آپ نے فرمایا کہ اگر ایران فریق مقابل کی جانب سے عمل کا مشاہدہ کرے گا، تو وہ بھی عمل کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایٹمی معاہدے کے بارے میں اسلامی جمہوری نظام کا بنیادی موقف ہم کئي بار بیان کر چکے ہیں اور آج میں صرف یہی ایک لفظ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے اچھی اچھی باتیں اور وعدے بہت سن لیے لیکن عملی طور پر ان کی خلاف ورزی کی گئي بلکہ ان کے برخلاف کام کیا گيا، باتوں کا کوئي فائدہ نہیں ہے، وعدوں کا کوئي فائدہ نہیں ہے، اس بار صرف عمل، عمل! اگر ہم فریق مقابل کی جانب سے عمل کا مشاہدہ کریں گے تبھی ہم بھی عمل کریں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اس طرح کی باتوں اور وعدوں سے کہ ہم یہ کام کر دیں گے، ہم وہ کام کر دیں، اس دفعہ اسلامی جمہوریہ ایران مطمئن نہیں ہوگا۔ اب پہلے کی طرح کام نہیں ہوگا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں فرمایا کہ اسلامی انقلاب کو اپنے آغاز سے ہی بڑی طاقتوں کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک محاذ وجود میں آ گیا، جن بڑی طاقتوں کا ہم ذکر کر رہے ہیں یعنی امریکا اور سوویت یونین، سیکڑوں مسائل میں ان کے درمیان آپسی اختلافات تھے لیکن اس معاملے میں یعنی اسلامی جمہوریہ، اسلامی انقلاب اور امام خمینی کی جانب سے پیش کیے گئے نظام سے مقابلے کے معاملے میں یہ دونوں بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ تھیں۔ دوسری طاقتیں اور یورپی طاقتیں بھی ان کے ساتھ تھیں، ان کے پٹھو بھی ساتھ دے رہے تھے یعنی خطے کی رجعت پرست حکومتیں اور دیگر حکومتیں، ان کے ساتھ تھیں۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ اس دشمنی کی وجہ صرف یہ تھی کہ اسلامی نظام نے، عالمی تسلط پسندانہ نظام کو مسترد کر دیا تھا۔ اس وقت دنیا پر جس کی حکمرانی تھی وہ تسلط پسندانہ نظام تھا۔ تسلط پسندانہ نظام کا مطلب کیا ہے؟ یعنی دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، ایک حصہ استعماری ممالک کا اور دوسرا حصہ ان ممالک کا جن پر تسلط قائم کیا جائے۔ تسلط پسند کو پوری طرح سے مسلط ہونا چاہیے، اس کی سیاست کو بھی، اس کی ثقافت کو بھی اور اس کی معیشت کو بھی۔ جس پر تسلط قائم کیا جا رہا ہے، اسے پوری طرح سے سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔ دنیا کے ممالک تسلط قائم کرنے والے اور تسلط برداشت کرنے والوں میں تقسیم ہو چکے تھے۔ یہ اصول دنیا میں رائج ہو چکا ہے، انھوں نے دنیا کو تقسیم کر دیا تھا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ دنیا کا ایک حصہ امریکا کے ہاتھ میں تھا، ایک حصہ اس وقت کے سوویت یونین کے ہاتھ میں تھا اور ایک حصہ ان دوسرے درجے کی طاقتوں کے ہاتھ میں تھا جو ان کی پٹھو تھیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق اس وقت دنیا کی یہ صورتحال تھی۔ اسلامی جمہوریہ، اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب نے اس نظام کو مسترد کر دیا۔ یہ سامراج کی شہ رگ تھی، تسلط پسندانہ نظام کے اصول، سامراج کی شہ رگ تھے، سامراج کا استحکام اسی سے تھا، اسلامی جمہوریہ نے اسے مسترد کر دیا۔ اسلامی نظام نے اسے مسترد کر دیا، جواب میں یہ اس کے مد مقابل کھڑے ہو گئے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی نظام، عالمی تسلط پسندانہ نظام کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہے اور تسلط قائم کرنے والا یا تسلط برداشت کرنے والا بن کر ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسلامی نظام ڈٹا ہوا ہے، وہ ظلم کے خلاف ہے، وہ تسلط پسندی کا مخالف ہے۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلام کی فکری بنیادوں کو تسلط پسندی کا اصلی دشمن قرار دیا اور کہا کہ اسلام سے حاصل کی گئي یہ فکری بنیاد امام خمینی کے بیانوں میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کی گئي ہے اور اسلامی نظام کی فکری طاقت کو روز بروز مزید مضبوط بنانا چاہیے۔

انھوں نے اسلامی انقلاب کے کارناموں کو اہم بتاتے ہوئے کہا کہ اسلامی انقلاب کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ملک کے چہرے کو، ایران کے چہرے کو علمی و سائنسی لحاظ سے ایک پسماندہ ملک کی حیثیت سے پوری طرح بدل دیا۔ انقلاب سے پہلے تک ایران، علمی و سائنسی لحاط سے دنیا کے سب سے پچھڑے ہوئے ملکوں میں شامل تھا، وہ علمی لحاظ سے پسماندہ تھا، سیاسی لحاظ سے پچھڑا ہوا تھا، بڑی طاقتوں کی پالیسیوں کا طفیلی تھا، معاشی لحاظ سے بڑی طاقتوں پر منحصر تھا اور ان کے اختیار میں تھا یعنی ہمارے ملک کی معیشت کبھی امریکا جیسے بڑے ملکوں کے ہاتھ میں تھی تو کبھی برطانیہ کے ہاتھ میں تھی۔ اسلامی انقلاب نے اس ملک کی تصویر کو ایک آزاد ملک، ایک خودمختار ملک اور ایک عزت دار ملک کی تصویر میں بدل دیا، ایک ایسے ملک میں بدل دیا جو آج کے اہم اور حیاتی شعبوں میں اہم سائنسی کارناموں کا حامل ہے۔ آج وہ اہم علمی و سائنسی میدانوں کے معاملے میں دنیا کے پانچ، چھے یا زیادہ سے زیادہ دس ملکوں میں شامل ہے۔ یہ میدان اور یہ شعبے بہت زیادہ اہم ہیں۔ ملک نے ان شعبوں میں پیشرفت کی ہے اور ساتھ ہی وہ ایک خودمختار، آزاد اور عزت دار ملک بھی بنا رہا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر میں کہا کہ اسلامی انقلاب نے ملک کے نظام کو ایک آمر، شاہی اور شخصی حکومت سے ایک عوامی، جمہوری اور ڈیموکریٹک حکومت میں بدل دیا۔ آج ایرانی قوم کا مستبقل خود ایرانی عوام کے ہاتھ میں ہے۔ یہ عوام ہیں جو انتخاب کرتے ہیں، ممکن ہے کہ برا انتخاب کریں لیکن انتخاب عوام ہی کرتے ہیں اور یہ بڑی اہم چیز ہے۔ اس وقت یہ حق موجود ہی نہیں تھا اور ملک ایک آمر ملک تھا، سب کچھ حاکم کے ہاتھ میں تھا۔

انھوں نے اسی طرح اسلامی انقلاب کے بعد ملک کی فوجی اور دفاعی فورسز کی تقویت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی ملک ہے جو دوسری جنگ عظیم میں تھوڑے سے برطانوی اور غیر برطانوی فوجیوں کے حملے میں چند گھنٹے بھی ٹک نہیں سکا۔ آٹھ سال تک دنیا کی بڑی طاقتوں یعنی امریکا، سوویت یونین، فرانس، برطانیہ، جرمنی اور ديگر ملکوں کی فورسز اور رجعت پرست طاقتوں کی بے تحاشا دولت کے ذریعے صدام کے نام پر ایران سے جنگ کی جاتی رہی یعنی صحیح معنی میں ایک بین الاقوامی جنگ ہوتی رہی لیکن اٹھ سال بعد بھی وہ ایران کا کچھ بگاڑ نہیں سکے اور ایران کی فوجی، دفاعی اور عوامی فورسز نے انھیں اپنی سرحدوں سے نکال باہر کیا۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ آج بحمد اللہ ہماری فوجی طاقت اس وقت سے بہت بہتر ہے، دس گنا نہیں بلکہ دسیوں گنا زیادہ ہے۔ آج بحمد اللہ ہمارا ملک دفاعی لحاظ سے ایک بڑی علاقائي طاقت ہے اور دفاعی لحاظ سے عالمی سطح پر ایک طاقتور فورس ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے کارناموں سے کمزوریوں اور ناکامیوں کی تلافی کریں۔ دشمن اس کے برخلاف کہتا ہے، وہ ناکامیوں کو سامنے لاتا ہے اور کہتا ہے کہ ناکامیوں پر نظر رکھو اور کارناموں کو بھول جاؤ، انقلاب کے راستے کو ترک کر دو۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں انتخابات کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب لوگ انتخابات میں شرکت کریں اور اپنے انقلابی جذبے کا اظہار کریں تو یہ ملک کی سلامتی کا ضامن بنتا ہے۔ یہ دشمن کو پیچھے دھکیلنے کا موجب بنتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انتخابات جتنے شاندار ہوں اور جتنی زیادہ تعداد میں عوام ان میں حصہ لیں اتنا ہی ملک کے لیے اور خود عوام کے لیے اس کے اثرات و فائدے زیادہ ہوں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں کہا کہ دشمن یہ نہیں چاہتے لہذا وہ انتخابات کا وقت قریب آتے ہی، اس طرح کی باتیں شروع کر دیتے ہیں، انھوں نے ہر بار یہی کیا ہے، ان برسوں میں تقریبا چالیس انتخابات ہوئے ہیں، کبھی وہ کہتے ہیں کہ آزادی نہیں ہے، کبھی کہتے ہیں کہ فلاں کی مداخلت ہے، کبھی کہتے ہیں کہ ان میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے، کبھی کہتے ہیں کہ ایسا ہے، ویسا ہے اور یہ سب اس لیے کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو انتخابات میں شرکت سے روک دیا جائے۔