سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہئے کہ کسی بھی مذہب اور مکتب فکر، کسی بھی تہذیب و ثقافت اور کسی بھی فلسفیانہ نظرئے میں آزادی کی اس شکل کو اقدار میں شمار نہیں کیا گیا ہے کہ جس میں انسان ہر قید و شرط سے آزاد ہو، اس کے سامنے کہیں کوئي رکاوٹ نہ ہو اور جو اس کے جی میں آئے کرے۔ دنیا میں کوئي بھی ایسی آزادی کا قائل نہیں ہے اور یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ کوئی یہ آزآدی حاصل کرلے۔ فرض کریں کہ کسی معاشرے میں انسانوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ جو جی میں آئے کریں ان کے لئے کوئي روک ٹوک نہ ہو تو خود یہی آزادی دوسرے بہت سے افراد کی آزادی سلب کر لے گی، ان کا چین و سکون چھین لے گی۔
صحیح معنی میں آزادی جو آلائشوں، ہوی و ہوس اور مادیات کے بندھن سے روح انسانی کی نجات سے عبارت ہے، ہمیں صرف اور صرف الہی مکاتب فکر میں مل سکتی ہے۔ مغربی افکار میں تو آپ اس کی بو بھی نہیں محسوس کر پائيں گے۔ انقلاب فرانس کے دوران، اٹھارہویں صدی اور اس کے بعد مغربی دنیا میں جس آزادی پر بحث شروع ہوئي وہ تو اس آزادی کے مقابلے میں بہت محدود اور بے ارزش ہے جو انبیاء الہی اور دینی مکاتب فکر میں بیان کی گئی ہے۔
مغربی ثقافت میں آزادی کا خاکہ کھینچنے والا قانون صرف سماجی امور اور پہلؤں کو دیکھتا ہے۔ بایں معنی کہ یہ قانون کہتا ہے کہ کسی بھی انسان کی آزادی سے دوسرے کی آزآدی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے اور اس سے دوسروں کے مفادات خطرے میں نہیں پڑنے چاہئیں۔ اسلام میں آزادی کی حدیں کچھ اور ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ آزادی سے استفادے کے لئے اس بات کا خیال رکھنے کے ساتھ کہ دوسروں کی آزادی اور مفادات کو نقصان نہ پہنچے اس بات پر بھی توجہ رکھنی ہوگی کہ خود اپنے ذاتی مفادات بھی خطر میں نہ پڑنے پائیں۔ انسان آزادی اور اختیار کےنام پر اپنے مفادات بھی خطرے میں ڈالنے کا حق نہیں رکھتا۔
مغربی لبرلزم میں آزادی، دین اور خدا جیسی عظیم حقیقتوں سے جدا ہے۔ اسی لئے اس مکتب فکر کے لوگ یہ نہیں مانتے کہ آزادی، خداداد شئ ہے۔ کوئي نہیں کہتا کہ انسان کو آزادی اللہ تعالی سے ملی ہے۔ وہ اس کا کوئي اور فلسفیانہ سرچشمہ تلاش کرتے ہیں۔
اسلام میں آزادی، خداداد شئ قراد دی جاتی ہے۔ ایک تو یہی بڑا بنیادی فرق ہے جس سے اوربہت سے فرق پیدا ہوتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے آزادی کے خلاف اقدام ایک الہی شئ کے خلاف اقدام کے مترادف ہے۔ مغربی لبرلزم میں آزادی اور فرائض میں تضاد ہے، یعنی(اس آزادی کا مطلب یہ ہے کہ) انسان ہر طرح کے فرائض سے آزاد ہے لیکن اسلام میں آزادی سکہ کا ایک رخ تو فرائض اس کا دوسرا رخ ہے۔ انسان آزآد ہی اس لئے ہیں کہ ان پر فرائض عائد ہیں۔ اگر ان پر فرائض نہ ہوتے تو ازادی کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔
انسان کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ متضاد خواہشات اور جذبات کا مجموعہ ہے اور اسے یہ حکم ہے کہ ان گوناگوں جذبات کے بیچ سے کمال و تکامل کا سفر طے کرے۔ اسے آزادی دی گئی ہے تکامل کی راہ طے کرنے کے لئے۔ ان اقدار پر استوار آزادی، تکامل کے لئے ہے۔
یورپ میں حجاب کے سلسلے میں برپا ہنگامے کو دیکھئے۔ آزادی کے تو بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے لیکن ایک دوسرے مکتب فکر کی اس معمولی سی نشانی اور رجحان کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ جب ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے مقدسات کی بے حرمتی کرنے والے مصنف پر اعتراض ہو تو فورا آزادی اظہار خیال اور آزادی فکر کی رٹ لگا دیتے ہیں اور جب نوبت آتی ہے کسی مسلمان خاتون یا لڑکی کی جو اپنی مذہبی روایات کے مطابق لباس پہننا چاہتی ہے تو پھر انہیں آزادی یاد نہیں رہتی، پھر تو ان کے انداز ہی بدل جاتے ہیں۔ اب غیر اخلاقی اور دوسروں کی آزادی کو نقصان پہنچانے والی اس حرکت کو قدامت پسندی کے خلاف جد و جہد کا نام دے دیا جاتا ہے۔
اسلام قوموں کو آزادی عطا کرتا ہے، خود ان کی ذاتی زندگی میں انہیں مطلق العنان اور استبدادی طاقتوں، خرافات اور جہالتوں، جاہلانہ تعصب اور کدورتوں سے آزادی دلاتا ہے اسی طرح اقتصادی طاقتوں کے چنگل اور استکبار کے سیاسی دباؤ سے نجاد دلاتا ہے۔ آزادی الہی تحفہ اور انقلاب کا ثمر ہے آزآدی عوام کا حق اور ان کی فطرت کا جز ہے۔
مشرق وسطی کے پورے علاقے بلکہ دنیا میں بھی بہت کم ہی ملک ایسے ہوں گے جہاں اسلامی جمہوریہ ایران جیسی آزادی ہو۔ یہ وہ نظام اور وہ ملک ہے جہاں انقلاب کی کامیابی کو ابھی دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ عوام نے حق رای دہی کا استعمال کیا اور اسلامی جمہوری نظام کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا۔
آزادی اسے نہیں کہتے کہ کوئی اس کے بہانے استحصال شروع کردے جیسا کہ دنیا میں آج دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آزادی کے نام پر بد ترین جرائم کا ارتکاب کیا گيا ہے اور انسانی نسلوں کو شہوانیت اور اخلاقی انحطاط کی نذر کر دیا گيا ہے۔ آزادی کے نام پر مغربی مکاتب فکر اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے ذہنوں سے حقیقی آزادی کا مفہوم مٹا دیا گيا ہے۔
ای آزادی! بہ نام تو چہ جنایتھا کے انجام نمی گیرد
ہائے رے آزادی تیرے نام پر کیا کیا جرائم نہیں کئے جاتے؟! آج ہمارے دشمن اسی جملے کی عملی تفسیر پیش کر رہے ہیں۔