فکر و نظر

سامراج و استكبار

پہلا باب: استکبار کا مفہوم استكبار کا قرآنی مفہوماسلامی انقلاب کے لغت میں استکبار کا مفہوماستکباری طاقتیںسامراج و استکبار کا مظہراستکبار و سامراج کی بنیاداستکبار اور سامراج کی روشسامراج و استکبار کا منصوبہ استکبار کے حربے    میڈیا اور تشہیرات   مذاکرات کی تجویز   شکوک و شبہات اور ناامیدی پھیلانا   تفرقہ انگیزی   عظیم مشرق وسطی کا منصوبہ   ماہرانہ سازشیں   درباری علماء کا استعمال   ثقافتی وسائل و حربے سامراج کی کمزوریاں دوسرا باب: سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت سامراج کے خلاف جد و جہد کے اسباب و علل    قومی اسباب علل   دینی اسباب عللسامراج سے جہاد اکبراستکبار مردہ باد کے نعرے کا مفہوماستکبار کے خلاف جد و جہد کے نعرے کی حفاظت سامراج سے جنگ کے طریقے اور راستے       اسلام کی سمت واپسی      تعلیم و تربیت      قومی اتحاد      اسلامی یکجہتی      حکومتوں کی جانب سے اپنی قوموں کی حمایت سامراج کے عناد کی وجوہات       اسلام سے سامراج کے عناد کے اسباب و علل      ملت ایران سے سامراج کی دشمنی کے اسباب و علل      ایران کے اسلامی انقلاب سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات      اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات سامراج کا آخری ہدف سامراج و استكبار پہلا باب: استکبار کا مفہوم استكبار کا قرآنی مفہوم استکبار کا مفہوم ایک قرآنی مفہوم ہے۔ بنابریں ایسا نہیں ہے کہ یہ اصطلاح اسلامی انقلاب کے لغت میں یونہی شامل ہو گئی ہو۔ استکبار کا مفہوم مسلمانوں، مومنین، اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی جانب سے استکبار کے خلاف جد و جہد کا متقاضی ہے اور وہ بھی مخصوص مواقع اور مصلحتوں کے تحت ہی نہیں بلکہ یہ مقابلہ آرائی دائمی ہے۔ یہ انقلاب کی ماہیت کا حصہ ہے۔ جب تک انقلاب ہے یہ مقابلہ بھی رہے گا۔ قرآن میں استکبار کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی عنصر یا شخص، گروہ یا جماعت خود کو حق وصداقت سے بالاتر تصور کرے اور حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے بلکہ خود کو، اپنی قوت و طاقت کو حق و حقیقت کا معیار قرار دے! قرآن نے انسانوں کی جس تاریخ پر روشنی ڈالی ہے اس کی پہلی استکباری طاقت ابلیس ہے۔ ابی و استکبر وہ پہلا استکباری عنصر ہے۔ البتہ استکبار کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ استکبار تکبر سے مختلف چیز ہے۔ شائد یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تکبر سے قلبی و نفسانی صفت کا عندیہ ملتا ہے، یعنی کوئی انسان خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا اور قرار دیتا ہو جبکہ استکبار کا زیادہ تعلق تکبر کے عملی پہلو سے ہے۔ یعنی جو شخص متکبر ہے اور خود کو دوسروں سے بالاتر سمجھتا ہے، عملی طور پر بھی دوسروں کے ساتھ اس کا برتاؤ اور سلوک ایسا ہوتا ہے کہ تکبر کے آثار بالکل نمایاں ہوتے ہیں۔ دوسروں کی تحقیر کرتا ہے، توہین کرتا ہے، دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرتا ہے اور دوسروں کے فیصلے خود کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ٹاپ اسلامی انقلاب کے لغت میں استکبار کا مفہوم ایران کے اسلامی انقلاب کی زبان میں استکبار ان چند بڑی طاقتوں کے گروہ کو کہا جاتا ہے جو اپنی سیاسی، فوجی، سائنسی اور اقتصادی توانائیوں کے سہارے اور انسان کے سلسلے میں اپنے امتیازی نقطہ نگاہ کے ساتھ بڑے انسانی مجموعے پر جس میں ممالک، قومیں اور حکومتیں شامل ہیں استبدادی اور تحقیر آمیز تسلط قائم کرکے اپنے مفادات کے مطابق ان پر دباؤ ڈالتا ہے اور ان کا استحصال کرتا ہے۔ ان کے کاموں میں مداخلت اور ان کی دولت و ثروت پر تجاوز کرتا ہےـ حکومتوں پر رعب جماتا ہے اور قوموں پر ظلم و ستم کرتا ہے اور ان کی ثقافت و روایات اور آداب و اطوار کا مذاق اڑاتا ہے۔ ٹاپ استکباری طاقتیں استکباری طاقتیں وہ ہیں جن کی دولت و طاقت کے تسلط میں دنیا کا بہت بڑا حصہ ہے۔ عالمی صیہونی نیٹ ورک، امریکا کی غنڈہ حکومت، وہ مالیاتی ادارے جو اس ظالمانہ عالمی نظام کی بنیاد اور پشتپناہ ہیں۔ ان سب کا شمار استکباری طاقتوں میں کیا جاتا ہے۔ ٹاپ سامراج و استکبار کا مظہر آج دنیا میں اپنی تمام تر نفرت انگیزی کے ساتھ سامراج و استکبار کا مظہر امریکا ہے، یہ کسی ایک نسل، ایک قوم اور ایک ملک سے دشمنی کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر قوم کا اپنا تشخص اور وقار ہوتا ہے اور وہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی بیرونی طاقت، فریب سے یا زبردستی اس کے وقار کو نابود کر دے۔ ہر قوم کی اپنی دولت و ثروت ہوتی ہے، وہ ہرگز برداشت نہیں کرے گی کہ کوئی دشمن اسے لوٹ لے جائے۔ دشمن، یعنی وہی عالمی تسلط پسندی اور سامراج کا مرکز جس کا سب سے بڑا اور حقیقی نمونہ امریکا ہے۔ البتہ جب ہم کہتے ہیں امریکا تو اس سے مراد امریکی عوام نہیں ہوتے۔ امریکی عوام تو دنیا کی دیگر قوموں کی مانند ہیں، ان میں بھی کچھ اچھائیاں تو کچھ برائیاں ہیں۔ ملت ایران کی ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اسلامی انقلاب کا خطاب امریکا کے حکمرانوں سے ہے جن کی پالیسیوں کی ایک اہم ترین بنیاد دنیا پر تسلط قائم کرنے کا نظریہ ہے۔ امریکی تسلط سے ہماری مراد امریکی حکومت اور اس کا تسلط ہے۔ ٹاپ استکبار و سامراج کی بنیاد سامراج و استکبار کی بنیاد ظلم و جور و عدوان پر رکھی گئی ہے۔ امریکی حکومت جو سامراج و استکبار کا عفریت سمجھی جاتی ہے آج سامراج کے لحاظ سے دنیا کی بدترین حکومت ہے۔ اس حکومت نے آج اپنا وتیرہ بنا لیا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی ملک اور حکومت اس کے مفادات کی چوکی داری کرنے کو تیار نہ ہو اسے ختم کر دیا جائے۔ کیا اس سے بھی بد تر سامراج و استکبار ہو سکتا ہے؟! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ اپنے گھر میں میرے کچھ مفادات ہیں جس کی میں حفاظت کر رہا ہوں تو مجھ سے کوئی بھڑنے کی کوشش نہ کرے۔ ٹھیک ہے، یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ جناب ایک شخص کسی دوسرے شخص کے گھر میں جبرا داخل ہو جائے یا اس کے دروازے پر جاکر اسے پریشان کرے، اس کا جینا دوبھر کر دے اور جب صاحب خانہ سوال کرے کہ کیوں میرا سکون و چین چھین لیا ہے تو جواب دے کہ تم نے میرے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کام میں میرے مفادات ہیں اور چونکہ تم نے ان کا خیال نہیں رکھا بنابریں میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟! آج عالمی سطح پر امریکا کا یہی رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ٹاپ استکبار اور سامراج کی روش سامراج و استکبار کی روش جبر، طاقت کے غلط استعمال اور قتل و غارت کی روش ہے۔ بنابریں وہ دہشت گردی کا سب سے بڑا موجد ہے۔ آج دہشت گردی سے مقابلے کے نام پر امریکی دوسرے ملکوں میں گھس رہے ہیں اور اسی بہانے قوموں کو بیحد پریشان کر رہے ہیں، ان پر بمباری کرتے ہیں، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو نابود کر رہے ہیں۔ ان کے پاس جواز یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں! دہشت گردی کہتے کسے ہیں؟ کیا دہشت گردی یہی نہیں ہے کہ کوئی اپنے اہداف کے حصول کے لئے غیر قانونی طریقے سے طاقت کا استعمال کرے؟ آج امریکا عراق، افغانستان اور پاکستان میں جو کچھ کر رہا ہے کیا وہ من و عن یہی چیز نہی ہے؟! ٹاپ سامراج و استکبار کا منصوبہ ملت ایران کے خلاف عالمی سامراج کا منصوبہ تین پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ اول نفسیاتی جنگ، دوسرے اقتصادی جنگ اور تیسرے ایران کی سائنسی ترقی و قدرت کا سد باب کرنا۔ ملت ایران سے سامراج کی دشمنی انہی تین باتوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ نفسیاتی جنگ کیا ہے؟ اس جنگ کا مقصد مرعوب کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ ملت (ایران) تو مرعوب ہونے سے رہی۔ حکام اور سیاسی شخصیات کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں، جو لوگ حرص و طمع میں پڑ سکتے ہیں ان پر یہ حربہ آزمانا چاہتے ہیں، عمومی ارادے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، عوام کے اپنے معاشرے کے بارے میں صحیح ادراک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، نفسیاتی جنگ کے یہ مقاصد ہیں۔ اقتصادی جنگ بھی ایک اور (حربہ) ہے۔ وہ قوم کو معاشی لحاظ سے بحران سے دوچار کر دینا چاہتے ہیں۔ دھمکی دیتے ہیں کہ پابندیاں لگا دیں گے۔ لیکن پابندیوں سے ایران پر ضرب نہیں لگائی جا سکتی۔ کیا اب تک یہ پابندیاں نہیں رہی ہیں؟ ملت ایران پابندیوں کی حالت میں ایٹمی ٹکنالوجی، سائنسی ترقی اور وسیع پیمانے پر ملک کی تعمیر و پیشرفت کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ تو پابندیاں بعض حالات میں ملت ایران کے لئے مفید بھی واقع ہوئی ہیں۔ اس لحاظ سے کہ یہ پابندیاں ایرانیوں کے زیادہ بلند ہمتی اور تندہی سے کام کرنے کا موجب بنی ہیں۔ سائنسی ترقی کا سد باب؛ اس کی اہم ترین مثال یہ ایٹمی مسئلہ ہے۔ بیانوں، سیاسی مذاکرات وغیرہ میں کہتے ہیں کہ مغربی ممالک ایران کے ایٹمی طاقت بننے سے متفق نہیں ہیں۔ کوئی بات نہیں متفق نہ رہیں۔ کیا ایٹمی ٹکنالوجی حاصل کرنے کے لئے ایران نے کسی سے اجازت طلب کی تھی؟ کیا دوسروں کی اجازت سے ملت ایران اس وادی میں اتری تھی کہ کہا جا رہا ہے کہ ہم متفق نہیں ہے؟ نہ رہئے متفق؟ ملت ایران متفق ہے اور یہ ٹکنالوجی حاصل کرنے کے لئے کمربستہ۔ اس وقت امریکا، دنیا میں فتنہ و فساد کے منصوبہ ساز صیہونی اور دیگر سامراجی طاقتیں اس سلسلے میں بھی بہت حساس ہو گئی ہیں کہ دنیا میں انقلابی نظام کا حامل کوئی بھی ملک سائنسی میدان میں ترقی نہ کرنے پائے۔ یہ حساسیت اسلامی انقلاب کے سلسلے میں دوبالا ہے۔ یہ حساسیت کسی اور انقلاب کے سلسلے میں نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہوگی۔ ٹاپ استکبار کے حربے میڈیا اور تشہیرات عالمی سامراج کا ایک اہم حربہ میڈیا ہے۔ دنیا میں میڈیا کی طاقت بہت زیادہ ہے۔ میڈیا اپنے مالکان کے لئے دنیا میں بہت بڑے بڑے کام انجام دیتا ہے۔ نیوز ایجنسیاں ہوں، ریڈیو نشریات ہوں، ٹی وی چینل ہوں یا اخبارات، جتنے بھی اہم ذرائع ابلاغ عامہ ہیں ان کا تعلق سرمایہ دارو‎ں سے ہے یعنی عالمی سامراج کے بنیادی ستونوں سے۔ جو کچھ بھی دنیا میں نشر اور شائع کیا جاتا ہے وہ انہی (سرمایہ داروں) کے مفادات کے دائرے میں ہوتا ہے۔ میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو وہ جہاں کہیں بھی آباد ہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عالمی سامراج، نیوز ایجنسیوں، اخبارات و جرائد، نشریات اور سیاستدانوں کے بیانوں کے ذریعے جو پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اسے اس قاعدے پر پرکھیں اور نتیجہ اخذ کریں کہ پورا سامراجی نظام اور اس کا سرپرست امریکا اس وقت سب کے سب اسلامی نظام، ایران اور ملت ایران کی غلط تصویر پیش کرنے پر تل گیا ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ٹاپ مذاکرات کی تجویز کہتے ہیں کہ ہم اسلامی جمہوریہ سے روابط برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے۔ وہ صحتمند رابطہ چاہتے ہی نہیں۔ ایسا رابطہ چاہتے ہیں جس میں وہ اپنی مرضی مسلط کر سکیں۔ وہ سامراجی رابطہ چاہتے ہیں۔ پست اور تنزل پذیر حکومتوں کے ساتھ امریکا کا جو رابطہ ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو سامراج کے سرغنہ امریکا سے مذاکرات کرنا چاہئے، وہ یا تو سادہ لوحی میں پڑے ہوئے ہیں یا بہت زیادہ مرعوب ہیں۔ سامراج اپنی حقیقی طاقت اور توانائی سے زیادہ اپنی ہیبت اور رعب و دبدبے کی روٹی کھا رہا ہے بلکہ سامراج تو دھونس دھمکی، رعب و دبدبے اور خوف و ہراس پھیلانے کے اپنے حربوں پر ہی زندہ ہے۔ ٹاپ شکوک و شبہات اور ناامیدی پھیلانا دشمن، عوام کی نظر میں ان کے مستقبل کو تاریک اور مایوس کن ظاہر کرتے ہیں۔ اگر آپ دیکھیں کہ بعض افراد اقتصادی صورت حال اور ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوس کن باتیں کر رہے ہیں تو جان لیجئے کہ یہ باتیں در حقیقت سامراجی طاقتوں کی ہیں۔ دشمن کا ایک تشہیراتی حربہ یہ ہے کہ لوگوں کو ذہنوں کو مستقبل کے تعلق سے شکوک و شبہات میں مبتلا کر دے۔ افسوس کہ بعض سادہ لوح افراد یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہے، بجائے تعاون کرنے، مسائل کو آسان بنانے اور عوام کے سامنے صحیح تصویر پیش کرنے کے ساری چیزوں پر شکوک و شبہات کا پردہ ڈال دیتے ہیں تاکہ عوام کو تشویش و بدگمانی سے دوچار کر دیں۔ جب بھی اچھی انتظامی صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں گی تو ترقی یقینی ہے تو پھر ایک قوم کی ترقی کے بارے میں کیوں شک کیا جائے؟ جو لوگ اظہار خیال کریں تو محتاط رہیں کہ کہیں دشمن اور سامراج کی مرضی کی باتیں نہ کرنے لگیں۔ دشمن یہی چاہتا ہے اور اس کی یہی خواہش ہے کہ عوام اپنی سعی و کوشش اور ترقی کے سلسلے میں بے یقینی کا شکار ہو جائیں۔ ٹاپ تفرقہ انگیزی جہاں بھی مومنین اور اللہ تعالی کے نیک بندوں میں اتحاد ہے وہاں وحدانیت اور خدا ترسی بھی ہے۔ جہاں مومنین اور بندگان خدا کے درمیان اختلاف ہے وہاں بلا شبہ شیطان اور دشمن خدا کا غلبہ ہے۔ جہاں بھی آپ کو اختلافات نظر آئیں وہاں آپ غور کیجئے تو آپ کو آسانی سے شیطان کا عمل دخل نظر آ جائے گا۔ بنابریں تمام اختلافات کے پس پردہ انسانوں کی انانیت، جاہ طلبی اور خود غرضی ہے یا کوئی باہری شیطان یعنی دشمن عناصر، سامراج اور ظالم و ستگمر طاقتیں کارفرما ہیں۔ اس وقت تفرقے کی آگ بھڑکانے سے گریز کرنا چاہئے۔ ہر کسی کو اپنے عقائد کا پابند رہنے اور اس پر دلیلیں قائم کرنے کا حق ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مختلف مذاہب کے ترجمان منبر پر بیٹھیں تو استدلال نہ کریں اور اپنا عقیدہ ثابت کرنے سے گریز کریں۔ نہیں ایسا نہیں ہے، استدلال قائم کریں ثابت کریں۔ لیکن عقیدہ کو ثابت کرنا ایک الگ چیز ہے اور دوسرے فریق کی دشمنی پر اتر آنا اور سامراج کی آواز میں آواز ملا کر اپنی ساری طاقت و توانائی مسلمانوں کی داخلی جنگ میں جھونک دینا ایک الگ چیز ہے۔ مسلمانوں کے ما بین مسلکی اختلافات کے سلسلے میں نئی بات یہ سامنے آئی کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اس نئی فکر کے پورے عالم اسلام میں پھیل جانے کے بعد عالمی سامراج نے اس ہمہ گیر اسلامی لہر کو روکنے کے لئے یہ حربہ اختیار کیا کہ ایک طرف ایران کے اسلامی انقلاب کو ایک شیعہ تحریک یعنی عام اسلامی تحریک کے بجائے ایک مخصوص فرقے کی تحریک کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوشش کی اور دوسری جانب شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی وسیع پیمانے پر کوشش کی۔ اس شیطانی مکر و حیلے کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران نے شروع سے ہی اتحاد بین المسلمین پر بے حد زور دیا اور اس فتنہ پروری کو بے اثر بنانے کی کوشش کی۔ ٹاپ عظیم مشرق وسطی کا منصوبہ عظیم مشرق وسطی کا امریکی منصوبہ در حقیقت اس علاقے میں موجود تمام مفادات ایک جگہ جمع کرکے اسے امریکی سامراج کی جاہ پسندانہ شیطانی آنت میں انڈیل لینے کی کوشش ہے۔ وہ اپنے موجودہ تسلط اور اثر و نفوذ سے مطمئن نہیں ہے۔ اسے مطلق غلبہ پسند ہے۔ پوری دنیا پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کا خواہاں ہے۔ منجملہ اس علاقے پر جو قدرتی دولت اور افرادی قوت سے مالامال ایک حساس اور اہم علاقہ ہے۔ عالمی سامراج اور سامراجی طاقتوں نے شروع سے اب تک صیہونی حکومت کو علاقے کی عرب اور پھر تمام اسلامی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے اور دھونس جمانے کے لئے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا۔ اسے محفوظ رکھا ہے اور ان کا منصوبہ یہ ہے کہ اس زہر آلود خنجر کو عالم اسلام کے سینے میں پیوست رکھیں۔ آج اس تربیت یافتہ کتے کی زنجیر شیطان بزرگ کے ہاتھ میں ہے۔ لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مذموم ترین شکل میں عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ہمسایہ ملکوں پر مسلسل جارحیت، کھلے عام دہشت گردانہ کاروائیاں اور اغوا کی وارداتیں، اور ایٹمی اور دیگر ہتھیاروں کا حصول یہ ساری چیزیں صیہونی انجام دیں تو قابل قبول ہیں جبکہ ان ہتھیاروں میں سے کوئی ایک بھی اگر دنیا کی کسی ایسی حکومت کو حاصل ہو جائے جو امریکا اور دیگر بڑی طاقتوں کی حاشیہ بردار نہیں ہے تو اس پر قیامت مچ جائے۔ ٹاپ ماہرانہ سازشیں عالمی سامراج کے پاس عالم اسلام کے لئے خاص مفکرین اور ماہرین موجود ہیں جو سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور مختلف قوموں، نظریوں، جذبوں اور مسلکوں کے بارے میں رپورٹیں تیار کرتے ہیں، اپنے تحقیقاتی، ثقافتی، سیاسی اور جاسوسی کے مراکز کے آرکائيو میں موجود سابقہ رپورٹوں کا نئے سرے سے جائزہ لیتے ہیں اور نئی تحقیقات انجام دیتے ہیں۔ اسرائیل میں اگر ایران میں اسلام اور تشیع کی شناخت کے عنوان سے سمینار منعقد کیا جاتا ہے تو وہ اسی تناظر میں ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف مقامات پر مغربی ملکوں، سرمایہ داروں اور سامراج کی جانب سے تحقیقاتی سمینار اور نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اسلام کا جائزہ لینے کے لئے نئی نئی تجاویز متعارف کرائی جاتی ہیں۔ سامراج امور کو اپنی مطلوبہ سمت و جہت میں رکھنے کے لئے بہت غور فکر سے کام لیتا ہے۔ اس کی حرکت پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ عالمی امور کو سمت و رخ دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ خود کو محفوظ رکھ سکے کیونکہ اسے علم ہے کہ اگر اس نے سوجھ بوجھ اور دور اندیشی سے کام نہ لیا، اگر اس کے پاس صحیح اعداد و شمار موجود نہ رہے تو اس پر ضرب لگ سکتی ہے۔ چنانچہ ممتاز ترین فکری حلقے سامراج کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ ٹاپ درباری علماء کا استعمال جن معاشروں میں علماء کو راستے سے ہٹانا ممکن نہ ہوا وہاں یہ کوشش کی گئی کہ علماء کو بد عنوان اور جابر حکومتوں اور درباروں سے جوڑ دیا جائے۔ دربار سے وابستہ علماء جن کی ہمارے عزیز امام (خمینی رہ) کے بیانوں میں بڑی مذمت کی گئی ہے، اسلام اور مسلمانوں کے حق میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے زمانے کی ایک معروف شخصیت سے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے اپنی گردن کو ستمگروں کے لئے چکی کے پاٹ کا محور بنا دیا ہے تاکہ وہ آپ کی گردن کے محور پر اپنے مظالم کی چکی چلائیں اور آپ کے سہارے لوگوں پر ظلم کریں۔ جو عالم دین فاسد و ظالم حکومتوں کے مظالم کی توجیہ کرے وہ ان حکومتوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جو عالم دین سامراج کے اہداف کے مطابق عمل کرے، اس کے بد ترین اور پست ترین ہمنواؤں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ وہ حق کی ظاہری صورت کا سہارا لیکر باطل کی ترویج کر رہا ہے۔ ٹاپ ثقافتی وسائل و حربے اس وقت ایک فکری و ثقافتی و سیاسی جنگ جاری ہے۔ جو شخص اس میدان جنگ کا احاطہ کرنے میں کامیاب ہو جائے اور حقائق کو سمجھنے پر قادر ہو وہ میدان پر ایک نظر ڈال کر بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت دشمن ثقافتی حربوں کے ذریعے بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے۔ بکے ہوئے قلم اور دل و ضمیر اور دین و ایمان کا سودا کر لینے والے روشن خیال حضرات کی تعداد کم نہیں ہے جو ملک کے باہر اچھی بڑی تعداد میں اور ملک کے اندر اکا دکا، سامراج کے مقاصد کے لئے طاقت فرسائی اور طبع آزمائی کرنے کے تیار ہیں اور کر رہے ہیں۔ ٹاپ سامراج کی کمزوریاں اس وقت دنیا میں ایک تضاد دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملت ایران مسلمان قوموں، علاقائی قوموں، ایشیائی قوموں، افریقی قوموں، لاطینی امریکا کی قوموں اور مشرق وسطی کی قوموں کی نظر میں ایک شجاع، حق و انصاف کی پاسباں اور جبر و استبداد کی مخالف قوم ہے، ملت ایران کو ان خصوصیات کے ساتھ پہچانا گیا ہے۔ وہ ملت ایران کی تعریف و ستائش کرتی ہیں لیکن یہی ملت ایران اور یہی اسلامی جمہوری نظام جو قوموں کے لئے قابل تعریف و ستائش ہے، تسلط پسند طاقتوں کی نظر مین انسانی حقوق کی پامالی کے لئے مورد الزام قرار پایا ہے۔ اس پر عالمی امن و سکون ختم کر دینے کا الزام ہے۔ اس پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام ہے۔ یہ تو صاف صاف تضاد ہے۔ قوموں کی نظر اور بڑی طاقتوں کی خواہش کا تضاد۔ یہ تضاد عالمی استبدادی و تسلط پسندانہ نظام کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ روز بروز یہ طاقتیں قوموں سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اس طرح مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں مسلسل بڑھنے والی خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ سامراج کی تشہیراتی مہم کچھ ہی عرصے تک حقائق کی پردہ پوشی کر سکتی ہے، ہمیشہ تو حقائق کو چھپائے رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ قوموں میں دن بدن بیداری بڑھ رہی ہے۔ ملت ایران کا صدر ایشیائی ملکوں، افریقی ملکوں اور لاطینی امریکا کے ملکوں کا دورہ کرتا ہے تو عوام اس کے حق میں نعرے لگاتے ہیں، اس کی حمایت میں جلوس نکالتے ہیں جبکہ امریکی صدر اگر لاطینی امریکا کے ملکوں یعنی واشنگٹن کا آنگن کہے جانے والے ممالک کا سفر کرتا ہے تو عوام اس کی آمد کی مناسبت سے امریکی پرچم کو نذر آتش کرتے ہیں۔ یہ لبرل ڈیموکریسی کے ستونوں کے متزلزل ہونے کی علامت ہے جس کا پرچم مغربی ممالک اور سب سے بڑھ کر امریکا نے بلند کر رکھا ہے۔ ان کی خواہشات اور عوامی مطالبات و مشاہدات میں تضاد دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ وہ دم تو جمہوریت، انسانی حقوق، عالمی سلامتی اور دہشت گردی سے جنگ کا بھرتے ہیں لیکن ان کا شر پسندانہ باطن ان کی عسکریت پسندی کی غمازی کرتا ہے، ان کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی کی چغلی کرتا ہے، دنیا کے توانائی کے ذخائر کے سلسلے میں ان کی حرص و طمع کا پتہ دیتا ہے۔ یہ چیزیں دنیا کی قومیں دیکھ رہی ہیں۔ روز بروز دنیا میں قوموں کی نظر میں لبرل ڈیموکریسی اور امریکا کہ جو لبرل ڈیموکریسی کا علمبردار سمجھا جاتا ہے، عزت و آبرو ختم ہوتی جا رہی ہے جبکہ اس کے برخلاف ایران اسلامی کا وقار بڑھ رہا ہے۔ ایک دن وہ تھا جب عالمی سامراج کے عمائدین یہ سمجھنے لگے تھے کہ اسلام تو ختم ہو چکا ہے۔ انہوں نے دنیا میں شہوت پرستی کی جو وبا پھیلا دی تھی اس سے اس غلط فہمی میں پڑ گئے تھے کہ مسلم قوموں میں اسلامی تعلیمات، اسلامی جذبات، اسلامی غیرت و حمیت، اسلامی تقوا و پرہیزگاری اور اسلامی خیالات سب مٹ گئے، بعد میں انہیں اندازہ ہوا کہ یہ ان کی بھول تھی۔ سب سے پہلے تو عظیم مملکت ایران اور اس با شرف قوم کے ذریعے اسلامی اقتدار کا پرچم بلند کئے جانے اور دوسرے مرحلے میں پورے عالم اسلام میں اسلامی بیداری کی لہر پھیل جانے سے وہ مبہوت ہوکر رہ گئے۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ اسلام بڑی درخشاں اور اٹل حقیقت ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔ اب عالم اسلام اور مسلمان قوموں کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے۔ آپ غور کیجئے کہ خود ان کے پاس جو اپنی اطلاعات ہیں وہ بھی یہی بتاتی ہیں کہ اسلامی ملکوں میں امریکا، صیہونزم، عالمی سامراج کے ان کے عمائدین کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ٹاپ دوسرا باب: سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت سامراج، آج جس کا مظہر امریکی حکومت ہے، اس سے مقابلہ بھی اس انقلاب کا لازمی جز اور اس قوم کی اہم اور دلی خواہش ہے۔ اگر یہ قوم سامراج سے مقابلہ ترک کر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اغیار کی مداخلت، ان کے ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی اور انقلاب سے قبل کی ان کی دھونس اور دھمکی کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ سامراج سے جنگ اور اس کی مخالفت کے سلسلے میں یہی تاثر اور یہی نظریہ قوم کی ہر فرد کا ہے۔ ٹاپ سامراج کے خلاف جد و جہد کے اسباب و علل قومی اسباب علل ایرانی عوام نے سامراج کے خلاف کیوں جنگ کی؟ اس نکتے پر آپ خاص توجہ دیجئے۔ سامراجی روح و خصلت کے سلسلے میں سب سے پہلا تاثر اور خیال جو کسی قوم کے ذہن میں ابھرتا ہے وہ دینی تاثر اور خیال نہیں بلکہ قومی حمیت کا احساس اور جذبہ ہوتا ہے، اپنی شناخت اور تشخص کا احساس اور جذبہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جب سامراج جب کسی ملک میں در آتا ہے اور اس ملک پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے تو اس ملک کی قومی شناخت کی نفی پر تل جاتا ہے۔ اس ملک کے ذخائر کو لوٹتا ہے، اس ملک کے سیاسی امور میں مداخلت بھی کرتا ہے لیکن یہ سب کچھ در حقیقت اس قوم کی شناخت اور تشخص کی نفی کی فروعات ہیں۔ جب سامراج وارد ہوتا ہے تو پہلے ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ہم آپ کی شناخت اور تشخص کی نفی کرنا چاہتے ہیں، وہ مختلف بہانوں سے داخل ہوتا ہے۔ جب اسے اندر آنے کا موقع مل جاتا ہے تو جو چیز اس کا سب سے اہم نشانہ ہوتی ہے وہ قوم کی شناخت ہے۔ یعنی ثقافت، دینی عقائد، ارادہ، خود مختاری، حکومت، معیشت اور اس قوم کی ہر چیز کو چھین کر اپنے قبضے میں کر لیتا ہے۔ جیسا کہ انقلاب سے قبل ایران میں تھا۔ اس حقیقت کا احساس قوموں کو سامراج کے خلاف بر انگیختہ کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قومیں دیندار نہیں ہیں جو مسلمان بھی نہیں ہیں آج حتی الوسع امریکا کے مقابلے میں ڈٹ جاتی ہیں۔ البتہ یہ اب ہے، ماضی میں نہیں تھا۔ اس وقت تو کوئي امریکا کے سامنے سر اٹھانے کی جرئت نہیں کرتا تھا۔ یہ سلسلہ ملت ایران نے شروع کیا ہے۔ ٹاپ دینی اسباب علل سامراج کے خلاف ملت ایران کی جنگ کی دینی وجہ بھی ہے۔ قرآن میں استکبار، مستکبر اور اس کے بالمقابل استضعاف اور مستضعف کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جب ملت ایران اس جذبے کے ساتھ امریکا اور اس سے وابستہ بد عنوان نظام کے خلاف کھڑی ہوئی تو اس کے پیچھے عظیم دینی جذبہ اور ایمان و عقیدہ کارفرما تھا اور اسی چیز نے اس قوم کو کامیابی عطا کی۔ اس وقت دشمنان اسلام سے جنگ کا پرچم مکتب اہلبیت پیغمبر علیہم السلام کے پیروکاروں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس عظیم و شجاع قوم کے ہاتھوں میں ہے جو اللہ تعالی کے علاوہ کسی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتی۔ آج ملت ایران کا یہ عالم ہے۔ اس وقت استکبار سے وابستہ عناصر اور مہرے نیز وہ طاقتیں جو دنیا میں قوموں، حکومتوں، شخصیات، مفکرین اور دانشوروں کے لئے خوفناک عفریب بنی ہوئی ہیں ملت ایران کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت و ارزش نہیں ہے۔ ٹاپ سامراج سے جہاد اکبر استکبار اور استکباری شیاطین کے خلاف سب سے بڑی جنگ یہ ہے کہ انسان ان کی مرضی و خواہش کے سامنے ہرگز سر تسلیم خم نہ کرے۔ اس وقت ملت ایران یہ جہاد کر رہی ہے اور یہ وہ راستہ ہے جو امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ہمارے لئے وا کیا، ملت ایران اسی راہ پر چلی ، بحمد اللہ آج عز و وقار کی بلندیوں پر ہے، آج بھی یہ قوم اسی راستے پر گامزن ہے۔ ٹاپ استکبار مردہ باد کے نعرے کا مفہوم ایرانی قوم جو استکبار مردہ باد کا نعرہ لگاتی ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ملت ایران ہر غیر مسلم ملک اور اس ملک کی حکومت کو للکار کر اس سے لڑنا چاہتی ہے جس کے مسلمان ہونے کو وہ تسلیم نہیں کرتی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے! اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے لئے جو چیز اہم ہے وہ ظلم، سرکشی و طغیانی اور ستمگر طاقتوں کے خلاف جنگ ہے۔ انما ینھکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین و اخرجوکم من دیارکم و ظاھروا علی اخراجکم ان تولوھم یہ ہے اصلی مسئلہ۔ جو لوگ حق و انصاف کی مخالفت پر اتر آتے ہیں اور ظلم و ستم کی تائید کرنے لگتے ہیں، ظالمانہ عمل میں مدد کرتے ہیں۔ ٹاپ استکبار کے خلاف جد و جہد کے نعرے کی حفاظت ملت ایران کو چاہئے کہ سامراج کے خلاف جد و جہد کو اپنے لئے پرچم اور مشعل راہ کے طور پر محفوظ رکھے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر اس لہراتے پرچم کی حفاظت نہ کی گئی اور نعرہ پھیکا اور کمزور پڑ گیا تو قوم اپنا راستہ گنوا دے گی۔ چونکہ اس دشمن کی دشمنی آشکارا ہے اور اہل نظر سے پوشیدہ بھی نہیں ہے، یہ کھلا ہوا دشمن اپنی دشمنی کے آشکارا ہونے کے باوجود فریب دہی کے کچھ حربے استعمال کرتا ہے۔ اکثر و بیشتر فریب کھانے والی قوموں اور غلط فہمی کا شکار ہونے والی حکومتوں سے غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ دشمن کی روش کو صحیح طور پر پہچان نہیں پاتیں۔ اگر دشمن کی روش کی شناخت نہ ہو اور اس دشمن کی جانب سے غفلت برتی جائے جو ایک انقلابی قوم کی نابودی کے در پے ہے تو ظاہر ہے وہ قوم اسی راستے پر چل پڑے گی جو دشمن کا پسندیدہ راستہ ہے یعنی نابودی کی راہ، ویرانی کی راہ اور بد عنوانی کی راہ۔ ٹاپ سامراج سے جنگ کے طریقے اور راستے اسلام کی سمت واپسی مسلم قوموں کی تمام ناکامیوں اور رنج و غم کا علاج اسلام کی سمت واپسی اور اسلامی نظام کے دائرے میں اور اسلامی احکام کے زیر سایہ زندگی بسر کرنا ہے۔ یہ وہ اکسیر ہے جو مسلمانوں کو ان کے عز و وقار، قدرت و توانائی اور رفاہ و تحفظ کی نعمت لوٹا سکتی ہے اور اس تلخ و ذلت آمیز انجام و مستقبل کو دگرگوں کر سکتی ہے جو سامراجی طاقتوں نے امت مسلمہ کی تقدیر میں لکھ دینے کی تیاری کی ہے۔ سامراج اور اس سے وابستہ تشہیراتی نیٹ ورک، اپنے پیروں پر کھڑے ہو چکے مسلمانوں کی امید و نشاط کو مایوسی و یاس میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے اس سے بہتر کچھ نہیں ہو سکتا کہ ملت ایران کے مشکل کشا اسلامی انقلاب کو ناکام ظاہر کریں اور یہ باور کرائیں کہ ایران مشکلات و دشواریوں سے دوچار ہو جانے کے بعد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حقیقی اسلام اور امام خمینی قدس سرہ کی روش سے کنارہ کشی پر مجبور ہو گیا۔ ٹاپ تعلیم و تربیت ثقافت و تعلیم و تربیت کا مسئلہ اسلامی جمہوری نظام میں اولیں مسئلہ ہے۔ دراز مدت میں کوئي بھی چیز تعلیم و تربیت جتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ ایرانی معاشرے میں تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ در حقیقت کفر و ظلم و عالمی سامراج اور دنیا کے سیاسی شیطانوں کی غنڈہ گردی کے خلاف جد و جہد کا محاذ یہی اسکول اور مدرسے اور تعلیم و تربیت و ثقافت کا محاذ ہے۔ جو طلبہ ملک کے تعلیمی اداروں کے سپرد کئے گئے ہیں اس قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ تعلیم و تربیت، استاد اور ثقافتی و تعلیمی محاذ کی قدر کیجئے۔ ٹاپ قومی اتحاد جو شخص سامراج کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے، اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کو طمانچہ رسید کرنا چاہتا ہے، بندگان خدا کے دل جیتنا اور دشمنان خدا کو رنجیدہ و مایوس کرنا چاہتا ہے اسے یہ کوشش کرنا چاہئے کہ قوم اور نظام کے حکام کے درمیان رابطہ روز بروز زیادہ مستحکم ہو۔ جو بھی اس کے بر عکس عمل کرے وہ در حقیقت سامراج کی پسندیدہ سمت میں بڑھ رہا ہے۔ ٹاپ اسلامی یکجہتی دنیا کا کون سا گوشہ ہے جہاں مسلمان طویل عرصے سے عالمی سامراج اور عالمی تسلط پسندانہ سسٹم کے باعث نقصان نہیں اٹھا رہے ہیں اور دباؤ کا سامنا نہیں کر رہے ہیں؟! ایسے میں کیا چارہ ہے سوائے مسلمانوں کی استقامت و مزاحمت کے، سوائے مسلمانوں کے باہمی عہد و پیمان کے، سوائے مسلمانوں کے اتحاد کے، سوائے اسلامی معاشروں کی بیداری کے، سوائے پوری دنیا میں اسلام کی عظیم صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لانے کے؟ ٹاپ حکومتوں کی جانب سے اپنی قوموں کی حمایت اسلامی مملکتوں کے سربراہوں کے اختیار میں بہت بڑی طاقت ہے اور وہ طاقت ہے مسلم قوموں کی۔ اس نا قابل تسخیر قوت کی مدد سے اسلامی حکومتیں سامراج کے اسلام مخالف محاذ کے سرغنہ امریکا جیسے سپر پاؤر کا مقابلہ کر سکتی ہیں، اپنی قوموں اور دیگر مظلوم مسلم اقوام کے حقوق کا دفاع کر سکتی ہیں۔ اسلام ایک قوم کی زندگی کو سنوارنے کی بہترین ضمانت بن سکتا ہے۔ اس کے سائے میں قومیں مکمل آزادی و خود مختاری سے بہرہ مند ہو سکتی ہیں، اس سے محظوظ ہو سکتی ہیں اور اس ہدف کے حصول کے لئے مسلمان نشین ملکوں کے عوام کا جذبہ ایمانی بہترین سہارا و کمک ہے۔ امریکا اور سامراج کے دیگر عمائدین مسلم ممالک کے سربراہوں کے دماغ میں اسلام کے تعلق سے جو خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مسلم حکومتوں سے یہ امید ہے کہ وہ اس سے متاثر ہونے کے بجائے اس الہی آئین کو قوموں کے نجات دہندہ اور مسلم قوموں یعنی امت مسلمہ کے ان اجزاء کے رشتے اور رابطے کی حیثیت سے دیکھیں اور اس کے سہارے اپنی طاقت و توانائی اور عز و وقار میں اضافہ کریں۔ یہ بذات خود قوموں کو اپنی سمت متوجہ کرنے اور ان کی حمایت و مدد کا بڑا موثر ذریعہ ہے۔ جس حکومت کو اپنی قوم کی حمایت حاصل ہو وہ کسی سے خوفزدہ نہ ہونے میں حق بجانب ہے۔ ٹاپ سامراج کے عناد کی وجوہات اسلام سے سامراج کے عناد کے اسباب و علل اس وقت اسلام اور سامراج کے مابین جو تنازعہ ہے وہ کس بات پر ہے؟ آج سامراج، اسلام کے مقابل کھڑا ہے۔ چنانچہ یہ بات خود انہوں نے (یعنی سامراجی عناصر نے) صریحی طور پر کہی ہے۔ امریکی صدر نے بے ساختہ صلیبی جنگ کی بات کی۔ سامراج کے تشہیراتی مہرے تواتر کے ساتھ مختلف موذیانہ طریقوں سے دنیا بھر میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، فلمیں بنا رہے ہیں، کمپیوٹر گیمز بنا رہے ہیں، مقالے لکھ رہے ہیں، سب کچھ اسلام کے خلاف۔ وہ کیوں اسلام کے مخالف ہیں؟! یہ بہت اہم سوال ہے۔ وہ خود اپنی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اسلام کے مخالف ہیں کیونکہ اسلام جنگ، قتل و غارتگری اور نفرتوں کی تعلیم دیتا ہے۔ عالمی رائے عامہ کے درمیان اس طرح آشکارا طور پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ بہتان باندھ رہے ہیں۔ اس وقت تو دنیا میں نفرتیں پھیلانے کا کام سامراج کر رہا ہے۔ دنیا میں جنگ کی آگ امریکی بھڑکا رہے ہیں۔ قوموں اور ملکوں کے حقوق پر حملے اور دست درازی کرنے والے وہی لوگ ہیں۔ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے اپنے فوجی لاتے ہیں اور کبھی کسی ملک پر تو کبھی کسی اور ملک پر حملے کرتے ہیں، اس سرحد اور اس قوم کے خلاف جارحیت کرتے ہیں۔ آپ گزشتہ سو سالہ تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو یہی پائیں گے کہ بیشترین جنگیں مغرب والوں نے شروع کی ہیں۔ دنیا کی دونوں عالمی جنگیں یورپیوں نے شروع کیں۔ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں بے شمار جنگیں امریکی اقتدار پر قابض حکومتوں نے لڑی ہیں۔ وہی ہیں جو قوموں کے درمیان نفرتیں پھیلاتی ہیں۔ اسلام ان تہمتوں سے مبرا ہے۔ جھگڑا اس بات کا نہیں ہے ، وہ جھوٹ بولتے ہیں، تنازعہ اس بات کا ہے کہ اسلام قوموں کو خود مختاری و آزادی کی دعوت دیتا ہے، مسلمان قوموں کو ان کی عزت نفس کی یاد دلاتا ہے، مسلمان قوموں کو یہ درس دیتا ہے کہ اپنے حقوق کو پہچانیں، ان حقوق کے حصول کی کوشش کریں اور ان پر تجاوز کرنے والوں کا مقابلہ کریں۔ سامراج اس استقامت، اس دفاع اور اس واقفیت و آگاہی کا مخالف ہے۔ اسلام اور سامراج کا تنازعہ اسی بات پر ہے۔ ٹاپ ملت ایران سے سامراج کی دشمنی کے اسباب و علل ایران اسلامی، امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کا ایران، اسلامی انقلاب والا ایران، مسلمانوں کی عظیم عالمی تحریک اور بیداری کا محور و مرکز ہے۔ اسی لئے دشمنیوں کا ہدف بھی بنا ہوا ہے۔ یہ چیز ملت ایران کے لئے غم و اندوہ نہیں بلکہ خوشی کا باعث ہے۔ اس سے ایران وحشت زدہ نہیں بلکہ زیادہ پرامید ہوا ہے۔ کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملت ایران بہت طاقتور ہے اور سامراج اور ڈاکوؤں اور غارتگروں کے مفادات کے لئے بدستور خطرہ بنی ہوئی ہے۔ سامراج کی دشمنی کو دیکھ کر ملت ایران کو اور بھی یقین ہو جاتا ہے کہ اس نے انقلاب کو آگے لے جانے اور ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے جس راہ کا انتخاب کیا ہے وہ بالکل صحیح، کامیاب اور درست ہے۔ اگر انسانیت کے دشمنوں کے مفادات کے خلاف اور ملک و انقلاب کی مصلحتوں کی تکمیل کے لئے اپنی مہم میں اس قوم نے غلط راستے کا انتخاب کیا ہوتا تو اتنی دشمنیاں برداشت نہ کرنا پڑتیں۔ ٹاپ ایران کے اسلامی انقلاب سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات کیا وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کا پیغام ہے اور قلوب اس کی سمت مائل اور قدم اس کے مقررہ اہداف کی راہ میں گامزن ہیں سامراج پیچ و تاب کھا رہا ہے؟ ان دشمنیوں کی وجوہات اس طرح ہیں؛ سب سے پہلی وجہ تو دین کا سیاست اور سماجی زندگی سے جدا نہ کیا جانا ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے عملی طور پر ثابت کر دیا اور دکھا دیا کہ دین انسانوں کی زندگی میں دخیل ہے۔ مقدس دین اسلام اس لئے نہیں آیا کہ لوگوں کو عبادت خانوں کا گوشہ نشیں بنا دے بلکہ انسانی زندگی، سیاست کا میدان، عظیم سیاسی، سماجی اور اقتصادی امور مقدس اسلامی احکام کی قلمرو کے اندر آتے ہیں۔ دوسری وجہ بڑی طاقتوں کی خواہش و مرضی کو در خور اعتناء قرار نہ دینا ہے۔ امریکا اور دیگر سامراجی طاقتوں کی نظر میں اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک بڑا جرم یہ ہے کہ عالمی امور میں وہ امریکا اور اس کے ہمنواؤں کے نظریات اور منشا کے زیر اثر نہیں ہے۔ اس کی ایک واضح مثال مسئلہ فلسطین ہے۔ انہوں نے عرب اور بہت سے اسلامی ملکوں پر شدید دباؤ ڈالا کہ مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کر دیں، افسوس کہ بعض حکومتیں اس دباؤ کے آگے جھک بھی گئیں اور انہوں نے یہ مطالبہ مان لیا لیکن اسلامی جمہوریہ نے ایک بالکل واضح جملے میں اپنی بات بیان کر دی جسے دنیا کے تمام انصاف پسند افراد تسلیم کرتے ہیں۔ وہ جملہ یہ ہے کہ فلسطین، فلسطینی عوام کا ہے۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی تیسری وجہ یہ موقف ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کی بساط لپیٹی جانی چاہئے، یہودی فلسطین میں آباد رہ سکتے ہیں لیکن فلسطین میں حکومت کا حق ملت فلسطین کا ہے وہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جسے چاہیں منتخب کرے۔ چوتھی وجہ ایران کی جانب سے ایسے تمام افراد کی سیاسی و اخلاقی حمایت ہے جو اسلام کی بالادستی قائم کرنے کی راہ میں سعی و کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی جو کوئی بھی اسلام کی شان و شوکت کے لئے قیام کرتا ہے ایران اس کی سیاسی و اخلاقی حمایت کرتا ہے۔ مسلمان قوموں کی یہ حمایت دشمن کو خشمگیں کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ سے سامراجی دشمنوں کی دشمنی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مسلم اقوام پر مغربی ثقافت مسلط کئے جانے کا مخالف ہے۔ مغربی ثقافت ایسی ہے کہ اس میں جہاں خوبیاں ہیں وہیں بہت سے نقائص و عیوب بھی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ثقافتی تعلقات اور لین دین کا قائل ہے۔ ملت ایران جیسی قوم او دیگر مسلم اقوام دنیا کی ثقافتوں کو دیکھیں، ان کا جائزہ لیں اور ان ثقافتوں کے ان نکات کو اختیار بھی کریں جو ان کے لئے ضروری اور مفید ہوں اور ان باتوں کو جو مفید نہیں ہیں مسترد کر دیں۔ عالمی استکبار، اسلام و انقلاب سے دلی کینہ رکھتا ہے اور جب تک قوم اپنے اصولوں اور اپنے دین و مذہب سے دستبردار نہیں ہو جاتی اس وقت تک عالمی استکبار کی ابرو کا بل نہیں جاتا۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ : ولن ترضی عنک الیھود و لا النصاری حتی تتبع ملتھم بنابریں سامراج کے بغض و کینے کی وجہ (اسلامی انقلاب کی) حریت پسندی ، لا شرقی و لا غربی کا نعرہ اور اسلام پر عمل آوری ہے۔ سامراج کا کینہ ختم ہونے والا نہیں ہے لیکن اس کینے کے باوجود ملت ایران اللہ تعالی کے لطف و کرم سے پر امید ہے کہ انشاء اللہ جملہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں اپنے الہی اہداف کو حاصل کرے گی اور دشمن کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دے گی۔ ٹاپ اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات عوام کے ایمان کی مستحکم بنیادوں پر اسلامی نطام کی تعمیر کے بعد اس (سامراج) کے لئے بہت بڑا چیلنج معرض وجود میں آ گیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ فطری طور پر یہ نظام دنیا کے سامراجی نظام کے آکٹوپس سے ٹکرانے والا تھا۔ اس ٹکراؤ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکا، برطانیہ یا کسی اور ملک سے جنگ کے لئے جائے بلکہ جب حساس جغرافیائی محل وقوع اور قدیم تہذیب و ثقافت کا مالک کوئی اسلامی ملک ابھر کر سامنے آتا ہے، کوئی نیا خیال اور نئی فکر پیش کرتا ہے اور پھر اس کی تقویت کے لئے جی جان سے کوشش کرتا ہے اور اس کی کامیابی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں تو فطری سی بات ہے کہ سامراج کو اس پورے علاقے میں اپنے مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کے اس زمانے کے سامراجی نظام یعنی ایک طرف لبرل سرمایہ دارانہ نظام اور دوسری طرف نام نہاد سوشیلسٹ الحادی آمریت کا نظام، اسلامی جمہوریہ ایران سے الجھ پڑے۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ ان دونوں نظاموں میں نوے فیصدی امور میں اختلافات تھے لیکن (اسلامی انقلاب کی) اس شمع فروزاں کو خاموش کرنے اور اس پودے کو اکھاڑ پھینکنے کی بات پر یہ دونوں متحد ہو گئے! ٹاپ سامراج کا آخری ہدف اس وقت امریکا اور عالمی سامراج کا سب سے اہم ہدف یہ ہے کہ انقلاب کو، اسلامی جمہوریہ کو اور ملت ایران کو کسی صورت پسپا کر دیا جائے۔ وہ اعلان کر دے کہ اپنے موقف اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے موقف سے برگشتہ ہو گئی ہے۔ سامراج کی ساری سعی و کوشش یہی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ امام (خمینی رہ) کے پیغام نے مسلم قوموں کو بیدار کر دیا ہے۔ آپ دنیا کی مختلف اقوام بالخصوص مسلمان قوموں کو دیکھئے! غور کیجئے کہ وہ کس طرح امام (خمینی رہ) کے پیغام سے متاثر ہوئی ہیں؟! سامراج کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ قوموں کو اسی صورت میں ساکت و خاموش رکھا جا سکتا ہے جب انہیں صحیح راستے سے منحرف کرکے اسی جگہ پر پہنچا دیا جائے جہاں سے انہوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ یہ قوموں دیکھیں کہ اسلامی ایران، امام خمینی کا ایران اپنے راستے سے برگشتہ ہو گیا ہے تاکہ سب کے سب مایوس ہو جائیں اور اپنی راہ چھوڑ کر واپس لوٹ جائیں۔ سامراج اس چیز کو سمجھ گیا ہے اور وہ اس کے لئے بھرپور کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ سامراج اپنے تمام وسائل و امکانات کو بروئے کار لاکر اسلامی جمہوریہ کو مٹا دینے کی منصوبہ بندی میں لگا ہوا ہے۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ واقعی یہ سامراج کا آخری ہدف ہے۔ البتہ وہ سیاستداں ہیں اور بخیال خود ایک اک زینہ طے کر رہے ہیں۔ پہلا زینہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو اس کی امنگوں سے جدا کر دیں۔ دوسرا قدم یہ ہوگا کہ اسلامی جمہوریہ کو اس کے محبوں سے محروم کر دیں، تیسرا قدم یہ ہے کہ حکومت اور حکام کو عوامی طبقات سے دور کر دیں اور دونوں کے درمیان شگاف ایجاد کریں۔ چوتھا قدم یہ ہے کہ اوباش اور شر پسند عناصر کو لائیں، جرائم پیشہ افراد کا سہارا لیں اور ان کی مدد سے اپنا ہدف پورا کریں۔ اگر اسلامی جمہوریہ کے حکام سے غفلت، سستی اور بے توجہی ہوئی تو کوتاہ مدت میں ہی یہ چاروں قدم اٹھائیں جائيں گے لیکن اگر حکام ہوشیار و بیدار رہے اور غفلت کا شکار نہ ہوئے تو صدیاں گزر جائیں گی لیکن پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکا ہوگا۔ ٹاپ