رہبر انقلاب اسلامی نے پیر 22 فروری 2021 کو ماہرین اسمبلی کے ارکان سے ملاقات میں فرمایا کہ ہم ملک کی ضرورت کے مطابق ایٹمی توانائیاں حاصل کرنے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کئی دیگر موضوعات پر بھی گفتگو کی۔ (1)

 

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.​

محترم حضرات خوش آمدید! تقریبا ایک سال کے بعد تجدید میثاق ہوئی اور آپ حضرات کی  زیارت نصیب ہوئی۔ البتہ دل تو چاہتا تھا کہ اس سے بہتر حالات میں آپ دوستوں سے ملاقات ہوتی، قریب سے آپ سے گفتگو کا موقع ملتا مگر افسوس کہ موجودہ حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مولائے متقیان امیر المومنین صلوات اللہ و سلامہ علیہ کی ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو ایک دو دن بعد ہے۔ حضرت امام محمد تقی علیہ  السلام کے یوم ولادت کی بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس مدت میں ہمارے کچھ بھائی، عزیز دوست اور نمایاں شخصیات جو اس نشست میں موجود رہا کرتی تھیں، اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ان کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں۔ البتہ مجھے ایک فہرست دی گئی تھی جو پانچویں ماہرین اسمبلی کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے والے ارکان کے ناموں پر مشتمل تھی، لیکن میں مزید وقت نہیں لینا چاہتا۔ جناب رئیسی صاحب نے بھ اس جانب اشارہ کیا۔ خداوند عالم ان شاء اللہ ان کے درجات بلند کرے اور انھیں جزائے خیر دے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ اپنی ان عظیم علمی و صاحب عمل شخصیات کی قدر کر سکیں۔

میں نے دو موضوعات تیار کئے ہیں جو آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ ایک موضوع کا تعلق معاشرے کی ایک فکری ضرورت سے ہے جس کی میں ابھی تشریح کروں گا نشست میں موجود علما، فضلا اور دیگر شخصیات کی شان و منزلت کے مطابق، میرا خطاب بھی دینی درسگاہ کے علما و فضلا اور یونیورسٹیوں وغیرہ کی شخصیات سے ہے۔ ایک موضوع بین الاقوامی سیاسی مسائل سے متعلق ہے وہ بھی آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔

اسلامی اقدار اور معرفت کے مفاہیم کو عملی میدان میں اتارنے کی ضرورت

پہلے موضوع میں ان ضرورتوں کا تذکرہ کرنا ہے جو تمام اسلامی معاشروں اور تمام اسلامی ممالک کو در پیش ہیں اور انھیں ان کی احتیاج ہے۔ خاص طور پر ہمارے ملک کو اس کی بہت ضرورت ہے جہاں اسلامی نظام قائم ہے۔ وہ اہم ضرورت یہ ہے کہ ہمیں اسلامی مفاہیم کو میدان عمل میں اتارنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی اقدار اور اسلام کے معنوی مفاہیم کا ایک مجموعہ ہے جنہیں عوام کے درمیان لانا اور جامہ عمل پہنانا بہت بڑا اور عظیم مقصد ہے۔ ہم نے جہاں بھی ان مفاہیم کو جو میں ابھی اختصار سے عرض کروں گا، عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے وہاں ملت کے لئے، ملک کے لئے، اسلام کے وقار اور اسلامی جمہوریہ کی عزت کے لئے وہ بہت گراں بہا ثابت ہوا۔ جہاں بھی ہم سے اس معاملے میں غفلت ہوئی وہاں ہمیں محرومی کا سامنا کرنا پڑا۔ در حقیقت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کے معرفتی اصول اور اسلامی مفاہیم کو عملی جامہ پہنانا اور انھیں عمل شکل میں ڈھالنا خود بخود نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے محنت و مشقت کی ضرورت ہے۔ میں اس سلسلے میں دو تین مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

عملی میدان میں مواسات اور صلہ رحم کے مفہوم کی ترویج کے ساتھ مومنانہ امدادی مشن کی شروعات

مثال کے طور پر اسی کرونا وائرس کی وبا کے مسئلے میں مواسات اور دوسروں کی خبرگیری کا مفہوم ایک کلید مفہوم ہے جو اسلامی اقدار اور اسلام کے عرفانی مفاہیم میں شامل ہے۔ معاشرے میں اس مفہوم کی کسی حد تک تشریح کی گئی اور ان ایام میں ایک مشن چل پڑا۔ مومنانہ امداد کا مشن۔ بڑا عظیم کارنامہ انجام پایا۔ یعنی عوام نے مواسات اور دوسروں کی خبرگیری کے مفہوم کو جو ایک معتبر شرعی مفہوم ہے اور جسے سب تسلیم کرتے ہیں، عملی میدان میں اتار دیا۔ آپ نے دیکھا کہ پورے ملک میں کتنا عظیم کام انجام پایا۔ یعنی عوام نے مواسایت یا غمگساری کے مفہوم کو جو ایک معتبر شرعی مفہوم ہے اور جسے سب مانتے ہیں، تصور و ذہن کی منزل سے عمل کے میدان میں اتارا اور آپ نے دیکھا کہ اس کے نتیجے میں پورے ملک میں کیسے کیسے کام انجام پائے؟! نوجوانوں کے ذریعے انجام پانے والے کاموں سے ایک مثال قائم ہوئی۔ عوام نے عظیم کام انجام دئے، تنظیموں نے عظیم کام انجام دئے، حکومتی اداروں نے عظیم کام انجام دئے، انقلابی اداروں نے عظیم کام انجام دئے، ایک مہم شروع ہو گئی، ایک تحریک چل پڑی، بہت سی رکاوٹیں دور ہوئیں، بہت سے کام انجام پائے۔ یعنی مواسات اور غم گساری کے مفہوم میں ایسی وسیع گنجائش موجود تھی کہ اس نے اتنا گہرا اثر ڈالا اور پورے معاشرے کو متاثر کیا۔

امام خمینی نے اقدار اور اعلی مفاہیم کو عملی جامہ پہنایا

یا ہم اس سے آگے بڑھیں تو کچھ بڑے اہم مفاہیم ہیں جنہیں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے عملی شکل عطا کی، جیسے توکل کا مفہوم، جیسے فرض شناسی کا مفہوم، یا ایثار کا مفہوم۔ یہ سب شرعی مفاہیم ہی تو ہیں۔ اس سے آگے بڑھتے ہوئے شہادت اور جہاد جیسے مفاہیم تک زیر بحث آئے اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی کوششوں سے، آپ کی سرگرمیوں سے، آپ کے زور بیان سے اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی خواہش سے جنہیں تائید الہی حاصل تھی، یہ مفاہیم عوام کی زندگی میں شامل ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آٹھ سال میں ہم ایک بین الاقوامی جنگ میں اپنے مخالفین پر فتحیاب ہوئے۔ میدان جنگ میں عوام کا یہ عظیم کارنامہ انھیں مفاہیم کا نتیجہ تھا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے ان مفاہیم کو عوام میں رائج کر دیا، ان مفاہیم کو ذہنی اور تصوراتی منزل سے باہر نکال کر، ہم قرآن اور حدیث میں ہم یہ مفاہیم پڑھتے تھے اور بیان کرتے تھے لیکن عملی میدان میں ان کا سراغ نہیں تھا، انھیں میدان عمل میں اتارا۔ یہ تو ایک بات۔

اقدار اور معرفت کے زمرے میں آنے والے مفاہیم کو عمل میں اتارنے کی گہرے اثرات

ایک اور مثال جو میری نظر میں ان سب سے زیادہ اہم ہے، یہ آیہ کریمہ ہے: «ماٰ اَرسَلنا مِن رَسولٍ اِلّا لِیُطاعَ بِاِذنِ الله»(۲)‌ بنیادی طور پر انبیاء کو اسی لئے بھیجا گیا کہ ان کی اطاعت کی جائے۔  یہ اطاعت مطلق ہے یعنی زندگی کے تمام امور اس کے دائرے میں شامل ہیں۔ آیت سے نکلنے والا مفہوم یہی ہے کہ عوام کی زندگی، خواہ شخصی و انفرادی زندگی ہو یا عمومی و سماجی زندگی ہو اس کا نظم و نسق دین کے ذریعے چلایا جانا چاہئے۔ اب ممکن ہے کہ بعض افراد یہ کہیں کہ اسے ذاتی امور جیسے نماز، روزہ وغیرہ تک محدود رکھنا چاہئے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ ایک تو اس آیت میں عمومیت رکھی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ بہت سی دوسری آیتیں موجود ہیں، جیسے یہ آیت کہتی ہے: وَ کَاَیِّن مِن نَبِیٍّ قٰتَلَ مَعَه رِبِّیّونَ کَثیر(۳) 'ربّیون کثیر' کے ہمراہ جنگ ذاتی کام تو نہیں ہے، سماجی کام ہے، اجتماعی عمل ہے، حکومتی کام ہے۔ تو اس آیت کا ایک پیغام یہی ہے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اسی مفہوم کو عملی میدان میں لائے۔ آپ نے اس اقدام کے لئے آیہ کریمہ «اِنَّماٰ اَعِظُکُم بِواحِدَةٍ اَن تَقوموا لِله مَثنیٰ وَ فُرادیٰ» (۴) سے استدلال قائم کیا۔ یہ تو نہیں کہا گیا ہے کہ: «اَن تَقوموا لِله مَثنیٰ وَ فُرادیٰ» تاکہ جاکر نماز ادا کرو۔ نہیں، اس لئے کہ حکومت تشکیل دو، اسلامی نظام قائم کرو۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس آیت سے استفادہ کیا 1962 میں ایک تحریک شروع کر دی۔ بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ مفکرین، رغبت رکھنے والے افراد، عقیدت مند افراد، آپ کے شاگرد اور سب سے بڑھ کر خود امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اس فکر مضبوط کیا جو اسلامی انقلاب کے وجود پر منتج ہوئی، انقلاب کے وجود میں آنے، انقلاب کی کامیابی اور انقلاب پر مبنی نظام کی تشکیل پر منتج ہوئی۔ یعنی آپ  دیکھئے کہ قرآنی و اسلامی مفاہیم، اسلام کے معرفتی مفاہیم جب عملی زندگی میں آ جاتے ہیں تو اس طرح زندگی پر ان کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہ اس سسٹم اور اس تحریک کے معجزاتی اثرات کا نمونہ ہے۔ اب یہ کہ یہ تحریک کس طرح چلائی جائے یہ ایک الگ بحث ہے۔

اسلامی حکومت کو اسلامی معارف و تعلیمات  کے درمیان سے مناسب اور کارگر وسائل کی ضرورت

اسلامی نظام  تشکیل پا چکا ہے تو اب جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے: اسلامی نظام کی تشکیل ہوئی تو اس نظام نے کچھ اعلی اہداف پیش کئے جو خود بھی اسلام سے ماخوذ ہیں، قرآن سے ماخوذ ہیں۔ یہ اعلی مقاصد اسلامی نظام کی تشکیل سے پہلے آرزوؤ اور تمناؤں کے زمرے میں آتے تھے۔ یا لوگوں کے ذہن میں نا قابل حصول مقاصد میں شمار ہوتے تھے۔ جیسے انصاف کا قیام، ظلم برداشت نہ کرنا، استکبار کی نفی، ظلم کی نفی، ظلم کا خاتمہ، حیات طیبہ، انسان کا اخلاقی ارتقاء، فضیلتوں کی  ترویج جیسے اعلی مقاصد۔ یہ  اسلامی اہداف و مقاصد ہیں۔ یہ ایسے اعلی مقاصد ہیں جو اسلامی نظام متعارف کرائے، مگر عملی میدان میں ان پر توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ ان اہداف کے حصول کے لئے وسائل کی ضرورت ہے۔ جو وسائل ہمیں ان اعلی اہداف و مقاصد تک پہنچا سکتے ہیں وہ بھی یقینا اسلامی معارف و تعلیمات کے اندر سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کچھ مقاصد کی نشاندہی کی جائے اور ہمیں ان کی ترغیب دلائی جائے مگر ان تک رسائی کا راستہ ہمارے لئے نہ کھولا جائے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ تو اس کا راستہ بھی قرآن میں ہے۔ اسلامی نظام اب انھیں اعلی اہداف تک پہنچنا چاہتا ہے۔ لہذا ضرورت ہے کہ ان وسائل اور ذرائع کو جو خود بھی اسلامی معارف و تعلیمات کا حصہ ہیں تلاش کیا جائے، ڈھونڈا جائے، انھیں عملی میدان میں اتارا جائے اور اس پر عمل شروع ہو جائے۔ یعنی در حقیقت یہ ایک سافٹ ویئر ہے اسلامی حکومت کے مکمل ڈھانچے کو چلانے کے لئے۔ اسلامی حکومت کو آپ ایک ہارڈ ویئر تصور کیجئے۔ اگر اس کو مناسب سافٹ ویئر نہ ملا تو وہ کسی کام کا نہیں ہے۔ اس کا سافٹ ویئر یہی ہے کہ ان اعلی اہداف تک رسائی کے طریقے معین کئے جائیں اور اسی سمت میں پیش قدمی کا سلسلہ جاری رہے۔

اسلامی حکومت کے سافٹ ویئر کے طور پر اسلامی تفکر کی جدید کاری کی ضرورت

آج میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ثابت ہوا کہ اسلامی نظام کو ایک سافٹ ویئر کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظام جیسے جیسے وسعت اختیار کرے گا اور اسلامی نظام کی سرگرمیوں کا دائرہ جیسے جیسے بڑھے گا اور اس میں وسعت آئے گی، اسلامی جمہوریہ کے سامنے نئے میدان کھلیں گے، نئے نئے چیلنج پیدا ہوں گے، اسی تناسب سے اس نظام کو سافٹ ویئر کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔ ان روحالی اصولوں اور تعلیمات کو پے در پے جدید کاری کے مرحلے سے گزارنا ہوگا۔ میں یہی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اہل نظر حضرات اور مفکرین سے اس کا بڑی سنجیدگی سے مطالبہ کرنا چاہئے اور یہ کام انجام دیا جانا چاہئے۔  ہم جو یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلامی فکر کی جدید کاری کی جائے اور اسے یعنی اسلام کے اصولوں اور تعلیمات کے نظام کو جدیدکاری کے مرحلے سے گزارا جائے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان روحانی اصولوں اور تعلیمات کے نظام میں رد و بدل کیا جائے۔ بالکل نہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کتاب و سنت میں کچھ ایسے حقائق موجود ہیں کہ جب تک ان کی ضرورت نہ پڑے ہم ان کی گہرائی کو سمجھ نہیں پاتے، متوجہ نہیں ہوتے۔ جب ان کی احتیاج پڑ جاتی ہے تب ہم ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اس کی متعدد مثالیں ہیں، میں یہاں ان میں سے چند کا تذکرہ کروں گا۔

مفاہیم پر گہری نظر اور مطلوبہ مضامین اخذ کرنے کے نمونے

یہی مثال لے لیجئے کہ اسلامی نظام کو دشمن کے شرطیہ دباؤ کا سامنا ہے۔ شرطیہ دباؤ سے مراد یہ ہے کہ دباؤ ڈالتے ہیں، مثال کے طور پر پابندیاں عائد کرتے ہیں، اس کے بعد کہتے ہیں کہ ہم پابندیاں ہٹا لیں گے بشرطیکہ فلاں کام انجام دیا جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان کو پوری طرح مایوس کر دیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پابندیاں ہٹا لیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ کام انجام دیا جائے۔ یہ بڑی خطرناک چیز ہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے۔ یہ شرطیں ممکن ہے کہ حد درجہ گمراہ کن اور مہلک ہوں۔ ایسی صورت حال میں انسان کیا کرے گا۔ اسی صورت حال میں انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا علاج: «فَاستَقِم کَماٰ اُمِرتَ وَ مَن تابَ مَعَک» (5) ہے۔ کیونکہ ایک عمومی مسئلہ ہے، ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ مثلا قرآن میں پیغمبر کے لئے خود ذاتی طور پر بھی صبر اور استقامت لازمی ہے۔ اس آیت کا خطاب: «وَ لِرَبِّکَ فَاصبِر»(6) پیغمبر اکرم سے ہے۔ اس کا عوام الناس سے کوئی ربط نہیں ہے۔ لیکن اس حکم کا ربط عمومی طور پر تمام لوگوں سے ہے: فَاستَقِم کَماٰ اُمِرتَ وَ مَن تابَ مَعَک، سب استقامت کا مظاہرہ کریں۔ سب ثابت قدمی سے کھڑے ہو جائیں۔ یعنی ہم سے اجتماعی صبر و استقامت کا مطالبہ کیا گيا ہے۔ تو یہاں ہم نے یہ سمجھا کہ ان امور میں اس انداز سے عمل کیا جانا چاہئے: «فَاستَقِم کَماٰ اُمِرت‌» عمل کرنا چاہئے۔ یا «وَتَواصَوا بِالصَّبر»؛(7) صبر کی سفارش، ایک دوسرے کو استقامت، مزاحمت، تحمل اور پائیداری کی ترغیب دلانا۔ جب ایسی کوئی چیز سامنے آتی ہے تو ہمارے سامنے اس آیت «فَاستَقِم کَماٰ اُمِرتَ وَ مَن تابَ مَعَک» کا مفہوم پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔ اس صورت حال سے الگ ہٹ کر ہمارے لئے اس آیت کا مفہوم بہت واضح نہیں ہے۔ «وَ مَن تابَ مَعَک»  یعنی عوام الناس کا بھی فریضہ ہے کہ استقامت کا مظاہرہ کریں۔ یہ ایک عمومی حکم ہے۔ لیکن جب اس طرح کی صورت حال در پیش ہو تب انسان کی سمجھ میں آتا ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ آج ہمیں اس مشکل کا سامنا ہے۔ ہمارے عوام مشکلات سے دوچار ہیں۔ جن میں کچھ مشکلات دشمن کے دباؤ کا نتیجہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ عوام ان مشکلات کے سامنے ثابت قدمی اور پائيداری کا مظاہرہ کریں، ڈاٹے رہیں۔ یہ ایک عظیم عمل ہے جو بحمد اللہ ہمارے ملک میں انجام پا رہا ہے۔

یا مثال کے طور پر جب تک دشمن کا مشترکہ محاذ ہے، شیطانی محاذ میں مختلف اقسام کے شیاطین شامل ہیں، جب تک یہ محاذ انسان کے سامنے نہیں آیا ہے  اور انسان ہر طرف سے محصور نہیں ہوا ہے اس وقت تک اس آیت کا مفہوم بخوبی سمجھ نہیں  پائے گا: «وَلمّا رَءَا المُؤمِنونَ الاَحزابَ قالوا هٰذا ما وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسولُه، وَ صَدَقَ اللهُ وَ رَسولُه وَ ما زادَهُم ‌اِلّا ایمانًا وَ تَسلیمًا» (8) یعنی جب ہمارے سامنے ایسی صورت حال آ گئی، جو بہت سخت ہے تو ہم سراسیمگی میں مبتلا نہ ہوں۔ یعنی آپ نہ تو خود سراسیمہ ہوں اور نہ عوام الناس سراسیمگی میں مبتلا ہوں۔: هٰذا ما وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسولُه، یہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ہمیں پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ اگر تم راہ حق پر چلنے والے ہو تو اس کے لئے تیار رہو کہ «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیَاطِینَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ یُوحِی بَعْضُهُمْ إِلَیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا» (9) یہ چیزیں دیکھ کر آپ متحیر نہ رہ جائیں۔ کیونکہ یہ تو بتایا جا چکا ہے، ہمیں اس کا پہلے سے علم ہے۔ ایسی صورت میں یہ آیہ کریمہ مجسم ہو جاتی ہے، زندہ ہو جاتی ہے، در حقیقت ہمیں راہ زندگی سے روشناس کراتی ہے۔ اسی طرح دیگر امور بھی ہیں۔

مثال کے طور پر ایک عہدیدار کی حیثیت سے جن چیزوں کے بارے میں میرا ذہن بہت سوچتا ہے ان میں  سے ایک حضرت یونس سلام اللہ تعالی علیہ سے کیا جانے والا خطاب ہے۔ آپ مایوس ہو چکے تھے، تھک چکے تھے کیونکہ آپ کی قوم نے آپ کی بات بالکل نہیں مانی تھی۔ اس موقع پر اللہ تعالی اپنے اس پیغمبر سے جنہوں نے اپنی قوم کے درمیان اپنی عمر کا بڑا حصہ گزارا تھا اور بڑی زحمتیں اٹھائی تھیں، فرماتا ہے: وَذَا النّونِ اِذ ذَهَبَ مُغاضِبًا فَظَنَّ اَن لَن نَقدِرَ عَلَیه (10) انھیں یہ گمان ہو گیا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔ بالکل نہیں، ہم ان پر بھی سختی کر سکتے ہیں اور ہم نے سختی کی بھی۔ جناب یونس کو وہ سخت سزا دی گئی۔ مجھے جب بھی کوتاہی اور بے عملی نظر آتی ہے خود اپنے اندر یا دیگر عہدیداران کے اندر تو ذہن میں یہی آیت آ جاتی ہے؛ «فَظَنَّ اَن لَن نَقدِرَ عَلَیه» ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ بے توجہی، بے اعتنائی، بے عملی اللہ تعالی کی جانب سے سخت کارروائی کا سبب نہیں بنے گی۔ کیوں نہیں! سبب بن سکتی ہے۔ یعنی یہ مفہوم ہمارے لئے عملی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ عینی شکل میں نظر آتا ہے اور خود کو ظاہر کرتا ہے۔

 مفکرین کو اشتراکیت اور بنیاد  پرستی سے پرہیز کرتے ہوئے، اسلامی نظام کی فکری بنیادوں کے فروغ کی تاکید

اسلامی نظام جتنا پھیلے گا اور آگے بڑھے گا، اتنے ہی نئے نئے اندرونی اور بین الاقوامی مسائل سے روبرو ہوگا، نئی مشکلات سے دوچار ہوگا اور نئی صورتحال اس کے سامنے آئے گی جو اس بات کی متقاضی ہے کہ نظام کی فکری بنیادیں بھی وسیع تر ہوں۔ اس فکری بنیاد کی بھی تقویت ہو جو نظام کو آگے بڑھا رہی ہے، اس کو فکری غذا فراہم کر رہی ہے اور انحراف سے بچا رہی ہے۔ نئے مفاہیم بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ نئے مفاہیم باہر سے نہیں آئيں گے، خود اسلامی مفاہیم  کے اندر سے ہی نکلیں گے، قرآن و سنت سے ہی نکالے جائيں گے۔ البتہ یہ کام، یعنی نئے مفاہیم نکالنا اور ان پر بحث کرنا ، ہر ایک کا کام نہیں ہے؛ افاضل و مفکرین کو جو اسلامی اصولوں سے پوری طرح واقف ہوں، جنھوں نے قرآن پڑھا ہو، دقت نظری کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا  ہو، اس پر غور و فکر کیا ہو، جو فکری جمود اور بنیاد پرستی سے دور ہوں، انہیں اس کام میں لگنا ہوگا۔ اس لئے کہ اس میں ایک طرف تو یہ خطرہ ہے کہ کہیں آیات الہی سے نئے استنباط کے کام میں  کوئی بے صلاحیت، کم پڑھا لکھا اور اشتراکی سوچ رکھنے والا  نہ داخل ہو جائے اور دوسری طرف یہ خطرہ بھی ہے کہ کہیں کوئی ایسا فرد  اس مہم میں نہ لگ جائے جو فکری جمود میں مبتلا ہو اور ابھی اس کے لئے حکومت، سیاست اور سماجی زندگی میں دین کے دخیل ہونے کا مسئلہ حل نہ ہوا ہو۔ نہیں، بلکہ صرف ممتاز ہستیوں اور مفکرین کو ہی اس میدان میں آنا چاہئے۔ یہ پہلی بات تھی جو میں عرض کرنا چاہتا تھا۔ اس میں نتائج تک پہنچنے کے لئے بہت زیادہ تحقیق، مطالعے اور بحث و مباحثے کی ضرورت ہے۔

 اختلافات کے حل کے لئے حکومت اور پارلیمنٹ میں تعاون اور ایٹمی مسئلے میں تضاد سے بچنے کی تاکید

دوسرا مسئلہ جو سیاسی ہے اور اختصار کے ساتھ بیان کروں گا، ایٹمی مسئلہ ہے۔ پارلیمنٹ میں ایک قانون پاس کیا گیا، حکومت نے بھی اس کا خیر مقدم کیا اور کل تک وہ امور انجام دئے جو ضروری تھے۔ ایک کام کل انجام دینا ہے، ان شاء اللہ وہ بھی انجام دیا جائے گا۔ البتہ میں نے سنا ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان، جو حکومت نے کیا ہے اور جو پارلیمنٹ نے سمجھا ہے، اس میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ یہ اختلاف حل کریں، ان اختلافات کو اسی طرح نہ اپنے حال پر باقی رہنے دیں اور نہ  ہی بڑھنے دیں کہ اس بات کی عکاسی ہو کہ ان میں اتفاق نہیں ہے، نہیں! یہ قابل حل ہے اور حل ہونا چاہئے۔ بہرحال حکومت قانون پر عمل کو اپنا فریضہ سمجھتی ہے اور قانون بھی اچھا قانون ہے۔ اس پر پوری توجہ کے ساتھ عمل ہونا چاہئے۔ دونوں کو اس مسئلے میں باہم تعاون کرنا چاہئے۔ یہ ضرور کیا جائے۔ یہ خود قانون کی بات ہے۔

  یورپی ملکوں کو ایٹمی معاہدے کی پابندی اور مستکبرانہ و متکبرانہ زبان سے پرہیز کی تاکید

 مقابل فریق، یہ چار ممالک، یعنی امریکا اور تین یورپی ممالک، ان دنوں جو بول رہے ہیں اور جو بیانات  صادر کر رہے ہیں اور جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ مستکبرانہ، متکبرانہ، آمرانہ اور غیر منصفانہ ہے۔ وہ غلط زبان استعمال کر رہے ہیں۔ ایران کے ایٹمی وعدوں کی بات تسلسل کے ساتھ کر رہے ہیں کہ بعض وعدوں پر عمل کیوں روک دیا ہے اور اس بات کا کوئي ذکر نہیں کر رہے ہیں کہ خود انھوں نے پہلے دن سے ہی، اس پر عمل ہی نہیں کیا ہے۔ یعنی اس سلسلے میں جس سے باز پرس ہونی چاہئے، اور جس سے برہمی کا اظہار ہونا چاہئے وہ،  خود وہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے جو عہد کیا تھا، اس پر اسلامی تعلیمات کے مطابق، جن میں، عہد و پیمان پر عمل کو ضروری قرار دیا گیا  ہے، پہلے دن سے ہی لمبے عرصے تک عمل کیا۔ بعد میں جب ان کا یہ طرزعمل دیکھا کہ ایک اس سے نکل گیا اور دوسروں نے بھی اس کا ساتھ دیا  تو «فَانبِذ اِلَیهم عَلیٰ سَواٰء»؛(11)  یہ بھی قران ہے جو کہتا ہے کہ اچھا تو اب تم بھی چھوڑ دو۔ لیکن اس کے باوجود ہماری قابل احترام حکومت نے اس کو ترک نہیں کیا بلکہ تدریجی طور پر بعض وعدوں پر عمل آوری روک دی اور یہ قدم واپس لیا جا سکتا ہے؛ اگر وہ اپنے فرائض پر عمل کریں تو یہ اقدامات واپس لئے جا سکتے ہیں۔ لیکن وہ اس کا (اپنی  وعدہ خلافیوں اور خلاف ورزیوں کا) کوئی ذکر نہیں کرتے صرف ایران کے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں اور وہ بھی استکباری لہجے میں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے، امریکا سے ہمارا مسئلہ اور تکرار الگ ہے، ان تین یورپی ملکوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی مستکبرانہ اور متکبرانہ باتیں، ان سے ہمارے عوام کی نفرت بڑھا رہی ہیں۔ ہمارا انقلاب ان سے متنفر ہے اور یہ باتیں ہمارے عوام میں ان کے لئے نفرتیں شدید تر کر رہی ہیں۔

اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایٹمی اسلحے کا حرام ہونا اور ملک کی ضرورت کے مطابق یورینیم کی افزودگی   

وہ بین الاقوامی صیہونی مسخرہ، کہتا رہتا ہے کہ ہم نہیں کرنے دیں گے۔ تمھاری حیثیت کیا ہے کہ ایران کو ایٹمی اسلحے تک دسترسی نہ حاصل کرنے دو! ہم نے اگر ایٹمی اسلحہ بنانے کا فیصلہ کیا ہوتا تو، تم  تو کیا تمھارے  بڑے بھی ہمیں نہيں روک سکتےتھے۔ ہم ایٹمی اسلحہ بنانا ہی نہيں چاہتے؛ یہ ہماری اسلامی فکر ہے؛ ہماری اسلامی فکر کہتی ہے کہ وہ اسلحہ جس سے غیر مسلح، غیر فوجی اور عام شہری مارے جائيں، ممنوع اور حرام ہے چاہے وہ ایٹمی ہو یا کیمیائي یا کوئی اور۔ یہ اسلحے حرام ہیں ۔ ہم نے صرف اسلامی نظرئے کی وجہ سے ، کبھی ایٹمی اسلحہ بنانے کے بارے میں نہیں سوچا ورنہ اگر ہم چاہتے تو تم  کیا ہو، تمھاری حیثیت کیا ہے جو ہمیں روک سکو۔ تم تو خود کسی چیز کی پابندی نہیں کرتے۔ امریکا نے ایک دن میں دو لاکھ بیس ہزار عام شہریوں کا قتل عام کر دیا۔ پانچ سال ہو گئے کہ یمن میں مغربی بمبار طیارے آتے ہیں اور عوام پر، کوچہ و بازار پر، مسجدوں پر، اسپتالوں پر اور اسکولوں پر بمباری کرتے ہیں اور عام شہریوں کا قتل عام کرتے ہیں، عوام کو اس طرح محاصرے میں لے رکھا ہے۔ یہ ان کے کام ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران اس طرزعمل اور روش کو قبول نہیں کرتا۔ لہذا ہم ایٹمی اسلحے کی فکر میں نہیں ہیں۔ لیکن دیگر امور انجام دیں گے۔ ہماری افزودگی کی سطح بھی بیس فیصد تک محدود نہيں ہے۔ اگر ایٹمی پیشرفت یا دیگر مسائل کے لئے ضروری ہوا تو افزودگی کو ساٹھ فیصد تک بھی پہنچائيں گے۔ یہ کام جس سطح کی ہمیں ضرورت ہوگی اس سطح پر انجام دیں گے۔  چند برس کا ایک معاہدہ ہے، اگر انھوں نے عمل کیا تو انہیں چند برسوں تک ہم بھی اس پرعمل کریں گے، لیکن کلی طور پر، بالکل نہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت و توانائي کے بنیادی عناصر کی مخالفت کی وجہ باجگیری ہے

وہ کہتے ہیں ہم ایٹمی اسلحے کے مخالف ہیں! جھوٹ بولتے ہیں!  انہیں یہ فکر نہیں ہے۔ شاید ان میں سے بہت سے یا سبھی جانتے ہیں کہ ہم ایٹمی اسلحے کی فکر میں نہیں ہیں۔ وہ ہمارے روایتی اسلحوں کے بھی مخالف ہیں۔ ہمارے دفاعی وسائل کے مخالف ہیں۔ وہ طاقت و توانائی کی ذرائع کو ایران سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ ورنہ یورینیم کی افزودگی ملک کی مسلمہ ضرورت ہے۔ آئندہ چند برس میں ایٹمی بجلی گھر ملکوں کے توانائي کے اہم ترین مراکز ہوں گے۔ جس دن تیل ختم ہو گیا یا تیل کی دوسری جہتیں وجود میں آ گئيں، تو ایٹمی بجلی گھر جو زیادہ محفوظ ہیں اور زیادہ صاف ستھری (آلودگی سے پاک) اور سستی توانائي پیدا کرتے ہیں، ملکوں میں رائج ہو جائيں گے۔ ہمیں اس دن ضرورت ہوگی۔ اس دن افزودگی شروع نہیں کی جا سکتی۔ آج ہی سے شروع کرنے اور تیار رہنے کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس اس کے امکانات و وسائل کا ہونا ضروری ہے۔ وہ یہی نہیں چاہتے۔ مغربی سامراج یہ نہیں چاہتا۔ وہ چاہتے ہیں کہ جب ایران کو ایٹمی توانائی کی ضرورت ہو تو ان کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور رہے، ان کا دست نگر رہے، ان کا ضرورت مند رہے تاکہ وہ اپنی شرائط مسلط کر سکیں، زور زبردستی سے کام لے سکیں اور ہم سے باج گیری کر سکیں۔ وہ اس کی فکر میں ہیں۔

 زورزبردستی کے مقابلے میں استقامت کے لئے ایرانی قوم کی داخلی قوت و توانائي پر اعتماد کی تاکید   

وہ اس  وقت بہت کم قیمت پر بیرل بیرل تیل لے جا رہے ہیں۔ واقعی تیل کی جو قیمت وہ دے رہے ہیں وہ بہت کم ہے اور اس پر احسان بھی رکھتے ہیں۔ اگر تیل ان کے اختیار میں ہوتا، فرض کریں کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی تیل پیدا کر رہے ہوتے اور ہم ایران کی حیثیت سے ان سے تیل خریدنا چاہتے تو بوتلوں میں بھی اتنی آسانی سے ہمیں نہ دیتے اور بقول شخصے اپنے ماں باپ کے خون کی قیمت بھی اس پر لگاتے، اس کے بعد ہمیں تھوڑا سال تیل دیتے! وہ ایٹمی توانائي کو ایسا ہی بنانا چاہتے ہیں۔ جی نہیں، افزودگی ہماری ضرورت ہے اور ہم انجام دیں گے۔ یہ ایسی چیز نہيں جس کو وہ زور زبردستی کا وسیلہ بنا سکیں۔ ہمارے لئے یہ بات بالکل واضح اور مسلمہ ہے کہ اس مسئلے میں بھی اور اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق دیگر مسائل میں بھی، چند ممالک جو خود کو طاقتور اور توانا سمجھتے ہیں، زور زبردستی اور باجگیری کرنا چاہتے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کو پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں؛ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ہم توفیق الہی اور نصرت خدا سے ملک کی مصلحت میں،  ملک کی ضرورت کے مطابق چاہے وہ ضرورت آج کی ہو یا مستقبل کی، جس قدر ہماری توانائي میں ہوگا، ان شاء اللہ انجام دیں گے اور ملک کو آگے بڑھائيں گے اور الحمد للہ ہماری توانائي کم نہیں ہے، ایرانی قوم میں بہت زیادہ توانائي پائی جاتی ہے۔

ہماری دعا ہے کہ خداوند عالم ہماری نیتوں میں خلوص پیدا کرے، ہمارے حکام کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیابی دے اور وہ توانائي عطا فرمائے کہ وہ انتھک کوششوں میں لگے رہیں، رضائے الہی کو مد نظر رکھیں۔ ان شاء اللہ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کی دعائيں ہماری قوم اور ہمارے حکام کے شامل رہیں۔ ہمارے عظیم امام اور شہیدوں کی ارواح ہم سے راضی رہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آپ کا اجلاس کامیاب ہوگا اور فقہا کی اسمبلی 'مجلس خبرگان' کے کام کی پیشرفت میں مفید ثابت ہوگی۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1۔ یہ ملاقات، پانچویں دور کی ماہرین اسمبلی 'مجلس خبرگان' کے آٹھویں اجلاس کے اختتام پر انجام پائي۔ اس کے شروع میں مجلس خبرگان کے سربراہ آیت اللہ جنتی اور نائب سربراہ، حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی نے رپورٹیں پیش کیں۔

2۔ سورہ نساء، آیت نمبر 64؛ "۔۔۔۔۔۔ ہم نے کسی بھی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ توفیق الہی سے اس کی اطاعت کی جائے۔۔۔"

3۔ سورہ آل عمران،  آیت نمبر 146 " اور کتنے پیغمبر ایسے تھے کہ عوام کی بہت بڑی تعداد نے ان کے ہمراہ، جنگ کی۔۔۔۔۔"

4۔ سورہ سبا، آیت 46 ؛ " ۔۔۔۔ میں تم کو ایک نصیحت کرتا ہوں کہ دو دو کرکے اور اکیلے خدا کے لئے قیام کرو۔۔۔"

5۔ سورہ ھود  آیت نمبر 112: " تو جیسا کہ تہیں حکم دیا گیا ہے، قیام کرو اور جس نے بھی تمہارے ساتھ توبہ کیا وہ بھی یہی کرے ۔۔۔۔")

6۔ سورہ مدثر۔ آیت 7؛ " اور اپنے پروردگار کے لئے صبر کرو"

7۔ سورہ عصر، آیت 3

8۔ سورہ احزاب آیت 22؛ " اور جب مومنین نے دشمن کے دستوں کو دیکھا تو کہا "یہ وہی ہے جس کا خدا اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا ہے اور خدا اور اس کے رسول نے سچ کہا ہے۔۔۔۔'

9۔ سورہ انعام، آیت 112: اور اس طرح ہر پیغمبر کے لئے جن و انس کے شیاطین کی دشمنی رکھی۔ ان میں بعض  بعض دوسرے کے لئے ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کی غرض سے بنا سنوار کے باتیں پیش کرتے ہیں اور اگر تمھارا پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے لہذا انہیں ان کے جھوٹ کے ساتھ جو وہ تراش لیتے ہیں، چھوڑ دو۔

10۔ سورہ انبیا آیت  87

11۔ سورہ انفال آیت 58 "۔۔۔۔ ان کے پیمان کو انہیں کی طرف پھینک دو"