فکر و نظر

نظارت و نگرانی

فہرست نظارت و نگرانی      نظارت کی اہمیت     نگرانی کا معیار مجریہ، مقننہ، عدلیہ اور نظارت     نظارت اور مجریہ     نظارت اور مقننہ     نظارت اور عدلیہقائد انقلاب اور نظارت      ماہرین کی کونسل کی نظارتی روش  شورائے نگہبان یعنی نگراں کونسل کے نظارتی فرائض      اہلیت و صلاحیت کی نگرانی     انتخابات کی نظارتعمومی نظارت     امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، عمومی نظارت    حکام کی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر    اخبارات و جرائد کا نظارتی کردار    اخبارات و جرائد کی نظارتالہی نظارت   نظارت و نگرانی نظارت کی اہمیت ما تحت عملے پر نظارت رکھنا بہت اہم ہے۔ میں تاکید کر رہا ہوں کہ اعلی عہدہ داران اور دائریکٹر حضرات ما تحت عملے پر نظارت و نگرانی کو خاص اہمیت دیں۔ آپ کی کھلی نگاہیں جب آپ کے دائرہ کار میں دوڑتی رہیں گی تب ہی کام کے صحیح طور پر آگے بڑھتے رہنے کی ضمانت حاصل ہو سکے گی۔ انسانی عملے مشینوں کی طرح نہیں ہوتے کہ ایک بٹن دبا دیا اور مشین خود بخود کام کرنے لگی۔ انسانوں کے عملے میں ارادہ ہوتا ہے، فکر و نظر ہوتی ہے، ذوق اور رجحان ہوتا ہے، اچھی اور بری خواہشیں ہوتی ہیں۔ جو فیصلہ آپ نے کیا ہے اور جس کا انتظام کیا ہے اور جو کام آپ کے ما تحت عملے میں انجام پانا ہے، ممکن ہے اس میں کسی جگہ پر پہنچنے کے بعد انہی ارادوں، نقطہ نگاہ، ذوق یا خواہشوں کی شکل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے۔ جیسے بہتے ہوئے پانی کے سامنے کوئی پتھر آ جائے یا پانی کے ہلکے بہاؤ کے سامنے ریت آ جائے تو بہاؤ مڑ جائے گا۔ اب اس رکاوٹ کو دور کرنا ہوگا اور ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب نظارت ہو۔ معلوم ہوا نظارت بہت اہم ہے۔ ٹاپ نگرانی کا معیار نظارت و نگرانی کے سلسلے میں قانون اور معینہ معیار ملحوظ رکھا جانا چاہئے، ذاتی ذوق اور رجحان نہیں۔ آپ ہرگز ذاتی ذوق کے مطابق آگے نہ بڑھئے۔ اس انداز سے کام کیجئے کہ اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے سامنے جواب دے سکیں۔ قوانین پر عمل آوری کے سلسلے میں کوئی رو رعایت نہ کیجئے۔ اخلاقی پہلوؤں پر توجہ دینا چاہئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ذاتی امور کو بنیادی مسائل میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر سیاسی مسائل کو انقلابی ہونے یا انقلاب مخالف ہونے جیسے موقف سے چسپاں نہیں کرنا چاہئے۔ دوستی اور دشمنی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کبھی کسی کو ایک شخص پسند ہوتا ہے اور دوسرا نا پسند۔ ایسے میں بہت محتاط رہنا چاہئے کہ یہ چیز کسی بھی سطح پر آپ کو متاثر نہ کر دے۔ آپ بغیر تحقیق کے کسی پر بھی الزام نہ لگائیے۔ ظاہری طور پر انتہائی ابتدائی علامتیں دیکھ کر کسی کو مجرم قرار نہیں دینا چاہئے۔ ٹاپ مجریہ، مقننہ، عدلیہ اور نظارت نظارت اور مجریہ یہ بیوروکریسی اور یہ انتظامیہ جو ناگزیر سسٹم ہے، اگر اس کی نگرانی نہ کی جائے تو بہت خطرناک چیز میں تبدیل ہو جائے گی۔ نگرانی آپ کو بآسانی آپ کے اہداف تک پہنچا سکتی ہے۔ اگر مجریہ کا سسٹم آپ کے ہاتھ میں نہ ہو تو آپ کوئی ہدف حاصل نہیں کر سکتے، لیکن یہ سسٹم اگر چاہ لے تو آپ کو اس ہدف تک ہرگز پہنچنے نہ دے۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ اس کی تشکیل اور پورے سسٹم پر ‏آپ کی نظارت کیسی ہے۔ اگر آپ نے اس پر بھرپور نگرانی رکھی تو یہ آپ کے اختیار میں رہے گا لیکن اگر آپ نے غفلت برتی تو پھر آپ خود اس کے دام میں اسیر ہو جائیں گے۔ پھر آپ کتنے ہی طاقتور ہوں، اس سے نمٹ نہیں پائیں گے۔  میں یہ نہیں کہتا کہ صرف بہترین افراد کا ہی انتخاب کریں۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک معیار معین کرکے اپنے عملے کے ایک، دو یا دس ہزار افراد کو اول سے لیکر آخر تک اسی معیار پر پرکھا جائے؟! یہ کہاں ممکن ہے؟! مان لیجئے آپ نے اسی معیار پر سب کو تولا، لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ سب ہمیشہ اچھے ہی رہیں۔ کیونکہ کیا اچھے انسانوں کو وسوسے منحرف نہیں کر دیتے؟! بنابریں سب سے قابل اعتماد چیز یہ ہے کہ آپ نظارت اور نگرانی کے لئے وقت دیجئے۔  اگر ایک اچھا ڈائریکٹر اپنا وقت تقسیم کرنا چاہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسے اپنا آدھا وقت اپنے ما تحت سسٹم کی نظارت پر اور باقی نصف وقت دیگر کاموں مثلا غور و فکر کرنے، منصوبہ سازی کرنے، احکامات صادر کرنے، میٹنگیں کرنے وغیرہ میں صرف کرنا چاہئے۔ ما تحت سسٹم پر نظارت کا مطلب ہے کہ آپ ہمیشہ موجود رہئے۔ البتہ وزراء کے کاموں پر صدر مملکت کی نظارت وزراء کی اپنے کاموں میں آزادی و خود مختاری سے متصادم نہ ہونے پائے۔ وزراء کے قانونی فرائض ہوتے ہیں، وہ پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر چکے ہوتے ہیں تو وہ خود مختار ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وزراء کے سلسلے میں بھی نظارت لازمی ہے۔ ان کی آزادی عمل اپنی جگہ باقی ہے لیکن صدر کی جانب سے ان کی مکمل نگرانی کی جانی چاہئے۔ ٹاپ نظارت اور مقننہ ایسے قوانین وضع کرنا جو حکومت کو امور کا انتظام صحیح طور پر چلانے پر مامور اور ساتھ ہی اس پر قادر کریں اور پھر ان پر صحیح طریقے سے عملدرآمد کئے جانے کی نگرانی کرنا پارلیمنٹ کا اولیں فریضہ ہے۔ یہ فریضہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے درمیان تعاون اور ہم خیالی اور ساتھ ہی پارلیمنٹ کی جانب سے انتظامیہ کی حمایت کا متقاضی ہے۔ (در حقیقت) قانون سازی اور سرکاری حکام کی کارکردگی کی نگرانی مقننہ کا فریضہ ہے اور (اسلامی جمہوریہ ایران) کے آئین کی رو سے پارلیمنٹ، حکومت کی نگراں ہے۔ اگر مجریہ کسی مقام پر کجی کا شکار ہو جائے اور غلط سمت میں آگے بڑھنے لگے، یا خدا نخواستہ (اختیارات کا) غلط استعمال ہونے لگے یا کوئی بد عنوانی ہو جائے تو ایسے میں بد عنوانی اور انحراف کا سد باب کرنے والا مرکز(پارلیمنٹ ہی ہے)۔  پارلیمنٹ، خدمت گزار حکومت بالخصوص صدر کے ساتھ تعاون کرنے کے ساتھ ہی نگراں کے فرائض بھی انجام دیتی ہے، اس کی ایک مثال یہی احتساب کا ادارہ ہے۔ احتساب کا ادارہ بہت اہم وسیلہ ہے۔ عظیم قومی بجٹ انتظامیہ کو ملتا ہے۔ یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ یہ بجٹ کیسے خرچ کیا گيا۔ کاموں کی درستی یا نادرستی کا تعین کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے پاس یہ اہم وسیلہ ہے۔ اس کی جانب سے غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ نگرانی کے وسائل سے استفادے کے سلسلے میں زیر نگرانی اجرائی شعبوں سے رابطہ بھی قانونی ہونا چاہئے۔ بعض رابطے نا درست ہوتے ہیں وہ آپ کے لئے نقصان دہ ہیں۔ یہ فرض کرنا محال نہیں کہ بعض زیر نگرانی اداروں کے ساتھ نادرست رابطے ہوں۔ اس سے نگرانی مختل ہوکر رہ جائے گی اور اس کی قوت تاثیر ختم ہوکر رہ جائے گی۔ آئین سے پارلیمنٹ کو جو وسیع توانائی ملی ہے اس کے اختیار سے نکل جائے گی، پھر پالیمنٹ بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔  پارلیمنٹ کی جانب سے نگرانی بہت ضروری ہے، خواہ ادارہ احتساب جیسے وسائل کے ذریعے یا یہ کہ اراکین پارلیمنٹ بذات خود (نگرانی کریں) اور مثلا انتباہ، سوال کر لینا یا اس جیسے دیگر نگرانی کے اختیارات جو پارلیمنٹ کے پاس ہیں، یہ وسائل بہت اہم ہیں۔ ہاں یہ وسائل دو طاقتوں کے ما بین ٹکراؤ کا سبب نہ بن جائیں۔ قانون ساز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون سے ملک کی ترقی کی راہ ہموار اور تعمیری عمل کی رفتار تیز ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ پارلیمنٹ اپنے نگرانی کے فرائض میں کوئی کوتاہی کرے۔ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ حکومت کے اعلی عہدہ داروں پر اپنے اعتماد کے لئے، ان کی فرض شناسی، تدین، افادیت، مہارت، نظام اور عوام سے وفاداری کو معیار قرار دے اور ان کی کارکردگی پر قانونی نگرانی کے سلسلے میں سنجیدگی سے کام کرے۔ یہ رابطہ اتنا صحتمند ہونا چاہئے کہ حکومت پارلیمنٹ کو بڑے کاموں کے سلسلے میں مشکل کشا تصور کرے اور اپنے دشوار فرائض کی انجام دہی میں اس (پارلیمنٹ) کی حکمت و دوراندیشی سے استفادہ کرے۔ ٹاپ نظارت اور عدلیہ عدلیہ کو چاہئے کہ قانون کی نگرانی کا خیر مقدم کرے۔ قانون، نگرانی کا ایک ذریعہ ہے۔ قانون خود عدلیہ کے اندر رکھا گیا ایک ایسا عنصر ہے جو عدلیہ پر نظارت کے لئے بہت اہم اور موثر ہے۔ معیار، قانون ہونا چاہئے اور قوانین کی ہرگز خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے، کسی کو مستثنی نہیں کیا جانا چاہئے۔ قانون کے دائرے کو کسی بھی وجہ سے کم نہیں کیا جانا چاہئے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ نگرانی اور نظارت کا استقبال کرے۔ ہر طرح کی نظارت، ہر اظہار خیال اور حتی منصفانہ تنقید کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ مالی امور ہوں یا غیر مالی امور، جس کا حساب کتاب صاف ہے اسے احتساب کا کیا خوف؟ متعلقہ اداروں مثلا احتساب کے ادارے اور دیگر نگراں اداروے اسی طرح عدلیہ کے دائرے سے باہر کے افراد مثلا یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مرکز کے اہل نظر حضرات اور ملک کے قانون داں اپنی رائے ظاہر کریں، اپنی تجاویز پیش کریں، تنقیدیں کریں، اس سے عدلیہ کو تقویت ملے گی۔ اسے مزید استحکام حاصل ہوگا۔ بحمد اللہ عدلیہ بڑے اچھے ستونوں پر استوار ہے، اس کی بنیادیں بڑی اچھی اور اسلامی جمہوری نظام کے مقدس اصولوں سے ماخوذ ہیں اور ان کا تکیہ گاہ اسلامی احکام ہیں۔ یہ مستحکم ادارہ ہے اسے کسی سے کوئی خوف نہیں ہے۔ اس کی جتنی زیادہ نظارت اور نگرانی کی جائے اور اس کے سامنے جتنے زیادہ قانونی چیلنج موجود ہوں اس کے لئے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس طرح اس میں اور پختگی آئے گی۔   ٹاپ قائد انقلاب اور نظارت کوئی بھی نظارت سے بالاتر نہیں ہے۔ قائد انقلاب بھی اس سے مستثنی نہیں تو قائد انقلاب سے وابستہ اداروں کے مستثنی ہونے کا کیا سوال ہے؟ سب کی نگرانی کی جانی چاہئے۔ ان لوگوں پر نظارت جو حکومت کر رہے ہیں، کیونکہ فطری طور پر حکومت قدرت اور دولت کے اجتماع سے عبارت ہے۔ یعنی قومی خزانہ اور سماجی و سیاسی اختیارات حکام کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، تاکہ وہ ایمانداری سے کام کریں۔ (چیزوں کا) غلط استعمال نہ کریں، ان کا نفس سرکشی پر آمادہ نہ ہو جائے، یہ لازمی اور واجب ہے۔ اس کا ہونا ضروری ہے۔ قائد انقلاب سے وابستہ اور قائد انقلاب سے الگ اداروں والی تقسیم درست نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ آئین کی رو سے مجریہ، عدلیہ اور مقننہ تینوں، قائد انقلاب کے زیر نظر ادارے ہیں۔ اسی طرح دیگر ادارے بھی ہیں۔ قائد انقلاب کے زیر نظر ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ قائد انقلاب کسی ادارے کا انتظام سنبھالتا ہے۔ خیر جو بھی ہو، سب کی نظارت ضروری ہے۔ تمام حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو چاہئے کہ احتساب سے ہرگز نہ گھرائیں۔ مشہور کہاوت ہے:  آن را کہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک است  اپنا حساب کتاب صاف رکھیں تاکہ احتساب سے انہیں کوئی گھراہٹ نہ ہو۔ تو ایسا نہیں ہے کہ جو ادارے قائد انقلاب سے وابستہ ہیں وہ نظارت سے مستثنی ہیں۔ نظارت کا عمل پوری سنجیدگی سے انجام دیا جانا چاہئے۔ یہ میرا نظریہ ہے جسے میں ماہرین کی کونسل کے اراکین اور دیگر افراد کے سامنے بارہا بیان کر چکا ہوں۔ میں نظارت کو پسند کرتا ہوں اور اگر کوئی کسی جگہ نظارت سے بھاگتا ہے تو مجھے اس سے شدید شکایت ہے۔ میری اپنی جتنی زیادہ نظارت کی جائے مجھے اتنی ہی خوشی ہوگی۔ یعنی نظارت مجھے بار محسوس نہیں ہوتی۔ بنابریں میں اس بات سے خوش ہوں گا کہ نظارت کی جائے۔ البتہ اگر کوئی نظارت کر رہا ہے اور اسے کچھ معلوم ہے تو اسے چاہئے کہ ماہرین کی کونسل کو اس سے با خبر کرے، وہ یقینا اس سے استفادہ کرے گی۔   ٹاپ ماہرین کی کونسل کی نظارتی روش ماہرین کی کونسل کا سب سے اہم کام قائد انقلاب کا انتخاب اور دوسرے مرحلے میں قائد انقلاب پر نظر رکھنا ہے، تاکہ اس کا اندازہ رہے کہ اس کی صلاحیت و اہلیت باقی ہے یا نہیں؟ اس کا علم، اس کا تقوی، اس کی انتظامی صلاحیت، اس کا فہم و ادراک اور اس کا خلوص و صداقت برقرار ہے اور (یہ صفتیں) معیار سے نیچے تو نہیں آئی ہیں۔ اسے اس کی نظارت کرنا ہے۔ یہ ماہرین کی کونسل کا سب سے اہم کام ہے۔ ملک میں کوئی دوسرا ادارہ نہیں ہو جو اس اہم کام کو انجام دے اور جسے اس کی اجازت ہو یا جس پر اس کی ذمہ داری ہو۔  ماہرین کی کونسل کی ایک تحقیقاتی ٹیم ہے۔ قائد انقلاب کے کاموں پر نظر رکھنے کی ذمہ دار یہی تحقیقاتی ٹیم ہے۔ اس ٹیم کا کام سال میں ایک بار نہیں ہوتا، اس کا کام جاری رہتا ہے اور قائد انقلاب کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے قائد انقلاب کے کام خفیہ نہیں ہوتے کیونکہ قائد انقلاب کے فرائض اور ذمہ داریاں معین اور واضح ہیں۔ یہ ٹیم آتی ہے تحقیق اور سوال و جواب کرتی ہے۔ یہ ٹیم ماہرین کی کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کرتی ہے۔ ماہرین کی کونسل کے اراکین اپنے ایک دو دنوں کے اجلاسوں میں کافی بحث کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک اعلامئے پر اکتفا کر لیتے ہوں۔ اس میں بڑی بحثیں ہوتی ہیں اور مختلف خیالات سامنے آتے ہیں۔ تو یہ لوگ اپنا کام انجام دیتے رہتے ہیں۔ اس اہم ادارے کا سال میں دو اجلاس کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ پہلے ماہرین کی کونسل کا ایک سالانہ اجلاس ہوتا تھا لیکن پچھلے کچھ سالوں سے ہر سال دو اجلاس منعقد ہو رہے ہیں۔ (نظارت کے لئے) ماہرین کی کونسل کے علاوہ خود عوام بھی ہیں۔   ٹاپ شورائے نگہبان یعنی نگراں کونسل کے نظارتی فرائض اہلیت و صلاحیت کی نگرانی اہلیت و صلاحیت کی نگرانی ایک قانونی چیز ہے۔ نگراں کونسل کی نظارت قانون کے مطابق اور آئین سے ہم آہنگ ہے۔ اس کی بنیادیں اور جڑیں آئین میں موجود ہیں۔ یہ نظارت عام شہریوں کے لئے نہیں ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی نا مناسب، ضرررساں اور برا آدمی اس حساس مرکز میں داخل نہ ہونے پائے۔ یہ نظارت صرف پارلیمنٹ سے مختص نہیں ہے، صدر کے سلسلے میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہ نظارت اس لئے ہے کہ پارلیمنٹ، صدارت یا دیگر عہدوں پر جن کے سلسلے میں یہ نظارت رکھی گئی ہے مثلا ماہرین کی کونسل یا دیگر اداروں جیسے حساس مقامات پر ایسے افراد نہ پہنچنے پائیں جو ملک کے قوانین کی رو سے اس کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اہلیت کی نگرانی ایک اچھی چیز ہے، اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ جو لوگ تنقید اور اعتراض کرتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ نگراں کونسل کی موافقت یا عدم موافقت سیاسی رجحان اور نقطہ نگاہ پر مبنی ہوتی ہے، لیکن یہ خیال درست نہیں، نگراں کونسل کے عہدہ داروں نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے۔ میں نے بھی نزدیک سے ان کی کارکردگی پر نظر رکھی ہے اور مجھے کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔ اب یہ ممکن ہے کہ کبھی کوئی کسی چیز کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکے، یہ الگ بات ہے لیکن (کام کی) بنیاد، قانونی بنیاد ہے۔ ٹاپ انتخابات کی نظارت انتخابات کی نظارت بہت اہم چیز ہے کیونکہ انتخابات کی صحتمندی سے پارلیمنٹ صحتمند ہوگی۔ پارلیمنٹ کی صحتمندی، قوانین اور ملک میں کاموں کی بنیادوں کی صحت مندی کا پیش خیمہ ہوگی۔ کوئی بھی اجرائی ادارہ، خواہ کتنا ہی کارآمد کیوں نہ ہو، اگر اس کو سونپے جانے والے قوانین صحیح، درست اور واضح نہ ہوں تو اس میں بہرحال انحراف ہو سکتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کی صحت مندی اس میں آئین کی پابندی اور اسلامی پہلو کی پاسبانی پر موقوف ہے اور یہ چیز نگراں کونسل کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے۔ نظام کی صحت مندی کا دارومدار اس پر ہے کہ قوانین درست ہوں اور ان میں اسلام کو ملحوظ رکھا گیا ہو، چنانچہ اگر خدانخواستہ پارلیمنٹ اگر اسلام سے مطابقت رکھنے والے قوانین وضع نہ کر سکے اور اس کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو بلا شبہ حکومت اور انتظامیہ پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ بنابریں نظام کی سلامتی کا دارومدار پارلیمنٹ کی سلامتی پر ہے۔ صحتمند، طاقتور، فعال اور مومن و اصول و ضوابط کے پابند اراکین والی پارلیمنٹ (ملک کے) نظام کی صحیح طور پر قانونی پشت پناہی کر سکے گی۔ نگراں کونسل بڑا قابل اعتماد ادارہ ہے جو انقلاب نے ملک کے نظام کو بخشا ہے۔ ہم نظام کی صحتمندی کی بابت مطمئن رہیں، اس کے لئے سب سے اہم، سب سے زیادہ فعال، سب سے زیادہ موثر اور نمایاں ادارہ نگراں کونسل ہے۔ نگراں کونسل انتخابات کے سلسلے میں امانتدار نگراں ہے۔  ٹاپ عمومی نظارت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، عمومی نظارت (نظارت کا) جو پہلو سب سے پہلے مرحلے میں عوام سے متعلق ہے سماجی امور میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ انفرادی امور کے سلسلے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے تقوی پر سب سے زیادہ تاکید فرمائی ہے، لیکن سماجی امور کے سلسلے میں عوام کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے زیادہ سنجیدہ، زندہ اور حوصلہ انگیز کوئی اور حکم نہ دیا گيا ہوگا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک عمومی فریضہ ہے۔ امر بالمعروف یعنی لوگوں کو نیک کاموں کی دعوت دینا اور نہی عن المنکر یعنی لوگوں کو برے کاموں سے روکنا۔ امر اور نہی زبان سے انجام دی جاتی ہے لیکن زبان سے بھی پہلے قلب کا مرحلہ ہوتا ہے، اگر یہ مرحلہ پورا ہوا ہے تو زبان سے انجام پانے والا امر بالمعروف مکمل ہوگا۔ جب آپ اسلامی نظام کی مدد کی غرض سے لوگوں کو نیک کاموں کا حکم دیں گے مثلا فقراء کے ساتھ نیکی، صدقہ دینے، رازوں کی حفاظت، محبت، تعاون، کارہائے نیک، تواضع، حلم، صبر وغیرہ کے بارے میں آپ بات کریں اور کہیں کہ یہ کام کیجئے تو اگر اس نیک کام سے آپ کے دل کو بھی لگاؤ اور انسیت ہے تو آپ کا یہ حکم صادقانہ ہوگا۔ جب کسی کو برائیوں سے روکتے ہیں، مثلا ظلم کرنے، زیادتی کرنے، دوسروں (کے حقوق) پر تجاوز کرنے، عوام کے مال کو بے دردی سے خرچ کرنے، لوگوں کی ناموس کے سلسلے میں دست درازی کرنے، غیبت، جھوٹ، چغلی، سازش، اسلامی نظام کے خلاف سرگرمیاں انجام دینے اور اسلام کے دشمنوں کے ساتھ تعاون کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ کام نہ کیجئے تو اگر ان کاموں سے آپ کا دل بیزار ہوگا تو آپ کی یہ نہی صادقانہ ہوگی اور آپ خود بھی اس امر و نہی کے مطابق عمل کریں گے۔ لیکن اگر خدانخواستہ آپ کا دل آپ کی زبان کے ہمراہ نہ ہوا تو آپ اس انسان لعن اللہ الآمرین بالمعروف التارکین لہ کا مصداق بن جائیں گے۔ جو شخص دوسروں کو تو نیک عمل کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا، لوگوں کو تو برائیوں سے روکتا ہے لیکن خود ان کا مرتکب ہو رہا ہے، ایسا شخص اللہ تعالی کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے اور اس کا انجام بہت خطرناک ہوگا۔  اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے معنی اور ان کی حدود، عام لوگوں کے لئے واضح اور آشکارا ہو جائیں تو معلوم ہوگا کہ سماجی روابط کے سلسلے میں یہ سب سے زیادہ کارآمد، کارساز، شیریں اور جدید طریقہ ہے۔ یہ در حقیقت تعاون سے عبارت ہے، یہ عام نگرانی ہے۔ یہ اچھائیوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ برائیوں اور شر پر قابو پانے میں مددگار ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں گناہ کو ہمیشہ گناہ تصور کیا جائے۔ یہ چیز انتہائی خطرناک ہے کہ کوئی وقت ایسا آئے جس میں معاشرے میں گناہ کو نیکی کے طور پر متعارف کرایا جائے اور اچھے کام کو برا کہا جانے لگے اور پوری ثقافت ہی تبدیل ہو جائے۔ اگر معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر رائج ہو تو گناہ کو عوام ہمیشہ گناہ ہی تصور کریں گے، اسے نیک اور ثواب کا کام نہیں سمجھیں گے۔ عوام کے خلاف سب سے بڑی سازش یہ ہے کہ ایسی باتیں اور کام رائج کر دئے جائیں جن سے اچھے کام، جن کا دین نے حکم دیا ہے اور جن میں ان کی بھلائی ہے، لوگوں کی نظر میں برے بن جائیں اور برے کاموں کو اچھا قرار دے دیا جائے۔ یہ بہت ہی خطرناک چیز ہے۔  بنابریں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سب سے پہلا فائدہ تو یہی ہے کہ اچھائی اور برائی کو اچھائی اور برائی ہی سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف جب معاشرے میں گناہ عام ہو جائے اور عوام کو گناہوں کی عادت پڑ جائے تو جو شخص معاشرے کا ذمہ دار ہے اور عوام کو خیر و نیکی کی سمت لے جانا چاہتا ہے اس کا کام بہت مشکل ہو جاتا ہے، وہ ناکام ہو جائے گا، یا پھر آسانی سے اپنا کام نہیں کر پائے گا، یہ کام کرنے کے لئے اسے بہت کچھ صرف کرنا پڑے گا۔ ارشاد ہوتاہے لتامرن بالمعروف و لتنھون عن المنکر او لیسلطن اللہ علیکم شرارکم فیدعوا خیارکم فلا یستجاب لھم اپنے درمیان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر رائج کیجئے اور اس کے پابند رہئے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالی آپ پر شر پسندوں، مفسدوں اور (دوسروں کے) آلہ کاروں کو مسلط کر دے گا۔ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ ہو اور معاشرے میں چوری، غیر قانونی کام، بد عنوانی اور خیانت رائج ہو جائے اور (یہ صورت حال) رفتہ رفتہ معاشرے کی ثقافت کا حصہ بن جائے تو نابکار افراد کے بر سراقتدار آنے کی راہیں کھل جائيں گی۔  ٹاپ حکام کی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر   امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعدد میدان ہیں جن میں سب سے اہم حکام کا میدان ہے۔ یعنی عام لوگ حکام کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں۔ عوام حکام سے اچھے کام کا مطالبہ کریں، درخواست اور التماس کی صورت میں نہیں بلکہ تحکمانہ انداز میں۔ یہ بہت اہم میدان ہے، یہ فقط اسی میدان تک محدود نہیں بلکہ دوسرے بھی میدان ہیں۔  سارے شعبوں میں نہی عن المنکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلا توانائی رکھنے والے افراد جو کام اپنے ہاتھ میں لیتے اور انجام دیتے ہیں اس میں قومی ذخائر کا جو غلط استعمال ہوتا ہے، یعنی ملکی امور میں یہی اقربا پرستی، امپورٹ کے معاملے میں، کمپنیوں کے سلسلے میں، پیداواری ذخائر سے استفادے کے سلسلے میں حکام جو اقربا پرستی کرتے ہیں۔ ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ دو تاجر آپس میں تعاون اور دوستی کی بنیاد پر کام کرتے ہیں، یہ الگ چیز ہے، اس کا حکم بھی الگ ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص سرکاری عہدے پر ہے اور جس کے پاس اختیارات ہیں کسی شخص سے خاص قسم کے تعلقات قائم کرتا ہے۔ یہ چیز ممنوع اور حرام ہے اور اس سے ان تمام لوگوں کو روکا گیا ہے جو ان باتوں کو سمجھتے ہیں۔ ہر ادارے میں ہر شخص پر وہ ماتحت ہو یا افسر (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) واجب ہے۔ اس طرح موقع پرست افراد کو روکا جا سکتا ہے۔ ٹاپ اخبارات و جرائد کا نظارتی کردار اسلامی جمہوری نظام ایک عوامی نظام ہے۔ عوامی نظام یعنی یہ کہ اس کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل میں عوام کا کردار ہے، یہ عوام کو بے خبر نہیں رکھ سکتا، اسے عوام کو با خبر رکھنا ہے، انہیں تجزئے اور تبصرے کا موقع فراہم کرنا ہے، انہیں ضروری و مفید اطلاعات و معلومات مہیا کرانا ہے۔ ایسے نظام میں اطلاعات پانی اور ہوا کی مانند حیاتی درجہ رکھتی ہیں، ہمارا نظام اسی انداز کا ہے۔ عوام جتنے زیادہ باخبر ہوں گے اسلامی نظام کو اتنا ہی زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ بنابریں یہ نظام عوام کو واقف اور باخبر رکھنے کا متقاضی ہے۔  ہمارے معاشرے کے افراد کو چاہئے کہ مختلف سیاسی و سماجی میدانوں میں وارد ہوکر باریک بینی سے جائزہ لیں اور مناسب رہنمائی اور ہدایات کے ذریعے سب کو فرائض کی بابت آگاہ کریں۔ بے شک عوام اور حکام کے درمیان میڈیا بالخصوص اخبارات، رابطے کی وسیع کڑی ہے۔ اخبارات و جرائد کو چاہئے کہ عوام کو بر وقت مناسب اطلاعات فراہم کرنے کے کوشش کریں۔ ہمارے اخبارات و جرائد کو چاہئے کہ عوام کی اقدار، حقیقی شناخت اور آرزوؤں پر توجہ دیں۔ اخبارات و جرائد معرفت بخش اقدامات کے ذریعے عوام کو بھی ان کے فرائض سے روشناس کرا سکتے ہیں اور حکام کو بھی ان کی سنگین ذمہ داریوں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ اگر کہیں معاملہ اس کے الٹ ہو تو یہی اخبارات و جرائد اختلافی باتوں کو ہوا دیکر اور غلط فہمی اور تفرقہ و انتشار پیدا کرکے عوام اور حکام دونوں کو ان کے بنیادی فرائض سے غافل کر سکتے ہیں۔  میں اخبارات و جرائد کو بہت ضروری اور لازمی مانتا ہوں، ایرانی معاشرے اور ہر اس سماج کے لئے جو اچھی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ اخبارات و جرائد کے لئے میری نظر میں تین اہم ذمہ داریاں ہیں۔ تنقید و نظارت کی ذمہ داری، شفاف اور درست اطلاعات کی فراہمی کی ذمہ داری اور معاشرے میں تبادلہ خیال کروانے کی ذمہ داری۔ میرا ماننا ہے کہ آزادی قلم و بیان، اخبارات و جرائد اور عوام کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ آئین کے صریحی قوانین میں سے ہے۔ میرا نظریہ ہے اگر معاشرہ آزاد ذرائع ابلاغ اور آزاد و با فہم قلم سے محروم ہو جائے تو دوسری بہت سی چیزوں سے بھی محروم ہو جائے گا۔ آزاد اخبارات کا وجود قوم کے بلوغ فکری کی علامت اور در حقیقت فکری پیشرفت کی بنیاد ہے۔ یعنی ایک طرف قوم کی آزادی و فکری بلوغ سے اخبارات و جرائد کو وجود ملتا ہے اور دوسری طرف اخبارات و جرائد قوم کی فکری پیشرفت و بلندی میں مددگار ہوتے ہیں۔ البتہ اس اصول کے ساتھ ہی میری نظر میں کچھ دوسرے اصول بھی ضروری ہیں جو اخبارات و جرائد اور قلم کی آزادی کے نام پر نظر انداز نہ ہونے پائیں۔ فن تو یہ ہے کہ انسان آزادی سے بھی بہرہ مند ہو، حقیقت کا بھی ادراک رکھے اور ساتھ ہی عیوب سے بھی اپنا دامن بچائے رہے۔ ایسی روش اختیار کرنی چاہئے۔ ٹاپ اخبارات و جرائد کی نظارت اخبارات و جرائد کی نظارت ایک لازمی امر اور فریضہ ہے۔ یہ آئين، اخبارات کے قانون اور عام قانون کا تقاضا بھی ہے۔ نظارت نہ ہو تو اخبارات سے متوقع قومی مفادات و مطالبات کی تکمیل نہیں ہو سکے گی۔ بعض افراد سمجھتے ہیں کہ رائے عامہ ایک آزاد اور بے قید و بند علاقہ ہے جہاں جو جی چاہے کیا جائے۔ رائے عامہ تجربہ گاہ کا مینڈک نہیں کہ جس کا جو جی چاہے اس کے ساتھ کرے۔ غلط تجزیوں، افواہوں اور تہمت و دروغگوئی کا سہارا لیکر عوام کے جذبات، عقائد اور مقدسات پر ضرب لگائی جائے۔ یہ تو درست نہیں ہے۔ بنابریں نظارت لازمی ہے، تاکہ ان چیزوں سے بچا جا سکے۔ یہ ایک فریضہ ہے۔  ٹاپ الہی نظارت ہمیں چاہئے کہ اپنے تمام فیصلوں اور اقدامات میں آخرت کو دخیل کریں اور اسے بنیادی کردار دیں۔ بعض لوگ، عوامی نظارت اور اس کا تو خیال رکھتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ لیکن الہی نظارت اور اس چیز کو کوئی اہمیت نہیں دیتے جس پر ہمارے مستقبل و انجام کا انحصار ہے۔ ہم عمر کے ہر موڑ پر وجود و عدم کے دہانے پر ہوتے ہیں موت کے دوسری طرف الہی محاسبہ اور حساب کتاب کرنے والے باریک بینوں کے مواخذے کا سامنا ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہئے۔ زندگی، ابدیت اور حقیقی انجام تو ہم ہی سے متعلق ہے۔ اس کو اہمیت دیں۔ چار دن کے لئے ہم آئے ہیں، ہمیں اس جگہ کو آباد کرنا چاہئے، جو بات کہیں، جو دستخط کریں، جو مشورہ دیں، جو فیصلہ کریں، جو برطرفی اور تقرری کریں اس میں آخرت، خوشنودی پروردگار اور محاسبہ آخرت کو مد نظر رکھیں۔  بعض کا خیال ہے کہ دولت و ثروت کی ماہیت و حقیقت ہی شر پر مبنی ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ قدرت و دولت زندگی کے دیگر عطیات کی مانند زینت کا درجہ رکھتی ہے۔ (زینۃ الحیاۃ الدنیا) ہم اس طاقت کو استعمال کس طرح کر رہے ہیں؟ اگر صحیح استعمال کیا تو یہ (شر نہیں) خیر ہے، اگر ہم نے اس سے عوام کی خدمت کی تو یہ خیر ہے، اگر ہم نے اسے اخلاقیات و روحانیت کی ترویج اور انسانوں کی فلاح و نجات کے لئے استعمال کیا تو یہ خیر ہے لیکن اگر ہم نے ذاتی مفادات کے لئے، خواہشات کے لئے اور درندوں کی طرح کبھی اس پر تو کبھی کسی اور پر جھپٹ پڑنے کے لئے استعمال کیا تو یہی (سرمایہ) شر میں تبدیل ہو جائے گا اور اس کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی اس کا شر بھی اتنا ہی زیادہ بڑھ جائے گا۔ نظام کے حکام اللہ تعالی کو ہر آن حاضر و ناظر جانیں۔ قیامت کے دن ہونے والے الہی محاسبے کو سنجیدگی سے لیں۔ محاسبہ الہی بر حق ہے۔ معمولی سے معمولی کام، لمحے بھر کی کوتاہی اور غفلت سب ہمارے نامہ اعمال میں محفوظ ہو جاتی ہے اور باقی رہتی ہے۔ ان میں ایک ایک کا حساب لیا جائے گا۔ اسی طرح آپ فرائض کی انجام دہی میں جو سختیاں برداشت کر رہے ہیں اس کا بھی ایک اک لمحہ آپ کے نامہ اعمال میں محفوظ ہوگا۔ اپنے کام کے سلسلے میں آپ جو فکر مند ہوتے ہیں، جو سعی و کوشش کرتے ہیں، آپ کے اعصاب اور اہل خانہ پر جو دباؤ پڑتا ہے، اللہ تعالی کی راہ میں کوئی کام انجام دینے کے لئے، وہ سب اللہ تعالی کے پاس محفوظ ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی غفلت، کوتاہی، یا بے توجہی ہو گئی یا عوام اور نظام کے مفادات پر آپ نے اپنے بعض ذاتی یا جماعتی مفادات کے باعث توجہ نہ دی تو یہ سب اللہ تعالی کے پاس محفوظ رہے گا اور اللہ تعالی اس بارے میں ہم سے سوال کرے گا۔ ٹاپ