سیاست، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سے
بسمہ تعالی

انسان جو سرگرمیاں اور کوششیں انجام دیتا ہے ان میں بعض کا تعلق خود اس کے ذاتی مسائل اور امور سے ہوتا ہے جو انسانی سرگرمیوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ مثلا معیشت، معنویت، جذبات و احساسات، لوگوں سے ذاتی تعلقات وغیرہ۔ لیکن انسان کی سرگرمیوں کا اہم حصہ وہ ہے جو وہ معاشرے کی سطح پر اجتماعی شکل میں انجام دیتا ہے، اسی کو سیاست کہتے ہیں۔ اقتصادی سیاست، سماجی سیاست، فوجی سیاست، ثقافتی سیاست، عالمی سیاست یہ انسانی ‎زندگی کی اہم اور بنیادی سرگرمیاں ہیں۔ بنیادی کیوں؟ کیونکہ یہ سیاستیں انسان کی سرگرمیوں کو خاص سمت اور رخ عطا کرتی ہیں۔ انسان کی سب سے اہم سعی و کوشش وہ ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ذاتی، معمولی اور چھوٹی موٹی سرگرمیوں کو بھی با ہدف بناتا اور خاص رخ دیتا ہے۔ دین کا تعلق ان دونوں شعبوں سے ہے۔ ذاتی سرگرمیوں کے شعبے سے بھی اور سیاست کے شعبے سے بھی کہ جو انسانی زندگی کا بہت وسیع شعبہ ہے۔
ہجرت کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سب سے پہلا قدم، حکومت کی تشکیل اور معاشرے کو سیاسی نظم و نسق عطا کرنا تھا۔ دوسرے بہت سے شواہد ہیں جو دین و سیاست کے گہرے رشتے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جی ہاں، دین محمدی سیاست کو دین کا ایک جز اور اٹوٹ حصہ مانتا ہے اور تمام مسلمانوں کو اس دین کی طرف سے سیاسی شعور اور سیاسی کارکردگي کی دعوت دی گئی ہے۔
دین اسلام بلکہ تمام ادیان الہی میں سیاست، علم و دانش، انسانی زندگی اور سماجی امور کو محور قرار دیا گيا ہے۔ دین تمام شعبوں منجملہ سیاسی شعبے میں انسانی زندگی کو نظم و ترتیب عطا کرتا ہے۔
سامراج کی لعنت جس نے درجنوں ممالک اور دسیوں لاکھ انسانوں کو برسہا برس تک سخت ترین حالات سے دوچار کئے رکھا در حقیقت نتیجہ ہے علم کی روحانیت سے، سیاست کی معنویت سے اور حکومت کی اخلاقیات سے جدائی اور علاحدگي کا جو یورپ میں رونما ہوئی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں، کمیونزم، خاندانی ڈھانچے کی نابودی، جنسی بد عنوانیوں کا سیلاب، سرمایہ دارانہ نظام کا استبداد، یہ سب کچھ اسی جدائي اور علاحدگی کا نتیجہ ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ہماری سیاست عین دین اور ہمارا دین عین سیاست ہے، واقعی مدرس مرحوم نے کتنی اچھی بات کہی تھی اور امام (خمینی رہ) نے بھی اس کی تائید کی تھی، اس (نعرے) کا پیغام بہت واضح ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری سیاست، دیندارانہ اور پرہیزگارانہ ہونا چاہئے۔ ہر سیاسی فعل پسندیدہ نہیں ہے۔ بعض افراد سیاسی امور کو ایسے امور کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ہدف یہ ہوتا ہے کہ اس کام کو (خالص) سیاسی انداز میں انجام دیا جائے۔ یہ درست نہیں ہے۔ سیاسی کام دیندارانہ شکل میں ہونا چاہئے۔ شریعت میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے، سیاسی میدان میں بھی اس پر توجہ دی جانی چاہئے اس (شریعت کے حکم) کا احترام کیا جانا چاہئے۔
البتہ سیاست کو دو خطرے ہمیشہ لاحق رہے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ سیاست اخلاقیات سے جدا ہو جائے، روحانیت، معنویت اور فضیلت سے عاری ہو جائے یعنی سیاست پر شیطنت کا غلبہ ہو جائے، سیاست لوگوں کی نفسانی خواہشات کا کھلونا بن جائے، سیاست معاشروں کے طاقتور اوردولتمند افراد کے مفادات کے جال میں پھنس کر کبھی ادھر تو کبھی ادھر کھینچی جانے لگے۔ اگر سیاست اس مصیبت کا شکار ہوئي تو انسانی زندگی کے تمام سماجی شعبے اس آفت سے متاثر ہوں گے۔ سیاست کے لئے دوسرا خطرہ یہ ہے کہ تنگ نظر، بچکانہ سوچ والے اور نا اہل افراد کا اس پر غلبہ ہو جائے اور سیاست با صلاحیت افراد کے ہاتھوں سے نکل کر بے لیاقت افراد کے ہاتھوں میں پہنچ جائے۔
(اقتباس)