص 50
35- اوائل المقالات ص79
36- اوائل المقالات القول فی سماع الائمہ (ع ) کلام الملائکۃ الکرام ۔ ص80
37-تصحیح الاعتقاد ص 149
38- اوائل المقالات ص 129
39- بغداد پر عضد الدولہ دیلمی کے تسلط کا دور ( 367-372) اس قاعدے سے مستثنی ہے۔