ان اہم موضوعات میں سے ایک جنھیں ایرانی، کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ اپنے تاریخی حافظے میں محفوظ رکھتے ہیں اور کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ اپنے تاریخی فیصلوں کی کسوٹی قرار دیتے ہیں، ان کے ملک کی ارضی سالمیت کا مسئلہ ہے۔ مختلف حکومتوں کے دور میں طویل عرصے تک ایران، اپنی سرزمین کے کئي حصے کھو چکا ہے اور یہ چیز سنہ 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے تک جاری رہی۔ ایران میں ارضی سالمیت کی حفاظت صرف اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہی ممکن ہو سکی اور یہ ملک غیر ملکی انحصار کو ختم کرنے کے سبب باہری رکاوٹوں سے نجات پا گیا۔ اس مقالے میں ایران کی ارضی سالمیت کی حفاظت میں اسلامی جمہوریہ کی کارکردگی کا ایک تجزیاتی جائزہ لینے کی کوشش کی گئي ہے۔ اس مقالے میں بنیادی طور پر ایران کی معاصر تاریخ کے دور یعنی پہلوی حکومت اور اسلامی جمہوریہ کی کارکردگي پر توجہ مرکوز کی گئي ہے۔

پہلوی دور حکومت بہت سے پہلوؤں سے ایران کی معاصر تاریخ کا ایک متضاد دور ہے اور ارضی سالمیت کے مسئلے میں یہ تضاد کچھ زیادہ ہی نمایاں ہے۔ پہلوی حکومت بظاہر اور اپنے دعوے کے مطابق اچھی خاصی فوجی طاقت کی حامل ہے لیکن اس کے دور میں اغیار کی جانب سے ایران کی ارضی سالمیت کی لگاتار اور بڑی شدت سے خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ رضا خان پہلوی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایران میں فوج میں شامل افراد کی تعداد 30 ہزار سے بڑھ کر 1 لاکھ 20 ہزار ہو گئی۔ فوجیوں کی تعداد میں اس 400 فیصد اضافے کے ساتھ ہی اس ادارے کے بجٹ میں بھی کافی اضافہ ہوا اور فوج کا بجٹ ملک کے کل بجٹ کا 50 فیصد سے زیادہ ہو گیا۔(1) دوسری جانب جب متفقین نے ایران کی سرزمین میں گھسنے کا فیصلہ کیا تو یہ فوج ایک دن بھی ان کا مقابلہ نہ کر سکی۔ امام خمینی کے بقول یہ فوج تین گھنٹے کی مزاحمت کے اپنے اعلان پر بھی قائم نہ رہ سکی۔(2) ایران کی ارضی سالمیت کی یہ خلاف ورزی، ایران کی سیاسی سالمیت کی بھی کھلی خلاف ورزی پر منتج ہوئي اور غاصبانہ قبضہ کرنے والوں نے غذائی اشیاء کی تقسیم سے لے کر  مخالفوں کی سرکوبی تک ملک کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔(3) بیرونی حملے سے مقابلے اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت میں پہلوی فوج کی نا اہلی، خاص طور پر ایسے حالات میں جب فوج کی تقویت اور اسے اچھی طرح سے لیس کرنے کے لیے عوام پر کمر شکن خرچے مسلط کر دیے گئے تھے، ایرانیوں کے شدید غم و غصے کا باعث بنی۔(4)

رضا خان نے اپنے قومی کردار کو عملی جامہ پہنانے اور فوجی قوت کو غیر ملکی دشمن سے مقابلے کے لیے تیار کرنے کے بجائے، اسے ملک کے اندر لوگوں کی سرکوبی کی ٹریننگ دی تھی اور یہی وجہ تھی کہ ایران کی فوج، جارحیت کے مقابلے میں ابتدائي ترین دفاعی توانائي کا بھی مظاہرہ نہ کر سکی۔

رضا خان کے دور میں فوج کی یہ کمزوری، صرف بڑی طاقتوں کے مقابلے میں ہی نہیں تھی بلکہ ترکی جیسی علاقائي طاقتوں کے مقابلے میں بھی اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پہلوی حکومت وسیع پیمانے پر امتیازات دے کر ہی اپنے سرحدی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو سکی تھی۔ آرارات کوچک اور شمال مغربی سرحدوں کے معاملے میں ترکی کو وسیع امتیازات دیے گئے تھے، وہ رضا خان کی جانب سے ترکی کو دیے جانے والے ارضی امتیازات کے تاریخی نمونے ہیں۔ ارضی امتیازات کے ایسے ہی نمونے عراق اور افغانستان کے سلسلے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو ماضی میں ایران کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی کا پتہ دیتے ہیں۔(5)

رضا خان کے بیٹے محمد رضا پہلوی کے دور حکومت میں اگرچہ بظاہر ایران نے علاقائي پولیس مین کی حیثیت سے مغرب سے بے تحاشا فوجی ساز و سامان خرید کر اپنے آپ کو ایک طاقتور حکومت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی لیکن قاجاری دور حکومت کے بعد ایران کی ارضی سالمیت کو سب سے زیادہ نقصان اسی کے دور میں پہنچا۔ محمد رضا پہلوی نے نکسن اور فورڈ کی حکومتوں سے بارہ ارب ڈالر سے زیادہ کے ہتھیار خریدے۔(6) صرف سنہ 1977 میں ہی دیگر ملکوں پر ایران کا اسلحہ جاتی انحصار ساڑھے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ تک پہنچ گیا اور ان وسیع درآمدات میں امریکا کہ حصہ تقریبا ساڑھے چار ارب ڈالر تھا۔ یہ رقم اس وقت ایران کے بجٹ کا تقریبا اکتیس فیصد تھی جو اس وقت ہتھیار خریدنے پر خرچ ہو رہی تھی اور یہ ایسے عالم میں تھا جب ورلڈ بینک نے اعلان کیا تھا کہ اس وقت ایران کے چھیالیس فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے تھے۔(7) اسی کے ساتھ ایران کی پچھلے پچاس برسوں کی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ بھی پہلوی دور حکومت سے تعلق رکھتا ہے اور وہ ہے ایران سے بحرین کی علیحدگي۔ اس مسئلے میں محمد رضا پہلوی کی حکومت نے ملک کے قوم پرست سیاسی دھڑوں کی شدید محالفت کے باوجود، عالمی دباؤ خاص طور پر مغربی ملکوں کے اثر و رسوخ کے سبب بحرین کو مغربی ممالک کی جانب سے طے شدہ ایک ریفرنڈم کے تحت خود سے الگ کر دیا۔

جن مسائل کا ذکر کیا گيا ان کے پیش نظر اگر ملک کی ارضی سالمیت کی حفاظت کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ کی کارکردگي کا جائزہ لیا جائے تو اس کی حقیقی قدر و قیمت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد اسلامی جمہوریہ ایران کو پہلوی دور کے باقی ماندہ مسائل میں سے ایک کا سامنا کرنا پڑا۔ عراق کے ساتھ سرحدی تنازعات، جو محمد رضا پہلوی کے دور حکومت میں حل نہیں ہوئے تھے، ایران پر حملے کے لیے صدام کا بہانہ بن گئے۔ اس طرح عراق نے امریکا کی جانب سے ہری جھنڈی دکھائے جانے اور دنیا کے اسّی سے زیادہ ملکوں کی حمایت سے ایران پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی۔(8) اس جنگ میں صدام کو امریکا اور برطانیہ سے لے کر فرانس اور جرمنی تک زیادہ تر مغربی ملکوں سے اسلحہ جاتی امداد حاصل ہوتی رہی۔ یہ ایسے عالم میں تھا کہ جب شام اور عمان کو چھوڑ کر تقریبا سبھی عرب ممالک صدام کی حمایت کر رہے تھے۔ اسی سلسلے میں سن دو ہزار تیرہ میں فارن پالیسی جریدے نے سی آئي اے کے طشت از بام ہونے والے دستاویزات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا: ایران اور عراق کی جنگ کے آخری ایام میں امریکا، سیٹیلائٹ تصویروں کے ذریعے اس بات کو سمجھ گیا تھا کہ ایران، عراق کے خلاف ایک فیصلہ کن اور اسٹریٹیجک اقدام کرنے والا ہے۔ امریکا کے انٹیلیجنس حکام نے ایرانی فورسز کے ٹھکانوں اور ان کی فوجی لوکیشن عراقیوں کے حوالے کر دی جبکہ انھیں پورا یقین تھا کہ صدام کی فوج بلاشبہ ایرانیوں پر کیمیائي بمباری کرے گي۔(9) یہ امریکا اور بعض یورپی ملکوں کی جانب سے ایران کے خلاف صدام کی حمایت کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔

اس غیر مساوی جنگ کو آٹھ سال گزر جانے کے بعد صدام نہ صرف یہ کہ ایران کی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کر پایا بلکہ اس نے اپنی کمزوری کو تسلیم کرتے ہوئے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئي ایران کے ساتھ فائر بندی کی قرارداد کو ایران سے پہلے ہی قبول کر لیا۔ ایران کے لیے اس جنگ کا نتیجہ، اپنی معاصر تاریخ کی پہلی فتح، فوجی توانائیوں میں پیشرفت، ارضی سالمیت کی حفاظت، قومی عزت و افتخار اور تجربہ کار فوج کی صورت میں سامنے آيا۔ قاجاریوں کے اقتدار میں آنے کی تاریخ سے لے کر سنہ 1990 تک کے درمیانی عرصے میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کوئي ایک ملک نہیں بلکہ تمام عالمی طاقتیں اور اکثر علاقائي طاقتیں، ایران کی ارضی سالمیت کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچا سکیں۔ اس سلسلے میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ایران اور عراق کی جنگ کے زمانے میں عراق کو نہ صرف یہ کہ امریکا کی قیادت میں پوری مغربی دنیا کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی بلکہ دنیا کے زیادہ تر ممالک پر ایران کی چھوٹی سے چھوٹی فوجی اور غیر فوجی مدد کے لیے بھی پابندی لگا رکھی تھی۔ یہ پابندیاں اتنی شدید اور ہمہ گير تھیں کہ رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ سید علی خامنہ ای کے بقول ہم باہر سے خاردار تار حاصل کرنا چاہ رہے تھے، وہ ملک جہاں سے ہو کر یہ تار آنے تھے، یعنی سابق سوویت یونین، اس بات کی اجازت نہیں دے رہا تھا کہ یہ تار اس کی سرزمین سے گزر کر ایران تک پہنچے۔(10)

اسلامی انقلاب کے بعد کے ایران نے ایک طرف سیاست و نظریات کے میدان میں خودمختاری کو اپنے طریقہ کار کی بنیاد قرار دیا تھا اور دوسری طرف اسے آٹھ سالہ مسلط کردہ بزدلانہ جنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا، گویا اس نے اپنے پورے وجود سے یہ بات سمجھ لی تھی کہ فوجی طاقت اور اسے مضبوط بنانے کا راستہ صرف اور صرف دنیا کی بڑی طاقتوں سے امید ختم کر کے اور اپنی صلاحیتوں نیز جدت طرازی پر بھروسہ کر کے ہی طے کیا جا سکتا ہے۔ اسی تناظر میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی تمام تر کوششیں فوجی میدان میں خود کفالت اور خودمختاری پر مرکوز کر دیں۔ شاید یہ ایران کے خلاف صدام کے توسط سے امریکا کی جنگ کا سب سے بڑا ثمرہ تھا۔

یہ رویہ اختیار کیے جانے کے نتیجے میں ایران نے اپنے مختلف فوجی شعبوں میں تبدیلیاں کیں اور انھیں مستحکم بنانے کی کوشش شروع کر دی، خاص طور پر میزائیلی طاقت، بکتر بند گاڑیوں، جنگی ہیلی کاپٹروں اور آبدوزوں کی تیاری اور خدمت کے لیے تیار فورسز کی ٹریننگ اور انھیں منظم بنانے میں بہت زیادہ پیشرفت کی۔ اسی بنیاد پر ملٹری واچ میگزین نے ایران کو دنیا کی بڑی فوجی طاقتوں میں گيارہواں رینک دیا ہے۔(11) اسلامی انقلاب کے بعد والے ایران کی فوجی طاقت میں پیشرفت کے سلسلے میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اس پیشرفت کا بڑا حصہ، غیر ملکی درآمدات پر انحصار کے بغیر اور ملکی صلاحیتوں اور فوجی ٹیکنالوجی پر بھروسہ کر کے حاصل کیا گيا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2018 میں ایران کی فوجی درآمدات تقریبا چالیس لاکھ ڈالر کی رہی ہیں اور یہ رقم دنیا کے ملکوں کی فوجی درآمدات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے، اگر صحیح اعداد و شمار پیش کیے جائيں تو یہ پوری دنیا میں درآمد ہونے والے کل ہتھیاروں کا 0.01 فیصد ہے۔

ملکی صلاحیتوں کے سبب حاصل ہونے والی یہ پیشرفت اور طاقت اس بات کا باعث بنی کہ سنہ انیس سو اٹھاسی میں ایران-عراق جنگ کے خاتمے کے بعد بھی ایران اپنی ارضی سالمیت کی حفاظت کے سلسلے میں اپنی کامیاب کارکردگي کو زیادہ طاقت کے ساتھ جاری رکھے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آ جانے اور اس کے جارحانہ عزائم کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران نے پوری طاقت کے ساتھ اس گروہ کے مقابلے میں اپنی سرحدوں کی حفاظت کی اور طالبان وقتی طور پر اور محدود سطح پر بھی ایران کی ارضی سالمیت کو پامال نہیں کر سکے۔

خطے میں ایران کی فوجی طاقت اور سیاسی خودمختاری نے دو طاقتور بازوؤں کی طرح اسے اس علاقے میں ایسی عزت عطا کی ہے کہ اگر دنیا کی بڑی طاقتیں بھی ایران کی زمینی، سمندری اور فضائي حدود کی خلاف ورزی کریں تو انھیں سبق سکھایا جاتا ہے۔ ایران کی اس فوجی اور سیاسی طاقت اور اس کی پیشرفت کے نمونے مندرجہ ذیل واقعات میں بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں:

 

الف: امریکا کے کئي فوجیوں کی گرفتاری جنھوں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر ایران کی ارضی سالمیت کو نظر انداز کیا تھا۔

 

ب: امریکا کے انتہائي پیشرفتہ جاسوسی ڈرون آر کیو-170 کو سنہ دو ہزار گيارہ میں ہیک کر کے زمین پر اتار لینا۔

 

ج: ایران کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں سنہ 2019 میں امریکا کے انتہائي پیشرفتہ اور مہنگے ڈرون گلوبل ہاک کا پتہ لگا کر اسے تباہ کرنا اور اسی طرح کے دسیوں دیگر واقعات

 

عراق اور شام میں داعش کے سر ابھارنے اور ان ممالک کے بہت سے علاقوں پر اس کے قبضے کے بعد بھی ایران نے ہمیشہ ہی اپنی سرحدوں سے چالیس کلو میٹر دور تک کے علاقے پر ردعمل دکھایا ہے اور داعش کی فوجی طاقت کبھی بھی ایران کی سرحد سے چالیس کلو میٹر سے زیادہ قریب نہیں آ سکی۔ یہ بات صرف ایک پروپیگنڈا نہیں ہے بلکہ یہ ایران کی فوج کی حقیقی طاقت کو نمایاں کر دیتی ہے۔ داعش کی ریشہ دوانیوں کے بعد جو امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول، امریکی حکومت کے ہاتھوں معرض وجود میں آئی تھی، پورے مغربی ایشیا کے علاقے میں دہشت اور قتل عام کی لہر دوڑ گئی اور یکے بعد دیگرے کئي ملک اس دہشت گرد گروہ کے حملے کا نشانہ بنے۔

خطے میں ایران کی مسلح افواج، جنرل قاسم سلیمانی اور ایران کے دیگر فوجی کمانڈروں کی کمان میں روس اور حملے کا نشانہ بننے والے ملک کے ساتھ میدان میں اتر گئيں اور انھوں نے امریکا کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کا وجود تقریبا پورے خطے سے پوری طرح ختم کر دیا۔ داعش سے مقابلہ کرنے میں ایران کا کردار اتنا زیادہ نمایاں اور ناقابل انکار ہے کہ امریکی میڈیا تک اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا۔ نیوز ویک نے سنہ دو ہزار انیس میں اپنی ایک خبر کی سرخی یہ لگائي تھی:"اگر ایران کو کمزور کیا گيا تو داعش میں پھر جان پڑ جائے گي۔"(12) یا سی این این نے اپنی ایک خبر کی سرخی "داعش سے مقابلے میں سلیمانی کے کردار کو یاد رکھنا چاہیے" میں اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا تھا۔

ایران کی جانب سے اپنی ارضی سالمیت کی حفاظت کا تازہ اور شاید سب سے نمایاں نمونہ، جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر اس کا ردعمل ہو۔ شہید جنرل سلیمانی کے قتل کا ردعمل اگرچہ ایرانی سرحدوں کے باہر سامنے آيا لیکن چونکہ یہ عظیم شہید، ایران کے سرکاری عہدیدار تھے اور سرکاری دورے پر عراق گئے تھے، اس لیے ان کی شہادت ایران کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے اور امریکا کی فوجی چھاؤنی پر حملے کا ایران کا ردعمل ایک طرح سے اس کی جانب سے اپنی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کا دفاع سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک امریکا اور اس کی کسی بھی چھاؤنی پر حملہ نہیں ہوا تھا۔ امریکی حکومت کی جانب سے زخمی اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو چھپانے کی بہت زیادہ کوشش کی گئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کے اس حملے میں دسیوں امریکی فوجی ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔

1.jpg

 

 

1- 50 to 60 percent of total government funds were allocated to the army, police, and gendarmerie" (Majd GB and Reza Shah 100).

Majd, Mohammad Gholi. Great Britain & Reza Shah: the Plunder of Iran, 1921-1941. University Press of Florida, 2011.

2-  https://bit.ly/393ASQK

3-  https://www.historytoday.com/archive/feature/iran-cold-war-crucible

4-  Ward, Steven R. Immortal: a Military History of Iran and Its Armed Forces. Georgetown University Press, 2014.

5- ایران کی ارضی سالمیت نامی کتاب کا ایک اقتباس، مصنف محمد علی بہمنی

6-  Crist, David. The Twilight War: the Secret History of America's Thirty-Year Conflict with Iran. Penguin Books, 2013.

7- فیلڈ مارشل حسن طوفانیان کی سوانح حیات، صفحہ 13، 19 اور 20

8-  . Islamic Revolution Document Center

9-   In 1988, during the waning days of Iraq’s war with Iran, the United States learned through satellite imagery that Iran was about to gain a major strategic advantage by exploiting a hole in Iraqi defenses. U.S. intelligence officials conveyed the location of the Iranian troops to Iraq, fully aware that Hussein’s military would attack with chemical weapons, including sarin, a lethal nerve agent.

 https://foreignpolicy.com/2013/08/26/exclusive-cia-files-prove-america-helped-saddam-as-he-gassed-iran/

10-   “In the Sacred Defense Era, during the war that was imposed on us, the materialistic powers of the east and the west… would give the best weapons and resources to Saddam, while our hands were tied. As everyone knew at that time, they would not even sell us barbed wire.”

http://english.khamenei.ir/news/7051/Iran-s-resistance-against-Saddam-can-be-a-model-for-other-nations

11-  https://militarywatchmagazine.com/forceapp/countries

12- https://www.newsweek.com/if-iran-falls-isis-may-rise-1475818