فکر و نظر

شورائے نگہبان یا نگراں کونسل

پہلا باب: شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا مقام شورائے نگہبان یا نگراں کونسل ایک مقدس ادارہشورائے نگہبان، عوام کا امین ادارہشورائے نگہبان عوامی اعتماد کا مرکزشورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام کی ضامنشورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ کے شرعی اور قانونی سرحدوں کی پاسباںشورائے نگہبان کی توہین نا قابل برداشتآئینی انقلاب کے صف اول کے علماء اور شورائے نگہبان کا فرقعوام کے ووٹوں کی حفاظتقائد انقلاب، انتخابات میں بد عنوانی کا سد بابصحیح انتخابات کی خصوصیات دوسرا باب: شورائے نگہبان کی نگرانی کی اہمیت انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں شورائے نگہبان کی نظارت کی اہمیتنا اہل افراد کے لئے سد راہ شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا سنجیدہ اقدامشورائے نگہبان کی آئین پر نگرانی اسلامی نظام کے ستونوں پر دشمن کا حملہ تیسرا باب: انتخابات کی نگرانی انتخابی مبصرین کے انتخاب کی شرائط انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار افرادانتخابات کے اجرائی عہدہ دار و ناظر اور قانون کی پابندی چوتھا باب: اہلیت کی تشخیص اہلیت کی تشخیص، شورائے نگہبان کا فریضہشورائے نگہبان کی توثیق، انتخابی امیدوار کی اہلیت کا ثبوتاہلیت کا جائزہ ایک بین الاقوامی اصولشورائے نگہبان، منتخب ہونے کے حق کا جائزہ لیتی ہےمسترد ہو جانے والے افراد پر تہمت سے گریز پانچواں باب: وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان کا دفاع قانون کے مطابق عملشورائے نگہبان اور وزارت داخلہ پر قائد انقلاب کا اعتماد شورائے نگہبان پہلا باب: شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا مقام شورائے نگہبان یا نگراں کونسل ایک مقدس ادارہ شورائے نگہبان ایک مقدس ادارہ ہے کیونکہ اس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہے۔ اس ادارے میں ان افراد کو رکھا جاتا ہے جو عادل اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوتے ہیں۔ کیا کسی ایک شخص کے درجہ اجتہاد پر فائز ہونے اور اس کے عادل ہونے کے لئے ولی فقیہ کی گواہی کافی نہیں ہے؟ جب ولی فقیہ نے کسی کو اس ادارے میں قرار دیا ہے تو وہ شخص عادل اور درجہ اجتہاد پر فائز ہے۔ ٹاپ شورائے نگہبان، عوام کا امین ادارہ شورائے نگہبان یا نگراں کونسل اپنی گفتگو، اقدام اور عمل میں امین و بھروسہ مند ہے۔ سب کو چاہئے کہ اس ادارے کو امین کی حیثیت سے دیکھیں۔ جب کوئی جج فیصلہ سناتا ہے تو ممکن ہے اس وقت کسی شخص کے دل میں کوئی اعتراض ہو اور وہ اعتراض بھی بجا ہو لیکن جج کا فیصلہ ایک امین کا فیصلہ مانا جائے گا اور اس پر سب کو اعتماد کرنا چاہئے۔ شورائے نگہبان کا بھی یہی عالم ہے۔ قوانین اور اجرائی امور میں اس ادارے پر عوام کا اعتماد اور بھروسہ ہونا چاہئے اور بحمد اللہ انہیں بھروسہ ہے۔ کسی کو بھی اس ادارے کے مقام و منزلت میں کمی کرنے کی غرض سے اس پر سوالیہ نشان نہیں لگانا چاہئے۔ اس مقام و منزلت کی معرفت اور عمل کے ساتھ قائد انقلاب نگراں کونسل کی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی بات کہتا ہے اور اس کے سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ کرتا ہے۔ ٹاپ شورائے نگہبان عوامی اعتماد کا مرکز نگراں کونسل جس طرح حقیقی معنی میں عمومی اعتماد کا ذریعہ بنی ہے اسے اس اعتماد کا مظہر بھی ہونا چاہئے۔ انتخابات میں الگ الگ نظریات اور مکاتب فکر کے افراد کی شرکت جنتی زیادہ ہوگی اسلامی جمہوری نظام کے لئے یہ اتنی ہی اچھی بات ہوگی اور خود نگراں کونسل کے لئے بھی یہ اچھی چیز ہے۔ ایسا انتظام اور عمل ہونا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کی شرکت کی راہ ہموار ہو۔ کسی بھی نظرئے کے افراد کو خواہ وہ کسی ایک ہی شہر تک محدود کیوں نہ ہوں یہ محسوس نہیں ہونا چاہئے کہ انتخابات میں ان کی شمولیت نہیں ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ ہر جگہ ہر شخص کو یہ محسوس ہو کہ وہ اپنے پسندیدہ اور مرضی کے شخص کا ازادانہ انتخاب کر سکتا ہے۔ یعنی اس سلسلے میں شورائے نگہبان کا عمل ایسا ہو کہ وہ عوام کے اعتماد کا مظہر بن جائے۔ ٹاپ شورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام کی ضامن اسلامی جمہوریہ ایران کا استحکام اس کی اسلامی شناخت پر منحصر ہے اور شورائے نگہبان اس چیز کی ضامن ہے۔ اگر شورائے نگہبان نہ ہوتی تو رفتہ رفتہ نظام کی ماہیت اور اس کے ستونوں میں تغیر پیدا ہوتا۔ شورائے نگہبان کے لئے بس یہی افتخار بھی کافی ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد کے برسوں میں اس کا سارا ہم و غم یہ رہا کہ اسلام اور آئین سے مطابقت کے لحاظ سے نظام کے پیکر میں کوئی نقص نہ پیدا ہونے پائے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے جسے اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین نے اس نظام کی حقانیت کی ضمانت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اگر شورائے نگہبان نہ ہو یا کمزور پڑ جائے یا اپنا کام انجام نہ دے تو اس نظام کی اسلامی روش اور حرکت پر سوالہ نشان لگ جائے گا۔ کیونکہ نظام قوانین کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے، اگر قوانین اسلامی ہوئے تو ایران کا نظام بھی اسلامی رہے گا۔ کون سا ادارہ یہ طے کرے گا کہ قوانین اسلامی ہیں یا نہیں ہیں؟ ظاہر ہے شورائے نگہبان۔ اسلامی جمہوری نظام میں شورائے نگہبان بقیہ اداروں کی مانند نہیں ہے کہ کہا جائے کہ مختلف ادارے ہیں جن میں بعض بہت اہم ہیں اور بعض کی اہمیت اتنی نہیں ہے اور یہ بھی انہی میں سے ایک ادارہ ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ شورائے نگہبان اسلامی نظام کے آئين جیسی چیزوں کا درجہ رکھتی ہے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے کہ جس نے درست عمل کیا تو اس نطام کے دین سے منحرف ہونے کا کوئی اندیشہ پیدا نہ ہوگا۔ ٹاپ شورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ کے شرعی اور قانونی سرحدوں کی پاسباں شورائے نگہبان اسلامی نظام کو دین و اسلام اور دوسرے درجے میں آئین کے دائرے سے باہر جانے سے محفوظ رکھتی ہے۔ آئين اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ در حقیقت نظام کے اعصاب کا اصلی مرکز ہے، معیار و کسوٹی ہے۔ شورائے نگہبان کا کام یہ ہے کہ وہ ملک کے اداروں کو آئین سے منحرف نہیں ہونے دیتی۔ آئین کے بر خلاف قانون کی منظوری اور عملدرآمد کا سد باب کرتی ہے۔ اتنے اہم ادارے کی ہیبت و وقار اور عزت و حرمت کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ ٹاپ شورائے نگہبان کی توہین نا قابل برداشت اگر کچھ لوگ شورائے نگہبان کو برا بھلا کہتے ہیں تو در حقیقت انہوں نے قانون شکنی کی ہے۔ قائد انقلاب خاموش تماشائی بن کر یہ نہیں دیکھ سکتا کہ اسلامی جمہوری نظام کے رسمی ترین، اطمینان بخش ترین اور معتمد ترین ادارے کی کوئی شخص اس لئے توہین کرے کہ وہ بجا یا بے جا طور پر خشمگیں ہے۔ اگر شورائے نگہبان کے سلسلے میں بد کلامی کی تکرار ہوئی تو قائد انقلاب اپنے فرائض کے پیش نظر اسے تحمل نہیں کرے گا۔ اگر ملک کے ان قانونی اداروں میں سے کسی ایک پر چند افراد حملے کریں تو قائد انقلاب کا فریضہ ہے کہ اس قانونی ادارے کا دفاع کرے۔ ٹاپ آئینی انقلاب کے صف اول کے علماء اور شورائے نگہبان کا فرق اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں شورائے نگہبان کا کردار آئینی انقلاب کے صف اول کے علماء سے زیادہ اہم ہے۔ صف اول کے علماء ان مذہبی رہنماؤں کو کہا جاتا تھا جن کا ذکر آئینی انقلاب کے بعد کے آئین میں کیا گیا تھا اور آئین کی رو سے یہ ضروری تھا کہ پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے سارے قوانین صف اول کے علماء کی توثیق کے لئے بھیجے جائيں اور اگر یہ علما ان قوانین کو اسلام کے خلاف پائیں تو قانون کو کالعدم قرار دے دیں۔ صف اول کے علما کا ایک تو آئین کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کا کام صرف شرعی امور تک محدود تھا، دوسرے یہ کہ آج جو لوگ شورائے نگہبان میں ہیں انہیں ملک کے مسائل، انقلاب کے مسائل اور انقلاب کی راہ میں موجود تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے بارے میں ان افراد سے زیادہ واقفیت ہے جو اس زمانے میں صف اول کے علماء کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ہماری خوش قسمتی یہ رہی کہ انقلاب میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ جیسی با بصیرت، با حکمت اور پختہ ارادے کی حامل شخصیت موجود تھی جس نے شورائے نگہبان کے ساتھ صف اول کے علماء جیسا سلوک نہیں ہونے دیا۔ Top عوام کے ووٹوں کی حفاظت عوام کے ووٹوں کی حفاظت و صیانت ہونا چاہئے۔ وزارت داخلہ کے متعلقہ حکام بھی اور شورائے نگہبان کے مبصرین بھی بہت محتاط رہیں اور ایک اک ووٹ کی حفاظت و نگہداشت میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ البتہ قائد انقلاب کو اپنے حکام پر پورا اعتماد ہے لیکن انہیں بہت زیادہ محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ عوام کے ووٹ ان کے ہاتھ میں الہی امانت کی مانند ہیں۔ ٹاپ قائد انقلاب، انتخابات میں بد عنوانی کا سد باب بھلا یہ بھی ممکن ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابات میں کوئی یہ جرئت کرے کہ عوام کے ووٹوں سے چھیڑ چھاڑ کرے؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شورائے نگہبان ایک عادل، محتاط اور ہوشیار نگراں ادارہ ہے انتخابات کے سلسلے میں، وہ کسی بد عنوانی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ دوسری بات یہ کہ وزارت داخلہ بھی ایک ووٹ بھی ادھر ادھر نہیں ہونے دیتی۔ یہ (انتخابات کے متعلقہ حکام) مسلمان، انقلابی، دیندار اور معتمد علیہ افراد ہیں۔ انہیں پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ ملا ہے۔ بفرض محال اگر کسی گوشے میں کوئی چھوٹی سی گڑبڑی ہوئی بھی ہے تو اس کا انتخابات کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑے گی۔ قائد انقلاب کی طرف سے بھی پوری چوکسی اور احتیاط برتی جاتی ہے کہ کوئی بھی انتخابات میں بد عنوانی کی جرئت نہ کرے۔ یہ شریعت کے بھی خلاف ہے اور سیاسی و سماجی اخلاقیات کے بھی منافی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ٹاپ صحیح انتخابات کی خصوصیات انتخابات کی صحت کا علم پولنگ اور ووٹوں کی شمارش کے وقت نہیں ہوتا۔ صحیح انتخابات کا تقاضا یہ ہے کہ انتخابات سے قبل صحتمند فضا قائم کی جائے۔ ایسی فضا جس میں عوام کو فیصلہ کرنے اور درست انتخاب کرنے کا بھرپور موقع ملے۔ عوام کو یہ موقع ضرور ملنا چاہئے کہ وہ انتخاب کریں اور فیصلہ کریں۔ جو عمل بھی فضا کو غیر صحتمند بنا دے اور ہر وہ تشہیراتی روش اور اقدام جو عوام کی قدرت انتخاب کو متاثر اور کمزور بناتا ہو وہ انتخابات کو کمزور کرنے والا اقدام ہے۔ اس نکتے پر انتخابات سے قبل توجہ دی جانی چاہئے۔ جو انتخابی کیمپین چلائی جاتی ہے، جو اقدامات کئے جاتے ہیں، بالخصوص ذرائع ابلاغ عامہ جو کام کرتے ہیں افراد کم متعارف کرانے کے سلسلے میں یا ان کی شبیہ خراب کرنے کے سلسلے میں یا عوام کی برین واشنگ کے طور پر جو اقدامات انتخابات سے قبل انجام دئے جاتے ہیں اور جن سے لوگوں کا ذہن خاص سمت میں موڑا جاتا ہے، انتخابات سے قبل ایسی صورت حال نہیں پیدا کی جانی چاہئے کہ رائے دہندگان ذہنی طور پر الجھ کر رہ جائیں اور جو فیصلہ کریں وہ پورے ہوش و حواس کے ساتھ نہ ہو بلکہ جب انہیں ہوش آئے تو محسوس ہو کہ نہیں انہوں نے مناسب فیصلہ نہیں کیا۔ اگر انتخاباتی کیمپین میں شامل افراد یا ان کی تشہیراتی مہم اور ذرائع ابلاغ عامہ کی کارکردگی اس طرح کی صورت حال پر منتج ہو جس میں عوام کی انتخاب کی قدرت و توانائی ختم ہوکر رہ جائے تو اس سے انتخابات کا اعتبار مجروح ہوگا۔ شورائے نگہبان کو اس طرح کی صورت حال کو روکنے کیلئے مناسب انتظام رکھنا چاہئے۔ ٹاپ دوسرا باب: شورائے نگہبان کی نگرانی کی اہمیت انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں شورائے نگہبان کی نظارت کی اہمیت اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کو کام سونپنے کا مطلب ہے، اس کام کو زیادہ سے زیادہ معتبر اور لائق اعتماد بنانا۔ کسی بھی دیگر (ادارے) کو اگر انتخابات کی ذمہ داری سونپی گئی ہوتی تو ممکن تھا کہ شائد کچھ لوگوں کے ذہنوں میں کچھ سوال پیدا ہوتے۔ یعنی ملک میں سرکاری اداروں میں کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں تھا کہ انتخابات پر جس کی نظارت و نگرانی عوام اور حکام کی نظر میں اتنی معتبر ہوتی جتنی کہ شورائے نگہبان کی نظارت و نگرانی قابل اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے کہ بنیادی طور پر اس کی ساخت اور اس کا ڈھانچہ بجائے خود صرف ایسے افراد کو قبول کر سکتا ہو جن کا تقوا و ایمان بلند درجے پر ہو۔ اس کے علاوہ بھی شورائے نگہبان کے فقہا اور ممتاز دینی رہمنا قوم کے امام (خمینی رہ) کی جانب سے منصوب کردہ افراد ہیں۔ چونکہ یہ درجہ اجتہاد پر فائز عادل و متقی افراد ہیں لہذا ان کا ہر عمل عوام کی نظر میں اطمینان بخش ہے۔ بنابریں یہ کام بنحو احسن انجام دینے والا ادارہ شورائے نگہبان ہی ہے۔ معلوم ہوا کہ آئین میں انتخابات کی نظارت و نگرانی کی ذمہ داری شورائے نگہبان کے سپرد کئے جانے کا فیصلہ بڑی پختہ فکر کا نتیجہ تھا اور آئین نے بیدار قلوب اور با بصیرت اذہان اور انقلابی و مجاہد علماء کے درمیان سے ایک ایسے ادارے (کے اراکین) کو مامور کیا۔ انتخابات کے امور پر شورائے نگہبان کی نگرانی کے بعد انتخابات کے سلسلے میں کوئی مسئلہ اور مشکل پیش نہیں آنا چاہئے۔ یہ سنگین ذمہ داری شورائے نگہبان کے دوش پر رکھی گئی ہے اور اس کے سپرد کی گئی ہے۔ تمام تر سیاسی تحفظات اور مکاتب فکر کی مصلحتوں سے یہ مصلحت بالاتر ہے کہ انتخابات صحیح طور پر عوامی رائے اور مرضی کا آئینہ ہوں۔ ٹاپ نا اہل افراد کے لئے سد راہ جو نمائندے پارلیمنٹ میں آتے ہیں، ان کا صالح اور اہل ہونا ضروری ہے۔ وہ علم و معرفت و صلاحیت کے کس درجے پر ہو اس کا تعین آئين میں کیا گيا ہے۔ عوام کو اپنے مفادات اور فلاح و بہبود کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ شورائے نگہبان ایک معتمد علیہ ادارے کی حیثیت سے اس عمل میں ہر قسم کے خلل کو دور کرنے کے لئے موجود ہے۔ اگر کوئی بد عنوان ہے، مالی بد عنوانی یا دیگر اخلاقی، عقیدتی اور سیاسی بد عنوانی میں کوئی ملوث ہے، یا پھر کوئی فتنہ پرور ہے، نظام کو کمزور کر سکتا ہے، اداروں کی افادیت کو متاثر کر سکتا ہے تو در حقیقت ایسے شخص کو پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا جانا چاہئے وہ اس فورم کا اہل نہیں ہے۔ جن افراد کی رفتار و گفتار اس کی غماز ہے کہ وہ کسی بھی جذبے کے تحت، سیاسی جذبے یا ذاتی جذبے اور مخصوص خصلت کی بنا پر نظام کے مد مقابل کھڑا ہو سکتا ہے ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا جانا چاہئے۔ اس چیز پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر میدان سیاست میں وارد ہونے کے راستوں پر نظر رکھی جانی چاہئے کیونکہ میدان سیاست در حقیقت ملک کے انتظامی امور اور نظم و نسق کے میدان میں اترنے کا مقدمہ ہے۔ ملک کا سارا انتظام ایک شخص کے ہاتھ میں دینا ہے لہذا اس میدان میں داخل ہونے کے راستوں کی نگہبانی و نگرانی ضروری ہے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جو شخص آ رہا ہے کون ہے؟ کچھ معیار رکھے گئے ہیں اور کچھ لوگوں کا تعین کیا گیا ہے جو اس معیار پر پرکھیں۔ اس کا اہتمام آئین نے کیا ہے۔ خوش قسمتی سے ایران جوان ملک ہے(جوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے) لہذا ملک کے اس جوان چہرے کا تقاضا یہ ہے کہ پوری مجریہ میں جوش و خروش اور نشاط و شادابی نظر آئے۔ دیکھئے اور غور کیجئے کہ کون شخص حقیقت میں انقلاب اور دین کا حامی اور غریب و امیر کے ما بین تفریق اور فاصلے کا مخالف ہے۔ کس شخص میں اہلیت اور جوش و جذبہ عمل ہے، ایسے شخص کو تلاش کیجئے۔ ٹاپ شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا سنجیدہ اقدام اگر شورائے نگہبان انتخابی امور پر نظارت کے تحت قوانین کے مطابق ایک نتیجے پر پہنچ جائے تو اسے چاہئے کہ سنجیدگی سے اقدام کرے۔ کوئی بھی چیز قانونی اقدام کی راہ میں حائل نہ ہونے پائے۔ تمام امور بالخصوص ایسے معاملات میں جن سے عوام کے جذبات و احساسات اور افکار و نظریات وابستہ ہیں سنجیدہ اور ٹھوس اقدام ضروری ہے۔ ٹاپ شورائے نگہبان کی آئین پر نگرانی نظارت و نگرانی کے امور میں معیار، قانون اور ضابطہ ہونا چاہئے، ذاتی نظریہ اور موقف نہیں۔ شورائے نگہبان میں ہرگز ذاتی نظریات کو دخیل نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص خود ہی اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کرے کہ فلاں شخص پارلیمنٹ کے لئے مفید ہے اور اگر یہ پارلیمنٹ میں نہ آیا تو اس سے پارلیمنٹ کا نقصان ہوگا، اور پھر اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر اسی ذاتی رائے کے مطابق فیصلہ کر لیا جائے۔ نگراں کونسل کے اراکین کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں بھی اور اس کے بندوں کے سامنے بھی جواب دہ ہو سکیں۔ اگر شورائے نگہبان سے سوال کیا جائے کہ کس وجہ سے فلاں امیدوار کو نااہل قرار دیا گیا ہے تو کونسل جواب دے سکے کہ پالنے والے! میں قانون اور ضابطے کے مطابق عمل کرنے پر مجبور تھا۔ قانون کا یہی تقاضا تھا اور میں نے اسی بنا پر اس شخص کو نااہل قرار دے دیا یا یہ کہ اصول و قانون کے مطابق میں نے اس شخص کی اہلیت کی توثیق کی۔ یہ نہیں کہ میری یہی تشخیص تھی اور میری یہی رائے تھی۔ میں نے فلاں شخص کو مضر دیکھا اور فلاں کو مفید پایا۔ یہ چیزیں قابل قبول نہیں ہیں۔ اسے نہ اللہ تعالی قبول کرے گا نہ بندگان خدا۔ قانون کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے اور کسی بھی چیز کو قانون پر عمل آوری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے۔ ٹاپ اسلامی نظام کے ستونوں پر دشمن کا حملہ دشمن کو یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ جو چاہے کر گزرے۔ دشمن ذہنوں کو متاثر کرتا ہے پھر نطام کی بنیادوں میں نفوذ پیدا کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرتا ہے۔ شورائے نگہبان کی مثال لے لیجئے۔ اس وقت شورائے نگہبان یا نگراں کونسل پر بڑے حملے ہو رہے ہیں۔ مقصد شورائے نگہبان کو کمزور کرنا اور اسلام مخالف، خمینی مخالف اور نظام مخالف عناصر کو قانون ساز اداروں میں پہنچوانا ہے۔ اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ شورائے نگہبان ہے۔ وہ اس خیال میں ہیں کہ اس کا بھی وہی انجام کر دیں گے جو علمائے طراز اول کے نام سے معروف علما کونسل کا کیا تھا۔ وہ شورائے نگہبان کے سلسلے میں اپنے عزائم ہرگز پورے نہیں کر سکیں گے اور یہ چیز کبھی نہیں ہو سکے گی۔ دشمن کے سیاسی، دفاعی اور نفسیاتی جنگ کے منصوبہ ساز اس خیال میں ہیں کہ اگر ان کی یہ سازش کامیاب ہو جائے تو دوسرے مرحلے میں پارلمینٹ میں نفوذ پیدا کیا جا سکتا ہے اور پارلیمنٹ میں نفوذ حکومت اور نظام کے دیگر ستونوں میں نفوذ کی راہ ہموار کرے گا۔ وہ اس طرح وارد میدان ہونا چاہتے ہیں۔ ٹاپ تیسرا باب: انتخابات کی نگرانی انتخابی مبصرین کے انتخاب کی شرائط انتخابی مبصرین اور ناظروں کے انتخاب میں بہت توجہ اور احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ اس سلسلے میں جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ اسلامی اصول و ضوابط کی پابندی ہے۔ بدیہی بات ہے کہ اس نہایت اہم عمل کی نگرانی کرنے والے شخص کا باہوش اور با فہم ہونا ضروری ہے۔ اس کا باخبر ہونا ضروری ہے کہ دھوکہ نہ کھائے، غلطی نہ کرے، تاہم سب سے اہم عنصر اس کی دینداری و ایمانداری ہے۔ دینداری انسان کو بڑی غلطیوں سے بچاتی ہے، اسے لغزش سے محفوظ رکھتی ہے۔ ٹاپ انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار افراد اسلامی جمہوریہ کا انتخابی قانون خوش قسمتی سے بہت اچھا ہے۔ آئین میں بھی انتخابات پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ اجرائی عہدہ دار بھی ہے اور ناظر بھی۔ یعنی ناظر، اجرائی عہدہ دار سے الگ ہے۔ دونوں الگ الگ ہیں۔ انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار وزارت داخلہ ہے جبکہ نظارت کے فرائض شورائے نگہبان انجام دیتی ہے۔ یعنی ذمہ داریوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے اور اس پر دو زاویوں سے نظر ڈالی گئی ہے۔ حکومت اور وزارت داخلہ جو انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار ہے، عوام کی معتمد علیہ ہے اس پر مختلف اداروں کو اعتماد ہے۔ حکومت اور وزارت داخلہ قابل اعتماد ہیں لیکن غلطی کے امکان کو حد اقل سطح تک پہنچانے کے لئے شورائے نگہبان کو نگرانی کے فرائض سونپے گئے ہیں۔ شورائے نگہبان عادل اور مجتہد افراد پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں قائد انقلاب کی جانب سے منصوب کیا جاتا ہے۔ اگر وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان دونوں اپنے اپنے فرائض بخوبی انجام دیں، ہر ایک ادارہ انتخابات میں اپنا کردار پوری شجاعت اور توانائی کے ساتھ انجام دے تو ایران کے انتخابات میں کسی بھی طرح کے شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی۔ ٹاپ انتخابات کے اجرائی عہدہ دار و ناظر اور قانون کی پابندی بعض لوگ قانونی اداروں کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں۔ سرکاری محکمے منجملہ وزارت داخلہ جو انتخابات کا انعقاد کرواتی ہے اور شورائے نگہبان جو انتخابات کی نگرانی کے فرائض انجام دیتی ہے، ہر ایک کے اپنے فرائض اور اصول و ضوابط ہیں۔ کچھ لوگ اس بات پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے۔ اگر خود ان کے درمیان کسی مسئلے میں اختلاف رائے ہو تو انہیں آپس میں اسے دور کرنا ہوتا ہے۔ بعض افراد تنازعہ کھڑا کرنے کے عادی ہوتے ہیں، کبھی کسی شخص پر تو کبھی کسی دوسرے شخص پر، کبھی کسی عملے پر تو کبھی کسی اور عملے پر ایسے الزام عائد کرتے ہیں جو اسلامی ملک کے عہدہ دار کے شایان شان نہیں ہے۔ عوام کو چاہئے کہ انتخابات کے اجرائی عہدہ داروں اور ناظروں دونوں کو ایک نگاہ سے دیکھیں۔ انتخابات کے اجرائی عہدہ دار اور ناظر دونوں ہی قانون پر اپنی عمل آوری کا ثبوت دیں۔ معیار قانون ہے، لوگوں کی ذاتی رائے نہیں۔ جو قانون پارلیمنٹ میں منظور ہوا اور جس کی نگراں کونسل نے توثیق بھی کر دی ہے وہ سب کے لئے معتبر اور حجت ہے۔ اس کے لئے بھی جو اس قانون کو پسند کرے اور اس کے لئے بھی جو اس قانون کو پسند نہ کرتا ہو۔ قانون جب تک ہے سب کو اس پر عمل کرنا ہے۔ ٹاپ چوتھا باب: اہلیت کی تشخیص اہلیت کی تشخیص، شورائے نگہبان کا فریضہ شورائے نگہبان کی ذمہ داری یہ ہے کہ آئین سے ماخوذ معیاروں اور ضوابط کی بنا پر شرطیں پوری ہونے کا جائزہ لے اور اس فریضے کو سنبھالے۔ پارلمینٹ کے اراکین اور صدارتی انتخابات کے امیدواروں کے لئے کچھ شرطیں رکھی گئی ہیں اور شورائے نگہبان کا فریضہ یہ چیک کرنا ہے کہ امیدوار میں شرطیں پوری ہیں یا نہیں۔ کسی امیدوار کو مسترد کر دینے کے لئے اہلیت کا ثابت نہ ہونا کافی ہے، نا اہلی ثابت ہونا ضروری نہیں۔ بعض افراد جو مختلف عنوان سے بحث و جدل کرتے ہیں وہ عبث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شورائے نگہبان کا دارومدار عقل و منطق پر ہے۔ یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ جو بھی انتخابات میں شرکت کرنا چاہتا ہے اس کے لئے یہ شرطیں ضروری ہیں۔ شورائے نگہبان کا فریضہ اسی چیز کو چیک کرنے کا ہے کہ یہ شرطیں واقعی موجود ہیں یا نہیں۔ یعنی یہ بھی با قاعدہ شرط ہے کہ شورائے نگہبان کے لئے یہ واضح ہو کہ ساری شرطیں موجود ہیں یا نہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ کہیں کہ بعض افراد کے ساتھ ناانصافی ہو جاتی ہے۔ اگر کینڈیڈیٹ کے اندر صلاحیت ہے اور وہ انتخابات میں شرکت کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی صلاحیت شورائے نگہبان کے لئے بھی ثابت ہو جائے تو اسے چاہئے کہ نگراں کونسل کے لئے اس کی سہولت فرائم کرے، اپنا ریکارڈ اور اگر اس کے حق میں کچھ شواہد ہیں تو وہ شورائے نگہبان کو ارسال کرے۔ یعنی اپنی اہلیت ثابت کرنے کی راہ ہموار کرے۔ البتہ متعلقہ اداروں کو بھی مدد کرنا چاہئے۔ شورائے نگہبان کا کام اہلیت کا جائزہ لینے کا ہے۔ اگر شورائے نگہبان کی نظر میں اہلیت ثابت نہ ہو سکی تو وہ امیدوار کو مسترد کر سکتی ہے خواہ اس کا نا اہل ہونا ثابت نہ بھی ہوا ہو۔ ٹاپ شورائے نگہبان کی توثیق، انتخابی امیدوار کی اہلیت کا ثبوت جن لوگوں کے نام انتخابی امیدوار کے طور پر پیش کر دئے گئے ہیں در حقیقت ان کی اہلیت کو تسلیم کر لیا گيا ہے۔ ان کے نام کا اعلان ان کی اہلیت کی توثیق ہے۔ ادارے بہت محتاط رہیں کہ یہ توثیق بے توجہی کے ساتھ اور غلط انداز سے نہ کر دی جائے۔ کیونکہ یہ در حقیقت عوام سے جھوٹ بولنے کے مترادف ہوگا۔ اہلیت رکھنے والے شخص کو مسترد کرنا اور نا اہل کی توثیق کرنا دونوں ہی غلط کام اور قانون شکنی ہے۔ ادارے بہت محتاط رہیں کہ ان سے یہ قانون شکنی نہ ہونے پائے تاکہ جب انتخابات کا دن آئے تو لوگ دیکھیں، غور کریں اور جو شخص ان کی نظر میں سب سے زیادہ اہلیت و صلاحیت کا حامل ہے پوری آگاہی کے ساتھ اس کا انتخاب کریں۔ ٹاپ اہلیت کا جائزہ ایک بین الاقوامی اصول اہلیت کا جائزہ لینا اور صلاحیت کو چیک کرنا ایک عالمی روش اور اصول ہے۔ یہ صرف ایران اور ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی سے مختص نہیں ہے۔ جہاں بھی کسی کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے کہ کسی بڑے کام کے لئے کسی شحص کو مامور کرے وہ اس شخص کے بارے میں تحقیق ضرور کرتا ہے کہ اس میں صلاحیت ہے یا نہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پارلیمنٹ کی رکنیت کی ذمہ داری ہے یا کسی اور ادارے کی ذمہ داری۔ تو یہ ایک معمول کی روش ہے جس پر دنیا کے ہر ملک میں عمل کیا جاتا ہے اور تمام عقلمند انسان ایسا کرتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ ایک شخص کو کوئی عہدہ دینے کے لئے پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے پیش کیا جائے تو پارلیمنٹ بغیر تحقیق اور جائزے کے اسے اعتماد کا ووٹ تو نہیں دے گی۔ تحقیق کرے گی، تجزیہ کرے گی، مطالعہ کرے گی تاکہ یہ اطمینان حاصل ہو جائے کہ اس شخص میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر اسے وہ شخص پسند نہ آیا تو اسے مسترد کر سکتی ہے۔ مسترد کرنے پر پارلیمنٹ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ پارلیمنٹ کی نظر میں اس کی اہلیت ثابت نہیں ہو سکی اور اس نے اسے مسترد کر دیا۔ بالکل یہی چیز پارلیمنٹ کے اراکین کے سلسلے میں صادق آتی ہے۔ بنابریں یہ (جائزے کی) روش ایک معمول کی روش ہے جسے عوام بھی تسلیم کرتے ہیں اور آئین نے اس روش کی تائید کی ہے۔ ٹاپ شورائے نگہبان، منتخب ہونے کے حق کا جائزہ لیتی ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ منتخب ہونے کے شہری حق کو کسی سے سلب نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن منتخب ہونے کا شہری حق روزگار، نوکری، شہر میں رہائش، سڑکوں پر چلنے، گاڑی خریدنے وغیرہ جیسے شہری حق کے مثل نہیں ہے۔ یہ ایسا شہری حق ہے جس کے لئے کچھ اور صلاحیتیں بھی لازمی ہیں جن کے موجود ہونے کی بابت مطمئن ہونا ضروری ہے۔ ان صلاحیتوں کا جائزہ صرف شورائے نگہبان نہیں لیتی۔ وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان دونوں مل کر ان صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ صلاحیتوں کے جائزے کے سلسلے میں سب سے بہتر خود عوام ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری عوام کی ہے۔ جب انہیں کسی کی صلاحیت کے بارے میں اندازہ ہوجائے تو ایک دوسرے کو اس کے بارے میں بتائیں، اس شخص کے لئے راہ ہموار کریں تاکہ یہ اہل اور با صلاحیت شخص آگے جا سکے۔ ٹاپ مسترد ہو جانے والے افراد پر تہمت سے گریز اسلامی جمہوری نظام میں قائد انقلاب کو انتخابات کے کام انجام دینے والے اداروں پر پورا اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان قائد انقلاب اسلامی کا معتمد علیہ ادارہ ہے۔ وزارت داخلہ قائد انقلاب اسلامی کا معتمد علیہ ادارہ ہے۔ سب محنت کر رہے ہیں، مشقتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی ہے ان کے سلسلے میں شورائے نگہبان نے قانون اور ضوابط کے مطابق عمل کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ بے لیاقت انسان ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جس شخص کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی ہے اس کے بارے میں ملک میں کہیں بھی کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ الزام تراشی کرے، یہ کہے کہ ضرور آپ کا کوئی سنگین مسئلہ ہے، آپ نے کوئی جرم کیا ہے، کوئی قانون شکنی کی ہے، بد عنوانی کا ارتکاب کیا ہے۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ قانونی طور پر کچھ ضابطے رکھے گئے ہیں اور شورائے نگہبان ان قانونی ضوابط کے مطابق کچھ لوگوں کو اس فہرست میں رکھتی ہے جن کی اہلیت کی توثیق کی گئی ہے اور کچھ کو اس فہرست میں جگہ نہیں دیتی۔ جن ناموں کو جگہ نہیں ملی ہے وہ در حقیقت قانونی ضوابط پر پورے نہیں اترے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں بہت سے صالح اور نیک لوگ ہوں۔ البتہ ان (مسترد ہونے والے) لوگوں میں کچھ ناخلف قسم کے انسان بھی ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ نہ ہوں، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ جس کی بھی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی اس کے بارے میں کہا جائے کہ یہ خائن شخص ہے، نہیں ہرگز نہیں۔ ٹاپ پانچواں باب: وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان کا دفاع قانون کے مطابق عمل اسلامی جمہوریہ ایران کے قائد انقلاب اسلامی کی جانب سے وزارت داخلہ کا بھی دفاع کیا جاتا ہے اور شورائے نگہبان کا بھی دفاع کیا جاتا ہے۔ دونوں اسلامی جمہوری نظام کے فعال ادارے ہیں اور ہر ایک کے اپنے فرائض ہیں۔ وزارت داخلہ کو چاہئے کہ باریک بینی کےساتھ قانون کے مطابق عمل کرے اور عوام کے ووٹوں میں کوئی بے ایمانی نہ ہونے دے۔ جہاں تک اس کے بس میں ہے عوام کے ووٹ جمع کرے اور پھر پوری امانت داری اور احتیاط کے ساتھ ووٹوں کی گنتی کرے تاکہ نتیجہ معلوم ہو سکے۔ شورائے نگہبان بھی پوری ایمانداری کے ساتھ اس بات پر نظر رکھے کہ انتخابات میں کوئی بد عنوانی تو نہیں ہوئی۔ یہ عوام کا حق ہے کہ شورائے نگہبان اس قوم کے بدخواہوں کو مقننہ میں داخل ہونے سے روکے۔ شورائے نگہبان کو عوام کے اس حق کا پاس و لحاظ رکھنا ہے۔ اسے یہ خیال رکھنا ہے کہ اس قوم کے بدخواہ، اس انقلاب کے بدخواہ، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بدخواہ ملک کے منتخب ادروں میں داخل نہ ہونے پائیں۔ ٹاپ شورائے نگہبان اور وزارت داخلہ پر قائد انقلاب کا اعتماد وزارت داخلہ بڑی محنت کرتی ہے، شورائے نگہبان بھی بڑی محنت کرتی ہے اور دونوں پر قائد انقلاب کو اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان پر بھی مکمل اعتماد ہے اور وزارت داخلہ پربھی۔ یہ ادارے واقعی بنحو احسن اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔ بنابریں اگر کسی امتحان میں کچھ لوگ کامیاب اور کچھ ناکام ہو جاتے ہیں یا کسی کو اکثریت حاصل ہوتی اور دوسرا اکثریت حاصل نہیں کر پاتا تو یہ نہ ہو کہ کچھ انتخابی حلقوں میں کچھ فتہ پرور قسم کے افراد لوگوں کو اشتعال دلائیں کہ فلاں شخص کی اہلیت کی توثیق کیوں نہیں ہوئی۔ معترض افراد کو اپنے حکام پر اعتماد رکھنا چاہئے۔ عہدہ دار معتمد علیہ ہیں، انہوں نے یقینا کوئی وجہ دیکھی ہے جس کی بنا پر اہلیت کی توثیق نہیں کی۔ اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو تحریری طور پر حکام سے شکایت کرے۔ یہ نہیں کہ کچھ لوگ دھرنے پر بیٹھ جائیں، یہ تو فتنہ پرور عناصر کی اشتعال انگیزی ہے۔ فتنہ پرور سامراج سے وابستہ وہ عناصر ہیں جو حالات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسا کام کر دیں کہ انتخابات پرامن طریقے سے منعقد نہ ہونے پائیں۔ ایسے میں ان سے بعید نہیں ہے کہ کچھ لوگوں کو ورغلائیں۔ ٹاپ