رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای: آپ سید الشہدا علیہ السلام کی دعائے عرفہ کے مندرجات کو شعری پیرائے میں پرو سکتے ہیں۔ امام حسین کی دعائے عرفہ عاشقانہ کلام ہے۔

امام زین العابدین علیہ السلام سے بھی یوم عرفہ کی دعا منقول ہے۔ صحیفہ سجادیہ میں سینتالیسویں دعا دعائے عرفہ ہے۔ وہ بھی بڑے عمیق مفاہیم و مشمولات کی حامل دعا ہے لیکن امام حسین علیہ السلام کی دعا کا انداز والہانہ و عاشقانہ ہے، یہ الگ ہی چیز ہے۔

اگر آپ اس سے پوری طرح آشنا ہوں، اس کی گہرائی میں اتریں، اس پر غور و خوض کریں تو اس دعا کے ایک ایک فقرے سے پورا ایک قصیدہ، ایک نظم، ایک قطعہ، ایک خوبصورت غزل کہہ سکتے ہیں۔

15 جون 2011

 

یوم عرفہ اعتراف کا دن ہے

عرفہ کی اہمیت کو سجمھیں۔ میں نے ایک روایت میں دیکھا ہے کہ عرفہ اور عرفات کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ دن اور یہ جگہ ایسی ہے جہاں پروردگار کے حضور اپنے گناہوں کے اعترا ف کا موقع ملتا ہے۔ اسلام بندوں کے سامنے گناہ کے اعتراف کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اس نے جو گناہ کیا ہے، اس کو زبان پر لائے اور کسی کے سامنے اس کا اعتراف کرے۔ لیکن ہمیں چاہئے کہ  خدا کے حضور ، اپنے اور خدا کے درمیان، خدا سے تنہائی میں اپنی خطاؤں، اپنے قصور، اپنی تقصیروں اور اپنے گناہوں کا جو ہماری روسیاہی، بال و پر کٹ جانے اور پرواز میں رکاوٹ آ جانے کا مستوجب ہیں، اعتراف کریں اور توبہ کریں۔

امام خامنہ ای

28 مئی 1994

 

آج اگر امت اسلامیہ کے تمام افراد یہ قبول کریں...

جو لوگ خود کو تمام عیوب اور خطاؤں سے مبرا سمجھتے ہیں ان کی اصلاح کبھی نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی قوم اگر چاہتی ہے کہ خدا کے سیدھے راستے پر ثابت قدم رہے تو اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس سے غلطی کہاں ہوئی ہے؟ اس کی خطا کیا ہے؟ اور اسے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہئے۔ آج اگر امت اسلامیہ کے تمام افراد یہ قبول کریں کہ اسلام کے سلسلے میں انہوں نے کوتاہی کی ہے، اگر مسلمین عالم اس بات کو قبول کریں اور اعتراف کریں کہ طاقتوں کی پیروی میں غلط راستے پر چلے ہیں اور مغرب کی فاسد اور پر فریب  تہذیب قبول کرکے ان سے غلطی ہوئی ہے، تو انہیں دوبارہ راستہ مل جائے گا اور وہ اپنی اصلاح کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ عالمی تشہیرات کی کوشش ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہی نہ ہو سکے کہ طریقہ اور راستہ کیا ہے۔

امام خامنہ ای

28 مئی 1994