ما تحت عملے کی نگرانی بہت ضروری ہوتی ہے۔ اعلی حکام اور عہدہ داروں کے لئے میری تاکید یہ ہے کہ اپنے ما تحت عملے کی نظارت و نگرانی پر خصوصی توجہ دیں۔ آپ کی تیز بیں نگاہیں جب آپ کے دائرہ کار میں چکراتی رہیں گی تو کاموں کی صحیح انجام دہی اور پیشرفت کو یقینی بنایا جا سکےگا۔ اگر آپ سے کسی لمحے کوئی غفلت ہوئی تو ممکن ہے کہ اسی مخصوص لمحے میں کوئی گڑبڑ ہو جائے۔ اگر کوئی عہدہ دار اپنے وقت کی تقسیم کرنا چاہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسے اپنا نصف وقت نظارت میں اور نصف وقت دیگر کاموں مثلا غور و فکر کرنے، حکمت عملی طے کرنے، احکامات صادر کرنے، میٹنگیں کرنے اور اسی طرح کے دیگر امور میں صرف کرنا چاہئے۔ ادارے کی نگرانی یعنی یہ کہ وہاں آپ کی موجودگی دائمی ہو۔ نظارت کے مسئلے میں معیار قوانین و ضوابط ہونا چاہئے، ذاتی خواہش اور منشاء نہیں۔ ہرگز ذاتی خواہش کے مطابق عمل نہ کیجئے۔ آپ کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ آپ اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے سامنے جواب دے سکیں۔ قوانین پر عملدرآمد کے سلسلے میں کوئی رعایت نہیں کی جانی چاہئے۔
امور کے نظم و نسق پر حکومت کو مامور اور قادر بنانے والے قوانین وضع کرنا اور پھر قانونی طریقے سے اس پر عملدرآمد کے عمل کی نگرانی پارلیمنٹ کا اولین فریضہ ہے، جو حکومت و پارلیمنٹ کے ما بین تعاون و ہمفکری اور پارلیمنٹ کی جانب سے حکومت کی حمایت کا متقاضی ہے۔ مقننہ کا فریضہ قانون سازی اور حکام کی کارکردگی کی نظارت کرنا ہے۔ ہمارے آئین کے مطابق پارلیمنٹ حکومت کی کارکردگی کی نگراں ہے۔ اگر کسی مرحلے پر حکومت کی کارکردگی میں کجی اور غلطی نظر آئے، وہ غلط اقدام کر دے یا خدا نخواستہ اختیارات کا بے جا استعمال کرے اور نتیجتا بد عنوانی پیدا ہو جائے تو ایسے میں اس بد عنوانی و فساد کو قابو میں کرنے کا کام پارلیمنٹ کا ہے۔
ماہرین کی کونسل مجلس خبرگان کا بھی اولین فریضہ قائد انقلاب اسلامی کا انتخاب ہے اور دوسرے مرحلے میں اس کی ذمہ داری موجودہ قائد انقلاب کی کارکردگی پر نظر رکھنا اور اس بات پر توجہ رکھنا ہے کہ تمام شرائط اور اہلیت برقرار ہیں یا نہیں؟ اس کا علم، اس کا تقوی، اس کی انتظامی صلاحیت، اس کی مدبرانہ توانائی، اس کا خلوص اور صداقت باقی ہے یا نہیں، مطلوبہ سطح پر برقرار ہے یا اس سے نیچے آ گئی ہے؟ اس کی نگرانی لازمی ہے اور یہ اہم فریضہ ماہرین کی کونسل کے دوش پر ہے۔ اس اہم ترین فریضے کی ادائیگی کے لئے ملک میں کوئی اور ادارہ نہیں ہے جسے آئین نے اس کا کی اجازت اور ذمہ داری سونپی ہو۔
معلوم ہوا کوئی بھی، نظارت و نگرانی سے بالاتر نہیں ہے۔ خود قائد انقلاب اسلامی بھی نظارت سے مستثنی نہیں ہے تو قائد انقلاب اسلامی سے وابستہ اداروں کا کیا ذکر؟ بنابریں سب پر نگرانی ضروری ہے۔ ان افراد کی نگرانی جو حکومت کر رہے ہیں۔ کیونکہ حکومت کے فطری معنی طاقت و دولت تک رسائي کے ہیں۔ یعنی بیت المال اور سیاسی و سماجی اقتدار بعض حکام کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اب ایسے میں انہیں اختیارات کے غلط استعمال اور نفسانی خواہشات سے روکنے اور امانتداری پر کاربند رکھنے کے لئے نظارت لازم و واجب ہے۔
نظارت کا عمل سنجید گی اور بغیر کسی رو رعایت کے انجام پانا چاہئے۔ یہ میرا نظریہ ہے جسے میں نے ماہرین کی کونسل کے اراکین، دیگر اداروں کے اراکین اور افراد کے سامنے پیش کیا ہے۔ نظارت و نگرانی مجھے پسند ہے اور نظارت سے فرار، اگر کہیں ہو، مجھے نا پسند ہے۔ میری جتنی زیادہ نگرانی ہو اتنی ہی مجھے خوشی ہوگی۔ نظارت میرے لئے کوئی بوجھ نہیں ہے اور مجھے نظارت و نگرانی سے خوشی ہے۔ البتہ اگر کسی نے نظارت کا عمل انجام دیا اور اسے کچھ نظر آ گیا تو اسے چاہئے کہ ماہرین کی کونسل کو اس سے مطلع کر دے ماہرین کی کونسل یقینا اس پر عمل کرے گی۔
نظارت ایک قانون ہے۔ نگراں کونسل کی نظارت کا عمل آئین کے مطابق ہے۔ اس کی بنیادیں آئين کے اندر موجود ہیں عام قوانین میں بھی اس کی تائید و توثیق کی گئی ہے۔ عام شہریوں کے لئے بھی یہ نظارت معمولی بات نہیں ہے۔ نگرانی کا یہ عمل اس لئے ہے کہ اس حساس مرکز میں کوئی نااہل، برا اور ضرر رساں آدمی داخل نہ ہو جائے۔ یہ نظارت صرف پارلیمنٹ سے مختص نہیں بلکہ صدارت کے سلسلے میں بھی ہے۔ یہ نظارت اس لئے ہے کہ جو افراد پارلیمنٹ یا عہدہ صدارت کے اہل نہیں ہیں ان پر نظر رکھی جائے۔ انتخابات کی نگرانی بھی بہت اہم ہے جو نگراں کونسل انجام دیتی ہے۔
(نظارت کا) دوسرا حصہ عوام سے مربوط ہے جو سب سے پہلے مرحلے میں سماجی مسائل میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے عبارت ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک عمومی فریضہ ہے۔ اگر عوام کی نظروں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مفہوم اور اس کی حدود واضح ہو جائیں تو معلوم ہوگا کہ سماجی تعلقات کے سلسلے میں جدید ترین، شیریں تریں، کارآمد ترین اور کار ساز ترین عمل یہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ یہ عمومی نظارت ہے، یہ خیر و نیکی کی ترویج ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مختلف میدان ہیں۔ ان میں سب سےاہم میدان حکام اور عہدہ داروں کا ہے۔ یعنی عوام، حکام کے سلسلے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے فریضے پرعمل کریں۔ عوام کو چاہئے کہ حکام سے بہترین کارکردگی کا مطالبہ کریں، درخواست اور التجاء کی شکل میں نہیں بلکہ ان سے مطالبہ کریں۔ یہ بہت اہم میدان ہے۔
معاشرے کے عوام کو چاہئے کہ مختلف سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنی شراکت اور نظارت، اپنی بجا مداخلت اور رہنمائی کے ذریعے سب کو فرائض منصبی کی جناب متوجہ کریں۔ اس میں مجھے کوئی شک و شبہ نہیں کہ عوام اور حکام کے درمیان ذرائع ابلاغ بطور عام اور اخبارات و جرائد بطور خاص رابطے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کو چاہئے کہ عوام تک صحیح اطلاعات بر وقت پہنچانے کی کوشش کرے۔
میں اپنے معاشرے اور اچھی زندگی گزارنے کے خواہاں ہر سماج کے لئے اخبارات و جرائد کو ضروری و لازمی سمجھتا ہوں۔ میری نظر میں پرنٹ میڈیا کے تین اہم فرائض ہیں۔ تنقید و نگرانی، شفافیت و صداقت کے ساتھ خبر رسانی، معاشرے میں افکار و نظریات کا تبادلہ۔ میرا نظریہ ہے کہ آزادی قلم و بیان، عوام اور پرنٹ میڈیا کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ آئين کے انتہائی واضح قوانین میں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی معاشرہ آزاد اور ترقی کی راہ پر گامزن میڈیا اسی طرح آزاد اور با شعور قلم سے محروم ہو جائے تو وہ اس کے ساتھ ہی متعدد چیزوں سے محروم ہو جائے گا۔
منصب کی ذمہ داریوں سے سابقہ پڑنے کے بعد میں عہدہ داروں کے سلسلے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم اپنے تمام فیصلوں اور اقدامات میں آخرت کو پیش نظر رکھیں اور اس کے کردار کو تسلیم کریں۔ بعض افراد عوام کی باتوں اور عوام کی جانب سے انجام پانے والی نگرانی کو اہمیت دیتے ہیں لیکن الہی نظارت و نگرانی پر کوئی توجہ نہیں دیتے جس پر ہمارے مستقبل کا دارومدار ہے۔ اللہ تعالی کو ہر آن حاضر و ناظر جانئے۔ روز قیامت کے محاسبے کو سنجیدگی سے لیجئے۔ محاسبہ الہی برحق ہے۔ ہمارا معمولی سا عمل، لمحے بھر کی غفلت، ہماری چھوٹی سی کوتاہی بھی، اگر خدا نخواستہ سرزد ہو گئی تو، ہمارے نامہ اعمال میں محفوظ ہے۔ ان میں سے ہر ایک کا ہم سے حساب لیا جائے گا۔ اسی طرح اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں آپ جو مشقتیں اور زحمتیں اٹھا رہے ہیں وہ بھی آپ کے نامہ اعمال میں لکھی جا رہی ہیں۔ یہ سب اللہ تعالی کے پاس محفوظ ہے اور وہ ان سب کے بارے میں ہم سے سوال کرے گا۔ بنابریں ہمیں چاہئے کہ آخرت کے حساب و کتاب، قیامت اور خوشنودی پروردگار کو اہمیت دیں۔ اگر یہ چیز عملی ہو گئی تو قدرت و طاقت، خیر کا سرچشمہ بن جائے گی۔ بعض افراد قوت و طاقت و دولت و ثروت کو شر اور قبیح تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ زندگی میں ملنے والی دیگر عطیات کی مانند طاقت و ثروت بھی عطیہ ہے۔ زندگی کی زینت ہےزینۃ الحیاۃ الدنیا اہم بات یہ ہے کہ ہم اس طاقت کو استعمال کیسے کرتے ہیں؟ اگر ہم نے اس سے اچھے کاموں کے لئے استفادہ کیا تو یہ خیر و نیکی کا سرچشمہ ہے۔ اگر اس سے عوام کی خدمت کی تو یہ موجب خیر و برکت ہے لیکن اگر اس سے ہم نے ذاتی مفادات اور نفسانی خواہشات کی تکمیل چاہی اور درندوں کی مانند اس کے ذریعے کبھی کسی پر تو کبھی کسی اور پر جھپٹہتے رہے تو یہی باعث شر بن جائے گی اور جتنی بڑھتی جائے گی اس کا شر بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا جائے گا۔