اٹھائيس جون سن انیس سو اکیاسی کو تہران میں ایران کے اسلامی نظام کی تاریخ کا بڑا اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ یہ ایرانی ہجری شمی سال کے چوتھے مہینے تیر کی سات تاریخ تھی۔ اس دن دہشت گرد گروہ ایم کے او نے ایک دہشت گردانہ حملے میں ایران کی عدلیہ کے سربراہ شہید بہشتی سمیت انتہائی اہم افراد کو شہید کر دیا۔ اس دہشت گردانہ واقعے کو ایران میں سانحہ ہفتم تیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہر سال اسی مناسبت سے عدلیہ کے اعلی عہدہ دار اور شہدائے سانحہ ہفتم تیر کے بازمانگان کی قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات ہوتی۔ ان ملاقاتوں میں قائد انقلاب اسلامی نے سانحہ ہفتم تیر کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا ہے۔ ہم مختلف برسوں کی آپ کی تقاریر کے بعض اقتبسات یہاں پیش کر رہے ہیں۔

 

 سانحہ ہفتم تیر اسلامی نظام کے استحکام کا ثبوت

سانحہ ہفتم تیر ( اٹھائيس جون 1981) او اس کے عزیز شہیدوں بالخصوص شہید بہشتی ( رضوان اللہ تعالی )کی معروف شخصیت کے بارے میں چند جملے عرض کرنا چاہوں گا: یہ سانحہ ایک لحاظ سے ایرانی قوم او اسلامی جمہوریہ ایران کی مظلومیت کا ثبوت تھا اور دوسرے لحاظ سے نظام کی طاقت اور استحکام کی سند ۔

 سانحہ ہفتم تیر مظلومیت کی سند

اسلامی جمہوریہ ایران آج بھی مظلومیت کا مظہر ہے؛ کیونکہ وہ لوگ جو بظاہر دہشت گردی کے ساتھ جنگ کے دعویدار ہیں لیکن اصل میں کشور گشائی، دوسروں پر تسلط اور اپنے مادی اور سیاسی عزائم کے حصول کے درپے ہیں، ان ظالم دہشت گردوں کے ساتھ جو سانحہ ہفتم تیر کے مجرم ہیں، دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں، ان کا ساتھ دیتے ہیں، ان کے ساتھ ملکر سازشیں تیار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے تئيں جذبہ ہمدردی رکھتے ہیں، درحالیکہ ان دہشت گردوں نے خود اقرار کیا ہے بلکہ فخریہ کہا اور کہتےہیں کہ ہفتم تیر کا دہشت گردانہ حملہ انہوں نے انجام دیا ہے۔ یہ ہے ایران کی مظلومیت کی سند اورملک کا مظلومانہ تشخص۔

 ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981) کا سانحہ نظام کے اقتدار اور استحکام کی علامت
ہفتم تیر کا سانحہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اقتدار اور استحکام کی علامت بھی ہے۔ کیونکہ جو لوگ شہید بہشتی کی شخصیت کو جانتے تھے اور اس بڑی شخصیت کی فکری توانائيوں، تخلیقی صلاحیتوں اور قوت ارادی سے آگاہ تھے وہ لوگ خوب سمجھ سکتے تھے کہ ملک کے چلانے والوں میں ایسی مقبول اور اہم شخصیت کے فقدان کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ در حقیقت شہید بہشتی کی شخصیت اس مرکزی کردار کی طرح تھی جو تمام امور سے جڑی ہوئي تھی اور جس سے دوسروں کو حوصلہ ملتا تھا، آپ مسائل کی گتھیوں کے سلجھانے میں ماہر تھے۔ جب ایسی شخصیت کو جو انتظامی امور، عملی اقدامات، منصوبہ بندی، دینی امور اور فلسفیانہ نظریات، تجربات، روشن فکری اور وسعت نظر کے سلسلے میں بلند مقام اور مرتبے کی حامل تھی ایک نوخیز حکومت کے ڈھانچے سے الگ کر دیا جائے اور اسے ختم کر دیا جاۓ تو اس حکومت کا لڑکھڑا کر گر جانا فطری اور یقینی سمجھا جاتا ہے، لیکن حکومت، شہید بہشتی اور ان کے ساتھ یا ان سے پہلے اور ان کے بعد دوسری بڑی شخصیتوں کی شہادت سے نہ صرف یہ کہ متزلزل نہیں ہوئی اور ختم نہیں ہوئی بلکہ ان میں سے ہر شخصیت کی شہادت حکومت کے پودے کیلۓ تازہ پانی اور نظام کے نوخیز وجود کیلۓ لہو کی بوند ثابت ہوئی اور حکومت کو پہلے سے زیادہ شاداب اور تر و تازہ بنا گئی اور یہی استحکام اور توانائی آج تک حکومت میں موجود ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے عوام شہداء کی شہادت کے وقت دیگر افراد کی مانند ایک دوسرے کو تعزیت و تسلی نہیں دیتے بلکہ مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ جب بہشتی شہید ہوۓ لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ یعنی غم کے ساتھ ساتھ سرخروئي کا احساس ہوتا تھا۔ یہی وہ چیز ہے جو ہماری حکومت اور انقلاب کی پہچان ہے۔
آج بھی ہفتم تیر کے واقعے کی یادہ تازہ ہے، شہید بہشتی بھی زندہ ہیں۔ شہید بہشتی یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کے نۓ معمار اور بانی۔

سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 27-6-2004.

قوم کا ایمان، صبر اور بیداری، انقلاب کا قیمتی ذخیرہ

سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون) کے بارے میں ایک جملہ عرض کروں گا۔ ایک اہم چیز جس نے اس واقعے میں لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی یہ تھی کہ پیکر انقلاب پر دشمن کی ضرب جتنی کاری ہوتی جاۓ گی لوگوں میں ایمان صبر اور استقامت کاجذبہ بھی اتنی ہی بڑھتا جاۓ گا۔ دشمن نے حکومت کے ستر بڑے عہدہ دار جن میں شہید بہشتی جیسی شخصیات بھی شامل تھیں ایک ساتھ اسلامی حکومت سے چھین لۓ اور وہ بھی بڑے المناک اور بھیانک طریقے سے، لیکن آپ اس قوم کا رد عمل دیکھیں! لوگوں نے اور شہداء کے قابل قدر اہل خانہ نے اپنی استقامت و پائيداری، صبر و تحمل اورایمان و ایقامن سے دشمن کو ایسا جواب جو دشمن کی عقل و فہم سے بالاتر تھا۔
قوم نے انقلاب کی سینہ سپر ہوکر حفاظت کی اور دشمن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اس طرح ایران کا نام روشن ہوا۔ ہمیشہ اسی طرح ہوتا رہے گا۔ جب تک لوگوں کا صبر و ایمان اور جذبہ استقامت انقلاب اور حکومت کے لئے سائباں بنا رہے گا، دشمن کو انقلاب پر وار کرنے اور نقصان پہنچانے کی کوششو سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ انقلاب روز بروز پروان جڑھتا جاۓ گا۔ ہمارے بزرگوار شہید آیت اللہ بہشتی اسلامی حکومت میں ایک مثالی اور نمایاں شخصیت تھے جو اس ( دہشت گردی کے ) واقعے میں ہم سے چھن گۓ؛ لیکن ان کی یاد زندہ رہی، ان کے اور ان کے دوستوں کے خون سے انقلاب کی آبیاری ہوئی اور یہ پودھا مزید مستحکم ہوا۔ یہ ایک بڑا سبق ہے.

سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون1981) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2000-6-27

 

شہدائے سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981 ) اسلامی جمہوریہ ایران کی اساس اور اسلامی اقدار کی حاکمیت کی راہ کے شہید ہیں

یہ بھی ایک اہم اتفاق ہے کہ عدلیہ کا ہفتہ، شہادت کا ہفتہ ہے اور عدلیہ کا نام ایک بڑے اور ناقابل فراموش شہید سے جڑا ہوا ہے۔ عدلیہ کے کام کی حساسیت اور ان عہدہ داروں کی عظمت کو جنہوں نے یہ عظیم ذمہ داری کندھوں پر اٹھائی ہے یہیں سے سمجھا جاسکتا ہے، جو لوگوں ہمارے ملک کے واقعات اور تبدیلیوں سے آگاہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ وہ چیز جس کے ساتھ اسلام اور اسلامی حکومت کے دشمنوں نے اسلامی حکومت کی تشکیل کی ابتدا ہی سے مخالفت کی بلاشبہ عدلیہ اور اسلامی عدالتی نظام تھا۔
ہمارے ملک کی عدلیہ کی سربراہی ایک فاضل، روشنفکر، آگاہ، مدبر اور اسلامی احکام پر دل و جان سےایمان رکھنے والے شخص کے ہاتھ میں تھی اور اسی وجہ سے اس زمانے میں عدلیہ اور شہید بہشتی کی بہت زیادہ مخالفت سامنے آئی۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بھی فرمایا کہ شہید بہشتی مظلوم تھے۔ ہمیں بھی یاد ہے کہ وہ کتنے مظلوم تھے، لیکن یہ مظلومیت کن لوگوں کی طرف سے ان پر مسلط کی گئ تھی؟ وہ افراد جو شہید بہشتی کی مظلومیت کے ذمہ دار ہیں ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو اسلامی جمہوریہ ایران کے معاشرے میں اسلامی عدلیہ وجود برداشت کرنے کیلۓ تیار نہیں تھے۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ ایران کی عدلیہ مغرب کے اسی فرسودہ، ناکارہ اور ناقص نظام کے نقش قدم پر چلتی رہے۔ ان تمام عیوب اور برائیوں کے ساتھ جو انقلاب سے پہلے عدلیہ میں داخل ہوگئی تھیں جن کی مثال دنیا میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ان کیلۓ یہ بات قابل قبول نہیں تھی کہ ایک توانا، بہادر اور باعزم معمار کے ہاتھوں اسلامی عدلیہ کی بنیادیں رکھی جائیں۔ وہ چاہتے تھے کہ الزام تراشی اور جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعے اسلامی عدلیہ کے عہدیداروں کو میدان سے نکال باہر کریں۔ جن لوگوں کو اس زمانے کے حالات یاد ہیں وہ یہ سب کچھ جانتے ہیں۔
سانحہ ہفتم تیر کے شہداء اسلامی جمہوری حکومت کی اساس اور اقدار کے شہداء ہیں اس سانحے کے عزیز شہیدوں پر حملہ کرنے والے دہشت گرد اور قاتل کسی شخص یا گروہ اور پارٹی کے مخالف نہیں تھے۔ وہ ایران کی خود مختاری و آزادی اور اسلامی جمہوری نظام کے مخالف تھے۔ نام زیادہ اہم نہیں ہیں ۔ حقائق کو مد نظر رکھنا چاہیے . شہید بہشتی اور سانحہ ہفتم تیر میں شہادت پانے والی ان جیسی شخصیتوں کی مخالفت در حقیقت اسلامی اقدار، قوانین اور اسلامی اقتدار اعلی کی مخالفت تھی۔
شہید بہشتی اور اس المناک واقعے میں شہادت پانے والے دوسرے شہدا، ہماری تاریخ میں بڑے بلند مقام کے حامل ہیں۔ .

سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2000-6-28

لوگوں کے ایمان اور میدان عمل میں مستقل موجودگی، اندوہناک واقعات کے وقت بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے مستحکم رہنے کا راز
سانحہ ہفتم تیر ( اٹھائيس جون) کے بارے میں ایک جملہ عرض کروں کہ شاید اس سانحے کے متعدد جہات میں یہ جہت سب سے دلچسپ ہو کہ اس طرح کے ہولناک حملے اسلامی جمہوریہ ایران کے مستحکم قلعے میں جو لوگوں کے ایمان اور ان کے اعتماد پر استوار تھا، دراڑیں نہیں ڈال سکے۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ ایسا واقعہ اگر دنیاکے کسی بھی کونے میں رونما ہوجاۓ تو ایک حکومت کا تختہ الٹنے کیلۓ کافی ہوتا ہے۔ اتنی زیادہ با اثر، اہم انقلابی شخصیات اور عظیم مفکر چشم زدن میں ختم ہو جائے اور حکومت میں تزلزل پیدا نہ ہو بلکہ نظام اس سانحے کے نتیجے میں اور زیادہ مستحکم بن جائے! یہ حیران کن بات تھی۔ یہ سب کچھ لوگوں کے ایمان اور ایقان، شعور و بیداری اور اسلامی حکومت کے اندرونی استحکام کی برکت اور خدا کے فضل و کرم یک نتیجہ تھا جو ہمیشہ ہمارے سروں پر سایہ ف‍گن رہے گا۔

انسان کو چاہیے کہ وہ مرضی پروردگار کو بنیاد قرار دے
آپ ملاحظہ فرمائیں اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو ایک سخت امتحان میں ڈالا۔ ایسا امتحان جس میں سب سے زیادہ رسول خدا کی اپنی آبرو و عزت خطرے میں تھی۔ میرا مطلب وہ حادثہ ہے جو سورہ احزاب میں بیان کیا گیا ہے . واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ و انعمت علیہ امسک علیک زوجک و اتق اللہ و تخفی فی نفسک مااللہ مبدیہ
اس واقعے میں ممکن تھا کہ رای عامہ اور لوگوں کے جذبات رسول خدا کے خلاف بھڑک جائیں کیونکہ مسئلہ الزام کا تھا۔ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشاہ خداوند عالم اپنے حبیب سے فرماتا ہے: تمہیں لوگوں کی باتوں کا ڈر ہے حالانکہ تمہیں خدا کا خوف ہونا چاہیے۔ رسول خدا نے اس واقعے میں خداوند منان کی پروا کی اور اس بڑی اور دشوار آزمایش میں سرخرو ہوۓ اور اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی الذین یبلغون رسالات اللہ و یخشونہ ولا یخشون احدا الااللہ خدا وند تعالی کی راہ میں تبلیغ کا لازمہ یہی ہے بعض لوگوں کو غلط فہمی اور غفلت مں ڈال کر خاص اہداف کے لئے انسان کے مد مقابل کھڑا کر دیا جاتا ہے ایسی صورت حال میں انسان کو چاہئے کہ صرف اور صرف اللہ تعای، اس کی مرضی اور اس کے حساب کتاب کو مد نظر رکھے، لہذا اسی سورے کے آخر میں ارشاد ہوتا : وکفی باللہ حسیبا ، خداوندعالم محاسبہ کرنے والا ہے۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ ہم نے اس راستے میں صحیح قدم اٹھایا ہے یا نہیں ۔ اس کی راہ میں قدم رکھنے کے تعلق سے ایک خاص بات یہ ہے کہ اللہ تعالی اس انسان کے سلسلے میں لوگوں کے خیال کی اصلاح فرماتا ہے اور لوگوں سے متعلق اس کے امور کو بحسن و خوبی نمٹا دیتا ہے۔ ( من اصلح مابینہ و بین اللہ اصلح اللہ ما بینہ و بین الناس ) یہ ذمہ داری بھی اللہ تعالی نے قبول کی ہے؛ جیسا کہ رسول اکرم کے واقعے میں آپ نے مشاہدہ کیا کہ خدا نے خود یہ ذمہ داری نبھائی اور حقیقت کو روشن کردیا۔
ہمارے گرانقدر شہید بہشتی کی بھی سب سے بڑی آزمائش یہ تھی کہ اس تھوڑے سے عرصے میں خداوند متعال نے اس بزرگوار سید کو خدمت کا عظیم موقع دیا۔ دشمن نے ان کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ انقلاب اسلامی کی کسی اور شخصیت کے خلاف شائد ہی اتنا پروپیگنڈہ ہوا ہو۔اور شائد ہی کسی کی شان میں اتنی گستاخیاں ہوئی ہوں. دشمنوں نے کہا کہ وہ مغرور ہیں، جاہ طلب ہیں، استبدادی مزاج کے ہیں، اقتدار کے خواہاں ہیں اور ان کے مزاج میں مطلق العنانیت شامل ہے، لیکن شہید بہشتی پوری تندہی سے خدمت میں مصروف رہے اور اپنا کام جاری رکھا اور اسی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ انہوں نے در حقیقت اس راستے میں پائیداری کے ذریعے اپنی شخصیت اپنی روح اور اپنی شناخت کو عرش اعلی تک پہنچایا . ان واقعات میں ہمارے لئے درس عبرت ہے .

سانحہ ہفتم تیر ( اٹھائیس جون) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2003-6-28 .

 شہدائے ہفتم تیر کا ملک و قوم پر احسان ہے

ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ملک ، انقلاب اور ہماری تاریخ پر ان کوششوں اور اس خون کا بڑا احسان ہے اور یہ کہ ہماری قوم اور ملک بالخصوص اس عظیم تحریک (اسلامی انقلاب) سے وابستہ فعال شخصیات کو کتنے خونخوار اور بے رحم دشمنوں کا سامنا تھا اور آج بھی ہے۔ وہی دشمن جنہوں نے شہید بہشتی کو ہم سے چھینا، آج بھی موجود ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے ہمارے دشمنوں کی پشت پناہی کی آج بھی ان کی مدد کر رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ بعض کج فکریوں اور سادہ لوحی کی بنا پر ہم یہ سمجھنے لگیں کہ ہمارے دشمن اور ان کی دشمنیاں اب باقی نہیں ہیں۔ یہ بڑی خطرناک بھول ہوگی۔ جس انسان کو دشمن کا سامنا ہو اس کیلۓ سب سے خطرناک بات دشمن کو فراموش کرنا اور اس سے غافل ہوجانا ہے۔

 شہادت ، شہید بہشتی اور ان کے دوستوں کے لئے خداوند عالم کا انعام

بہرحال ان کو اپنا انعام ملا.یقینا مرحوم شہید بہشتی جیسی بڑی شخصیت کو جو اتنی بلند ہمت، غیور اور جفا کش تھی بستر کی موت زیب نہیں دیتی۔ بہشتی کو شہید ہونا ہی تھا۔ شہادت ایک بڑی جزا ہے جو ان کواور ان کے ساتھیوں کو ملی۔ ہمیں امید ہے کہ وہ اس وقت الہی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔ ان کے درجات میں روز بروز اضافہ ہو اور ہم بھی اسی راہ پر چلتےہوئے اور اسی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے انہی سے ملحق ہو جائیں۔

سانحہ ہفتم تیر ( اٹھائیس جون) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1998-6-28

دشمنوں کا ادھورا خواب

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارےدشمن اس حساس دور میں چاہتے تھے کہ اس مذموم سازش کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ انقلاب سے شہید بہشتی جیسی عظیم شخصیت کا چھننا کوئی مذاق نہیں ہے۔ کسی انقلاب کی آغوش سے یکبارگی کلیدی اور برجستہ شخصیتوں، ا راکین پارلیمنٹ،عدلیہ کے عہدہ داروں اور مخلص، پاک اور فعال و انقلابی افراد کا چھن جانا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی بھی حکومت کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آتا تو اسے ناقابل تلافی دھچکا لگتا اور شاید اس حکومت کا تختہ ہی الٹ جاتا لیکن ایران میں ایسا نہیں ہوا۔
اس عظیم قوم کی عدیم المثال روحانی قیادت، انقلابی جذبے،اسلامی موقف اور انقلاب سے پہلے اور بعد کے عرصے میں لوگوں میں موجود شعور نے انقلاب اور حکومت کو اس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ یہ کاری ضرب بھی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ البتہ یہ ایک بہت بڑا نقصان ضرور تھا کیونکہ ظاہر ہے کہ کسی بھی ملک اور قوم میں شہید بہشتی اور ان پاک و مخلص اور انقلابی افراد جیسی شخصیات کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔ اس لحاظ سے یہ ایک بڑا دھچکہ تھا لیکن حکومت سنبھل گئی۔ آج اس سانحے کو دس سال کا عرصہ گذر رہا ہے اور آپ نے دیکھا کہ اس عرصے میں وہ تباہ کن جنگ ختم ہوگئی اور ہماری قوم کو فتح نصیب ہوئی۔ اس عرصے میں دنیا اور خطے میں بڑے بڑے طوفان آئے لیکن ہماری قوم کسی پہاڑ کی مانند پائیدار رہی۔
خداوند عالم بغیر کسی حساب کتاب کے کسی قوم کی پشت پناہی نہیں کرتا اور ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ اب چونکہ اللہ تعالی ہماری مدد کر رہا ہے اور ہمیں تائيد الہی حاصل ہو گئی ہے تو ہماری اپنی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور ہم بے فکری کے ساتھ اپنے کاموں میں مشغول ہوجائیں۔ نہیں، دست قدرت پروردگار آپ لوگوں کے ایثار، شہداء کے خون، عوام کے ایمان اور اس صبر کی برکت سے ہمارے سر پر تھا جس کا ہماری قوم نے مختلف مواقع پر مظاہرہ کیا۔ اسلام سے ہماری قوم کی سچی محبت اور اس رہبر کبیر کی طرف سے دکھاۓ گۓ روشن راستے اور لوگوں کی بیداری کے عوض رب ذوالجلال نے ہماری مدد فرمائی۔ اگر ہم نےان چیزوں کا خیال رکھا تو اللہ تعالی آئندہ بھی ہماری مدد کرے گا۔

استکبار ہمیشہ ہمارے لۓ مصیبت کھڑی کرنا چاہتا ہے
میں جس بنیادی نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ استکبار جو اسلام اور اسلامی انقلاب کا دشمن ہے ہمیشہ اور ہر دور میں کسی نہ کسی طریقے سے ہمارے لۓ مصیبت کھڑی کرنا چاہتا ہے اور ہمیشہ ایسے افراد کو ڈھونڈ لیتا ہے جو ایسی مصیبتوں اور المیوں میں اس کے آلہ کار بنیں۔ کسی زمانے میں منافقین کو اپنا ایجنٹ بنایا جو شہید رجائی، شہید باہنر اور دوسری شخصیات کی شہادت کا باعث بنے۔ کبھی عراقی حکومت کو اپنا آلہ کار بنایا اور اس کے ذریعے ہم پر آٹھ سالہ جنگ ( 1980 تا 1988 ) مسلط کر دی۔ دونوں ہی مواقع پر استکباری طاقتوں بالخصوص امریکہ نے جو اسلام اور اسلامی انقلاب کا دشمن اور مخالف ہے بعض عناصر کو اپنا آلہ کار بنایا۔
دنیا میں پست فطرت اور ضمیر فروش افراد کی تعداد کم نہیں ہے۔ دشمن تو ہر وقت دشمنی پر کمربستہ رہتا ہے اور وار کرنے کیلۓ آلہ کار بھی ہر دور میں مہیا رہتے ہیں۔ یعنی ( دشمن ) ضرب لگانے کیلۓ ہمیشہ ضروری وسائل حاصل کر لیتا ہے تو ایسی صورت حال میں ہماری ذمہ داری انقلاب کے اصول و اقدار کی پاسداری کرنا اور پوری طرح ہوشیار رہنا ہے۔ یہ ہے ہماری ذمہ داری۔ تو کبھی یہ مت سوچیں کہ دشمن کسی زمانے میں ایسے وار کرتا تھا اور آج وہ زمانہ گذر گیا ہے۔ نہیں، پچاس سال بعد بھی غافل پاکر دشمن اپنا وار کرنے سے نہیں چوکےگا۔

ہمیں چاہئے کہ ہوشیار رہیں اور فریب نہ کھائیں
اگر دشمن چاہتا ہے کہ کسی قوم کی تحریک اور مہم کا سد باب کرے تو اس کاطریقہ یہ ہے کہ وہ قوم کو میدان عمل سے ہٹا دے۔ دشمن اس طرح نقصان پہنچاتا ہے اور آئندہ پچاس سال میں بھی دشمن وار کرنے سے باز نہیں آۓ گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہوشیار رہیں اور فریب نہ کھائیں۔ ہمیں دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اسلامی نظام پر ایمان رکھنا چاہیے کیونکہ جب دشمن وار کرنا چاہے گا تو سب سے پہلے ہمارے ایمان کو متزلزل کرے گا تا کہ کاری ضرب لگا سکے۔

سانحہ ہفتم تیر ( اٹھائیس جون ) کے شہداء کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1991-6-19

 

سانحہ ہفتم تیر (اٹھائیس جون 1981 ) تاریخ انقلاب میں ناقابل فراموش واقعہ

ہفتم تیر کا سانحہ ہمارے انقلاب کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے اور آج بھی عالمی اور سیاسی سطح پر اس سانحے کو چھیڑا اور اس پر احتجاج کیا جاسکتا ہے۔ اس سانحے میں دو حلقے رسوا ہو گۓ ۔ پہلا حلقہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو عوام اور انقلاب کی طرفداری کا دعوی کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مقاصد کو ریا کاری، جھوٹ اور فریب کے پردوں میں چھپایا ہوا تھا۔ سانحہ ہفتم تیر نے اس پردے کو چاک اور ان کے چہروں کو آشکارا کردیا ۔ان لوگوں نے اس سانحے کے بعد بہت پروپیگنڈے کۓ لیکن ایرانی قوم نے اس سانحے اور اس طرح کے بعد میں رونما ہونے والے واقعات کی برکت سے منافقین اور فریب پیشہ گروہوں کی حقیقت کو پہچان لیا۔ عوام کو معلوم ہوگیا کہ یہ گروہ ہر قسم کی انسانی اقدار کے مخالف ہیں اور بڑے پیمانے پر انسان کشی سے ہچکچاتے نہیں۔ یہ اپنے مذموم مقاصد کیلۓ اسلامی انقلاب سے ( وہ انقلاب جسے اپنی عمر کے حساس موڑ پر ایک بھرپور جنگ کا سامنا تھا) لڑے اور اتنا بڑا مجرمانہ اقدام کرکےپوری ملت ایران کوغم و اندوہ کے دریا میں دھکیل دیا۔
دوسرے حلقے میں وہ عالمی طاقتیں تھیں جو انسانی حقوق کی حمایت اور دہشت گردی کی مخالفت کی داعویدار تھیں۔ البتہ اب بھی عالمی سیاست کے سرغنہ نہایت بے شرمی کے ساتھ یہی دعویٰ کر رہے ہیں اور آج بھی امریکی حکومت اور بیشتر یورپی ممالک کے حکام یہ دعوے کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے مخالف ہیں! لیکن پروپیگنڈہ اور بلند وبانگ دعوے کرنا الگ بات ہے اور وہ حقائق جو عالمی سطح پر دنیا کے آگاہ اور باشعور لوگوں کے سامنے آرہے ہیں وہ مختلف چیز ہے۔

امریکہ اور بعض یورپی ممالک دہشت گردی کے سرپرست

یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ جب امریکہ اور بعض یورپی حکومتیں ان دہشت گرد گروہوں کی جن کے ہاتھ عوام کے خون سے رنگے ہوۓ ہیں ، حمایت کرتی ہیں اور ان کو اپنے ممالک میں ٹھکانے فراہم کرتی ہیں اور سیاسی پناہ دیتی ہیں تو یہ حکومتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوے میں سچی کیسی ہو سکتی ہیں۔ یہ دہشت گردی کو پھیلانے والی حکومتیں ہیں جو اپنے گھناؤنے اہداف کے لۓ دہشت گردوں کو اپنے دامن میں پالتی ہیں.
وہ لوگ جوسانحہ ہفتم تیر اور انقلاب کے دوسرے واقعات میں شہید ہوۓ اور ان کا خون بہہ گیا معاشرے کے نمایاں اور پاکیزہ صفت افراد میں شمار ہوتے تھے۔ ان میں علماء، دانشور، اپنے زمانے کی عظیم انقلابی شخصیات، عام لوگ، سرفروش انسان اور ایسے لوگ شامل تھے جنہوں نے اپنے ملک و قوم اور انقلاب کیلۓ بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔ ان کو مارنا کس معیار اور اصول کے تحت جائز ہے؟ کون ان کے قاتلوں کو دہشت گرد اور مجرم نہیں سمجھے گا اور ان کی مذمت نہیں کرے گا؟ یہ بالکل سامنے کی بات ہے۔

انسانی حقوق کی طرفداری کے دعوے، محض جھوٹ اور فریب ہے
ہم انسانی حقوق کی طرفداری کے دعوؤں پر جو بعض حکومتوں اور عالمی طاقتوں سے وابستہ تنظیموں اور اداروں کی طرف سے کئے جاتے ہیں بالکل یقین نہیں کرتے۔ ہم ان کو جھوٹ اور فریب سمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گرد، امریکی حکومت اور بہت سی مغربی حکومتوں اور عالمی سطح پر زور زبردستی کرنے والی حکومتوں کی آغوش میں پلتے ہیں۔
اگر کوئی قوم، کسی بھی عالمی طاقت کی پیروکار بننے پر تیار نہیں ہے، اپنے حقوق اور سرحدوں کا دفاع کرتی ہے، خود مختار رہنا چاہتی ہے اور تقدیر سازی کے اس کے اس جذبے کو پوری دنیا جانتی اور تسلیم کرتی ہے تو کیا جواز بنتا ہے کہ ایک تخریب کار گروہ اس ملک کے انقلابی اور گرانقدر انسانوں کو اتنے بہیمانہ طریقے سے قتل اور شہید کرے اور پھر مغربی حکومتیں بے شرمی و بے حیائی کا ثبوت دیتے ہوئے اس گروہ کو ایک تنظیم کا نام دے دیں۔ اس کو اپنے ملک میں بسائیں اور حتی ان کے ( ریڈیو) پروگراموں کو نشر کریں؟!

شہدائے سانحہ ہفتم تیر(اٹھائیس جون) کے اہل خانہ، اعلی عدالتی کونسل کے ارکان ، جج صاحبان اور مختلف محکموں کے عہدہ داروں اور صوبہ لرستان کے عوام سے خطاب 1989-6-28

ان حوادث سے انقلاب کمزور نہیں ہوسکتا
اگر چہ آج سانحہ ہفتم تیر کو کئی سال گذر چکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مختلف جہات سے اس واقعے کی یاد آج بھی تازہ ہے۔ اس مدت میں اس واقعے کی کچھ اور بھی جہتیں سامنے آئی ہیں۔ سب سے پہلے اس سانحے کی شخصیات بالخصوص ان میں سے بعض کی بات کرتے ہیں جو بلا شک وشبہ ایسی بڑی شخصیتیں تھیں کہ انقلاب کیلۓ جدوجہد اور تحریک کے دوران اور اس گھٹن کے زمانے اور اسلامی انقلاب کے بعد کی اس قلیل مدت میں کم نظیر تھیں۔ خاص طور پر ان میں شہید آیت اللہ بہشتی ( رضوان اللہ تعالی علیہ) تھے جو حقا و انصافا ایک عظیم اور نمایاں شخصیت اور ناقابل فراموش انسان تھے۔ عملی لحاظ سے بھی اور اخلاق و کردار اور فکر و نظر کے لحاظ سے بھی ان کی شخصیت سیاسی اور تنظیمی امور، کارہائے مملکت میں نمایاں اور بے مثال تھی۔ حق تو یہ ہے کہ ان کی شہادت ہمارے لۓ ایک بڑا نقصان تھا۔ البتہ یہ شہادت خود ان کیلۓ درجات اور مقام ومنزلت کی بلندی شمار ہوتی ہے جو کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔
ان کے علاوہ علماء تھے یا قدیمی انقلابی جو اس واقعے میں شہید ہوۓ یا وہ تعلیم یافتہ جوان اور روشن فکر افراد جو اس زمانے کے انقلابی ماحول اور جمہوری اسلامی پارٹی کے درخشاں ستارے تھے۔ ان سب کو مد نظر رکھتے ہوۓ بلا شبہ یہ ہمارے انقلاب کا ایک نایاب اور قیمتی مجموعہ تھا۔ لیکن وہ چیز جو ان سب سے اہم ہے وہ یہ ناقابل فراموش نکتہ ہے کہ اسلامی جمہوری حکومت کے یہ بڑے ستون گر گۓ لیکن یہ عمارت متزلزل نہیں ہوئی۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کبھی کبھی کسی پارٹی ، کسی ملک یا کسی حکومت سے ایک رہنما جدا ہو جاتا ہے یا ہٹا دیا جاتا ہے تو اسی ایک شخص کا فقدان پورے سسٹم کو متزلزل کردیتا ہے لیکن آپ نے مشاہدہ فرمایا کہ بہتر اہم ترین افراد کا یکبارگی فقدان بھی ہمارے نظام کی کمزوری اور تزلزل کا موجب نہیں بنا بلکہ اس واقعے سے اس کی بنیادوں کو اور بھی مضبوطی ملی۔ یہ وہ اہم اور ناقابل فراموش نکتہ ہے جو واقعا اس الہی حکومت کا خاصہ ہے۔
البتہ اس میں شک نہیں ہے کہ ہمارے عظیم امام ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) کا پر برکت اور پر فیض وجود جو ایک مضبوط پہاڑ کی طرح قائم تھا اس استقامت اور پائیداری کا سرچشمہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن حکومت اور امام ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا استحکام بذات خود ایک معجزہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

شہداء سانحہ ہفتم تیر کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب 1994-6-29

شہید بہشتی، ایران کی عدلیہ کے معمار اور شہدائے انقلاب کے سردار

سانحہ ہفتم تیراور مرحوم ایت اللہ بہشتی( رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بارے میں ایک جملہ عرض کرنا چاہوں گا۔
اس عزیز اور عظیم شہید کا شمار بلا شک ملک کی بڑی شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ ان کے وجود میں علم و تقوا، تدبیر اور انسانی اخلاق اپنی بہترین شکل میں جلوگر تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کی بنیاد اسی شخصیت نے رکھی، وہ شخصیت جو اسلامی تعلیمات اور اصولوں سے بھرپور واقفیت رکھتی تھی اور بذات خود ایک فقیہ کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھی۔ شہید بہشتی عصر حاضر کے مسائل اور ملک کی ضرویات سے بھی پوری طرح با خبر تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ملک کو کیسی عدلیہ کی ضرورت ہے۔ شہید بہشتی منجیمنٹ اور انتظامی صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی ایک بے مثال شخصیت کے حامل تھے۔
اگر چہ باب شہادت میں خسارے اور نقصان کا تصور نہیں ہے اور کسی بھی شہید کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی شہادت دنیای اسلام کیلۓ ایک خسارہ ہے کیونکہ شہادت کی برکت اتنی عظیم ہوتی ہے کہ ہر بڑے سے بڑے نقصان کا ازالہ کر دیتی ہے لیکن حق یہ ہے کہ اس عظیم شہید (بہشتی) اور سانحہ ہفتم تیر کے دیگر شہیدوں اور عدلیہ کے شہداء کا فقدان ایک بہت بڑا فقدان تھا۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال ان سب انسانوں کی ارواح طیبہ کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرےگا اور ان عزیز شہیدوں کی برکت سے ملک کے سب اداروں بالخصوص عدلیہ پر اپنی رحمت و برکت نازل فرماۓ گا اور ہم سب کو ان کی برکتوں سے فیضیاب کرےگا۔

شہدای سانحہ ہفتم تیر کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات سے اقتباس1997-6-28