جب اس قسم کی باتیں سننے کو ملتی ہیں تو واقعی افسوس ہوتا ہے۔ ان میں کچھ باتیں تو ہمارے دشمنوں کی معاندانہ باتیں ہیں۔ امریکہ کی باتوں کا اعادہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر علاقے میں اسلامی جمہوریہ کے گہرے اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکی برسوں سے سخت پریشان اور ناراض ہیں۔ قدس فورس سے اسی لئے ناراض تھے، شہید سلیمانی سے اسی وجہ سے ناراض تھے۔ شہید سلیمانی کو اسی وجہ سے شہید کیا۔ جو چیز بھی علاقے میں اسلامی جمہوریہ کے اثر و رسوخ کو بڑھانے والی ہو وہ ان کی نظر میں بری ہے۔ ہمیں ایسی بات تو نہیں کرنا چاہئے کہ محسوس ہونے لگے کہ ہم بھی انھیں کی بات دہرا رہے ہیں۔ خواہ وہ قدس فورس کے بارے میں ہو یا خود شہید سلیمانی کے بارے میں ہو۔ ملکی سیاست گوناگوں اقتصادی، عسکری، سماجی، علمی و ثقافتی  پروگراموں پر استوار ہوتی ہے، اسی میں سفارتی روابط اور خارجہ تعلقات بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں مل کر کسی ملک کی سیاست کو تشکیل دیتی ہیں۔ سب کو مل کر ایک ساتھ محنت کرنا ہوتی ہے۔ سب کو آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی شعبہ دوسرے کی نفی کرنا شروع کر دے اور دوسرا اس پہلے شعبے کی نفی کرے تو یہ بالکل بے معنی ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے جو اسلامی جمہوریہ کے عہدیدار سے، اسلامی جمہوریہ کے عہدیداران سے سرزد نہیں ہونی چاہئے۔

قدس فورس واقعی مغربی ایشیا میں معذرت خواہانہ سفارت کاری کا سلسلہ روکنے والا موثر عنصر ہے۔ قدس فورس نے مغربی ایشیا کے علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی خود مختار پالیسی کو اور اسلامی جمہوریہ کی پروقار پالیسی کو وجود عطا کیا۔

مغربی ممالک بضد ہیں کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ ان کی جانب ہو اور ان کے پرچم تلے آگے بڑھے، وہ بھی اطاعت کی شکل میں۔ مغربی حکومتوں کی یہ خواہش ہے۔ کیونکہ برسوں تک یہی سلسلہ تھا۔ قاجاریہ دور کے اواخر میں بھی اور پہلوی حکومت کی پوری مدت میں بھی ایران مغرب کی پالیسیوں کے زیر تسلط تھا۔ اسلامی انقلاب آیا تو اس نے ایران کو اس تسلط سے باہر نکال لیا۔ ان پورے چالیس برسوں میں مغربی ممالک کی، امریکہ کی بھی اور یورپ کی بھی یہی کوشش رہی کہ اس ملک پر وہی سابقہ تسلط پھر سے بحال ہو جائے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اگر چین سے روابط قائم کرتا ہے تو وہ ناراض ہونے لگتے ہیں۔ روس سے سیاسی یا اقتصادی تعلقات قائم کرتا ہے تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں، سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک سے ہم اپنے رشتے بڑھانا چاہتے ہیں تب بھی وہ بیچ میں کود پڑتے ہیں۔ ہمارے بیچارے کمزور پڑوسیوں پر دباؤ ڈالتے ہیں اور انھیں منع کر دیتے ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا ہم مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔ مجھے عرب ممالک اور ہمسایہ ملکوں کے تعلق سے کئی مثالیں یاد ہیں کہ ان کوئی اعلی رتبہ عہدیدار ایران کا دورہ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن امریکیوں نے وہاں جاکر روک دیا کہ یہ دورہ انجام نہ پائے۔ یعنی وہ ہماری ہر طرح کی سفارتی سرگرمیوں کے بھی مخالف ہیں۔ تو ہم ان کی اس خواہش کے سامنے ہتھیار تو نہیں ڈال سکتے۔ ہمیں آزادانہ اور پروقار انداز میں، پوری محنت اور بھرپور توانائی سے کام کرنا ہے۔ علاقے میں بعض نے یہی کیا ہے اور بحمد اللہ نتیجہ بھی حاصل کیا۔

یہ بھی سب جان لیں کہ دنیا میں کہیں بھی خارجہ پالیسی وزارت خارجہ کے اندر وضع نہیں کی جاتی۔ خارجہ پالیسی دنیا میں ہر جگہ وزارت خارجہ سے بالاتر اداروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ملک کے بالاتر ادارے اور اعلی رتبہ حکام خارجہ پالیسی کے خدو خال معین کرتے ہیں۔ البتہ اس عمل میں وزارت خارجہ بھی شریک رہتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ فیصلے وزارت خارجہ کے تابع ہوں۔ نہیں۔ وزارت خارجہ کے ذمے اجرا کا کام ہے۔ وہ خارجہ پالیسی کو نافذ کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی یہی صورت حال ہے۔ قومی سلامتی کی سپریم کونسل میں جہاں تمام عہدیداران موجود ہوتے ہیں فیصلے کئے جاتے ہیں۔ وزارت خارجہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے خاص انداز میں انھیں عملی جامہ پہنائے اور آگے لے جائے۔ بہرحال ہمیں ایسی باتیں نہیں کرنا چاہئے کہ گویا ہم ملک کی پالیسیوں پر یقین نہیں رکھتے اور انھیں تسلیم نہیں کرتے۔ ہمیں محتاط رہنا چاہئے۔ محتاط رہنا چاہئے کہ کہیں دشمن کو نہ خوش کرنے لگیں۔ واقعی یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم دشمن کی مسرت کا سامان فراہم کرنے لگیں۔

میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ملک کے تمام عہدیداران کو جو اسلامی جمہوری نظام، اپنے ملک، اپنے وطن اور اپنے عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، یہ توفیق دے کہ وہ یہ کام بنحو احسن انجام دے سکیں۔

امام خامنہ ای

2 مئی 2021