ہمارے ملک میں حقیقی معنی میں انتخابات انجام پاتے ہیں۔ بہت سے نام نہاد جمہوری ممالک میں انتخابات اس طرح نہیں ہوتے بلکہ وہاں انتخابات دولتمندوں اور طاقتور حلقوں کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ چیز کہ کوئي امیدوار عوام کے درمیان سے اٹھے اور کسی طاقتور حلقے کی پشت پناہی کے بغیر عوام کے سامنے اپنی بات رکھے اور ووٹ حاصل کرے بغیر اس کے کہ کسی سیاسی پارٹی کا آشیرواد یا کسی سیاسی گروہ کی حمایت اسے حاصل ہو، دنیا میں بے مثال ہے اور شاذ و نادرہی دکھائي دیتی ہے۔
دشمن یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں ہے کہ ایران میں جمہوریت نہیں ہے جبکہ خود اسے بھی علم ہے کہ جو جمہوریت آج ایران میں ہے ملک کی پوری تاریخ میں اس کی کوئي اور مثال نہیں ملتی۔ ایران کی گزشتہ تاریخ میں یہ آزادی عوام کو کبھی نہیں ملی (جو آج انہیں حاصل ہے) اس کا ثبوت انتخابات اور تمام میدانوں میں عوام کی بھرپور موجودگی ہے۔
ہمارے ملک میں انتخابات اسلامی روش کا مظہر ہے۔ انتخابات، قوم کو اسلام سے ملنے والا تحفہ ہے۔ ہمارے امام (خمینی رہ) نے انتخابات کے ذریعے اسلامی حکومت کی تشکیل کی روش ہمیں سکھائی۔ لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی حکومت کا مطلب تھا موروثی حکومت، جبکہ یہ اسلام اور اسلامی حکومت کی شان میں بہت بڑی گستاخی ہے۔
اس وقت ہمارے ملک کے اعلی ترین حکام، عوام کے ذریعے منتخب ہوکر آتے ہیں، براہ راست یا پھر بالواسطہ۔ اسلامی نظام میں منصوب شدہ عہدہ دار، موروثی عہدے اور دولت کی بنیاد پر ملنے والے مقام کا کوئي تصور ہے نہ کوئي گنجائش۔ صدارتی انتخابات، پارلیمانی انتخابات، قائد انقلاب کا انتخاب کرنے والے ماہرین کی کونسل کا انتخاب، بلدیاتی انتخابات ملت ایران کے افتخارات ہیں، یہ انتخابات اسلام اور خود امام (خمینی رہ) کے افتخارات کی فہرست میں شامل ہیں۔
انتخابات، قوم کا حق بھی ہے اور فریضہ بھی۔ اسلامی جمہوری نظام نے بڑی طاقتوں کے نظاموں پر خط بطلان کھینچ دیا جس میں عہدہ دار منصوب کئے جاتے ہیں۔ اس طرح ملک چلانے کے عمل میں عوام کو شراکت ملی۔ قوم کے ہر فرد کو انتخاب اور ملک چلانے کے عمل میں کردار ادا کرنے کا حق حاصل ہوا۔ دوسری طرف یہ فریضہ بھی ہے کیونکہ انتخابات میں شرکت سے معاشرے میں ہمیشہ ذمہ داری کا احساس زندہ رہے گا اور قوم کے دشمنوں پر بھی عوام کا رخ رجحان ظاہر ہو جائے گا۔ تو انتخابات آپ کا حق بھی ہے اور عمومی فریضہ بھی۔
انتخابات، اپنی تقدیر اور مستقبل کے تعین میں عوام کی شراکت اور اس عمل میں ان کی آزادی کا مظہر ہے۔ جب آپ صدر کا انتخاب کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے تمام امور کی باگڈور اس شخص کے ہاتھ میں دے رہے ہیں جسے آپ نے منتخب کیا ہے اور جو آپ کے ووٹوں اور حمایت سے ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جب آپ اراکین پارلیمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں تو در حقیقت آپ امور کی نگرانی اور قانون سازی کا عمل اسے سونپ رہے ہیں جس پر آپ کی نظر انتخاب ٹھہری ہے۔ بنابریں انتخاب خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہی ملک کو چلانے کے عمل میں عوام کا کردار اور ملک کے مستقبل کے تعین میں قوم کا اختیار ہے۔
اسلامی جمہوریہ، حقیقی معنی میں عوامی نظام ہے اور عوام پر ہی اس کا دارو مدار ہے۔ سات کروڑ کی آبادی والا ملک اور سالانہ اوسطا ایک دفعہ انتخابات کا انعقاد، جن میں صدر سے لیکر اراکین پارلیمنٹ اور بلدیاؤں کے اراکین کے انتخابات شامل ہیں، وہ چیز ہے جسے دیکھ کر دشمن حیران ہے۔ اسلامی جمہوری نظام عوام کی قوت ایمان کے سرچشمے سے باہر آیا ہے اور آج تک پوری طرح اسی سرچشے سے وابستہ ہے لہذا اس میں دو رای نہیں کہ ایسے نظام اور انتظامیہ کو عوام سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوریت صرف یہ نہیں ہے کہ خوب جم کر پرچار کیا جائے اور لوگوں کو بیلٹ باکس تک پہنچا کر ان کے ووٹ جھپٹ لئے جائیں اور پھر انہیں ایک بار مڑ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی جائے۔ تو انتخابات پہلا مرحلہ ہے، اس کے بعد باری آتی ہے دوسرے مرحلے یعنی جوابدہی کی۔
ہمارے آئین اور امام (خمینی رہ) کی تعلیمات اور ہدایات میں بار بار تاکید کی گئی ہے کہ وہ نظام حکومت جسے عوام کی پشتپناہی حاصل نہ ہو، جو عوامی خواہشات اور مرضی کے مطابق نہ چلے، ریت کی دیوار سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ عوامی آرا کے مطابق حاکم کا انتخاب ہو اور وہ عوامی خواہشات کے مطابق نظام حکومت چلائے۔