امام خمینی اللہ پر توکل اور عوام پر اعتماد کے ساتھ اور دین کے بارے میں اپنی گہری شناخت کے سہارے مضبوطی سے ڈٹ گئے اور انھوں نے اس نظریے کو آگے بڑھایا اور اپنی اس عظیم جدت طرازی کو معاشرے کی سطح پر جامۂ عمل پہنایا۔ اجمالا ہی سہی لیکن مجھے یہ بات ضرور عرض کرنی ہے کہ یہ ایک جذباتی بات نہیں ہے بلکہ ایک عالمانہ استنباط ہے کہ دین کو حکومت کرنی چاہیے اور اس حاکمیت میں عوام کی شراکت ہونی چاہیے، یعنی مذہبی ڈیموکریسی، یہ چیز اسلام کے بطن سے نکلی ہے اور بنیادی اسلامی تعلیمات پر استوار ہے۔
دین کی حاکمیت کا سرچشمہ قرآن و احادیث
قرآن مجید نے دین کی حکمرانی کو واضح طور پر بیان کیا ہے؛ اگر کوئي اس کا انکار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعی اس نے قرآن مجید میں غور و خوض نہیں کیا ہے۔ ایک طرف قرآن مجید سورۂ نساء کی ایک آیت میں اعلان کرتا ہے: "وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللَّہ" (سورہ نساء آیت 64) ہم نے پیغمبروں کو اس لیے بھیجا ہے کہ لوگ اذن خداوندی سے ان کی اطاعت کریں۔ تو کس چیز میں اطاعت کریں؟ پیغمبروں کی اطاعت کن چیزوں میں کی جانی چاہیے؟ اس چیز کو قرآن مجید کی سیکڑوں آیتیں بیان کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر آیات جہاد، عدل و انصاف قائم کرنے سے متعلق آيات، حدود اور تعزیرات سے متعلق آيات، سودوں اور سمجھوتوں سے متعلق آيات، عالمی سمجھوتوں سے متعلق آیات؛ وَ اِن نَكَثوا اَيمـانَھُم (سورہ توبہ آیت 12 اور اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالیں) وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کا مطلب ہے حکومت؛ ان آیتوں سے واضح ہوتا ہے کہ ان امور میں پیغمبر کی اطاعت کی جانی چاہیے، ملک کے دفاع کے معاملے میں، حدود جاری کرنے کے معاملے میں، معاملات اور سماجی سمجھوتوں کے مسئلے میں، دوسرے ملکوں سے سمجھوتوں کے بارے میں، عدل و انصاف کے قیام کے معاملے میں، سماجی انصاف قائم کرنے کے معاملے میں پیغمبر کی اطاعت ہونی چاہیے؛ اس کا مطلب ہے حکومت۔ کیا حکومت کے معنی اس کے علاوہ کچھ ہیں۔ قرآن مجید میں اسلام کی حکمرانی کو اتنی صراحت کے ساتھ بیان کیا گيا ہے۔
امام خامنہ ای
4 جون 2021