آیت اللہ العظمی خامنہ کا بصیرت افروز تجزیہ

فرزند رسول حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے ہم گیارہویں امام کے بارے میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی تقاریر کے چند اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

*فضیلت تو وہ ہے جس کی گواہی دشمن بھی دے

ہمارے اس امام کے فضائل، علم و دانش، تقوی و طہارت، ورع و عصمت، دشمنوں کے مقابل بے مثال شجاعت اور سختیوں پر صبر و استقامت کی گواہی اپنے پرائے، معتقدین اور غیر معتقدین، موافقین و مخالفین سب دیتے ہیں۔ اس عظیم انسان نے، اس باشکوہ ہستی نے جب شہادت پائی تو آپ کی عمر مبارک کل اٹھائیس سال کی تھی۔ تشیع کی مایہ ناز تاریخ میں اس طرح کی مثالیں کم نہیں ہیں۔ ہمارے امام زمانہ علیہ السلام کے والد ماجد اتنے فضائل اور بلند مقامات کے بعد بھی دشمنوں کی مجرمانہ حرکت اور زہر خورانی کا نشانہ بن کر جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ محض اٹھائیس سال کے تھے۔ اس طرح حضرت، نوجوانوں کے لئے بہترین اسوہ ہیں۔ نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام جو جواد الائمہ سے ملقب ہیں پچیس سال کی عمر میں شہید کر دئے گئے اور گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اٹھائیس سال کی عمر میں اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ لیکن عظمت و کرامت کا یہ عالم ہے کہ صرف ہم (شیعہ) آپ کے قصیدہ خواں نہیں بلکہ مخالفین اور دشمن بھی، آپ کو امام نہ ماننے والے افراد بھی اس کے معترف ہیں۔

29 فروری 2012 کو عوامی طبقات سے رہبر انقلاب کے خطاب کا ایک اقتباس

*منصب امامت، اہل بیت رسول علیہم السلام سے حاکموں کے حسد کی وجہ

یہ بزرگوار ہستیاں، ہمیشہ جدوجہد میں مصروف رہیں۔ کیونکہ مسند حکومت پر جو قابض تھا وہ بھی اپنی دینداری کا دعویدار تھا۔ وہ بھی ظاہری طور پر دینی احکام پر عمل کرتا تھا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات دینی امور میں امام علیہ السلام کے نظریات کو قبول بھی کرتا تھا۔ (جیسے وہ واقعات جو آپ نے مامون کے تعلق سے سنے ہیں کہ اس نے صریحی طور پر امام علیہ السلام کی رائے تسلیم کی۔) یعنی ان کے نزدیک کبھی کبھی فقہی مسائل میں امام کی رائے پر عمل کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ بلکہ اہل بیت کے خلاف ریشہ دوانیوں اور ان سے دشمنی کی وجہ یہ تھی کہ اہل بیت علیہم السلام خود کو امامت کا حقدار مانتے تھے اور اعلان کرتے تھے کہ ہم امام ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے جو منی تشریف لے گئے تھے، فرمایا؛ «إِنَ‌ّ رَسُولَ اللَّهِ کانَ الْاِمامُ» (یعنی بیشک رسول اللہ امام تھے۔) اس کے بعد آپ نے ایک ایک کرکے سارے نام لئے اور اپنے نام پر پہنچے تو فرمایا؛ میں امام ہوں۔ حاکمان وقت کے خلاف سب سے بڑی تحریک یہی تھی۔ کیونکہ جو حاکم بن بیٹھا تھا اور خود کو پیشوا اور امام سمجھ رہا تھا، وہ بھی دیکھتا ہے کہ امام کے اندر جن اوصاف اور قرائن کا ہونا ضروری ہے وہ سب حضرت میں موجود ہیں، جبکہ اس کے اندر نہیں پائے جاتے۔ اس لئے وہ امام کے وجود کو اپنی حکومت کے لئے خطرہ تصور کرتا تھا، کیونکہ امامت کا حقیقی دعویدار موجود ہے۔ حاکمان وقت اسی جذبے کے تحت جنگ کرتے رہے اور ائمہ علیہم السلام بھی ہرگز پیچھے نہیں ہٹے۔ ظاہر ہے کہ اس جدوجہد کے دوران ائمہ علیہم السلام جن تعلیمات، فقہی احکام اور اخلاقیات کی تبلیغ کرتے تھے وہ بھی اپنی جگہ پر خاص اہمیت رکھتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ شاگردوں کی تربیت اور شیعوں کے آپسی رابطوں کا دائرہ روز بروز بسیع تر ہوتا گیا۔ انھیں چیزوں کی وجہ سے شیعوں کا وجود باقی رہا۔ ورنہ آپ ایک ایسے مسلک کے بارے میں سوچئے کہ ڈھائی سو سال تک حکومت جس کی دشمن رہی ہو۔ اس کا نام و نشان باقی نہیں رہےگا۔ ایسے مسلک کو مٹ جانا چاہئے۔ لیکن آج آپ دنیا میں دیکھئے کہ کیا عالم ہے؟! شیعہ فرقہ کہاں پہنچ چکا ہے؟!
امام جعفر صادق، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کی شان میں جو اشعار لکھئے گئے ہیں ان میں یہ نکتہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ان ہستیوں نے جد و جہد کی ہے اور اسی جدوجہد میں اپنی جان قربان کر دی۔ یہ ایک تحریک ہے جو اپنی طے شدہ منزل کی طرف بڑھ رہی ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مورخہ 21 ستمبر 2001 کے خطاب کا ایک اقتباس

*ائمہ کی غریب الوطنی کی شدت جتنی بڑھی شیعوں کا رابطہ اتنا ہی وسیع تر ہوا

امام علی رضا، امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کے زمانے میں شیعوں کا رابطہ دوسرے ادوار سے زیادہ وسیع تر ہوا ہے۔ کسی بھی دور میں امام سے شیعوں کے روابط اور پورے عالم اسلام کی سطح پر ان کا نیٹ ورک ایسا نہیں رہا جیسا امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کے زمانے میں تھا۔ وکلا اور نائبین کی موجودگی، وہ واقعات جو حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل کئے جاتے ہیں کہ مثلا کوئی شخص پیسے لیکر آیا اور امام نے ہدایات دیں کہ کون کون سے کام انجام دئے جائیں، ان واقعات سے اس نکتے کی تائید ہوتی ہے۔ یعنی باوجودیکہ ان دونوں اماموں کو سامرا میں محصور کرکے رکھا گیا تھا اور ان سے پہلے امام محمد تقی علیہ السلام کو الگ انداز سے اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو کسی اور انداز سے محصور رکھا گیا تھا، مگر عوام سے ان کا رابطہ لگاتار وسیع تر ہوتا گیا۔ یہ رابطہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے زمانے سے پہلے بھی تھا، لیکن جب حضرت خراسان تشریف لائے تو آپ کی تشریف آوری کا اس رابطے کی وسعت پر بڑا اچھا اثر پڑا۔

رہبر انقلاب کے مورخہ 9 اگست 2005 کے ایک خطاب سے لیا گیا اقتباس

یہ حقیقت ہے کہ یہ بزرگوار ہستیاں شدید غریب الوطنی کے عالم میں رہیں۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ مدینے سے دور، خاندان سے دور، مانوس ماحول سے دور، لیکن اس کے ساتھ ہی ان تینوں اماموں حضرت امام محمد تقی، حضرت امام علی نقی اور حضرت امام حسن عسکری علیہم السلام کے تعلق سے ایک بڑا اہم نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جیسے جیسے امام حسن عسکری کے دور امامت کے آخری ایام کی جانب بڑھتے ہیں، ہمیں نظر آتا ہے کہ غریب الوطنی کی شدت بڑھتی جاتی ہے، مگر ان تینوں اماموں کے زمانے میں ائمہ علیہم السلام کا اثر اور شیعوں کا دائرہ امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے کے مقابلے میں شاید دس گنا زیادہ وسیع تر ہو گیا اور یہ بڑی حیرت انگیز چیز ہے۔ ان ہستیوں کو اتنی زیادہ سختیوں اور زیادتیوں کا جو نشانہ بنایا گیا، شاید اس کی وجہ یہی چیز ہو۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مورخہ 10 مئی 2003 کے خطاب سے ماخوذ ایک اقتباس

 

*سامرا میں رہتے ہوئے امام حسن عسکری علیہ السلام نے پورے عالم اسلام سے رابطہ قائم کر لیا

امام علی رضا علیہ السلام کے ایران روانہ ہونے اور خراسان تشریف لانے کے بعد جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں ایک یہی تھا۔ غالبا یہ پہلو بھی بنیادی طور پر امام ہشتم علیہ السلام کے مد نظر رہا ہو۔ اس سے قبل تک شیعہ ہر جگہ اکا دکا بکھرے ہوئے تھے، مگر ان کا آپس میں رابطہ نہیں تھا۔ مایوسی کا عالم، کوئی واضح افق سامنے نہیں تھا، امید کی کوئی کرن نہیں تھی۔ خلفا کی حکومت کا تسلط ہر جگہ قائم تھا۔ اس سے پہلے ہارون تھا اپنی اس فرعونی قوت کے ساتھ۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام جب خراسان آئے اور اس راستے سے گزرے تو لوگوں کی نگاہ اس شخصیت پر پڑی جو علم، عظمت، شکوہ اور صدق و نورانیت کا مرقع تھی۔ لوگوں کی نگاہوں نے ایسی ہستی کو کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس سے پہلے کے ادوار میں کتنے شیعہ خراسان سے سفر کرکے مدینہ جا پاتے تھے اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت کرتے تھے؟ اس دفعہ اس طولانی مسافت کے دوران ہر جگہ لوگوں نے امام کو قریب سے دیکھا۔ بڑا حیرت انگیز منظر تھا۔ گویا لوگ پیغمبر اسلام کی زیارت کر رہے تھے۔ وہ ہیبت، وہ روحانی عظمت، وہ وقار، وہ اخلاق، وہ تقوی، وہ نورانیت، وہ علم کا متلاطم سمندر کہ جو بھی پوچھو، جو بھی چاہو، سب اس کے پاس موجود ہے۔ یہ تو کبھی (ان علاقوں کے) لوگوں نے دیکھا ہی نہیں تھا۔ ایک ہیجان برپا ہو گیا۔
امام خراسان اور مرو پہنچے۔ دار الحکومت مرو تھا، جو اب موجودہ ترکمانستان میں واقع ہے۔ ایک دو سال بعد حضرت کی شہادت ہوتی ہے اور لوگوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ امام علیہ السلام کی آمد، جو ان چیزوں اور اوصاف کی جلوہ نمائی کا باعث بنی جن کے لئے لوگوں کی آنکھیں ترسی ہوئی تھیں، اسی طرح حضرت کی شہادت کے نتیجے میں، جس سے عجیب غم طاری ہو گیا، ان علاقوں کے حالات شیعوں کے حق میں تبدیل ہو گئے۔ ایسا نہیں تھا کہ سب شیعہ ہو گئے ہوں، مگر اتنا ضرور ہوا کہ سب اہل بیت سے محبت کرنے لگے تھے۔
امام رضا علیہ السلام کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے وقت تک یہی ماجرا رہا۔ امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام اسی شہر سامرا میں پورے عالم اسلام سے وسیع روابط قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے، جو حقیقت میں کسی چھاونی کی مانند تھا۔ یہ کوئی بڑا شہر نہیں تھا۔ نو تشکیل یافتہ دار الحکومت تھا؛ «سُرّ من رأى»۔ حکومت کے عمائدین، عہدیداران اور درباری، جبکہ عوام الناس میں سے بس اتنے لوگ جو روز مرہ کی ضرورتیں پوری کر سکیں، وہاں بس گئے تھے۔ جب ہم ائمہ علیہم السلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جس طرح جدوجہد کرتے تھے۔ یعنی صرف یہ نہیں تھا کہ وہ روزہ، نماز، طہارت اور نجاست کے مسائل سے متعلق سوالوں کے جواب دے دیا کرتے تھے۔ منصب امامت کے تمام پہلوؤں اور لوازمات کے ساتھ امام اس منصب پر جلوہ افروز ہوتے تھے اور عوام کے سامنے اپنی بات رکھتے تھے۔ میری نظر میں دیگر پہلوؤں کے ساتھ ہی یہ پہلو بھی قابل غور ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو مدینے سے سامرا لایا گيا اور جوانی کے سن میں، 42 سال کی عمر میں آپ کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ یا حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو 28 سال کے سن میں شہید کر دیا گيا۔ یہ سب پوری تاریخ میں ائمہ علیہم السلام، آپ کے اصحاب اور شیعوں کی تحریک کی عظمت و ہیبت کی نشانی ہے۔ درآنحالیکہ خلفا کی حکومتیں انتہائی سختگیر پولیس اسٹیٹ کی طرح کام کرتی تھیں لیکن اس کے باوجود ائمہ علیہم السلام نے اس انداز سے کارنامے رقم کئے۔ الغرض یہ کہ غریب الوطنی کے ساتھ ہی اس عظمت و وقار پر بھی نظر رہنی چاہئے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مورخہ 10 مئی 2003 کے خطاب سے ماخوذ ایک اقتباس