ہر نظام کے لئے اصلاح ضروری ہے۔ یہ ہر معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ ہمیں بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اصلاح یعنی یہ کہ تمام خوبیوں اور کمیوں کی فہرست تیار کی جئے اور کمیوں کو خوبیوں میں تبدیل کیا جائے۔ یہ انقلابی اصلاح ہے، یہی اسلامی اصلاح ہے۔ جہاں تک اسلامی نظام اور انقلاب کے دشمنوں کا تعلق ہے تو وہ اس نظام کے بنیادی ڈھانچے کو ہی پسند نہیں کرتے اور ان کی نظر میں اصلاح کا مطلب ہےنظام کی مکمل تبدیلی، اسلامی جمہوری نظام کی سامراجی دشمنوں کے اشارے پر چلنے والے نظام میں تبدیلی۔ اگر حقیقی اصلاح کی بات کریں تو اس کی ضرورت ملک کے ہر شعبے میں ہے۔ کوئي بھی ادارہ خود کو اصلاح اور تنقید سے بالاتر نہیں سمجھ سکتا۔ ملک کے تمام اداروں پر ناقدانہ نظر ڈالی جانی چاہئے اور سب کو نظام کے بنیادی اہداف کے تحت اور اسی کے تناظر میں اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔
اصلاح ایک لازمی حقیقت ہے اور یہ عمل ملک میں انجام پانا چاہئے۔ ہمارے ملک میں اصلاح کے لئے اجبار کا راستہ نہیں اختیار کیا جاتا کہ کوئي حکمراں شدید مطالبات سے مجبور ہوکر یہاں، وہاں کچھ اصلاحاتی اقدام کر دے، نہیں، اصلاح ہمارے نظام کی دینی اور انقلابی ماہیت ور تشخص کا جز ہے۔ اگر بار بار اصلاح نہ کی جائے تو نظام بگڑ سکتا ہے، غلط سمت میں جا سکتا ہے۔ اصلاح تو فریضے کا درجہ رکھتی ہے۔
اصلاحات یا تو انقلابی، اسلامی اور ایمانی ہوتی ہیں جن پر ملک کے تمام حکام، تمام صاحبان فکر و نظر اور جملہ عوام متفق ہیں یا پھر اصلاحات امریکی انداز کی ہوتی ہیں جس کے خلاف تمام حکام، ہر مومن فرد اور پوری قوم ہے۔ امریکی، ایران میں جس اصلاح کے خواہاں ہیں وہ عین بد عنوانی اور اخلاقی انحطاط ہے۔ امریکیوں کی نظر میں اصلاح کا مطلب اسلامی جمہوری نظام کا خاتمہ ہے۔ بڑی طاقتیں جو کچھ بھی کرتی ہیں اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر کرتی ہیں۔ اگر اصلاح پسندی کی حمایت کا نعرہ بلند کرتی ہیں تو اس میں صداقت نہیں ہوتی۔ وہ حقیقی اصلاح کی کبھی بھی حمایت نہیں کریں گی، حقیقی اصلاح کی تو وہ سب سے بڑی مخالف ہیں۔
اصلاحات کا بنیادی مقصد، غربت، تفریق اور بد عنوانی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اگر حقیقی معنی میں اصلاح ہے تو وہ انہی محوری نکات کے ارد گرد گھومتی نظر آئے گی۔ معاشرے کی سب سے بڑی برائی غربت اور طبقاتی فاصلہ ہے۔ کسی بھی سماج کی سب سے بڑی برائي یہ ہے کہ بعض افراد مالی بد عنوانیاں اور غبن کریں، قومی خزانے سے اپنے مفادات پوے کریں۔ بد ترین برائي یہ ہے کہ قوانین کے نفاذ میں تفریق و امتیاز کا رویہ اختیار کیا جائے اور لوگوں کی صلاحیتوں اور مہارتوں کو نظر انداز کیا جائے۔ وہی غربت اور وہی تفریق جس کے بارے میں بارہا میں عرض کر چکا ہوں۔
اصلاح کا سب سے پہلا قدم، تہذیب نفس اور اپنی ذاتی اصلاح ہے یعنی نظام کے ان حکام اور عہدہ داران کو چاہئے کہ خود کو غیر اسلامی رفتار و کردار اور طور طریقوں سے نجات دلائيں۔ یہ ہو گیا تو تمام کام بڑی خوش اسلوبی سے آگے بڑھیں گے۔
اگر اصلاحات، ترقی اور خلاقیت کی بنیاد، انقلابی اقدار کو قرار نہ دیا جائے تو معاشرہ ناکامی اور تنزلی کی سمت بڑھے گا۔ یہ بنیادی اصول ہے۔ اقدار کا پاس و لحاظ کریں، ان کے سلسلے میں تفریق و امتیاز سے اجتناب کریں، انہی اقدار کے تناظر میں پیشرفت و ترقی کی منزلوں کی جانب پوری سنجیدگي کے ساتھ پیش قدمی کریں۔
اصلاحات کی تعریف کیا ہے یہ واضح ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے تو خود ہمیں جو اصلاحات نافذ کرنا چاہتے ہیں اس کے معنی و مفہوم کو پوری تفصیلات کے ساتھ سمجھنا ہوگا تاکہ بالکل واضح رہے کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔ دوسرے مرحلے پر ہم عوام کو ان اصلاحات سے متعارف کروائیں اور بتائيں کہ اصلاحات سے ہماری مراد کیا ہے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق اصلاحات کی تعریف نہ کر سکے۔ اگر اصلاحات کی صحیح طور پر تعریف نہ کی جائے تو لوگ اپنی اپنی مرضی کے مطابق اس کا مفہوم پیش اور مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔
اصلاحات کے نفاذ اور نگرانی کا عمل با صلاحیت اور متحمل مزاج افراد پر مشتمل مرکز کے ذریعے انجام پانا چاہئے، کیونکہ بہت سے کام ہیں جو دس سال کے عرصے میں بحسن و خوبی انجام پاتے ہیں اگر انہیں دو سال میں تمام کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ کوشش نا قابل تلافی نقصان پر منتج ہوگی۔
(دوسرا مسئلہ) اصلاحات کے وقت آئين کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت ہے۔ آئین میں سب سے زیادہ اسلام کو اہمیت دی گئی ہے اور تمام قوانین اور ہر انتخاب کے لئے اسلام کو سرچشمہ قرار دینے پر تاکید کی گئي ہے۔ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا پوری توجہ کے ساتھ پاس و لحاظ کرنا ضروری ہے۔ آئين ہمارا سب سے بڑا قومی، دینی اور انقلابی میثاق ہے۔
بعض شعبوں میں اصلاحات کا عمل، پیچیدہ، دشوار اور سست رو ہوتا ہے مثلا اقتصادی شعبے میں آمدنی کی منصفانہ تقسیم کا مسئلہ ایسا ہی ہے۔ یہ بڑا دشوار کام ہے۔ غربت کی بیخ کنی اور محروم علاقوں پر توجہ اور دفتری سسٹم میں بہتری کی کوشش انہی اصلاحات کا حصہ ہیں۔