عالم بشر کو شرک و کفر اور جہل و ظلم کی تاریکیوں سے نجات دلاکر نور معرفت، عدل و انصاف اور بندگی پروردگار کی منور وادی میں پہنچانے کے لئے حضرت عیسی مسیح علیہ السلام الہی معجزے اور پیغام کے ساتھ معبوث ہوئے۔ آپ نے انسانوں کے درمیان گزرنے والا اپنا ہر لمحہ برائیوں کا خاتمہ اور نیکوکاری کی ترویج کےلئے بسر کیا۔ اس ہستی سے ملنے والے اس سبق پر مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کو توجہ دینا چاہئے۔ اس دور میں انسانیت کو کسی بھی دوسرے دور سے زیادہ، ان تعلیمات اور اسباق کی ضرورت ہے۔ اسلام جو آئین مسیح کی تکمیل کے لئے آیا، خیر ونیکوکاری اور تکامل و پرہیزگاری کواپنا سرلوحہ پیغام قرار دیتا ہے۔ گمراہ افراد کا عالم یہ ہے کہ فطری صلاحیتوں کے ذریعے حاصل ہو جانے والی طاقت کا استعمال کرکے اس کے ٹھیک مخالف سمت میں قدم بڑھاتے ہیں، نتیجے میں ادیان الہی کے پیروکاروں کا کام دشوار ہو جاتا ہے۔ حضرت عیسی مسیح کی تعلیمات سے بے بہرہ دنیا کی تسلط پسند طاقتیں عیسائيت کے لبادے میں مظلوم افراد اور قوموں پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں اور ان پر کوئي بھی ظلم ڈھانے سے گریز نہیں کر رہی ہیں۔
مسلمانوں کی نظر میں حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی قدر و منزلت، آپ پر سچا ایمان رکھنے والے عیسائيوں کی نظر میں جو آپ کی قدر منزلت ہے اس سے کم نہیں۔ اس پیغمبر الہی نے لوگوں کے درمیان گزرنے والی اپنی زندگی کا ہر لمحہ جد و جہد میں گزارا تاکہ ظلم و استبداد کا خاتمہ ہو جائے اور ان افراد کو، جو سیم و زر اور زور بازو کے سہارے قوموں کو اپنا غلام بنائے ہوئے تھے اور انہیں دنیا و آخرت کے جہنم کی سمت گھسیٹ رہے تھے، اس عمل سے باز رکھا جا سکے۔ اس نبی خدا کو بچپن سے ہی، کیونکہ اسی وقت سے آپ کو نبوت عطا کر دی گئي تھی، جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا وہ سب اسی تبلیغ کا نتیجہ تھیں۔ توقع یہ کی جاتی ہے کہ حضرت عیسی مسیح کے پیروکار اور وہ تمام افراد جو آپ کو عظیم معنوی منزلت پر فائز سمجھتے ہیں اس راہ میں ان کے نقش قدم پر چلیں۔
اسلامی جمہوریہ میں تمام مکاتب فکر کو آزادی حاصل ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھی ہمارا برتاؤ برادرانہ اور دوستانہ ہے۔ ہمارے ذہن میں یہ رہتا ہی نہیں کہ فلاں شخص تو کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور ہمارے طرز فکر، ہمارے دین اور ہمارے اسلام کا پیروکار نہیں ہے۔ ان کے گھروں میں ہماری آمد و رفت رہتی ہے۔ ہم برسوں سے عیسوی سال کے آغاز پر عیسائي شہدا کے گھروں پرجاتے ہیں۔ ان کے گھر جاتے ہیں ان کے بال بچوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں، بات چیت ہوتی ہے، خاطر مدارات کا سلسلہ بھی رہتا ہے اور ایک لمحے کے لئے بھی ذہن میں یہ نہیں آتا کہ ان کا تعلق کسی اور مذہب سے ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں اس کا تصور ہی نہیں ہے کہ اگر کوئي شخص کسی اور مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی مخالفت کی جائے، اس کی ہمارے یہاں گنجائش ہی نہیں ہے۔
گیارہ ستمبر کے بعد جب امریکی صدر نے بے ساختہ کہہ دیا کہ صلیبی جنگ شروع ہو گئی ہے اور پھر بعد میں غلطی کا احساس ہونے پر لیپا پوتی کی کوشش کی گئی تو اس وقت کسی نے اس نکتے پرتوجہ نہیں دی کہ صلیبی جنگ کیا ہے۔ صلیبی جنگ عیسائي اور مسلمان قوموں کی جنگ ہے۔ یہ لوگ ان جنگوں کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں تاکہ قومیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہو جائیں۔ دنیا کے مسلمان اور عیسائی دونوں ہوشیار رہیں کہ کہیں ان خبیث سیاستدانوں کے جھانسے میں نہ آ جائیں۔ آج دنیائے عیسائيت اور یورپ میں صیہونی ہاتھ انہیں سازشوں میں مصروف ہیں۔
اب تو کسی کو اس بات میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے خوبصورت پیرائے میں پنہاں صلیبی جذبات، بیشتر یا سبھی مغربی طاقتوں پر غالب آ چکے ہیں۔ وہ اسلام کی ہر نشانی و علامت اور مسلمانوں کی سانس تک کی دشمن ہیں۔ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام اور آپ کی تعلیمات پر ان کا کوئي عقیدہ نہیں ہے۔ انہیں تو بس اپنے مفادات اور ہوسرانی سے دلچسپی اور ان مفادات کو نقصان پہنچانے والی ہر چیز سے بے انتہا عناد ہے۔ انہیں اس کے علاوہ دنیا کی کسی چیز سے کوئي مطلب نہیں۔
وہ کلمۃ اللہ (حضرت عیسی مسیح) جس نے انسانی اقدار سے بے توجہی اور جہالت و گمراہی کے دور میں انسانیت کی ہدایت و نجات کا پرچم بلند کیا اور ستمگر طاقتوں کو للکارا، جس نے عدل و انصاف اور توحید وعبادت کا پیغام دیا آج اس کی پیغمبری پر ایمان رکھنے والوں، عیسائيوں اور مسلمانوں، کو چاہئے کہ پیغمبروں کی تعلیمات پر پھر سے توجہ دیں اورعالم بشریت کے ان عظیم معلمین سے ملنے والے درس کے عام کریں۔
اگر حضرت عیسی مسیح علیہ السلام آج ہمارے درمیا ن ہوتے تو عالمی سامراج اور ظلم و استبداد کا کاروبار چلانے والوں کا قلع قمع کرنے میں ایک لمحے کے لئے بھی تامل نہ کرتے۔ آپ اربوں انسانوں کی غربت و بھکمری کو ہرگز برداشت نہ کرتے جو بڑی طاقتوں کے استحصال اور جنگ و فساد کے نتیجےمیں اس انجام کو پہنچے ہیں۔