فکر و نظر

عدلیہ

عدلیہ کا فسلفہ وجودی جج، عدلیہ کا محور عدلیہ کی نگرانی عدلیہ کے فرائض    قیام عدل و انصاف      انصاف کی ضرورت      انصاف کی بنیاد      انصاف کی ضمانت       انصاف کا دائرہ          ملکی سطح پر انصاف         عالمی سطح پر انصاف   بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات   مجرمین کے خلاف کاروائی   معاشرے میں عدلیہ قانون کی ضامن عدلیہ سے شاکی افرادمجرم کا دفاع!معاشرے میں عدالتی سکیورٹی کی ضرورت    سوشل سکیورٹی   اقتصادی سکیورٹی   اخلاقی تحفظ و سلامتی عدلیہ عدلیہ کا فسلفہ وجودی عدلیہ کا فلسفہ وجودی یہ ہے کہ معاشرے میں انسان مطمئن ہوکر زندگی بسر کرے۔ انہیں یہ یقین ہو کہ اگر کسی نے ان کے ساتھ نا انصافی کی تو ایک ایسا ادارہ موجود ہے جو اس مسئلے میں مداخلت کرے گا۔ لوگوں کو یہ اطمینان رہے کہ اگر طاقتور ترین شخص حتی حکومت نے اگر کسی کا حق نظر انداز کیا ہے یا خدا نخواستہ حق مارا ہے تو عدلیہ شجاعانہ انداز میں اسے اس کا حق دلائے گی۔ اگر عدلیہ معاشرے میں یہ احساس اور تاثر قائم کر لے گئی تب تو وہ کامیاب ہے۔ اگر معاشرے میں یہ اطمینان پیدا ہو گیا تو کوئی بھی افواہ اور دشمنوں کے ذریعے بنائی جانے والی فضا اور ماحول ناکام و بے اثر رہے گا۔ کیونکہ عوام عملی میدان میں عدلیہ کے وجود کا مشاہدہ کریں گے اور انہیں بے باک و شجاع و فرض شناس جج صاحبان نظر آئیں گے جو کسی بھی دھونس اور دھمکی میں نہیں آتے۔ اگر لوگوں نے دیکھا کے جج کسی بھی دھونس اور دھمکی پر توجہ دئے بغیر اپنا کام بخوبی انجام دے رہا ہے تو افواہوں اور الزام تراشی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ ٹاپ جج، عدلیہ کا محور عدلیہ کا محور جج ہوتا ہے جبکہ بقیہ امور اور ذیلی ادارے جج کے کام میں مدد کے لئے ہیں۔ عدالت کے اندر اور فیصلہ سنائے جانے کے عمل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ الثمرۃ تنبا عن الشجرۃ یعنی یہ بتاتا ہے کہ اس صف اور اس محاذ کے پیچھے صورت حال کیسی ہے۔ جس دن سارے جج شجاع بن جائیں اور عدلیہ کے مختلف شعبے خدا کو حاضر و ناظر جان کر اپنے فرائض بخوبی انجام دینے لگیں، آنکھیں کھلی رکھ کر فیصلے کرنے لگيں اس دن انہیں اپنے اوپر فخر کرنے کا حق ہے۔ کیونکہ اولئک علیھم صلوات من ربھم و رحمۃ دشوار حالات میں کسی عظیم اور انقلابی عمل کے لئے صبر و ضبط سے کام لینا صلوات و رحمت الہی کا مقدمہ ہوتا ہے۔ بنابریں انہیں اپنے اوپر فخر کرنے کا پورا حق ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کا عمل کرام الکاتبین کے زیر نظر ہے۔ انسان کے اعمال کی تمام تر تفصیلات کو بہترین انداز میں محفوظ رکھنے والے اللہ تعالی کی جانب سے مامور فرشتے اس کے نگراں ہیں۔ اس جذبے اور خیال کے ساتھ عمل کرنا چاہئے۔ ٹاپ عدلیہ کی نگرانی عدلیہ کو چاہئے کہ قانون کی نگرانی کا خیر مقدم کرے۔ قانون، نگرانی کا ایک ذریعہ ہے۔ قانون خود عدلیہ کے اندر رکھا گیا ایک ایسا عنصر ہے جو عدلیہ پر نظارت کے لئے بہت اہم اور موثر ہے۔ معیار، قانون ہونا چاہئے اور قوانین کی ہرگز خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے، کسی کو مستثنی نہیں کیا جانا چاہئے۔ قانون کے دائرے کو کسی بھی وجہ سے کم نہیں کیا جانا چاہئے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ نگرانی اور نظارت کا استقبال کرے۔ ہر طرح کی نظارت، ہر اظہار خیال اور حتی منصفانہ تنقید کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ مالی امور ہوں یا غیر مالی امور، جس کا حساب کتاب صاف ہے اسے احتساب کا کیا خوف؟ متعلقہ اداروں مثلا احتساب کے ادارے اور دیگر نگراں اداروے اسی طرح عدلیہ کے دائرے سے باہر کے افراد مثلا یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مرکز کے اہل نظر حضرات اور ملک کے قانون داں اپنی رائے ظاہر کریں، اپنی تجاویز پیش کریں، تنقیدیں کریں، اس سے عدلیہ کو تقویت ملے گی۔ اسے مزید استحکام حاصل ہوگا۔ بحمد اللہ عدلیہ بڑے اچھے ستونوں پر استوار ہے، اس کی بنیادیں بڑی اچھی اور اسلامی جمہوری نظام کے مقدس اصولوں سے ماخوذ ہیں اور ان کا تکیہ گاہ اسلامی احکام ہیں۔ یہ مستحکم ادارہ ہے اسے کسی سے کوئی خوف نہیں ہے۔ اس کی جتنی زیادہ نظارت اور نگرانی کی جائے اور اس کے سامنے جتنے زیادہ قانونی چیلنج موجود ہوں اس کے لئے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس طرح اس میں اور پختگی آئے گی۔ ٹاپ عدلیہ کے فرائض اسلامی نظام ہی نہیں ہر نظام کو ایک ایسی عدلیہ کی ضرورت و احتیاج ہوتی ہے جو طاقتور بھی ہو اور معتمد علیہ بھی۔ یہ دونوں بنیادی شرطیں ایک ساتھ ضروری ہیں۔ معتمد علیہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اختیارات محدود کر دے۔ عدلیہ قانون کی حفاظت کے لئے ہے۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کا ایک ستون عدلیہ ہے۔ عدلیہ وہ ادارہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے عظیم مقاصد کا بہت بڑا حصہ جس کی کارکردگی سے وابستہ اور اس پر موقوف ہے۔ عدل و انصاف کا مسئلہ، حقوق کے حصول کا مسئلہ، قانون کی بالادستی کا مسئلہ، تسلط پسندوں، جارحوں اور موقع پرست عناصر کے سامنے مزاحمت و استقامت، عوام کی زندگی میں احساس طمانیت و تحفظ پیدا کرنا وہ چیزیں ہیں جن کی اہمیت اسلامی جمہوری نظام میں ہرگز کم نہیں ہو سکتی اور یہ وہ فرائض ہیں جن کا تعلق عدلیہ سے ہے۔ عدلیہ ان کے لئے ذمہ دار ہیں۔ آئین میں اس محکمے کے لئے جو ذمہ داریاں معین کی گئی ہیں وہ مختلف پہلوؤں سے بڑی اہم اور اطمینان بخش ہیں۔ جو فرائض عدلیہ کے لئے رکھے گئے ہیں، اس محکمے کے عہدہ داروں کے لئے آئین اور دیگر متعلقہ قوانین میں اسلامی اصولوں کے مطابق جو شرطیں بیان کی گئی ہیں ان سب کا نصب العین یہ ہے کہ یہ محکمہ بخوبی اپنے فرائض کی انجام دہی کرے۔ ٹاپ قیام عدل و انصاف عدل و انصاف کی شجاعانہ پاسبانی عدلیہ کا بنیادی فریضہ ہے۔ عمل کی روح یہی ہے۔ قانون پر عمل درآمد ہر کسی کے لئے ضروری ہے اور قوانین سے انحراف جرم ہے جس پر نظر رکھنے کا کام عدلیہ کرتی ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کے قوانین کا مجموعہ ایک نقطہ کمال پر مرکوز ہونا چاہئے اور وہ ہے عدل و انصاف۔ بالعدل قامت السموات و الارض ٹاپ انصاف کی ضرورت فان فی العدل سعۃ و من ضاق علیہ العدل فالجور علیہ اضیق عدل میں کشادگی اور وسعت ہے ہر شخص کے لئے، حتی اس فرد کے لئے بھی جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے، اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا گيا ہے تو اگر اس شخص کو جس کے خلاف یہ فیصلہ گیا ہے اس میں سختی محسوس ہو تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ظلم کو معیار قرار دیا گیا تو فیصلہ اور زیادہ سخت اور ناقابل تحمل ہوگا کیونکہ ممکن ہے کہ ظالمانہ عدالت میں اسے ایک کامیابی مل جائے لیکن زندگی کے دوسرے سیکڑوں مراحل میں نا انصافی کا خطرہ اس کے گریبان گیر ہوگا۔ انصاف کیا جانا چاہئے اور دولت، طاقت، بیوروکریسی، اشرافیہ کچھ بھی عدل پر حاوی نہیں ہونا چاہئے۔ اگر عدالت کے اختیارات سے عدل و انصاف کو نقصان پہنچے تو یہ بہت خطرناک ہے۔ عدلیہ کی برتری کو اس انداز سے یقینی بنایا جانا چاہئے کہ اس سے قیام عدل و انصاف میں مدد ملے کیونکہ عدل ہی معیار و اصول ہے۔ ایسا نہیں سوچنا چاہئے کہ جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے اس کے سلسلے میں عدل و انصاف بس یہ ہے کہ اسے جیل میں ڈال دیا جائے اور پھر مدت پوری ہو جانے کے بعد اسے رہا کر دیا جائے، یہ تو انصاف کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جیل اس کے لئے ایسی جگہ نہ بنے جہاں وہ اور زیادہ منحرف ہو جائے، اس کی شخصیت تباہ ہو کر رہ جائے اور اس کا خاندان بد بختی کی زندگی بسر کرے۔ ٹاپ انصاف کی بنیاد دنیا و خلقت کے نظام میں انصاف کا کردار بڑا بنیادی و حیاتی ہے۔ خلقت کا مزاج انصاف پر استوار ہے۔ اگر کوئی سماجی نظام اسی مزاج اور خلقت کے الہی قانون کی سمت گامزن ہے تو وہ کامیاب اور زندہ جاوید بن جائے گا۔ انسان اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب وہ قدرت کے قوانین اور سنت الہی کے مطابق خود کو ڈھال لے جو ناقابل تغیر ہے۔ بنابریں عالم خلقت میں انصاف ایک فطری اور بنیادی عنصر ہے۔ ٹاپ انصاف کی ضمانت انصاف کی ضمانت دینے والا محکمہ عدلیہ کا محکمہ ہے۔ سارے اداروں کو چاہئے کہ انصاف قائم کرنے کی کوشش کریں اور اس کے ساتھ ہی اگر محکموں نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی کوتاہی کی ہے تو بغیر کسی رو رعایت کے اس قانون شکنی کا تعین کرنے اور قانون شکن شخص کو اس کے جرم کی سزا دینے والا طاقتور ادارہ عدلیہ ہے۔ بنابریں اگر عدلیہ کا وجود نہ ہو یا اس کے پاس اختیارات اور طاقت نہ ہو یا ہمت و شجاعت نہ ہو یا کام کرنا اس کے لئے ممکن نہ ہو یا خدانخواستہ کمزوریوں کا شکار ہو جائے تو معاشرے میں انصاف کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہے گی۔ یہیں سے عدلیہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ معاشرے میں عدل و انصاف کا شجاعانہ دفاع عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ ٹاپ انصاف کا دائرہ ملکی سطح پر انصاف کبھی تو کسی نجی تنازعے کا فیصلہ کیا جاتا ہے مثلا پیسے کا تنازعہ، چند مربع میٹر زمین کا جھگڑا، مار پیٹ کا معاملہ وغیرہ۔ لیکن کبھی انصاف ‎زیادہ اہم مسئلے میں نافذ کیا جاتا ہے جس کا تعلق عوام کی زندگی، حقوق اور تقدیر سے ہوتا ہے۔ کبھی کوئی بڑا مالی مسئلہ ہے۔ کچھ لوگوں نے عوام اور فقرا کے سرمائے کی جانب دست درازی کی ہے۔ مثال کے طور پر کسی گاؤں یا شہر میں ایک رقم خرچ کرکے سڑک یا کارخانے کی تعمیر کی جا سکتی ہے جس سے ہزاروں افراد یا ہزاروں خاندانوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ان کے لئے کھیت اور روزگار کے مواقع مہیا ہو سکتے ہیں لیکن کوئی بے ایمان شخص آکر اس پیسے کو ہڑپ لے جس سے یہ سارے کام ہو سکتے تھے۔ ساری رقم لیکر اپنی طمع کو تسکین دینے کی کوشش کرے تو یہ جرم اس سے بہت بڑا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو طمانچہ مار دے البتہ یہ بھی جرم ہے اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اسلام تو ارش الخدش یعنی ناخون سے کسی دوسرے کے جسم پر خراش ڈال دینے کو بھی نظر انداز نہیں کرتا تاہم جرائم مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ بعض جرائم وہ ہوتے ہیں جن کی اہمیت بیحد زیادہ ہوتی ہے۔ جب آپ اس شخص سے نمٹنا چاہتے ہیں جس نے کمال بے رحمی اور بے شرمی سے بیت المال یا عوام کی رقم ہڑپ لی ہے تو اس کے لئے عدالتی شجاعت و اقتدار کی ضرورت ہوگی۔ اگر عدلیہ کے وقار و اعتبار کو ٹھیس پہنچتی ہے تو یہ عوام کی زندگی کے نظام پر لگنے والی بہت کاری ضرب ہوگی۔ اسے بھیانک جرم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی یہ ضرب خود عدلیہ کے اندر سے لگے اور کبھی باہر سے وار ہو۔ ٹاپ عالمی سطح پر انصاف خود مختاری و خود اعتمادی کے زیور سے آراستہ اسلامی جمہوری نظام آج عالمی سامراجی نظام کی تسلط پسندی کے خلاف سینہ سپر ہے۔ آج ملت فلسطین کا حق پامال کرنے کے لئے امریکا، اس کے ہمنوا اور دنیا بھر کے صیہونی اور صف اول کے سرمایہ دار اپنی تمام سیاسی و تشہیراتی توانائی کو بروئے کار لاکر چند ملین فلسطینیوں کا گلا گھونٹ دینا چاہتے ہیں، انہیں عالمی معاملات سے یکسر نابود کر دینا چاہتے ہیں۔ جہاں بھی وہ کامیاب ہوئے ہیں انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا ہے اور حکومتوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے لیکن جب ایران کی باری آتی ہے تو ان کی تلوار کند ہو جاتی ہے۔ انہیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کے مخالف ہیں اور اپنے راستے کی اس رکاوٹ کو ختم کر دینے کے در پے ہیں۔ اگر سامراج اپنے مذموم و خباثت آمیز عزائم کے تحت مالی، سیاسی اور تشہیراتی وسائل کے ذریعے ملک کے اندر اپنا کوئی ٹھکانہ بنانے میں کامیاب ہو جائے اور کچھ فریب خوردہ عناصر کو ان کے اپنے ملک کے مفادات کے خلاف استعمال کر لے جائے اور وہ دشمن کی مرضی کے مطابق عمل کریں تو یہ جرم مالی جرم سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ملت ایران کے حق میں ہونے والی اس بے انصافی کا راستہ کون روکے؟ اس کے لئے شجاعت و ارادے اور قوت و طاقت کی ضرورت ہے۔ ٹاپ بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات آئین کی رو سے عدلیہ کی ایک ذمہ داری بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات کرنا ہے۔ پیشگی یا احتیاطی تدابیر کے اپنے خاص وسائل ہوتے ہیں، مناسب ادارے ہوتے ہیں۔ سکیورٹی کے اداروں، انٹلیجنس اداروں وغیرہ کی مدد سے احتیاطی تدابیر کی جا سکتی ہیں۔ اگر کسی اسلامی ملک میں کوئی بد عنوان شخص، کوئی حریص و چالاک شخص اگر عمومی دولت کو جس پر تمام طبقات کا حق ہے ہڑپ لے جبکہ معاشرے میں بہت سے غریب و نادار لوگ موجود بھی ہیں تو اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس سے نمٹنا چاہئے۔ واضح ہے کہ اس حرکت پر عدلیہ، مجریہ اور مقننہ تینوں محکموں کی جانب سے رد عمل آئے گا یہ ادارے خاموش نہیں بیٹھيں گے۔ ٹاپ مجرمین کے خلاف کاروائی ہر جگہ عدلیہ کا کام یہ ہے کہ قانون کے مطابق مجرم کے خلاف اقدام کرے۔ جس نے بھی حد سے تجاوز کیا ہے اسے قانون کے مطابق دوبارہ اس کی حد کے اندر بھیجے۔ اس سب کا اسلامی نظام کی ساخت، صحیح زندگی اور اسلامی جمہوریہ کے اہداف کی تکمیل میں بڑا اہم کردار ہے۔ قانون شکن قانون داں سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جنہیں قانون سے بخوبی واقفیت ہے جو قانون کے پیچ و خم سے باخبر ہیں، وہ قانون شکنی کرتے ہیں تو معلوم بھی نہیں ہو پاتا کہ قانون شکنی کہاں پر ہوئی ہے لیکن یہ چیز اسلامی نظام اور امام زمانہ علیہ السلام کے انتظار کے جذبے سے مکمل طور پر ناسازگار ہے۔ حکومتی اداروں اور دیگر محکموں میں بد عنوانی کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ حکومت کے اندر بد عنوانی کو روکنے کے لئے سب سے پہلے خود سرکاری حکام، وزرا اور اعلی عہدہ داروں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہئے، وہ اپنے عملے میں ہرگز بد عنوانی نہ ہونے دیں۔ اگر وہ مقابلہ کا ارادہ رکھتے ہوں اور سنجیدگی سے مقابلہ کریں تو دوسرے کسی بھی ادارے اور شخص سے بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ خیال ضرور رہے کہ ان کا اپنا دامن بے داغ ہو۔ جو شخص خود بد عنوانی میں غرق ہے وہ بد عنوانی کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ حکام کو چاہئے کہ پوری احتیاط اور مستعدی کے ساتھ اس برائی سے نمٹیں۔ اگر خدانخواستہ حکام نے اپنے اداروں میں بد عنوانی سے نمٹنے میں کوتاہی کی تو پھر عدلیہ کا وارد عمل ہونا ناگزیر ہو جائے گا۔ عدلیہ کو چاہئے کہ کسی بھی امتیاز و تفریق کے بغیر جہاں کہیں بھی قانون کی خلاف ورزی نظر آئے اس کا مقابلہ کرے۔ ٹاپ معاشرے میں عدلیہ قانون کی ضامن قانون کی بالادستی کی ضمانت کیسے ممکن ہے؟ اس ضمانت کا واحد راستہ ہے عدلیہ۔ عدلیہ نظام کا طاقتور بازو ہے۔ جو جارح اور قانون شکن کا گریبان پکڑ کر اسے اس کی حدود یاد دلاتا ہے تاکہ بقیہ افراد قانون کے زیر سایہ زندگی بسر کر سکیں۔ بنابریں عدلیہ کی طاقت اور اس کا اختیار ایک بنیادی چیز ہے۔ تاہم یہ طاقت و اختیارات ایسے ہوں کہ اس سے عوام کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔ جہاں کہیں بھی عدالت ہے اور اس سے لو گ، خواہ بہت کم تعداد میں، رجوع کرتے ہیں، اس عدالت کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ عوام کی معتمد علیہ ہو۔ سب کو یہ یقین و اطمینان حاصل ہو جائے کہ عدلیہ کی یہ یونٹ جو یہاں موجود ہے قانون اور انصاف کے مطابق ہی فیصلہ کرتی ہے۔ ٹاپ عدلیہ سے شاکی افراد اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیشہ کچھ افراد عدلیہ سے ناراض رہتے ہیں۔ و ان یکن لھم الحق یاتوا الیہ مذعنین قرآن کہتا ہے کہ وہ لوگ جن معاملات میں فیصلے پیغمبر سے کرواتے ہیں اگر ان میں فیصلہ ان کے حق میں ہو تو قبول کرتے ہیں اور اگر فیصلہ دوسرے فریق کے حق میں ہو تو اعتراض کرتے ہیں، کچھ سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ چیز ہمیشہ دیکھنے میں آتی ہے۔ لیکن معاشرے میں اگر عدلیہ پوری سنجیدگی کے ساتھ قانون اور اپنے فرائض پر عمل کرتی ہے، کسی سے کوئی رو رعایت نہیں کرتی، قانون شکنی سے سختی سے نمٹتی ہے اور خاص طور پر اگر قانون شکن کا تعلق خود عدلیہ کے شعبے سے ہو تو اور زیادہ سختی سے پیش آتی ہے، اس عدلیہ کو دیکھ کر عوام مطمئن رہتے ہیں۔ یہ ہدف حاصل کرنا چاہئے، اس منزل تک رسائی حاصل کرنا چاہئے۔ البتہ اس کے لئے بڑی تدبیروں کی ضرورت ہے۔ سارے امور واضح اور معین ہوں، عدلیہ کے اعلی عہدہ داروں کے لئے ہر لمحے کی اطلاعات حاصل کرنے کا چست و درست انتظام ہو، عدلیہ کی کارکردگی پر مکمل نظارت۔ سب سے بڑھ کر عدلیہ کی کارکردگی کا طے شدہ منصوبے اور نظام کے تحت انجام پانا ہے۔ ٹاپ مجرم کا دفاع! ہر فیصلے کے کچھ حامی اور کچھ مخالف ہوتے ہیں۔ فیصلے سے ناراض افراد دو طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں جو کچھ سماجی اصول و ضوابط کے پابند ہوتے ہیں۔ یعنی اگرچہ فیصلے سے ناخوش ہیں لیکن یہ نہیں کرتے کہ جج کو پھاڑ کھانے کو دوڑیں۔ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو کسی اصول و ضابطے پر توجہ نہیں دیتے۔ جج جس نے شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے اور جو لائق قدردانی ہے اس پر حملہ کر دیتے ہیں اور مجرم کا دفاع کرتے ہیں جس کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔ مجرم کا دفاع جرم ہے۔ جس مجرم کو قانون کی رو سے سزا مل چکی ہے اس کا دفاع در حقیقت قانون کو چیلنج کرنے سے عبارت ہے۔ لوگوں کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ جج کو آزادانہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اسے کسی کے دباؤ میں نہیں آنا چاہئے۔ کسی ایک شخص کے ٹیلی فون اور حکم پر فیصلہ نہیں کیا جاتا، فیصلہ علم، دلیل اور ضمیر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ جج پر مختلف انداز سے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اخبار کی سرخیوں کے ذریعے، سیاسی حربے اختیار کرکے اور منفی ماحول تیار کرکے۔ جج کو چاہئے کہ وہ ہرگز ان چیزوں سے متاثر نہ ہو، عدالتی سسٹم اور محترم جج صاحبان کو ہرگز ان افراد کے غیر منطقی حربوں کے دباؤ میں نہیں آنا چاہئے جو عدلیہ کے خلاف ماحول بنا کر اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف خود ان افراد کو یہ جان لینا چاہئے کہ وہ غیر قانونی کام کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کچھ غیر قانونی کاموں کو ملک کے حکام ممکن ہے نظر انداز کر دیں لیکن اس صورت میں نہیں جب اسی کو وتیرہ بنا لیا جائے۔ ٹاپ معاشرے میں عدالتی سکیورٹی کی ضرورت عدالت کی سکیورٹی کا مسئلہ یعنی جب لوگ عدالت کے دروازے پر دستک دیں تو انہیں احساس تحفظ ہو، یہ بہت اہم ہے۔ اس کے لئے عدلیہ کی اندرونی سطح پر حساس، باریک بیں اور متجسس نظروں کی ضرورت ہے۔ اگر عدالتی سکیورٹی کو یقینی بنا لیا جائے تو سیاسی، سماجی، اقتصادی، اخلاقی و ثقافتی سکیورٹی کی بھی ضمانت مل جائے گی۔ جو لوگ اسلامی جمہوریہ کے دشمن ہیں آج اپنی دشمنی نکالنے کا بہترین راستہ انہوں نے یہ تلاش کر لیا ہے کہ ملک کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کر رہے ہیں۔ دشمن کئی سال سے اخلاقی و ثقافتی سلامتی پر حملے کر رہا تھا اس کے علاوہ سیاسی سلامتی کے سلسلے میں بھی دشمن کی کوشش یہ ہے کہ نظام کے دراز مدتی سیاسی عمل کو درہم برہم کر دیں۔ اس سب کے ساتھ ہی دشمن نے سماجی اور شہری سلامتی کے لئے بھی مسائل و مشکلات کھڑی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بحمد اللہ ایران ان ممالک میں ہے جہاں سماجی و شہری سلامتی کی صورت حال بڑی اچھی ہے۔ ٹاپ سوشل سکیورٹی عوام کو سلامتی و تحفظ مہیا کرنے کی ذمہ داری کا ایک بڑا حصہ عدلیہ سے متعلق ہے۔ خواہ وہ سماجی سلامتی ہو، اقتصادی سلامتی ہو، اخلاقی سلامتی ہو یا عزت و وقار کی سلامتی ہو۔ یہ بات درست ہے کہ اجرائی ادارے ان امور میں کسی نہ کسی طرح عدلیہ کے شریک کار ہیں۔ مثال کے طور پر سماجی سکیورٹی میں محکمہ پولیس عدلیہ کا شریک کار ہے اور دونوں کو مل کر سکیورٹی مہیا کرانا ہے، یہاں پر عدلیہ کا کردار کیا ہے؟ عدلیہ کا کردار یہ ہے کہ جارح شخص کے ساتھ عدلیہ اس انداز سے پیش آئے کہ سب کو عبرت مل جائے۔ ٹاپ اقتصادی سکیورٹی اقتصادی سکیورٹی کے ذمہ دار افراد غالبا اجرائی اور انتظامی اداروں میں ہوتے ہیں مثلا وزارت خزانہ، مالیاتی ادارے اور بینک وغیرہ، یہ ذمہ دار ہیں لیکن عدلیہ کی بھی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر ان اداروں کی کارکردگی اور عوام کے ساتھ ان کے لین دین میں کوئی اقتصادی بد عنوانی ہو جائے تو عدلیہ کو اس سے اس طرح نمٹنا چاہئے کہ ان افراد کو سبق مل جائے جو عدلیہ کو بد عنوانی سے دوچار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ بذات خود اقتصادی سکیورٹی کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اقتصادی بد عنوانی کا مقابلہ اقتصادی سکیورٹی کے درہم برہم ہو جانے کا باعث ہوگا لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اقتصادی بد عنوانی کے خلاف کاروائی سے بد عنوانی سے پاک افراد یعنی عوام کی اکثریت کے لئے اقتصادی سکیورٹی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اقتصادی بد عنوانی میں ملوث افراد کی تعداد بہت کم ہے ان سے بہت سختی سے نمٹا جانا چاہئے تاکہ عوام کی اکثریت اور اقتصادی میدان میں سرگرم عمل افراد کو تحفظ کا احساس ہو اور ان کو محسوس ہو کہ جو راستہ انہوں نے منتخب کیا ہے وہی درست راستہ ہے۔ ٹاپ اخلاقی تحفظ و سلامتی اسلامی معاشرے میں لوگوں کی عزت و آبرو ایسے افراد کے ہاتھ کا کھلونا نہ بننے پائے جو کسی طرح کا احساس ذمہ داری نہیں رکھتے۔ اداروں کو چاہئے کہ اس سلسلے میں اقدام کریں۔ لوگوں کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کرنا ان کے خلاف الزام تراشی، عہدہ دار ہو یا عام انسان اس پر بے بنیاد سوالیہ نشان لگانا، ان کے خلاف افواہیں پھیلانا، اسلامی احکام کے سراسر منافی ہے۔ اسلامی شریعت کے خلاف ہے، اسلامی روش کے بر عکس ہے۔ فرض کیجئے کہ کسی شخص پر مالی بد عنوانی کا الزام لگایا گيا تاکہ وہ آکر خود کو بے گناہ ثابت کرے۔ اس میں اس کا بڑا وقت صرف ہو جائے گا۔ اسلامی معاشرے میں یہ چیزیں بہت اہم ہیں اور ان پر توجہ دینا چاہئے۔ عدلیہ اس سلسلے میں اور معاشرے میں یہ سکیوٹی قائم کرنے کے سلسلے میں بہت اہم کردار کی مالک ہے۔ ٹاپ