اسلام میں روز اول سے ہی شروع ہونے والی علمی تحریک کی برکت سے اسلامی تہذیب و تمدن کو وجود ملا۔ اسلام کے ظہور کو ابھی دو صدیاں بھی نہیں گزری تھیں کہ اسلام کی برق رفتار علمی تحریک شروع ہو گئی، وہ بھی اس دور کے ماحول میں۔ اگر آپ اس وقت کی علمی تحریک کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں تو دنیا کے موجودہ علمی مراکز کو پیش نظر رکھئے اور پھر فرض کیجئے کہ کوئی ملک دنیا کے کسی دور دراز کے علاقے میں واقع ہے جو تہذیب و تمدن سے پوری طرح بے بہرہ ہے۔ یہ ملک یک بیک تہذیب و تمدن کے میدان میں وارد ہو اور سو یا ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں علمی لحاظ سے تمام تہذیبوں پر فوقیت حاصل کر لے۔ یہ چیز کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ اسلام نے علم، حصول علم، تعلیم و تدریس اور عالمانہ طرز زندگی کی بے پناہ ترغیب دلائی۔
اسلامی تہذیب کا جوہر خود اس (دین اسلام) کے اندر سے نکلا۔ ویسے زندہ تہذیبیں دوسروں سے بھی کچھ چیزیں کسب کرتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پر رونق دنیا، علم کا یہ استعمال، عالم ہستی کے اچھوتے رموز کا یہ انکشاف جو مسلمانوں کے ہاتھوں انجام پایا۔ افکار و نظریات اور اذہان و افکار کا یہ استعمال، عظیم علمی سرگرمیاں اور اس دور میں عالمی سطح کے تعلیمی مراکز کا قیام، اس زمانے میں دسیوں دولتمند ممالک کی تشکیل اور ایک بے نظیر طاقتور سیاسی نظام کا قیام، یہ سب کیونکر ممکن ہوا؟ آپ پوری تاریخ میں اسلام کے علاوہ کوئی ایسی سیاسی طاقت نہیں پائیں گے جس کی قلمرو قلب یورپ سے لیکر قلب بر صغیر تک پھیلی ہوئی ہو اور یہ (پورا علاقہ) ایک ملک بن گیا ہو اور اس میں ایک پائيدار حکومت قائم ہوئی ہو۔ قرون وسطی کا زمانہ یورپ کی جہالت و بد بختی کا زمانہ تھا۔ یورپ والے قرون وسطی کو سیاہی و تاریکی کا دور کہتے ہیں۔ یہی قرون وسطی کا زمانہ جو یورپ میں تاریکی و جہالت کا دور تھا ایران سمیت اسلامی ممالک میں علم و دانش کی ضوفشانی کا زمانہ تھا۔ وہ (بے مثال) سیاسی طاقت، وہ علمی دبدبہ، وہ نظام مملکت، وہ تمام تعمیری و حیاتی و فعال عناصر سے بھرپور استفادہ، اسلامی تعلیمات کا ہی نتیجہ تھا۔
چوتھی ہجری اسلامی تہذیب و تمدن کے عروج کی صدی ہے۔ چوتھی صدی ہجری میں، یعنی گيارہویں صدی عیسوی، یعنی یورپ میں تاریکی جہالت کے اوج کے زمانے میں، ایران اسلامی شکوفائی و ترقی کے نقطہ کمال پر تھا۔ اس دور کے سارے علماء و دانشور معدودے چند کو چھوڑ کر سب ایرانی تھے۔ ایک زمانے مین مغرب والوں نے مشرق اور اسی ایران سے علم حاصل کیا ہے۔ اس وقت دنیا میں رائج بہت سے علوم کی بنیاد ایرانیوں کے ہاتھوں پڑی۔ یورپ کی نشآت ثانیہ اسلامی ممالک اور علاقوں میں انجام پانے والے ترجموں کی بنیاد پر عمل میں آئی اور یہ ایسے عالم میں ہوا کہ ایران میں دینداری یورپ سے کم نہیں بلکہ بہت زیادہ تھی۔ معلوم ہوا کہ دین، علم و دانش کے راستے میں رکاوٹ نہیں بلکہ کوئی اور ہی شئ ہے جو علم و دانش کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ وہ شئ کیا ہے؟ وہ لوگوں کی گوناگوں جہالتیں اور اس زمانے کی عیسائی مذہب کی خرافاتیں تھیں۔ عالم اسلام میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی عالم کی علم رکھنے کے جرم میں توہین کی گئی ہو، جبکہ یورپ میں کسی شخص کو علم رکھنے کی بنا پر قتل کر دیا گيا، کسی کو سنگسار کر دیا گيا، کسی کو سولی پر چڑھا دیا گیا تو کسی کو آگ میں ڈال دیا گيا۔ یعنی ان لوگوں نے اپنے یہاں رونما ہونے والی چیزوں کو جو تحریف شدہ عیسائيت اور جہالت زدہ خرافات کی آمیزش کا نتیجہ تھیں پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ آج مسلمانوں کا گناہ کیا ہے؟ اسلام کا جرم کیا ہے؟ مسلمان قوموں کا گناہ کیا ہے؟
اس میں شک نہیں کہ اسلام ایک روحانی و اخلاقی تحریک کا نام ہے لیکن علمی ارتقاء اور اقتصادی پیشرفت بھی اس کے بنیادی اہداف میں شامل ہے۔ اسلام کے ظہور کو ابھی پچاس سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس وقت کی متمدن اور مہذب دنیا کا پچاس فیصدی سے زائد حصہ پرچم اسلام کے سائے میں آ گيا اور ابتدائی دو صدیوں میں عالم اسلام، علم و دانش اور معاشی و سماجی ترقی کے لحاظ سے اوج پر پہنچ گیا۔ یہ نتیجہ تھا اسلامی تعلیمات کا جو روحانیت و معنویت کے ساتھ ہی ساتھ مادی ترقی پر بھی تاکید کرتی ہیں۔
مغرب کی مادی تہذیب مادہ پرستی کی جانب لے جاتی ہے۔ پیسہ، پیٹ اور شہوت ہی نصب العین بن کر رہ گیا ہے۔ دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں صفائے باطن، مساوات، درگذشت و ایثار کی جگہ نیرنگ و سازش، حرص و طمع، بغض و حسد، بخل و خست اور دیگر اوصاف رذیلہ نے لے لی ہے۔ آج اگر مغربی دنیا اور مغربی تہذیب کی پوسٹ ماڈرن سائنس و ٹکنالوجی انسانیت کو نجات دلانے سے قاصر ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ انسانیت سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اگر کہیں علم و دانش تو ہو لیکن ضمیر و اخلاق و معنویت و احساسات ناپید ہوں تو انسان کو اس علم و دانش سے کوئی نفع پہنچنے والا نہیں ہے۔ اخلاق و روحانیت کا فقدان ہو تو علم ایٹم بم میں تبدیل ہو جاتا ہے، بے گناہوں کی زندگی دشوار کر دیتا ہے، اسلحہ میں تبدیل ہو جاتا ہے، مقبوضہ فلسطین و لبنان اور دنیا کے دیگر علاقوں میں عام شہریوں کو نشانہ بناتا ہے، مہلک کیمیاوی مادے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ حلبچہ اور دنیا کے دیگر علاقوں میں عورتوں بچوں، پیر و جواں اور انسان و حیواں سب کو نابود کرکے رکھ دیتا ہے۔
اسلامی تہذیب اور اس کی جانب گامزن مقدس اسلامی جمہوری نظام کے تناظر میں ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہم علم و دانش کو روحانیت و معنویت کے زیر سایہ آگے بڑھائیں۔ اگر آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ دین پر ہماری عمل آوری کی نسبت مغرب کو اعتراض ہے، ہماری دینداری کو تعصب اور رجعت پسندی کا نام دیا جاتا ہے اور اخلاقی و انسانی اصولوں سے ہماری دلچسپی کو انسانی حقوق کی مخالفت قرار دیا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری یہ روش ان کے طرز عمل کے بر خلاف ہے۔ ہمیں علمی و عملی کوششوں کے ثمرات اور کامیاب انسانی تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے مادی و روحانی پیشرفت و ارتقاء کا پودا خود لگانا چاہئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ پھلے پھولے اور اغیار کا رنگ اختیار نہ کرے۔