حج کی خصوصیات

معرفت، حج کا پہلا تحفہ
حج، مسلم امہ کی تصویر
ناقابل توصیف خصوصیات
قومی اور بین الاقوامی یکجہتی
مسلم معاشروں کے مسائل کا حل
با معنی شرکت

حج کے معنوی پہلو 

حج کے آداب
ایک معنوی تجربہ
غرور کے مظاہر سے رہائی
خودسازی کا موقع
بصیرت افروز عبادت
حج ابراہیمی
جسم و جان کے ساتھ ایک سفر

حج کے اصل اہداف

عالم اسلام کے اہم مسائل کا جائزہ
مسلمانوں کا اتحاد اور سامراج کا خوف
یکتا پرستی اور اتحاد کا پیغام
حج کے وسیع و ہمہ گير اہداف
ہدف سے دوری

حج، اتحاد کی کنجی

اتحاد کی عظمت کا احساس
اس عظیم اجتماع کے مضمرات
اتحاد کے مواقع کا غلط استعمال
اتحاد کی راہ کے روڑے
سامراج کی تفرقہ انگیزی

مشرکین سے اعلان برائت

حج کا ایک بنیادی ستون
حقائق بیان کرنے کا موقع
حج کی روح
مشرکین سے اعلان برائت کی مخالفت!

حج


حج کی خصوصیات

معرفت، حج کا پہلا تحفہ

اگرچہ حج کی برکتیں انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہیں اور رحمت کی یہ بے تحاشا بارش، دل کی خلوت اور انسان کے افکار سے لے کے سیاسی و سماجی میدانوں، مسلمانوں کی قومی طاقت و اقتدار اور اسلامی اقوام کے درمیان تعاون تک کو بہرہ مند اور زندگی کے ولولے سے لبریز کر دیتی ہے تاہم شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سب کی کنجی، معرفت ہے اور جو حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی تمنا رکھتا ہے اور اشیا کو سمجھنے کی خداداد طاقت سے استفادہ کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے حج کا سب سے پہلا تحفہ معرفت اور ایک ایسی شناخت ہے جو عام طور پر حج کے علاوہ کہیں اور مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو حاصل نہیں ہوتی اور کوئي بھی دوسرا دینی و مذہبی موقع اس شناخت و معرفت کو ایک ساتھ اسلامی امت کے حوالے نہیں کر سکتا جو حج کے دوران دستیاب ہوتی ہیں۔

ٹاپ

حج، مسلم امہ کی تصویر

حج کے ایام کی آمد ہر سال پورے عالم اسلام کے ان عاشق دلوں اور متمنی قلوب کے اشتیاق اور تڑپ کے ساتھ ہوتی ہے جومعبود کے گھر کے جوار اور محبوب کے دیار میں عشق و تقدیس کے آستانے پر جبین نیاز رکھنا اور اس مقام کی خاک پر تعبد اور تقرب کی پیشانی ٹیکنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان خاص ایام کو ذکر خدا اور دعا و مناجات میں گزاریں اور خداوند متعال کی رحمت و مغفرت کے سائے میں سکون حاصل کریں۔ دنیا کے چاروں کونے کے دور دراز ترین علاقوں سے آنے والے اپنے بھائیوں کو دیکھیں اور اسلامی امت کے شکوہ و جلال کے ایک زندہ اور مجسم نمونے کو محسوس کریں۔ حج امت اسلامیہ کا مظہر اور اس طرز عمل کی تعلیم دینے والا ہے جسے اس عظیم امت کو اپنی فلاح و سعادت کو یقینی بنانے کے لیے اختیار کرنا چاہیے۔ حج کو ایک جملے میں ایک ہی سمت میں سب کی بامقصد، شعوری اور گوناگوں حرکت کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس حرکت کے بنیادی عناصر، ذکر خدا اور بندگان خدا کی یکجہتی ہے جبکہ اس کا مقصد انسان کی باسعادت زندگی کے لیے ایک مضبوط معنوی مرکز کی تعمیر ہے۔ ((جعل اللہ الكعبۃ البيت الحرام قياما للناس و الشہر الحرام و الہدى و القلائد۔))

ٹاپ

ناقابل توصیف خصوصیات

اگرچہ حج کے اسرار و رموز اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ انہیں بیان کیا جا سکے تاہم ہر راز شناس آنکھ ان تمام باتوں کے درمیان اس کی امتیازی خصوصیت کو پہلی ہی نظر میں پہچان جاتی ہے۔ اول تو یہ کہ (حج) وہ واحد واجب ہے جس کی ادائیگی کے لیے خداوند متعال ان تمام مسلمانوں کو جو استطاعت رکھتے ہیں، پوری دنیا سے اور گھروں اور عبادت خانوں کی تنہائی سے ایک مرکز پر بلاتا ہے اور ان مخصوص ایام میں گوناگوں سعی و کوشش، حرکت، سکون، قیام اور قعود کے دوران انہیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ ((ثُمَّ أَفيضُوا مِنْ حَيثُ أَفاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحيمٌ))

ٹاپ

قومی اور بین الاقوامی یکجہتی

جب کسی قوم کے بہت سے افراد ایک خاص مقصد کے لیے، ایک ہی سفر پر ایک ہی ہدف لے کر جاتے اور واپس آتے ہیں تو لازمی طور پر ان کی یکجہتی میں اضافہ ہوتا ہے اور معنویت نیز قومی اخلاق کی سطح بلند ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا بین الاقوامی پہلو بھی ہے۔ کیونکہ اقوام کے درمیان مشترکہ خصوصیات کے ساتھ ہی آپس میں کچھ فرق بھی ہوتے ہیں جو انہیں ایک دوسرے سے الگ کرتے ہیں اور کبھی کبھی تو ایک دوسرے کے تئیں معاندانہ جذبات بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ حج اس بات کا سبب بنتا ہے کہ یہ فرق غیر اہم بن جائیں اور مختلف اقوام کے درمیان پائی جانے والی مشترکہ خصوصیات اور اتحاد مستحکم ہو۔ بنابریں اسلام میں اتنے وسیع اور عظیم پہلوؤں والا کوئی دوسرا فریضہ نہیں ہے۔

ٹاپ

مسلم معاشروں کے مسائل کا حل

خداوند حکیم و عزیز کا شکر کہ اس نے اپنے بندوں پر احسان کیا اور انہیں اپنے گھر کے اطراف جمع ہونے کی دعوت دی، اپنے عظیم پیغمبر کو منارۂ تاریخ کی بلندی سے حج کی اذان بلند کرنے کی ذمہ داری سونپی، اپنے گھر کو امن و امان کی جگہ بنایا، اسے جاہلیت کے بتوں سے پاک کیا اور مومنوں کے طواف کا مرکز، دور دراز سے آنے والوں کے ایک دوسرے سے ملنے کا مقام، جماعت و اجتماع کا مظہر نیز امت اسلامی کے شکوہ کی جلوہ گاہ قرار دیا۔ اس نے بیت اللہ کو کہ جاہلیت اولی' کے عہد میں جس کے ۔۔۔۔مطاف و مسعی' کی خدمت گزاری کو تجارت کا بازار اور اپنی سرداری اور سیادت کی دکان بنا لیا گيا تھا، لوگوں کے لیے اور ان کے فائدے اور استفادے کے لیے قرار دیا اور اجارہ داروں کی خواہشوں کے برخلاف باہر سے آنے والوں اور وہیں رہنے والوں کو مساوی حقوق عطا کیے، حج کو مسلمانوں کی وحدت و عظمت اور ان کے درمیان ہماہنگی اور تعلقات کا راز اور اسی طرح ان مصائب و آلام کا حل قرار دیا کہ مسلمان افراد اور معاشرے اپنی اصلی شناخت اور حقیقت سے دور ہو جانے کے نتیجے میں جن میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جیسے اغیار نوازی و اپنوں سے دوری، سازشوں کی جانب سے بے توجہی، اللہ سے غفلت اور اہل دنیا کے ہاتھوں اسیری، اپنے بھائیوں کے سلسلے میں بد گمانی اور ان کے بارے میں دشمن کی باتوں پر یقین و اطمینان، امت اسلامیہ کی تقدیر کے سلسلے میں بے حسی بلکہ امت اسلامیہ نام کے اجتماعی پیکر سے ناآشنائی اور دیگر اسلامی علاقوں کے واقعات و حادثات سے بے خبری، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں دشمنوں کی نئی سازشوں سے غفلت اور دوسری بہت سے مہلک مصیبتیں جو اسلام کی تاریخ میں مسلمانوں کی تقدیر اور سیاسی زندگی پر نا اہلوں اور نا واقفوں کے مسلط ہو جانے کے نتیجے میں ہمیشہ مسلمانوں پر نازل ہوتی رہی ہیں اور گزشتہ صدی کے دوران علاقے میں سامراجی طاقتوں کی دراندازی اور ان کے بد عنوان و دنیا پرست مہروں کی موجودگی کے نتیجے میں وہ اور بھی تباہ کن شکل اختیار کر گئی ہیں۔

ٹاپ

با معنی شرکت

در حقیقت حج میں مسلمانوں کی شرکت ایک با معنی شرکت ہونی چاہیے ورنہ اگر صرف معنوی پہلو اور ذکر خدا مقصود ہوتا تو انسان اپنے گھر ہی میں بیٹھ کر ذکر خدا کر سکتا تھا۔ یہ جو کہا گيا ہے کہ ایک جگہ پر اکٹھا ہو، وہ اسی لیے ہے۔ ان مفادات کے لیے ہے جن کا مشاہدہ مسلمانوں کو حج کے دوران کرنا اور انہیں دیکھنا چاہیے۔ حج صحیح طریقے سے ہر ایک مسلمان کے اندر تبدیلی بھی لا سکتا ہے اور توحید، خدا سے رابطے اور اس پر توکل کی روح اس کے اندر پیدا کر سکتا ہے اور ساتھ ہی اسلامی امت کے ایک دوسرے سے جدا ہو چکے افراد سے ایک واحد، کارآمد اور طاقتور پیکر بنا سکتا ہے۔ حج انہیں ایک دوسرے سے مطلع اور باہمی باتوں، مسائل، پیشرفت اور ضروریات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ہی ان کے تجربات کا آپس میں تبادلہ کر سکتا ہے۔ پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اسلام کے اسی فریضے سے صحیح طریقے سے استفادہ کیا جائے تو یہ بہت جلد اسلامی امت کو اس عزت و اقتدار تک پہنچا دے گا جو اس کے شایان شان ہے۔ اپنے جوہر اور اپنی ماہیت کے لحاظ سے حج کے دو بنیادی عناصر ہے؛ افکار و اعمال میں خدا سے تقرب اور جسم و جان کے ساتھ طاغوت اور شیطان سے پرہیز۔ حج کے تمام اعمال اور حج کے دوران ترک کی جانے والی تمام باتیں، انہی دو عناصر کے لیے، ان کی راہ میں اور اس کے وسائل فراہم اور راہ ہموار کرنے کے لیے ہیں اور یہ در حقیقت اسلام اور تمام الہی احکام کا خلاصہ بھی ہے۔

ٹاپ

حج کے معنوی پہلو

حج کے آداب

کتنے غافل ہیں وہ لوگ جو دنیوی امور میں مصروف رہ کر حج کی رسومات، حج کے ایام اور مناسک حج کی اہمیت کو کم کر دیتے ہیں؟! حج کو پوری توجہ، حضور قلب اور مکمل آداب کے ساتھ بجا لانا چاہیے۔ مناسک حج اور حج کی ظاہری صورت کو تشکیل دینے والے اعمال کے علاوہ کچھ آداب بھی ہیں جو حج کی روح ہیں۔ بعض لوگ حج کی اس ظاہری صورت کو تو بجا لاتے ہیں تاہم اس کی روح اور حقیقت سے غافل رہتے ہیں۔ حج کا ادب، خضوع، ذکر اور توجہ ہے۔ حج کا ادب ہر لحظہ پروردگار کے سامنے موجودگی کا احساس ہے۔ حج کا ادب، امن الہی کے دامن میں پناہ لینا ہے جسے مومنین اور پروردگار عالم کی ذات مقدس سے متمسک رہنے والوں کے لیے اس نے فراہم کیا ہے۔ اس بہشت کو پہچاننا اور اس میں داخل ہونا چاہیے۔ حج کو اس طرح سے سمجھنا چاہیے۔ حج کا ادب لوگوں کے ساتھ پر امن طریقے سے رہنا ہے۔ مومنین کے ساتھ تشدد کا سلوک کرنا، برادران کے ساتھ جھگڑا اور جنگ و جدال کرنا حج کے دوران ممنوع ہے۔ حج کا ادب، حج کی معنوی و روحانی حقيقت میں ڈوب جانا اور پوری زندگی کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا ہے۔ حج کا ادب، اخوت اور محبت و اتحاد پیدا کرنا ہے۔ مسلم اقوام اور اسلامی جماعتوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کا موقع صرف حج میں ملتا ہے۔ اتنے سارے انسانوں نے دنیا کے کونے کونے سے کعبے کے عشق میں، پیغمبر کے مزار کے عشق میں، ذکر الہی کے عشق میں اور طواف و سعی کے عشق میں اپنے آپ کو وہاں پہنچایا ہے، اخوت کے اس موقع کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔

ٹاپ

ایک معنوی تجربہ

کسی بھی فرد کے لیے حج کا موقع، معنویت کی لامتناہی فضا میں کسی انسان کے داخل ہونے کا موقع ہوتا ہے، وہ اپنی تمام آلودگیوں اور تمام کمیوں کے ساتھ اپنی معمولی زندگی سے اپنے آپ کو باہر نکالتا ہے اور پاکیزگی، معنویت اور خدا سے تقرب نیز اپنی اختیار کردہ ریاضت کی فضا چلا جاتا ہے۔ جیسے ہی آپ حج کے مناسک ادا کرنا شروع کرتے ہیں، ویسے ہی ایک معمول کی عام سی زندگی میں کچھ چیزیں جو مباح ہوتی ہیں انہیں اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں؛ احرام کا مطلب ان چیزوں کو اپنے لیے حرام کر لینا ہے جو معمول کی اور عام زندگی میں مباح، رائج اور جائز ہوتی ہیں۔ ان میں سے بہت سی چیزیں غفلت کا سبب ہوتی ہیں جبکہ بعض انحطاط کی وجہ بنتی ہیں۔

مادی آلودگیوں سے اپنے آپ کو پاکیزہ کرنا، مسلسل، ہر جگہ اور ہر کام میں خدا کو دیکھنا؛ چاہے وہ کچھ دنوں کی تھوڑی سی مدت ہی کے لیے کیوں نہ ہو، انسان کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے۔ حج کے تمام آداب و مناسک اس لیے ہیں کہ حاجی اس معنوی تجربے کو حاصل کرے اور اس لذت کو اپنے دل و جان میں محسوس کرے۔

حج کی معنویت، ذکر خدا ہے جسے روح کی مانند حج کے ہر عمل میں پھونک دیا گيا ہے۔ اس مبارک سرچشمے کو حج کے بعد بھی اسی طرح سے ابلتے رہنا چاہیے اور یہ کامیابی جاری رہنی چاہیے۔

ٹاپ

غرور کے مظاہر سے رہائی

ظاہری اور مادی غرور کے تمام وسائل ہم سے لے لیے جاتے ہیں؛ سب سے پہلے لباس۔ درجہ، منصب، لباس، اچھی پوشاک وغیرہ سب ہٹا دیئے جاتے ہیں اور سب لوگ ایک ہی لباس میں ملبوس ہو جاتے ہیں۔ آئینہ مت دیکھیے کہ یہ خود پسندی کا ایک مظہر ہے۔ خوشبو استعمال نہ کیجیے کہ یہ جلوہ گری کا ایک وسیلہ ہے۔ (احرام کی حالت میں) چلتے ہوئے، دھوپ اور بارش سے نہ بھاگیے، چھت کے نیچے نہ جائیے کہ یہ آرام پسندی اور راحت طلبی کا مظہر ہے؛ اور اسی طرح احرام کے دوسرے امور؛ اس مدت میں ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لینا جو مُحرِم کے لیے آرام اور نفسانی و جنسی تسکین کا باعث ہوں۔ چاہے غرور کا سبب ہوں یا پھر امتیاز کا سبب ہوں۔ ان سب کو ہٹا دیا جاتا ہے۔

ٹاپ

خودسازی کا موقع

حاجیوں کے لیے سب سے پہلا قدم خود سازی یا تعمیر نفس ہے۔ احرام، طواف، نماز، مشعر، عرفات، منی'، قربانی، رمی جمرات، سر منڈانا یہ سب کے سب خداوند متعال کے مقابل انسان کے خشوع و انکسار اور اس کے ذکر، اس کے سامنے گڑگڑانے اور اس سے تقرب کے مقام کے مظاہر ہیں۔ ان با معنی مناسک کو غافلانہ انداز میں ادا نہیں کرنا چاہیے۔ دیار حج کے مسافر کو ان تمام اعمال و مناسک کے دوران اپنے آپ کو خداوند عالم کی بارگاہ میں حاضر سمجھنا چاہیے، اس جم غفیر میں بھی اپنے آپ کو محبوب کے ساتھ تنہا سمجھنا چاہیے، اس سے سرگوشیوں میں اپنے دل کی بات کہنی چاہیے، اسی سے مانگنا چاہیے اور اسی سے امید رکھنی چاہیے، اپنے دل سے شیطان اور ہوائے نفسانی کو دور کر دینا چاہیے، لالچ، حسد، ڈر اور شہوت کے زنگ کو اپنے دل سے کھرچ دینا چاہیے۔ خداوند عالم کی ہدایت اور اس کی نعمت پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنے دل کو اس کی راہ میں جد و جہد کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ مومنین کے ساتھ نرمی و رحمدلی اور دشمنوں اور حق کے مخالفوں کے ساتھ بیزاری کے جذبات دل میں پروان چڑھانے چاہیے۔ اپنی اور اپنے ارد گرد کی دنیا کی اصلاح کے لیے عزم مصمم کرنا چاہیے اور اپنے خدا کے ساتھ دنیا و آخرت کو آباد کرنے کا عہد باندھنا چاہیے۔

حج ایک بہت بڑا موقع ہے کہ یہ حقائق اور اسی قسم کے دوسرے بہت سے حقائ‍ق، جو اسلامی معرفت اور اسلامی ہدایت کی برکت سے ایران کی مسلم قوم کو حاصل ہوئے ہیں دنیا کے لوگوں کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ وہ بیدار ہو جائيں۔ اسلامی دنیا کے بہت سے دل بیدار ہیں؛ انہیں یہ محسوس ہونا چاہیے کہ پورے عالم اسلام میں ان کے افکار کے حامی موجود ہیں تاکہ انہیں ضروری شجاعت و جرئت حاصل ہو سکے۔ یہ سب، حج کی معنویت کے سائے تلے ہیں۔ حج کی معنویت، دعاؤں، زیارتوں اور قرآن مجید کی آیات کے اعلی' مفاہیم سے استفادے کے سلسلے میں غفلت نہ کیجیے۔

ٹاپ

بصیرت افروز عبادت

حج کا موقع ایک غیر معمولی موقع ہے۔ تمام عبادتیں، انسان کو یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو صحیح طریقے سے پہچانے۔ انسان، کائنات کی روح اور کائنات کی واحد حقیقت یعنی خداوند عالم کے سلسلے میں غفلت کی وجہ سے اپنے آپ سے، اپنے دل سے اور اپنی حقیقت سے غافل ہو جاتے ہیں۔(( نسوا اللہ فانساھم انفسھم)) انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اس نے ان سے خود انہیں کو فراموش کرا دیا۔ آج انسانیت کا ایک بہت بڑا درد یہی ہے۔ انسان، خداوند عالم کے تئیں غفلت برت کر اپنے آپ سے بھی غافل ہو گئے ہیں۔ انسان کی ضروریات، انسان کی حقیقت اور انسان کی تخلیق کے اہداف، مادیت کی چکاچوندھ میں پوری طرح سے بھلا دیئے گئے ہیں۔ جو چیز انسان کو خدا اور خدا پر توجہ کے سائے میں اپنی طرف، اپنی حقیقت کی طرف، اپنی ضروریات کی طرف اور اپنے دل کی طرف متوجہ کراتی ہے وہ دعا، عبادت اور خدا کے سامنے گڑگڑانا ہے اور حج اس لحاظ سے سب سے برتر عبادت ہے کیونکہ وقت کے لحاظ سے، مقام کے لحاظ سے اور مسلسل کیے جانے والے اعمال کے لحاظ سے جو حاجی کو عطا کیے گئے ہیں، یہ ایک غیر معمولی عبادت ہے۔ لہذا شہر مکہ اور مناسک حج، انسان کی سلامتی اور امن کا ایک ذریعہ ہیں۔ انسان، خضوع کے ساتھ، توجہ کے ساتھ، خدا کے سامنے گڑگڑا کر اور اللہ تعالی کی یاد میں ڈوب کر حج کے عظیم اعمال اور مناسک میں امن و سلامتی کا احساس کرتا ہے؛ یہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مادی طاقتوں اور مادی محرکات نے انسان کے اطراف میں جو جہنم پیدا کر دیا ہے انسان حج کی پناہ میں جا کر اس جگہ پر اور اس وقت میں اپنے لیے بہشت کی ٹھنڈک اور سلامتی حاصل کر سکتا ہے۔ جی ہاں! حج عبادت ہے اور ذکر و دعا و استغفار؛ تاہم ایسی عبادت و ذکر و استغفار جو اسلامی امت کو حیات طیبہ عطا کرنے اور اسے غلامی و ظلم کی زنجیروں نیز دولت و طاقت کے خداؤں سے نجات دلانے اور اس میں عزت و عظمت کی روح پھونکنے نیز اس کے اندر سے سستی اور تساہلی کو دور کرنے کے لیے ہے۔ یہ ہے وہ حج جو دین کے ستونوں میں شمار کیا جاتا ہے اور جسے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اسلام کا علم، ہر ناتواں کا جہاد، غربت و تنگدستی کو دور کرنے والا اور اہل دین کے ایک دوسرے سے قریب ہونے کا ذریعہ بتایا ہے۔

ٹاپ

حج ابراہیمی

حج ابراہیمی وہ حج ہے جس میں مسلمان افتراق و تفرقے سے اتحاد و اجتماع کی جانب آگے بڑھیں اور کعبے کا، جو توحید کی یادگار عمارت اور شرک و بت پرستی سے برائت و نفرت کی علامت ہے، حقیقی معنی میں اور صحیح معرفت کے ساتھ طواف کریں اور مناسک حج کی ظاہری صورت سے ان کے باطن اور روح تک پہنچیں اور اس سے اپنی زندگی اور امت اسلامی کی حیات کے لیے استفادہ کریں۔

حج ابراہیمی وہی حج محمدی ہے جس میں توحید و اتحاد کی جانب حرکت، تمام مناسک اور شعائر کی روح ہے۔ یہ ایسا حج ہے جوبرکت و ہدایت نیز امت واحدہ کی حیات و قیام کا اصل ستون ہے، یہ ایسا حج ہے جو (معنوی) فائدوں سے مالامال اور ذکر خدا سے سرشار ہے۔ یہ ایسا حج ہے جس میں مسلم اقوام، ہمہ گیر اور وسیع امت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود کو محسوس کرتی ہیں اور اپنے آپ کو بھی اس میں پاتی ہیں۔ وہ اقوام کے درمیان اخوت اور قربت کے احساس سے کمزوری، ناتوانی اور ضعف کے احساس سے دور ہو جاتی ہیں۔ حج ابراہیمی، وہ حج ہے جس میں مسلمان تفرقے سے اتحاد کی جانب حرکت کریں۔

ٹاپ

جسم و جان کے ساتھ ایک سفر

حج کوئی تفریح کا سفر نہیں بلکہ حج ایک معنوی سفر ہے۔ اللہ کی جانب جسم اور جان دونوں کے ساتھ سفر ہے۔ اہل سلوک و عرفان کے لیے اللہ کی جانب سفر، جسمانی نہیں ہوتا بلکہ قلبی اور روحانی سفر ہوتا ہے۔ یہاں ہم تمام لوگوں کے لیے اللہ کی جانب یہ سفر، جسم و جان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم صرف جسم کو وہاں لے جائیں، دل کو نہ لے جائیں یا خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ بعض افراد اس نعمت کی تکرار کے سبب، جنہیں بار بار حج، خانۂ خدا کو دیکھنے اور زیارت کرنے کا شرف حاصل ہوتا ہے، دھیرے دھیرے ان کی نظر میں حج کی اہمیت کم ہوتی چلی جائے اور پھر وہ اپنے اندر اس انقلاب کو نہ دیکھ سکیں، یہ کوئي اچھی چیز نہیں ہے۔

اپنے جوہر اور اپنی ذات میں حج کے دو اصلی عناصر ہے؛ افکار و اعمال میں خدا سے تقرب اور جسم و جان کے ساتھ طاغوت اور شیطان سے پرہیز۔ حج کے تمام اعمال اور حج کے دوران ترک کی جانے والی تمام باتیں، انہی دو عناصر کے لیے، ان کی راہ میں اور ان کے وسائل فراہم اور راہ ہموار کرنے کے لیے ہیں اور یہ در حقیقت اسلام اور تمام الہی دعوتوں کا خلاصہ بھی ہے۔

ٹاپ

حج کے اصل اہداف

عالم اسلام کے اہم مسائل کا جائزہ

ایک اہم موضوع جسے حجاج کرام کو حج کے ہدف کے ایک حصے کے طور پر اہمیت دینی چاہیے وہ عالم اسلام کے اہم اور موجودہ مسائل ہیں۔ اگر حج، پوری دنیا کے مسلمانوں کا عظیم سالانہ اجتماع ہے تو بلاشبہ اس اجتماع کا سب سے فوری حکم دنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں کے موجودہ مسائل کے سلسلے میں ہے۔ یہ مسائل، سامراجی پروپیگنڈوں میں اس طرح سے بیان کیے جاتے ہیں کہ ان سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو نہ تو سبق، تجربہ اور امید ملتی ہے اور اگر اس واقعے میں سامراج کی بد نیتی اور بد عملی مؤثر رہی ہو تو نہ کوئي مجرم رسوا ہوتا ہے اور نہ کوئی حقیقت ظاہر کی ہوتی ہے۔ حج وہ جگہ ہے جہاں اس تشہیراتی خیانت سے پردہ اٹھایا جانا، حقیقت کو آشکارا کیا جانا اور مسلمانوں کی عمومی آگہی کا راستہ ہموار کیا جانا چاہیے۔

وہ کون سی پیاسی روح ہے جو کوثر محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فیض اور زمزم حسینی کے چشمے سے سیراب ہو چکی ہو اور بدستور حج کے سیاسی مضمون کے بارے میں شک و شبہے کا شکار ہو؟ بغیر برائت کا حج، بغیر وحدت کا حج، بغیر تحرک اور قیام کا حج اور ایسا حج جس سے کفر و شرک کے لیے خطرہ پیدا نہ ہو، حج نہیں ہے اور اس میں حج کی روح اور حج کے معنی نہیں ہیں۔

ٹاپ

مسلمانوں کا اتحاد اور سامراج کا خوف

خانۂ خدا کے حج کے سب سے بڑے اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے قریب آئيں۔ یہ جو خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ (( و اذّن فی الناس بالحج یاتوک رجالا و علی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق)) اور یہ کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو مقررہ ایام میں اور عرفات، مشعر، منی' اور مسجد الحرام جیسی محدود جگہوں پر اکٹھا کرتا ہے تو یہ لوگ مسلمانوں کی ایک دوسرے سے شناسائي سے اس قدر خائف کیوں ہیں؟ بات یہ ہے کہ اسلامی اتحاد اور مسلمانوں کی رائے، نظریات اور باتوں میں اتحاد سامراج اور اس میں بھی سب سے زیادہ مکار امریکہ اور دنیا پر تسلط کے لیے اس کے ہتھکنڈوں کے لیے خطرناک ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بارہا بیان کیا ہے۔

ٹاپ

یکتا پرستی اور اتحاد کا پیغام

حج مسلمانوں کے ایک دوسرے سے قریب ہونے اور تمام مسلمانوں تک ان کی آواز پہنچانے کے لیے ہے۔ اتنے سارے قلوب کو جو چیز آپس میں جوڑتی ہے وہ، وہی پیغام ہے جو پہلی بار اس سرزمین سے نکلا تھا اور دنیا کے طول و عرض اور پوری تاریخ تک پہنچ گيا تھا؛ اور وہ تھا توحید اور اتحاد کا پیغام؛ خدا کی توحید اور امت کا اتحاد۔ توحید، طاغوتوں، سامراجیوں اور طاقت اور دھوکے سے کام لینے والوں کی خدائی کا انکار ہے اور اتحاد مسلمانوں کی عزت و اقتدار کا مظہر۔ کسی بھی تحریر یا تقریر سے زیادہ اس جاوداں پیغام کو ہر سال اپنے عظیم اجتماع کی صورت میں دہراتا اور پورے عالم اسلام تک پہنچاتا ہے۔ عالم اسلام کے کسی بھی گوشے میں رہنے والے تمام مسلمانوں کو حج کے ایام میں ایک بار پھر اس حقیقت کو پہچاننا چاہیے کہ اسلامی ممالک کی ترقی، سربلندی اور ہمہ گیر کامیابی صرف انہی دو باتوں سے حاصل ہوگی: اپنے تمام انفرادی، اجتماعی اور سیاسی پہلوؤں کے ساتھ توحید اور صحیح نیز آج کی دنیا میں عملی جامہ پہننے کے قابل اس کے مفہوم کے ساتھ اتحاد۔

ٹاپ

حج کے وسیع و ہمہ گير اہداف

اللہ تعالی کی بارگاہ میں مسلمان کی تنہائی کے عالم میں روحانی حاضری اور ذکر و خود شناسی اور قلب کو گناہ و غفلت کے زنگ سے پاکیزہ بنانے سے لیکر ایک جم غفیر میں اپنی موجودگی کے مسلمان شخص کے احساس، امت اسلامیہ کے ساتھ ہر مسلمان کے جڑے ہونے کے تاثر اور مسلمانوں کے عظیم اجتماع سے پیدا ہونے والے احساس قدرت تک، روحانی بیماریوں یعنی گناہوں سے شفایابی کی ہر فرد کی کوششوں سے لیکر امت کے پیکر پر لگے گہرے زخموں اور دردوں کی شناخت اور مداوا کی کوششوں اور مسلم اقوام یعنی اس عظیم پیکر کے اعضاء کے سلسلے میں جذبہ ہمدردی تک یہ ساری کی ساری چیزیں حج اور اس کے گوناگوں اعمال و مناسک میں ضم کر دی گئی ہیں۔

ٹاپ

ہدف سے دوری

اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ اس فریضہ الہی کی انجام دہی کی موجودہ شکل اور اس کی مطلوبہ شکل کے درمیان بہت فاصلہ ہے۔ امام خمینی (رہ) نے اس سلسلے میں بڑی موثر کوششیں کیں اور حج ابراہیمی، با عظمت و پر وقار حج، تعمیری و باعث تغیر حج کی واضح تصویر مسلم امہ کے سامنے پیش کی اور اسی کے مطابق اب تک حج، عالم اسلام میں بے شمار برکتوں کا سرچشمہ بن گيا ہے لیکن اس جغرافیائی وسعت کے پیش نظر تمام مسلمان اقوام میں اس نظرئے اور طرز عمل کو عام کرنے کے لئے علمائے دین کی سعی و کوشش اور اسلامی ممالک کے حکام کے تعاون اور روشن خیالی کی ضرورت ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اس انتہائی کلیدی فریضے پر وہ توجہ اور عمل کریں گے۔

ٹاپ

حج،اتحاد کی کنجی

اتحاد کی عظمت کا احساس

حج مسلمانوں کے اتحاد و یکرنگی کا مظہر ہے۔ یہ جو اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں کو اور ان میں سے ان افراد کو جو استطاعت رکھتے ہیں معینہ وقت پر مخصوص مقام پر طلب کیا ہے اور انہیں ایسے اعمال و حرکات کے سلسلے میں کئی شب و روز تک ایک جگہ مجتمع کر دیا ہے جو پر امن بقائے باہمی، نظم و ضبط اور ہم آہنگی کے مظہر ہیں، اس کا سب سے پہلا نمایاں ثمرہ ایک اک فرد میں اتحاد و اجتماعیت کا جذبہ، مسلمانوں کے اجتماع کی عظمت و جلالت کا نظارہ اور ان کے اندر احساس عظمت و وقار پیدا ہونا ہے۔ اس عظمت و وقار کے احساس کے ساتھ اگر مسلمان کسی پہاڑی درے میں بھی زندگی گزار رہا ہو تو کبھی خود کو اکیلا محسوس نہیں کرے گا۔ اسی حقیقت کے احساس کے نتیجے میں مسلمان تمام اسلامی ممالک میں اسلام کی دشمنی یعنی سرمایہ داری کے نظام اور اس کے مہروں اور ہم نواؤں کے سیاسی و اقتصادی تسلط اور نیرنگ و فتنہ انگیزی سے ٹکرا جانے کی جرئت و ہمت اپنے اندر پیدا کر سکیں گے۔ پھر ان پر مغربی سامراجیوں کا حقارت و بے بسی کا احساس پیدا کرنے والا جادو کارگر نہیں ہوگا جو یہ طاقتیں، قوموں کے سلسلے میں استعمال کرتی آئی ہیں۔ اسی عظمت و وقار کے نتیجے میں مسلمان حکومتیں اپنے عوام کا سہارا لیکر خود کو اغیار کے سہارے سے بے نیاز بنا سکتی ہیں اور پھر مسلمان عوام اور ان پر حکمرانی کرنے والے نظام کے درمیان یہ مصیبت بار فاصلہ بھی باقی نہیں رہےگا۔ اسی اتحاد و اجتماعیت کے احساس کے بعد ماضی و حال کے سامراجی نیرنگ یعنی انتہا پسندی پر مبنی فرقہ وارانہ تعصب کے جذبات بھڑکانے کی کوششیں مسلمان قوموں کے درمیان یہ وسیع و عمیق خلیج پیدا نہیں کر سکیں گی اور عرب، فارس، ترک، افریقی اور ایشیائی قومیتیں ایک دوسرے کی اسلامی شناخت و ماہیت کی حریف و مخالف ہونے کے بجائے اس کا جز اور تسلسل بن جائيں گی اور ایک وسیع ماہیت کی عکاسی کریں گی۔ بجائے اس کے کہ ہر قومیت دوسری قومیتوں کی نفی اور تحقیر کا وسیلہ بنے، ہر قوم دیگر اقوام کے درمیان اپنی تاریخی، نسلی اور جغرافیائی خصوصیات اور خوبیوں کی منتقلی کا ذریعہ بن جائے گی۔

ٹاپ

اس عظیم اجتماع کے مضمرات

اسلام میں ویسے تو نماز جماعت، نماز جمعہ اور نماز عید جیسی اجتماعی طور پر انجام دی جانے والی عبادتیں بھی موجود ہیں لیکن (حج کا) یہ عظیم اجتماع، ذکر و وحدانیت کو مرکزیت دینا اور دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمانوں کو نقطہ واحد پر لاکر جمع کر دینا بڑا ہی با معنی عمل ہے۔ یہ بات کہ پوری امت مسلمہ اور سارے مسلمان اپنے لسانی، نسلی، مسلکی اور ثقافتی اختلافات کے باوجود ایک جگہ پر جمع ہوں اور مخصوص اعمال کو آپس میں مل کر انجام دیں جو عبادتوں، گریہ و زاری، ذکر و مناجات اور توجہ و ارتکاز پر مشتمل ہیں، یہ بہت با معنی چیز ہے۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کی نظر میں اور اسلامی نقطہ نگاہ سے قلوب و اذہان کا اتحاد میدان سیاست و جہاد میں ہی اہم نہیں بلکہ خانہ خدا میں جانا، قلوب کا ایک دوسرے کے نزدیک ہونا، جسموں اور جانوں کا ایک دوسرے کی معیت میں ہونا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ بنابریں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے : واعتصموا بحبل اللہ جمیعا اللہ کی رسی کو اکیلے پکڑنے کا فائدہ نہیں ہے، ایک ساتھ مل کر پکڑنا ضروری ہے۔ ایک ساتھ مل کر اعتصام بحبل اللہ کیجئے۔ الہی تعلیم و تربیت و ہدایت کے محفوظ مرکز کو ایک ساتھ مل کر اپنائیے۔ معیت و ہمراہی ضروری ہے۔ دل ایک ساتھ ہوں، جانیں ایک ساتھ ہوں، فکریں ایک ساتھ ہوں، جسم ایک ساتھ ہوں۔ یہ جو آپ طواف کرتے ہیں، یہ ایک مرکز کے گرد دائرے کی شکل میں حرکت کرنا، یہ محور توحید کے ارد گرد مسلمانوں کی حرکت و پیش قدمی کی علامت ہے۔ ہمارے سارے کام، اقدامات اور حوصلے وحدانیت پروردگار اور ذات اقدس الہی کے محور کے ارد گرد ہونا چاہئے۔ یہ درس ہماری پوری زندگی کے لئے ہے۔

ٹاپ

اتحاد کے مواقع کا غلط استعمال

یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ کوئی شخص اتحاد کے اس ذریعے اور وسیلے کو اختلاف و خلیج پیدا کرنے کا حربہ بنا لے۔ یہ خطاب ہر ایک سے ہے۔ (میرا) خطاب صرف اس متعصب اور کفر کے فتوے صادر کرنے والے شخص سے نہیں ہے جو مدینے میں کھڑے ہوکر شیعوں کے مقدسات کی بے حرمتی کرتا ہے، میرا خطاب سب سے ہے۔ حج کے امور کے ذمہ داران، کاروانوں کے ذمہ داران اور علماء سب ہوشیار رہیں کہ اتحاد کے اس موقع کو (بعض عناصر) تفرقہ انگیزی کا حربہ نہ بنا لیں، دلوں میں ایک دوسرے کی کدورتیں نہ بھر دیں۔ کون سی چیز ہے جو ایک شیعہ کے دل میں اپنے غیر شیعہ مسلمان بھائی کے تعلق سے کینہ بھر دیتی ہے، ایک سنی کے دل کو اپنے شیعہ مسلمان بھائی کی کدورت سے پر کر دیتی ہے۔ غور کیجئے کہ وہ کون سی چیزیں ہیں۔ ان کی نشاندہی اور انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ حج کو جو زخم کا مداوا، اتحاد کا ذریعہ اور عالم اسلام کے دلوں، نیتوں اور ارادوں کی یکسانیت و ہم آہنگی کا وسیلہ ہے انتشار اور بغض و عناد کا حربہ نہیں بننے دینا چاہئے۔ اس مسئلے اور اس کے مصادیق کی شناخت کے لئے بہت ہوشیاری اور دقت نظر کی ضرورت ہے۔

ٹاپ

اتحاد کی راہ کے روڑے

جو لوگ حج میں تفرقہ اندازی، فتنہ انگیزی، خرافاتی اور رجعت پسندانہ افکار کی ترویج کی کوششوں میں مصروف ہیں وہی سامراج کے عمدی یا غیر عمدی مہرے ہیں جو اس عظیم موقع کو نابود کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جو لوگ اس اتحاد کی عظمت و جلالت اور شکوہ و وقار کو عظیم امت مسلمہ کی نظروں میں مجسم نہیں ہونے دیتے وہ ان افراد میں شامل ہیں جو اس عظیم ذخیرے اور سرمائے کو نابود اور ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جو لوگ تفاخر و امتیاز، دیگر قوموں کے استحصال و تذلیل، دنیا کے مستضعفین کے خلاف جنگ افروزی کا وسیلہ قرار پانے والی عظمت و جلالت نہیں بلکہ راہ خدا میں عظیم امت اسلامیہ کی عظمت و جلالت کو الہی اقدار کی راہ کی عظمت و جلالت کو اور وحدانیت کے راستے کی عظمت و جلالت کو عالم اسلام میں منعکس نہیں ہونے دینا چاہتے وہ پوری انسانیت پر ظلم کر رہے ہیں۔ اس وقت اس عظیم الہی ذخیرے اور سرمائے کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے عالم اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

ٹاپ

سامراج کی تفرقہ انگیزی

اس وقت عالم اسلام میں سامراج اور امریکا کا ایک بنیادی ہدف اختلاف پیدا کرنا ہے اور اس کا بہترین راستہ شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں سامراج کے پروردہ عناصر عراق کے مسائل کے سلسلے میں کیسی باتیں کر رہے ہیں، کیسی زہر افشانی کر رہے ہیں اور بہ خیال خود نفاق کے کیسے بیج بو رہے ہیں؟! برسہا برس سے مغربی سامراج اور توسیع پسند طاقتوں کے ہاتھ ان حرکتوں میں مصروف ہیں۔ حج میں انہیں اس کا بڑا اچھا موقع مل جاتا ہے کہ شیعہ کو سنی کے اور سنی کو شیعہ کے خلاف مشتعل و برافروختہ کریں۔ ایک دوسرے کے مقدسات اور محترم ہستیوں کی توہین کے لئے ورغلائیں۔ بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ صرف حج میں ہی نہیں بلکہ پورے سال اور سبھی میدانوں میں ہوشیار و چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ سنی جنگ امریکا کی مرغوب ترین شئے ہے۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ جنگ میں ایک دوسرے کے مد مقابل صف آرا ہونے والوں کی مانند ایک دوسرے کے سامنے بیٹھیں، بغض و کینے میں ڈوب کر ایک دوسرے کے خلاف بولیں، ایک دوسرے کو گالیاں دیں، بد کلامی کریں! بعید نہیں ہے کہ اس پر محن دور میں حج کے موقع پر اختلاف و انتشار پیدا کرنے کے لئے کچھ افراد کو کرائے پر حاصل کر لیا گيا ہو، لوگوں کو بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔ کاروانوں میں شامل علمائے کرام اس مسئلے میں زیادہ ذمہ دارانہ انداز میں کام کریں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کی مرضی کیا ہے۔ یہ بہت بڑی غفلت اور سادہ لوحی ہے کہ انسان اس خیال کے تحت کہ وہ حقیقت کا دفاع کر رہا ہے، دشمن کی سازش کی مدد کرنے لگے اور دشمن کے لئے کام کرنے لگے۔ کچھ لوگ مزدوری لے کر، پیسے لیکر یہ کام کرتے ہیں، بسا اوقات سطحی فکر والے متعصب لوگوں کو ایک دوسرے کے عقائد کے خلاف برانگیختہ اور مشتعل کرتے ہیں۔ اب اگر سامنے والا ویسا ہی شدید رد عمل دکھاتا ہے تو بلا شبہ ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے کیونکہ ان کا تو مقصد ہی یہی ہے۔ وہ ہمیں آپس میں دست بگریباں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مطمئن رہیں۔

ٹاپ

مشرکین سے اعلان برائت

حج کا ایک بنیادی ستون

اس عظیم موقع پر جہاں ذکر خدا فاذکروا اللہ کذکرکم آبائکم او اشد ذکرا اور مشکرین سے اعلان برائت و اذان من اللہ و رسولہ الی الناّس یوم الحج الاکبر انّ اللہ بریء من المشرکین و رسولہ حج کے بنیادی ارکان میں شمار ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف ہر اس عمل کے سلسلے میں احتیاط بھی بہت زیادہ ہے جس سے (دینی) بھائیوں یعنی اس امت واحدہ کے اعضاء کے درمیان جدائی و دشمنی میں اضافہ ہو۔ حتی دو مسلمان بھائيوں کے ما بین وہ بحث و تکرار بھی جو معمول کی زندگی میں کوئی خاص بات نہیں سمجھی جاتی، حج میں ممنوع و حرام ہے فلا رفث و لا فسوق و لا جدال فی الحج۔ جس میدان میں مشرکین، یعنی یکتا پرست امت واحدہ کے اصلی دشمنوں سے اظہار برائت لازمی ہو جاتا ہے وہیں مسلمان بھائیوں یعنی یکتا پرست امت واحدہ کے اعضاء کے درمیان بحث و تکرار ممنوع و حرام ہو جاتی ہے۔ اس طرح حج میں اتحاد و اجتماعیت کا پیغام اور بھی آشکارا ہو جاتا ہے۔

در حقیقت حج غفلت و بے حسی کو دور کرنے کی اسلام کی اہم ترین تدبیر ہے۔ اس فریضے کا بین الاقوامی پہلو اس پیغام کا حامل ہے کہ امت مسلمہ پر اجتماعی حیثیت سے بھی غفلت و بے خبری کی گرد جھاڑنے کا فریضہ ہے۔

ٹاپ

حقائق بیان کرنے کا موقع

حقائق کو بیان کرنے اور سامراج و امریکا سے اعلان برائت کے اس موقع کو گنوانا نہیں چاہئے۔ عالم اسلام کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ اسے کون سے مسائل در پیش ہیں؟ یہ (مواقع) عالم اسلام کے لئے جوش و ولولے اور حرکت و پیش قدمی کا وسیلہ بننا چاہئے۔ ایسے پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں کہ گویا اب تو کچھ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ سامراج کا غلبہ یقینی ہے اور اسے روکنا ناممکن۔ امر واقع یہ نہیں ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ امت اسلامیہ زندگی کی رعنائيوں سے سرشار ایک قدرت مند حقیقت ہے۔ اگر وہ چاہ لے اور ارادہ کرکے قدم بڑھا دے تو نہ امریکا کی کوئی چال کامیاب ہوگی اور نہ اس کے بڑوں کو کوئی راستہ سجھائی دے گا۔

قوموں کو چاہئے کہ جس طرح بھی ممکن ہو عالم اسلام کے مفادات اور مصلحتوں کی بہ نسبت اپنا قلبی لگاؤ ظاہر کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے عالم اسلام کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کریں۔ اسلام کی جانب سے معین کردہ حج میں انجام دیا جانے والا یہ کمترین کام ہے جس کی توقع کی جاتی ہے۔

ٹاپ

حج کی روح

اظہار برائت کو ہم نے باہر سے لاکر حج پر مسلط نہیں کیا ہے۔ یہ حج کا جز، حج کی روح اور حج کے عظیم اجتماع کا حقیقی مفہوم ہے۔ بعض افراد کو یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ دنیا کے گوشہ و کنار میں اخبارات اور اپنے بیانوں اور تنقیدوں میں مسلسل یہی رٹ لگائيں کہ آپ نے تو حج کو سیاسی رنگ دے دیا ہے، حج کو بھی سیاسی چیز بنا دیا ہے آخر وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟! اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے کسی سیاسی مفہوم کو شامل کر دیا ہے تو ان کے جواب میں یہی کہنا چاہئے کہ حج کبھی بھی سیاسی مفہوم سے خالی نہیں رہا۔

مشرکین سے برائت کا اعلان اور بتوں اور بتگروں سے بیزاری کا اظہار، مومنین کے حج پر حکمفرما روح ہے۔ حج میں قدم قدم پر دل و جان اللہ کے سپرد کر دینے، اس کی راہ میں سعی و کوشش، مشرکین سے برائت، اس شیطان پر کنکریاں مارنے اور اسے دتکارنے نیز اس کے مقابلے میں محاذ قائم کرنے کے مناظر نظر آتے ہیں۔ اسی طرح حج میں جگہ جگہ اہل قبلہ کے اتحاد و یکجہتی اور غیر حقیقی امتیازات کی بے اعتباری اور حقیقی و ایمانی اخوت و اتحاد کی جلوہ افروزی کے مظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ حج انہیں دروس و اسباق کے سیکھنے اور دہرانے سے عبارت ہے۔

ٹاپ

مشرکین سے اعلان برائت کی مخالفت!

میرے لئے یہ بات قابل قبول نہیں کہ وہ حکومت، جس نے بیت اللہ کے زائرین کی خدمت کی ذمہ داری قبول کی ہے، ایسے عمل پر پابندی عائد کر دے جو مسلمانوں کے اتحاد کا باعث، مسلمان قوموں کے وقار کا موجب اور سامراجیوں اور عالم اسلام کے دشمنوں سے نفرت کا آئینہ ہے۔ یہ عمل دنیا کی موجودہ گروہ بندی کے مطابق کس گروہ اور حلقے کے مفاد میں ہے؟ کیا مظلوم مسلمان قوموں کی حمایت کوئي جرم ہے؟ کیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکا اور دیگر سامراجیوں کی سازشوں کا افشاء فریضے کے برخلاف کوئی عمل ہے؟ کیا مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دینا اور تفرقہ انگیزی کے عوامل و عناصر سے اظہار نفرت قرآن کا صریحی حکم نہیں ہے؟ ان اہم ترین فرائض کو معطل کر دئے جانے سے جن کو فائدہ پہنچنے والا ہے وہ امریکا اور صیہونزم ہیں۔

اس وقت حج میں مسلمان کے منہ سے بلند ہونے والی برائت کی آواز، سامراج اور اس کے پیروکاروں سے بیزاری کی آواز ہے جو بد قسمتی سے اسلامی ممالک میں بڑی کامیابی سے اپنے پیر جما رہے ہیں اور اسلامی معاشروں پر اپنا شرک آلود نظام زندگی، ثقافت اور سیاست مسلط کرکے مسلمانوں کی زندگی میں عملی توحید و یکتا پرستی کی بنیادوں کو متزلزل اور انہیں غیر خدا کی عبادت و پرستش میں مبتلا کر رہے ہیں۔ ان کی یکتا پرستی لقلقہ زبانی بن کر رہ گئی ہے، ان کی زندگی میں یکتا پرستی کے مفہوم کے آثار مفقود ہو چکے ہیں۔

ٹاپ