بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

آپ برادران عزیز کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ہفتۂ عدلیہ کی مناسبت سے اس اہم شعبے میں خدمت انجام دینے والے تمام سرگرم اور فعال افراد کی خدمت میں سلام و تہنیت پیش کرتا ہوں۔ آپ لوگوں کے لیے بھی اور ان ہزاروں لوگوں کے لیے بھی جو یہاں تشریف نہیں رکھتے، ہم خداوند عالم سے دعاگو ہیں اور انھیں سلام پیش کرتے ہیں، ان شاء اللہ آپ سب کی خدمات کو خداوند عالم قبول فرمائے۔

ملک و قوم پر شہید بہشتی کا بڑا احسان

ملک اور قوم پر ہمارے عظیم الشان شہید، شہید بہشتی کا ایک بڑا احسان ہے اور وہ ہے، اسلامی عدالتی نظام کی بنیاد رکھنا۔

یہ کام، آسان نہیں بہت دشوار کام تھا۔ انھوں نے عدلیہ کے لیے ایک نیا کام شروع کیا تھا جو دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا اور خدمات بھی انجام دے رہا تھا۔ اسی وقت کچھ شکایتیں آنے لگي تھیں اور میں نے خود ان سے پوچھا تھا کہ بتائیے تو آپ کیا کام کر رہے ہیں اور انھوں نے اپنے کاموں کی تشریح کی تھی۔ واقعی انھوں نے بہت بڑے بڑے کام شروع کیے تھے اور تدریجی طور پر ان میں سے بہت سے کام ثمر بخش اور نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔

شہید بہشتی کی شخصیت کی بعض خصوصیات

وہ ایک مفکر عالم دین تھے، صاحب نظر تھے، مرحوم بہشتی واقعی ایک نمایاں اور ممتاز ہستی تھے، انقلابی تھے، حقیقی انقلابی تھے، جدوجہد کرنے والے تھے، انقلاب کے بنیادی اصولوں پر گہرا یقین رکھتے تھے۔ اگرچہ کچھ لوگ بعض بزرگوں اور بڑے نام والوں کے حوالے سے کچھ باتیں نقل کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے جو میں عرض کر رہا ہوں کہ مرحوم شہید بہشتی حقیقی معنی میں انقلاب کے بنیادی اصولوں اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات پر مکمل یقین رکھنے والے اور متقی انسان تھے۔ مرحوم بہشتی ایک مومن اور شرع کے پابند انسان تھے۔ ان کے ساتھ میرا کافی اٹھنا بیٹھنا تھا۔ وہ بہت زیادہ شرع کے پابند تھے، بہت زیادہ متقی و پرہیزگار تھے، دین اور دینی مسائل کی راہ پر چلنے میں بہت زیادہ سنجیدہ تھے۔ ان سب کے علاوہ وہ آئين کی تدوین کے بنیادی ارکان میں سے ایک تھے، مطلب یہ کہ ان شاء اللہ ضرور اس عظیم ہستی کی منزلت کو پہچانا جائے اور ان کا احترام کیا جائے۔

مغرب والوں کی ڈھٹائی، منافقین کو پلیٹ فارم بھی اور انسانی حقوق کا دعوی بھی

منافقین نے آج ہی کی تاریخ میں یعنی سات تیر (اٹھائیس جون) کو ایرانی قوم کے خلاف ایک بڑا جرم کیا اور اس نمایاں، ممتاز اور عظیم ہستی کو تقریبا ستّر دیگر افراد کے ساتھ ملک سے چھین لیا اور وہی قاتل، وہ قاتل جنھوں نے خود اس جرم کا اور اس گھناؤنے کام کا اعتراف بھی کیا اور ان کے اعترافات موجود بھی ہیں، آج انسانی حقوق کے دعویدار انھی ملکوں میں، فرانس میں اور دیگر یورپی ملکوں میں پوری آزادی کے ساتھ گھوم رہے ہیں، زندگی گزار رہے ہیں اور یورپی حکومتوں، فرانس کی حکومت اور دیگر حکومتوں کو شرم بھی نہیں آتی کہ وہ ان قاتلوں کی موجودگی، ان کی حمایت اور انھیں اپنی پارلیمانوں میں پلیٹ فارم تک دینے کے باوجود انسانی حقوق کا دعوی کرتی ہیں، واقعی ان مغرب والوں کی ڈھٹائي بھی ایک عجیب ہی چیز ہے!

عدلیہ میں جہادی مہم، اسلامی جمہوریہ کے اداروں پر عوامی اعتماد کا سبب اور ایک بڑا سماجی سرمایہ

میں جناب رئيسی صاحب کے لیے خدا سے دعاگو ہوں، خدا ان کی خدمات کو قبول کرے۔ اب (ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد) عدلیہ میں تغیر و تبدیلی فطری چیز ہے۔ انھوں نے اس دو سال اور کچھ مہینے کے عرصے میں، جس میں انھوں نے عدلیہ کے سربراہ کی ذمہ داری نبھائي، واقعی بہت زیادہ محنت کی، کوشش کی اور عدلیہ میں اچھے کام ہوئے۔ عدلیہ میں رئیسی صاحب کی مہم، اسی چیز کا مصداق ہے، جسے ہم ہمیشہ دوہراتے رہتے ہیں (یعنی) "جہادی مہم"۔ جہادی مہم کا مطلب ہے سنجیدہ، چوبیس گھنٹے کی، بہت زیادہ کوشش والی اور قابل تقلید مہم۔ ان کی مہم اسی طرح کی تھی۔ بحمد اللہ اس کے نتائج بھی اچھے رہے اور اس مہم کا سب سے اہم اثر یہ تھا کہ اس نے لوگوں میں عدلیہ کے سلسلے میں امید بحال کر دی، زندہ کر دی، لوگوں کو عدلیہ کی طرف سے پرامید کر دیا۔ ہمیں مختلف اداروں کے سلسلے میں لوگوں کی شکایات ملتی رہتی ہیں، اس دو سال اور کچھ مہینے کے عرصے سے پہلے والے دور میں اور اس کے بعد والے دور میں لوگوں کی رائے میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اس نے عدلیہ کے سلسلے میں امید اور یقین میں اضافہ کر دیا، یہ ایک سماجی سرمایہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں فعال اور سرگرم اداروں پر عوام کا یہ اعتماد ایک بڑا سماجی سرمایہ ہے اور کسی بھی چیز سے اس کا موازنہ نہیں ہو سکتا۔ بحمد اللہ عدلیہ نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔

عدلیہ میں تغیر کا عمل جاری رہنے کی ضرورت

اب جب عدلیہ ایک نئي تبدیلی کے دہانے پر ہے تو میں کچھ نکات عرض کرنا چاہتا ہوں جن پر ان شاء اللہ عدلیہ توجہ دے گي۔ یہ وہی چیزیں ہیں جو موصوف (عدلیہ کے سربراہ) نے ابھی بیان کی ہیں اور میں نے یہاں نوٹ کی ہیں۔

پہلے مرحلے میں بات عدلیہ میں تبدیلی کے عمل کی ہے۔ البتہ حقیقی معنی میں تبدیلی ایک دو سال میں نہیں آتی لیکن عدلیہ میں اس کام کی شروعات اور اس طرح کا رخ اختیار کیا جانا بھی بہت اہم تھا۔ یہ چیز جاری رہنی چاہیے، اسے رکنا نہیں چاہیے بلکہ زیادہ شدت سے جاری رہنا چاہیے۔ تبدیلی کی ماہیت ہی یہی ہے کہ اگر کوئي کام شروع ہوا ہے اور ہم اسے انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اسے راستے میں نہ صرف یہ کہ رکنا نہیں چاہیے بلکہ مسلسل اسے قوت عطا کی جانی چاہیے، اس کی تقویت کی جانی چاہیے تاکہ وہ راستے کے آخر تک اور آخری منزل تک پہنچ سکے۔

عدلیہ میں تبدیلی کی دستاویز؛ ٹھوس اور نافذ العمل ہے، آئندہ بھی اسی کی بنیاد پر کام ہو

بہرحال یہ کام شروع ہوا۔ عدلیہ میں ایک دستاویز (2) تیار ہوئي۔ اس کے بعد اس دستاویز پر نظر ثانی ہوئي اور انھوں نے اس کا ایک اپ ڈیٹ شدہ دوسرا نسخہ پیش کیا، ہم نے دیکھا۔ اچھی اور ٹھوس دستاویز ہے۔ کبھی یہاں وہاں کچھ دستاویزات تیار کی جاتی ہیں جو دکھاوے کی ہوتی ہیں اور ان میں صرف بنیادی باتیں کہی جاتی ہیں۔ اس دستاویز میں ایسا نہیں ہے۔ یہ مضبوط اور اچھی دستاویز ہے۔ یہ مختلف طویل المیعاد کاموں کے لیے ہے۔ اس میں کام کی بنیادوں اور راستوں کو طے کر دیا گيا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دستاویز صحیح معنوں میں نافذ العمل ہے۔ دکھاوے کی نہیں ہے، نعرے بازی نہیں ہے۔ (تغیر کی) یہ دستاویز، اچھی دستاویز ہے اور اسی کو عمل کا معیار بنائيں۔ البتہ ممکن ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس دستاویز کو بھی اپ ڈیٹ کرنا ضروری ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آگے بڑھنے کے راستے کو لگاتار تبدیلی کا شکار بنا دیا جائے۔  راستہ واضح، سیدھا اور غیر متزلزل ہونا چاہیے۔

تغیر کی دستاویز پر عمل کی رکاوٹوں کو دور کرنے اور عدلیہ کے ارکان کو اس پر عمل کرنے کی ترغیب دلانے کی ضرورت

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس دستاویز سے سبھی کو مطلع کیا جائے۔ مجھ تک کچھ ایسی رپورٹیں بھی پہنچی ہیں کہ عدلیہ کے بعض مؤثر افراد، اس دستاویز کی تفصیلات سے بخوبی واقف نہیں ہیں۔ اس دستاویز کو سبھی کے علم میں لانا چاہیے تاکہ عدلیہ کے صاحب رائے افراد اسے دیکھیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ سبھی کو تغیر کی اس دستاویز کے مطابق اپنی ذمہ داری محسوس کرنا اور سمجھنا چاہیے اور دوسرے یہ کہ اگر ان کا اپنا کوئي خیال اور کوئي رائے ہو تو اسے اعلی عہدیداروں تک پہنچانا چاہئے۔ مختصر یہ کہ اس دستاویز سے لوگ لاعلم نہ رہیں۔

تغیر کی دستاویز کے نفاذ کے لیے قانونی خلاؤں کو دور کرنے کی ضرورت

اس دستاویز کے سلسلے میں ایک دوسری بات یہ ہے کہ میں نے سنا ہے کہ قانونی خلا موجود ہے یعنی اس دستاویز کے مکمل نفاذ کے لیے کچھ قوانین کی ضرورت ہے۔ یہ قوانین مہیا کیجیے اور آپ ہی مہیا کیجیے، ایسا نہ ہو کہ اسے پارلیمنٹ میں کسی بل کے لیے چھوڑ دیجیے۔ نہیں، قانون تیار کیجیے، جس قانون کی ضرورت ہے اسے تیار کیجیے اور اس خلا کو باقی نہ رہنے دیجیے۔ اس کے علاوہ عدلیہ کے ارکان کو اس دستاویز کے نفاذ کے لیے ترغیب دلائي جائے، آپ ترغیب کی مختلف انواع و اقسام کو تلاش کر سکتے ہیں۔ تو یہ عدلیہ میں تبدیلیوں اور تغیر کی دستاویز کے مکمل نفاذ کے سلسلے میں ایک نکتہ تھا۔

حقوق عامہ کا احیاء، عدلیہ کی اہم اور قانونی ذمہ داری

دوسرا نکتہ، حقوق عامہ کی بحالی کے معاملے میں عدلیہ کی مداخلت کا ہے جو زیادہ تر پیداوار اور پروڈکشن لائن سے اتر چکے کارخانوں وغیرہ کے معاملے میں دکھائي دیا۔ البتہ قدرتی ذخائر اور سرکاری زمینوں پر قبضے جیسے بعض دیگر مسائل میں بھی عدلیہ نے دخل دیا۔ یہ بہت ہی اچھا اور ضروری کام ہے۔ اگر کوئي یہ کہے کہ یہ عدلیہ کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہے تو یہ بات پوری طرح سے حق اور قانون کے خلاف ہے۔ حقوق عامہ کا احیاء عدلیہ کی اہم ذمہ داریوں میں ہے۔ اٹارنیوں کے کاموں کا حصہ ہے جس کا انھیں خیال رکھنا چاہیے، ہوشیار رہنا چاہیے اور عدلیہ کو اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ بڑا اہم کام ہے۔ البتہ صرف معاشی مسائل نہیں ہیں۔ صحت کا مسئلہ، تعلیم کا مسئلہ، ماحولیات کا مسئلہ اور اسی طرح کے بہت سے دیگر مسائل ہیں جن میں حقوق عامہ کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔

حقوق عامہ کے مصداق کے طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں کی حمایت

حقوق عامہ کا ایک معاملہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہے۔ البتہ افسوس کہ یہ واجب عمل، ہمارے معاشرے میں کما حقہ رائج نہیں ہے لیکن بہر حال ایسے افراد موجود ہیں جو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائيوں سے روکتے ہیں۔ ان لوگوں کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے، ان کی حمایت اور مدد کی جانی چاہیے۔ اسی کے ساتھ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام پر بلاوجہ ہنگامہ مچاتے ہیں اور ان کے کچھ دوسرے ہی اہداف ہیں۔ تو پھر نیکیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے والے حقیقی لوگوں اور دکھاوا کرنے والوں کے فرق کو پہچاننے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ یہ بھی تو عدلیہ کی ہی ذمہ داری ہے نا! جس کے بارے میں حقیقت میں آپ کو لگتا ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے، اس کے کام کو آگے بڑھائيے۔

حقوق عامہ کے مسئلے میں قانونی خلا کو دور کرنے اور مناسب قانون کی تدوین کی ضرورت

مجھے جو رپورٹ دی گئی ہے اس کے مطابق حقوق عامہ کے مسئلے میں بھی قانونی خلا موجود ہے۔ فرض کیجیے کہ کسی نے حقوق عامہ کو پامال کیا ہے تو اس کا حکم کیا ہے؟ اس کی سزا کیا ہے؟ یہ چیز قانون میں صحیح طریقے سے واضح نہیں ہے۔ اس لیے مختلف شہروں میں اور ملک کے مختلف علاقوں میں قانونی ادارے اپنے اپنے حساب سے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ کوئي کچھ کرتا ہے اور دوسرا کچھ کرتا ہے۔ اس کے لیے بھی قانون کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک بات ہے۔

عدلیہ میں بدعنوانی سے نمٹنے اور شریف ججوں اور عدلیہ کے عہدیداروں کی عزت محفوظ رکھنے کی اہمیت

ایک دوسری بات، عدلیہ کے اندر بدعنوانی سے مقابلے کی ہے۔ یہ کام عدلیہ میں شروع ہو چکا ہے اور بہت ہی اچھا کام ہے جو سب سے ضروری کاموں میں سے ایک ہے، عدلیہ کے سب سے ترجیحی اور سب سے ضروری کاموں میں سے ہے۔ البتہ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ کبھی کبھی عدلیہ کے اندر بدعنوانی کا مسئلہ کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور شریف، ایماندار اور مومن ججوں کی توہین بھی ہوتی ہے۔

یہ (کام) کسی بھی طرح سے صحیح نہیں ہے۔ پورے ملک میں شریف، محنتی، مومن، ایماندار اور عفو و درگزر سے کام لینے ججوں کی ایک بہت بڑی اکثریت بڑے مشکل کاموں کے ساتھ سخت زندگي گزار رہی ہے۔ ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ان افراد کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ عدلیہ کے مومن افراد کے ساتھ، جو یقینی طور پر اکثریت میں ہیں، ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن بدعنوان اور خراب افراد، چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو، اپنا اثر ڈال ہی دیتے ہیں۔ یعنی اگر مثال کے طور پر کسی ضلعے کی کسی عدالت میں اوسط درجے کا کوئي شخص غلط اور خلاف قانون کام کرے اور کسی کو پتہ چل جائے تو وہ ڈھنڈورا پیٹنے لگے تو یقینی طور پر یہ بات پھیلے گي کہ عدلیہ میں بدعنوانی ہے۔ ایک شخص بدعنوان ہے لیکن اس کی وجہ سے بدنامی پوری عدلیہ کی ہوتی ہے۔ اس لیے (آپ کے ادارے کو) پوری کڑائی سے اس مسئلے سے نمٹنا چاہیے۔ شریف اور مومن ججوں کی توہین نہیں ہونی چاہیے اور ان کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے لیکن، جن لوگوں سے نمٹا جانا چاہیے، ان سے حقیقی معنی میں نمٹا جانا چاہیے۔

ہمارے پاس لوگوں کی رپورٹیں بہت آتی ہیں یعنی ہر دن عوامی رپورٹوں کی ایک دو فائلیں مجھے دی جاتی ہیں اور میں ان میں سے زیادہ تر کو دیکھتا ہوں۔ کچھ شکایتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں ہم عدلیہ کو بھیج دیتے ہیں۔ کبھی یہ شکایت ہوتی ہے کہ مثال کے طور مالی بدعنوانی کے فلاں ملزم کے، فلاں شہر کی فلاں عدالت کے فلاں صاحب سے روابط ہیں، دونوں ملے ہوئے ہیں، کچھ رپورٹیں اس طرح کی ملتی ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ رپورٹ صحیح ہو اور ممکن ہے کہ غلط ہو لیکن اہم ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں میرے خیال میں جب اس طرح کی کوئي رپورٹ آتی ہے تو فوری طور پر نگراں ادارے کو متحرک کر دیجیے اور کسی کو بھیج کر جائزہ لیجیے، تحقیق کیجیے اور دیکھیے کہ معاملہ کیا ہے؟ یہ ان امور میں سے ہے جن کے بارے میں کسی بھی صورت میں حسن ظن سے کام نہیں لینا چاہیے کہ مثال کے طور "نہیں جناب! ہم فلاں صاحب کو جانتے ہیں، یہ بات صحیح نہیں ہے۔" جی نہیں! بالکل صحیح طریقے سے بھیجیے۔ اس طرح کی رپورٹیں ان چیزوں میں سے ہیں جنھیں غنیمت سمجھنا چاہیے۔ صحیح سے یاد نہیں ہے کہ رئيسی صاحب کی سربراہی کے دور میں یا ان سے پہلے کے دور میں بعض لوگوں کو متعین کر دیا گيا تھا اور وہ لوگ غیر محسوس اور خفیہ طریقے سے عدالتوں میں جایا کرتے تھے،  ضلعوں کی عدالتوں میں چکر لگاتے تھے، چیزوں کو قریب سے دیکھتے تھے، یہ بہت اچھا کام ہے۔ اس طرح کے لوگوں کو اکٹھا کیجیے اور انھیں یہ پتہ لگانے کے لیے بھیجیے کہ معاملہ کیا ہے؟ جو دعوی کیا گيا ہے، وہ حقیقت سے کتنا قریب ہے؟ آنکھوں دیکھی بات زیادہ اثر انداز ہوتی ہے، کاغذ سے بہت سی چیزوں کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ افسوس کہ اب لوگوں سے رابطے کی مجھے زیادہ توفیق حاصل نہیں ہے لیکن برسوں تک میں نے لوگوں سے قریبی رابطہ رکھا، میں دیکھتا تھا کہ بہت سی ایسی چیزوں کو ملاقاتوں میں، عوام کے درمیان موجودگي میں اور نشستوں وغیرہ میں انسان سمجھ لیتا ہے جنھیں وہ کاغذ، تحریر یا رپورٹ وغیرہ سے نہیں سمجھ پاتا۔

عوام اور سماج کے سرگرم گروہوں سے عدلیہ کے عہدیداروں کے رابطے کو قائم رکھنے کی ضرورت

اگلی بات اسی عوامی موجودگي کے بارے میں ہے، جس کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا۔ عدلیہ میں رئیسی صاحب کے کام کا ایک مضبوط پہلو، لوگوں کے درمیان جانا تھا۔ اسے ترک نہ کیا جائے۔ معاشرے کے سرگرم گروہوں، یونیورسٹی کے سرگرم افراد، دینی تعلیمی مراکز کے سرگرم افراد، معاشی شعبے کے فعال افراد، خواتین کے مسائل سے متعلق شعبوں کے سرگرم افراد، کہ کچھ لوگ اسی معاملے میں سرگرم ہیں، یا اقوام کے ساتھ رابطہ بہت اہم ہے۔ یہ چیز بڑی اہم ہے کہ عدلیہ کے عہدیدار خاص طور پر اس کے سربراہ، ان میدانوں میں سرگرم گروہوں سے رابطہ رکھیں۔ پروڈکشن کے میدان میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ اگر پیداوار کے مسائل میں سرگرم افراد سے، مزدوروں سے، مزدور رہنماؤں سے رابطہ نہ ہو اور انسان ان سے نہ سنے تو وہ سمجھ نہیں سکتا کہ معاملہ کیا ہے۔ ان سرگرم گروہوں سے رابطہ، عوامی موجودگی اور عوامی رابطے کا ہی ایک حصہ ہے جس پر ہمیں توجہ دینی چاہیے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ پہلے تو آپ براہ راست ان سے بات سن سکتے ہیں اور دوسرے یہ کہ انھیں سمجھا سکتے ہیں۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مختلف اداروں کی پالیسیاں ہوتی ہیں جن پر باہر والے اعتراض کرتے ہیں، ان کی کوئي دشمنی بھی نہیں ہوتی بلکہ وہ لاعلمی کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں، یعنی وہ اس فیصلے کی اصل وجہ یا اس فیصلے کی منطق کو نہیں جانتے اور چونکہ نہیں جانتے، اس لیے اعتراض کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے، انھیں بتائيے، سمجھائیے، کچھ چیزیں ہیں جن کی تشریح کی جانی چاہیے اور ان کے بارے میں بتایا جانا چاہیے۔ خیر تو یہ کچھ باتیں عدلیہ کے بارے میں تھیں۔ ان شاء اللہ عدلیہ میں ایک نیا دور شروع ہوگا اور ان شاء اللہ وہی طریقۂ کار جو رئیسی صاحب کے اس دو سال اور کچھ مہینے کے دور میں بہت اچھا رہا ہے، یہی پوری قوت سے جاری رہے گا اور مزید کامیابیاں حاصل ہوں گی اور زیادہ سرگرمیاں انجام دی جائیں گی۔

انتخابات کا کارنامہ بائيکاٹ کرنے والوں اور مخالفین کے منہ  پر طمانچہ

انتخابات کے سلسلے میں بھی ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ انتخابات واقعی کسی کارنامے سے کم نہیں ہیں۔ جو انتخابات ہوئے وہ واقعی عوام کا عظیم کارنامہ تھا جو ان کے ہاتھوں انجام پایا۔ کوششیں ہو رہی تھیں، بہت کچھ لکھا جا رہا تھا، خطوط تحریر کئے جا رہے تھے، سوشل میڈیا پر، اداروں میں خوب باتیں ہو رہی تھیں کہ انتخابات کی عظمت پر پردہ ڈال سکیں۔ مگر ان چیزوں کا کوئي اثر نہیں ہے۔ یہ عبث کوششیں ہیں۔ یہ بڑا عظیم کارنامہ تھا۔ جن تجزیہ نگاروں کی نگاہیں ان انتخابات پر تھیں انھیں بخوبی احساس ہے کہ یہ کیسا کارنامہ انجام پایا۔ دنیا میں کہاں یہ ہوتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ سارے مخالف تشہیراتی ادارے جو فعال اور موثر ہیں، عوام کو انتخابات میں شرکت سے دور رکھنے کے لئے، سب پوری محنت سے لگ جائیں؟ کہاں ایسا ہوتا ہے؟ آپ دنیا کے کس ملک میں دیکھتے ہیں کہ امریکہ کی ریڈیو نشریات، برطانیہ کی ریڈیو نشریات، بعض بنیاد پرست و رو سیاہ ممالک کی نشریات پوری شد و مد سے لگ جائیں، اسی طرح کچھ اور بھی عناصر، ایرانیوں کے اندر سے وہ غدار عناصر جو امریکہ اور برطانیہ کے سائے میں زںدگی گزار رہے ہیں اور انھیں کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں، ایک لمبے عرصے سے ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات میں، سیٹیلائٹ چینلوں پر، خاص طور پر سوشل میڈیا میں ایک دو نہیں سیکڑوں بلکہ ہزاروں چینل اس مقصد کے لئے کام کریں کہ عوام انتخابات سے دور ہو جائیں؟! انھیں بہانہ بھی مل گيا تھا۔ عوام کی معاشی مشکلات کا بہانہ مل گیا تھا۔ اس سے انھیں بڑی امید ہو چلی تھی۔ بعد میں بھی کچھ باتیں ہوئیں جیسے امیدواروں کی اہلیت کی توثیق یا عدم توثیق کا معاملہ تھا، ان چیزوں سے انھیں بہانے مل گئے تھے۔

ممکن ہے کہ شورائے نگہبان (آئین کی نگراں کونسل) کے بعض فیصلوں سے مجھے اتفاق نہ ہو لیکن شورائے نگہبان اپنے دینی فرائض پر عمل کرتی ہے، قانون کے مطابق عمل کرتی ہے۔ یہ دیندار و پرہیزگار افراد ہیں، دینی فرائض کے پابند ہیں، دینی فرائض پر عمل کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ میں کسی ایک معاملے میں، دو معاملات میں، بعض معاملات میں اس کے فیصلوں سے اتفاق نہ کروں لیکن یہ میرا اعتقاد ہے کہ ان کی روش یہی ہے۔ اسی چیز کو انھوں نے بہانہ بنا لیا۔ ایک بہانہ یہ تھا، ایک بہانہ معاشی مسائل تھے۔ وہ سینہ کوبی کرنے لگے کہ عوام کو پولنگ سے دور کر دیں۔ انھیں بڑی امید تھی کہ انتخابات میں عوام کی شرکت بیس فیصد یا پچیس فیصد تک محدود رہے گی۔ یہ بات انھوں نے زبان سے کہی بھی، بیان کیا۔ ایسی صورت حال میں بھی عوام اس انداز سے شرکت کرتے ہیں۔ کورونا کی وبا کے باوجود، ماہرین کا تخمینہ ہے کہ کم از کم دس فیصدی لوگ کورونا کی وجہ سے ووٹ ڈالنے نہیں نکلے۔ اگر اس کا بھی حساب کیا جائے تو ٹرن آوٹ تقریبا 60 فیصدی رہا جو بہت اچھا ٹرن آؤٹ ہے۔ ان حالات میں بھی عوام نکلتے ہیں، میدان میں آتے ہیں، سویرے سے ہی صفوں میں لگ جاتے ہیں، ووٹ دیتے ہیں، ان کے پرجوش بیان ٹی وی پر نشر ہوتے ہیں اور ہر کوئي دیکھتا ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والوں اور مخالفین کے منہ پر عوام کا طمانچہ ہے۔ عوام ثابت قدمی سے کھڑے ہو گئے۔ یہ واقعی کارنامہ ہے۔ یہ واقعا عظیم عوامی مہم ہے۔ جن لوگوں نے اس مدت میں عوام کو پولنگ سے دور رکھنے کی کوشش کی اس الیکشن میں سب سے بڑی ہزیمت انھیں کی ہوئی۔ کوئی الیکشن کے فاتح اور شکست خوردہ افراد کی تلاش میں نہ رہے۔ انتخابات کے فاتح وہ سارے لوگ ہیں جنہوں نے انتخابات کے شاندار اور پرجوش انعقاد میں رول ادا کیا۔ امیدوار حضرات انتخابات کے فاتحین میں ہیں۔ جو الیکشن نہیں جیتے وہ بھی فاتح ہیں کیونکہ انھوں نے بھی پولنگ میں عوام کی دلچسپی بڑھانے میں مدد کی۔ اصلی فاتح تو ملت ایران ہے اور اصلی ہزیمت ان لوگوں کی ہوئی جو اس مدت میں یہ کوشش کر رہے تھے کہ عوام الناس ووٹنگ میں شرکت نہ کریں۔ انھیں عوام نے پوری طرح مسترد کر دیا، انتخابات کے نتائج کے بارے میں ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ عوام کی یہ شرکت بڑی قدر و قیمت رکھتی ہے۔ لہذا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ عوام کی بھرپور شرکت کے کارنامے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔

مسترد ووٹوں کے بارے میں غلط تجزیہ

بعض نے مسترد ووٹوں کو بنیاد بناکر کہنا شروع کر دیا ہے کہ جناب! مسترد ووٹوں کی تعداد زیادہ ہے۔ تو کیا ہو گیا؟ مسترد ووٹ کس بات کی علامت ہے؟ مسترد ووٹ ان افراد کی نظام سے روگردانی کی علامت ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ بالکل برعکس ہے۔ جو شخص پولنگ کے مرکز پر جاکر ووٹ ڈالتا ہے۔ جس نے ووٹنگ کو ترک نہیں کیا بلکہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر رہا ہے، اس کی سوچ یہ ہے کہ میرا  پسندیدہ امیدوار اس لسٹ میں نہیں ہے۔ اب اسے کیا کرنا چاہئے؟ وہ ناراض ہوکر یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ جب میرا پسندیدہ امیدوار لسٹ میں نہیں ہے تو میں ووٹ ہی نہیں ڈالوں گا۔ یہ کہہ کر وہ چلا جائے گا۔ لیکن اگر اس نے ووٹنگ سے خود کو الگ نہیں کیا، گیا نہیں، بلکہ اپنا ووٹ ڈالا اور اسی امیدوار کا نام لکھا جو اسے پسند ہے، یا کسی کا نام لکھے بغیر ووٹ ڈال دیا تو ظاہر ہے کہ اس شخص کو ووٹنگ سے دلچسپی ہے، ظاہر ہے کہ اس نے ووٹنگ سے کنارہ کشی نہیں کی ہے، اسے اسلامی نظام سے لگاؤ ہے۔ بعض لوگ بلا وجہ ان چیزوں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں، غلط تجزئے پیش کرتے ہیں۔ بہرحال الحمد للہ انتخابات انجام پائے۔ امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ یہ انتخابات با برکت ہوں۔ انتخابات کے دوران کچھ چیزیں دیکھنے میں آئیں انھیں تجربے کے طور پر یاد رکھنا چاہئے، ان سے عبرت لینا چاہئے اور بعد میں ملت ایران ان عبرتوں سے استفادہ کرے۔

انتخابات کے امیدواروں کی رائے: ملک کے اقتصادی مسائل کا حل موجود ہے

انتخاباتی مناظروں میں الگ الگ نظریات نظر آئے، ظاہر ہوئے۔ لیکن سارے محترم امیدوار اس بات پر متفق نظر آئے کہ ملک کے اقتصادی مسائل کا حل موجود ہے۔ دشمن جو اعلان کرنا چاہتا ہے کہ کوئی راہ حل باقی نہیں بچی، اس کے بالکل برخلاف۔ سب متفق نظر آئے کہ راہ حل موجود ہے۔ البتہ ایک امیدوار کہتا تھا کہ میرے مد نطر راہ حل درست ہے اور دوسرے کا کہنا تھا کہ جو راہ حل میرے پیش نظر ہے وہ درست ہے۔ تاہم سب نے اس کا انکار کیا کہ ڈیڈ اینڈ کی کیفیت ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔

مناظروں میں اخلاقیات و آداب کی پاسداری اور انقلاب کے اصولوں کا دفاع

البتہ مناظروں میں بعض نے انقلاب کے اصولوں کا دفاع کرتے ہوئے اور ادب و شرعی اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی باتیں کہیں، بعض نے بد اخلاقی کی جو افسوسناک ہے، ایسی بد اخلاقی نہیں ہونا چاہئے۔ سیاسی مسائل اور انتخابات وغیرہ میں ہمارا طرز عمل اور روش امریکیوں کی تقلید پر مبنی نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں ٹرمپ اور بائیڈن کی تقلید نہیں کرنا چاہئے جنہوں نے انتخابی مناظروں میں ایک دوسرے کو گالیاں دیں، ایک دوسرے کی بے عزتی کی، یہ اچھے نمونے نہیں ہیں، انھیں نہیں دیکھنا چاہئے۔ ادب کے ساتھ، اخلاقیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور شرعی اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیش آنا چاہئے۔ امیدوار اپنی باتیں کہیں لیکن توہین اور تہمت سے پرہیز کریں، اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر بات کریں۔ یہی طریقہ ہے۔

دشمنوں اور ایران کے انتخابات پر سوالیہ نشان لگانے والے مخالفین کے یہاں شرمناک انتخابات

ایران کے دشمنوں جیسے امریکہ کے انتخابات ساری دنیا کی نگاہ میں شرمناک انتخابات تھے۔ یعنی واقعی انہوں نے بے شرمی کی حد کر دی۔ شرمناک حرکتیں کرنے والے اب ہمارے انتخابات میں کیڑے نکال رہے ہیں! ایک امریکی شخص ایران کے انتخابات کے بارے میں رائے زنی کرتا ہے، اس شرمناک صورت حال کے باوجود جو انہوں نے پیدا کی۔ اس کے چند مہینے بعد ان کے منہ میں زبان آ گئی اور بیان بازی کرنے لگے۔ ایسے حالات اور اس شرمناک صورت حال کے بعد تو انھیں انتخابات کے بارے میں ایک لفظ بھی کہنے کا حق نہیں ہے۔

عہدیداران اور امیدواروں کا منتخب صدر سے وابستگی اور قلبی لگاؤ کا اظہار نعمت خداوندی

ایک بات اور بھی ہے جس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ بحمد اللہ انتخابات کے بعد اور عوام کے پسندیدہ امیدوار کی واضح اکثریت اور زیادہ ووٹوں سے فتح کے بعد ملک کے بعض عہدیداران کا رد عمل بہت اچھا تھا۔ یہ ملک کے اندر لازمی سکون و طمانیت کی علامت ہے۔ ملک کے صف اول کے عہدیداران جاکر منتخب صدر سے ملاقات کرتے ہیں، ملتے ہیں، بات کرتے ہیں، اظہار خیال کرتے ہیں، تبادلہ خیال کرتے ہیں، یہ بہت اچھی چیز ہے۔ جو امیدوار الیکشن نہیں جیت سکے وہ منتخب امیدوار کو مبارکباد دیتے ہیں اور اس سے اپنے قلبی لگاؤ کی بات کرتے ہیں تو یہ بہت اچھا عمل ہے۔ یہ بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ خداوند عالم اس رجحان کو ہمارے ملک میں بڑھائے۔ اب ذرا اس کا موازنہ امریکیوں کے روئے سے کیجئے جب ان کا ایک امیدوار جیت گیا تھا تو دوسرے امیدوار نے اس سے کیا برتاؤ کیا تھا؟ ! اس کی باتیں اور بیان تو آپ کو یاد ہوں گے کہ چند مہینہ قبل کیا صورت حال تھی۔

امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ خداوند متعال انتخابات کے نتیجے کو با برکت بنائے۔ اس عہدے کے لئے جناب رئیسی کے انتخاب کو خود جناب عالی کے لئے بھی، ملت ایران کے لئے بھی اور ملک کے لئے بھی با برکت قرار دے اور اللہ تعالی عوام کے اس اقدام کے نتائج کو برکتوں کے ساتھ عوام کے دامن میں ڈالے اور مدد کرے کہ ان شاء اللہ جناب عالی اور دیگر عہدیداران وہ اہم کام جو ان کے دوش پر ہیں عوام کے تعاون سے انجام دیں۔

والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 (1) اس ملاقات کی ابتدا میں عدلیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام سید ابراہیم رئيسی نے عدلیہ میں انجام پانے والے کاموں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) عدلیہ میں تغیر کی دستاویز؛ جسے عدلیہ کے سربراہ نے اس عہدے پر اپنا کام شروع کرتے وقت رہبر انقلاب اسلامی کو اپنی بنیادی حکمت عملی کے طور پر پیش کیا تھا۔