انسانی زندگی کی تمام تر تلخیوں کی وجہ اللہ تعالی سے اس کی غفلت اور ذاتی مفادات تک محدود ہو جانا ہے۔ نماز انسان کو اس ظلمانی اور تاریک حصار سے نجات دلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام الہی ادیان میں نماز بنیادی ترین دینی عمل اور ایمان کی سب سے عام اور واضح علامت رہی ہے جبکہ اسلامی نماز سب سے زیادہ جذاب اور کامل ہے۔
نماز کے تمام ذکر اور الفاظ دینی معرفتوں اور تعلیمات کا خلاصہ ہیں جو بار بار نمازی کو ان(تعلیمات) کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ نماز اگر قلبی توجہ کے ساتھ اور سھو و غفلت سے مبرا رہتے ہوئے ادا کی جائے تو انسان کو روز بروز الہی تعلیمات سے قریب اور زیادہ آشنا بناتی ہے۔
نماز اگر حضور قلب کے ساتھ پوری توجہ سے ادا کی جائے تو نمازی کے قلب و جان ہی نہیں بلکہ اس کے گرد و پیش کی فضا اور ماحول کو بھی لطیف و نورانی و معطر کر دیتی ہے اور اس کی ضو فشانی سے گھر، خاندان، کام کی جگہ، دوستوں کی محفلوں اور پورے ماحول میں اجالا ہو جاتا ہے۔ حضور قلب اور پوری توجہ کے ساتھ ادا کی جانے والی نماز جو ذکر الہی سے منور ہے، وہ نماز جو انسان کو بلند ترین اسلامی تعلیمات سے مسلسل روشناس کراتی رہتی ہے، ایسی نماز انسان کو بے مقصد اور عبث زندگی سے نجات دلا دیتی ہے۔ اسے حوصلہ، قوت ارادی اور ہدف عطا کرتی ہے اور اس کی نظروں کے سامنے زندگی کا افق روشن و تابناک کر دیتی ہے۔ اس کے دل کو کجروی اور پستی کی جانب انحراف سے محفوظ رکھتی ہے۔ بنابریں انسان کو ہمیشہ نماز کی ضرورت ہے جبکہ نازک اور پر محن مواقع پر اس احتیاج میں شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ در حقیقت نماز دین کا بہت عظیم سرمایہ ہے جس سے ہر شخص حتی الوسع استفادہ کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے ایسے عظیم کام کے لئے فن و ہنر اور جوش و جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔
نماز بارگاہ احدیت کی جانب ارتقاء کا پہلا قدم ہے۔ اس مقدس عمل میں اس بات کی گنجائش و توانائی ہے کہ نقطہ کمال پر پہنچ جانے کی صورت میں انسان کے لئے عالم ملکوت میں پرواز کے بال و پر میں تبدیل ہو جائے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد فرمائیں کہ نماز میری آنکھوں کی روشنی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نماز انسان کے معنوی کمال کے سفر میں ہر مرحلے و منزل پر کارساز، طاقت بخش اور راہنما ہے۔
نماز دین کا بنیادی رکن و ستون ہے۔ اسے لوگوں کی زندگی میں حیاتی اہمیت حاصل ہونا چاہئے۔ دین خدا کی حکمرانی کے زیر سایہ انسان کو حیات طیبہ اسی صورت میں نصیب ہوگی جب لوگ اپنے قلوب کو ذکر خدا سے بیدار رکھیں اور اسی کے سہارے فساد و شر کی دل آویز رنگینیوں سے مقابلہ کریں، تمام بتوں کو توڑ ڈالیں اور اپنے وجود کو تمام بیرونی و اندرونی شیطانی قوتوں کی دست برد سے بالاتر کر دیں۔ یہ دائمی ذکر و حضور قلبی نماز کی برکت سے میسر ہوگا۔ نماز سب سے بڑے شیطان یعنی نفس کے خلاف جنگ میں، جو انسان کو پستی کی جانب لے جاتا ہے، نیز ان شیطانی طاقتوں سے مقابلے میں جو طاقت اور زر جواہر کے ذریعے ذلت و حقارت قبول کرنے کے لئے ورغلاتی ہیں، انسان کے لئے بڑا مستحکم سہارا اور لا متناہی ذخیرہ ثابت ہوتی ہے۔
آج انسانی معاشرے پر مشینی زندگی کی آہنی گرفت کے دور میں انسان اور انسانیت سخت دباؤ اور کھنچاؤ میں ہے۔ اس ماحول میں انسان اپنی انفرادی و سماجی زندگی کو طاقت فرسا مشینی لے اور راگ کے مطابق ڈھالنے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں اللہ تعالی سے معنوی و روحانی رابطے کی ضرورت کا احساس بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لئے نماز بہترین وسیلہ و ذریعہ ہے۔
نماز میں تین بنیادی خصوصیتیں پائی جاتی ہیں؛ سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ نماز اپنی اس شکل میں جو اسلام نے اس کے لئے معین کی ہے یعنی اس میں رکھے گئے اذکار اور حالتیں نمازی کو فطری طور پر گناہ و آلودگی سے دور رکھتی ہیں۔
دوسری خصوصیت یہ ہےکہ (نماز) اللہ تعالی کی بارگاہ میں جو ہر انسان کا حقیقی و فطری محبوب ہے عبادت و پرستش اور خضوع و خشوع کے جذبے کو زندہ رکھتی ہے۔
تیسری خصوصیت یہ کہ نمازی کے دل و جان کو وہ سکون و طمانیت عطا کرتی ہے جو تمام شعبہ ہای زندگی میں کامیابی و کامرانی کی بنیادی شرط و ضرورت ہے۔ یہ تزلزل و اضطراب کو جو اخلاقی تربیت کے لئے سنجیدہ اقدام کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے انسان سے دور کر دیتی ہے۔
انسان گوناگوں غلطتیوں او خطاؤں سے روبرو ہوتا ہے۔ ہر انسان سے کچھ غلطتیاں اور خطائیں سرزد ہو جاتی ہیں، وہ گناہوں کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ اب اگر انسان زندگی کے سفر میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے نماز تلافی کا بہترین ذریعہ ہے۔ قرآن کی آیہ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ نماز کو دن کے دونوں سروں(آغاز و اختتام) اور رات کے ایک حصے میں ادا کرو کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ نماز میں نورانی کیفیت پائی جاتی ہے جو ظلمانی کیفیت کو ختم کر دیتی ہے۔ برائیوں کو مٹا دیتی ہے اور گناہوں کے اثرات کو دلوں سے زائل کر دیتی ہے۔ انسان بہرحال (گناہوں سے) آلودہ ہو سکتا ہے۔ اگر آپ نماز کے پابند ہیں تو آپ کی یہ نورانی کیفیت باقی رہے گی اور آپ کے دل میں گناہ کو راستہ نہیں مل سکے گا۔
مسجد صرف نماز کے لئے نہیں، متعدد عبادتوں کے لئے ہے جن میں ایک غور و فکر بھی ہے جو مسجد میں جانے والے افراد عالم دین کی گفتگو سن کر انجام دیتے ہیں۔ بنابریں مسجد مدرسہ بھی ہے، یونیورسٹی بھی ہے، مرکز فکر و نظر بھی ہے، مرکز طہارت روح بھی ہے، سرچشمہ اخلاص و تقرب الہی بھی ہے۔ یہ زمین و آسمان کے درمیان رابطہ بھی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان خود کو فیض و قدرت کے لا متناہی سرچشمے سے متصل کر سکتا ہے۔ مسجد میں انسان خود کو اللہ تعالی کی ذات سے وابستہ کر لیتا ہے۔

نماز کا قیام صالح بندوں کی حکمرانی کا اولین ثمرہ و علامت ہے۔ ہمارے امام بزرگوار(خمینی رہ) کے گراں قدر اقدامات میں سے ایک نماز جمعہ کا قیام تھا۔ آپ نے اس قوم کو نماز جمعہ کا تحفہ دیا۔ برسہا برس سے ہم نماز جمعہ سے محروم تھے۔
میری نظر میں لوگوں میں جذبہ ایمان اور جوش و خروش کی حفاظت و نگہداشت کا ایک بہترین ذریعہ یہی نماز جمعہ، نماز جمعہ کے خطبے، لوگوں کی نماز جمعہ میں روحانی شرکت اور یہ اہتمام ہے کہ ہر جمعے کو ایک امین و صادق شخص جسے عوام کا اعتماد حاصل ہے ان کے سامنے ملک کے حالات پر روشنی ڈالے انہیں نصیحت کرے اور صحیح سمت و رخ عطا کرے۔ نماز جمعہ تعلیم و نصیحت کا مرکز ہونا چاہئے۔ ائمہ جمعہ اور منتظمین کو مل کر اس سلسلے میں کوشش کرنا چاہئے۔