اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے انقلاب اور ملک کے عدالتی سسٹم کی بنیاد رکھنے میں شہید بہشتی کے عظیم کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ملک اور قوم پر شہید بہشتی کا ایک بڑا حق ہے اور وہ اسلامی عدالتی سسٹم کی بنیاد رکھنا ہے۔
انھوں نے شہید بہشتی کی اہم خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے انھیں ایک مفکر اور صاحب نظر عالم دین بتایا اور کہا: مرحوم بہشتی واقعی ایک نمایاں اور ممتاز ہستی تھے، انقلابی تھے، جدوجہد کرنے والے تھے اور پوری طرح سے انقلابی افکار پر یقین رکھتے تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق شہید بہشتی حقیقی معنی میں انقلاب کے نظریات اور اسی طرح امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات پر گہرا یقین رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ آئین کی تدوین کرنے والے افراد میں سے ایک ہیں، مطلب یہ کہ اس عظیم ہستی کی خدمات کو پہچاننا اور ان کا احترام کرنا چاہیے۔
آیۃ اللہ العظمی امام خامنہ ای نے اس عظیم شہید کی شہادت کی برسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: منافقین نے آج ہی کی تاریخ میں یعنی سات تیر بمطابق اٹھائیس جون 1981 کو ایرانی قوم کے خلاف ایک بڑے جرم کا ارتکاب کیا اور اس نمایاں، ممتاز اور عظیم ہستی کو تقریبا ستّر دیگر افراد کے ساتھ ملک سے چھین لیا اور ان قاتلوں نے اس جرم کا خود اعتراف بھی کیا اور ان کے اعترافات موجود ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مغربی ملکوں میں انسانی حقوق کے دعووں کے جھوٹے ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا: منافقین، آج انسانی حقوق کے دعویدار انھی ملکوں جیسے فرانس اور دیگر یورپی ملکوں میں پوری آزادی کے ساتھ گھوم رہے ہیں، زندگی گزار رہے ہیں اور فرانس کی حکومت اور دیگر حکومتوں کو شرم بھی نہیں آتی کہ وہ ان منافقوں کی موجودگی، ان کی حمایت اور انھیں اپنی پارلیمانوں میں پلیٹ فارم تک دینے کے باوجود انسانی حقوق کا دعوی کرتی ہیں، حقیقت میں ان مغرب والوں کی ڈھٹائي بھی بڑی حیران کن ہے۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں عدلیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام ابراہیم رئيسی کی خدمات کا شکریہ ادا کیا اور ان کی مہم کو جہادی اور قابل تقلید مہم قرار دیا۔ انھوں نے اس مہم کا نتیجہ عدلیہ کے سلسلے میں عوام کی امیدوں کی بحالی بتایا اور کہا: اسلامی جمہوریہ میں سرگرم اور فعال اداروں پر یہ عوامی اعتماد، ایک بڑا سماجی سرمایہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عدلیہ میں آنے والی اچھی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، عدلیہ کے اعلی عہدیداروں سے کہا: عدلیہ میں تبدیلی کی دستاویز، ایک اچھی دستاویز ہے۔ یہ دستاویز حقیقی معنی میں نافذ العمل ہے، دکھاوا نہیں ہے، آپ اسی دستاویز کو عمل کا معیار قرار دیجیے۔ انھوں نے عدلیہ کے اندر بدعنوانی سے مقابلے کے مسئلے کو اس شعبے کے سب سے لازمی اور ترجیحی کاموں میں سے ایک قرار دیا۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی تقریر میں اسی طرح صدارتی انتخابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے حقیقی معنی میں شاندار کارنامہ بتایا اور اس الیکشن کی عظمت کے انکار کی کوششوں کو لغویات سے تعبیر کیا۔ انھوں نے کہا کہ جن تجزیہ نگاروں کی نظریں اس الیکشن پر تھیں، وہ سمجھ رہے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔ دنیا میں کہاں ایسا ہوتا اور کہاں ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ تمام مخالف، سرگرم اور مؤثر پروپیگنڈہ مشینریاں، لوگوں کو الیکشن میں شرکت نہ کرنے کے لیے مسلسل ورغلاتی رہیں۔ امریکی ریڈیو، برطانوی ریڈیو، بعض رجعت پسند اور روسیاہ ملکوں کے ریڈیو کام کرتے رہیں، ان کے اپنے افراد اور امریکا اور برطانیہ کے پرچم تلے زندگي گزارنے اور ان کے ٹکڑوں پر پلنے والے کچھ غدار ایرانی عناصر بھی کافی پہلے سے ریڈیو، ٹی وی اور سیٹیلائٹ کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر بھی کام شروع کر دیں! وہ بھی ایک یا دو نہیں، سیکڑوں بلکہ ہزاروں چینل اس بات کے لیے دن رات کام کرتے رہیں کہ عوام کو الیکشن سے دور کر دیں!
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح فرمایا کہ آئین کی نگہبان کونسل نے دین اور قانون کی بنیاد پر کام کیا جبکہ دشمن میڈیا نے عوام کو پولنگ اسٹیشنوں سے دور رکھنے کی کوشش کی۔
آپ نے کہا: اس طرح کے حالات میں عوام نے الیکشن میں اتنے شاندار طریقے سے شرکت کی، کورونا کے پھیلاؤ کے باوجود، ماہرین نے جو اندازے لگائے تھے، ان کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ کم از کم دس فیصد لوگ، کورونا کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکے، لیکن اس کے باوجود لوگ میدان میں آئے، علی الصباح قطاروں میں لگ گئے اور انھوں نے ووٹ دیا، یہ عوام کی جانب سے ان لوگوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے جو الیکشن کا بائیکاٹ کر رہے تھے، مخالفت کر رہے تھے اور دشمنی کر رہے تھے۔
آیۃ اللہ العظمی امام خامنہ ای نے امریکا کے الیکشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے ایک ذلت آمیز الیکشن بتایا اور کہا: ذلت اٹھانے والے وہی لوگ اس وقت ہمارے الیکشن پر اعتراض کر رہے ہیں، ایک امریکی، ایران کے انتخابات کے بارے میں اظہار خیال کرتا ہے، وہ جو ذلیل ہو چکے ہیں، کئي مہینے بعد اب ان کی زبان نکل آئي ہے اور وہ باتیں کر رہے ہیں، اپنی اس حالت کی وجہ سے، جو ذلت آمیز ماحول انھوں نے تیار کیا تھا، اس کی وجہ سے انھیں تو ایران کے الیکشن کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہنا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے آخری حصے میں، الیکشن کے بعد ملک کے اعلی حکام کے اچھے رویے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے ملک کے لیے ضروری دلی سکون و اطمینان کی نشانی بتایا اور کہا: یہ بہت خوش آئند ہے کہ الیکشن میں نہ جیتنے والے امیدوار، جیتنے والے امیدوار کو مبارکباد پیش کریں اور اس سے محبت کا اظہار کریں، یہ بھی خدا کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ آپ اس کا موازنہ امریکیوں کے رویے سے کیجیے کہ جب ان میں سے ایک جیتا تھا تو دوسرا اس کے ساتھ کس طرح کا سلوک کر رہا تھا، اس کی باتیں، اس کے بیان وغیرہ تو آپ کو یاد ہی ہوں گے، کچھ مہینے پہلے ان کی کیا حالت تھی؟!