انسانی حقائق اور ماہیت، زمانہ بدلنے سے تبدیل نہیں ہوتی۔ ابتدائے تاریخ سے اب تک عدل و انصاف انسانوں کے لئے پسندیدہ چیز رہی ہے اور انہیں ہمیشہ اس کی ضرورت پڑی ہے۔
عدل و انصاف کسی ایک گروہ، ملک اور قوم کی خواہش و حاجت نہیں۔ یہ پوری تاریخ انسانیت میں تمام انسانوں کی فطری و تاریخی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے چلائی جانے والی تحریک کا بنیادی ترین عنصر عدل و انصاف ہوتا ہے۔ یہ تاریخ کے تمام مصلحین اور انبیائے صالحین کے مشن کا جزو لا ینفک رہا ہے۔ یہ وہ شئ ہے جس کے لئے انسانیت ہمیشہ تشنہ رہی ہے اور انبیائے کرام یا حضرت امیر المومنین عیلہ السلام جیسے اوليائے عظام کے دور حکومت کے علاوہ کبھی اس پر حقیقی معنی میں عمل نہیں ہو سکا۔
اسلام میں عدل و انصاف بہت اہم مسئلہ ہے۔ وہ اصول جو کبھی بھی کسی بھی صورت میں متنازعہ نہیں رہا عدل و انصاف ہے۔ عدل و انصاف پیغمبروں کا ہدف و مقصد اور اسلامی انقلاب کا نصب العین رہا ہے۔
ذکر پروردگار اور انسانوں کی اصلاح کے ساتھ ہی ساتھ عدل و انصاف کی برقراری بھی تمام انبیاء کا ہدف رہا ہے۔ حقیقی عدل و انصاف کی برقراری عقل و منطق اور روحانیت و معنویت کے پیرائے میں انجام پاتی ہے۔ اگر عدل و انصاف عقل و منطق اور روحانیت و معنویت کے عنصر سے خالی ہو تو وہ ایسا عدل انصاف نہیں ہوگا جس کے آپ خواہاں ہے، بلکہ سرے سے وہ عدل و انصاف ہی نہیں ہوگا۔ عقل و منطق اگر نہ ہو تو انسان عدل و انصاف کے مصداق کے تعین میں غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ وہ ایسی باتوں کو بھی انصاف کا تقاضا محسوس کرے گا جو انصاف کا تقاضا نہیں ہے جبکہ حقیقت میں جو انصاف کا تقاضا ہے اسے محسوس نہیں کر پائے گا۔ بنابریں عقل و دانش اور صحیح اندازہ، عدل و انصاف کے قیام کے لئے ضروری ہے۔
اسی طرح اگر عدل و انصاف کو روحانیت و معنویت سے جدا کر دیا جائے اور عدل و انصاف معنویت سے تہی ہو تو یہ بھی عدل و انصاف نہیں ہوگا۔ جو انصاف روحانیت اور کائنات و عالم وجود کے روحانی افق کی شناخت سے خالی ہو ریاکاری، دروغ، انحراف اور تصنع میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جس طرح اشتراکیت پر مبنی نظام میں انصاف کے بڑے دعوے کئے جاتے تھے، ہم عدل و انصاف اور آزادی کی بات کرتے تھے، لیکن ان(کمیونسٹ نظاموں میں) آزادی بنیادی نعروں کا جز نہیں تھی تاہم جہاں کہیں بھی بغاوت یا انقلاب کے نتیجے میں کمیونسٹ نظام نافذ ہوا ہے وہاں عدل و انصاف کا نعرہ تو ضرور سنا گیا لیکن ان سماجی زندگی میں عدل و انصاف ناپید رہا بلکہ اس کے بالکل برعکس صورت حال سامنے آئی۔
عدل و انصاف کے معنی یہ نہیں کہ ہر کسی کے پاس سب کچھ یکساں مقدار میں ہو۔ انصاف کے معنی یہ ہیں کہ سب کو یکساں مواقع فراہم ہوں۔ سب کے حقوق یکساں ہوں۔ ہر ایک کو پیش قدمی اور ترقی کے مواقع سے استفادے کا بھرپور موقع ملے۔ انصاف کے معنی یہ نہیں کہ ہم سرمایہ کاری نہ کریں یا یہ کہ سرمایہ کار کو سرمایہ کاری کی اجازت نہ دیں۔
ہمارا ہدف معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یہ ہماری خواہش ہے۔ کوششیں اور کام اس وقت با ارزش اور اہم بنتے ہیں جب قیام عدل کے تناظر میں انجام پائیں۔ اگر معاشرے میں مساوات نہ ہو تو دولت کی فراوانی عوام کے کسی مخصوص طبقے اور گروہ تک محدود رہے گی۔ لیکن جس معاشرے میں مساوات ہو وہاں اس (فراوانی) کا فائدہ سب کو پہنچے گا۔ البتہ انصاف کے معنی یہ نہیں کہ ہر چیز ہر جگہ مساوی و یکساں ہو۔ عدل و انصاف کے معنی ہیں ہر چیز کو اس کی جگہ اور مقام پر رکھنا۔ یہ ہیں عدل کےمعنی۔ انصاف کے معنی وہ نہیں جو بہت سے سادہ لوح افراد اور فکری گہرائی نہ رکھنے والے لوگوں کے ذہن میں ہوتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کی ہر فرد کو سب کچھ یکساں طور پر ملے۔ جی نہیں! ایک شخص ہے جو زیادہ کام کرتا ہے، کسی کی استعداد زیادہ ہے، ملک کی ترقی میں کسی کا کردار بہت زیادہ ہے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر کسی کو اس کا حق دیا جائے۔ حق کے مطابق عمل کیا جائے۔ عدل کے معنی یہ ہیں اور معاشرے کو اسی کی ضرورت ہے۔
بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ عدل کے معنی ہیں غربت کی تقسیم۔ جی نہیں! جو لوگ عدل و انصاف کے موضوع پر بحث کر رہے ہیں ان کا ہدف غربت کی تقسیم ہرگز نہیں ہے بلکہ ان کا ہدف وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے۔ جو لوگ عدل و انصاف کو غربت کی تقسیم سے تعبیر کرتے ہیں ان کی پوری بات کا ماحصل یہ ہے کہ آپ عدل و انصاف کا چکر چھوڑئے، دولت و ثروت کی جانب بڑھئے تاکہ دولت تقسیم ہو سکے۔ عدل و انصاف کو نظر انداز کرکے دولت و ثروت کی جمع آوری کی سمت بڑھا جائے تو وہی نتیجہ نکلے گا جو آج بہت سے دولتمند ممالک میں نظر آ رہا ہے۔ دنیا کے سب سے امیر ملک یعنی امریکہ میں ایسے افراد بھی زندگی بسر کر رہے ہیں جو بھوک، سردی اور گرمی کے باعث لقمہ اجل بن رہے ہیں، یہ نعرے نہیں وہ حقائق ہیں جو نظروں کے سامنے ہیں۔
عدل و انصاف سے بے بہرہ معاشرے میں اگر دولت کی فراوانی ہو جائے تو ایک مخصوص طبقے کے فائدے اور قبضے میں رہتی ہے لیکن یہی فراوانی اگر عدل و انصاف کے پابند معاشرے میں ہو تو اس کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے۔ عدل و انصاف کے معنی ہر چیز کو اس کے صحیح مقام و منزل پر رکھنے کے ہیں۔ عدل و انصاف کے تناظر میں زیادہ محنت، زیادہ استعداد اور ملک کی ترقی میں اہم شراکت جیسی باتوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عدل کے معنی ہیں حق پر عمل کرنا اور ہر شخص اور ہر شئ کو اس کا حق دینا۔ عدل کے معنی ہیں حقوق اور فرائض کے سلسلے میں عدم تفریق و عدم امتیاز۔ عدل یعنی مستضعف اور کمزور طبقے کی مدد۔ عدل یعنی یہ کہ انسانی و سماجی حقوق اور الہی احکامات تمام لوگوں کے سلسلے میں یکساں طور پر فراہم اور نافذ ہوں۔ عدل یعنی یہ کہ کوئی ایک جماعت اپنے لئے مخصوص حقوق کی دعیدار نہ ہو۔
عدل و انصاف سے محروم انسانی زندگی تاریخ کے بد ترین دور میں نظر آتی ہے۔ معاشروں کی بد بختی اور مشکلات کی جڑ نا انصافی اور ظلم ہے۔ اگر انسانی زندگی میں عدل و انصاف کی بالا دستی ہوتی تو وہ عدل و انصاف کی مدد سے ماحول کو اس انداز سے تیار کرتا کہ اس کے لئے اس میں پر سکون زندگی گزارنا ممکن ہو۔
اسلامی جمہوری نظام کا آئیڈیل اسلامی طرز زندگی ہے۔ اس کا آئيڈیل مختلف طبقات کے درمیان عدل و انصاف، اخوت و محبت اور عطوفت و الفت کے زیر ساہ حاصل ہونے والی ترقی اور رفاہ عامہ ہے، غریب و امیر کے درمیان خلیج کو بھردینا ہے۔ روحانیت و معنویت کے سائے میں ملنے والی ترقی اسلام کو پسند ہے۔ عدل انصاف پر گفتگو تو آسان ہے لیکن اس کا نفاذ بہت مشکل ہے۔ اس کے لئے طویل المیعاد منصوبوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور عدل و انصاف کی بنیاد پر مستقبل کا خاکہ کھینچنا چاہئے۔
اسلامی نظام میں عدل و انصاف تمام انتظامی فیصلوں کی بنیاد ہے۔ پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے نمایندوں سے لیکر مختلف اجرائی شعبوں کے اعلی حکام تک تمام افراد بالخصوص پالیسی ساز اداروں، ججوں اور عدلیہ کے شعبوں کو چاہئے کہ پورے اخلاص، پوری تندہی اور پوری سنجیدگی کے ساتھ معاشرے میں قیام عدل و انصاف کی کوشش کریں۔
عوام بالخصوص نوجوان طبقے کی جانب سے عدل و انصاف کا مطالبہ اس انداز سے ہونا چاہئے کہ ہر عہدیدار، اپنی مرضی کے خلاف ہی سہی، عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے پر مجبور ہو۔ عدل و انصاف کے مطالبے کے معنی یہ ہیں کہ نوجوان طبقے اور طلباء کی سطح پر عدل و انصاف زباں زد خاص و عام ہو جائے۔ سب عدل و انصاف کا مطالبہ کریں اور ہر عہدہ دار کے سامنے اپنا یہ مطالبہ پیش کریں۔
اللہ تعالی توفیق دے کہ اسلامی انقلاب کا چوتھا عشرہ انصاف و ترقی کا عشرہ ثابت ہو۔ یعنی ملکی سطح پر ترقی و انصاف دونوں بالکل نمایاں ہو جائیں۔ منصوبہ بندی اسی تناظر میں ہو۔ یہ چیز قوم اور ملک کو ہر خطرے سے محفوظ بنا دے گی۔