بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

تبریز اور آذربائیجان کے عوام کی خدمت میں سلام  تحیات پیش کرتا ہوں۔ افسوس ہے کہ  اس سال انتیس بہمن (مطابق سترہ فروری 1977) کی یادگار اور ناقابل فراموش تاریخ کی یاد اس طرح (کورونا وائرس کی وبا کے باعث ویڈیو لنک کے ذریعے ملاقات) منائي جا رہی ہے۔  ہم ہر سال اس حسینیہ میں اپنے عزیز عوام کے جوش و ولولے کا نظارہ کیا کرتے تھے جو آذربائیجان اور تبریز کے لوگوں کے اجتماع سے نمودار ہوتا تھا۔  ہمیں بہت خوشی ہوتی تھی اور نزدیک سے آپ لوگوں سے ملاقات ہوتی تھی۔  افسوس کہ اس سال یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ بھی حوادث روزگار کا حصہ ہے جو ہر روز ایک الگ انداز میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ان شاء اللہ امید ہے کہ یہ رکاوٹیں بہت جلد ختم ہوجائيں گی۔

ماہ رجب کی برکتوں سے کسب فیض کی ضرورت

 ماہ رجب کی آمد کی آپ سبھی عزیزوں، تبریز اور آذربائيجان کے لوگوں اور ایران کے سبھی عوام کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اس مبارک مہینے کی معنوی برکات سے سبھی بہرہ مند ہوں گے۔ اس سال اس مہینے میں اجتماعات نہیں ہوں گے۔ ہر سال عبادت کے اجتماعات، دعا و مناجات وغیرہ کی محفلوں سے لوگ بہرہ مند ہوتے تھے، اس سال یہ چیز میسر نہیں ہے لیکن گھروں میں ماہ رجب کی دعاؤں سے غفلت نہیں ہونی چاہئے۔  یہ بہت اچھی دعائيں ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اجتماعات کے عارضی التواء کی وجہ سے ہم اس مہینے کی برکات، عبادتوں، دعاؤں اور خدا سے توسل کی جانب سے غافل ہو جائيں۔

تبریز اور علاقہ آذربائیجان کے افتخارات:

1: مردم خیز علاقہ

آج میں اپنی تقریر کے شروع میں چند جملے تبریز اور آذربائیجان کے بارے میں عرض کروں گا اور تبریز اور آذربائیجان کی تعریف میں کچھ باتوں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔  اگرچہ اس بارے میں، میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ ان باتوں کو بار بار دوہرانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہمارے عزیز نوجوانوں کے اذہان ان حقائق سے زیادہ واقف ہوں۔ چند جملے انتیس بہمن مطابق 17 فروری 1978 کی انقلابی تحریک کے بارے میں عرض کروں گا۔  یہ تاریخی واقعہ بہت اہم ہے۔  چند جملے اس بارے میں عرض کروں گا کہ اس عظیم واقعے سے آج ہمیں کیا درس حاصل کرنا چاہئے اور اس عظیم واقعے سے کس طرح استفادہ کرکے ہم اپنی ان کمزوریوں کو دور کر سکتے ہيں جو ہمارے اندر پائي جاتی ہیں۔ چند جملوں میں اختصار کے ساتھ انتخابات کی بات کروں گا۔ 

تبریز کے بارے میں، یہ عرض کروں گا کہ انتیس بہمن مطابق 17 فروری 1978 کا قیام ایک قابل فخر جہادی کارنامہ تھا۔  بہت اہم کام ہوا تھا جو تبریز کے عوام کے  لئے باعث فخر ہے لیکن آذربائیجان اور تبریز کے عوام کے قابل فخر کارنامے اس جہادی کارنامے اور اسی طرح کے چند دیگر جہادی کارناموں تک محدود نہیں ہیں۔ اس شہر اور اس علاقے کے قابل فخر کارنامے بہت وسیع ہیں۔  میں ان میں سے چند نمونوں کا ذکر کروں گا۔ 

ایک مسئلہ یہاں پروان چڑھنے والی نابغہ ہستیوں کا ہے۔  ہر علم و فن اور سیاست میں آذربائيجان بالخصوص تبریز نے نابغہ روزگار ہستیاں دی ہیں۔ علم کے میدان میں، دینی علوم میں، مادی علوم اور فزکس وغیرہ میں، حالیہ ایک سو پچاس برس میں، اس سے پہلے کی تاریخ کی میں نے زیادہ چھان بین نہیں کی ہے، لیکن ان ایک  سو پچاس برسوں میں اس علاقے نے عظیم فقہا، بڑے حکما و فلاسفہ، علم کلام کے ماہرین اور فزکس کے ماہر سائنسدانوں کے لحاظ سے عظیم نابغہ روزگار ہستیاں پیش کی ہیں۔  نابغہ روزگار علمی ہستیوں، آرٹ اور فن کے ماہرین، شعرائے تبریز، تبریزکے فنکاروں انواع و اقسام کے فنون کے ماہرین کی ایک لمبی فہرست ہے جو تبریز سے تعلق رکھتے ہیں۔  بطور نمونہ مرحوم شہریار رحمت اللہ علیہ ہیں۔ ان کا نام لیتے ہیں، میں نے بھی ان کا نام لیا ہے اور میں بھی ان کو مانتا ہوں لیکن صرف یہی نہیں ہیں، شعرائے تبریز بہت ہیں جنہوں نے فارسی اور ترکی زبان میں شاعری کی ہے۔  سیاست میں بھی آذربائیجان نے ماضی میں بھی اور آج کے دور میں بھی عظیم ہستیاں پیش کی ہیں۔ بنابریں اس علاقے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں نابغہ روزگار ہستیاں تیار ہوتی ہیں۔ اس خصوصیت کی حفاظت ہونی چاہئے اور اس کو باقی رہنا چاہئے۔ 

2: گزشتہ دو صدیوں کے واقعات و تغیرات میں رجحان سازی

اس کے ساتھ ہی گزشتہ ڈیڑھ سو دو سو سال پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ رجحان ساز علاقہ رہا ہے۔  کوئي کسی مہم اور تحریک میں شامل ہوتا ہے اور کوئی تحریک اور مہم وجود میں لاتا ہے،  تغیر اور تبدیلی لاتا ہے، کسی تحریک کے وجود میں آنے اور اس کے جاری رہنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔  تبریز تحریکوں کو جنم دینے والے علاقوں میں ہے۔  آذربائیجان بھی اسی طرح۔

مرحوم میرزائے شیرازی نے جب  تنباکو کے حرام ہونے کا فتوی صادر کیا تھا تو اس وقت، میرزا جواد مجتہد، جو تبریز کے معروف علما میں شمار ہوتے تھے اور معروف مجتہدین کے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، اس علاقے میں بہت با اثرتھے۔  یعنی میرزائے شیرازی سامرا میں تھے۔  اگر علمائے ایران جیسے میرزائے آشتیانی (2) تہران میں اور وہ (یعنی میرزا جواد مجتہد) یہاں  اور بعض  دوسرے علاقوں میں دیگر ہستیاں نہ ہوتیں تو یہ فتوی اتنا ہمہ گیر اور اتنا موثر واقع نہ ہوتا۔  یہاں مرحوم آ‍قائے میرزا جواد نے اس سلسلے میں بہت سرگرم کردار ادا کیا۔ مشروطہ یعنی ایران میں آئینی سلطنتی نظام کی تحریک میں بھی اسی طرح، البتہ بعد میں عرض کروں گا۔ اس طرف اشارہ کروں گا۔  بنابریں ملک کے سیاسی اور تاریخی تغیرات میں اس علاقے، بالخصوص شہر تبریز اور مجموعی طور پر پورے آذربائیجان نے تحریک سازی یعنی تحریک وجود میں لانے کا کردار ادا کیا ہے۔ 

3: بیرونی حملوں کے مقابلے میں مستحکم قلعہ

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آذربائیجان بیرونی حملوں کے مقابلے میں ایران کا محکم قلعہ رہا ہے۔  یعنی ہم ہمیشہ اپنے جارح پڑوسیوں کی جانب سے، روس کے زار حکام کی جانب سے بھی، عثمانی سلطنت کی طرف سے بھی اور سابق سوویت یونین کی جانب سے بھی، حملوں کی زد پر رہے ہيں۔ اگر آذربائیجان نہ ہوتا، اگر تبریز نہ ہوتا، مزاحمت نہ ہوتی، یہ حملوں کے مقابلے میں ڈٹ نہ جاتے اور جاں فشانی نہ کرتے تو یہ حملے اور جارحیتیں ملک کے مرکزی علاقوں تک پہنچ سکتی تھیں۔ آذربائیجان ایک مضبوط مورچہ اور قلعہ رہا ہے جس نے ہمیشہ ان حملوں کو پسپا کیا اورانہیں روکا ہے۔ 

4: اسلام سے گہرا قلبی رشتہ اور ایران کے سلسلے میں جذبہ حمیت

 ایک اور بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ تبریز اور آذربائیجان میں دو خصوصیت ہمیشہ رہی ہے جو ان کے تشخص کا حصہ ہے۔  ایک اسلام سے اور اسلامی دینداری سے گہری وابستگی ہے اور دوسری ایران کے تئیں حمیت اور غیرت ہے۔  یہ دونوں خصوصیات مختلف ادوار میں ہمیشہ آذربائیجان میں رہی ہے۔ آذربائیجان والوں نے اسلام اور ایران کو اتنی اہمیت دی ہے اور ان دونوں کے تعلق سے انھوں نے اتنی حمیت کا ثبوت دیا ہے کہ واقعی یہ ان کی ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ اغیار کی سازشوں کے مقابلے میں جو ایران کے مختلف علاقوں کو الگ کرنا چاہتے تھے، اس علاقے میں علیحدگی پسندوں کے مقابلے میں خود آذربائیجان کے عوام ڈٹ گئے اور انھوں نے ملک کی یکجہتی اور وحدت کی حفاظت کی۔

5:  ملکی مسائل میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی ہستیوں کی سرزمین

 ایک نکتہ شخصیات اور ہستیوں کا کردار ہے۔  ملک کے سبھی مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرنے والی ہستیاں اس علاقے میں زیادہ ہیں۔  جیسا کہ میں نے عرض کیا، تنباکو کی تحریک میں مرحوم حاج میرزا جواد، آئینی انقلاب کی تحریک میں، اوائل میں ستار خان اور باقر خان، باقر خان اور میرے والد ایک ہی محلے میں رہتے تھے، انھوں نے باقر خان کو محلہ خیابان میں دیکھا تھا، پھر تحریک کے دوسرے دور میں جب روسی، تبریز میں آ گئے تھے اور وہاں موجود تھے، مرحوم ثقتہ الاسلام(3) اور دیگر علما نے جدوجہد کی، مجاہدت کی اور شہید ہوئے۔ ایک اور دور میں، خیابانی اور نوبری کی تحریک میں، شیخ محمد خیابانی اور میرزا اسماعیل نوبری میدان میں اترے، کارنامے انجام دئے اور یہ تحریک خیابانی کی شہادت پر منتج ہوئی۔

انقلاب کے مسئلے میں، انقلاب کے ابتدائی واقعات میں پہلے دن سے یعنی 1963 میں جب تحریک شروع ہوئی تو پورے ملک سے گرفتار ہونے والے علما میں تین تبریز کے معروف علما تھے۔  بعد میں اس تحریک کے مختلف حوادث میں  دوسرے علما اور انقلابی تحریک کی کامیابی کے قریب، مرحوم قاضی اور دیگرحضرات اور خود انقلاب میں شہید مدنی اور شہید قاضی (4) اور دفاع مقدس میں شہید باکری اور ایسی ہی دسیوں ہستیاں اور  شخصیات ہیں جنہوں نے عظیم کارنامے انجام دیئے۔ یہ ناقابل فراموش ہشتیاں ہیں۔  میں عرض کرتا ہوں کہ یہ پرافتخار تاریخ فراموش نہیں ہونی چاہئے، اس تاریخ کی حفاظت ہونی چاہئے۔  یقینا تاریخ آذربائیجان کی ایک صحیح روایت کے بغیر تاریخ ایران کی ہر روایت نامکمل اور ناقص ہے۔  ضروری ہے کہ آذربائیجان کے مسائل کی صحیح روایت میں جو لوگ اس کام کے ماہر ہیں اور اس میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ میدان میں آئیں۔ یہ چند مختصر جملے آذربائیجان اور تبریز کے بارے میں تھے۔

 17  فروری 1978 کا یادگار کارنامہ اور آذربائیجان کے عوام کی خصوصیات

انتیس بہمن 1356 (ہجری شمسی مطابق 17 فروری 1978) کے تبریز کے واقعے کے بعد امام (خمینی رحمت اللہ علیہ ) نے ایک پیغام جاری کیا (5)۔ اس پیغام میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے آذربائیجان کے عزیز عوام کی تین خصوصیات کا ذکر کیا۔  یہ لفظ "عزیز" خود امام (خمینی رحمت اللہ علیہ)  کے پیغام میں موجود ہے۔  آپ کہتے ہیں، آذربائيجان کے عزیز عوام۔ آپ نے تین خصوصیات کا ذکر کیا ہے، شجاعت، غیرت اور دینداری۔ یہ تین خصوصیات امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اپنے پیغام میں آذربائیجان کے عوام کے تعلق سے بیان کی ہیں۔  حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں خصوصیات کسی انسانی مجموعے کو  پرکھنے اور اس کی سعی وکوشش  نیز سرگرمیوں کی اہمیت سمجھنے کی اہم کسوٹی ہیں۔    یعنی شجاعت اپنی جگہ پر، غیرت اپنی جگہ پر اور تدین بھی اپنی جگہ پر۔

تبریز کے عوام نے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت اہم نکتہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، حیسے انتیس بہمن، ( مطابق 17 فروری 1978) کو قیام کیا کہ وہ اس سے پہلے قم کے عوام کے نو جنوری کے قیام کو دیکھ چکے تھے کہ حکومت نے  کس وحشیانہ انداز میں عوام کا قتل عام کیا تھا۔  اس کو انھوں نے دیکھا تھا اور حکومت بھی سمجھ رہی تھی کہ قم کے سانحے کے بعد ایران کے عوام کی آنکھوں میں کوندنے والی بجلی بجھ گئی ہے اور اب  کسی کے اندر میدان میں اترنے کی ہمت نہیں ہے۔ ان حالات میں تبریز کے عوام قم سے کئی گنا زیادہ تعداد میں میدان میں آئے اور شہیدوں کے چالیسویں کی تحریک کی بنیاد رکھی۔  اس کے بعد شہیدوں کے چالیسویں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو عظیم عوامی تحریک پر منتج ہوا۔ اس کی شروعات تبریز سے ہوئی۔  یعنی تبریزیوں نے اپنے سے پہلے کے شہدا کے چالیسویں کی تحریک چلائی۔  یہ ان کی شجاعت، ان کا ایمان اور ان کی غیرت تھی جو انہیں میدان میں لائی اور یہ عظیم واقعات رونما ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر فروری 1978 میں  تبریز کے عوام کی یہ تحریک  نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ قم کے عوام کی نو جنوری ا1978 کی خونیں تحریک اکیلی رہ جاتی اور پھر تدریجی طور پر اس کو فراموش کر دیا جاتا، جس طرح 5 جون 1963 کی تحریک کو تدریجی طور پر فراموش کیا جا رہا تھا۔ البتہ انقلاب کی کامیابی کے بعد اس کی یاد دوبارہ زندہ ہو گئی۔ لیکن انقلاب سے پہلے ایران کے عوام آہستہ آہستہ فراموش کرتے جا رہے تھے کہ پانچ جون انیس سو ترسٹھ کو تہران، قم اور ورامین میں کیا ہوا تھا۔  قم کے عوام کی نو جنوری کی خونیں تحریک بھی، اگر تبریز کے لوگ میدان میں نہ آئے ہوتے تو اسی انجام سے دوچار ہو سکتی تھی۔  لیکن تبریز کے عوام میدان میں آئے، 17 فروری 1978 کا شجاعانہ قیام رقم کیا اور قم کے خونیں قیام کو ابدی کر دیا، اس کو زندہ رکھا اور تحریک کی رگوں میں نیا خون دوڑا دیا۔  

 یہی تین خصوصیات یعنی شجاعت، غیرت اور تدین انقلاب کے دوران، اوائل انقلاب میں بھی اور بعد انقلاب کے حوادث میں بھی ابھر کے سامنے آئيں۔ اوائل انقلاب میں اغیار کے ایجنٹ ملک کی تقسیم کے در پے تھے لیکن تبریز میں عوام میدان میں آ گئے۔  مقدس دفاع کے دوران بھی، اس زمانے میں عاشورا ڈوی‍‍ژن بہادر اور دشمن کے مورچے توڑنے والے ڈویژنوں میں شمار ہوتا تھا اور شہید باکری ناقابل فراموش ہستی ہیں جن کی یاد ذہنوں سے کبھی محو نہیں ہو سکتی۔  ان کے قریبی دوست جو ان کے ساتھ تھے، البتہ میں نے بھی انہيں بارہا دیکھا ہے، جو لوگ ان کے ساتھ نشست وبرخاست کرتے تھے، ان کے ساتھ رہتے تھے، وہ ان کی معنویت، نورانیت اور ان کے صفائے قلب کے بارے میں جو بتاتے ہیں انہیں سن کے واقعی انسان کو رشک ہوتا ہے۔

اس کے بعد مسلم پیپلز کے نام سے اٹھنے والے فتنے میں، خود تبریزی تھے، یعنی جن لوگوں نے مسلم پیپلز کے نام سے یہ فتنہ کھڑا کیا تھا وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ تبریز اور آذربائیجان کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن جو لوگ ان کے مقابلے میں اٹھے وہ تبریز کے عوام تھے، وہی تھے جنہوں نے اس فتنے کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔  اس وقت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے بھی کہا کہ خود تبریز کے عوام، کوئی اور اس میں مداخلت نہ کرے، تبریز کے عوام ان کا جواب دیں گے۔

اسی طرح بعد کے برسوں میں، دو ہزار نو کے فتنے میں، تبریز کے لوگ، تہران والوں اور دیگر شہروں کے باشندوں سے ایک دن پہلے ہی میدان میں آ گئے اور اس فتنے کو ناکام بنایا۔

استعماری نظام کے طور طریقوں کی مخالفت، اسلامی نظام سے دشمنی کی بنیادی وجہ

یہ چند باتیں  17 فروری 1978 کے قیام اور اس واقعے کی اہمیت اور عظمت کے بارے میں ہیں جس کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ ہم اس سے کیا درس حاصل کرتے ہیں۔  یہ اہم بات ہے کہ اس واقعے میں ہمارے لئے کیا درس ہے۔  اسلامی انقلاب شروع سے ہی بڑی طاقتوں کی دشمنی کا نشانہ بنا۔ ایک محاذ وجود آ گیا۔ ہم جب بڑی طاقتیں کہتے ہیں تو ان میں امریکا کے ساتھ اس وقت کا سوویت یونین بھی شامل ہے۔  یہ دونوں آپس میں سو مسائل میں اختلاف رکھتے تھے لیکن اس معاملے میں، اسلامی انقلاب، اسلامی جمہوریہ اور اس نظام کے معاملے میں وہ ایک ساتھ تھے۔  دوسرے بھی، یورپ والے بھی، یورپی طاقتیں بھی اسی طرح، ان کی پیروی کرنے والے بھی اسی طرح، اس خطے کے بنیاد پرست حکام بھی انہیں کے ساتھ تھے۔  اسلامی انقلاب کے خلاف ایک محاذ بن گیا تھا۔  اب دیکھئے کہ اس دشمنی کی وجہ کیا تھی؟ یہ وہ نکتہ ہے جس کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اس دشمنی کی وجہ صرف یہ تھی کہ اسلامی نظام نے استعماری نظام کے اصولوں کو مسترد کر دیا تھا۔ دنیا پر استعماری نظام کی حکمرانی تھی۔ استعماری نظام کا مطلب کیا ہے؟ یعنی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو جائے! دوسروں پر اپنا تسلط جمانے والوں اور اس تسلط کا شکار بننے والوں کے درمیان۔  تسلط جمانے والا اپنا تسلط باقی رکھے اور تسلط قبول کرنے والے  سر تسلیم جھکائے رہیں۔ ان کی سیاست، ثقافت اور معیشت سب استعماری طاقت کے اختیار میں ہو۔

دنیا کے ممالک تسلط جمانے والوں اور تسلط قبول کرنے والوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔  یہ ایک ایسا عالمی سسٹم تھا جو مان لیا گیا تھا اور محکم ہو گیا تھا۔ دنیا کو تقسیم کر دیا گیا تھا۔ دنیا کا ایک حصہ امریکا کے ہاتھ میں تھا اور ایک حصہ سوویت یونین کے ہاتھ میں تھا اور ایک حصہ دوسرے نمبر کی طاقتوں کے اختیارمیں تھا جو انہیں دو بڑی طاقتوں کی پیروی کرتی تھیں۔ دنیا کی یہ حالت تھی۔  اسلامی جمہوریہ، اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب نے اس استعماری نظام کو مسترد کر دیا۔  یہ سامراج کی رگ حیات تھی۔  استعماری ںظام کے ضوابط سامراج کی رگ حیات کی حیثیت رکھتے تھے۔ سامراج اسی پر قائم تھا۔  اسلامی جمہوریہ نے اس کو مسترد کر دیا۔ اسلامی نظام نے اس کو مسترد کر دیا اور وہ بھی اس کے مقابلے پر اٹھ کھڑے ہوئے۔  البتہ انھوں نے اس کے لئے ہمیشہ ایک بہانہ تراشا ہے۔ کبھی انسانی حقوق کا مسئلہ تو کبھی دینی نظام حکومت کی تصویر مسخ کرنا تو کبھی ایٹمی مسئلہ، کبھی میزائلی طاقت کا مسئلہ اور کبھی علاقے میں ایران کی موجودگی کا مسئلہ، یہ سب بہانہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ اسلامی نظام عالمی استعماری نظام کا حصہ بننے پر تیار نہیں ہے۔  تسلط جمانے اور تسلط قبول کرنے کے نظام میں ان کا ساتھ دینے کو تیار نہيں ہے۔ اسلامی نظام  ظلم کا مخالف ہے، تسلط کا مخالف ہے۔

دشمن کے مقابلے کے طریقے:

1:  قومی تشخص کو فکری سرمائے کی حیثیت سے مستحکم بنانا

اس دشمنی اور اس محاذ کے مقابلے میں ہماری عزیز اور ثابت قدم قوم کو اپنے تشخص، اپنی شخصیت، تشخص اور تشخص کے بنیادی عناصر کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی اندرونی توانائی کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔  یہ حتمی ضرورت ہے۔ جو چیز کسی قوم اور تحریک کو تشخص اور توانائی عطا کرتی ہے وہ کیا ہے؟ سب سے پہلے ایک محکم فکری بنیادی ڈھانچہ ضروری ہے۔  بہت سے ملکوں میں انقلابات آئے۔  نظام تسلط، سامراج، ظلم اور استبداد کے خلاف تحریک وجود میں آئي، لیکن پھر تھوڑی ہی مدت کے بعد بعض پانچ سال میں اور بعض دس سال میں، اس راستے سے بالکل پلٹ گئيں، اپنے اسلاف کے ہی راستے پر چل پڑیں اور انہیں کی طرح ہو گئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس محکم فکری بنیاد نہیں تھی۔ 

یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات اغیار کی جانب سے آئیڈیالوجی ختم کئے جانے کی بات کی جاتی ہے اور افسوس کہ ملک کے اندر بھی بعض لوگ ان کی تقلید کرنے لگتے ہیں، اس کے نشانے پر یہی بنیادی فکری ڈھانچہ ہے۔  یہ فکری بنیاد، تسلط پسندوں کی اصلی دشمن ہے۔ یہ اسلامی فکری بنیاد ہے۔  یہ بنیادی فکری ڈھانچہ اسلام سے لیا گيا ہے۔  امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے فرمودات میں اس بنیادی فکری ڈھانچے کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔  امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے ارشادات پر مشتمل متعدد جریدوں کا مطالعہ کریں تو وہاں یہ فکری اسلامی بنیاد، یہ عقیدتی بنیاد وضاحت کے ساتھ بیان کی گئي ہے۔  اس موضوع پر حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ)  کے تفصیلی خطابات، بہت غنی ذخیرہ ہیں۔ اس کے بعد مفکرین انقلاب کے گرانقدر دورس  ہمارے پاس موجود ہیں۔ شہید مطہری، شہید بہشتی اور دیگر دانشوروں نے، اس زمانے کے مفکرین نے، سب نے قرآن اور اسلامی متون سے یہ فکری بنیاد حاصل کی ہے۔  اس پر ریسرچ اور تحقیق کی ہے۔ البتہ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں اسلامی نظام کی فکری بنیاد پر ریسرچ اور تحقیق کا یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔ اس فکری بنیاد کو دن بدن نئے جلوؤں اور انداز کے ساتھ بیان کریں اور اس کی شان بڑھائيں۔ نئے مسائل سامنے آتے ہیں، ان کے جواب کی ضرورت ہوتی ہے۔  تحقیق اور جستجو کرنے والوں اور نوجوانوں کو نئے مسائل  کے جواب پیش کریں۔ 

2:  مقام عمل میں دشمن کی مدد نہ کرنا، ہرگز ہراساں نہ ہونا اور نہ تھکنا

یہ چند باتیں فکری بنیاد کے بارے میں تھیں جو بہت ضروری ہیں لیکن مقام عمل ميں کچھ اور باتیں بھی ضروری ہیں۔  یعنی صرف یہ فکری بنیاد ہی کافی نہیں ہے۔  مقام عمل میں کیا ضروری ہے؟ نہ ڈرنا، تھک کے بیٹھ نہ جانا، مایوس نہ ہونا، کاہلی نہ کرنا، نادانستہ طور پر دشمن کے سازشی منصوبے پرعمل نہ کرنا اور اس کی مدد نہ کرنا۔ عمل میں یہ باتیں ضروری ہیں۔ اس کے ساتھ ہی موقع پڑنے پر بر وقت فداکاری کے لئے تیار رہنا۔ یہ جو میں کہتا ہوں کہ موقع پڑنے پر بر وقت، اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض مواقع ایسے آتے ہیں کہ قربانی دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔  جان ہتھیلی پر لے کے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔

    نہد جان در یکی تیر و رھاند                            زننگ تیرہ روزی کشوری را    (6)

 یعنی جان پر کھیل کے ملک کو تیرہ بختی سے نجات دلائے۔  جیسے شہید سلیمانی جان ہتھیلی پر لے کے مختلف میدانوں میں اترے، دیگر شہدائے عزیز بھی اسی طرح۔ جیسے یہی آپ کے شہید باکری  جو اس بہت اہم، دشوار اور پیچیدہ آپریشن میں گئے تھے اور دریائے دجلہ کے دوسری طرف سے، شہادت سے قبل اس طرف اپنے دوستوں کو آواز دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہاں آؤ اور دیکھو کہ یہاں کیا عالم ہے؟! میں نہیں جانتا کہ وہ کیا دیکھ رہے تھے اور عالم غیب، عالم معنی اور ملکوت عالم وجود سے کون سی چیز ان کے سامنے ظاہر ہوئي تھی کہ وہ شہید کاظمی اور دوسروں کو اسے دیکھنے کی دعوت دے رہے تھے۔  شہید کاظمی وغیرہ کہتے تھے کہ وہ کہہ رہے تھے کہ اس طرف آؤ اور دیکھو کہ یہاں کیا ہے۔  یہ وہ لوگ ہیں جو جان ہتھیلی پر لے کے آگے بڑھے اور فداکاری کی۔  فداکاری اپنے موقع پر ضروری ہے۔  لیکن جو چیز ہمیشہ ضروری ہے، وہی باتیں ہیں جو میں نے عرض کیں۔  تھک کے بیٹھ نہ جائيں،  ناامید مت ہوں،  دشمن کی مدد  نہ کریں،  کاہلی نہ کریں اور بیکاری اور بے عملی کو اپنی زندگی سے دور کریں۔

انقلاب کی تحریک میں امام خمینی اور عوام کا میدان میں اترنا، قربانی پیش کرنا اور تھکاوٹ کو قریب نہ آنے دینا

ایرانی عوام میں خوش قسمتی سے یہ خصوصیات موجود ہیں۔  واقعی ایرانی عوام تھک کے بیٹھے نہیں ہیں۔  اس کی مثالیں آپ نے دیکھی ہیں۔  شہید سلیمانی کے جنازے میں عجیب و غریب عظمت کے ساتھ عوام کی شرکت اور اس کے بعد اس سال اسلامی انقلاب کی سالگرہ  یوم آزادی پر، کورونا کے ان حالات میں، نئے انداز میں کس طرح میدان میں آئے  اور جوش و جذبے کے ساتھ آئے۔ یہ گوارا نہیں کیا کہ یوم آزادی نہ منایا جائے۔  دوسرے گوناگوں  قضیوں میں بھی، تبریز کے عوام کے فروری 1978 کے قیام میں بھی یہ خصوصیات دیکھی گئيں۔  یعنی یہی نہ ڈرنا، تھک کے بیٹھ نہ جانا، ناامید نہ ہونا، میدان میں آنا اور فداکاری کرنا وغیرہ دیکھا گیا۔ 

بائيس بہمن یوم آزادی پر بھی اسی طرح۔  گیارہ فروری (انیس سو اناسی) کے قریب تہران اور دوسرے بہت سے شہروں میں یہی صورتحال تھی۔ اس وقت بھی عوام۔ سب سے پہلے تو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ)  خود تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) خود لوگوں کے آگے آگے چلے۔ اگر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) شجاع نہ ہوتے، اگر امام ڈر جاتے، اگر امام ناامید ہو جاتے، اگر امام تھک کے بیٹھ  جاتے، اگر امام سستی اور کاہلی دکھاتے تو یہ واقعہ اتنی عظمت کے ساتھ رونما نہ ہوتا۔ امام تحریک کے آخری ایام میں جو انقلاب کی کامیابی پر منتج ہوئے، ایک ایک لمحے اور حوادث پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے تھے۔  متن مجاہدت اور تحریک میں موجود تھے۔  یہاں تک کہ آپ نے کرفیو کی مخالفت کرکے لوگوں کو سڑکوں پر اتار دیا اور پھر قصہ ختم ہو گیا۔ عوام نے بھی شجاعت سے کام لیا۔ خوفزدہ نہیں ہوئے، میدان میں آ گئے اور موجود رہے۔ 

ملکی مشکلات کے حل کے لئے اپنی راہ پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہنا ضروری

حقیقی معنی میں جب بھی یہ مجاہدت ہوگی ہدایت بھی شامل حال ہوگی، ہدایت الہی بھی وہاں ہوگی۔ یعنی جب یہ مجاہدت ہوگی اور فداکاری ہوگی تو خداوند عالم تنہا نہیں چھوڑے گا۔  والذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا.(7) جب بندگان خدا کی مجاہدت ظاہر ہوتی ہے تو خداوند عالم بھی اپنی ہدایت ان کے شامل حال کر دیتا ہے۔

ہدایت الہی  کے علاوہ پیشرفت اور کامیابی بھی ملے گی۔  اس نے فرمایا ہے «وَأَن لَوِ استَقاموا عَلَى الطَّريقَةِ لَأَسقَيناهُم ماءً غَدَقًا» ماء غدقا یعنی آب فراوان سے سیراب کر دینا،  آب زلال سے۔  مفسرین کہتے ہیں کہ یہ سبھی مشکلات زندگی کے حل کی طرف اشارہ ہے۔  اگر اس راستے پر باقی رہیں، استقامت دکھائيں اور صحیح طور پر آگے بڑھیں، استقامت کا مطلب یہ ہے کہ راستے سے منحرف نہ ہو، بلکہ اسی راستے پر سیدھا چلتا رہے تو مشکلات زندگی بھی حل ہو جائيں گی۔  یقینا مشکلات دور ہو جائيں گی۔  کمزوریاں ختم ہو جائيں گی۔ ہمیں اس نکتے پر توجہ رکھنی چاہئے۔  ایرانی عوام نے آج تک جو راستہ طے کیا ہے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔  ہمیں اس اہمیت سے واقف ہونا چاہئے۔

 

ایران کے لئے اسلامی انقلاب کے ثمرات

 انقلاب کی برکات اور اس کے نتائچ بہت عظیم اور حیرت انگیز ہیں۔  البتہ افسوس کہ ہم نے ان ثمرات کو بیان کرنے میں کوتاہی کی۔ بعض اوقات تقریروں اور ٹیلویژن پر تقاریر میں کچھ چیزیں بیان کی گئيں لیکن یہ برکات اس سے بہت زیادہ ہیں۔  ہمیں انقلاب کے نتائج اور برکات کو بیان کرنا چاہئے۔ حق یہ ہے کہ سماجی زندگی کے اہم ترین شعبوں میں انقلاب کی برکات غیر معمولی اور عظیم ہیں۔ میں ان میں سے دو تین کا ذکر کروں گا۔

علم و سائنس کے میدان میں ملک کی پیشرفت

ایک یہ ہے کہ انقلاب نے ملک کی شبیہ کو ایران کی شبیہ کو علمی لحاظ سے ایک پسماندہ ملک کی شبیہ سے، ایران علمی لحاظ سے دنیا کے ملکوں کی آخری صف میں ہوتا تھا، علمی لحاظ سے پسماندہ تھا، سیاسی لحاظ سے بڑی طاقتوں کا طفیلی تھا، اقتصادی لحاظ سے بڑی طاقتوں کا محتاج اور ان کے اختیار میں تھا، یعنی ہمارے ملک کی معیشت اور اقتصاد بڑی طاقتوں جیسے ایک زمانے میں امریکا اور ایک زمانے میں برطانیہ کے اختیار میں تھا، انقلاب نے ایران کی یہ شبیہ بدل دی۔  اس کو ایک آزاد، خود مختار، صاحب عزت، اس دور کے حیاتی اہمیت کے علمی و سائنسی شعبوں میں عظیم پیشرفت اور کامیابیوں کے مالک ملک میں تبدیل کر دیا۔ آج ایران اہم شعبوں میں دنیا کے پانچ اہم ملکوں میں، چھے ملکوں یا زیادہ سے زیادہ دس ملکوں میں شامل ہے۔  یہ بہت ہی اہم شعبے ہیں۔  ملک نے ان شعبوں میں پیشرفت کی ہے۔  آج یہ ملک خود مختار، آزاد اور صاحب عزت ہے۔  یہ ان اہم ترین کاموں میں سے ایک ہے جو انقلاب نے انجام دیا ہے۔

 ملت ایران ایک متحرک، پرجوش اور سربلند قوم بن گئی

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ انقلاب نے ایرانی قوم کو خواب غفلت سے بیدار کیا۔ اس کو دوسروں کی فرمانبرداری اور بے ہدفی کی حالت سے باہر نکالا اور فعال، ولولہ انگیز، سربلند اور صاحب عزت قوم ميں تبدیل کر دیا۔  انقلاب سے پہلے یہ بات نہیں تھی۔ لوگ سرجھکائے اپنی زندگی میں مشغول تھے، بس اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔  ان کے سامنے کوئی اعلی ہدف نہیں تھا اور نہ ہی ایسی وسعت نظر تھی جو عالمی مسائل پر محیط ہوتی۔  ممکن ہے کہ تھوڑے سے مخصوص لوگوں میں یہ بات رہی ہو۔  لیکن مجموعی طور پر ملک میں یہ بات نہيں تھی۔  آج یہ قوم شاداب و سربلند ہے اور کتنے فعال اور جوش و ولولے سے سرشار نوجوان ہیں۔  میں نے  ایک تقریر میں (8) عرض کیا تھا کہ آج ملک میں ایسے ہزاروں نوجوان موجود ہیں جو علمی اور سائنسی میدان میں اتھارٹی ہیں۔  ہزاروں ہیں۔  نو جوانوں کی  گوناگوں ایسوسی ایشن اور انجمنیں  ہیں جو سائنسی کاموں میں مشغول ہیں۔  تکنیکی کاموں میں سرگرم ہیں۔  سماجی امور میں فعال ہیں۔  اس کا نمونہ وہی ہے جو محترم امام جمعہ نے میدان میں نوجوانوں کی موجودگی کے سلسلے میں  بیان کیا ہے۔  کورونا وائرس کی وبا  کے معاملے میں، مومنانہ امداد کے کاموں میں اور ضرورت مندوں تک امداد پہنچانے کے امور میں نوجوانوں کی فعالیت کا ذکر کیا۔  آج نوجوان میدان میں آتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔  ماضی میں ایسا نہیں تھا۔  قوم بدل گئي ہے۔  اس انقلاب نے قوم کو نیند کی کیفیت سے باہر نکال کے شادابی اور ولولہ انگیزی کی حالت میں پہنچا دیا ہے۔  یہ دوسرا نکتہ ہے۔

2:  ملکی انتظامی سسٹم کو استبدادی حکومت سے بدل کر عوامی حکومت کی شکل دی

تیسرا نکتہ بہت اہم ہے۔   اسلامی انقلاب نے ایک استبدادی، سلطنتی اور آمرانہ حکومت کو ایک عوامی حکومت، جمہوری اور عوام کی حکمرانی میں تبدیل کر دیا۔  آج ایرانی عوام پر خود عوام کی ہی حکومت ہے۔  عوام انتخاب کرتے ہیں۔  یہ بہت اہم ہے۔  اس دور میں یہ حق نہیں تھا۔ ملک استبدادی تھا۔  ہر چیز انہیں کے اختیار میں تھی۔ 

امریکا کی ایک معروف شخصیت، جس کی محمد رضا (شاہ) سے دوستی تھی، وہ کہتا ہے کہ میں ایران گیا اور محمد رضا سے کہا کہ فلاں وزیر اعظم نا اہل ہے۔  اس نے کہا تم اس سے سروکار نہ رکھو میں خود سارے کام انجام دیتا ہوں۔  حقیقت میں بھی یہی تھا۔  سارے امور ایک فرد واحد کے اختیار میں تھے۔  وہی فیصلہ کرتا تھا۔  عوام تو بالکل ایسے تھے کہ ان سے کسی کام کا کوئی تعلق نہیں تھا۔  عوام تو اپنی جگہ، جو لوگ حکومت میں تھے وہ بھی کچھ نہیں تھے۔  کچھ نہیں کر سکتے تھے۔

3: ملک میں تعمیراتی کام

ملک کی تعمیر میں انقلاب کی برکات کا پہلو؛ جب کچھ لوگ دوسری بات کرتے ہیں تو مجھے تعجب ہوتا ہے کہ یہ کام انہیں نظر کیوں نہیں آتے۔  بنیادی تنصیبات کی تعمیر کے تعلق سے عوام کی اتنی وسیع خدمت، ملک میں اتنا زیادہ بنیادی انفراسٹرکچر تعمیر کیا جا چکا ہے۔  سڑکیں، ڈیم، پانی کی سپلائی کا نظام، بجلی کی سپلائي کا سسٹم، گیس کی سپلائي،  زرعی صنعت کی از سر نو تعمیر، یونیورسٹیوں کی حیرت انگیز توسیع۔   ہر چھوٹے شہر میں ایک یونیورسٹی موجود ہے۔  اتنی یونیورسٹیاں اور اتنے طلبا!  اس دور میں ڈیڑھ لاکھ یونیورسٹی طلبا تھے۔  آج یونیورسٹی طلبا  کی تعداد بڑھ کے ایک کروڑ، ڈیڑھ کروڑ ہو گئي ہے۔  آج یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبا اور فارغ التحصیل ہونے والوں کی تعداد تیس گنا اور چالیس گنا زیادہ ہے۔  گوناگوں یونیورسٹیاں قائم ہوئيں۔ یہ بنیادی کام ہیں۔ بہت اہم ہیں۔ کوئی معمولی حکومت جو انقلابی نہ ہو یہ کام نہیں کر سکتی۔ 

4:  ملک کی دفاعی و عسکری قوت میں اضافہ

اس کے علاوہ ملک کی فوجی اور دفاعی قوت میں اضافہ:  یہ وہی ملک ہے جو دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ اور دوسروں کے تھوڑے سے فوجیوں کے مقابلے میں چند گھنٹے بھی نہ ٹک سکا لیکن آٹھ سال تک  ساری عالمی طاقتوں، امریکا، سوویت یونین، فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دوسروں نے اور علاقے کی بنیاد پرست حکومتوں نے اپنی دولت کے ذریعے ایران سے جنگ کی۔  یعنی یہ حقیقی معنی میں ایک بین الاقوامی جنگ تھی لیکن آٹھ سال تک جنگ کرنے کے بعد بھی وہ کچھ نہ کر سکے۔  ہمارے فوجیوں، دفاعی قوتوں اور عوامی رضا کار سپاہیوں نے انہیں سرحدوں کے پیچھے دھکیل دیا۔  یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔   یہ  انقلاب کے ابتدائی برسوں کی بات ہے۔  انقلاب کے پہلے عشرے  میں یہ عظیم کارنامہ انجام پایا۔  آج تو الحمد للہ ہماری فوجی قوت، بہت  زیادہ یعنی اس دور سے دس گنا کہنا بھی صحیح نہیں ہے بلکہ دسیوں گنا بڑھ چکی ہے۔  آج ہمارا ملک الحمد للہ، دفاعی لحاط سے علاقے کی ایک بڑی طاقت اور بین الاقوامی تناظر میں ایک توانا دفاعی قوت ہے۔

یہ جو ہر روز امریکی اور یورپی حکومتوں کی سازشیں ہیں۔  یورپی ممالک جو سازشیں کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ ملک تو رک ہی نہیں رہا ہے۔ انقلاب رک نہیں رہا ہے۔  انقلاب آگے ہی بڑھتا جارہا ہے اس وجہ سے وہ ہر روز ایک نئی سازش کرتے ہیں۔  لیکن ان شاء اللہ ایرانی عوام کی طاقت، ملک کے حکام اور ذمہ دار سپاہیوں کی قوت و توانائي ان سازشوں کو ناکام بنائے گی۔

بعض شعبوں میں خاطر خواہ پیشرفت نہ ہونے کا اعتراف، کمیوں کو دور کرنے کے لئے انقلابی طرز عمل کی ضرورت

یہ انقلاب کی برکات ہیں۔  یہ معمولی نہیں ہیں۔  ہمیں ان ثمرات کو جاننا اور سمجھنا چاہئے۔  البتہ ہم نے کبھی بھی اس بات کو چھپایا نہيں ہے اور آئندہ بھی نہیں چھپائيں گے کہ بعض شعبوں میں ہم پیچھے ہیں۔  یہ پسماندگیاں کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہیں۔  اس کے لئے قصور وار خود ہم ہیں۔ ہم حکام قصور وار ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض معاملات میں عوام کی مداخلت بھی ہو۔ ان پسماندگیوں کو دور ہونا چاہئے۔ اس کی وجہ ہمارا انقلابی انداز میں عمل نہ کرنا ہے۔  جس جگہ ہم نے انقلابی انداز میں کام کیا وہاں ہم پیچھے نہیں ہیں اور جس جگہ انقلابی انداز میں عمل کرنے میں کوتاہی ہوئی، غیر انقلابی کام کیا، سستی، کاہلی اور بے توجہی ہوئی وہاں پسماندگی کا سامنا ہوا۔  پہلے مرحلے میں غریب طبقات کی معیشت کا مسئلہ ہے۔  اس میدان میں ہم پیچھے ہیں۔  طبقاتی فاصلہ اور خلیج پائی جاتی ہے۔  البتہ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ اسی میدان میں جہاں ہمیں پسماندگی کا سامنا ہے، انقلاب سے پہلے کے دور کے مقابلے میں ہم بہت آگے ہیں۔  کوئي یہ نہ سمجھے کہ انقلاب سے پہلے آج جیسی حالت تھی۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔  اس زمانے میں، میں  میدان عمل میں تھا۔  مشہد میں اور دوسری جگہوں پر جہاں میں رہا ہوں، مختلف طبقات، غریب طبقات  کی حالت سے ناواقف نہیں تھا۔ اس وقت حالت بہت مختلف تھی۔ آج سے بہت بری حالت تھی۔ آج اس پہلو سے بھی ہم نے پیشرفت کی ہے لیکن موجودہ سطح انقلاب کی شان کے مطابق نہیں ہے۔  آج جو صورتحال ہے، ہمیں اس سے بہت زیادہ کام کرنا چاہئے تھا۔  طبقاتی خلیج ختم ہونی چاہئے۔  انصاف، اقتصادی اور معیشتی انصاف حقیقی معنی میں ملک میں قائم ہونا چاہئے۔  یہ ہمارا فریضہ ہے۔  یہ ہمارا کام ہے جو ہمیں انجام دینا ہے۔ 

انقلاب سے پہلے ملک کی آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی۔  آج ساڑھے آٹھ کروڑ ہے۔  اس زمانے میں تیل کی آمدنی سے آج سے کئی گنا زیادہ استفادہ کرتے تھے۔  تیل بیچتے تھے اور اس کی آمدنی استعمال کرتے تھے۔ آج پابندیوں کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔  اس کے علاوہ تیل کی اتنی فروخت (جتنی انقلاب سے پہلے تھی) کبھی نہیں رہی۔ انقلاب سے پہلے جو مشہور تھا اس کے مطابق  ساٹھ لاکھ بیرل تیل بیچتے تھے۔ اس کے باوجود الحمد للہ کام بھی ہوئے ہیں لیکن وہ کام بہت کم ہیں۔

ناکامیوں کے بیان میں مبالغہ آرائی، عوام کو مایوسی میں مبتلا کرنے کا حربہ

 دشمن، اس بات پر توجہ دیں کہ دشمن ہماری ناکامیوں کا پروپیگنڈہ کرتا ہے۔  نفسیاتی جنگ چھیڑتا ہے اور انہیں ناکامیوں پر زور دیتا ہے۔  ناکامیاں جتنی ہیں ان سے کئی گنا بڑھاکے بیان کرتا ہے اور ہماری کامیابیوں اور  استحکام کا کبھی ذکر نہیں کرتا۔  ان کی طرف اشارہ بھی نہیں کرتا۔  دانستہ ہماری پیشرفتوں کو چھپاتا ہے۔  اس طرح وہ ہمارے نوجوانوں میں مایوسی پھیلانا چاہتا ہے۔  اس طرح وہ ہمارے عوام کے اندر بدگمانیاں پیدا کرنا چاہتا ہے۔  اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔  اس کے علاوہ دروغ بیانی میں بھی اس کو کوئی عار نہیں ہے۔  ناکامیوں کو بڑھا چڑھا کے بیان کرتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے۔  دروغ بیانی بھی کرتا ہے اور ملک کے اندر بھی بعض لوگ غفلت میں، نادانستگی میں اس کی باتوں کی تکرار کرتے ہیں،  ممکن ہے کہ بعض عناصر دانستہ یہ کرتے ہوں لیکن زیادہ تر لوگ غفلت اور نادانستگی میں اس کی باتوں کی تکرار کرتے ہیں اور انہیں پھیلاتے ہیں۔  ہمارے اندر یہ کمیاں ہیں۔  انہیں دور ہونا چاہئے۔

بد انتظامی اور بدعنوانی پر عوام کی توجہ اور رد عمل کی ضرورت

آج ہمارے عوام ان مشکلات کے تعلق سے،  اوائل انقلاب کے مقابلے میں زیادہ حساس ہو گئے ہیں۔  آج لوگ بدعنوانی کے تعلق سے حساس ہیں۔  طبقاتی خلیج کے بارے میں اوائل انقلاب سے زیادہ بیدار ہیں۔  یہ بری بات نہیں ہے۔  یہ بہت اچھی بات ہے۔  اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے عوام انقلابی امنگوں سے آگاہ ہيں اور ان کی تکمیل چاہتے ہیں۔  اس لئے اعتراض کرتے ہیں۔  بدعنوانی پر اعتراض کرتے ہیں۔  جہاں بدعنوانی کے خلاف کام ہوتا ہے عوام اس میں دلچسپی لیتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔  جوش و ولولے کا اظہار کرتے ہیں۔ جہاں کمزور لوگوں کی مدد میں کوئي کام ہو انصاف قائم کرنے کا اقدام ہو، وہاں عوام اس کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔  اس سے عوام کے رجحان کا پتہ چلتا ہے۔ اس کی تقویت ہونی چاہئے۔

کمیوں اور خامیوں کو کامیابیوں اور ثمرات کی مدد سے رفع کیا جائے

ہمارا فرض ہے کہ اپنی کامیابیوں سے ناکامیوں اور کمزوریوں کو دور کریں۔  دیکھئے یہ بہت اہم نکتہ ہے۔  ہم نے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔  ہماری انہیں کامیابیوں میں، ایجادات کی صلاحیتوں کے مالک اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ رکھنے والے نوجوانوں اور کارآمد افرادی قوت کا سرمایہ موجود ہے۔  یہ ہماری کامیابیوں کا حصہ ہے۔  ہمیں ان کامیابیوں کی مدد سے ناکامیوں کی تلافی کرنا چاہئے۔  دشمن اس کے برعکس بات کرتا ہے۔  دشمن ہماری ناکامیوں کو سامنے لاتا ہے اور کہتا ہے تمھاری نگاہیں ان ناکامیوں پر رہیں اور کامیابیوں کو بھول جاؤ۔  انقلاب کے راستے کو چھوڑ دو۔  یہ  دشمن کی بات ہے۔  ہم اس کے برعکس کہتے ہیں کہ کامیابیوں کی مدد سے ناکامیوں اور کمزوریوں کو دور کریں۔  اپنی بے شمار کامیابیوں کو دیکھیں اور کمزوریوں کو دور کرنے  میں ان سے مدد لیں اور ان شاء اللہ ان سے فائدہ اٹھائيں۔  خوش قسمتی سے عوام کے اندر انقلابی جوش و ولولہ زندہ ہے۔  جیسا کہ میں نے عرض کیا۔  شہید سلیمانی کے جنازے میں عوام  کی عجیب وغریب اور بے نظیر شرکت۔  واقعی بے نظیر تھی۔  ہمارے ملک کی تاریخ میں، پورے ملک میں  یہ تشییع جنازہ بے نظیر ہے۔  کروڑوں لوگ اس طرح جنازے میں شرکت کریں، ہم نے نہیں دیکھا تھا۔  یہ شرکت بے نظیر تھی۔  اس کے بعد کے واقعات میں، اس سال کے یوم آزادی پر بھی عوام نے انقلابی جوش و ولولے کا ثبوت دیا۔  بنابریں ماضی کے تجرکات سے مستقبل کی تعمیر اور اپنی تقدیر سنوارنے کے لئے مدد لیں۔۔۔

ملک کے دیرینہ مسائل کا حل انتخابات میں بھرپور شرکت اور بہترین امیدوار کا انتخاب

 چند جملے انتخابات کے بارے میں عرض کروں گا۔  ہمارے ملک میں انتخابات کا موقع بہت بڑا موقع ہوتا ہے۔  اس موقع کو ہاتھ سے  نہیں جانے دینا چاہئے۔  اسلامی جمہوریہ کے مخالفین نہیں چاہتے کہ اسلامی جمہوریہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے۔  یہ عوام کے لئے بہت بڑا موقع ہے۔  ملک کی پیشرفت کے لئے ایک موقع ہے۔  ان انتخابات کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ عوام کے انقلابی جوش و جذبے کی نشاندہی کرتا ہے۔  جب عوام انتخابات میں شرکت کرتے ہیں  اور انقلابی جوش و ولولے کا اظہار کرتے ہیں تو اس سے ملک کی سلامتی محکم ہوتی ہے۔  انتخابات کا عوام جتنا زیادہ خیر مقدم کریں گے ، ان کا جوش و ولولہ جتنا زیادہ ہوگا،   ملک کواور  خود عوام کو اس کا اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔  ہم نے عرض کیا کہ دشمن یہ نہیں چاہتا۔  اس لئے جب بھی انتخابات ہوتے ہیں، ہر دور کے انتخابات میں، ان برسوں میں ملک میں تقریبا چالیس انتخابات ہوئے ہیں، جب بھی انتخابات کا وقت نزدیک آتا ہے تو دشمن شروع ہوجاتے ہیں، کبھی کہتے ہیں آزادی نہیںں ہے، کبھی کہتے ہیں فلاں کی مداخلت ہے، کبھی کہتے ہیں انتخابات انجینیرڈ ہیں۔  کبھی  کہتے ہیں، ایسا ہے۔  ان سب باتوں کا مقصد   انتخابات میں حصہ لینے کا  عوام کا جوش و ولولہ کم کرنا ہے۔  یہ دشمن کا کام ہے۔  لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتخابات ملک کے لئے باعث افتخار ہیں۔  موقع ہیں۔  ایک ذخیرہ ہیں۔  اگر ان ميں عوام کی شرکت پرجوش ہو تو اس سے ملک کے مستقبل میں مدد ملتی ہے  اور اگر عوام کی یہ پرجوش شرکت، ان کے صحیح انتخاب کے ہمراہ ہو اور عوام کے ذریعے ایسے فرد کا انتخاب ہو جو کارآمد ہو، با ایمان ہو، کام کرنے والا ہو تو نور علی نور ہے ملک کے مستقبل کی ضمانت ہوجائے گی۔  یہ میں آّپ سے عرض کررہا ہوں، البتہ انتخابات کے بارے میں آئںدہ مہینوں میں وقت ہے اگر میں زندہ رہا، دیگر مواقع پر زیادہ باتیں عرض کروں گا۔  آج میں یہی چند جملے عرض کرنا چاہتا تھا۔  ملک کے سخت مسائل کا علاج جوش و خروش سے مملو انتخابات  اور ان میں عوام کی بھر پور ولولہ انگیز شرکت میں  اور صدارتی انتخابات میں زیادہ باصلاحیت اور زیادہ مناسب فرد کے انتخاب میں ہے۔ 

آخر ی بات  ایٹمی معاہدے کے بارے میں ہے۔  ایٹمی معاہدے کے بارے میں بول چکا ہوں۔  حال ہی میں گفتگو کی ہے  اور کافی تفصیلی سے گفتگو کرچکا ہوں۔   ایٹمی معاہدے کے تعلق سے اسلامی جمہوری نظام کی پالیسی بیان کرچکا ہوں۔  باتیں کی جاتی ہیں، وعدے کئے جاتے ہیں، آج میں صرف یہی ایک جملہ عرض کرنا اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے ایسی باتیں اور وعدے بہت سنے  ہیں کہ عمل  میں جن کی  خلاف ورزی کی گئی اور ان کے برعکس عمل کیا گیا۔  باتیں بے فائدہ ہیں۔  وعدوں کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔  اس بار صرف عمل! فریق مقابل کی طرف سے عمل دیکھیں گے تو ہم بھی عمل کریں گے۔  باتوں اور وعدوں سے اور اس بات سے کہ ہم یہ کریں گے، ہم یہ کام کریں گے، اس بار اسلامی جمہوریہ ایران قانع نہیں ہوگا۔  اب ماضی کی طرح نہیں ہوگا۔ 

پالنے والے! محمد وآل محمد کا واسطہ، اپنی برکات اور اپنے لطف وکرم کو تبریز کے عوام  اور آذربائیجان، مشرقی آذربائیجان، مغربی آذربائیجان اردبیل اور پورے ایران    کے عوام کے شامل حال فرما۔

پالنے والے! محمد و آل محمد کا واسطہ، ہمارے عظیم امام کی، جنھوں نے ہمارے لئے یہ راستہ کھولا، روح مطہر کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔

 

پالنے والے! حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کو  ہم سے راضی فرما اور آپ کی دعاؤں کو ہمارے شامل حال فرما۔ 

 

و السلام علیکم ورحمت اللہ برکاتہ

1)  اس ملاقات کے آغاز میں جو ویڈیو لنک کے ذریعے منعقد ہوئی صوبہ مشرقی آذربائیجان میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور شہر تبریز کے امام جمعہ حجت الاسلام و المسلمین سید محمد علی آل ہاشم نے تقریر کی۔

2) میرزا حسن آشتیانی

3) میرزا علی ثقة الاسلام تبریزی

4) شهید آیت‌ الله سیّد محمد علی قاضی‌ طباطبائی     

5) صحیفه‌ امام، جلد ۳، صفحہ ۳۵۳؛ اہل آذربائیجان کے نام پیغام مورخہ 27 فروری 1978

6) مہرداد اوستا (قدرے تفاوت کے ساتھ)

7) سوره‌ عنکبوت، آیت نمبر ۶۹ کا ایک حصہ «جو لوگ ہماری راہ میں کوشاں رہے ہم انھیں اپنے راستوں سے روشناس کراتے ہیں۔...»

8) سوره‌‌ جن، آیت ۱۶؛ «اگر (لوگ) راہ حق پر ثابت قدم رہیں تو یقینا ہم انھیں آب گوارا سے سیراب کریں گے۔

9) الیٹ نوجوانوں سے خطاب مورخہ 18 اکتوبر 2017